Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اسد اللہ خاں تمام ہوا

حمید احمد خاں

اسد اللہ خاں تمام ہوا

حمید احمد خاں

MORE BYحمید احمد خاں

     

    غالب کی زندگی اپنے آغاز و انجام اور درمیانی واقعات کی ترتیب و ارتقاء کے لحاظ سے ایک ڈرامائی کیفیت رکھتی ہے۔ دنیائے شعر میں تو مرزاغالب خلاق معانی اور فن کار تھے ہی، لیکن ان کی شخصی زندگی کے مرقع کو بھی رنگ اور روشنی اور سائے کی آمیزش نے ایک مستقل فنی کارنامہ بنادیا ہے۔ غالب کی زندگی کا پورا ڈراما، تخیل کی ذرا سی کوشش سے، ہم پر خودبخود منکشف ہوجاتا ہے۔ یہ ڈراما سلطنتوں کے ہبوط و زوال، عظیم الشان اخلاقی و دینی قوتوں کی پیکار، اورمشرق و مغرب کی فیصلہ کن آویزش کے پس منظر پر نمودار ہوتا ہے۔ غالب کے سوانح حیات کا قاری صرف یہ کرتا ہے کہ نصف صدی کے واقعات کے پھیلاؤ کو سمیٹ کر اپنے فنی شعور کے دائرے کے اندر لے آتا ہے۔ اور پھر یہ حیرت انگریز ڈراما خودبخود حرکت کرنے لگتا ہے۔ 

    مرزا غالب نے اکہتر برس کی عمر پائی۔ ان کا زمانۂ حیات مسلمانان ہند کے سیاسی زوال کا زمانہ تھا۔ جنوب سے مرہٹوں، مغرب سے سکھوں، مشرق سے انگریزوں نے مغلوں کی سیاسی طاقت پر پے درپے حملے کیے لیکن مسلمانوں کی تہذیب و تمدن کا ایک ننھا سا نقطہ پھر بھی ہندوستان کے قلب میں روشن رہا۔ اس روشن نقطے کا نام تھا۔۔۔ دلی۔ انیسویں صدی کی دلی میں اہل کمال کا ایک ایسا مجمع نظر آتا ہے جس سے اکبری اور شاہجہانی عہد کے علم و فضل کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ اہل کمال کی اس جماعت پر نظر ڈالیے تو بزرگوں میں شاہ عبدالعزیز اور شاہ اسمٰعیل، مولانا فضل حق خیرآبادی اور مفتی صدرالدین خاں آزردہ، نواب مصطفے ٰ خاں شیفتہ اور مولوی امام بخش صہبائی، شیخ محمد ابراہیم ذوق اور حکیم مومن خاں مومن اور نوجوانوں میں سید احمد خاں اور حالی، ذکاء اللہ اورنذیر احمد کے پائے کے لوگ دکھائی دیتے ہیں۔ اسی دلی میں ۱۸۳۰ء کے موسم گرما کا ذکر ہے کہ ایک دن سہ پہر کے وقت مرزا اسداللہ خاں غالب کے مکان کے باہر۔۔۔


    ایک خوش الحان فقیر، کنکر چن چن محل بنایا مورکھ کہے گھر میرا ہے۔ 

    نا گھر میرا، نا گھر تیرا، چڑیا رین بسیرا ہے 

    نا گھر میرا، نا گھر تیرا۔۔۔ 

    (آواز دور ہوتی جاتی ہے)

    (گھر کے اندر بیگم غالب تخت پر بیٹھی ہیں۔ صحن میں بیری کے درخت سے طوطے کا پنجرا ٹنگا ہے)

    بیگم غالب، دوا! اے دوا! ذرا اٹھیو جلدی سے۔ لیجیو۔ یہ ادھنا دروازے تک جاکر بچارے کو دے آئیو۔ (دواجاتی ہے)

    (ایک آہ سرد کے ساتھ تاسف آمیز لہجے میں آہستہ) چڑیا رین بسیرا! چڑیا کے بھاگ پھراچھے کہ اپنے گھونسلے میں تو بیٹھی ہے۔ اورمیں! نواب الہی بخش خاں کی بیٹی۔۔۔! غریب کے سر پر بھی اپنا جھونپڑاہوتا ہے، لیکن میرے لیے دلی میں کرائے کے مکانوں کے سوا، اب کوئی ٹھکانا نہیں رہا۔ ابا جان نے آنکھیں کیا بند کیں، میرے نصیب سوگئے۔ چار سال سے چولہا اٹھائے گھر گھر پھرتی ہوں۔ اب برسوں کے رکھے ہوئے، زربفت اور کمخواب کے جوڑے بھی ایک ایک کرکے بکنے لگے۔ کلکتے کا سفر مجھے تو بہت مہنگا پڑا۔ کیا کیا امیدیں لے کر مرزا صاحب روانہ ہوئے تھے اور پھر کس حال میں واپس ہوئے، اب چھ مہینے بعد بھی کوئی ایک نیک خبر کلکتے سے نہیں آئی (ذرا بلند آواز سے) دوا! مدارخاں سے کہیو مرزا صاحب سے پوچھے کہ ٹھنڈا پانی دیوان خانے میں پئیں گے یا۔۔۔ کیا کہا۔۔۔؟ آرہے ہیں تو بس ٹھیک ہے۔۔۔ 
    (طوطا بولتا ہے)

    لو اب میاں مٹھو کو تھوڑی سی چوری دے دو۔ 
    (مرزا غالب آتے ہیں)

    غالب، چڑیا رین بسیرا۔ آپ نے بھی یہ وعظ سنا؟ لیکن زندگی کتنی ہی بے ثبات ہو، اس کا یہ مرتبہ تو دیکھیے کہ اس پر وعظ کہنے کی ضرورت ہوتی ہے (طوطا پھر بولتا ہے) کہو میاں مٹھو! اب کیا فریاد ہے؟ آج چوری نہیں ملی؟ ارے میاں خوش رہو۔ نہ تمہارے بچے نہ جورو، چوری کھاؤ اور مزے کرو۔ یہی زندگی ہے۔ 

     

    بیگم، ان باتوں سے کیا فائدہ؟ دیکھنا یہ ہے کہ ہماری اپنی زندگی کیسی ہے؟ 

    غالب، اچھی۔۔۔ اور بری۔۔۔ اور اچھی! 

    بیگم، اب یہ پہیلیاں بھلاکون بوجھے۔ 

    غالب، بات تو صاف کہتاہوں۔ سب سے پہلے اچھی اس لیے کہہ رہا ہوں کہ شروع میں برسوں تک زندگی خوب گزری۔ پھر بری اس لیے کہا کہ چار پانچ برس سے ہم لوگ چکر میں ہیں۔ اور پھر دوبارہ اچھی اس لیے کہ مقدمے کافیصلہ ہوتے ہی سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ 

     

    بیگم، میں تو پانچ سال سے انہیں امیدوں پر جی رہی ہوں! 

    غالب، تو مایوس ہونے کی کوئی وجہ بھی ہو؟ سرکارانگریزی نے پچیس برس پہلے ہم دونوں بھائیوں کے لیے دس ہزار سالانہ کی جاگیر مقرر کی۔ شمس الدین خاں نواب ہیں تو فیروز پور جھروکہ کے ہیں، میرے سرکاری وظیفہ کے نواب نہیں ہیں۔ نہ اس میں تصرف کرنے کے مجاز ہیں۔ ہمارے اس دس ہزار کو پندہ سو کون بناسکتا ہے؟ سرکاری شقے کسی کی جعل سازی سے بدل نہیں جاتے۔ یہ رقم مل کر رہے گی، بلکہ اگر انصاف ہوا تو اب تک جس قدر کم رقم ملتی رہی ہے۔ اس کی واصلات ابتدا سے آج تک دلوائی جائے گی۔ 

    بیگم، (زہرخند سے) انصاف! میں نے صرف اس کا نام سنا ہے۔ انصاف کرنے والے حاکم بدلتے ہیں، معزول ہوتے ہیں، مرتے ہیں، مگر انصاف نہیں ہوتا۔ 

    غالب، انصاف ہوگا! 

    بیگم، نہیں ہوگا! ایسے انصاف کو میں کیا کروں جس کے انتظار میں ایک بھائی پاگل ہوگیا اور دوسرا۔۔۔ 

    غالب، اور دوسرا؟

    بیگم، اور دوسرا مٹ گیا۔ چکی کے دو پاٹوں تلے پس کر رہ گیا۔ 

    غالب، میرا پس جانا کچھ ایسا آسان نہیں ہے۔ چکی کے پاٹ البتہ گھس گئے ہیں۔ ابھی اور گھسیں گے۔ 

    (باہر کے دروازے پر دستک۔ مدار خاں ملازم آتا ہے)

    مدارخاں، سرکار! مولانا فضل حق صاحب کا آدمی یہ رقعہ چھوڑ گیا ہے۔ 

    غالب، مولانا کو آج خود یہاں آنا تھا۔۔۔ خیر، لاؤ۔ (رقعہ کھولتے ہوئے۔) اچھا! کروڑی مل مہاجن کو میرے خلاف ڈگری مل گئی۔ ہوں! کروڑی مل بھی کیا کرے کلکتے جانے سے پہلے اس سے قرضہ لیا تھا۔ اب کروڑی مل اور دیوانی عدالت کا پیادہ میری تلاش میں منڈلا رہے ہیں۔ 

    بیگم، اب کیا ہوگا؟

    غالب، ہوگا کیا، گھر میں بیٹھوں گا (طوطا بولتا ہے) میاں مٹھو سے باتیں کروں گا۔ آپ کی نماز میں حارج ہوں گا۔ دستور کے مطابق شرفا کو دیوانی عدالت کے ڈگری دار گھر کے اندر تو گرفتار کر نہیں سکتے، اور دن کے وقت میں باہر نکلنے سے رہا۔ (ذرا ہنس کر) دونوں وقت ملتے جب چراغ میں بتی پڑتی ہے، میں بھی چمگادڑوں کے ساتھ تھوڑی دیر کے لیے نکلا کروں گا، اور باہر کا کام دھندا کر آیا کروں گا۔ مدارخاں! دیکھو سرس کی گلی جاؤ۔ جو چھینٹ آج میں نے فرغل کے لیے خریدی تھی وہ عزیز النساء خانم میری بھتیجی کو دے آؤ۔ (بیگم سے ذرا دھیمے لہجے میں) وہ بچی نئے کپڑے کو ترس گئی ہے۔۔۔ اور دیکھو یوسف بیگ خاں کا حال پوچھنا اور کہہ آنا کہ میں آج حکیم صاحب کو نہیں لاؤں گا۔ ہاں کل مغرب کے بعد انہیں ساتھ لیے آؤں گا۔ (مدارخاں جاتا ہے) بچارا یوسف! ہمارے لڑکپن میں لوگ کہا کرتے تھے کہ دونوں بھائیوں میں وہی کماؤ ہوگا۔ کیا بدن تھا، جیسے لوہے کی لاٹھ! اور جب حیدرآباد سے اپنے رسالے کو چھوڑ کر آیا تو دیکھ کر دل کانپ جاتا تھا۔۔۔ مجذوب، مخبوط، ٹوٹی ہوئی کمان کی طرح بے حال! اگر اس کا حال ٹھیک ہوتا تو میں اس مقدمے کے لیے شاید اسی کو کلکتے بھیجتا۔ 

    بیگم، اُف! کلکتے کا نام سن کر میرے سینے میں ایک تیر لگتا ہے۔ اس کلکتے کی امید نے ہمیں ویران کردیا۔ ورنہ لکھنؤ کے دربار سے کچھ نہ کچھ مل گیا ہوتا۔ 

    غالب، (ذرا تلخی سے) تمہیں لکھنؤ کے دربار کاحال کیا معلوم؟ روشن الدولہ کے ہاتھ دوچار ہزار کے عوض اپنی آبرو بیچ ڈالتا؟ وہ اگرنائب السلطنت تھا تو میں بھی خاندانی شریف زادہ تھا۔ وہ میری تعظیم دینے پر کیوں آمادہ نہ ہوا؟ کیا اس کے لیے یہ کافی نہ تھا کہ میں نے اس کی مدح میں ایک نثر تیار کی؟ اس کے ساتھ یہ شرط کیوں لگائی گئی کہ گداگروں کی طرح نذر بھی پیش کروں؟ میں نے فوراً کہا کہ میں ایسی حضوری سے معافی چاہتاہوں۔ 

    بیگم، اچھا ہمارا مقدر! 

    غالب، جو کچھ مقدر میں لکھا ہے۔ وہ تو ہو کر رہے گا۔ ہم اگر شکوہ کریں بھی تو کیا حاصل؟

    بیگم، ہاں تمہارے لیے سب کچھ آسان ہے۔ اور نہیں تو شعر لکھ کر دل کی بھڑاس نکال لی۔ 

    غالب، آپ کے آنسوؤں سے بھی تو دل کی بھڑاس خوب نکل جاتی ہے۔ 

    بیگم، (دردناک آواز میں) تو کیوں نہ روؤں! باپ مرگیا۔ بھائی سے تمہاری ان بن ہوگئی۔ مکان بک گیا۔ گھرمیں جو زیور یا کپڑا تھا وہ بھی یہ جاگیر کا مقدمہ کھا گیا۔ اب تمہارے پیچھے عدالت کے پیادے قید کرنے کو پھرتے ہیں۔ بچے تھے (بھرائی ہوئی آواز میں) وہ مرکر مجھے جس سناٹے میں چھوڑ گئے میرا ہی دل جانتا ہے (سسکیاں لے کر روتے ہوئے) کیسے پیارے بچے تھے جیسے چاند کے ٹکڑے، ابھی تتلانا ہی شروع کیا تھا کہ اللہ کو پیارے ہوگئے (روتے ہوئے) ایک ایک کرکے سب گئے۔ پہلا۔۔۔ اور دوسرا، پھر تیسرا بھی۔۔۔ چوتھا بھی۔ 

    (مختصر وقفہ)

    غالب، (آہستہ سے) دوا! کیا زین العابدین خاں آج ادھر نہیں آیا؟میں نے صبح اس سے کہا تو تھا کہ گھڑی دو گھڑی کے لیے اپنی خالہ کے پاس ہوجایا کرو۔۔۔ بڑا نیک بخت لڑکا ہے۔ کسی کام کی وجہ سے رک گیا ہوگا، دیکھو صبح ان کے ہاں جانا اور کہنا میاں بھول کیوں گئے؟ تمہاری خالہ تنہائی میں کڑھتی رہتی ہیں۔ یہاں آؤگے، کچھ میں تمہیں پڑھادوں گا۔ کچھ تمہاری خالہ تم سے باتیں کریں گی، ان کا جی بہل جائے گا۔۔۔ اور بیگم اب جلد ہی ہمارے دن پھریں گے۔ میرے کاغذات گورنر جنرل کے سامنے عنقریب پیش ہوں گے۔ انگریز سکریٹری میرا دوست ہے۔۔۔ 

    بیگم، ہاں مگر سال بھر پہلے وہ بھی تو تمہارا دوست تھا۔ دلی کاانگریز ایجنٹ۔۔۔ 

    غالب، کول برک؟

    بیگم، جو معزول ہوگیا۔ خیر پھر تم نے دل کو یوں تسلی دی کہ اس کی جگہ دوسرا انگریز دوست آگیا۔ 

    غالب، ہاں ہاں فریزر۔ 

    بیگم، لیکن فریزر چھ ہفتے کے اندر بدل گیا اور اس کی جگہ نیا ریزیڈنٹ آیا جو تمہارا نہیں، شمس الدین خاں کا دوست ہے۔ 

    غالب، تو کیا ہوا ہر بار ایسے ہی اتفاق تو پیش نہیں آئیں گے۔ نہ ہاکنز کی روداد پر آخری فیصلہ ہوجائے گا۔ کلکتے میں لاٹ صاحب کا سکریٹری اسٹرلنگ صاحب میرا مخلص اور بہی خواہ ہے۔ کیاخوب آدمی ہے۔ یہلی ملاقات پر شریفوں کی طرح اٹھ کر مجھے تعظیم دی۔ اپنے ہاتھ سے عطر اور الائچی پیش کی اور بعد میں بھی ہمیشہ تکریم سے پیش آتا رہا۔ میرے کاغذات اسی کے ہاتھ سے نکلیں گے۔ پھر ابھی چند سال وہ اپنی جگہ سے ٹل بھی نہیں سکتا۔ اس لیے مجھے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اسٹرلنگ کلکتے میں ہے تو سب ٹھیک ہے۔ 

    (باہر کے دروازے پر دستک)

    بیگم، یا الٰہی خیر! اب یہ کون آیا؟

    غالب، کوئی نہیں، مدارخاں واپس آیا ہوگا۔ 
    (مدارخاں آتا ہے)

    مدار خاں، سرکار صدرالصدور صاحب کاآدمی میرے ساتھ ہی پہنچا اور یہ پرچہ دے گیا۔ 

    غالب، آج سب دوستوں کی طرف سے ایک ایک رقعہ ضرور آئے گا۔ لاؤ دیکھیں کیا کہتے ہیں، مفتی صدرالدین خاں صاحب (کاغذ کھولتے ہیں)

    بیگم، خدایا کوئی خیر کی خبر دیجو! 

    غالب، کلکتے سے۔۔۔ خبرآئی ہے۔۔۔ اسٹرلنگ صاحب ۲۳مئی کو مرگئے۔۔۔ ہاے جواں مرگ۔ 

    (یہ مرزا غالب کی زندگی کا ایک رخ تھا۔ لیکن اس ذاتی اور خانگی پریشانی کے علاوہ ان کی زندگی کے کچھ او رپہلو بھی تھے۔ ان پہلوؤں کاتعلق ان کے روشن ضمیر دوستوں کی صحبت اور ان کی بڑھتی ہوئی شاعرانہ شہرت سے تھا۔ لارڈولیم نبٹنک، گورنر جنرل نے مقدمے کا فیصلہ ان کے خلاف کیا۔ کچھ پرانی پریشانیوں میں کمی ہوئی، کچھ نئی پریشانیوں کااضافہ ہوا، اسی طرح اور بارہ سال گزرگئے۔ اس زمانہ میں ایک صبح کاذکر ہے کہ مولانا فضل حق خیرآبادی مرزا غالب کے مکان پر پہنچے۔)

    مولانا، ارے بھئی مرزا، اب اٹھو اور خدا کانام لو۔ مرد خدایہ بھلا سونے کا وقت ہے۔ میں دو گھڑی تم سے بات کرنے آیا تھا او رتم ہو کہ شرابیوں کی طرح صبح کے وقت غافل پڑے ہو۔ 

    غالب، یہ جو آپ نے مجھے شرابی سے تشبیہ دی، اسے اصطلاح میں تشبیہ تام کہتے ہیں۔ 

    مولانا، اب آپ علم معانی پر اپنا درس رہنے دیجیے اور ذرا اٹھ کر ہاتھ منھ دھولیجیے۔ 

    غالب، بھئی مولانا، مجھے اتنی مہلت تو دو کہ تمہاری تشریف آوری پر ذرا خوش ہولوں۔ میں خواب دیکھ رہا تھا کہ قلعہ معلیٰ سے چوبدار نے آکر خبر دی کہ جہاں پناہ نے یاد فرمایا ہے، سو اسی خواب کی تعبیر تمہاری ملاقات ہے، 

    جہا نے مختصر خواہم کہ دردے 
    ہمیں جائے من وجائے تو باشد

    کلو! آفتابے میں پانی لاؤ۔ ذرا منہ بھی دھولیں اور باتیں بھی کرتے جائیں اور دیکھو مولانا کے لیے شربت بھی لاؤ۔ مولانا، یہ پیشگاہِ حضور میں طلبی کاخواب کچھ اور معنی بھی رکھتا ہے۔ حکیم احسن اللہ خاں کبھی کبھی میرا ذکر کرتے ہیں۔ میاں ابراہیم خاقانیٔ ہند حسب معمول اس پر جز بز ہوتے ہیں۔ لیکن بادشاہ سلامت کو اس طرف توجہ ضروری ہوگئی ہے۔ خیر یہ قصہ تو پھر سناؤں گا۔ آپ کہیے کہ صبح صبح کیسے آنا ہوا۔ 

    مولانا، بھئی پہلے بھی ذکر کرچکا ہوں، یہ غیرمقلدین کا فتنہ کسی طرح فرو ہونے میں نہیں آتا۔ 

    غالب، میں تو آپ کے مقلدین میں سے ہوں۔ یوں کہ منہ دھوئے بغیر دین کی بات نہیں کرتا۔ لیجیے یہ شربت نوش فرمائیے اور پھر اطمینان سے بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔ 

    مولانا، مرزا، اس پیالے میں سے دو ایک گھونٹ پہلے تم پیو! 

    غالب، یہ کیوں؟

    مولانا، اس لیے کہ تمہاری زبان کا اثر میری زبان میں آجائے۔ 

    غالب، مولانا اگر ایک رند گناہگار کو یوں کانٹوں میں گھسیٹوگے تو میں اٹھ کر تمہارے قدموں کو چھولوں گا۔ میرے لیے یہی سعادت کم نہیں کہ میں اور تم ایک ہی سال پیدا ہوئے اور تم نے جوانی سے لے کر اس عمر تک جس طرح میری رہنمائی کی ہے۔۔۔ 

    مولانا، تو بھئی مرزا! اس رہ نمائی کے بدلے، اب کچھ میری رہنمائی کرو۔ وہی مسئلہ امتناع نظیر خاتم النبین۔۔۔ اس پر اپنا اور وہابی جماعت کا اختلاف مجھے پریشان کر رہا ہے۔ تم میرا یہ عقیدہ جانتے ہو کہ خاتم النبیین کا مثل ممتنع بالذات ہے یعنی جس طرح خدا اپنا مثل پیدا نہیں کرسکتا، اسی طرح خاتم النبیین کا مثل بھی پیدا نہیں کرسکتا۔ ان کو اصرار ہے کہ خاتم النبیین کاممتنع بالغیر ہے، ممتنع بالذات نہیں ہے یعنی آنحضرتؐ کا مثل اس لیے پیدا نہیں ہوسکتا کہ اس کا پیدا ہونا آپ کی خاتمیت کے منافی ہے، نہ اس لیے کہ خدا اس کے پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے۔ مرزا تم ذرا غور کرو کہ کیا یہ بالواسطہ ختم نبوت سے انکار نہیں ہے؟ 

    غالب، ہے، مگر مولانا اگر خدا لگتی سنو تو میں یہ کہوں کہ جو کچھ تم کہتے ہو وہ ذات باری کی قدرت کاملہ سے انکار ہے۔ شاہ اسماعیل کے پیرو اس پر چراغ پا نہ ہوں تو کیوں؟

    مولانا، ارے میاں! یہ کیا کفر بکنے لگے ہو؟ کون خدا کی قدرتِ کاملہ کا منکر ہے۔ تمہارے نزدیک تو اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اظہار صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی فطرت کے قوانین کو خود ہی توڑے، حالانکہ اس طرح اس کی قدرت محدود ہوجاتی ہے۔ میرے رسالہ بحث ’’قاطیغوریاس‘‘ میں یہ ذکر موجود ہے۔ ہاں جس کی طبیعت معقول کے بجائے غیرمعقول کی طرف راغب ہو، اس کاراستہ مجھ سے جدا ہے (ذرا ٹھہر کر) تو میں آج اس لیے تمہارے پاس آیا تھا کہ تم سے ایک مبسوط اور مدلل مثنوی لکھنے کو کہوں جس سے نظیر خاتم النبیین کا امتناع ثابت ہو۔ کاش مجھے بھی بیان پر وہی قدرت حاصل ہوتی، جو تمہیں ہے تو میں یہ خدمت خود انجام دیتا۔ 

    غالب، مولانا یہ معاملہ نازک ہے اور شعر و حجت کو جمع کرنا بھی کچھ آسان نہیں تاہم آپ کے ارشاد کی تعمیل ناگزیر ہے میں اس باب میں ضرور فکر کرو ں گا۔ اب کہو تو مصطفے ٰ خاں کے ہاں چلیں۔ وہاں آج صدرالصدور صاحب سے بھی ملاقات ہوجائے گی۔ شاید مومن خاں بھی ہوں۔ 

    مولانا، تو آؤ چلیں۔ میری پالکی باہر موجود ہے۔ 

    غالب، بس میں ذرا کان میں دوا ڈال لوں۔ 

    مولانا، کیوں خیریت تو ہے؟ 

    غالب، کچھ دنوں سے اونچا سننے لگا ہوں۔ اس سے گھبراتا ہوں۔ حکیم صاحب نے مسہل پلاکر تنقیہ کیا۔ اس کے بعد ہفتہ بھر عرق انار ترش اور روغن گل مساوی ملاکر چند قطرے نیم گرم۔۔۔ کان میں ٹپکاتا رہا۔ کل سے آبِ برگ شفتالونیم گرم ٹپکارہا ہوں۔ ابھی تک کچھ افاقہ نہیں ہوا۔ 

    مولانا، یہ تشویش کی بات ہے۔ تمہاری تمام دنیا تو بس یہی چشم و گوش کی دنیا ہے۔ 

    غالب، کئی برس ہوئے، میں نے ایک غزل کہی تھی جس کا ایک شعر یوں ہے، 

    لطفِ خرام ساقی و ذوقِ صدائے چنگ
    یہ جنتِ نگاہ وہ فردوس گوش ہے 

    اب اس فردوس گوش سے نکلنے کا تصور مجھے اسی طرح مضطرب کردیتا ہے جس طرح آدم اول کو فردوسِ بریں سے نکلنے کا خیال۔۔۔ لیجیے دوا تو کان میں پڑگئی، آئیے اب چلیں۔ 

    (اس طرح یہ دونوں ہم عمر، ہم مذاق، ہم علم دوست باتیں کرتے ہوئے نواب مصطفے ٰ خاں شیفتہ کے مکان تک پہنچے۔ نواب صاحب کے دیوان خانے میں مجلس احباب جمی ہوئی تھی۔ گانا ہو رہا تھا اور ایک غزل ابھی ختم ہوئی تھی۔ مرزا غالب اور مولانا فصل حق کو سازوں کی موسیقی کے ساتھ صرف آخری لفظ ’’ایسی‘‘ کی گونج سنائی دیتی ہے۔)

    شیفتہ، (دونوں دوستوں کو دیکھ کر) آئیے مرزا صاحب، آئیے مولانا، تشریف لائیے۔ میری آنکھیں تو دروازے پر لگی ہوئی تھیں، اور مولانا صدرالدین خاں آزردہ بھی کئی بار پوچھ چکے ہیں۔ مفتی صاحب! یہ لیجیے آخر آہی پہنچے مرزانوشہ۔ 

    آزردہ، اور مرزا نوشہ کے مرزا شہ بالا بھی تو ساتھ ہیں۔ بہت خوب، خوش آمدید! 

    شیفتہ، افسوس صرف اتنا ہے کہ آپ مفتی صاحب کی ایک مرصع غزل سے محروم رہے۔ مفتی صاحب کم گو ہیں اور نغز گو۔ کاش آپ آجاتے اورسنتے۔ 

    غالب، توآپ میری موجودگی کو عدم موجودگی سے کیوں تعبیر فرماتے ہیں، مجھے وقت کی روانی مقرر نہ فرمائیے کہ ابھی ہوں اور ابھی نہیں ہوں (ہنس کر)ع ہرچند کہیں کہ ہے نہیں ہے۔ 

    مولانا، مفتی صاحب یہ بڑا ظلم ہوگا اگر ہم محروم رہ گئے۔ 

    آزردہ، صاحب غزل مختصر ہے اور اس میں بھی کام کے شعر بس دو ہیں۔ آپ کو اصرار ہے تو میں خود ہی سنائے دیتا ہوں۔ 

    مولانا، ارشاد

    آزردہ،

    مکھڑا وہ بلا، زلفِ سیہ فام وہ کافر
    کیا خاک جیے جس کی شب ایسی، سحر ایسی

    (’’واہ، واہ، مرحبا، کیا شعر ہے‘‘ کاشور۔ آزردہ دوسرا شعر پڑھنے سے پہلے یہ مصرع دہراتے ہیں۔ ع کیا خاک جیے جس کی شب ایسی سحر ایسی، اور پھر یہ شعر پڑھتے ہیں۔)

    یا تنگ نہ کرنا صح ناداں مجھے اتنا
    یا چل کے دکھادے دہن ایسا کمر ایسی
    (پھر داد کا شور)

    مولانا، کیا اچھوتا انداز ہے! اور پھر یہ زمین! مفتی صاحب یہ زمین کہاں سے پائی؟

    غالب، کہاں سے پائی؟ ارے بھائی آسمان سے اور کہاں سے! 

    شیفتہ، صاحبو! پان اور شربت حاضر ہے۔ 

    غالب، میں تو شربت پیوں گا۔۔۔ اس شربت کارنگ مجھے پکار پکار کر بلا رہا ہے۔۔۔ مولانا، آپ کیوں للچائی ہوئی نظروں سے میرے صدقے قربان ہوئے جاتے ہیں۔ آپ کو اس شربت کا ایک گھونٹ نہیں ملے گا۔ 
    (دوستوں کا قہقہہ)

    آزردہ، ہاں صاحب میں ذکر کرنے والا تھا کہ انگریزی گورنمنٹ کو دلی کالج کا انتظام ازسرنو منطور ہے۔ 

    مولانا، مفتی صاحب! یہ دلی کالج کا نیا انتظام کہیں ویسا ہی نہ ہو جیسا سات آٹھ برس پہلے تاج محل کے لئے تجویز کیا گیا تھا۔ 

    شیفتہ، کیا کہنے ہیں۔ تاج محل کے! آگرہ اس ویرانی پر بھی ایک مرصع غزل ہے مگر بیت الغزل تاج محل ہے۔ 

    مولانا، یہ تو نواب مصطفے ٰ خاں شیفتہ کہتے ہیں نا! انگریزوں کی قدر دانی ملاحظہ فرمائیے کہ لارڈ ولیم بنٹک نے تاج محل کا تمام سنگ مرمر اکھڑواکر فرخت کردینے کی تجویز کی او ربچاؤ اس طرح ہوا کہ پہلے اکھڑوائی کا اندازہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ خرچ زیادہ ہوگا اور آمدنی کم۔ 

    غالب، مولانا، عیب مے جملہ بگفتی ہنرش نیزبگو! لیکن آپ تو انگریزوں کی نفرت سے ابلے پڑتے ہیں، آپ کیا انصاف کریں گے۔ 

    مولانا، نہ مانو، مگر میری یہ بات یاد رکھو کہ انگریزوں کو خدا اختیار دے تو تاج محل اور لال قلعہ میں گدھے بندھوادیں۔ جامع مسجد کو اپنا اصطبل بنالیں۔ 

    آزردہ، تو مولانا آپ خدا سے سفارش کیجیے کہ انگریزوں کو اختیار نہ دے۔ مجھے تو انگریزوں کے اختیار میں فی الحال کوئی کمی ہوتی نظر آتی نہیں۔۔۔ بہرحال میں یہ عرض کر رہا تھا کہ ٹامسن صاحب آگرہ سے دلی آئے ہیں۔ دلی کالج کے لیے سوروپے مہینے پر فارسی کے استاد کاتقرر ہو رہا ہے۔ میں نے مرزا نوشہ سے پوچھے بغیر ان کے لیے تحریک کرادی ہے۔ مشاہرہ نہایت معقول ہے۔ اور یہ جگہ مرزا صاحب کے لیے مناسب بھی معلوم ہوتی ہے۔ 

    غالب، (ہنس کر) شکر ہے میری شاعری نہیں تو میری زبان دانی آپ کے نزدیک مسلم ہوگئی۔۔۔ یہ منصب واقعی میرے لیے نہایت مناسب ہے اور نہایت نامناسب بھی۔ 

    شیفتہ، مرزاصاحب للہ اس باب میں یوں شاعری نہ فرمائیے، یہ تقرر اگر ہوجائے تو بہت اچھا ہو۔ 

    غالب، لیکن صاحب میں کیا کروں، کل میری شاعری اس تقرر کا قصہ پاک کر بھی آئی۔ 

    شیفتہ و آزردہ، (چونک کر) یعنی؟

    غالب، یعنی یہ کہ پرسوں ٹامسن صاحب نے مجھے یاد فرمایا۔ کل میں پہنچا۔ صاحب کو اطلاع کرائی، خود پالکی سے اتر کر ٹھہرا رہاکہ صاحب حسب دستور استقبال کو نکلیں گے، تھوڑی دیر میں صاحب کا جمعدار ہمہ تن سوال بن کر نکلا کہ آپ اندر کیوں نہیں آتے۔ میں نے کہا، صاحب استقبال کو تشریف نہیں لائے، میں کیوں کر اندر جاؤں؟ جمعدار پھر اندر گیا تو صاحب خود باہر نکل آئے اور بولے جب آپ دربار گورنری میں بحیثیت رئیس کے تشریف لائیں گے تو آپ کی وہ تعظیم ہوگی، لیکن اس وقت آپ نوکری کے لیے آئے ہیں۔ اس وقت وہ صورت نہیں ہے۔ 

    آزردہ، ہے ہے! مرزاتم نے غضب کردیا۔ 

    غالب، ہاں میں نے ان کو صاف جواب دیا کہ صاحب میں سرکاری نوکری کو ذریعہ افزائش عزت جانتا ہوں۔ یہ نہیں کہ بزرگوں کی بخشی ہوئی عزت بھی کھوبیٹھوں، بس یہیں بات تمام ہوگئی۔ ٹامسن صاحب نے اپنے دروازے کارخ کیا اور میں نے غالب علی شاہ کے تکیے کا۔ 

    شیفتہ، سبحان اللہ مرزا صاحب! دنیا کچھ بھی کہے، اس میں شک نہیں کہ خودداری اور آزادہ روی کو آپ نے انتہا پر پہنچادیا۔ 

    غالب، کل شام ایک غزل ہوگئی تھی، جس میں اتفاق سے یہی مضمون آگیا۔ لیجیے یہ پرچہ ملاحظہ فرمائیے۔ 

    آزردہ، کیوں صاحب! یہ پرچہ وہی کیوں ملاحظہ فرمائیں۔ پڑھ کر سنائیے۔۔۔ محفل کومحروم نہ کیجیے۔ 

    شیفتہ، ہاں صاحب تو پھر ارشاد ہو! 

    غالب، (داد تحسین کے شور میں یہ غزل ختم کرتے ہیں)

    درخورِ قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا
    پھر غلط کیا ہے کہ ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا

    بندگی میں بھی وہ آزادہ و خودبیں ہیں کہ ہم
    الٹے پھر آئے درکعبہ اگر وا نہ ہوا

    سینے کاداغ ہے وہ نالہ کہ لب تک نہ گیا
    خاک کا رزق ہے وہ قطرہ کہ دریا نہ ہوا

    نام کا میرے ہے وہ دکھ کہ کسی کو نہ ملا
    کام کامیرے ہے وہ فتنہ کہ برپا نہ ہوا

    تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے 
    دیکھنے ہم بھی گئے تھے، پہ تماشا نہ ہوا

    (اس طرح مرزا غالب کی زندگی کے پندرہ سال اور گزر گئے۔ اس عرصے میں مرزا صاحب مانے ہوئے بزرگانِ ادب میں شمار ہونے لگے۔ ایک خاندانی صدمہ اس عرصہ میں انہیں پہنچا۔ زین العابدین خاں عارف جوان ہوئے، شاعر بنے، اور مرگئے۔ ان کا چھوٹا بچہ حسین علی خاں اب مرزا صاحب کے گھر میں رہتا تھا، اور مرزا صاحب اسے اپنے بیٹے کی مانند عزیز رکھتے تھے۔ شعر و سخن، نغمہ و سرور، محبت و دوستی کی یہ فضا آخر کار ۱۸۵۷ءمیں ایک دم برہم ہوئی۔ پہلے مئی میں انگریز قتل ہوئے۔ لیکن پھر ستمبر میں انگریزں کی فتح مند فوج دلی میں داخل ہوئی اور دلی کے مسلمانوں نے وہ مصیبتیں دیکھیں، جن سے چنگیز اور ہلاکو کی یاد تازہ ہوگئی۔ ستمبر ۵۷ء میں مرزا غالب اپنے مکان میں بیٹھے ہیں، حسین علی خاں بھی موجود ہیں۔)

    غالب، بیٹا! بیٹا حسین علی خاں! حکیم صاحب نہیں آئے۔۔۔؟ بہراپن تو جان کاروگ بن گیا! 

    حسین علی خاں، (آواز بلند کرکے) دادا حضرت! شہرمیں بلوہ ہو رہا ہے۔ 

    غالب، بلوہ۔۔۔؟ ابھی تک۔ 

    حسین علی خاں، (چیخ کر) آپ سن نہیں رہے ہیں۔ ہماری گلی میں سے لوگ بھاگتے ہوئے جارہے ہیں۔ 

    غالب، ہاں کچھ شور سا سنائی تو دیتا ہے۔۔۔ ہائے دلی، کیا تو اس طرح سسک سسک کر مرے گی؟ مجھے بھی اپنے ساتھ ہی لے جا (پھر ذرا دھیمی آواز میں) اودھ کی سلطنت مجھ پر مہربان ہوئی۔ میری قضا نے اسے دوبرس میں ختم کردیا۔ دلی کی سلطنت کچھ زیادہ سخت جان تھی۔ سات برس مجھ کو روٹی دے کر بگڑی۔۔۔ 

    حسین علی خاں، (پھر چلاکر) سنیے۔ بادشاہ سلامت کو گوروں نے پکڑ لیا۔ 

    غالب، (اسی لہجے میں) اچھا یہ شمع بھی بجھ گئی! 

    حسین علی خاں، (چیخ کر) اور سنیے، میر میکش اور مولانا صہبائی قتل ہوگئے۔ 

    غالب، (سرد آہ بھر کر) اللہ۔۔۔! اللہ! 

    (ہجوم کا شور۔۔۔ گولی چلنے کی آواز)

    حسین علی خاں، کلو کہتا ہے، مولانا فضل حق کو گورے پکڑ لے گئے۔ 

    غالب، (بے تابانہ) ہائے۔ 

    حسین علی خاں، اور نواب مصطفے ٰ خاں اور مفتی صاحب کو بھی۔ 

    غالب، اچھا ہے، اچھا ہے! میں بھی اب کفن پہن کر زندگی کے دن گزاروں گا۔ جاؤ کلو سے کہو، میرے کپڑے لائے۔ میں اپنے دوستوں سے ملنے جاتا ہوں۔ وہ حوالات میں میرے منتظر ہیں۔ 
    (ہجوم کی چیخ پکار)

    حسین علی خاں، (کانپتی ہوئی آواز میں) سرس کی گلی سے آدمی آیا ہے۔۔۔ دادا یوسف بیگ خاں کو گوروں نے مار ڈالا۔ 

    غالب، مرگیا! یوسف مرگیا! اف۔۔۔ اوف! میرا بھائی۔۔۔ (قہقہہ لگاکر) دیوانے کو گولی ماردی! اف۔۔۔ (کانپتی ہوئی آواز میں) بیٹا لوگ یوسف کو مجنون کہتے تھے۔ آج میں مجنونوں سے بدتر ہوں۔ 

    حسین علی خاں، دادا حضرت خدا کے۔۔۔ 

    (حسین علی خاں کی آواز گولیوں کی باڑھ میں گم ہوجاتی ہے)

    حسین علی خاں، دادا حضرت! حکیم صاحب تشریف لا رہے ہیں۔ 

    غالب، اب کیا فائدہ! 

    میرے سننے کو اب رہ ہی کیا گیا ہے۔

     

    مأخذ:

    چھیڑ غالب سے چلی جائے (Pg. 124)

      • ناشر: کتاب کار پبلیکیشنز، رام پور
      • سن اشاعت: 1965

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے