Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خوف کا ڈر

ریاض توحیدی

خوف کا ڈر

ریاض توحیدی

MORE BYریاض توحیدی

    گھر سے لیکر باہر تک اس کے سائے کا تعاقب ایک اور سایہ کرتا رہتا ۔کبھی کبھی اسے ایسا محسوس ہوتا کہ جیسے دونوں سائے ایک دوسرے کو بھینچ رہے ہوں اوروہ سوچتارہتا کہ اس کا سایہ توکسی کے سائے سے ٹکرانا بھی پسند نہیں کرتا تو پھرکیوں اس کے سائے کو کالے سایوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اب تو دن کی چمکتی روشنی ہی کیا رات کے سکون بھرے لمحات پر بھی خوف کی یلغار ہی طاری رہتی‘جیسے نیند کی دیوی بھی کالے اور سفید دیوؤں کی دہشت سے نیند کانام تک بھول گئی ہو۔

    اس کی منتشرسوچ تو یہ گتھی سلجھانے سے قاصر نظر آرہی تھی کہ گرمی کی تپش چاہئے کہیں پر بھی بڑھ جائے یا سردی سے کیوں ہی نہ کہیں پر پانی منجمد ہوجائے تو اسی کا وجود ہی کیوں کالے اور سفید دیوؤں کی نظروں میں مشکوک موسم بن جاتا ہے اور وہ اس کے وجود کو کالا دھواں ہی سمجھنے لگتے ہیں جیسے خود ان دیوؤں کا وجود اوزون کی تہہ ہوجو صرف مضر شاعوں سے ہی محفوظ رکھتی ہو۔اب تو اس کی سانس اورسوچ بھی سینسر سے پرکھی جارہی تھیں۔اگر کبھی درد کے کراہنے سے آہ نکلنے کی بھنک بھی پڑجاتی تو میڈیا اور سوشل سائٹس پر ہاہاکار مچ اٹھتی کہ ماحول کو بگاڑنے کی سازش ہورہی ہے ۔اس گھٹن زدہ ماحول میں وہ سوچتا رہتاکہ یہ خوفناک دیو کیوں اس حقیقت سے منھ موڑ لیتے ہیں کہ دھواں اسی جگہ اٹھتا ہے جہاں پر پہلے آگ جلائی جاتی ہے‘اور جب آگ کے شعلے بھڑک اٹھتے ہیں تو وہ لوہے کو بھی پگھلا کر موم بنا دیتے ہیں۔

    اس کا وجود کئی موسموں سے خود اسی آگ کی آنچ سے پگھلتا آرہاتھااوروہ اس آگ کو بجھانے کا احساس بھی رکھتا تھا لیکن وہ ان دیوؤں کی دہشت زدہ سوچ پر حیران تھا کہ ایک تو یہ پہلے خود ایندھن کا انتظام کرجاتے ہیں اور پھر آگ لگنے کے بعد دھویں کی گھٹن سے کھانسنے لگتے ہیں۔وہ سوچتا رہتا کہ یہ کورباطن دیو کیوں نہیں سمجھتے ہیں کہ آگ تو آگ ہے چاہئے کوئی بھی لگائے‘تباہ تو ہر چیز کو کر جاتی ہے۔

    اپنی زخمی شناخت کے کرب کا احساس اسے صرف اپنے وجود کو زندہ رکھنے کا حوصلہ دیتا رہتا ۔اسے یاد آیا کہ زخمی شیر جب شکاری کے گھیرے میں پھنس جاتا ہے تو وہ اپنے وجود کو زندہ رکھنے کے لئے شکاری پر حملہ بھی کردیتا ہے۔کالے اور سفید دیوؤں کی دہشت جاری تھی۔خوف کے سائے مسلسل رقص کررہے تھے۔کالے سایوں کے وحشت ناک رقص کودیکھتے ہی اس کے وجودمیں امید و بیم کی لہروں نے ایک انوکھا احساس جگا دیاکہ خوف جب روز دھمکی دیتا ہے تو خوف کا ڈر ختم ہو جاتا ہے۔

    سید تحسین گیلانی اور مصنف کے شکریہ کے ساتھ

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے