محمد شہزاد کے افسانے
شاہ جی
شاہ جی جیسا متقی پرہیز گار میں نے نہیں دیکھا۔ لوگ پانچ وقت شاہ جی سات وقت نماز پڑھتے وہ بھی ایک ہی وضو سے۔ تہجد کی گھر پر چاشت کی دفتری اوقات میں۔ چاشت کے بعد دفتر کے کمپیوٹر پر کبھی انڈین کبھی انگریزی ٹوٹے دیکھتے پھر ظہر ادا کرتے۔ غیب کا علم رکھتے۔
سوہنی ماہیوال
’’کہاں جا رہی ہو سوہنی؟‘‘ ریٹا نے اپنی دوست سے پوچھا۔ ’’ماہیوال سے ملنے!‘‘ سوہنی بولی۔ ’’یہ گھڑا کس لئے؟‘‘ ’’یو نو ماہیوال دریا پار گاؤں میں رہتا ہے۔‘‘ ’’تو اس سے گھڑے کا کیا تعلق؟‘‘ ’’مجھی سوئمنگ نہیں آتی۔ اس کی مدد سے تیر کر جاؤنگی!‘‘ ’’ایڈیٹ
ایڈوینچر
’تم یہاں؟‘ راجو نے سیما کو پارک کے بنچ پر بیٹھا دیکھتے کہا۔ ’ہاں۔ میں یہاں! مگر تم یہاں کس لئے؟‘ ’ایسے ہی۔ مگر یہ ہی سوال تو میں بھی کر سکتا ہوں!‘ ’پتہ تو ہے تمہیں پھر کیوں پوچھتے ہو۔۔۔‘ ’فرض کر لینا درست نہیں۔ ہو سکتا ہے تمہارے یہاں آنے
پرفیکشنسٹ
خان صاحب انتہائی وسیع المطالعہ اور اعلی تعلیم یافتہ ہستی تھے۔۔ مڈل کلاس سے۔ کالج کے وقت سے ٹی وی کے لیے ڈرامے لکھنا شروع ہو چکے تھے۔ لیکن یہ عمدہ ڈرامے انکے اپنے نام سے نشر نہ ہوتے۔ یہ ایک سیریل تھی۔ لکھنے والے کا نام بہت بڑا تھا۔ لیکن ایک وقت پر اس
بی یور سیلف!
’’لیکن شادی سے پہلے میں آپ سے ایک بہت ہی اہم معاملے پر گفتگو کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ سسی نے پنوں سے کہا۔ ’’واہ کیا اتفاق ہے! میں بھی آپ سے ایک بہت ہی اہم معاملے پر گفتگو کرنا چاہ رہا تھا۔۔۔ شادی سے پہلے۔‘‘ پنوں بولا۔ ’’چلیے پہلے آپ۔‘‘ سسی نے کہا۔ ’’نہیں
مفتوح شوہر
یہ پانچوں قریب روز پارک آتے۔۔ تین خوبصورت بچیاں۔۔ دس، نو اور پانچ کے قریب۔ معصومانہ شرارتوں مسکراہٹوں سے بھر پور۔ ان کے ساتھ ایک خوبصورت دراز قد پتلی دبلی عورت اور ایک ہینڈ سم مرد۔ بچیاں جھولے لیتیں۔ دس سال والی بچی شاید پیدائشی ایتھلیٹ تھی۔ پارک کے
کونینڈرم
’’پرسوں میری سالگرہ ہے۔ شام چھ بجے۔ لیکن تم دو بجے آ جانا۔ مل کر گھر سجائیں گے۔‘‘ سلمان نے اپنے دوست راول سے کہا جس کی عمر تیرہ برس تھی۔ ’’اووووو۔۔۔ ہیپی برتھ ڈے۔ فکر نہ کرو۔ میں پہنچ جاؤنگا۔‘‘ راول بولا۔۔۔ سلمان کا واحد دوست۔ دونوں ایک ہی محلے میں