Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایلوپیشیا

مونا شہزاد

ایلوپیشیا

مونا شہزاد

MORE BYمونا شہزاد

    وہ بہت دیر سے اندھیرے کمرے میں گم صم بیٹھی تھی ،آخرکار وہ آہستگی سے اٹھی اور اندازے سے چیزیں ٹٹولتی ہوئی کمرے میں پڑی شیشے کی الماری تک پہنچ گئی ،اس نے ٹٹول ٹٹول کر الماری کے اندر لگی لائٹ آن کی ۔اس کی آنکھیں ایک لمحے کے لیے چندھیا گئیں ۔اس نے پلکیں جھپکیں اس کی تمام ٹرافیاں،شیلڈ ،سرٹیفیکیٹ اس کے سامنے جگمگا رہے تھے۔

    اس نے ایک طائرانہ نظر ان شیلڈز پر ڈالی ۔ آج صبح پیش آنے والے واقعہ نےاس کی فصیل جان کو ہلا کر رکھ دیا تھا ۔ اس کے کانوں میں اس کے یونیورسٹی فیلوز کے طنزیہ قہقہے گونجنے لگے ، اسے ریٹا کا زرد چہرہ یاد آگیا، آج شاید حادثات کا دن تھا،ریٹا آج ہائی ہیل سینڈل پہن کر نہیں آئی تھی، نیز اس نے لباس میں بھی سفید رنگ کی سکرٹ کا انتخاب کیا تھا۔لڑکوں کے ایک گروہ نے اسے یونیورسٹی کے دروازے سے ہی گھیر لیا،وہ لڑکے اس کا مذاق اڑاتے،آوازیں کستے اس کے پیچھے پیچھے یونیورسٹی بھر میں اس کا تعاقب کرتے رہے،ریٹا کی ہزار منتوں کے باوجود سب لڑکوں نے اس کی سانولی رنگت اور سفید لباس کو مذاق کا نشانہ بنائے رکھا۔ یونیورسٹی میں اس طرح کی ہرزہ سرائیاں کچھ عرصے سے روز مرہ کا ایک معمول سا بن گئیں تھیں۔اس کا نشانہ عمومی طور پر لڑکیاں ہی بنتیں تھیں،لڑکے تو اپنی نام نہاد عزت کے لئے مخالف پارٹی کے ہاتھ پاؤں بھی توڑنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔آج بھی ریٹا ایک مجرم کی طرح سب کے سامنے سہمی کھڑی تھی ، اس کی آنکھوں سے احساس شرمندگی کے مارے ساون بھادوں برس رہی تھی، اس کے یہ آنسو نادیہ کے دل پر گرے تھے۔ یہ سب یاد کر کے اس کو سردی میں بھی پسینہ آگیا ،اس نے کمرے کی بتی جلائی ۔ اس نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا :

    سب بکواس ہے۔ فضول کا جھمیلا ہے ۔

    اس نے دیکھا،اس کا عکس ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے میں طنزیہ انداز میں مسکرا رہا تھا،اس کا عکس یک دم بولا:

    نادیہ عطا ! تمھارا شمار بھی تو بزدلوں کی صف میں کیا جاسکتا ہے ،تم نے کون سا کلمہ حق بلند کیا ۔

    اس نے اپنی آنکھیں بند کر کے گہری سانس لی اور فیصلہ کن انداز میں اپنی سائیڈ ٹیبل سے ریوالور نکالا اور اسے اپنے قریب صوفے پر رکھ لیا۔ پھر اس نے لیپ ٹاپ کھولا ،کچھ دیر تو وہ شش و پنج کا شکار اپنی انگلیاں چٹخاتی رپی مگر یک لخت وہ مطمئن ہوگئی ۔اس نے فیس پک پر لائیو یونے کا فیصلہ کیا ،جیسے ہی وہ فیس بک پر لائیو ہوئی چند سیکنڈز میں ہی یونیورسٹی کے بیشتر طلبا و طالبات اس کا وڈیو دیکھنے لگے ، اس نے ٹھہرے ٹھہرے پرسکون لہجے میں بولنا شروع کیا۔

    میں سمجھتی تھی یہ دنیا انسانوں کا مسکن ہے ،مگر آج ریٹا کے ساتھ ہونے والے واقعے نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، مجھ پر اس حقیقت کا ادراک ہوا ہے کہ ہم تو انسان بننے سے ابھی بہت دور ہیں ، بلکہ ہم تو سال ہا سال کے ارتقا کے بعد بھی شاید جانور بننے میں بھی کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ کیونکہ جانور بھی اپنے ہم نسل پر ایسا ظلم نہیں ڈھاتے ہیں جیسا ہم سو کالڈ so called انسان ستم ڈھاتے ہیں ۔آج کی دنیا میں کیا اہم ہے؟ زیرو سائز ، ناز و ادا کا جال، ظاہری شکل و صورت، گوری رنگت ،کم عمری۔

    سوال یہ اٹھتا ہے کیا عورت سجاوٹ کی شے ہے ؟

    میں نادیہ عطا آج ابھی سے اس روایتی تصور سے بغاوت کرنے کا اعلان کرتی ہوں ۔میری شکل و صورت، ناز و ادا سے زیادہ اہم میری ذات ہے ، میں ایک کھلونا نہیں ہوں ۔میرا جسم ،میری وضع قطع، میری ہے۔ میں آج کے بعد تم لوگوں کے بنائے ہوئے مروجہ نام نہاد اصولوں پر پورا اترنے کی کوشش ہرگز نہیں کروں گی۔ تم لوگوں کو آزادی ہے ،جی بھر کر میرا مذاق اڑاو مگر میں اب اپنے آپ کو مصنوعی پردوں کے پیچھے مزید قید نہیں کروں گی۔ میں تم سب سے بہتر اور خوبصورت ذہن کی مالک ہوں، اس کے لئے ضروری نہیں کہ میں یا میری جیسی کوئی بھی عورت تم لوگوں کے لئے خود کو بدلے یا اپنے آپ کو چھپانے کے لیے میک اپ، مختصر لباس یا پلاسٹک سرجری کا سہارا لے ، میں اب ریٹا جیسی لڑکیوں کو اکیلا بے بس،تنہا نہیں چھوڑوں گی۔ میں ریٹا اور اپنی جیسی تمام لڑکیوں کی خودی کے لئے یہ قدم اٹھا رہی ہوں ۔جن کی رنگت،وزن، قد،کپڑوں کے انتخاب، ہر چیز پر تم جیسے گھٹیا لوگوں کو اعتراض ہوتا ہے۔

    اس نے توقف کیا اس نے دیکھا کہ لائیو وڈیو پر بے شمار لوگ کمنٹس میں استفسار کررہے تھے کہ وہ کیا کررہی ہے؟

    نادیہ اٹھ کر ڈریسنگ ٹیبل تک گئی اس نے اپنے سر سے وگ اتار کر ڈریسنگ ٹیبل پر پڑے پتلے کے سر پر لگائی ۔ آرام سے وہ واپس آئی اور تن کر لیپ ٹاپ کے آگے بیٹھ گئی۔ وہ مکمل گنجی تھی،اسے بچپن سے ہی ایلوپیشیا Alopecia کا مرض تھا،شروع شروع میں اس کے سر پر چاندی کے سکوں کے برابر گنجے پن کے نشان بننے شروع ہوئے مگر رفتہ رفتہ علاج کے باوجود اس کا سر بالوں سے عاری ہوتا گیا،ایک وقت آیا کہ وہ مکمل گنجی ہوچکی تھی ،انتہائی علاج و معالجہ کے باوجود اس کی حالت میں کوئی سدھار نہیں آیا تو ڈاکٹروں نے اس کے کیس کو ناقابل علاج قرار دے دیا ، وہ معاشرتی روئیوں کی بدصورتی سے خائف ہوکر آج تک وگ کا استعمال کرتی رہی تھی ،آج یونیورسٹی میں رونما ہونے والے واقعے نے اسے خواب غفلت سے بیدار کردیا تھا، اس نے کیمرے کے نزدیک ہو کر استہزائیہ لہجے میں کہا :

    میرے نزدیک مجھے صرف جسمانی طور ایلوپیشیا کا مرض ہے ۔مگر تم لوگوں کی تو سوچ اور روح کو ایلوپیشیا کا روگ ہے۔

    وہ ایک لمحے کو رکی اور کیمرے کی آنکھ میں آنکھیں ڈال کر زور سے چلائی :

    بس اب اور نہیں ۔۔۔

    ہرگز نہیں ۔۔۔

    یہ کہہ کر اس نے مسکرا کر پتلے کے سر کا نشانہ لیا اور گولی چلا دی۔ کمرے میں ہر طرف وگ کے بال بکھر گئے ،گولی کی بازگشت میں بس ایک سوال کی گونج تھی۔

    سید تحسین گیلانی اور مصنف کے شکریہ کے ساتھ

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے