Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کلید کامیابی

شفیق الرحمان

کلید کامیابی

شفیق الرحمان

MORE BYشفیق الرحمان

     

    ہم لوگ خوش قسمت ہیں کیونکہ ایک حیرت انگیز دور سے گزر رہے ہیں۔ آج تک انسان کو ترقی کرنے کے اتنے موقعے کبھی میسر نہیں ہوئے، پرانے زمانے میں ہرایک کو ہرہنرخود سیکھنا پڑتا تھا، لیکن آج کل ہر شخص دوسروں کی مدد پر خواہ مخواہ تلا ہوا ہے اوربلاوجہ دوسروں کو شاہراہ ِکامیابی پر گامزن دیکھنا چاہتا ہے۔

    اس موضوع پربیشمارکتابیں موجودہیں۔اگرآپ کی مالی حالت مخدوش ہےتو فوراً ’لاکھوں کماؤ‘ خرید لیجئے۔ اگر مقدمہ بازی میں مشغول ہیں تو ’رہنمائے قانون‘ لےآئیے۔اگربیمارہیں تو ’گھر کا طبیب‘ پڑھنے سے شفا یقینی ہے۔ اس طرح ’’کامیاب زندگی‘‘، ’’کامیاب مرغی خانہ‘‘، ’’ریڈیو کی کتاب‘‘، ’’کلید کامیابی‘‘، ’’کلید مویشیاں‘‘ اور دوسری لاتعداد کتابیں بنی نوع انسان کی جو خدمت کر رہی ہیں، اس سے ہم واقف ہیں۔

    مصنف ان کتابوں سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے ازراہ ِتشکر کلیدِ کامیابی، حصہ دوم، لکھنے کا ارادہ کیا، تاکہ وہ چند نکتے جو اس افادی ادب میں پہلے شامل نہ ہو سکے، اب شریک کر لیے جائیں۔

    عظمت کا راز
    تاریخ دیکھئے۔ دنیا کے عظیم ترین انسان غمگین رہتے تھے۔ کار لائل کا ہاضمہ خراب رہتا تھا۔ سیزر کو مرگی کے دورے پڑتے تھے۔ روس کا مشہور IVAN نیم پاگل تھا۔ خود کشی کی کوشش کرنا کلائیو کا محبوب مشغلہ تھا۔ کانٹ کو یہ غم لے بیٹھا کہ اس کا قد عظیم ادب مغموم موڈ کی تخلیق ہے اور اکثر جیلوں میں لکھا گیا ہے۔ لہٰذا غمگین ہوئے بغیر کوئی عظیم کام کرنا ناممکن ہے۔ غم ہی عظمت کا راز ہے۔۔۔ یا غم آسرا تیرا۔۔۔

    تو پھر آج ہی سے رنجیدہ رہنا شروع کردیجئے۔ بہت تھوڑے ملک ایسے ہیں، جہاں غمگین ہونے کے اتنے موقعے میسر ہیں، جتنے ہمارے ہاں۔ ابھی چند اشعار پڑھئے، ہماری شاعری ماشاء اللہ حزن و الم سے بھر پور ہے۔ سوچئے کہ زندگی پیاز کی طرح ہے، چھیلتے رہیے اندر سے کچھ بھی برآمد نہیں ہوتا۔ رشتہ داروں اور ان کے طعنوں کو یاد کیجئے۔ پڑوسی عنقریب آپ کے متعلق نئی افواہیں اڑانے والے ہیں۔جن لوگوں نے آپ سے قرض لیا تھا، ایک پائی بھی ادا نہیں کی (ویسے جو قرض آپ نے لیا ہے، وہ بھی ادا نہیں ہوا۔۔۔) زندگی کتنی مختصر ہے۔۔۔؟ مرنے کے بعد کیا ہوگا۔۔۔؟ شام کی گاڑی سے کوئی پندرہ بیس رشتہ دار بغیر اطلاع دیئے آجائیں گے۔ ان کے لیے بستروں کا انتظام کرنا ہوگا۔ یہ چستی صاحب اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں۔۔۔؟ پچھلے ہفتے قطب الدین صاحب نے کھانے پرسارے شہرکومدعو کیا، سوائے آپ کے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔

    اب آپ غمگین ہیں۔ آہیں بھریئے۔ ماتھے پر شکنیں پیدا کیجئے۔ ہرایک سے لڑئیے۔ عنقریب آپ اس برتری سے آشنا ہوں گے جو سدا بیزار رہنے والوں کاہی حصہ ہے۔ وہ احساس جو انسان کے نطشے کا فوق الانسان بناتا ہے۔ اب آپ شاید کوئی عظیم کام کرنے والے ہیں۔۔۔

    عظیم کام کرچکنے کے بعد اگرموڈ بدلنا منظور ہو تو فوراً بازار سے ’مسرور ہو‘ مسکراتے رہیے، یا ایسی کوئی کتاب لے کر پڑھیے اور خوش ہو جائیے۔

    اپنے آپ کو پہچانو
    حکماء کا اصرار ہے کہ اپنے آپ کو پہچانو۔ لیکن تجربے سے ثابت ہوا کہ اپنے آپ کو کبھی مت پہچانو، ورنہ سخت مایوسی ہوگی۔ بلکہ ہو سکے تو دوسروں کو بھی مت پہچانو۔ایمرسن فرماتے ہیں کہ ’’انسان جو کچھ سوچتا ہے، وہی بنتا ہے۔‘‘ 

    کچھ بننا کس قدر آسان ہے، کچھ سوچنا شروع کردواوربن جاؤ۔ اگر نہ بن سکو تو ایمرسن صاحب سے پوچھو۔

    خواب اورعمل
    اپنے خوابوں کو عملی جامہ پہنائیے۔ یہ جامہ جتناجلد پہنایا گیا، اتنا ہی بہترہوگا۔ ان لوگوں سے بھی مشورہ کیجئے۔ جو اس قسم کے جامے اکثر پہناتے رہتے ہیں۔

    حافظہ تیزکرنا
    اگر آپ کوباتیں بھول جاتی ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کا حافظہ کمزور ہے۔ فقط آپ کو باتیں یاد نہیں رہتیں۔ علاج بہت آسان ہے۔آئندہ ساری باتیں یاد رکھنے کی کوشش ہی مت کیجئے۔ آپ دیکھیں گے کہ کچھ باتیں آپ کو ضرور یاد رہ جائیں گے۔

    بہت سے لوگ باربار کہا کرتے ہیں۔۔۔ ہائے یہ میں نے پہلے کیوں نہیں سوچا؟ اس سے بچنے کی ترکیب یہ ہے کہ ہمیشہ پہلے سے سوچ کر رکھیے اور یا پھر ایسے لوگوں سے دور رہیے، جو ایسے فقرے کہا کرتے ہیں۔ دانشمندوں نے مشاہدہ تیز کرنے کے طریقے بتائے ہیں کہ پہلے پھرتی سے کچھ دیکھئے، پھر فہرست بنائیے کہ ابھی آپ نے کیا کیا دیکھا تھا۔ اس طرح حافظے کی ٹریننگ ہوجائے گی اور آپ حافظ بنتے جائیں گے۔ لہٰذا اگر اور کوئی کام نہ ہو تو آپ جیب میں کاغذ اورپنسل رکھیے۔ چیزوں کی فہرست بنائیے اور فہرست کو چیزوں سے ملایا کیجئے۔۔۔ بڑی فرحت حاصل ہوگی۔

    مشہور فلسفی شو پنہارسیر پرجاتے وقت اپنی چھڑی سے درختوں کو چھوا کرتا تھا۔ ایک روز اسے یاد آیا کہ پل کے پاس جو لمبا درخت ہے، اسے نہیں چھوا۔ وہ مردعاقل ایک میل واپس گیا اور جب تک درخت نہ چھو لیا، اسے سکون قلب حاصل نہ ہوا۔

    شو پنہارکے نقش قدم پر چلیے۔ اس سے آپ کا مشاہدہ اس قدر تیز ہوگا کہ آپ اورسب حیران رہ جائیں گے۔

    خوف سے مقابلہ
    دل ہی دل میں خوف سے جنگ کرنا بے سود ہے۔ کیونکہ ڈرنے کی ٹریننگ ہمیں بچپن سے ملتی ہے اورشروع ہی سے ہمیں بھوت، چڑیل، باؤ اوردیگر چیزوں سے ڈرایا جاتا ہے۔ اگر آپ کو تاریکی سے ڈر لگتا ہے تو تاریکی میں جائیے ہی مت۔ اگر اندھیرا ہوجائے تو جلدی سے ڈر کر روشنی کی طرف چلے آئیے۔ آہستہ آہستہ آپ کو عادت پڑ جائے گی اور خوف کھانا پرانی عادت ہوجائے گی۔

    تنہائی سے خوف آتا ہو تو لوگوں سے ملتے رہا کیجئے۔ لیکن ایک وقت میں صرف ایک چیز سے ڈریئے، ورنہ یہ معلوم نہ ہوسکے گا کہ اس وقت آپ دراصل کس چیز سے خوفزدہ ہیں۔

    وقت کی پابندی
    تجربہ یہی بتاتا ہے کہ اگرآپ وقت پر پہنچ جائیں تو ہمیشہ دوسروں کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ دوسرے اکثر دیر سے آتے ہیں۔ چنانچہ خود بھی ذرا دیر سے جائیے۔ اگر آپ وقت پر پہنچے۔ تو دوسرےیہی سمجھیں گے کہ آپ کی گھڑی آگے ہے۔

    وہم کاعلاج
    اگر آپ کو یونہی وہم سا ہوگیا ہے کہ آپ تندرست ہیں تو کسی طبیب سے ملئے۔ یہ وہم فوراً دور ہوجائے گا۔ لیکن اگر آپ کسی وہمی بیماری میں مبتلا ہیں تو ہرروز اپنے آپ سے کہئے۔۔۔ میری صحب اچھی ہو رہی ہے۔۔۔ میں تندرست ہو رہا ہوں۔۔۔

    احساس کمتری ہو تو بار بار مندرجہ ذیل فقرے کہے جائیں۔۔۔
    میں قابل ہوں۔ مجھ میں کوئی خامی نہیں۔ جو کچھ میں نے اپنے متعلق سنا، سب جھوٹ ہے۔ میں بہت بڑا آدمی ہوں۔ (یہ فقرے زور زور سے کہے جائیں تاکہ پڑوسی بھی سن لیں)

    بے خوابی سے نجات
    اگر نیند نہ آتی ہو تو سونے کی کوشش مت کیجئے۔ بلکہ بڑے انہماک سے فلاسفی کی کسی موٹی سی کتاب کا مطالعہ شروع کر دیجئے۔ فوراً نیند آجائے گی۔ مجرب نسخہ ہے۔ ریاضی کی کتاب کا مطالعہ بھی مفید ہے۔

    ہمیشہ جوان رہنے کا راز
    اول تو یہ سوچنا ہی غلط ہے کہ جوان رہنا کوئی بہت بڑی خوبی ہے۔ اس عمر کے نقصانات فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔ ملاحظہ ہو وہ شعر، 

    خیر سے موسمِ شباب کٹا
    چلو اچھا ہوا عذاب کٹا

    تاہم اگر آپ نے ہمیشہ جوان رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے، تو بس خواہ مخواہ یقین کر لیجئے کہ آپ سدا جوان رہیں گے۔ آپ کے ہم عمر بیشک بوڑھے ہوجائیں، لیکن آپ پر کوئی اثرنہ ہوگا۔ جوانوں کی سی حرکتیں کیجئے۔ اصلی نوجوانوں میں اٹھیے بیٹھے۔ اپنے ہم عمر بوڑھوں پر بھبتیاں کسیے۔ خضاب کا استعمال جاری رکھیے اور حکیموں کے اشتہاروں کا بغور مطالعہ کیجئے۔

    دلیر بننے کا طریقہ
    دوسرے تیسرے روزچڑیاگھرجاکرشیراوردیگرجانوروں سےآنکھیں ملائیے (لیکن پنجرے کے زیادہ قریب مت جائیے) بندوق خرید کر انگیٹھی پر رکھ لیجئے اورلوگوں کو سنائیے کہ کس طرح آپ نے پچھلے مہینے ایک چیتا یا ریچھ (یا دونوں) مارے تھے۔ بار بارسنا کر آپ خود یقین کرنے لگیں گے کہ واقعی آپ نے کچھ مارا تھا۔

    بیروزگاری سے بچئے
    اگر آپ بیروز گار ہیں تو فوراً ایمپلائمنٹ ایکسچنج میں درخواست دے کرکسی کھاتے پیتے رشتہ دار کے ہاں انتظار کیجئے اور یہ یاد رکھیے کہ انتظار زندگی کا بہترین حصہ ہے۔

    ایک خانگی مشورہ
    اگر آپ بیوی ہیں اورآپ کا خاوند تھکا ماندہ دفتر سے آتا ہے۔ آپ مسکراہٹ سے اس کا استقبال کرتی ہیں اوراچھی اچھی باتیں سناتی ہیں تو شام کو وہ ضرور کہیں ادھر ادھر چلاجائے گا۔ لیکن اگر آتے ہی آپ اسے بے بھاؤ کی سنادیں، بات بات پر لڑیں اورپریشان کن تذکرے چھیڑدیں تو وہ مارنے کی کوشش کرے گا اور شام گھر میں گزارے گا۔اگر کہیں باہر گیا تو ساتھ لے جائے گا۔ (مگر یہ عمل بار بار نہ دہرایا جائے، ورنہ کہیں شوہر موصوف واپس گھر کا رخ ہی نہ کرے)

    ایک کہانی
    یا تو لوگ تقدیر کو کوستے ہیں یا تدبیر کو۔ یہ مسئلہ بہت نازک ہے۔ مشہور ہے کہ پہاڑوں میں پارس پتھر ہوتا ہے۔ جو چیز اسے چھو جائے سونا بن جاتی ہے۔

    ایک شخص نے چھ مہینے کی چھٹی بغیر تنخواہ کے لی اور قسمت آزمائی کرنے نیپال پہنچا۔ کرائے کے جانوروں کے پاؤں میں زنجیریں باندھیں کہ شاید کوئی زنجیر پارس پتھر سے چھو جائے۔ ہر وقت انہیں جنگلوں میں لیے لیے پھرتا۔ دن گزرتے گئے اور کچھ نہ بنا۔آخر چھٹی ختم ہوئی۔ جانور اور زنجیریں لوٹا کر قسمت کو برا بھلا کہہ رہا تھا کہ جوتا اتارتے وقت معلوم ہوا کہ چند میخیں سونے کی بن چکی ہیں۔ سنارکے پاس گیا، اس نے میخیں تول کرقیمت بتائی۔۔۔ یہ پورے چھ مہینے کی تنخواہ تھی۔

    اس سے نتائج خود نکالیے لیکن تقدیر اور تدبیر پر لعنت ملامت نہ کیجئے اور قسمت آزمائی کے لیے پہاڑوں کی طرف مت جائیے۔

    گفتگو کا آرٹ
    جو کچھ کہنے کا ارادہ ہو ضرور کہیے۔ دورانِ گفتگو خاموش رہنے کی صرف ایک وجہ ہونی چاہئے، وہ یہ کہ آپ کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔ ورنہ جتنی دیر جی چاہے باتیں کیجئے۔ اگر کسی اور نے بولنا شروع کردیا، تو موقع ہاتھ سے نکل جائے گا اور کوئی دوسرا آپ کو بور کرنے لگے گا (بور وہ شخص ہے جو اس وقت بولتا چلا جائے، جب آپ بولنا چاہتے ہوں)

    چنانچہ جب بولتے بولتے سانس لینے کے لیے رکیں تو ہاتھ کے اشارے سے واضح کردیں کہ ابھی بات ختم نہیں ہوئی یا قطع ِکلامی معاف کہہ کر پھر سے شروع کردیجئے۔ اگر کوئی دوسرا اپنی طویل گفتگو ختم نہیں کر رہا، تو بیشک جمائیاں لیجئے، کھانسیئے، باربار گھڑی دیکھئے۔۔۔ ’’ابھی آیا۔۔۔‘‘ کہہ کر باہر چلے جائیے یا وہیں سو جائیے۔

    یہ بالکل غلط ہے کہ آپ لگاتاربول کر بحث نہیں جیت سکتے۔ اگر آپ ہار گئے تو مخالف کو آپ کی ذہانت پر شبہ ہوجائے گا۔ مجلسی تکلفات بہتر ہیں یا اپنی ذہانت پر شبہ کروانا؟

    البتہ لڑائیے مت، کیونکہ اس سے بحث میں خلل آسکتا ہے۔

    کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو اسے کبھی مت مانیے۔ لوگ ٹوکیں، تو الٹے سیدھے دلائل بلندآوازمیں پیش کرکےانہیں خاموش کرادیجئے، ورنہ وہ خواہ مخواہ سرپر چڑھ جائیں گے۔ دورانِ گفتگومیں لفظ ’آپ‘ کااستعمال دویا تین مرتبہ سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے۔اصل چیز ’میں‘ ہے۔اگر آپ نے آپ اپنے متعلق نہ کہا، تو دوسرے اپنے متعلق کہنے لگیں گے۔

    تعریفی جملوں کے استعمال سے پرہیز کیجئے۔ کبھی کسی کی تعریف مت کیجئے۔ ورنہ سننے والے کو شبہہ ہوجائے گا کہ آپ اسے کسی کام کے لئے کہنا چاہتے ہیں۔ اگر کسی شخص سے کچھ پوچھنا مطلوب ہو، جسے وہ چھپا رہا ہو، تو بارباراس کی بات کاٹ کراسے چڑا دیجئے۔ وکیل اسی طرح مقدمے جیتتے ہیں۔

    دوسروں کو متاثر کرنا
    اگر آپ ہر کسی سے اچھی طرح پیش آئے۔ ہاتھ دبا کر مصافحہ کیا۔قریب بیٹھے اور گرمجوشی سے باتیں کیں، تو نتائج نہایت پریشان کن ہوسکتے ہیں۔ وہ خواہ مخواہ متاثر ہوجائے گا اور نہ صرف دو بارہ ملنا چاہے گا، بلکہ دوسروں سے تعارف کرادے گا۔ یہ تیسروں سے ملائیں گے اور وہ اوروں سے۔ چنانچہ اتنے ملاقاتی اور واقف کار اکٹھے ہو جائیں گے کہ آپ چھپتے پھریں گے۔

    ممکن ہے کہ لوگ متاثر ہو کر آپ کو بھی متاثر کرنا چاہیں۔ وہ بلا ضرورت بغل گیر ہوں گے۔ ہاتھ دبائیں گے اور قریب بیٹھنے کی کوشش کریں گے۔ 

    لہٰذا کسی کو متاثر کرنے کی کوشش مت کیجئے۔ بالفرض اگرآپ کسی کو متاثر کر رہے ہوں، تو خیال رکھیئے کہ آپ اور اس شخص کے درمیان کم ازکم تین گز کا فاصلہ ہو، ورنہ وہ متاثر ہوتے ہی آپ سے بغل گیر ہونے کی کوشش کریں گے۔ (ہوسکتا ہے کہ کہیں آپ بھی اس سے متاثر نہ ہوجائیں۔۔۔ زندگی پہلے ہی کافی پیچیدہ ہے)

    کبھی مت کہئے کہ۔۔۔ ’’آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی۔‘‘ بلکہ اس سے پوچھئے کہ کہیں وہ تو آپ سے مل کر خوش نہیں ہو رہا۔ اگر یہ بات ہے تو خبر دار رہیے۔

    رشتہ داروں سے تعلقات
    دور کے رشتہ دار سب سے اچھے ہوتے ہیں۔ جتنے دور کے ہوں اتنا ہی بہتر ہے۔ مثل مشہور ہے کہ دور کے رشتے دار سہانے۔

    تربیت اطفال
    بچوں سے کبھی کبھی نرمی سے پیش آیئے۔

    بچے سوال پوچھیں تو جواب دیجئے مگر اس انداز میں کہ دوبارہ سوال نہ کرسکیں۔اگر زیادہ تنگ کریں تو کہہ دیجئے جب بڑے ہوگے سب پتا چل جائے گا۔ بچوں کو بھوتوں سے ڈراتے رہیے۔ شاید وہ بزرگوں کا ادب کرنے لگیں۔ بچوں کو دلچسپ کتابیں مت پڑھنے دیجئے، کیونکہ کورس کی کتابیں کافی ہیں۔

    اگر بچے بے وقوف ہیں تو پروا نہ کیجئے۔ بڑے ہوکر یا تو جینئس بنیں گے یا اپنے آپ کو جینئس سمجھنے لگیں گے۔ بچے کو سب کے سامنے مت ڈانٹئے۔ اس کے تحت الشعور پر برا اثر پڑے گا۔ ایک طرف لے جاکر تنہائی میں اس کی خوب تواضع کیجئے۔

    بچوں کو پالتے وقت احتیاط کیجئے کہ وہ ضرورت سے زیادہ نہ پل جائیں، ورنہ وہ بہت موٹے ہوجائیں گے اور والدین اور پبلک کے لیے خطرے کا باعث ہوں گے۔

    اگر بچے ضد کرتے ہیں تو آپ بھی ضد کرنا شروع کر دیجئے۔ وہ شرمندہ ہو جائیں گے۔

    ماہرین کا اصرار ہے کہ موزوں تربیت کے لیے بچوں کا تجزیۂ نفسی کرانا ضروری ہے۔ لیکن اس سے پہلے والدین اور ماہرین کا تجزیۂ نفسی کرا لینا زیادہ مناسب ہوگا۔ دیکھا گیا ہے کہ کنبے میں صرف دو تین بچے ہوں تو وہ لاڈلے بنا دیئے جاتے ہیں۔ لہٰذا بچے ہمیشہ دس بارہ ہونے چاہیئں، تاکہ ایک بھی لاڈلا نہ بن سکے۔

    اسی طرح آخری بچہ سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے بگاڑ دیا جاتا ہے، چنانچہ آخری بچہ نہیں ہونا چاہئے۔

    مردوں کے لیے دبلا ہونے کا طریقہ
    ملاحظہ ہو ’’عظمتِ کا راز۔۔۔‘‘ 

    خواتین کے لیے دبلا ہونے کی ترکیب
    آج سے مندرجہ ذیل پرہیزی غذا شروع کردیجئے۔۔۔

    ناشتے پر۔۔۔ ایک ابلا ہوا انڈہ۔ بغیر دودھ اور شکر کے چائے

    دوپہرکو۔۔۔ ابلی ہوئی سبزی، بغیرشوربےکا تھوڑا سا گوشت، ایک چپاتی

    سہ پہر کو۔۔۔ ایک بسکٹ۔ بغیر دودھ اور شکر کی چائے

    رات کو۔۔۔ ابلا ہوا گوشت، سبزی، ڈیڑھ چپاتی، پھل، بغیر دودھ اور شکر کی کافی

    (اس پرہیزی غذا کے علاوہ ساتھ ساتھ باورچی خانے میں نمک چکھنے کے سلسلے میں پلاؤ، مرغن سالن اور پراٹھے۔ میٹھا چکھتے وقت حلوہ، کھیراور فرنی۔ ’’یہ بلی تو نہیں تھی؟‘‘ کے بہانے بالائی، دودھ اور مکھن۔ ’’دکھا تو سہی تو کیا کھا رہا ہے‘‘ کے بہانے بچوں کے چاکلیٹ اور مٹھائیاں) بعض اوقات اس پرہیزی غذا کا اثر نہیں ہوتا۔ تعجب ہے؟

    مردوں کے لیے موٹا ہونے کا نسخہ
    بھینس رکھنا۔ دفتر کی ملازمت۔ دوپہر کے کھانے کے بعد دہی کی لسی اور قیلولہ۔ سارے کھیل چھوڑ کر صرف شطرنج اور تاش۔۔۔ اور اگر آؤٹ ڈورگیم ہی کھلنا ہو تو بیڈ منٹن کھیلئے، بس۔

    خواتین کے موٹا ہونے کی ترکیب
    کسی خاص ترکیب کی ضرورت نہیں۔ اس سلسلے میں کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانا ہے۔

    تسخیرِحُب
    تعجب ہے کہ ایسے اہم موضوع پراس قدر کم لکھا گیا ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ ماہرینِ تسخیرِ حب سب کچھ صیغۂ راز میں رکھتے ہیں۔ بس کبھی کبھی اس قسم کے اشتہار چھپتے ہیں۔۔۔

    ’’محبت کےماروں کومژدہ‘‘

    ’’محبوب ایک ہفتے کے اندر اندر قدموں میں نہ لوٹنے لگے تو دام واپس۔‘‘ 

    اس کے علاوہ امتحان میں کامیابی، اولاد کی طرف سے خوشی، خطرناک بیماریوں سے شفا، مقدمہ جیتنا، تلاشِ معاش، افسر کو خوش کرنے کے وعدے بھی ہوتے ہیں۔ اشتہار میں ایک مونچھوں والے (یا داڑھی والے) چہرے کی تصویر، کئی سندیں اورسرٹیفکیٹ بھی ہوتے ہیں، لیکن اس سلسلے میں نہ کتابوں میں کچھ موجود ہے، نہ رسائل میں۔ادھر ہمارے ملک میں تسخیر ِحب کی قدم قدم پر ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ ہر شخص اس چشمۂ حیواں کی تلاش میں ہے۔ اگرچہ مصنف کی معلومات اس موضوع پر نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تاہم اس نے دوسروں کے تجربوں سے چند مفید باتیں اخذ کی ہیں۔

    سب سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ چاہنے والا مرد یا عورت۔ اورادھرمحبوب کا تعلق کس جنس سے ہے؟ لہٰذا سہولت کے لئے ان ہدایات کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یعنی

    ۱۔ اگرمحبوب عورت ہے۔

    ۲۔ اگر محبوب مرد ہو (اور صنف نازک کے کسی فرد کو اس میں دلچسپی ہو)

    ۳۔ اگر محبوب شادی شدہ ہو (اور فریفتہ ہونے والا مرد ہو یا عورت)

    ۱۔ اگرمحبوب عورت ہو
    محبوب چنتے وقت یہ احتیاط لازم ہے کہ رشتہ داروں پر ہرگز عاشق نہ ہوں۔ اس کے بعد اردگرد اور پڑوس میں رہنے والوں سے بھی حتی الوسع احتراز کریں۔ (یہ تجرباتی فارمولے ہیں اورطالبِ حب کو وجہ پوچھے بغیران پراندھا دھند عمل کرنا چاہئے)

    محبوب سے ملاقات کے لیے جاتے وقت پوشاک سادہ ہونی چائیے (رومال پرخوشبو نہ چھڑکیے۔ کہیں محبوب یا آپ کو زکام نہ ہوجائے) خوراک سادہ ہو (پیازاورلہسن کےاستعمال سےپرہیز کیجئے) مونچھوں کو ہرگز تاؤنہ دیجئے ورنہ محبوب خوفزدہ ہو جائے گا۔ ویسے بھی فی زمانہ بنی سنوری مونچھوں کا اثر طبعِ نازک پر کوئی خاص اچھا نہیں پڑتا (اس کا فرمائشی مونچھوں پراطلاق نہیں ہوتا) اگر محبوب کو آپ سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تواستقبال یوں ہوگا۔۔۔ ’’تشریف آوری کا شکریہ۔ بڑی تکلیف کی آپ نے۔ بھائی جان بس آتے ہی ہوں گے، آپ بیٹھیے۔ میں دادا جان کو ابھی بھیجتی ہوں۔‘‘ لیکن اگر محبوب کو واقعی محبت ہے تو وہ بھاگا بھاگا آئے گا اور آپ کے دونوں ہاتھ پکر کر کہے گا۔۔۔ ’’بلوجی!‘‘ (یا اسی قسم کا کوئی اور مہملہ جملہ استعمال کرے گا)

    محبوب کو یکسانیت سے بورمت کیجئے۔ ہر اتوار کو ملتے ہوں تو دوسری تیسری مرتبہ منگل کوملنے جائیے۔ اگلی مرتبہ جمعے کو۔ بلکہ ایک ٹائم ٹیبل بنا لیجئے۔

    ماہرین کا خیال ہے کہ عورتوں کو سنجیدہ مرد اس لیے پسند آتے ہیں کہ انہیں یونہی وہم سا ہوجاتا ہے کہ ایسے حضرات ان کی باتیں غور سے سنتے ہیں۔ لہٰذا تسخیرِ حب کرتے وقت ’گفتگو کا فن‘ میں جو کچھ لکھا ہے، اسے محبوب کے لیے نظر انداز کردیجئے۔

    نہ صرف محبوب کی باتیں خاموشی سے سنتے رہیئے۔ بلکہ اسے یقین دلا دیجئے کہ دنیا میں فقط آپ ہی ایسے شخص ہیں، جس کے لیے محبوب کی ہر الٹی سیدھی بات ایک مستقل وجہِ مسرت ہے۔

    محبوب سے زیادہ بحث مت کیجئے۔ اگر کوئی بحث چھڑ جائے تو جیتنے کا بہترین نسخہ یہ ہے کہ محبوب کی رائے سے متفق ہوجائیے اور ذرا جلدی کیجئے، کہیں محبوب دوبارہ اپنی رائے نہ بدل لے۔

    اگر محبوب آپ کی ہربات پر مسکرا دے اور لگاتار ہنستا رہے، تو اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اسے اپنے نفیس دانتوں کی نمائش مقصود ہے (ایسے موقع پر محبوب سے پوچھئے کہ ان دنوں کون سی ٹوتھ پیسٹ استعمال ہو رہی ہے)

    اگر محبوب اپنی تعریفیں سن کرناک بھوں چڑھائے اور’’ہٹئے بھی‘‘ وغیرہ کہے تو سمجھ لیجئے کہ اسے مزید تعریف چاہیے۔

    محبوب کے میک اپ پر بھول کر بھی نکتہ چینی نہ کیجئے۔ شاید چہرہ اس لیے سرخ کیا گیا ہو کہ یہ پتا نہ چل سکے کب BLUSH کیا (فقط اس صورت میں اعتراض کیجئے جبکہ محبوب کا رنگ خدا نخواستہ مشکی ہو۔ اگرچہ گرم خطوں میں ایسے محبوب افراط سے پائے جاتے ہیں)

    ویسے ہر قسم کی تنقید سے پرہیز کیجئے۔ جو لوگ زیادہ نکتہ چینی کرتے ہیں، ان سے محبوب کی بیزاری بڑھتی جاتی ہے اور تھوڑے دنوں کے بعد محبت میں ان کی حیثیت وہی ہوجاتی ہے جو ٹینس میں Marker کی۔

    دو باتوں سے محبوب کو مسرت حاصل ہوتی ہے۔ ایک تو یہ کہ کوئی اس سے کہہ دے کہ اس کی شکل کسی ایکٹریس سے ملتی ہے۔دوسرے یہ کہ اس کی جو رقیب ہے وہ تو یونہی انٹلکچوئل سی ہے۔

    محبوب کی بہن (اگر بہن کی عمر پندرہ اور پینتالیس کے درمیان ہو) کے سامنے محبوب کی کبھی تعریفیں مت کیجئے، ورنہ نتائج بڑے حیرت انگیز نکلیں گے اور اگر محبوب کے عیب معلوم کرنے ہوں تو اس کی سہیلیوں کے سامنے سے اچھا کہہ کر خدا کی قدرت کا تماشا دیکھئے۔ کبھی چھپ کرمحبوب کو کسی سے لڑتے ہوئے ضرور دیکھئے۔ یا محبوب کو کسی سے لڑا دیجئے۔ بہت سے لرزہ خیزحقائق کا انکشاف ہوگا۔

    اگر محبوب کئی مرتبہ یہ جتائے کہ آپ بالکل نوعمرسے لڑکے نظر آرہے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ بوڑھے ہوتے جارہے ہیں۔

    یاد رکھئے کہ محبوب کی نگاہوں میں ایک چالیس پینتالیس برس کا نوجوان ایک پچیس تیس سالہ بوڑھے سے کہیں بہتر ہے (اور ایسے نو عمر بوڑھے ان دنوں کافی تعداد میں ہر جگہ ملتے ہیں)

    محبوب کی سالگرہ یاد رکھئے لیکن اس کی عمربھول جائیے۔

    بعض اوقات کو آپ کے احسانات یاد نہیں رہتے۔ لیکن وہ فرمائشیں کبھی نہیں بھولتیں، جنہیں آپ پورا نہ کرسکے۔

    اوائلِ محبت میں محبوب سے یہ پوچھنا کہ کیا اسے آپ سے محبت ہے؟ ایسا ہی ہے جیسے کسی ناول کا آخری باب پہلے پڑھ لینا۔

    تنگدستی محبت کی دشمن ہے۔ ایک قیمتی تحفہ منٹوں میں وہ کچھ کرسکتا ہے، جو شاعر مہینوں برسوں میں نہیں کہہ سکتے۔

    اگرمحبوب کسی اور پرعاشق ہے تو آپ کی سب کوششیں رائیگاں جائیں گی۔ ایسی حالت میں برابر برابر چھڑوا دینے والے مقولے پرعمل کیجئے اور ریٹائر ہو جانا بہتر ہوگا اوراگرمحبوب کسی اور کی جانب ملتفت بھی نہیں، لیکن آپ کے سب حربے بیکار نظر آنے لگیں، تو یہ نہ سمجھئے کہ محبوب سنگدل یا ناقابل ِتسخیر ہے۔۔۔ وہ فقط تجربہ کار ہے۔ احتیاطاً یہ مزہ معلوم کر لیجئے کہ محبوب نے اپنے سابقہ چاہنے والوں سے کیا سلوک کیا تھا۔ وہی سلوک دوہرایا بھی جاسکتا ہے اور غالباً دوہرایا جائے گا۔

    یہ ہمیشہ یاد رکھیے کہ جیسے جیسے محبوب کی عمر بڑھتی جائے گی، وہ بالکل اپنی امی کی طرح ہوتی چلی جائے گی۔

    ۲۔ اگرمحبوب مرد ہو
    محبوب میں سب سے پہلی چیز یہ نوٹ کیجئے کہ آیا وہ آپ کو نوٹ کر رہا ہے یا نہیں۔

    محبوب سے نہ کبھی مذہب پربحث کیجئے، نہ روس پر۔ بلکہ اس سے یہ بھی مت پوچھئے کہ وہ کماتا کیا ہے؟

    محبوب کے سامنے کبھی کسی عورت کی برائی مت کیجئے۔ اس سے وہ بےحدمتاثر ہوگا۔

    محبوب سے یہ ہرگزمت پوچھئے کہ اس نے مصنوعی دانت کب لگوائے تھے۔ 

    یہ یاد رکھیئے کہ ایک حسین عورت کی سب عورتیں دشمن ہیں اوران کا سمجھوتہ نہیں ہوسکتا لہٰذا محتاط رہئے۔

    محبوب کی تعریف کرتے وقت وضاحت سے کام لیجئے۔ یہ نہیں کہ آپ خوب ہیں۔ وجیہ ہیں۔ لاکھوں میں ایک ہیں۔ بلکہ یہ کہ آپ کا ماتھا کشادہ ہے۔ بال گھنگھریالے ہیں۔ شانے ماشاءاللہ مردوں جیسے چوڑے ہیں۔

    جومرداپنی مونچھوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں، وہ خود پسند ہوتے ہیں۔لیکن جو شیو کرتے ہیں، وہ بھی کم خود پسند نہیں ہوتے۔

    اگر محبوب کلب سے پی کر آیا ہو، تو کبھی مت جتلائیے۔ صرف یہ کہہ کر منہ بنا لیجئے کہ آج پھر آپ نے Ginger پی ہے۔ اس سے وہ اس قدر خوش ہوگا کہ بیان سے باہر ہے۔

    محبوب کے ساتھ کہیں بھاگ جانے کے خیال کو کبھی دل میں نہ لائیے، کسی کے ساتھ بھاگنا بےحد فضول حرکت ہے۔

    اگرمحبوب گنجا ہوتونہ اس کی بلند پیشانی کا ذکرکیجئے، نہ کہ اس کےسر کی طرف دیکھئے۔

    مرداپنی محبت کاواسطہ دے کرمحبوب کی پرانی محبتوں کے متعلق پوچھا کرتے ہیں۔ انہیں کچھ نہ بتائیے، ورنہ پچھتانا پڑے گا۔

    آپ کی باتیں خواہ کتنی ہی بے جا کیوں نہ ہوں، جب تک آپ کی آنکھوں میں آنسو نہیں آتے لٰہذا پیشتر اس کے کہ محبوب کو پتا چل سکے کہ کیا ہو رہا ہے۔ آپ رونا شروع کردیجئے۔ اپنی رقیبوں سے ہر دم خبردار رہیے۔ محبوب جن عورتوں کے متعلق باتیں کرتا رہے، ان کی پروانہ کیجئے۔ لیکن جب وہ کسی عورت کے ذکر سے جان بوجھ کرگریزکرے، تو سمجھ جائیے کہ دال میں کالا ہے۔

    یہ توناممکن ہے کہ آپ اپنے دل کار از کسی اور کو نہیں بتائیں گی۔ لیکن بتاتے وقت یہ کبھی مت کہیے۔۔۔ ’’تمہیں قسم ہے جو کسی اور سے کہا تو۔‘‘ اس سے سننے والی کو فوراً شبہ ہوگا اور وہ اسی وقت سب سے کہہ دے گی۔

    محبوب آپ کی تازہ ترین تصویریں مانگے گا۔۔۔ رسماً اخلاقاً محبت سے۔ لیکن جب وہ آپ کی بچپن کی تصویر مانگے تو سمجھ لیجئے کہ وہ بہت دور کی سوچ رہا ہے اور سب کچھ ہو کر رہے گا۔

    شروع شروع میں محبوب کو آپ کے چچے، ماموں اور بھائی وغیرہ اچھے نہ لگتے ہوں تو کچھ دیر انتطار کیجئے۔ آہستہ آہستہ وہ خود سیدھا ہوجائے گا۔

    عقلمند محبوب کو قابو میں رکھنا زیادہ مشکل نہیں۔ لیکن اگر محبوب بے وقوف ہو توذہین سے ذہین عورت کے لیے بھی اسے سنبھالنا محال ہوگا۔

    ۳۔ اگر محبوب شادی شدہ ہو
    (یہ موضوع بے حد ضروری ہے، کیونکہ آج کل شادی شدہ محبوب سے عشق کرنا نہ صرف عام ہوگیا ہے، بلکہ فیشن میں شامل ہے۔ روز بروزاس کی اہمیت ہر خاص وعام پر واضح ہوتی جارہی ہے)

    چونکہ شادی شدہ محبوب مقابلتاً تجربہ کار ہوتا ہے، اس لیے بڑے احتیاط کی ضرورت ہے۔ ان ہدایات پر بڑی سنجیدگی سے عمل کرنا چاہئے۔ لیکن اگر شبہ ہوجائے کہ کسی ہدایت کو محبوب پہلے سے جانتا ہے تو اسے وہیں ترک کردیجئے (ہدایت کو) اور دوسری پر عمل شروع کردیجئے (ہدایت پر)

    شادی شدہ محبوب کو مسخر کرنے کے لیے سب سے اہم چیز نہ حسن ہے، نہ قابلیت۔۔۔ بلکہ پروپگنڈا ہے۔ لہٰذا تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد اپنے متعلق کوئی خبر اڑا دیجئے۔۔۔ کہ آپ کا ارادہ ولایت جانے کا ہے۔۔۔ کبھی کلاسیکل ڈانس سیکھنے کے منصوبے باندھیے تو کبھی اردو میں ایم اے کرنے کی خبر مشہور کردیجئے۔

    پہلے محبوب منتخب کیجئے، پھر اسے چند فالتو خواتین و حضرات کے ساتھ مدعو کیجئے۔۔۔ پکنک۔۔۔ ادبی محفل۔۔۔ تاش۔۔۔ یا کسی اور بہانے سے۔ بعد میں آہستہ آہستہ دوسرے لوگوں کو نکالتے جائیے۔ حتیٰ کہ صرف آپ اور محبوب باقی رہ جائیں۔ (اس طرح محبوب کو شبہ نہیں ہوگا۔ شبہ ہوا بھی تو دیر میں ہوگا)

    بہتر تو یہ ہوگا کہ ایک وقت میں کئی جگہ کوشش کیجئے۔ اگر کامیابی دس فیصد بھی ہوئی تب بھی Average نا تسلی بخش نہیں۔

    کچھ ایسا انتظام کیجئے کہ محبوب ہر وقت آپ کے متعلق قیاس آرائیاں کرتا رہے۔ ملاًھ کھوئی کھوئی نگاہوں سے خلا میں تکا کیجئے۔ ذرا ذرا سی دیر کے بعد ٹھنڈے سانس لیجئے۔ وہ بار بار پوچھے گا۔۔۔ کیا بات ہے؟ کی ہوا؟ کچھ مجھے بھی تو بتاؤ؟

    گفتگو میں اپنے یا محبوب کے شریکِ حیات کا ذکر بالکل نہ آنے دیجئے۔ یوں ظاہر کیجئے، جیسے اس دنیا میں نہ آپ کا کوئی ہے، نہ اس کا۔

    اگرمحبوب بےرخی برتتاہوتواس کاخوب تعاقب کیجئے۔۔۔ باربار فون کیجئے۔۔۔ ملنے جائیے۔۔۔ سندیسے بھیجئے۔۔۔ خط لکھیے۔۔۔ کسی دن اتنا وہ تنگ آئے گا کہ آپ پرعاشق ہو جائے گا۔الماریوں میں چند اوٹ پٹانگ ضخیم کتابیں، دیواروں پر ماڈرن آرٹ کی بےتکی تصویریں اور کمرے میں ستاریا وائلن ضرور رکھیے۔ خواہ آپ کو ان سے ذرا بھی دلچسپی نہ ہو۔ محبوب یہ سمجھے گا کہ آپ کی طبیعت فنکارانہ ہے۔

    تقریبوں اور پارٹیوں میں ذرا دیر سے جائیے، تاکہ لوگ پوچھیں کہ یہ کون ہے؟ بیٹھنے کے لیے ایسی جگہ چنئے جہاں مناسب روشنی اور موزوں لوگ ہوں۔

    اگر شریکِ حیات ساتھ ہو تو سب کے سامنے اسے کبھی ڈارلنگ مت کہیے، بلکہ پبلک میں اس کا نوٹس ہی نہ لیجئے۔

    اپنے بچے کو کبھی ساتھ مت لے جائیے۔ ایک بچے کی موجودگی سارے حسن و جمال کو ختم کردینے کے لیے کافی ہے۔ محبوب کے بچوں کو بھی لفٹ نہ دیجئے۔

    ذرا سے جھوٹ سے عجیب دلکشی پیدا ہوجاتی ہے۔ یاد رکھیے کہ بچپن میں جھوٹ بولنا گناہ سمجھا جاتا ہے۔ شادی سے پہلے اسے ایک خوبی تصور کیا جاتا ہے۔ محبت میں اسے آرٹ کا درجہ حاصل ہے اور شادی کے بعد جھوٹ کی پختہ عادت پڑ جاتی ہے۔

    عینک کبھی مت لگائیے، خواہ دو تین فٹ سامنے کچھ بھی نہ دکھائی دیتا ہو۔ مگرذرا سنبھل سنبھل کر چلیے، راستے میں گڑھے بھی ہوتے ہیں۔

    دعوتوں پر یا تو کھانا کھا کرجائیے یا واپس آکر کھایئے۔ کم خوراک ہونا انٹیلکچوئل پنے کی نشانی سمجھی جاتی ہے۔ افواہوں میں خاص دلچسپی لیجئے۔ اگر محبوب کو سنانے کے لیے نئی نئی افواہیں آپ کے پاس ہوئیں، تو وہ باقاعدگی سے سننے آئے گا۔

    اگر لوگ آپ کے یا محبوب کے متعلق برا بھلا کہتے ہیں، تو ذرا خیال نہ کیجئے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جن لوگوں میں برائیاں نہیں ہوتیں، ان میں خوبیاں بھی بہت کم ہوتی ہیں۔ تبھی سارے دلچسپ لوگ بگڑے ہوئے ہوتے ہیں۔

    محبت ختم کرتے وقت ہرگزمت لڑیئے، خدا جانے کل کلاں کہیں سابق محبوب ہی سے واسطہ نہ پڑ جائے۔

    آخر میں مصنف سفارش کرے گا کہ کبھی کبھی اپنے رفیقِ حیات سے بھی تھوڑی سی محبت کر لیا کیجئے۔ اس کا بھی تو آپ پر حق ہے۔ جیسا کہ ایک مشہورمفکر نے کہا ہے کہ اپنے رفیق ِحیات سے محبت کرنا، محبت نہ کرنے سے ہزار درجے بہتر ہے۔

    چند جنرل ہدایات

    محبوب سے تبھی ملیے جب اس کی صحت اچھی ہو (اور آپ کی بھی) دانت یاسر کے ذرا سے درد سے دنیا اندھیر معلوم ہونے لگتی ہے۔

    سب جانتے ہیں کہ حسین اتنے خطرناک نہیں ہوتے، جتنے سادہ شکل والے۔ آخرالذکر چھپے رستم ہوتے ہیں۔ یہ ہمدردی جتاتے ہیں۔ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ احسانوں سے زیر بار کردیتے ہیں۔ نشانہ درست کر کے پھر وار کرتے ہیں۔ لیکن حسین اپنے آپ ہی مگن رہتے ہیں۔ انہیں آئینہ دیکھنے اور کپڑے سلوانے سے ہی فرصت نہیں ملتی۔

    یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ذہین انسان بڑی مشکلوں سے عاشق ہوتے ہیں۔ ان کے خیال میں محبت تخیل کی فتح ہے۔۔۔ ذہانت پر۔

    غالباً محبوب ایک دوسرے سے اس لیے بور نہیں ہوتے کہ وہ ہر وقت ایک دوسرے کے متعلق باتیں کرتے رہتے ہیں۔

    (محبت کی شادی کے ذکر سے قصداً گریز کیا گیا ہے کیونکہ یہ جدا موضوع ہے۔ لیکن علماء کا قول ہے کہ جہاں محبت اندھی ہے، وہاں شادی ماہرِامراضِ چشم ہے)

    نوٹ۔ اگر اس مضمون سے ایک کا بھی بھلا ہوگا تو مصنف سمجھے گا کہ اس کی ساری محنت بالکل رائیگاں گئی۔

     

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے