aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
’’مرا نہیں۔۔۔ دیکھو ابھی جان باقی ہے۔‘‘ ’’رہنے دو یار۔۔۔ میں تھک گیا ہوں۔‘‘
دو دوستوں نے مل کر، دس بیس لڑکیوں میں سے ایک لڑکی چنی اور بیالیس روپے دے کر اسے خرید لیا۔ رات گزار کر ایک دوست نے اس لڑکی سے پوچھا، ’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘ لڑکی نے اپنا نام بتایا تو وہ بھنا گیا، ’’ہم سے تو کہا گیا تھا کہ تم دوسرے مذہب کی ہو۔‘‘ لڑکی
’’کون ہو تم؟‘‘ ’’تم کون ہو؟‘‘ ’’ہر ہرمہادیو۔۔۔ ہر ہرمہادیو۔‘‘ ’’ہرہرمہادیو۔‘‘ ’’ثبوت کیا ہے؟‘‘ ’’ثبوت۔۔۔میرا نام دھرم چند ہے۔‘‘ ’’یہ کوئی ثبوت نہیں۔‘‘ ْ’’چارویدوں سے کوئی بھی بات مجھ سے پوچھ لو۔‘‘ ’’ہم ویدوں کو نہیں جانتے۔۔۔
لبلبی دبی۔۔۔ پستول سے جھنجھلا کر گولی باہر نکلی۔ کھڑکی میں سے باہر جھانکنے والا آدمی اسی جگہ دوہرا ہوگیا۔ لبلبی تھوڑی دیر کے بعد پھر دبی۔۔۔ دوسری گولی بھنبھناتی ہوئی باہر نکلی۔ سڑک پر ماشکی کی مشک پھٹی۔ اوندھے منہ گرا اور اس کا لہو مشک کے
صبح چھ بجے پٹرول پمپ کے پاس، ہاتھ گاڑی میں برف بیچنے والے کے چھرا گھونپا گیا۔۔۔ سات بجے تک اس کی لاش لک بچھی سڑک پر پڑی رہی اور اس پر برف پانی بن بن گرتی رہی۔ سوا سات بجے پولیس لاش اٹھا کر لے گئی۔ برف اور خون وہیں سڑک پر پڑے رہے۔ ایک تانگہ پاس سے
بڑی مشکل سے میاں بیوی گھر کا تھوڑا اثاثہ بچانے میں کامیاب ہوئے ۔ جوان لڑکی تھی، اس کا پتا نہ چلا۔ چھوٹی سی بچی تھی، اس کو ماں نے اپنے سینے کے ساتھ چمٹائے رکھا۔ ایک بھوری بھینس تھی اس کو بلوائی ہانک کر لے گئے۔ گائے بچ گئی مگر اس کا بچھڑا نہ ملا۔ میاں
چھری پیٹ چاک کرتی ہوئی ناف کے نیچےتک چلی گئی۔ ازاربندکٹ گیا۔ چھری مارنے والے کے منہ سے دفعتاً کلمۂ تاسف نکلا۔ ’’چ چ چ چ۔۔۔ مِشٹیک ہو گیا۔‘‘
’’دیکھو یار، تم نے بلیک مارکیٹ کے دام بھی لیے اور ایسا ردی پٹرول دیا کہ ایک دکان بھی نہ جلی۔‘‘
’’میں نے اس کی شہ رگ پر چھری رکھی۔ ہولے ہولے پھیری اور اس کو حلال کردیا۔‘‘ ’’یہ تم نے کیا کیا؟‘‘ ’’کیوں؟‘‘ ’’اس کو حلال کیوں کیا؟‘‘ ’’مزا آتا ہے اس طرح۔‘‘ ’’مزا آتا ہے کے بچے، تجھے جھٹکا کرنا چاہیے تھا۔۔۔ اس طرح۔‘‘ اور حلال کرنے والے
چالیس پچاس لٹھ بند آدمیوں کا ایک گروہ لوٹ مار کے لیے ایک مکان کی طرف بڑھ رہا تھا۔دفعتا اس بھیڑ کوچیر کر ایک دبلا پتلا ادھیڑ عمر کا آدمی باہر نکلا۔ پلٹ کراس نے بلوائیوں کو لیڈرانہ انداز میں مخاطب کیا، ’’بھائیو، اس مکان میں بے اندازہ دولت ہے۔ بےشمار
’الف‘ اپنے دوست ’ب‘ کو اپنا ہم مذہب ظاہر کرکے اسے محفوظ مقام پر پہنچانے کے لیے ملٹری کے ایک دستے کے ساتھ روانہ ہوا۔ راستے میں ’ب‘ نے جس کا مذہب مصلحتاً بدل دیا گیا تھا، ملٹری والوں سے پوچھا، ’’کیوں جناب آس پاس کوئی واردات تو نہیں ہوئی؟‘‘ جواب
آگ لگی تو سارا محلہ جل گیا۔۔۔ صرف ایک دکان بچ گئی جس کی پیشانی پر یہ بورڈ آویزاں تھا: ’’یہاں عمارت سازی کا جملہ سامان ملتا ہے۔‘‘
اس کی خود کشی پر اس کے ایک دوست نے کہا، ’’بہت ہی بے وقوف تھا جی۔ میں نے لاکھ سمجھایا کہ دیکھواگر تمہارے کیس کاٹ دیے ہیں اور تمہاری داڑھی مونڈدی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ تمہارا دھرم ختم ہوگیا ہے۔۔۔ روز دہی استعمال کرو۔ واہ گورو جی نے چاہا تو ایک
دس راؤنڈ چلانے اور تین آدمیوں کو زخمی کرنے کے بعد پٹھان بھی آخر سرخ رو ہو ہی گیا۔ ایک افراتفری مچی تھی۔ لوگ ایک دوسرے پر گر رہے تھے۔ چھینا جھپٹی ہورہی تھی۔ مار دھاڑ بھی جاری تھی۔ پٹھان اپنی بندوق لیے گھسا اور تقریباً ایک گھنٹہ کشتی لڑنے کے بعد تھرموس
’’بلوائی مالک مکان کو بڑی مشکلوں سے گھسیٹ کر باہر لے آئے۔ کپڑےجھاڑ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور بلوائیوں سے کہنے لگا، ’’تم مجھے مار ڈالو لیکن خبردار جو میرے روپے پیسے کو ہاتھ لگایا۔‘‘
’’میری آنکھوں کے سامنے میری جوان بیٹی کو نہ مارو۔‘‘ ’’چلو اسی کی مان لو۔۔۔ کپڑے اتار کر ہانک دو ایک طرف۔‘‘
’’پکڑ لو۔۔۔ پکڑ لو۔۔۔ دیکھو جانے نہ پائے۔‘‘ شکار تھوڑی سی دوڑ دھوپ کے بعد پکڑ لیا گیا۔ جب نیزے اس کے آر پار ہونے کے لیے آگے بڑھے تو اس نے لرزاں آواز میں گڑگڑا کر کہا، ’’مجھے نہ مارو۔۔۔ مجھےنہ مارو۔۔۔ میں تعطیلوں میں اپنے گھر جا رہا ہوں۔‘‘
Sign up and enjoy FREE unlimited access to a whole Universe of Urdu Poetry, Language Learning, Sufi Mysticism, Rare Texts
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books