وفا
شاہی ہاتھی نے جہلم کی سر پٹختی موجوں پر ایک نظر ڈالی اور پھر اپنے راجہ پر جو یونانی حملہ آور کے مقابلے مں نہایت بہادری سے ڈٹا ہو ا تھا۔ ایک طرف چنگھاڑتے ہاتھی تھے اور دوسری طرف گھوڑے ہنہنا رہے تھے ۔
شاہی ہاتھی نے سونڈ گھما کر تھیسلی نسل کے سا ہ رنگ کے بو‘سے فیلس کو دیکھا جس کے ماتھے پر سفدے رنگ کا ستارہ دمک رہا تھا اور ایک آنکھ نیج تھی۔ نلےے آکاش کی طرح ۔ ساگر کے گہرے پانی کی طرح۔ وفا کی شدتوں سے بھر پور وہ سر اٹھا ئےکھڑا تھا ۔
’’تم یہاں کا کرنے آئے ہو ؟‘‘ شاہی ہاتھی نے پوچھا؛
’’مر ا آ قا دنای فتح کرنے کا خواب لے کر یونان سے نکلا ہے مںے اس خواب کی تکمل کے لئے اس کا ساتھ دے رہا ہوں ۔ ’’ مگر تم ، تم یہاں کای کر رہے ہو؟‘‘ بواسے فیلس بولا
’’مر ا آقا اپنی دھرتی کی حفاظت کے لئے لڑ رہا ہے اور مںے اس کے ساتھ کھڑا ہوں‘‘ شاہی ہاتھی بولا
’’ گھوڑا تو ہمشہا سے مالک کا ساتھ دیتا رہا ہے اس کی وفاداری تو مشہور ہے‘‘ بوںسے فیلس نے فخر سے کہا
’’اس بار ہاتھی کی وفا بھی دیکھ لنای۔ سب کے لئے مثال ہو گی‘‘ شاہی ہاتھی نے کہا
’’چلو دیکھتے ہںن کون زیادہ وفادار ہے‘‘ بو سے فیلس بولا
طبل جنگ بجا تلواروں اور نزنوں کی جھنکار سے فضا گونج اٹھی ۔یونان اور جہلم ۔ ہاتھی اور گھوڑے آمنے سامنے تھے ۔یونانی حملہ آور پشت اسپ پر سوار تلوار کے جوہر دکھا رہا تھا تو شاہی ہاتھی بھی اپنے راجہ کو سنبھالےڈٹا ہوا تھا ۔ مخالف فوج کبھی اس کےپاؤں پر زخم لگاتی تو کبھی تلواریں اس کے جسم کو رگد تںد اور کبھی اس کی آنکھوں کو نشانہ بنایا جاتا تلواروں تر وں اور نزاوں کی بوچھاڑ نے اسے لہو لہو کردیا اس کے لئے اپنے قدموں پر کھڑا رہنا محال ہو گاو اس نے راجہ کو سونڈ مںا لپٹس کر نرمی سے زمنل پر رکھا اور خود اس کے سامنے ڈھال بن کر بٹھو گاک دشمن کا ہر وار اپنے جسم پر رو کا اور جان جان آفرین کے سپرد کر دی ۔
بون سے فیلس بھی اپنے مالک پہ نثار ہو گاک اس نے وفا نبھا دی تھی پچھے تو شاہی ہاتھی بھی نہںت رہا تھا لکنر اس کا ذکر کہںر نہںس آتا جب کہ بویسے فیلس کے نام پر پھالہو شہر بسا دیا گان کوہنکہ وہ فاتح کا گھوڑا تھا ۔
سید تحسین گیلانی اور مصنف کے شکریہ کے ساتھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.