Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سبق یہ تھا پہلا کتاب ربا کا

مشتاق احمد یوسفی

سبق یہ تھا پہلا کتاب ربا کا

مشتاق احمد یوسفی

MORE BYمشتاق احمد یوسفی

     

    تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
    کراچی میں سردی اتنی ہی پڑتی ہے جتنی مری میں گرمی۔ اس سے ساکنان کوہ ِمری کی دل آزاری نہیں، بلکہ عروس البلاد کراچی کی دلداری مقصود ہے۔ کبھی کبھار شہر خوباں کا درجۂ حرارت جسم کے نارمل درجہ حرارت یعنی ۴ء۹۸ سے دو تین ڈگری نیچے پھسل جائے تو خوبان شہر لحاف اوڑھ کر ایئر کنڈیشنر تیز کردیتے ہیں۔ حسن خودبین و خود آراب جب ۴۳ نمبر کے مشمولات کا ۳۴ نمبر کے سوئٹر میں خلاصہ کرکے آئینہ دیکھتا ہے تو حیا کی سرخی رخساروں پر دوڑ جاتی ہے جسے موسم سرما کے خون صالح پر محمول کیا جاتا ہے۔ اس حسن تضاد کو کراچی کے محکمہ موسمیات کی اصلاح میں ’’کولڈویو‘‘ (سردی کی لہر) کہتے ہیں۔ یہ خوبی صرف کراچی کے متلون موسم میں دیکھی کہ گھر سے جو لباس بھی پہن کر نکلو، دو گھنٹے بعد غلط معلوم ہوتا ہے۔ 

    لوگ جب اخبار میں لاہور اور پنڈی کی سردی کی شدید خبریں پڑھتے ہیں تو ان سے بچاؤ کے لیے بالو کی بھنی مونگ پھلی اور گزک کے پھنکے مارتے ہیں۔ ان کے بچے بھی انہیں پر پڑے ہیں۔ باد شمال اور گوشمالی سے بچنے کے لئے اونی کنٹوپ پہن کر آئس کریم کھاتے اور بڑوں کے سامنے بتیسی بجاتے ہیں۔ کراچی میں پنڈی سے تین لحاف کم سردی پڑتی ہے۔ نووارد حیران ہوتا ہے کہ اگر یہ جاڑا ہے تو اللہ جانے گرمی کیسی ہوتی ہوگی۔ بیس سال سرد و گرم جھیلنے کے بعد ہمیں اب معلوم ہوا کہ کراچی کے جاڑے اور گرمی میں تو اتنا واضح فرق ہے کہ بچہ بھی بتا سکتا ہے۔ ۹۰ڈگری ٹمپریچر اگر مئی میں ہو تو یہ موسم گرما کی علامت ہے۔ اگر دسمبر میں ہو تو ظاہر ہے کہ جاڑا پڑ رہا ہے۔ البتہ جولائی میں ۹۰ ڈگری ٹمپریچر ہو اور شام کو گرج چمک کے ساتھ بیوی برس پڑے تو برسات کا موسم کہلاتا ہے۔ غالباً کیا یقیناً ایسے ہی کم نیم گرم، کنکنے کراچوی جاڑے سے اکتا کر نظیر اکبرآبادی نے تمنا کی تھی،

    ہر چار طرف سے سردی ہو اور صحن کھلا ہو کوٹھے کا
    اور تن میں نیمہ شبنم کا، ہو جس میں خس کا عطر لگا
    چھڑکاؤ ہوا ہو پانی کا، اور خوب پلنگ بھی ہو بھیگا
    ہاتھوں میں پیالہ شربت کا، ہو آگے اک فراش کھڑا
    فراش بھی پنکھا جلتا ہوا، تب دیکھ بہاریں جاڑے کی

    تین چار سال بعد دو تین دن کے لیے سردی کا موسم آجائے تو اہل کراچی اس کا الزام ’’کوئٹہ ونڈ‘‘ پر دھرتے ہیں اور کوئٹہ کی سردی کی شدت کو کسی سیم تن کے ستر نما سوئٹر سے ناپتے ہیں۔ کراچی کی سردی بیوہ کی جوانی کی طرح ہوتی ہے۔ ہرایک کی نظر پڑتی ہے اور وہیں ٹھہر بلکہ ٹھٹھر کر رہ جاتی ہے۔ ادھر کوئٹہ میں جب دستانے، کمبل، مفلر اور سمور کے انبار میں سے صرف چمکتی ہوئی آنکھیں دیکھ کر یہ فیصلہ کرناناممکن ہوجائے کہ ان کے جنوب میں مونچھ ہے یا پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے، تو کوئٹہ والے اس گھپلے کا ذمہ دار قندھاری ہوا کو ٹھیراتے ہیں اور جب قندھار میں سائبیریا کی زمہریری ہواؤں سے درختوں پر اناروں کی بجائے برف کے لڈو لٹکتے ہیں، گوالے گائے کے تھنوں سے آئس کریم دوہتے ہیں، اور سردی سے سے تھر تھر کانپتے ہوئے انسان کے دل میں خود کو واصل جہنم کرنے کی شدید خواہش ہوتی ہے، تواہالیان قندھار کمبل سے چمٹ کر ہمسایہ ملک کی طرف غضبناک نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ چھوٹے ملکوں کے موسم بھی تو اپنے نہیں ہوتے۔ ہوائیں اور طوفان بھی دوسرے ملکوں سے آتے ہیں۔ زلزلوں کا مرکز بھی سرحد پار ہوتا ہے۔ 

    یہ جنوری ۱۹۵۰ء کی ایک ایسی ہی صبح کا ذکر ہے۔ موسمی کیفیت ہم نے قدرے تفصیل و تنقیص کے ساتھ اس لیے بیان کی کہ کراچی میں یہ ہماری پہلی صبح تھی۔ گوارا حد تک گرم ہونے کے علاوہ یہ ایک تاریخ ساز صبح بھی تھی۔ زمستان کی اس صبح بینکاری کے پیشے سے ہمارے طویل ’’فلرٹیشن‘‘ کا آغاز ہوا۔ اور صبح اس وقت نہیں ہوتی جب سورج نکلتا ہے۔ صبح اس وقت ہوتی ہے جب آدمی جاگ اٹھے۔ کسی نے ایک دن فرانس کے شہرہ آفاق ادیب پروست سے پوچھا کہ دنیا کی عسکری تاریخ میں کس واقعہ نےآپ کو سب سے زیادہ متاثر کیا تو اس نے بلا تامل جواب دیا، فوج میں میری بھرتی۔ 

    ہمارے فلرٹیشن کا آغاز
    کراچی میں براہ کھوکھرا پار وارد ہوئے ہمیں ۲۰ گھنٹے ہوئے تھے۔ وہ صبح نہیں بھولے گی جب ریلوے لائن کے کنارے ایک چھوٹی سی سفید چمکتی تختی پر پہلے پہل ’’پاکستان‘‘ لکھا نظر آیا تو اسے ہاتھ سے چھو چھو کر دیکھا تھا۔ پھر مٹی اٹھا کر دیکھی۔ السلام علیکم کہتے ہوئے سندھی ساربان دیکھے۔ ہندوستان کے نوٹ پر پہلی دفعہ حکومت پاکستان چھپا ہوا دیکھا۔ اور پھر ریگزار راجستھان میں پرکھوں کی قبریں، وہ بولی جو ماں کے دودھ کے ساتھ وجود میں رچی بسی تھی اور اپنے پیاروں کے آنسوؤں سے بھیگے چہرے، خِیر گئی امروزمیں دھندلاتے چلے گئے۔ 

    مری بارکیوں دیر اتنی کری
    منا باؤ کے اجاڑ اسٹیشن پر دوراتیں تاروں بھرے آسمان کے نیچے گزارنے سے گلا خراب ہوگیا تھا اور محسوس ہوتا تھا گویا حلق میں کوئی بدچلن مینڈک پھنس گیا ہے۔ ذرا منہ کھولتے تو ٹرانے لگتا۔ میکلوڈ روڈ پر بینک کا ہیڈ آفس تلاش کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ ہم نے ایک چھپی ہوئی پرچی پر اپنا نام لکھ کر جنرل منیجر مسٹر ڈبلو۔ جی۔ ایم اینڈرسن کو بجھوایا۔ تقریب بہر ملاقات کے خانے میں باریک حروف میں ’’سرکاری‘‘ لکھ دیا، جس سے ہماری مراد بخی یعنی بسلسلہ ملازمت تھی۔ اور آخر میں، جلی حروف میں، ’’فرستادہ۔۔۔ مسٹر ایم۔ اے۔ اصفہانی، چیرمین بینک ہذا۔‘‘ سفارش میں لپٹی ہوئی یہ دھمکی ہمارے کام نہ آئی، اس لیے کہ ہمارے بعد آنے والے ملاقاتی، جو ہمارے حسابوں سے ہم سے زیادہ خوش پوش اور حیثیت دار نہ تھے، باری باری شرف باریابی حاصل کرکے رخصت ہوگئے اور ہم سر جھکائے سوچتے ہی رہ گئے کہ مری بارکیوں دیر اتنی کری؟

    ڈیڑھ دوگھنٹے بینچ پر انتظارِ ساغر کھنچنے کے بعد جی میں آئی کہ لعنت بھیجو۔ ایسی ذلت کی نوکری سے بے روزگاری بھلی۔ دیر ہے، اندھیر بھی ہوگا۔ چل خسرو گھر آپنے سانج بھئی چوندیس۔ مرزا غالب بھی تو فارسی مدرس کی سو روپے ماہوارا سامی کے لیے پالکی میں بیٹھ کر مسٹر ٹامسن کے پاس انٹرویو کے لیے گئے تھے۔ لیکن الٹے پھر آئے، اس لیے کہ وہ ان کی پیشوائی کو باہر نہیں آیا۔ کہاروں سے کہا بس ہو چکی ملاقات۔ پالکی اٹھاؤ۔ ہم بھی استاد کے تتبع میں واپس پالکی میں سوار ہو رہے تھے کہ اندر والا بولا، ہوش میں آؤ۔ تم کہاں کے دانا ہو، کس ہنر میں یکتا ہو؟ مرزا تو شاعر آدمی ٹھیرے۔ اس کے بعد بھی کوئی نواب گورنر جنرل بہادر نیا آتا تو ایک قصیدہ بطریق نذر گزارانتے رہے اور پنشن کے علاوہ سات پارچے کا خلعت مع جیغہ و سرپیچ دمالائے مردارید برابر وصول کرتے رہے۔ تم کیا کروگے؟ تم تو صرف نثر میں خوشامد کرنی جانتے ہو۔ پھر واپسی کے لیے باہر پالکی بھی تو نہیں ہے کہ تنتناتےہوئے بیٹھ کر گھر آگئے اور راستے میں کہاروں کو کندھا تک نہ بدلنے دیا۔ اور ہاں، روزی پر لات مار کے چلے بھی گئے تو اس مظاہرہ پندار کو شہرتِ دوام بخشنے کے لیے محمد حسین آزاد کو کہاں سے لاؤگے؟ کہاں وہ خودداری کہاں یہ سجدہ ناقبول۔ بندہ ناخدا! مزے سے بیٹھے کشکول بجاتے رہو۔ تین برس تم ڈپٹی کمشنر رہے۔ سچ کہو کبھی کسی اہل غرض سے سیدھے منہ بات کی؟

    کچھ دیر بعد چپراسی ہماری کس مپرسی پر ترس کھا کے خود ہی کہنے لگا کہ اگر نوکری کی سفارش لے کر آئے ہو تو آج مڈبھیڑ نہ کرو۔ اجن فجر سے سالے کا مغز پھریلا ہے۔ اکھا باٹلی دارو پئے لا ہے۔ پاکٹ میں چھوٹا باٹلی کے اندر ’مکسچر‘ بھر کے لایا ہے۔ دو کلاک پہلے سگرٹ سے تجوری کھولنا مانگتا تھا۔ اصلی رنگت سولہ آنے مولی کے موافق ہے۔ پن اس ٹیم جاستی بلڈپریشر سے ایکدم چقندر لگتا پڑا ہے۔ تمیرا کام آج کے دن نہیں ہونے سکنا۔ 

    پون بجے جب اسٹاف ایک ایک کرکے لنچ کے لیے سٹکنے لگا اور مہتراس چابکدستی سے جھاڑو دینے لگا کہ گرد کا ایک ایک ذرہ کھنچ کر ہماری عینک اور چہرے پر جمع ہو جائے تو زور سے گھنٹی بجی اور بجتی ہی چلی گئی۔ معلوم ہوتا تھا کوئی گھنٹی کے بٹن پر بیٹھ گیا ہے۔ چپراسی نے کوئی نوٹس نہ لیا۔ چند لمحے پہلے سلگائی ہوئی پہلوان مارکہ بیڑی کے کش لیتا رہا۔ پھر اسے چھنگلیا میں دباکر الوداعی دم لگایا اور جوتے کی ایڑی پر رگڑ کر بجھادیا۔ بیڑی کا بنڈل، چونی، اور فلمی گانوں کا کتابچہ سر پر رکھا اور ان پر ترکی ٹوپی کوکج کیا۔ پھر اس ’’سیف ڈپازٹ لاکر‘‘ کا پھندنا ہلاکر کہنے لگا کہ لگتا پڑا ہے اب کے تمہاری آئی ہے۔ قسمت کی بدنصیبی کو صیاد کیا کرے؟ لارا لپا لارا لپا! لالالا! 

    کچھ نے کہا چہرہ ترا
    کمرے میں داخل ہونے سے پہلے ہم نے اپنی دائیں ہتھیلی کا پسینہ پونچھ کر ہاتھ مصافحہ کے لیے تیار کیا۔ سامنے کرسی پر ایک نہایت بارعب انگریز نظر آیا۔ سر بیضوی اور ویسا ہی صاف اور چکنا۔ جس پر پنکھے کا عکس اتنا صاف تھا کہ اس کے بلیڈ گنے جا سکتے تھے۔ آج کل کے پنکھوں کی طرح اس پنکھے کا وسطی حصہ نیچے سے چپٹا نہ تھا، بلکہ اس میں ایک گاؤ دم چونچ نکلی ہوئی تھی، جس کا مصرف بظاہر یہ نظر آیا کہ پنکھا سر پر گرے تو کھوپڑی پاش پاش نہ ہو، بلکہ اس میں ایک صاف گاؤ دم سوراخ ہو جائے۔ بعد میں اکثر خیال آیا کہ سرپر اگر بال ہوتے تو اس کی وجاہت و دبدبہ میں یقیناً فرق آجاتا۔ میز کے نیچے ایک ادھڑا ادھڑا ’’کیمل کلر‘‘ کا قالین بچھا تھا۔ رنگ میں واقعی اس قدر مشابہت تھی کہ معلوم ہوتا تھا کہ کوئی خارش زدہ اونٹ اپنی کھال فرش راہ کیے پڑا ہے۔ 

    بھرے بھرے چہرے پر سیاہ فریم کی عینک۔ کچھ پڑھنا یا پاس کی چیز دیکھنی ہو تو ماتھے پر چڑھا کر اس کے نیچے سے دیکھتا تھا۔ دور کی چیز دیکھنی ہو تو ناک کی پھننگ پر رکھ کر اس کے اوپر سے دیکھتا تھا۔ البتہ آنکھ بند کرکے کچھ دیر سوچنا ہو تو ٹھیک سے عینک لگا لیتا تھا۔ بعد میں دیکھا کہ دھوپ کی عینک بھی ناک کی نوک پر ٹکائے، اس کے اوپر سے دھوپ کا معائنہ کرتا ہوا بینک آتا جاتا ہے۔ آنکھیں ہلکی نیلی جو یقیناً کبھی روشن روشن رہی ہوں گی۔ ناک ستواں ترشی ترشائی۔ نچلا ہونٹ تحکمانہ انداز سے ذرا آگے کو نکلا ہوا۔ سگرٹ کے دھوئیں سے ارغوانی۔ بائیں ابرو بے ایمان دکاندار کی ترازو کی طرح مستقلاً اوپر چڑھی ہوئی۔ گرجدار آواز۔ جسم مائل بہ فربہی۔ رنگ وہی جو انگریزوں کا ہوتا ہے۔ آپ نے شاید دیکھا ہوگا کہ چینیوں کا چہرہ عمر سے بے نیاز ہوتا ہے اور انگریزوں کا جذبات سے عاری۔ بلکہ بعض اوقات تو چہرے سے بھی عاری ہوتا ہے۔ لیکن یہ بالکل مختلف چہرہ تھا۔ ایک عجیب تمکنت اور دبدبہ تھا اس چہرے پر۔ کمرے میں فرنیچر برائےنام۔ نہ آرائش کی کوئی چیز۔ سارا کمرہ اس کے چہرے سے ہی بھرا بھرا نظر آتا تھا۔ یہ مقابل ہو تو اور کوئی چیز۔۔۔ اس کا اپنا جسم بھی۔۔۔ نظر نہیں آتا تھا۔ 

    اس کا سراپا ہے یہ مصرع
    چہرہ ہی چہرہ پاؤں سے سرتک

    ہم نے تیار شدہ ہاتھ مصافحہ کو بڑھایا تو اس نے اپنا ہاتھ پتلون کی جیب میں ڈال لیا۔ کچھ دیر بعد ’’کریون اے‘‘ کا ’’کارک ٹپڈ‘‘ سگرٹ ڈبے سے نکال کر الٹی طرف سے ہونٹوں میں دبایا۔ وہ بہت برے موڈ میں تھا۔ کانپتے ہوئے ہاتھ سے چائے کی پیالی اٹھائی اور دوسرے کانپتے ہوئے ہاتھ سے زیادہ کانپتے ہاتھ کو تھاما۔ کپ کی ڈگڈگی سی بجنےلگی اور چائے چھلک کر ہماری درخواست کو رنگین کر گئی۔ اب ایک دیا سلائی کو اپنے بہتر ہاتھ میں مضبوطی سے پکڑ کے اس پر ڈبیا رگڑنے لگا۔ لیکن وہ کسی طرح جل کر نہیں دیتی تھی۔ خواہ مخواہ کا تکلف تھا، ورنہ چاہتا تو اسے اپنے بلڈپریشر پر رگڑ کے بآسانی جلا سکتا تھا۔ 

    ہمارا سن پیدائش
    اس نے غلط طرف سے سگرٹ سلگایا۔ کارک کچھ دیر بعد خود جل کر ہماری گیلی درخواست پر چھن سے بجھ گیا۔ اس نے چھنگلیا کے اشارے سے ایک کرسی پر بیٹھنے کو کہا۔ ہم تعمیلاً بیٹھنے والے ہی تھے کہ ناگاہ اسی کرسی کی گہرائیوں سے ایک کتا اٹھ کھڑا ہوا اور ہمارے شانوں پر دونوں پنجے رکھ کر ہمارا گرد آلود منھ اپنی زبان سے صاف کیا۔ ’’مائی ڈاگ از ویری فرینڈلی۔‘‘ کتے سے تعارف کرانے کے بعد اس نے ایک ہی سانس میں سب کچھ پوچھ لیا۔ کیسے ہو؟ کون ہو؟ کیا ہو؟ اور کیوں ہو؟ سوائے آخری سوال کے، ہم نے تمام سوالات کے نہایت تسلی بحش جواب دیے۔ 

    ’’تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس بینک کو میں چلا رہا ہوں، مسٹر اصفہانی نہیں۔ خیر۔ تم نے معاشیات پڑھی ہے؟‘‘ اس نے کہا

    ’’نو سر!‘‘ 

    ’’حساب میں بہت اچھے تھے؟‘‘

    ’’نوسر! حساب میں ہمیشہ رعایتی نمبروں سے پاس ہوا، حالانکہ انٹرمیڈیٹ سے لے کر ایم۔ اے تک فرسٹ ڈویژن فرسٹ آیا۔‘‘ 

    ’’حساب میں فیل ہونے کے علاوہ تمہارے پاس اس پیشے کے لیے اور کیا کوالی فیکیشن ہے؟‘‘

    ’’میں نے فلسفہ میں ایم۔ اے کیا ہے۔‘‘ 

    ’’ہاہاہا! تمہارا سوشل بیک گراؤنڈ کیا ہے؟ کس خاندان سے تعلق ہے؟‘‘

    ’’میرا تعلق اپنے ہی خاندان سے ہے۔‘‘ 

    ’’سچ بولنے کا شکریہ۔‘‘ 

    جی تو بہتیرا چاہا کہ لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دیں کہ بزرگ حب جاہ و مال سے بے نیاز تھے۔ فقط ہمیں اپنی نشانی چھوڑا۔ نادر شاہ نے تو اپنی ولدیت شمشیر، ابن شمشیر، ابن شمشیر بتا کر بدخواہوں اور مؤرخوں کا منہ بند کردیا تھا۔ لیکن یہ فقیر، ابن آدم، ابن آدم، ابن آدم کے علاوہ کیا بتاتا؟ اس کے منہ سے ایسی لپٹ آرہی تھی جیسی روئی کے اس پھوئے سے آتی ہے جو انجکشن سے پہلے نقطہ اذیت پر رگڑا جاتا ہے۔ استفسار فرمایا، ’’تم کب اور کہاں ’ڈلیور‘ ہوئے تھے؟ ہاہاہا!‘‘ وہ زور سے ہنسا۔ ہم ذرا چکرائے تو کہنے لگا، اچھا یہ بتاؤ کہ جس سنہ میں تم پیدا ہوئے، اس سال اور کون سا بین الاقوامی سانحہ ہوا تھا؟

    انٹرویو کے سلسلہ میں ایک عرصہ پہلے ہم نے معلومات عامہ کے نامعقول سے نامعقول سوالوں کے جواب رٹ لیے تھے۔ مثلاً کرکٹ کی گیند کا وزن۔ مکھی کی ٹانگوں اور بیل کے دانتوں کی تعداد۔ نپولین کا قد۔ اگر بینک سے صرف  ۱۰۰روپے %۷ سود پر قرض لیے جائیں تو وہ کس طرح ۲۵۰ سال میں ۴۰۰، ۹۰۲، ۲۱۷، ۲ ہو جائیں گے! خالص سونا کتنے کیرٹ کا ہوتا ہے؟ بلی کی آنتوں کی لمبائی۔ کتا زبان کیوں باہر نکالے رکھتا ہے؟ انسان منھ کھولنے سے کیوں ڈرتا ہے؟ اچھا خاصا (۔۔۔) لکھ کر انہیں حرف غلط کی طرح کاٹا (۔۔۔) کیوں جاتا ہے؟ تخلص پر ڈوئی کیوں بنائی جاتی ہے؟ شیکسپیر کے ہاں شادی کے کتنے ماہ بعد بچہ تولد ہوا؟ بانس پولا کیوں ہوتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ لیکن اپنی پیدائش کے بین الاقوامی متوازیات کی طرف ہمارا دھیان کبھی نہیں گیا تھا۔ 

    ہمارا آدھا جسم جو اس کے مقابل تھا بالکل ٹھنڈا ہوگیا اور ہم انتہائی بے بسی کے عالم میں جھورنے (جھورنا، (پنجابی) گردن ڈال کر عالم غنودگی میں غور فرمانا۔ جیسے ضعیف والا غرمرغا پروں میں چونچ ڈال کر اپنے حال اور مرغیوں کے مستقبل کے بارے میں سوچ سوچ کر کڑھتا ہے۔) لگے تو اس نے ہماری درخواست میں سن پیدائش دیکھ کر اندوہ گیں لہجے میں کہا کہ، ’’ بائی دی وے، جس سال تم پیدا ہوئے اسی سال میرے باپ کا انتقال ہوا۔ بڑا منحوس تھا وہ سال!‘‘ 

    ایک شہر تھا عالم میں انتخاب

    ’’رہنے والے کہاں کے ہو؟‘‘

    ایک دفعہ تو جی میں آئی کہ میرے بے دماغ کی طرح کہہ دیں،

    کیا بود باش پوچھو ہو یورپ کے ساکنو

    لیکن یہ لکھنؤ کا مشاعرہ نہیں، ملازمت کا انٹرویو تھا۔ 

    ’’جے پور۔۔۔ اجمیر کے پاس ہے۔‘‘ ہم نے معذرتی لہجے میں اس شہر کا نام لیا جو کبھی عالم میں انتخاب تھا۔

    OH, YES, THE PINK CITY

    کیا بات ہے! برٹش ریزیڈنٹ نے ہاتھیوں کی لڑائی دکھائی تھی۔ برما میں ہم دونوں کا ایک ساتھ کورٹ مارشل ہوا تھا۔ میں نے دیکھا ہے تمہارا جے پور۔ سارے شہر میں سڑک کے دونوں طرف ہر عمارت کا ایک ساں زعفرانی رنگ۔ اونچے طرے والے راجپوتی صافے اور ان سے بھی اونچی مونچھیں اور ہر دو کو سونڈ سے سلام کرتے ہوئے ہاتھی۔ آسٹریلین گھوڑوں پر پولو۔ کچرے اور غلاظت کی گڈزٹرین جسے مقامی بھینسے کھینچ رہے تھے۔ ایسی ریل میں نے امرتسر میں بھی دیکھی تھی جو ایک محلے کی رقیق غلاظت کی دوسرے محلوں میں گشتی نمائش کرتی پھرتی تھی۔ 

    بھرے بازار میں بلکتے بچوں کے منھ میں کھڑے کھڑے چھاتی دیتی ہوئی عورتیں۔ بعض لاڈلے تو اتنے بڑے ہوگئے تھے کہ خود کھڑے ہوکر کھڑے ہوئے منبع سے جوئے شیر نکال رہے تھے۔ درشنی جھروکوں سے آنکھ مارتی ہوئی ناچ گرلز۔ دھنک کے رنگ کے ابرک سے جھماجھم کرتے ہوئے لہریے شانوں سےڈھلکائے۔۔۔ ایک ایک انچ جوانی، راجستھانی روپ سنگھار اور سفلس سے بھرپور۔ شلو کے میں خس کی ٹٹی کا سینٹ، بالوں میں COOKING OIL (چونک کر) عورت کبھی میری کمزوری نہیں رہی۔ اور وہ تو میں بھول ہی گیا۔ مادرزاد معصوم اور اتنی ہی مدت سے برہنہ فقیروں کی قطار جن کے پیر وغیرہ کو عورتیں دھو دھوکر پیتی ہیں۔ کیا کہتے ہیں ان کو؟‘‘

    ’’دگمبر جین سادھو۔‘‘ 

    F OLIES BERGER کی لڑکیاں اور یہ سادھو کپڑوں کا شمار مکروہات دنیوی میں کرتے ہیں۔ اور ہاں! مجھے سب یاد ہے۔ تمہارے ہوم ٹاؤن میں ہر چوراہے پر مرحوم بزرگوں کے نام پر چھوڑے ہوئے مقدس سانڈ اپنے فرائص منصبی انجام دیتے پھرتے ہیں۔ تمہارے سب بزرگ زندہ ہیں یا۔۔۔؟ پریسٹلی نے کہیں لکھا ہے کہ جے پور سے زیادہ صاف سڑکیں میں نے دنیا میں کہیں نہیں دیکھیں۔ وجہ یہ کہ گوبر اور لید زمین پر گرنے سے پہلے ہی اچھوت عورتیں کیچ لے لیتی ہیں۔‘‘ 

    اس نے زعفرانی بادبانوں کی ساری ہوا نکال دی۔ غریبِ شہر سرجھکائے، چھوڑے ہوئے دیس کو پردیسی کی آنکھوں سے دیکھتا رہا۔ جوشکل نظرآئی تصویر نظر آئی۔ 

    ’’تم راجپوت ہو؟‘‘

    آدھا۔ نانا تھے۔ نو مسلم راٹھور۔ طوطے کی چونچ جیسی ناک والے راٹھور۔‘‘ 

    ’’بالکل لال؟‘‘

    ’’نہیں۔ خم دار۔‘‘ 

    مردانہ کھیلوں سے ہماری دلچسپی
    ’’آخر تم یہ پیشہ کیوں اختیار کرنا چاہتے ہو؟ کوئی معقول وجہ؟‘‘

    ہم کافی نروس ہوچکے تھے۔ دوتین دفعہ زور لگانے کے بعد جو آواز اچانک ہمارے منہ سے نکلی وہ اس سے پہلے ہم نے کبھی نہیں سنی تھی۔ شاید اسے بھی ترس آ گیا۔ اب کے آسان سوال کیا، ’’جوانی، میرا مطلب ہے طالب علمی کے زمانے میں کن کھیلوں سے دلچسپی رہی؟‘‘

    ’’کیرم اور لوڈو۔‘‘ 

    ’’میرا مطلب مردانہ کھیلوں سے تھا۔‘‘ 

    ہمارا یہ خانہ بالکل خالی تھا۔ پانچویں جماعت میں البتہ سالانہ اسپورٹس کی دوڑ میں ہمارا اکیسواں نمبر آیا تھا۔ دوڑ میں اتنے ہی لڑکے شریک ہوئے تھے۔ کچھ دن فٹ بال سے بھی سرمارا۔ آخری لمحہ اتصال تک یہ فیصلہ نہیں کر پاتے تھے کہ اس دفعہ فٹ بال پر اپنا دایاں پاؤں ماریں یا بایاں زیادہ مناسب رہے گا۔ دودھ کے دانٹ ٹوٹنے سے پہلے ہی ہم خاصے دبیز شیشے کی عینک لگانے لگے تھے۔ (جو حضرات ضعف بصارت سے محروم ہیں، ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اب کبھی ہم عینک اتار کر آئینہ دیکھتے ہیں تو بخدا پنے کان نظر نہیں آتے۔ ) کئی دفعہ عینک توڑنے کے بعد اب ہم اسے اتار کر بے خطر کھیلنے لگے تھے۔ کھیلتے کیا تھے، ہر ایک سے مینڈھے کی طرح ٹکریں لیتے پھرتے تھے۔ مخالف ٹیم میں ہمیشہ بہت ’’پاپولر‘‘ اس لیے کہ اپنی ہی ٹیم سے گیند چھینتے اور انہیں کو فاؤل مارتے پھرتے تھے۔ 

    کھیل کے شروع میں ’’ٹاس‘‘ کیا جاتا۔ جو کپتان ٹاس ہار جاتا وہ ہمیں اپنی ٹیم میں شامل کرنے کا پابند ہوتا۔ جب تک مخالف کھلاڑی تاک کر ہمارے پاؤں پر زور سے فٹ بال نہ مارے، وہ ہمارے کک سے محروم ہی رہتی تھی۔ چونکہ سر ہمارے دیدۂ نیم بینا سے قریب ترین عضو تھا، اس لیے ہم نے سر سے فٹ بال روکنے اور گول کرنے کی مشق و مہارت پیدا کی۔ ایک دن ہم نے تین فٹ اچھل کر ’’ہیڈ‘‘ کیا تو جس گول شے سے ہم نے آنکھ بند کرکے اپنی پوری قوت سے ٹکر لی وہ دیوقامت جسونت سنگھ چوہان کا منڈا ہوا سر نکلا۔ وہ شام کو ٹھنڈائی (بھنگ) پی کر فٹ بال کھیلتا تھا۔ ہماری ناک کا بانسہ اور دل ہمیشہ کے لیے ٹوٹ گیا۔ 

    ہم نے عینک اتار کر مردانہ کھیل سے اپنی دیرینہ وابستگی کا ثبوت اینڈرسن کو دکھایا۔ ناک کی خمیدہ ہڈی دیکھ کر بہت ہنسا۔ کہنے لگا تمہارا ایک کان بھی ٹیڑھا لگا ہوا ہے۔ 

    ’’اور تم RIMLESS GLASSES کیوں لگاتے ہو؟ تمہاری صورت سراسٹیفرڈ کر پس سے ملتی ہے۔‘‘ 

    ’’ذرہ نوازی کا شکریہ!‘‘ ہم نے خوش ہو کر کہا۔ 

    ’’مجھے اس باسٹرڈ کی صورت سے نفرت ہے۔‘‘ 

    تو پھر اب کیا جگہ کی قید
    ہم ابھی اس چوٹ کو ٹھیک سے سہلا بھی نہ پائے تھے کہ استفسار فرمایا، ’’کنوارے ہو؟‘‘

    ’’نو سر!‘‘ 

    ’’کتنی بیویاں ہیں؟‘‘اس نے سوال کر کے دونوں ہونٹ بھینچ لیے۔ 

    ’’ایک۔‘‘ 

    ’’مجھے تو چار پر بھی اعتراض نہیں۔ لیکن چار بیویوں میں قباحت یہ ہے کہ چاردفعہ طلاق دینی پڑتی ہے۔‘‘ بھلاوا دے کر پھر وہی سوال دہرایا، ’’سفارش اپنی جگہ، لیکن بینک میں کیوں ملازمت کرنا چاہتے ہو؟ بینکر کے کیا فرائض اور ذمہ داریاں ہوتی ہیں؟‘‘

    یہ سوال سنتے ہی ہمارے ہاتھوں کے روایتی طوطے دوبارہ اڑ گئے اور ایسے اڑے کہ پھر نہ لوٹے۔ ہم پھر ’’جھورنے‘‘ لگے۔ معقول وجہ کے بجائے لطیفے یاد آنے لگے، لیکن یہ موقع اس کے دامن کو ظریفانہ کھینچنے کا نہیں تھا۔ ہم نے تا دم تقریر و تقرر کسی بینک کو اندر سے نہیں دیکھا تھا۔ البتہ اتنا معلوم تھا کہ اگر کوئی شخص یہ ثابت کردے کہ اس کے پاس اتنی جائیداد اور سرمایہ ہے کہ قرض کی قطعاً ضرورت نہیں تو بینک اسے قرض دینے پر رضامند ہو جاتا ہے۔ مارک ٹوین کا یہ مقولہ بھی کہیں پڑھا تھا کہ بینکر اچھے وقتوں کا بہترین ساتھی ہوتا ہے۔ موسم اچھا ہو تو زبردستی اپنی چھتری ہاتھ میں تھما دیتا ہے، لیکن جیسے ہی چھینٹے پڑنے لگیں تو کہتا ہے لاؤ میری چھتری۔ ہمیں تو بس اتنا بتایا گیا تھا کہ بینکر دھڑلے سے سود لیتے ہیں۔ سود دیتے ہیں، اور سود کا حساب رکھتے ہیں۔ اور یہ تینوں فعل از روئے شرع حرام ہیں۔ 

    رہی ’’بزنس مین‘‘ سے واقفیت، سو ہمارا حلقہ شناسائی صرف ایک کائیاں مارواڑی سیٹھ پر مشتمل تھا جو روپیہ اپنی تجوری میں رکھتا تھا اور بلو فلمیں بینک کے لاکر میں، اور جہاں تک بینکنگ کے بارے میں کتابی معلومات کا تعلق تھا تو وہ اس ادبی دریافت تک محدود تھیں کہ ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے جب WASTELAND لکھی تو وہ لائیڈز بینک میں کلرک تھا اور اس پیشے سے اس کا پنڈ چھڑانے کے لیے ازرا پاؤنڈ نے چندے کی ایک عالم گیر مہم چلائی تھی جس میں کلہم تیس پاؤنڈ جمع ہوئے۔ اسی طرح مشہور مزاح نگار جارو سلاؤ ہسلک بھی ایک بینک میں ملازم ہو گیا تھا۔ وہاں جو کچھ اس نے دیکھا، اس سے اتنا اثر لیا کہ بھرے بھتولے گھر پر جھاڑو پھیر کر ہمیشہ ہمیش کے لیے خانہ بدوش ہوگیا۔ 

    اور اگر او۔ ہنری بینک میں غبن نہ کرتا تو دنیا ایک عظیم افسانہ نگار سے محروم ہوجاتی۔ اس نے بینک کے خشک اعداد و شمار میں افسانہ کا رنگ بھر دیا۔ چنانچہ بینک دوالے میں چلا گیا اور اسے خیانت مجرمانہ کے الزام میں پانچ سال کی سزا ہوئی۔ جیل ہی میں اس نے اپنا پہلا افسانہ لکھا اور نام تبدیل کرکے ولیم سڈنی پورٹر سے او۔ ہنری بن گیا۔ او۔ ہنری دراصل اس جیل کے سنتری کا نام تھا۔ اس زمانے میں ہمیں اپنی معلومات عامہ پر بڑا گھمنڈ تھا۔ اور دن میں بھی وہ سرمستی و نخوت طاری رہتی تھی جو خاقانی ہند شیخ ابراہیم ذوق کو صرف رات گئے میسر آتی تھی:

    شب کومیں اپنے سر بستر خواب راحت
    نشۂ علم میں سرمست غرور و نخوت

     

    لیکن اس کڈھب سوال سے سارا نشۂ عالم ہرن ہوگیا۔ 

    NEGOTIABLE INSTRUMENTS ACT کا نام ضرور سنا تھا۔ شروع میں تو ہم سمجھتے تھے کہ ARMS ACT کی طرح سود خوروں کے لیے انتقال آلات قتل کا کوئی قانون ہو گا۔ بعد میں بھی معلوم ہوا تو بس اتنا کہ کسی لیڈر کی روح عالم بالا کو پرواز کر جائے یا سکے کی قیمت زمین پر آرہے تو بینک اس قانون کے تحت بند کیے جاتے ہیں۔ لیکن جب تک کوئی لیڈر قوم کو داغ مفارقت نہ دے تو اس قانون کا کیا مصرف ہے، بینک اس طویل وقفہ انتظار میں وقت گزاری کے لیے کیا کرتے ہیں۔۔۔ اس کے بارےمیں کبھی سوچا ہی نہ تھا۔ 

    ایک کم پانچ اور ایک اوپر تین کا فرق
    بینکاری کے اسرار و رموز تو کجا، ہم نے تو زندگی میں کسی مسلمان بینکر کا نام بھی نہیں سنا تھا۔ تقسیم ہند سے پہلے اس ’’آؤٹ آف باؤنڈز‘‘ پیشے میں اعلیٰ ہی نہیں، ادنی عہدوں پر بھی انگریز اور ہندو فائز تھے۔ البتہ مسلمانوں پر اپنی جمع جتھا سیونگ بینک اکاؤنٹ میں جمع کرانے پر کوئی پابندی نہیں تھی،

    اور بیچارے مسلماں سے فقط وعدۂ سود! 

    لیکن ہم دھوکے میں آنے والے نہیں۔ بزرگوں نے صدیوں پہلے کفایت شعاری کو ہندوانہ رسم سمجھ کر ترک کردیا تھا۔ سو پشت سے جن قوموں اور قبیلوں کا پیشۂ آبا سپہ گری (یعنی پہلے دشمن بنانا اور پھر انہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر موت کے گھاٹ اتارنا یا وہ اس پر رضامند نہ ہوں تو خود اتر جانا) رہا ہو، وہ تجارت کو پتلی دال کھانے والے بقالوں کا حق سمجھ کر اس سے اجتناب کریں تو تعجب نہ ہونا چاہیے۔ مہابلی اکبر نے بھی آخر کار محکمہ مال کا چارج راجہ ٹوڈرمل کو تفویض کیا اور فیضی کو بھگوت گیتا اور مہابھارت کے فارسی ترجمے میں جوت دیا۔ (بیربل کو البتہ راقم الحروف کے فرائض سونپے گئے کہ خبردار! منہ سے کبھی کوئی سنجیدہ بات نکالی تو وہیں زبان گدی سے کھینچ لی جائے گی۔ ) 

    ایک ریت سی پڑگئی تھی کہ مسلمان رؤسا اور جاگیرداروں کی آمدنی کا حساب تو ہندو منیم رکھتے اور خرچ کا حساب خود عدالت کو قرقی کے وقت بنانا پڑتا تھا۔ اعمال کے حساب کتاب کا جنجال بھی ہم نے کراماً کاتیبن کو اور متعلقہ آڈٹ منکر نکیر کو سونپ رکھا ہے۔ ہمیں روپیہ ہمیشہ کم ہی معلوم ہوتا ہے۔ مسلمان ۲ اور ۲ کو ۴ نہیں، بلکہ ایک کم پانچ کہتا ہے۔ جب کہ ہندو ایک اوپر ۳ کہتا ہے۔ یہ قول رابرٹ کلایو کے ایک ہم عصر سے منسوب ہے کہ روپیہ بچاکر رکھنے کے معاملے میں مسلمان چھلنی کی طرح ہوتا ہے اور ہندو اسفنج کی مانند۔ 

    سوداگری کو کسر شان سمجھنے کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ دو دمان تیموریہ پر جب ملک خدا تنگ ہوا تو اس کا آخری چشم و چراغ مہاجن سے قرض لے کر فوج کی تنخواہیں چکاتا اور اپنی غزلوں کی اصلاح کرنے والے استاد، نجم الدولہ دبیر الملک مرزا اسداللہ خاں غالب کو چاندی کے طشت میں زربفت کے تورہ پوش سے ڈھکا ہوا سیم کے بیجوں کا توشہ بھیجتا۔ تقسیم سے پہلے کے تین چارسو برسوں میں خاص کر، برصغیر کے مسلمان نے تجارت کو اپنی شانِ قلندری کے خلاف سمجھا۔ اس لیے کہ اس میں یہ اندیشہ تھا کہ ذرا سی غفلت یا لاپروائی سے کہیں منافع نہ ہوجائے۔ چمڑے اور کھالوں کی ساری تجارت البتہ مسلمانوں کے ہاتھ میں رہی، جس کی تین وجہیں تھیں۔ اول تو یہ انہیں مرحومین کی آخری نشانی تھی جنہیں وہ برغبت کھا چکے تھے۔ دوم یہ کہ ہندو اس کاروبار کو ناپاک سمجھتے تھے۔ سوم، خوش قسمتی سے ان تاجروں کا تعلق چنیوٹ سے تھا جو دلی کے دربار سے ہنوز دور تھا۔ ان کی سوجھ بوجھ کے سامنے مارواڑی بھی کان پکڑتے ہیں۔ مشہور ہے کہ چنیوٹی یا میمن پاگل ہو جائے تب بھی دوسرے کی پگڑی اتار کر اپنے ہی گھر میں پھینکتا ہے۔ پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ۔ 

    حساب کتاب کا جنجال
    تعجب کی بات تو یہ ہے کہ اردو کی داستانوں میں سوداگروں کا ذکر اگر کہیں آتا ہے تو وہ محض قزاقوں سے لٹنے کے لیے۔ اور یہ بھی اس طور پر کہ پڑھنے والے کی اخلاقی ہمدردی ہمیشہ لوٹنے والے کے ساتھ رہتی ہے۔ اردو غزل میں، ہمیں یاد نہیں کہ کسی شاعر نے سوداگر کو کلمہ خیر کے ساتھ یاد کیا ہو۔ ہاں ایک نظم، مثنوی زہر عشق، میں سوداگر درآیا ہے۔ وہ بھی فقط اس لیے کہ اس کی ایک دختر تھی جو خلاف محاورہ، نیک اختر نہ نکلی۔ مگر جس سے آگے چل کر شاعر کو ردیف وقافیہ کی چول بٹھانے کے علاوہ اور بھی بہت سے کام لینے تھے جن میں خلوت کی ملاقاتیں، ان کے لازمی نتیجہ میں خودکشی اورآخرالذکر سے پہلے ’’پان کل کے لیے لگاتے جائیں‘‘ کا فریضہ شامل تھا،

    جس محلے میں تھا ہمارا گھر
    وہیں رہتا تھا ایک سوداگر

    ایک دختر تھی اس کی ماہ جبیں
    شادی اس کی ہوئی نہیں تھی کہیں

    آخری مصرع میں جو نوید مسرت ہے بس اسی نے پچھلے تین مصرعوں میں جان سی ڈال دی ہے۔ اور تو اور عوامی شاعر نظیراکبرآبادی نے سود بڑھاکر لانے اور ٹوٹا گھاٹا پانے والے بنجارے کے ٹھاٹ باٹ کو مٹی میں ملایا سو ملایا، تعلقات زناشوئی پر بھی ہاتھ صاف کرگئے، دھی، پوت، جنوائی، بیٹا کیا، بنجارن پاس نہ آوے گی۔ 

    بچپن کی بات ہے۔ شاید اسی لیے اچھی طرح یاد ہے۔ پورے قصبہ چاکسو (خورد) میں تجارت وجارت تو بڑی بات ہے، کسی مسلمان کی پنساری تک کی دکان نہ تھی۔ ۱۹۳۳ء میں چند مسلمانوں نے قرض حسنہ اور چندہ جمع کرکے سرمایہ فراہم کیا اور صولت یار خاں ریٹائرڈ سب انسپکٹر پولیس کو مسلمانوں کے محلے میں پرچون کی دکان کھلوادی۔ اس زمانے میں کوڑیاں بھی چلتی تھیں۔ دھیلے کا گھی اور چھدام کے بیگن خریدتے غریبوں کو ہم نے بھی دیکھا ہے۔ چھوٹے بینگن کا ’’جھونگا‘‘ (جھونگا، (پنجابی) وہ فاضل چیز جو سودا خریدنے والے کو ردکن میں ملے۔) اس کے علاوہ صولت یار خاں کو منافع سے تو دلچسپی تھی، لیکن حساب کتاب کو مکروہ گردانتے تھے۔ دکان میں ان کی مسند تکیے، حقے اور ترازو کے سامنے آٹا، شکر، بیسن، نمک، مرچ، دالیں اور مسالے، الٹی ہوئی آستین کی طرح ادھ کھلی بوریوں میں بھرے رہتے تھے۔ جو چیز جتنی بکتی اس کی قیمت اسی بوری یا کنستر پر سارے دن پڑی رہتی تا کہ حساب میں آسانی ہو۔ شام کو ہرجنس کی بکری کو علیحدہ علیحدہ گنتے۔ روکڑ کی میزان نہیں بیٹھتی تو اپنا دل نہیں جلاتے تھے۔ 

    بہی کھاتوں میں ایک نئی مد ’’بھول چوک لینی دینی‘‘ کھول لی تھی۔ روزانہ کیش میں جو کمی واقع ہوتی وہ اسی کے متھے مارتے۔ ہوتے ہوتے اس مد میں کافی رقم چڑھ گئی جو تقریباً اصل سرمایہ کے برابر تھی۔ شب برات کی صبح مرزا عبد الودود بیگ جن کی عمر اس وقت سات سال ہوگی، چھ پیسے کی زعفران لینے گئے۔ زعفران کی پڑیا لے کر انہوں نے صولت یارخاں کو ایک کلدار روپیہ تھمایا۔ اتفاق سے زعفران کی ابھی بوہنی نہیں ہوئی تھی اور اس کے ڈبے پر کوئی ریزگاری نہیں تھی۔ صولت یار خاں نے بندھی بندھائی پڑیا مرزا کے ہاتھ سے چھین کر کہا ہشت! ہمارے پاس ریزگاری نہیں۔ گوبندا بنئے کی دکان سے خریدلے۔ مرزا نے انگلی سے ریزگاری کی ان ڈھیریوں کی طرف اشارہ کیا جو تقریباً ہر بوری اور کنستر پر پڑی تھیں۔ ارے صاحب وہ تو آپے سے باہر ہوگئے۔ دھمکی آمیز انداز سے دوسیری (دوسیر سے زیادہ کچھ تولنا ہو تو باٹ گاہک کو اٹھانے پڑتے تھے۔) اٹھاتے ہوئے بولے، مرغی کے! دوسری ڈھیری میں سے ریزگاری نکال کے تجھے دے دوں تو شام کو حساب کون کرے گا؟ تیرا باپ؟

    ہمارا چوتھی کھونٹ جانا
    بچپن میں ہم کبھی ’’کیریر‘‘ کے بارے میں سنجیدگی سے سوچتے تھے تو انجن ڈرائیوری کے سامنے بادشاہی بھی ہیچ معلوم ہوتی تھی۔ نام خدا ذرا سیانے ہوئے اور دل سے جن، بھوت اور بزرگوں کا ڈر نکلا اور وہ دن آئے ’’جب سائے دھانی ہوتے ہیں، جب دھوپ گلابی ہوتی ہے‘‘ تو گھنے جنگلوں میں ٹارزن کی سی سادہ زندگی گزارنے کا عزم کیا۔ نہ امتحان کا کھٹکا، نہ روز صبح منھ دھونے کا کھڑاگ۔ محبوبہ ایک گز بھی دور کھڑی ہو تو زورشباب میں اکیس گز کی چھلانگ لگانا۔ پھر واپس بیس گز کی چھلانگ لگا کر پہلو میں پہنچنا اور چنگھاڑنا۔ جٹادھاری برگد کی داڑھی یا یہ ہاتھ نہ لگے تو لنگور کی دم پکڑکے جھولتے ہوئے زوں سے ایک درخت سے دوسرے درخت اور ایک مقام سے دوسری دم تک پہنچنا۔ بن میں ترے کودا کوئی یوں دھم سے نہ ہوگا! پھر اپنے اور حور صحرائی کے درمیان کوئی دریا، ظالم سماج کی طرح حائل ہوجاتا تو اسے اس کے والد یا مگر مچھ کی پیٹھ پر بیٹھ کر پار کرتے۔ 

    مگر ہوتا یہ تھا کہ جو کہانی بھی پڑھتے اس کے ہیرو کا محبوب مشغلہ بلکہ محبوبہ تک کو اپنانے کا فیصلہ کرلیتے۔ کسی کے منہ پر سہرا لٹکا دیکھتے تو واللہ تن بدن میں آگ لگ جاتی۔ محسوس ہوتا گویا ہماری ذاتی حق تلفی ہو رہی ہے۔ اور اگر صلیبی جنگیں بند کرنے میں فریقین اور مولانا عبد الحلیم شرر اتنی عجلت سے کام نہ لیتے کہ ہمیں پیدا ہونے کا موقع تک نہ دیا، تو آج ہماری قبر قسطنطنیہ، رومانیہ، ہسپانیہ یا کسی اور ترقی یافتہ ملک میں ہوتی۔ ہم نے خود کو ہر بہروپ، ہر سوانگ میں دیکھا تھا، سوائے بینکر کے۔ یہ وہ چوتھی کھونٹ تھی جس طرف جانے کی داستانوں میں سخت مناہی ہوتی ہے۔ لیکن جدھر جانے والا ضرور جاتا ہے اور پچھتاتا ہے۔ 

    حلال و حرام
    ’’پڑھوگے لکھوگے بنوگے نواب، کھیلوگے کودوگے ہوگے خراب۔‘‘ بزرگوں کی اس نصیحت اور علم نجوم سے لبریز پیش گوئی پر سارا بچپن نچھاور کروانے کے بعد جب ہماری باری آنےلگی تو یار لوگوں نے ریاستیں رجواڑے ہی ختم کردیے۔ لیکن بات دراصل یہ ہے کہ آدمی ذرا اوریجنل ہو تو کھیلے کودے بغیر بھی خود کو خراب و خوار کرنے کی کوئی نئی راہ نکال ہی لیتا ہے۔ تیسری جماعت تک ٹونک (راجستھان) میں خود پر تعلیمی تجربے کروائے۔ وہاں اسکول میں ظہر کی نماز باجماعت ہوتی تھی جسے بے وضو ادا کرنے یا سجدے میں ہنسنے پر انگلیوں کے دمیان نیزہ کا قلم رکھ کر دبایا جاتا تھا جو اکثر اس سزا کی تاب نہ لاکر ٹوٹ جاتا تھا۔ قتل عمد کی سزا موت تھی۔ جلاد جب ٹھرا پی کر گردن اڑاتا تو تماشا دیکھنے کے لیے شہر کا شہر امنڈ پڑتا۔ 

    رقیق القلب لوگ سبز عینک لگاکر جاتے تھے جو اس زمانے میں صرف اس وقت پہنی جاتی تھی جب آنکھیں دکھنی آجائیں۔ اس سے خون بینگنی اور تلوار سبز نظر آتی تھی۔ محکہ قضاۃ اور عدالت شرع شریف بھی تھی، گو کہ اس کا دائرہ بے اختیاری سکڑتے سکڑتے طلاق اورآشنائی کے لذیذ قضیوں تک محدود ہوگیا تھا۔ (حیدرآباد دکن میں تو طوائفوں اور تاڑی پر نظر رکھنے والے سرکاری محکمہ کو محکمہ بدعت کہتے تھے۔) ٹونک میں دین اور شاعری کا برا چرچا تھا۔ جلاد اور امراء و شرفا کے علاوہ عام آدمی کو شراب پینے کی اجازت نہ تھی۔ خدا نہ سہی، قاضی شہر کا خوف ابھی دلوں سے دور نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ خلاف شرع کوئی کام کرنا ہو تو مسلمان اپنی ترکی ٹوپیاں اتار کر جیب میں رکھ لیتے تھے۔ ٹونک کے ایک سیلانی نواب زادے مصر اور ترکی گئے تو اس بات پر بہت متعجب ہوئے کہ وہاں تو مسلمان نماز بھی ٹوپی اتار کر پڑھتے ہیں۔ 

    ہم تو سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ سود جسے حرام ٹھہرایا گیا ہے اور ربا جس کی حرمت میں ہمیں آج بھی شمہ برابر شبہ نہیں، ہمارا ذریعہ معاش ہی نہیں، بلکہ ہر اعتبار سے غالب و کار آفریں، کار کشاد کار ساز ثابت ہوگا۔ والد مرحوم پاکستان آنے لگے تو اپنے پوسٹ آفس سیونگ بینک اکاؤنٹ میں ساڑھے چار ہزار روپے چھوڑ أئے تھے جو ان کے حساب سے بیس سال کے سود کی رقم بنتی تھی۔ وہ کسی ایسے مسلمان کے ہاں دعوت کھانا تو بڑی بات ہے، پانی پینا بھی حرام سمجھتے تھے جس کے متعلق انہیں معلوم ہو کہ وہ اپنے اکاؤنٹ پر سود لیتا ہے۔ انہوں نے ایک دن امام ابوحنیفہ کا قصہ سنایا تھا کہ ایک شخص کی تدفین کے بعد لوگ ایک مکان کی دیوار کے سائے میں کھڑے ہوگئے۔ مگر امام ابوحنیفہ دور چلچلاتی دھوپ میں کھڑے رہے۔ کسی نے پوچھا حضرت! آپ سائے میں کیوں نہیں آجاتے؟ آپ نے جواب دیا اس مکان کا مالک میرا مقروض ہے، اگر میں اس کے سایہ دیوار سے فائدہ اٹھاؤں تو ڈرتا ہوں کہ روز حساب اس کا شمار سود میں نہ ہوجائے۔ 

    خیال آیا کہ ملازمت مل بھی گئی تو اسے باپ کو یہ کیسے بتائیں گے کہ مچھندر نے بہر طور روٹی کمانے کے لیے کیا کسب اختیار کیا ہے۔ وہ ریاست ٹونک میں پولٹیکل سکریٹری رہ چکے تھے۔ ریاستی خوبو سے مبرا، پابند شرع، سادہ دل مسلمان تھے۔ کٹے، بے علم نہ تھے۔ جے پور کے پہلے مقامی مسلمان تھے جس نے ۱۹۱۴ میں بی اے کیا۔ اچھی طرح یاد ہے کہ ٹونک میں بڑے کنویں کے سامنے ہماری لق و دق حویلی میں ہزہائی نس نواب حافظ سر ابراہیم علی خاں، والی ریاست، کے درجنوں فوٹو ہراس جگہ ٹنگے تھے جہاں کیل بغیر اس خدشے کے ٹھونکی جاسکتی تھی کہ ساری دیوار نہ آن پڑے۔ انہوں نے ہر ایک کی ناک چاقو سے چھیل دی تھی، اس لیے کہ ان کا عقیدہ تھا کہ شبیہ مکمل ہو تو اس گھر میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔ ساٹھ ستر امرا، صاحبزادگان اور درباریوں پر مشتمل ایک گروپ فوٹو، جس میں وہ خود بھی شامل تھے، ایک طاقچے کی زینت تھا۔ اس کا بھی وہی نقشہ تھا۔ ناوک نے تیرے ناک نہ چھوڑی زمانے میں! 

    نواب صاحب، جو اسی کے پیٹے می ںہوں گے، خود بھی حافظ و متشرع، تہجد گزار، سادہ و نیک طینت مسلمان تھے۔ اپنی ناک آپ چھیلتے تھے۔ فیضی رحمین سے انہوں نے جو اپنی قد آدم پینٹنگ بمبئی جا کر بصرفِ کثیر بنوائی تھی، اس کی ناک انہوں نے اپنے جد اعلیٰ امیر خاں لٹیرے کی قرولی سے ٹونک میں خود چھیلی تھی۔ رعایا کو اس خداترس، درویش منش فرمانروا سے بے پناہ عقیدت تھی۔ چنانچہ یکم محرم کو پیدائش کے بعد ہمیں اس وقت تک کوئی کپڑا نہیں پہنایا گیا، جب تک عشرہ کے بعد اس بزرگ کی اترن کے تبرک سے ہمارا پہلا کرتا نہ سل گیا۔ خدا علیم و خبیر ہے۔ وہی جانتا ہے کہ اس عقیدت و ارادت میں مصلحت و مصاحبت کو کتنا دخل تھا۔ ہم نے اپنے ہوش میں پہلی دفعہ جے پور کا میوزیم دیکھا تو بڑا تعجب ہوا کہ صدیوں پرانی مورتیاں اور بت البرٹ ہال کے کاریڈور میں قطار اندر قطار سجے ہیں۔ ہر طرح صحیح و سالم۔ لیکن ناک ہر ایک کی ٹوٹی ہوئی۔ جب ذرا سوجھ بوجھ پیدا ہوئی تو سمجھ میں آیا کہ اس آذر کدے سے ہردور، ہر صدی میں نام بدل بدل کر، کوئی ابراہیم علی خاں مع اپنے مشیر با تدبیر کے گزرتا رہا ہے۔ 

    ہمارے برہمچاری آشرم میں چھ ہفتے کی توسیع
    ’’تم یہ پیشہ کیوں اختیار کرنا چاہتے ہو؟ کوئی معقول وجہ؟‘‘ ذہن پر بہیترا زور دیا۔ وہ اگر معقول کی پخ نہ لگاتا تو ہم ایک ہزار ایک وجوہات گنوا سکتے تھے۔ اور اگر اس نے ہماری سچ بولنے کی عادت کو اس شدت سے نہ سراہا ہوتا تو ہم یہ جھوٹ بول کر پیچھا چھڑا لیتے کہ حساب کتاب سے ہمیں پیدائشی لگاؤ ہے۔ لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ بزرگ ہمارے حساب کے نمبر دیکھ کر مشتعل ہو جاتے اور ہر سوال پر صفر کو صحبت بد کا ثمرہ سمجھتے۔ (حاشا وکلا! مرحوم بزرگوں کی خطاکی گرفت کرنا ہمارا کام نہیں، فرشتوں کا فرض ہے۔ لیکن صحبت بد کی وضاحت اور ’’ریکارڈ درست رکھنے‘‘ کی خاطر خدا کو حاضر و ناظر جان کر عرض کرتے ہیں کہ جتنی بھی گالیاں ہمیں یاد تھیں وہ سب ہم نے اپنے بزرگوں اور ماسٹروں ہی سے سیکھی تھیں۔) 

    ان دنوں ہمیں اس کا بڑا ارمان تھا کہ کاش ہمارے سر پر سینگ ہوتے تو بزرگ ہمیں کم از کم گدھا تو نہ سمجھتے۔ مرزا کے دودھیالی بزرگ تو ان کی پیٹھ پر باکسنگ کی مشق بھی کرتے تھے۔ ساتویں جماعت میں جب ہمیں انگریزی میں ۱۰۰ میں سے ۹۱ اور حساب میں پندرہ نمبر ملے تو ہم نے گردھاری لال شرما سے رجوع کیا جس نے بالکل یہی نمبر حاصل کیے تھے۔ مضامین کی ترتیب البتہ الٹی تھی۔ اس نے ہمیں بتایا کہ ہندوستان کا سب سے بڑا ریاضی داں رامانج رات کو چراغ کی روشنی میں اس طرح پڑھتا تھا کہ ایک ڈوری سے اپنی چوٹی کو چھت کے کڑے سے باندھ لیتا تھا تاکہ نیند کا جھونکا آئے تو آنکھوں کے آگے بجلی سی کوند جائے۔ لیکن ہم نےاسے بتایا کہ ہماری چھت کے کڑوں میں تو پہلے سے ہی فرشی پنکھا لٹک رہا ہے، جسے صرف بقرعید پر اتارتے ہیں تاکہ قصائی ان میں بکرے الٹے لٹکا کر کھال اتار سکے۔ بغل تک ہاتھ اور بند مٹھی کھال میں گھسا گھسا کر۔ گردھاری لال شرما نے ہاتھ جوڑ کر ہمیں مزید تفصیلات میں اترنے سے روکا اور اپنی تجویز فوراً واپس لے لی۔ 

    کچھ دیر بعد کہنے لگا کہ چنتا نہ کرو۔ بچار کرکے کل تک کوئی اور اپائے نکالوں گا۔ دوسرے دن اس نے اپنا بچن پورا کیا اور حساب میں ۹۱ نمبر لانے کے دو گر بتائے۔ پہلا تو یہ کہ بھوگ بلاس سے دور رہو۔ آج سے پرتگیا کرلو کہ امتحان تک برہمچریہ کا پالن کروگے۔ ہٹیلی کامنائیں یا چنچل بچار ہلہ بول دیں تو تین دفعہ ’’اوم! شانتی! شانتی! شانتی!‘‘ کہنا۔ اس سے بیاکل سا گر اور بھڑکتا جوالا مکھی بھی شانت ہو جاتا ہے۔ اوم! شانتی! شانتی! شانتی! 

    ہم نے کہا نہ بابا! یہ ہم سے نہ ہوگا۔ بولا بھائی جی! تم مسلے ہوتے ہو بڑے کٹے۔ ہم نے کہا یار! یہ بات نہیں۔ ہمیں تو اس سے شانتی کھنا یاد آنے لگے گی۔ بولا نا! نا! پھر تو سوتے سمے پرانے پیڑ ےکی لسی پی لینا۔ کسی کو لو لگ جائے تو پلاتے ہیں۔ اور جیسے ہی سندر سپنا دکھائی دینے لگے تو انٹرول میں ہی اٹھ کھڑے ہونا اور ایک لال مرچ کی دھونی لے لینا۔ ایک پل، ایک چھن کے لیے بھی استری کا دھیان من میں نہ لانا۔ 

    ’’کوئلے سے گرم ہونے والی کا بھی نہیں؟‘‘ ہم نے وضاحت چاہی۔ 

    ’’پاس ہونا ہے تو برہمچریہ کا پالن کرنا ہوگا۔‘‘ 

    خیر۔ اس شرط سے تو ہم زیادہ بددل نہ ہوئے۔ اس لیے کہ بارہ برس کی عمر میں ڈیڑھ دو مہینے اور برہمچاری رہنا کچھ ایسا دشوار نہ تھا۔ ہم نے حتی الامتحان کوشش کرنے کا وعدہ کیا۔ دوسرا گر یہ بتایا کہ چوٹی کا کشٹ نہیں اٹھاسکتے تو سر پر باریک مشین پھر والو۔ اور بیچ میں استرے سے منڈواکر ایک پان بنوالو۔ اور اسے سرولی آم کی گٹھلی سے رگڑواؤ۔ ساری بھوسی جھڑجائے تو اس پر گائے کے مکھن کی ٹکیہ رکھ کر کھلے آکاش تلے سوال نکالا کرو۔ ہاں! تالو اس کارن منڈواتے ہیں کہ دھرماتماؤں کے پران کھوپڑی کے رستے ہی نکلتے ہیں۔ پھر اس کا چمتکار دیکھنا۔ میری چوٹی ٹائیفائڈ کے بعد جھڑگئی تھی۔ میں نے تو یہی کیا۔ اور یار میاں جی! سادھارن جیون بتانا سیکھو۔ گرم چیزوں سے ایک دم پرہیز۔ گوشت، گرم مصالحے، گڑ کی گجک، اور اردو گجل سے چالیس دن الگ رہنا۔ 

    اس کے بدلے، انگریزی میں ۹۱نمبر حاصل ہونے کا جو نسخہ ہم نے اس رامانج کے لیے تجویز کیا اس میں صرف وہ اجزا شامل تھے جن سے اس نے ہمیں پرہیز کرنے کی تاکید کی تھی۔ بہرحال ہم نے اس کی ترکیب پر ۱۲، ۱۳ شب عمل کیا، جس میں یوم الحساب کی چاندرات بھی شامل تھی۔ لیکن ہوتا یہ تھا کہ کھلے آسمان کے نیچے پان اور اس کے متصلہ علاقے کو ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا لگتی تو آنکھیں آٹھ بجے آپ ہی آپ بند ہوجاتیں۔ برے برے خیال آنے کا انتظار ہی رہا۔ ہمیں تو نیند ہی آئی شباب کے بدلے۔ 

    سمندری موت کی ہوائی موت پر فضیلت
    مسٹر اینڈرسن نے آخری مرتبہ بڑی دھیرج سے سوال کیا، ’’تم اس پیشے میں کیوں آنا چاہتے ہو؟ میں یہ سوال تمہیں انٹرویو میں فیل کرنے کے لیے نہیں پوچھ رہا ہوں۔ اگر یہی منشا ہوتا تو میں یہ بھی پوچھ سکتا تھا کہ بتاؤ اس کتے کے والد کا کیا نام ہے؟ ہو! ہو! ہو!‘‘ 

    ’’میرا تقرر مسٹر ایم۔ اے۔ اصفہانی نے اورینٹ ایئرویز میں کیا تھا۔ میں سول سروس چھوڑ کر ہندوستان سے کراچی آیا۔ یہاں معلوم ہوا کہ حال ہی ایک ہوائی جہاز گر گیا ہے۔‘‘ 

    ’’تم پائلٹ ہو؟‘‘

    ’’نہیں تو! ایرکریش میں وفات پانے کے لیے آدمی کا پائلٹ ہونا ضروری نہیں۔‘‘ 

    You’re telling me!

    ’’سر! مجھے یوں بھی ہوائی جہاز سے سخت نفرت ہے۔‘‘ ہم نے جھوٹ بولا جس میں سچ کا عنصر صرف اس قدر تھا کہ مناباؤ سے کھوکھرا پار تک ہندوستان و پاکستان کا سرحدی علاقہ ہم نے اونٹ کے کوہان پر بیٹھ کر طے کیا تھا۔ (اونٹ کے بقیہ حصوں پر دوسروں کا اسباب رکھا تھا۔) انٹرویو کے دن تک ہماری ٹانگوں کا درمیانی فاصلہ اسی کوہان کے برابر یعنی ایک گز تھا۔ جیسے کسی نے چمٹے کو چیر کر سیدھا کردیا ہو۔ 

    ’’ہاہاہا! عالی دماغ لوگ ایک ہی طرح سوچتے ہیں۔ مجھے بھی اس شیطانی ایجاد سے سخت چڑ ہے۔ سمندری سفر سے بہتر کوئی سفر نہیں۔ شاہی سواری صرف ایک ہے۔۔۔ اسٹیمر۔ سب سے بڑی خوبی یہ کہ چوبیس گھنٹے کا سفر چوبیس دن میں طے ہوتا ہے۔ پھر یہ کہ فری ڈرنکس۔ میں تو پچھلے تیس سال سے لندن سے ہمیشہ بحری جہاز سے آتا ہوں،

    After all, a ship-wreck is much safer than an air-crash! Don’t you agree?

    مجھے یہ جان کر بے انتہا خوشی ہوئی کہ تم بھی ہوائی جہاز سے الرجک ہو۔ آج سے تم خود کو بینک کا COVENANTED OFFICER سمجھو۔‘‘ 

    پسلی پھڑک اٹھی نگہ انتخاب کی:اس انٹرویو کو تیئس سال ہوگئے۔ ہمارا خیال کیا، پختہ یقین ہے کہ اس نے ہمیں بینک میں محض اس لیے ملازم رکھ لیا کہ ہمیں بھی ہوائی جہاز سے نفرت تھی۔ ہوائی کمپنی اور خدا ہمیں معاف کرے، ہمیں اس ایجاد سے ابھی تک کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ تا دم تحریر ہم کسی ہوائی حادثے میں ہلاک نہیں ہوئے، جیسا کہ بہت سے ذہین قارئین نے اندازہ لگالیا ہوگا۔ لیکن کبھی کبھی احمقانہ فقرے سے بھی آدمی کے دن پھرجاتے ہیں، بشرطیکہ سننے والا بھی اس صنف سخن کا قدردان ہو۔ اینڈرسن کم و بیش نوسال پاکستان میں رہا، لیکن لاہور محض اس لیے نہیں گیا کہ وہاں پانی کا جہاز نہیں جاتا۔ لاہور کو ’’کنٹری سائیڈ‘‘ کہتا تھا۔ حالانکہ اس کے اپنے آبائی گاؤں کی آبادی دوسو نفوس پر مشتمل تھی۔ نصف آبادی وہسکی بناتی اور بقیہ نصف اسے پیتی تھی۔ خیر، ہم ٹوکنے والے کون۔ کنویں کے مینڈک کو تالاب کے مینڈک کا مذاق اڑانے کا حق نہیں پہنچتا۔ ہم خود اندرون سانگانیری گیٹ، جے پور، کے رہنے والے تھے اور عرصہ دراز تک باقی ماندہ برصغیر کو OUTSIDE SANGANERI GATE سمجھتے رہے۔ 

    ہماری سیہ پوشی
    اس نے ہمیں تقرری پر مبارکباد دی۔ ہم نے بھی جی کھول کر اس کے حسن انتخاب کی داد دی۔ ابھی ہم نے انگریزی کا دوسرا جملہ اپنے خراد پر چڑھایا ہی تھا کہ اس نے پوچھا، ’’اسکاٹ لینڈ کی کس چیز کی ساری دنیا میں دھوم ہے؟‘‘

    ’’بیگ پائپ میوزک، وہسکی اور کنجوسی۔‘‘ 

    ’’اور؟‘‘ اس نے منھ بگاڑ کر پوچھا۔ 

    ’’بل ٹیریر کتے، گاف کلب، KILT اورHAGGIS ( KILT مردوں کا گھٹنوں سے اوپر تک کا اسکرٹ جو صرف اسکاٹ لینڈ والے پہنتے ہیں۔ HAGGIS دل، کلیجی اور پھیپھڑے کو اوجھڑی میں بند کرکے دم پخت کرتے ہیں) ہم نے سب کچھ اگل دیا۔ وہ انگارہ ہوگیا۔ ’’معلوم ہوتا ہے تم نے اپنا سارا جنرل نالج ان گندے لطیفوں سے کشید کیا ہے جو انگریزوں نےاسکاٹ لینڈ کے بارے میں گڑھ رکھے ہیں۔ تمہیں معلوم ہونا چاہے کہ اسکاٹ لینڈ کا سب سے قیمتی سرمایہ، سب سے مشہور چیز تمہارے سامنے بیٹھی ہے۔۔۔ اسکاٹ بینکر۔ ہمارا لوہا ساری دنیا مانتی ہے۔ ہم جب قرض دیتے ہیں تو اس میں سے سارا سود پیشگی مجرا کرکے دھروالیتے ہیں۔ ہمارا سود کبھی نہیں ڈوبتا۔ اصل رقم بھلے ہی ڈوب جائے اور محتاط اور وہمی اتنے کہ جب تک یکم جنوری کے سورج کو اپنی آنکھ سے نہ دیکھ لیں، اسکاٹ لینڈ میں کوئی شخص دیوار پر نئے سال کا کیلنڈر نہیں ٹانگتا۔ مجھے تو تمہاری خوش نصیبی پر رشک آرہا ہے کہ تم ایک اسکاٹ بینکر سے اس پیشے کی ابجد سیکھوگے۔ 

    اولین فرصت میں لندن سے RAE’S COUNTRY BANKER منگواکر حفظ کرلو۔ ہمارے پیشے کی بائیبل ہے۔ اس کے علاوہ لارڈ چیسٹر فیلڈ کے خطوط پڑھا کرو۔ دو سو سال سے ان کا شمار کلاسکس میں ہوتا ہے۔ پندو نصائح اور ’ورڈلی وزڈم‘ (فراست ارضی) سے بھرپور۔ اخلاقیات، نفسیات اور آدابِ مجلس کے بڑے باریک نکتے ملیں گے۔ خون جگر سے لکھی ہوئی یہ کتاب مجموعہ ہے ان خطوط کا جواس نے تیس سال کی مدت میں اپنے NATURAL SON کو لکھے تھے۔ جانتے ہو، انگریزی میں حرامی اولاد کو فطری بیٹا کہتے ہیں؟ اس لحاظ سے ہم تم غیر فطری اولاد ہوئے۔ ہاہاہا!‘‘ 

    اس کا موڈ بدل چکا تھا۔ ہم رخصت ہونے لگے تو اس کے کتے نے پھر اٹھ کر چوما چاٹی کی، الوداعی رسوم ادا کیں اور دروازے تک دم اٹھائے مشایعت کو آیا۔ ہم دروازہ کھول کر نکلنے والے ہی تھے کہ ’’جسٹ اے منٹ!‘‘ کہہ کر واپس بلایا۔ رب العزت! اب کون سی کسر باقی رہ گئی؟ یہ اہانتوں کا ٹھیکرا جسے پاپی پیٹ کہتے ہیں، یہ تو کبھی کا بھر چکا۔ 

    ’’اور اگر تم تھری پیس سوٹ پہن کر ہی بھرے دفتر میں کراچی اسٹیم باتھ لینے پر مصر ہو، جس کی وجہ اندر پھٹی قمیص بھی ہوسکتی ہے، ہاہاہا۔۔۔! تمہاری خوشامد مجھے مقصود نہیں، لیکن ایمان کی بات ہے، اس سے زیادہ WELL-DRESSED SCARE-CROW میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔۔۔ اگر کچھ پہننا ہی ہے تو یہ شطرنج کی بساط جیسا چوخانے دار سوٹ اور میرے دیس کی ٹارٹن ٹائی پہن کر بینک نہ آنا۔ ساری دنیا میں بینکروں اور کسبیوں کاروایتی پہناوا سیاہ لباس ہے۔ سیاہ سوٹ پہنا کرو۔ ٹریڈ مارک!‘‘ 

    اور یوں ہماری زندگی میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا۔ بلکہ، بقول پروفیسر قاضی عبدالقدوس، صفحہ پلٹنے کی آواز بھی دور دور تک سنائی دی۔ اگر ہم نے اپنے دانا دوست میاں محمد شفیع کے مشورے پر عمل کیا ہوتا تو آج ہم ایک ناکام سے بینکر کے بجائے ٹوٹا باسمتی چاول اور کریانا کے ناکام آڑھتی ہوتے۔ 

     

    مأخذ:

    زرگزشت (Pg. 18)

    • مصنف: مشتاق احمد یوسفی
      • ناشر: مکتبہ دانیال، کراچی
      • سن اشاعت: 1983

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے