Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ترقی پسند غالب

کنہیا لال کپور

ترقی پسند غالب

کنہیا لال کپور

MORE BYکنہیا لال کپور

    پہلا منظر
    (باغ بہشت میں مرزا غالب کامحل۔ مرزا دیوان خانہ میں مسند پر بیٹھے ایک پری زاد کو کچھ لکھوا رہے ہیں، ساغر و مینا کا شغل جاری ہے۔ ایک حور ساقی کے فرائض انجام دے رہی ہے)

    (منشی ہر گوپال تفتہ داخل ہوتے ہیں)

    تفتہ آداب عرض پیرومرشد۔ یہ آج پری زاد سے کس قسم کا انتقام لیا جا رہا ہے کہ اسے اچھا خاصا کاتب بنا دیا۔

    غالب آؤ آؤ مرزا تفتہ، بہت دنوں کے بعد آئے ہو بھئی بیٹھو۔ کچھ اپنی کہو، ہماری سنو۔

    تفتہ لیکن بندہ نواز یہ سلسلہ کیا ہے؟ کیا کوئی تازہ غزل لکھوائی جا رہی ہے؟

    غالب جنت اور تازہ کلام۔میاں جہاں دودھ اور شراب کی نہریں ہوں، حوریں اورپری زادزلف سیاہ رخ پہ پریشان کئے ہر وقت چشم براہ اور گوش بر آواز ہوں وہاں احساس نا امیدی کہاں، اور اس کی عدم موجودگی میں ساز غزل سے کوئی نغمہ ابھرے یا پھوٹے یہ کس طرح ممکن ہے، واللہ کیا دن تھے وہ بھی جب شراب کے ایک ایک جرعے کو ترستے تھے۔ قرض کی مے پینے میں کتنا مزا تھا جب۔۔۔

    تفتہ قطع کلام معاف مرزا صاحب، کل ریاض خیرآبادی سے اس موضوع پر ایک شعر سنا بخدا لطف آ گیا۔

    غالب ارشاد۔

    تفتہ
    اپنی یہ وضع اور یہ دشنام مے فروش
    سن کے جو پی گئے یہ مزا مفلسی کا تھا

    غالب سبحان اللہ کیا تیور ہیں شعر کے۔ خدا خوش رکھے ریاض کو، خمریات میں بڑا نام پیدا کیا ہے لیکن رہا مولوی ہی ساری عمر۔ ظالم نے جنت میں آکر بھی نہیں چکھی۔

    تفتہ باتوں باتوں میں میرا سوال تو آپ فراموش ہی کر گئے۔ میں نے عرض کیا تھا، پری زاد سے کیا لکھوایا جا رہا ہے؟

    غالب کوئی نئی چیز نہیں یونہی اپنی چند غزلوں کو بنانے کے لئے بیٹھ گیا۔ سو چا بیکار مباش۔

    تفتہ گستاخی معاف حضور! لیکن ان غزلوں میں اصلاح کی گنجائش کہاں ہے۔ سونے پر سہاگہ کرنے کی ٹھانی ہے کیا؟

    غالب گنجائش اس طرح نکل آئی کہ ان میں رجعت پسندی کے کافی عناصر ہیں، انہیں ترقی پسند سانچے میں ڈھال رہا ہوں۔

    تفتہ خوب، خوب، تو جنت میں آنے کے بعد آپ کو ترقی پسند بننے کا شوق ہوا ہے۔ خدارا! اپنے پہ نہیں تو اپنے عزیزوں پر رحم کیا ہوتا۔

    غالب بھئی بات تو تم ٹھیک کہتے ہو، لیکن ہوا کے رخ کو بھی تو دیکھنا پڑتا ہے۔

    تفتہ (طنزاً) ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

    غالب اور ہم اگر جواب میں کہیں،

    کچھ اور چاہئے وسعت مرے بیان کے لئے

    تفتہ حضور! خدا کے لئے بیان میں مزید وسعت پید ا کرنے سے احتراز فرمائیے۔ بے چارے نقاد پہلے ہی کافی پریشان ہیں۔ اگر اصلاح شدہ کلام کی شرح لکھنی پڑی تو خیر و عافیت معلوم ہو جائے گی۔

    غالب میں نے فیصلہ کیا ہے یہ کلام دارالبقا میں رہے گا۔

    تفتہ تو اس سے آپ کا مطلب تو حل ہوگا نہیں۔ دارالمکافات کے نقاد آپ کا شمار ترقی پسند شعرا میں کرنے سے تو رہے۔

    غالب دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

    تفتہ بجا ارشاد ہوا، قبلہ! ایک سوال بڑی دیر سے میرے ذہن میں چٹکیاں لے رہا ہے۔ اجازت ہو تو عرض کروں۔

    غالب بلا تامل کہئے۔

    تفتہ جنت کی حقیقت تو آپ کو معلوم ہو گئی، کبھی جنت میں دلی کی بھی یاد آئی، خاص کر محلہ بلی ماراں کی؟

    غالب محلہ بلی ماراں! آہ مرزا تفتہ۔ یہ تم نے کس کی یاد دلا دی؛

    اک تیر میرے سینے پہ مارا کہ ہائے ہائے

    خدا گواہ ہے، وہاں سے آئے ہوئے نوے برس ہونے کو آئے لیکن محلہ بلی ماراں کا نقشہ دن رات میری آنکھوں کے سامنے رہتا ہے۔

    تفتہ تو کیوں نہ ایک آدھ دن کے لئے دلی کی سیر کی جائے۔ یہاں رہتے رہتے طبیعت اوب گئی ہے۔ نہ مشاعرے، نہ مجلسیں، نہ نوک جھونک، نہ لطیفہ بازی۔ بس ہر طرف شہد اور دودھ کی نہریں، اور ان پر بھنبھناتی ہوئی مکھیاں۔

    غالب لیکن وہاں جائیں تو کیسے، نہ تقریب ، نہ دعوت نامہ اور پھر دہلی میں ہمیں کون پوچھے، کون سمجھےگا۔

    تفتہ یہ بات تو نہیں جناب دہلی کیا سارے ہندوستان میں آپ کے لاکھوں پرستارموجود ہیں۔ ابھی چند دن ہوئے پنڈت ہری چند اختر وہاں سے تشریف لائے ہیں ۔ انہوں نے وہ وہ قصے سنائے کہ طبیعت مچل مچل گئی۔

    غالب اچھا، کچھ ہم بھی سنیں، کیا کہا انہوں نے؟

    تفتہ دلی میں آپ کا شاندار مزار تعمیر کیا گیا ہے۔ ایک فلم آپ کی زندگی پر بنائی گئی ہے اور آپ کا دیوان دیو ناگری رسم الخط میں شائع کیا گیا ہے۔

    غالب جزا ک اللہ اور یہ اس غالب کی عزت افزائی کی گئی ہے جسے ساری عمر یہ شکایت رہی؛

    ہم نے مانا کہ دلی میں رہیں کھائیں گے کیا

    تفتہ معلوم ہوتا ہے کہ لوگ آپ کی وفات حسرت آیات کے منتظر تھے جونہی آپ اللہ کو پیارے ہوئے قدر افزائی کے ڈونگرے برسنے لگے۔

    غالب یہ بات تھی تو ہمیں ہلکا سا اشارہ کر دیا ہوتا۔ ہم برسوں پہلے سفر آخرت اخیار کر لیتے۔

    تفتہ تو فرمائیے، دلی چلئے گا۔اختر صاحب کی زبانی پتہ چلا کہ لال قلعہ میں عظیم الشان مشاعرہ ہو رہا ہے۔

    غالب لال قلعہ! مشاعرہ!! یہ تو گویا دو آتشتہ ہے، بھئی ضرور چلیں گے۔

    دوسرا منظر
    (لال قلعہ دلی کے دیوان عام میں غالب کی یاد میں ایک مشاعرے کا اہتمام کیا گیا۔ شعرا اسٹیج پر جلوہ افروز ہیں۔ سامعین بے تابی سے کارروائی شروع ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ اسٹیج سیکریٹری مائک کے سامنے آتا ہے۔)

    اسٹیج سکریٹری صاحب صدر، خواتین و حضرات! یہ مشاعرہ اقلیم سخن کے اس شہنشاہ کی یاد میں منعقد کیا گیا ہے جسے مرزا اسد اللہ غالب کے نام نامی سے یاد کیا جاتا ہے، جو اسی لال قلعہ کی محفلوں میں بار ہا غزل سرا ہوا اور جس کے کلام نے عوام کے علاوہ مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار کو محفوظ ومسحور کیا۔ کاش وہ آج ہمارے درمیان موجود ہوتا اور اپنی غزل سرائی سے ہمارے دلوں کو گرماتا۔

    ایک آواز حضرت! آپ نے مجھے یاد فرمایا، میں تو آپ کے درمیان موجود ہوں۔

    (سامعین میں ہلچل سی مچ جاتی ہے سب پیچھے کی طرف مڑ کر دیکھتے ہیں)

    ایک اور آواز میں ہر گوپال تفتہ بڑی مسرت سے آپ کو یہ خوشخبری سناتا ہوں کہ نجم الدولہ دبیر الملک مرزا اسد اللہ خاں غالب بہ نفس نفیس اسٹیج پر تشریف لا رہے ہیں۔

    (مرزا غالب اور منشی ہر گوپال تفتہ اسٹیج کی طرف بڑھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ سامعین کھڑے ہو کر آداب بجا لاتے ہیں۔ صاحب صدر اور اسٹیج سکریٹری مرزا اور تفتہ کے حق میں دست بر دار ہو جاتے ہیں)

    غالب (کرسی صدارت پر بیٹھنے کے بعد) بھئی تفتہ، شمع بردار کہاں ہے۔ اس سے کہو کہ شمع کسی ترقی پسند شاعر کے سامنے لائے۔

    ایک شاعر گستاخی معاف مرزا، ہمارے مشاعروں میں شمع بر دار نہیں ہوتا، ہم بجلی کے لیمپ کی روشنی میں مائیک کےسامنے اپنا کلام پڑھتے ہیں۔

    غالب تو پھر شروع کیجئے، یہ دونوں چیزیں تو موجود ہیں۔

    مصائب دہلوی غزل سماعت فرمائیے۔

    غالب بھئی کوئی ترقی پسند نظم سنایئے، آخر ہم جنت سے غزل سننے کے لئے تو نہیں آئے۔

    مصائب دہلوی معاف کیجئے مرزا، نظم سے تو میں تائب ہو چکا ہوں۔

    غالب ہائیں، نظم سے توبہ کر لی، آخر کیوں؟

    مصائب دہلوی وجہ بیان کئے دیتا ہوں۔ عرض کیا ہے؛

    غزل سے بدکنا
    غزل سے بھڑکنا
    مرا اک معمول سا ہو گیا تھا
    میں لکھتا تھا نظمیں
    جنہیں اہل محفل
    بجھارت پہیلی معما سمجھتے
    سمجھتے نہ کچھ بھی بس اتنا سمجھتے 
    مگر میں نے دیکھا 
    کہ نظموں میں میری
    نہیں مغز کوئی
    یہ نظمیں کجا، محض تھی جعل سازی
    کہ پڑھ کے انہیں شہر کا کوئی قاضی
    پکارے۔ ’’الہی یہ کیا بک رہا ہے 
    کہ لاحول پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔‘‘
    میں جب بھی کوئی نظم 
    محفل میں پڑھتا
    تو دانتوں تلے انگلیاں
    داب کر سب
    کنکھیوں سے یوں دیکھتے میری جانب
    کہ جیسے ہو احساس رحم ان میں پیدا
    کسی نیم پاگل کسی سر پھرے پر
    بالآخر یہ سوچا
    کہ حد مسخرہ پن کی ہوتی ہے کوئی
    چنانچہ غزل کی طرف لوٹ آیا
    بچایا مجھے شکر تیرا خدا یا

    غالب خوب بہت خوب، تو گویا شام کا بھولا صبح کو گھر لوٹ آیا۔ لیکن صاحب ہم غزل نہیں سنیں گے۔

    مصائب دہلوی اگر آپ نظم ہی سماعت فرمانا چاہتے ہیں تو پھر حضرت جدت لکھنوی سے کہئے کیونکہ وہ ترقی پسندوں کے سالار ہیں۔

    غالب جدت لکھنوی اسٹیج پر تشریف لائیں۔

    جدت لکھنوی مرزا صاحب! مصائب دہلوی نے تو صرف نظم سے توبہ کی ہے میں نے شاعری سے توبہ کر لی ہے۔

    غالب تعجب ہے آخر اس انقلاب کی وجہ؟

    جدت لکھنوی اگر آپ اصرار کرتے ہیں تو وجہ بھی ظاہر کئے دیتا ہوں۔

    غزل سے مجھے اس لئے دشمنی تھی
    کہ آساں نہیں ہے غزل اچھی کہنا
    بڑا مارنا پڑتا ہے اس میں پتا
    بڑی دور کی لانا پڑتی ہے کوڑی
    جو سچ پوچھئے ایک نشتر غزل کا
    ہے سولاکھ بے کیف نظموں پہ بھاری
    مگر چاہتی ہے غزل وہ ریاضت
    کہ جس کے تصور سے لرزہ ہو طاری
    چنانچہ بڑے چھوٹے’’مصرعے‘‘ ملا کر 
    میں لکھتا رہا ایسی مہمل سی نظمیں
    کہ پڑھ کے جنہیں آئے قاری کو غصہ
    پڑھی نظم دلی کی مجلس میں میں نے
    تو مزدور نے ایک یوں مجھ کو ٹوکا
    ’’ابے دیکھ تو تو یہ کیا کر رہا ہے‘‘
    اسی دن سے کی میں نے نظموں سے توبہ
    کہ مشکل بہت شاعری کا ہے شعبہ
    چنانچہ میں خاموش ہوں چھ برس سے 
    فقط اللہ ہو اللہ ہو کر رہا ہوں

    غالب آپ کی معذرت بجا، لیکن اگرآپ بھی رضا مند نہیں تو پھر نظم پڑھنے کے لئے کس سے کہا جائے؟

    جدت لکھنوی بسولہ حیدر آبادی جو ہیں۔

    غالب بسولہ حیدر آبادی تشریف لائیں۔

    بسولہ حیدر آبادی مرزا صاحب، اگر آپ کا خیال ہے کہ میں آپ کو غزل یا نظم سناؤنگا تو یہ آپ کی خوش فہمی ہے۔ یہ شغل تو مدت سے ترک کر رکھا ہے اگر چاہیں تو فضا میں ہتھوڑا یا درانتی لہرا کر دکھا سکتا ہوں۔

    غالب خدا نخواستہ کہیں ہمارا سر پھوڑنے کا ارادہ تو نہیں۔

    بسولہ حیدر آبادی تسلی فرمائیے ایسی کوئی بات نہیں۔

    غالب لیکن آپ نظم سنانے سے کیوں گریز کر رہے ہیں؟

    بسولہ حیدر آبادی بات در اصل یہ ہے مرزا کہ شاعری ایک بے کار مشغلہ ہے پھر جو بات ہتھوڑے میں ہے وہ قلم میں کہاں۔

    غالب معاف کیجئے۔ میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا۔

    بسولہ حیدر آبادی مطلب ابھی واضح کئے دیتا ہوں۔ عرض کیا ہے؟

    کبھی قلم ہاتھ میں تھا میرے
    غزل بھی کہہ لیتا تھا میں خاصی
    نہ جانے کیا میرے دل میں آئی
    کہ توڑڈالا قلم کو ساتھی
    پکڑ کے ہاتھوں میں ایک ہتھوڑا
    ادب کی تخلیق کر رہا ہوں
    ہتھوڑے سے یعنی لکھ رہا ہوں
    ادب برائے یہ ماسکو ہے
    نہیں ادب یہ برائے دلی
    میں صاف اعلان کر رہا ہوں
    کہ بن گئی ہے مرکھنی گائے
    ہوا جو کرتی تھی بھیگی بلی
    قسم مجھے گور کی کی ساتھی
    ادب کو رہنے ادب نہ دوں گا
    قسم مجھے ایلیا کی ساتھی
    میں شاعری تو نہیں کروںگا
    لگاؤںگا میں ادب میں نعرے
    کہ آ رہا ہے نیا سویرا
    کہ شاعری ختم ہو چکی ہے 
    درانتیاں گیت گا رہی ہیں

    غالب یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے۔ کوئی شاعر نظم سنانے کو تیار نہیں۔ (تفتہ سے)

    اچھا بھئی تفتہ مائک پر اعلان کر دیجئے کہ اگر کوئی صاحب نظم سناناچاہتے ہیں تو اسٹیج پر آ جائیں۔

    تفتہ ہاں صاحب، ہے یہاں کوئی نظم گو شاعر؟

    شعراء کوئی نہیں کوئی نہیں، ہم سب اب غزل گو ہو چکے ہیں۔

    تفتہ (غالب سے) تو پیرو مرشد، آپ ہی کچھ ارشاد فرمائیے۔

    غالب حضرات! ادھر چند دنوں سے دو ترقی پسند نظمیں کہی ہیں، انہیں پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں؛

    شعراء ارشاد قبلہ!

    غالب عرض کیا ہے،

    ہم ہیں مشتاق اور وہ بے زار
    کس کی حاجت روا کرے کوئی
    شعراء، سبحا ن اللہ کیا بات پیدا کی ہے۔
    غالب، آداب عرض، شعر ہے؛ 
    جان تم پر نثار کرتا ہوں
    شرم تم کو مگر نہیں آتی

    اور

    بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
    ابر کیا چیز ہے، ہوا کیا ہے 

     شعر ہے،

    موت کا ایک دن معین ہے 
    اور درویش کی صدا کیا ہے
    اور صاحب آخری شعر ہے؛ 
    میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالب
    کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی

    تفتہ جواب نہیں حضور! اس ترقی پسندی کا، قبلہ اب دوسری نظم بھی عطا فرمائیے۔

    غالب دوسری نظم ابھی نا مکمل ہے۔ صرف تین شعر ہوئے ہیں۔

    تفتہ ارشاد۔

    غالب عرض کیا ہے،

    دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
    حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں

    شعراء واہ واہ کیا بے نظیر شعر ہے۔

    غالب اسد بسمل ہے کس انداز کا قاتل سے کہتا ہے
    وہ اپنی خونہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں

    تفتہ واللہ کہاں تان توڑی ہے قبلہ، کیا نازک خیالی ہے۔

    غالب اور تیسرا شعر ہے؛

    دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
    گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی

    تفتہ مرحبا، یہ آپ کا ہی حصہ ہے مرزا صاحب، ندرت کی داد نہیں دی جا سکتی۔

    غالب آداب عرض، تو حضرات اب مجلس برخاست کی جاتی ہے کیونکہ معلوم ہوتا ہے کہ مجھ کافر کے علاوہ سب کفار مسلمان ہو چکے ہیں، یعنی غزل گوئی کی طرف لوٹ آئے ہیں اور خاکسار جب سے جنت آشیانی ہوا ہے۔ غزل کہنے یا سننے کی تاب نہیں لا سکتا۔ (تفتہ سے) بھئی تفتہ مائیک پر اعلان کر دو کہ سامعین اور شعراء تشریف لے جا سکتے ہیں۔

    تفتہ خواتین و حضرات! پیرو مرشد کا ارشاد آپ نے سن ہی لیا، آپ آرام کیجئے۔ خاکسار اور مرزا بھی مزار غالب پر فاتحہ پڑھنے جائیں گے۔ ہو سکا تو سیکنڈ شو میں فلم ’’مرزا نوشہ‘‘ بھی دیکھیں گے۔

    الوداع، شب بخیر۔

     

    مأخذ:

    گرد کارواں (Pg. 9)

    • مصنف: کنہیا لال کپور
      • ناشر: ساقی بک ڈپو، دہلی
      • سن اشاعت: 1987

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے