aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

قیدی

MORE BYمونا شہزاد

    میں بہت دیر سے ساکت و جامد بیٹھا تھا، میرے اندر اک عجب توڑ پھوڑ چل رہی تھی، میں نے محسوس کیا کہ میری سوچوں میں نراش کا پیڑ نمو پا گیا تھا۔ میں نے سوچا :

    میں آخری بار کب کھلکھلا کر ہنسا تھا؟

    میں نے اپنے ذہن پر زور ڈالا مگر یاد نہیں آیا۔

    شاید مجھے قہقہہ لگائے ہوئے ایک صدی سے زیادہ کا وقت گزر گیا ہے ۔ یہ 2119 کب آیا مجھے تو علم ہی نہیں ہوا۔ یہ صدی کیسی صدی تھی؟ پہلے ہمارے آباو اجداد روٹی کے لئے، بھوک مٹانے کے لئے کماتے تھے، مگر اب ہم سانس لینے کے لئے کماتے ہیں۔

    میں نے خود کلامی کرتے ہوئے مایوسی سے اپنے ہاتھ میں دھرے کیپسولز کو دیکھا اور سوچا:

    یہ نیلا کیپسول پانی کا بدل، یہ سرخ کیپسول کھانے کا بدل، یہ کالا کیپسول تمام منرلز اور وٹامنز کا بدل ۔ اب ہماری زندگی ان تین کیپسولز پر مشتمل ہے۔

    میں نے سرد آہ بھر کر شیشے سے سر ٹکایا۔ دور مریخ کی سرخ زمین جگمگا رہی تھی مگر اس پر کسی سبزے کے دور دور تک کوئی آثار نہیں تھے۔ میں نے سوچا:

    مجھے جلد کام پر پہنچنا چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو میری آکسیجن ختم ہوجائے ۔

    مجھے یہ سوچ کر جھرجھری سی آگئی، میری آنکھوں کے سامنے پچھلے ہفتے کا دلدوز منظر تازہ ہوگیا۔

    وہ ایک حاملہ عورت تھی، وہ ہانپتی ہوئی ہماری ورکشاپ میں داخل ہوئی تھی، اس نے چیخ کر کہا تھا:

    خدارا ! تم میں سے کوئی مجھے ایک دن کی آکسیجن ادھار دے دے ! میرے حمل کا آخری مہینہ ہے ۔۔۔ میری طبیعت کی خرابی کے باعث میرا آکسیجن کا استعمال بڑھ گیا ہے اور میں بہت زیادہ کام کر کے آکسیجن نہیں کما پارہی۔

    سب لوگوں نے اسے دیکھ کر منہ پھیر لیا ،وہ ایک ایک شخص کی منتیں کرتی رہی، سسکتی رہی، مگر سب لوگ اس سے نظریں چرا رہے تھے۔ اسی اثنا میں ہم سب کے سامنے اس کی آکسیجن ختم ہوگئی، اس کا دم گھٹنے لگا، اس کی آنکھیں ابل آئی تھیں، اور چہرہ نیلا پڑ گیا۔

    میں نے کٹھور بننے کی کوشش کی مگر ضمیر سے ہار گیا۔ میں نے دل ہی دل میں اسے دو دن کی آکسیجن دینے کا مصمم فیصلہ کر لیا! میں بھاگ کر اس کے سرہانے پہنچا ۔ اس سے پہلے کہ میں اسے اپنے حصے کی دو دن کی آکسیجن دیتا، اس نے میری بانہوں میں دم توڑ دیا ، میری آنکھوں سے دو آنسو نکل کر اس مظلوم ماں کے چہرے پر گرے۔ مجھے اس عورت کے چہرے میں اپنی ماں کی شبیہہ نظر آئی۔ شاید ساری مائیں ایک سی دکھتی ہیں ۔ پھر میں نے خاموشی سے اس کی پھٹی پھٹی آنکھیں بند کردیں ۔میں نے دل ہی دل میں اس کے بچے کو مخاطب کیا:

    اے ننھے فرشتے ! تیرے پیدا ہونے سے پہلے لوٹ جانے میں بہتری تھی۔ یہ جینا زندگی نہیں ہے۔ ہم تو سب اسیر زندان ہیں۔ شکر ہے تیری آزاد روح اس زندان کی غلام بننے سے بچ گئی!

    اس سے پہلے کہ میں کچھ اور سوچوں کے جنگل میں گم ہوتا، میری آکسیجن لیول رسٹ واچ میں الارم بجنا شروع ہوگیا، میں جانتا تھا یہ ایک تنبیہہ تھی کہ اگر میں نے دس منٹ بھی اور دیر کی تو میں تین گھنٹوں کی آکسیجن سے محروم ہوجاوں گا۔ میں روبوٹ کی طرح اٹھا اور اپنی ورک شاپ کی طرف چل پڑا۔ اچانک پورے ان ڈور اسٹیشن میں اناونسمنٹ شروع ہوگئی ۔ خلائی اسٹیشن کے کیپٹن نے بتایا:

    میرے ساتھیو ! آج کی اہم اطلاع یہ ہے کہ زمین پر دوبارہ سے انسانی زندگی کے آثار ملے ہیں! تربیتی خلائی شٹل سے پیغام آیا ہے کہ ایٹمی تباہ کاری کے آثار ختم ہوچکے ہیں اب زمین پر وافر مقدار میں خوراک، پانی اور آکسیجن موجود ہے۔ ہم اب جلد زمین تک فلائیٹ شروع کریں گے۔ زمین پر پہلے سے موجود لوگوں کو بات چیت کے ذریعےاپنی آمد کا مقصد واضح کریں گے۔

    میرے دل میں درد کی تیز لہر ابھری میں سینہ پکڑے زمین پر گر گیا۔اب میرا وجود اپنے جسم سے باہر کھڑا تھا۔ میں نے خودکلامی کرتے ہوئے کہا:

    انسان اور اس کی امن و امان سے بات چیت؟۔۔۔

    اگر کامیاب ہوتی تو زمین کی کوکھ ایٹمی دھماکے سے نہ اجڑتی۔

    میں دور سے آتی مہربان سفید روشنی کی طرف چل پڑا، میرا اعتبار انسان اور اس کی انسانیت سے اٹھ جو گیا تھا۔

    سید تحسین گیلانی اور مصنف کے شکریہ کے ساتھ

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے