aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

رامائن اور مہابھارت

ابن انشا

رامائن اور مہابھارت

ابن انشا

MORE BYابن انشا

    رامائن رام چندر جی کی کہانی ہے۔ یہ راجہ دسرتھ کے پرنس آف ویلز تھے۔ لیکن ان کی سوتیلی ماں کیکئی اپنے بیٹے بھرت کو راجا بنانا چاہتی تھی۔ اس کے بہکانے پر راجا دسرتھ نے رام چندر جی کو چودہ برس کے لیے گھر سے نکال دیا۔ ان کی رانی سیتا کو بھی۔ ان کے بھائی لچھمن بھی ساتھ ہولیے۔ بن باس کے لیے نکلتے وقت رام چندر جی کے پاس کچھ بھی نہ تھا۔ بس ایک کھڑاؤں تھی۔ وہ بھی بھرت نے رکھوا لی کہ آپ کی نشانی ہمارے پاس رہنی چاہیے۔ اس کھڑاؤں کو بھرت تخت کے پاس بلکہ اوپر رکھتا تھا تا کہ رام چندر جی کا کوئی آدمی چراکے نہ لے جائے۔

    جنگل میں رہنے کی وجہ سے ان کو گزارے میں چنداں تکلیف نہ ہوتی تھی۔ رام جی تو آخر رام جی تھے، زیادہ کام ان کا لکشمن یعنی برادرخورد کیا کرتے تھے۔یہ لوگ گن گن کر دن گزار رہے تھے کہ کب بارہ برس پورے ہوں اور کب یہ واپس جاکر راج پاٹ سنبھالیں اور رعایا کی بے لوث خدمت کریں۔ ایک روز جب کہ رام اور لچھمن دونوں شکار کو گئے ہوئے تھے، لنکا کا راجا راون آیا اور سیتاجی کو اٹھالے گیا۔ اس پر رام چندر جی اور راون میں لڑائی ہوئی۔ گھمسان کارن پڑا جیسا کہ دسہرے کے تہوار میں پڑتا آپ نے دیکھا ہوگا۔ ہنومان جی اور ان کے بندروں نے رام چندرجی کا ساتھ دیا اور وہ راون اور اس کے راکششوں کو مار کر جیت گئے۔ پرانے خیال کے ہندو اسی لیے بندروں کی اتنی عزت کرتے ہیں۔ ان کو انسانوں پر ترجیح دیتے ہیں۔

    مہابھارت

    مہابھارت کوروں اور پانڈوؤں کی لڑائی کی داستان ہے۔ کورو تو جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے، بڑے کور چشم لوگ تھے۔ ہاں پانڈو اچھے تھے۔ اتنا ضرور ہے کبھی کبھی جوا کھیل لیتے تھے۔ اور تعدد ازدواج کا رواج بھی ان میں تھا، یعنی ایک عورت کے پانچ شوہر ہو سکتے تھے۔ یکے بعد دیگرے نہیں۔ وہ تو آج کل بھی ہوتے ہیں بلکہ بیک وقت دروپدی پانچوں پانڈوؤں کی بلاشرکت غیرے بیوی تھی۔ چونکہ اس کا سلوک پانچوں سے یکساں تھا اس لیے ہم اس معاملے پر زیادہ اعتراض نہیں کرتے۔

    مہابھارت کے زمانے میں شادی میں ایسی مشکلات ہوتی تھیں جیسی آج کل ہوتی ہیں کہ لڑکے کا حسب نسب، جائداد اور تعلیم وغیرہ پوچھتے ہیں حتی کہ ذریعہ روزگار بھی، پنجابی یوپی کا سوال بھی اٹھتا ہے اور شیعہ سنی کی دیکھ پرکھ بھی ہوتی ہے۔ مہابھارت کے سنہری زمانے میں سوئمبر رچاتے تھے۔ جو شخص بھی نیچے تیل کے کنڈ میں عکس پر نظر جمائے اوپر گھومتی مچھلی کی آنکھ میں تیر کا نشانہ لگاتا تھا اس کے سر اپنی لڑکی منڈھ دیتے تھے۔ دروپدی کے سوئمبر میں ارجن نے تیر مارا جو گھومتی مچھلی کی آنکھ میں سیدھا جا لگا۔ یہ حسن اتفاق تھا ورنہ تو ایسے کرتب کے لیے آدمی کا ماہر بازی گر یا نٹ ہونا ضروری ہے ہم آپ نہیں لگا سکتے۔

    کورو پانڈوں میں لڑائی کیوں ہوئی تھی؟ یہ ہم نہیں جانتے۔ ہر لڑائی کے لیے وجہ کا ہونا ضروری بھی نہیں۔ اب کچھ آنکھوں دیکھا حال اس لڑائی کا سنیے۔

    خواتین و حضرات! یہ کور و کشتیر کا میدان ہے جو تحصیل کیتھل ضلع کرنال میں واقع ہے۔ لڑائی اب شروع ہونے ہی والی ہے۔ کورو ایک طرف ہیں پانڈو دوسری طرف ہیں۔ یہ ہونا بھی چاہیے۔ دونوں ایک طرف ہوں تو لڑائی کا کچھ مزہ نہ آئے۔ لڑنے والوں کے علاوہ بھی کچھ لوگ میدان میں نظر آرہے ہیں۔ یہ درونا اچاریہ ہیں۔ دونوں فریقوں کے بزرگ ہیں۔ اپنا لشکر کوروؤں کو دے رکھا ہے۔ آشیرواد پانڈوؤں کو دے رکھی ہے۔ پانڈوؤں کا مطالبہ تھا کہ آپ آشیرواد کوروؤں کو دے دیں۔ لشکر ہمیں دے دیں لیکن اچاریہ جی نہیں مانے۔ یہ کون ہے؟ یہ کرشن جی ہیں۔ مشہورافسانہ نگار کرشن نہیں نہ مہاشہ کرشن بلکہ اور صاحب ہیں۔ کرشن کنھیا کہلاتے ہیں۔ ابھی ابھی گوپیوں کے پاس سے آئے ہیں۔ مکھن ابھی تک ہونٹوں پر لگا ہے۔ بیٹھے گیتا لکھ رہے ہیں، ارجن کو اپدیش دے رہے ہیں کہ مارو، مارو، اپنوں کو مارو، جھجکو نہیں۔ تاج و تخت کا معاملہ ہے مذاق کی بات نہیں۔ یاد ہے کہ کورو اور پانڈو ایک دوسرے کے کزن ہیں۔ اے لو کھانڈے سے کھانڈا بجنے لگا اور رتھ سے رتھ ٹکرا رہا ہے۔ یہ لڑائی تو لمبی چلتی معلوم ہوتی ہے۔ لہٰذا اب ہم واپس اسٹوڈیو چلتے ہیں۔

         

    مأخذ:

    آپ سے کیا پردہ (Pg. 19)

    • مصنف: ابن انشا

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے