Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

غالب داور محشر کے سامنے

محی الحق فاروقی

غالب داور محشر کے سامنے

محی الحق فاروقی

MORE BYمحی الحق فاروقی

     

    صور کی مہیب اور ہیبت ناک آواز سے دل بیٹھا جا رہا تھا۔ مردوں کی دنیا میں ایک ہنگامہ برپا تھا۔ سب کے سب ایک دوسرے کو دھکادے کر آگے پیچھے ہٹنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ’’قیامت آگئی، قیامت آگئی‘‘ کا روح فرساشور۔ اس ریلے میں میں بھی آگے بڑھا۔ قبروں سے جلدی جلدی سارے مردے اس طرح نکل رہے تھے جیسے زلزلے کی پیشین گوئی سن کر گاؤں والے گاؤں چھوڑ رہے ہوں۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ جب میں ایک قبر کے پاس سے گزرا اور دیکھا کہ قبر کا مردہ ایسے سکون اور اطمینان کے ساتھ سو رہا ہے۔ ع گویا ابھی سنی نہیں آواز صور کی۔ 

    لاش کا کفن مٹی کے اثر سے گل چکا تھا۔ میں حیران تھا کہ خدایا یہ کیا ہے جسے اس افراتفری کے عالم میں بھی قرار ہے۔ میرے قریب ہی سے دو آدمی گزرے۔ ایک نے دوسرے سے کہا، 

    یہ لاش بے کفن اسدِ خستہ جاں کی ہے
    حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

    ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ لاش میں حرکت ہونے لگی۔ اور ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے اس لاش نے ہوبہو غالب کی شکل اختیار کرلی۔ غالب کی چتون سےصاف غصہ کا اظہار ہو رہا تھا۔ اور انہوں نے بڑے ہی جلے ہوئے انداز میں کہا، 

    وائے واں بھی شور محشر نے نہ دم لینے دیا
    لے گیا تھا گور میں ذوق تن آسانی مجھے

    جب انہوں نے اپنی قبر کے چاروں طرف نظر اٹھا کر دیکھا۔ اور انہیں پتھر نظر آئے جو سیکڑوں برس سے ان کی قبر کے گرد جمع ہوگئے تھے۔ تو ذرا مسکراتے ہوئے گنگنانے لگے، 

    پس از مردن بھی دیوانہ زیارت گاہِ طفلاں ہے
    شرارِ سنگ نےتربت پہ میری گل فشانی کی

    اب جو انہوں نے نظر اٹھائی تو نہ صرف مجھی کو بلکہ مجھ جیسے اور کئی خوش فکروں کو اپنی طرف گھورتے دیکھا۔ یہ دیکھتے ہی وہ کھڑے ہوگئے اور اوپر نظر اٹھا کر کہنے لگے، 

    ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
    نہ کہیں جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا! 

    ابھی ہم یہاں اس نظارے میں مشغول تھے کہ یک بیک آواز آئی، ’’میدانِ حشر میں چلو اور داورِ محشر سے اپنا فیصلہ حاصل کرو۔‘‘ ہم بھی لپک کر پہنچے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ سب لوگ مراتب کے لحاظ سے کھڑے تھے۔ ایک طرف صرف عوام کا مجمع تھا۔ گھس گھسا کر مجھے بھی اس مجمع میں آگے جگہ مل گئی۔ کہیں پیغمبروں کا گروہ تھا تو کہیں اولیاء اور صوفیاء کا، کہیں علماء کا مجمع تھا تو کہیں حفاظ کا۔ کہیں شعرا کھڑے تھے تو کہیں مضمون نگار حضرات اور ادیب۔ خدا کے نیک بندے جنت میں جارہے تھے۔ باری۔ باری اور اردو شعراء کی باری تھی۔ دو چار ناموں کے بعد آواز آئی، ’’اسد اللہ خاں غالب ولد مرزا عبداللہ بیگ خاں حاضر۔‘‘ غالب آگے بڑھے اور سجدہ کر کے کھڑے ہوگئے۔ آواز آئی، ’’اس شخص کا نامۂ اعمال سناؤ۔‘‘ 

    ایک فرشتہ نے سجدہ کیا اور کہنا شروع کیا، بارِ الہا! اگر ہم اس شخص کا مفصل حال بیان کریں تو وقت ختم ہو جائے مگر بیان ختم نہ ہو۔ معبود حقیقی! اس نے اپنی دلچسپ شاعری کے ذریعہ لوگوں کو راہِ مستقیم سے بہکانے کی کوشش کی۔ میں صرف ان واقعات کو پیش کرتا ہوں، جہاں اس نے جنت کا مذاق اڑایا ہے پروردگارِ عالم سب سے پہلے تو اس نے جنت کے وجود ہی سے انکار کیا۔ اس نے کہا، 

    ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
    دل کے خوش رکھنےکو غالب یہ خیال اچھا ہے

    ایک دوسرے موقع پر اس نے کہا، 

    ستائش گر ہے زاہد اس قدر جس باغ رضواں کا
    وہ اک گلدستہ ہے ہم بے خودوں کے طاق نسیاں کا

    اس نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ایک وقت وہ بھی آیا جب اس نے جنت کے وجود کو تو تسلیم کیا، لیکن اس کی اہمیت ماننے سے انکار کر دیا۔ اس نے کہا، 

    کوئی دنیا میں مگر باغ نہیں ہے واعظ
    خلد بھی باغ ہے خیر آب و ہوا اور شراب

    اے معبود حقیقی! جب اس شخص پر یہ یقین ہے کہ اس نےجنت کے وجود کو مان لیا اور اس نے یہ اعلان کیا کہ اول تو ہمیں پرواہ نہیں اور اگر کبھی اس کی خواہش کی ہے تو صرف شراب کے لیے۔ اس نے کہا، 

    وہ چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز
    سوائے بادۂ گلفام و مشک و بو کیا ہے


    ندا آئی، ’’غالب!‘‘ 

    غالب ’’پروردگار غالب!‘‘ 

    ندا ’’کیا تمہیں اس بیان کی صداقت پر یقین ہے؟‘‘ 

    غالب معبود حقیقی، 

    پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
    آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا

    ندا یہ نہ بھولو کہ تم کہاں ہو۔ یہ میرا انتظام ہے۔ اس میں دخل دے کر سرکش نہ بنو۔ 

    غالب میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہتا، 

    ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
    گستاخیٔ فرشتہ ہماری جناب میں

    ندا ہاں! اس میں بھی میری مصلحت تھی۔ 

    ندا کیا تمہاری کوئی خوہش بھی ہے؟

    غالب ’’اے امیدوں کے برلانےوالے! میری خواہش پوری کی جائے گی؟‘‘ 

    ندا بیان کرو! 

    غالب ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد

    یارب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے

    ندا غالب! ہمیں افسوس ہے کہ تم نے ہماری بخشی ہوئی ذہانت کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔ 

    ایک فرشتہ نے آگے بڑھ کر سجدہ کیا اور کہا، ’’پروردگار! اس نے یہیں تک بس نہیں کیا۔ اس نے لوگوں کو تلقین کی کہ بہشت کو دوزخ میں ڈال دو۔‘‘ 

    ندا صاف صاف بتاؤ اس نے کیا کہا؟

    فرشتہ طاعت میں تار ہے نہ مئے انگبیں کی لاگ

    دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو

    ندا کیا اس نے یہ کہا؟

    فرشتہ جی ہاں پروردگار، اس نے کہا۔ 

    ندا تو اس نے لوگوں کو ہماری صحیح اطاعت کا راستہ دکھایا۔ اس نے لوگوں کو بتایا کہ خالص اطاعت کے لیے بہشت وغیرہ کا خیال نکال دو۔ فرشتو! اس کو جنت میں لے جاؤ۔ 

    فرشتے بہتر ارحم الرحمن! 

    غالب فرشتوں کی معیت میں یہ گنگناتے ہوئے آگے بڑھ گئے، 

    کیا ہی رضواں سے لڑائی ہوگی
    گھر ترا خلد میں گر یاد آیا

    شعراء کے مجمع میں سے نعرۂ تحسین بلند ہوا۔ صور کی آواز جو مسلسل آ رہی تھی بند ہوگئی۔ میں چونک کر اٹھ بیٹھا۔ صحن میں بچے ربر کا پھکنا بجا رہے تھے۔ ایک بچے کا پھکنا پھٹ جانے سے یہ شور ہوا تھا۔

           

    مأخذ:

    غالب سے معذرت کے ساتھ (Pg. 135)

    • مصنف: احمد جمال پاشا
      • ناشر: نسیم بک ڈپو، لکھنؤ
      • سن اشاعت: 1964

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے