Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آدمی اور انسان

محمد حسن عسکری

آدمی اور انسان

محمد حسن عسکری

MORE BYمحمد حسن عسکری

    کوئی آٹھ سال ہوئے ہیں، میں نے ایک مضمون ’’انسان اور آدمی‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا۔ آج اس مضمون کا دوسرا حصہ یا ضمیمہ لکھتے ہوئے نہ تو میں ان خیالات کی تردید کر رہا ہوں نہ انہیں دہرا رہا ہوں۔ اگر نئے تجربات کا تقاضا ہو تو میں اپنی رائے بڑی بے شرمی سے بدل دیتا ہوں۔ ایسی صورت پیش آتی تو مجھے خود اپنے مضمون کے خلاف لکھنے میں کوئی جھجک نہ ہوتی۔ مگر فی الحال میں اس پرانے مضمون کا ایک لفظ بھی واپس لینے کو تیار نہیں ہوں۔

    یہ ضمیمہ اس لئے لکھنا پڑا کہ اب مجھے موضوع کے دوسرے رخ کی طرف توجہ دلانی ہے۔ اس مضمون کا پس منظر دوسری قسم کا تھا، اس مضمون کا پس منظر کچھ اور ہے۔ آٹھ سال پہلے ہمارے ادب میں روس کے زیر اثر ’’انسان‘‘ اور ’’انسانیت‘‘ یہ دو لفظ ایسے دھڑلے سے استعمال ہو رہے تھے کہ لوگ یہ تک نہ سوچتے تھے کہ ہمیں کہنا کیا ہے، ان دو لفظوں کی الٹ پھیر سے نظم یا افسانہ یا تنقیدی مضمون تیار کر کے رکھ دیتے تھے۔ میں نے اپنے مضمون میں اس رجحان پر اعتراض کیا تھا، اور صرف اتنی بات کہی تھی کہ اگر زندگی کے ٹھوس تجربات سے آنکھیں بند کر کے انسان کی تعریف متعین کی جائے اور ایک مجرد خیال کو حقیقت سمجھ لیا جائے تو اس کے نتائج نہ تو ادب کے لئے خوشگوار ہوں گے نہ زندگی کے لئے۔ اس زمانے میں میرے اس مضمون کو ترقی پسندی پر حملہ تصور کیاگیاتھا۔ لیکن اب خود روس میں ادب کوایک نئے اندز سے سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے اور روسی ادیب باقی دنیا کے اصطلاحی معنوں میں غیر ترقی پسندانہ ادب سے بھی رشتہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔

    یہ بات میں کسی فتح مندانہ جذبہ کے ساتھ نہیں کہہ رہا ہوں۔ روس کی اشتراکی تہذیب انسانی تاریخ کا ایک عظیم تجربہ ہے۔ اگرمیں اس کے مقابلے میں اپنا ایک مضمون لاؤں تو میرا چھچھوراپن ہوگا۔ مجھے تو اس بات کی خوشی ہے کہ اب ترقی پسند اورغیر ترقی پسند ادیبوں کے درمیان مکالمے کی گنجائش نکل آئی ہے۔ پہلے تو بس خود کلامی ہوا کرتی تھی۔ ترقی پسندوں سے میرا ہزار باتوں میں اختلاف رہا ہے اور شاید آئندہ بھی ہوتا رہے، لیکن اس ادبی تحریک کے پیچھے انسانی روح کے جو مطالبات کام کر رہے ہیں ان سے انحراف کر کے میں ادیب نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ اس مضمون میں بھی سوال ترقی پسندوں سے مناظرہ کا نہیں تھا بلکہ اردو کے ادیبوں اور ان ادیبوں کے پڑھنے والوں کو ارسطو کی سیدھی سادی بات یاد دلائی تھی کہ تعمیم، تخصیص سے آزاد ہو جائے تو اصول سازی خطرناک چیزیں بن جاتی ہے۔

    اس نئے مضمون میں مجھے یہ کہنا ہے کہ اگر آدمی تعمیم کی ذمہ داری قبول کرنے سے گھبرانے لگے یا ہر قسم کے تجربات سے بس ایک ہی نتیجہ اخذ کرتا رہے تو تخصیص ایک دلدل بن جاتی ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت مجھے اس لئے پیش آرہی ہے کہ آج ۱۹۵۶ء میں حالات کچھ اور ہیں۔ انسانی زندگی اور انسانی تاریخ کو سمجھنے میں روس نے جو غلطیاں کی ہیں، ان کا تو اب خود روسیوں کو احساس ہو چلا ہے۔ لیکن اب ان ملکوں میں جو اپنے آپ کو ’’جمہوری ‘‘کہتے ہیں، دو قسم کے رجحانات ابھر رہے ہیں۔ یہ عقیدہ کہ انسان فطرتاً بالکل معصوم اور پاک و صاف ہے کچھ روس ہی تک محدود نہیں رہا ہے۔ روس والوں نے تو اس عقیدہ کو ایک نیا معاشرہ قائم کرنے کی خاطر اپنایا تھا۔ مغربی ملکوں کی حکومتیں پرانے سماجی نظام کو مستحکم بنانے کے لئے اس عقیدے کو استعمال کر رہی ہیں۔ حالانکہ ان کاعمل اس نظریہ کی تردید کرتا ہے۔ خصوصاً امریکہ والے دنیا میں ایک نئے مذہب کا پرچار کر رہے ہیں۔ جس کا خدا ہے’’امریکی انسان۔‘‘ یہ انسان ہر قسم کی آلائشوں سے تو خیر پاک ہی ہے، اس پر طرہ یہ کہ بیمار تک نہیں پڑتا۔

    سمون و بودوار نے اپنے سفرنامہ میں لکھا ہے کہ نیویارک میں زکام کی شکایت کرنا بدتمیزی ہے، کیونکہ ’’اچھے امریکن‘‘ کو کبھی زکام نہیں ہوتا۔ اس نئے مذہب کی فقہ میں برے کام حلال ہیں۔ برے جذبات کا اظہار حرام۔ ’’انسان پرستی‘‘ میں امریکہ نے روس کو منزلوں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ مگر مزے کی بات یہ ہے کہ امریکہ میں جو واقعی سچا ادب پیدا ہوتا ہے وہ کچھ اور کہتا ہے۔ جس طرح انیسویں صدی کے روسی ناول نگاروں نے روایتی بھل منساہت سے بے نیاز ہو کر انسانی فطرت کی تفتیش کی تھی۔ اسی طرح میل دل اور ہاتھورون سے لے کر آج کلوویل اور فاکسنز کے زمانہ تک انسانی تقدیر اور انسانی اقدار کی تخلیق کا مسئلہ امریکی ناول کا بنیادی موضوع بنا رہا ہے۔ (ہیمنگ وے کا نام میں نے اس لئے نہیں لیا کہ اس کے آخری ناول سے بوئے یونسکوی آید) ان امریکی ناول نگاروں کے تصورات حیات یا تصور انسان پر اعتراض تو ہو سکتے ہیں۔ ان میں شاید کچاپن بھی نکالا جا سکتا ہے، لیکن ان پر یہ الزام عائد نہیں ہو سکتا کہ انہوں نے زندگی کے کسی مظاہرسے جان بوجھ کر آنکھیں چرائی ہیں۔ مگر آج کل امریکہ میں (یعنی جس چیز کو سرکاری طور پر امریکہ کہا جاتا ہے) ان لوگوں کو یہ کہہ کر نظرانداز کر دیا جاتا ہے کہ یہ تو امریکہ کی نمائندگی کرتے ہی نہیں۔

    اسٹالن کے زمانے میں روس والے بھی دوستو فسکی سے اتنا نہیں گھبراتے تھے جتنا آج کل امریکن فاکسنز سے متوحش ہوتے ہیں۔ ایلیٹ نے انگلستان کی شہریت اختیار کر لی، ایذراپونڈ تو امریکہ میں ہی رہتا ہے لیکن ’’امریکی طرز زندگی‘‘ کے مطابق وہاں کے سب سے بڑے شاعر رابرٹ فراسٹ اور کارل سینڈبرگ ہیں کیونکہ یہ دونوں اپنی نظموں کے ذریعہ دنیا کو بتاتے ہیں کہ امریکہ کے آدمی تو آدمی وہاں کے تربوز اور چیچنڈے تک اپنا جواب نہیں رکھتے۔ مجھے وہ دن دور نہیں دکھائی دیتا کہ جب امریکہ میل دل اور ہاتھورن تک کوعاق کر دے گا۔ اسکائی اسکریپروں پرناز کرنے والے انسانی روح کی بلندی سے کتنے خوف زدہ ہیں۔ امریکہ کے اس سرکاری رویہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے نقاد ایسے خطرناک مصنفوں کی فنی خوبیوں پر تو صفحے کے صفحے کالے کرتے ہیں لیکن یہ بات صاف گول کر جاتے ہیں کہ انہوں نے کہا کیا ہے۔ یعنی اپنے معاشرے میں ایسے نقادوں کا فریضہ یہ ہے کہ ادب کا زہر نچوڑ کر اسے بے ضرر بنا دیں۔ لیکن جس ادب میں کسی نہ کسی قسم کا زہر نہ ہو اس میں جان کیا ہوگی؟ اور جن لوگوں میں زہر پینے کی صلاحیت باقی نہ رہے، وہ زندگی کو کیا بنا کر رکھ دیں گے؟

    اگر اسی قسم کی سلامت روی اور ’’نیک اندیشی‘‘ امریکہ تک محدود ہوتی تو بھی غنیمت تھا۔ مگر نیک جذبات کا یہ سیلاب یو این او کے ذریعے دنیا کی سیاست میں اور یونسکو کے ذریعے تہذیبی حلقوں میں امنڈتا چلا آ رہا ہے۔ نہایت منظم طریقے سے پڑھنے لکھنے والے طبقے میں یہ ذہنیت پیدا کی جا رہی ہے کہ انسانی زندگی کی حقیقتوں کو نہ دیکھا جائے اور ادب کی حیثیت یو این او کی تقریروں سے زیادہ باقی نہ رہے۔ اس کا سیدھا سادا مطلب یہ نکلتا ہے کہ روس میں ہی نہیں بلکہ ’’جمہوری‘‘ دنیا میں بھی حکمراں طبقہ چاہتا ہے کہ ادیب اپنا دل و دماغ سیاست بازوں کے حوالے کر دیں اور اپنا احساس، اپنی بصیرت، ان کے قبضے میں دے دیں۔ روس کے حکمراں ادیبوں پر پابندیاں عائد کرتے ہوئے ان سے مستقبل کی خاطر قربانیاں چاہتے تھے۔ ’’جمہوری‘‘ دنیا کے حکمراں صرف موجودہ صورت حال کے تحفظ کی خاطر انہیں اپاہج کرنا چاہتے ہیں۔

    روسی ادب میں انسان کا جو تصور ڈنڈے کے زور سے رائج کر دیا گیا وہ چھوٹا خواب سہی، لیکن خواب ضرور تھا۔۔۔ ایک ایسا خواب جس کے بغیر انسانی زندگی میں حسن اور وقار پیدا نہیں ہوتا۔ جمہوری دنیا میں انسان کی شرافت، نیکی اور معصومیت کا جوعقیدہ پھیلایا جا رہا ہے، وہ صرف ایک جذباتی افیم ہے، لوگوں کے ذہن کو سلانے کے لئے۔ پھرایک اور فرق ہے۔ روسیوں کے پاس انسان کا سچایا جھوٹا جیسا بھی تصور موجود تھا، وہ موقع بے موقع اور جا بے جا اس کا اعلان کرتے تھے۔ اسٹالن کے زمانے میں روسی ادب کی سب سے بڑی خرابی یہ تھی کہ ادب اعلان نامہ بن کے رہ گیا تھا۔ لیکن جمہوری دنیا کے سرکاری مبلغ مثبت انداز میں صاف صاف یہ نہیں بتاتے کہ انسان کیا ہے۔ ان کے یہاں تو چند منفی قسم کی پابندیاں ہیں، اور ان پابندیوں کی بھی صراحتاً تعریف نہیں کی جاتی بلکہ جو ادیب زندگی کے بارے میں کسی قسم کا بھی سچ بولتے ہیں ان کے خلاف کانا پھوسی ہونے لگتی ہے۔

    جمہوری دنیا کے سرکاری حلقے نہ تو آدمی کے ٹھوس تجربات کو قبول کرنے کی ہمت رکھتے ہیں نہ انسان کی کوئی سچی یا جھوٹی تعریف متعین کرنے کی جرأت۔ وہ ادیبوں کو ان دونوں باتوں کی اجازت دینے سے گھبراتے ہیں۔ پھر انہیں یہ بھی نمائش کرنی پڑتی ہے کہ ہم علم و ادب کے سرپرست ہیں اور ہمارے یہاں پوری آزادی فکر ہے۔ چنانچہ ان ملکوں میں پروفیسروں، نقادوں اور فلسفیوں کی بن آئی ہے کیونکہ ان لوگوں کی مدد سے ہر بنیادی مسئلے کو سات پردوں میں رکھا جا سکتا ہے۔ آج سے دس بارہ سال پہلے مالرو نے اعلان کیا تھا کہ یورپ کے مستقبل کا دارومدار اس سوال پر ہے کہ انسان مر گیا یا نہیں۔ لیکن چند ادیبوں کو چھوڑ کر یورپ اور امریکہ دونوں براعظم اس سوال سے بچنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ وہاں کا برسراقتدار طبقہ نہ تو انسان کے بارے میں کوئی بری بات سننے کو تیار ہے نہ کوئی ضرورت سے زیادہ اچھی بات۔ کیونکہ دونوں قسم کے خیالات سے لوگ گمراہ اور اپنے حکمرانوں سے بدظن ہوتے ہیں۔

    جن دو رجحانات کا میں نے ذکر کیا ہے ان میں سے پہلا تو یہ ہوا۔ اس کی صفت ہے ابہام۔ دوسرے رجحان میں وضاحت تو زیادہ ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ پیچیدگی بھی اس قدر ہے کہ آسانی سے کسی کوملزم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مگر اس وقت افراد کے ساتھ انصاف یا بے انصافی کرنے کا سوال نہیں بلکہ دیکھنا یہ ہے کہ مغربی دنیا کا ذہن کس کس سمت میں چل رہا ہے اور ادب میں اس کی کیا شہادتیں ملتی ہیں۔ اس لئے اگر ایسی بحث میں مبالغے کا رنگ پیدا ہو جائے تو کوئی ہرج نہیں۔

    وہ دوسرا رجحان یہ ہے کہ لکھنے والے انسان کے بجائے آدمی کو دیکھتے ہیں اور اس کے خوفناک سے خوفناک یا گھناؤنے تجربے کی بھی سترپوشی نہیں کرتے۔ یہ کام دلیری نہیں بلکہ دلاوری کا ہے۔ مگر جب ان ٹھوس تجربات کی بنا پر انسان کی تعریف متعین کرنے کا نمبرآتا ہے تو پھر یہ دلاوری، یا بزدلی، ہچکچاہٹ یا تشویش میں بدل جاتی ہے اور بعض اوقات انسان کا کوئی گڑھا گڑھایا تصور قبول کر لیا جاتا ہے جو عموماً عیسوی دینیات سے اخذ کیا جاتا ہے یا نفسیات سے۔

    آگے چلنے سے پہلے میں ایک چیز کی تصریح کر دوں۔ یہ مضمون لکھتے ہوئے میرے ذہن میں خاص طور سے دو ناول ہیں جو پچھلے بیس سال میں پیدا ہوئے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ وہ تنقید بھی ہے جو ان ناولوں پر ہوئی ہے۔ ناول کے فن میں ایک بڑی خوبی یا خامی ہے۔ ناول نگار کو پرواز کی وہ اجازت بآسانی حاصل نہیں ہوتی جو مثلا شاعر یا ڈرامہ نگار کو ہوتی ہے۔ والیری کو ناول کی صنف سے نفرت تھی۔ وہ کہتا تھا کہ میں اس قسم کا جملہ لکھنے کو تیار نہیں ہوں کہ بیگم صاحب گاڑی میں بیٹھ کر چار بجے گھر سے روانہ ہوئیں، کیونکہ ان میں سے ایک بات بھی ناگزیر نہیں۔ جی چاہے تو چاربجے کی بجائے چھ بجے کر دیجئے۔ گھر کی بجائے ہوٹل، گاڑی کی بجائے موٹر۔ ہر ناول کے ہر جملے سے یہ مطالبہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کسی کیفیت یا واردات کا جوہر نکال کر پیش کرے۔ عام ناول میں مصنف کو ہزاروں جملے ایسے لکھنے پڑتے ہیں جو درحقیقت کچھ کہتے ہی نہیں، بس اطلاعات فراہم کرتے ہیں اور جو اتنے ہی بے رنگ، پھس پھسے اور بے جان ہوتے ہیں جتنی عام زندگی کی عام گھڑیاں۔

    شاعر یا ڈرامہ نگار کے یہاں تو یہ معاملہ ہو سکتا ہے کہ میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو۔ مگر ناول نویس کو میٹھا، کڑوا، کسیلا، بے نمک، سب کچھ زہر مار کرنا پڑتا ہے۔ شاعر تو اپنے قاری سے یہ وعدہ کر سکتا ہے کہ میں تمہارے اعصاب جھنجھوڑ کر رکھ دوں گا۔ ناول نویس بڑی دیر تک خود بھی بور ہوتا ہے اور پڑھنے والوں کو بھی بور کرتا ہے۔ زندگی کی اکتا دینے والی بے رنگی کو قبول کئے بغیر ناول نہیں لکھا جا سکتا۔ ناول نویس میں زندگی سے محبت کے علاوہ زندگی کی یکسانی کو سہارنے کی طاقت بھی ہونی چاہئے۔ اس لحاظ سے آپ چاہیں تو ناول سے نفرت کر سکتے ہیں۔ مگر ناول میں ایک چیز بڑی ناگزیر ہے۔ ناول زمان و مکان اور عمل کی قید سے کبھی آزاد نہیں ہو سکتا۔ ٹھیٹ تخیلی داستان لکھتے ہوئے بھی آدمی ان پابندیوں سے پیچھے نہیں چھڑا سکتا۔ مثلاً کافکا کی داستانیں۔ یوں تو ان میں بڑی جوہری صداقت پیش کی گئی ہے لیکن وہ ظاہر ہوتی ہے روز مرہ کی بے رنگ اور اکتا دینے والی چیزوں اور واقعات کے پردے میں۔

    کافکا کے یہاں ہیرو ہمیشہ بنیادی اور جوہری انسان ہوتا ہے لیکن اسے ہمارے سامنے پیش کرتے ہوئے کافکا کو بتانا پڑتا ہے کہ وہ کمبل میں لپٹ کر کس طرح کروٹوں پر کروٹیں بدل رہا تھا۔ یہ کمبل ناول کو کبھی نہیں چھوڑتا۔ اسی لئے ڈی ایچ لارنس نے کہا ہے کہ ناول نگار کتنی ہی کوشش کیوں نہ کرے، اس کی کتاب میں حقیقت کسی نہ کسی طرح اور کسی نہ کسی حد تک زبردستی داخل ہو جاتی ہے۔ آپ ناول میں زندگی یا انسان کے متعلق کچھ ہی کیوں نہ کہنا چاہیں، سب سے پہلے روزمرہ کی حقیر اور معمولی سے معمولی حقائق کے سامنے سر جھکانا پڑتا ہے۔ اس مضمون کی اصطلاح میں اسی بات کو یوں کہہ سکتے ہیں کہ ناول ایک صنف کی حیثیت سے کسی نہ کسی حد تک آدمی کے ٹھوس تجربات پیش کرنے پر مجبور ہے۔

    یہ پابندی تو خیر ہر زمانہ کے ناول پرعائد ہوتی ہے لیکن بیسویں صدی کے ناول کی ایک اور مجبوری ہے۔ ہر دور میں کوئی نہ کوئی صنف ادب ایسی ہوتی ہے جسے انسانی تقدیر کا کوئی نہ کوئی تصور تخلیق کرنے کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔ اس تصور میں چونکہ اس پورے معاشرے کی روح کھنچ آتی ہے اس لئے اس دور میں یہ صنف ادب کی تمام اصناف سے اعلیٰ اور برتر سمجھی جاتی ہے۔ یونان میں اور شیکسپئر کے انگلستان میں یہ درجہ المیہ کو حاصل تھا۔ پچھلے سو سال سے یورپ میں یہی فریضہ ناول انجام دے رہا ہے اور بیسویں صدی میں جوئس جیسے ناول نگاروں نے اپنے قارئین سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ ان کے ایک ناول کو پڑھنے اور سمجھنے میں لوگ پوری طرح عمر لگا دیں۔ یہ مطالبہ اس لئے بے جا نہیں کہ انسانی تقدیر کے مسئلے کی تفتیش میں بیسویں صدی کا ناول شاعری سے بھی آگے رہا ہے۔ انسانی اقدار کی نئی تشکیل اور انسان کی تعریف متعین کرنے کی مہم اس ناول نے اس طرح اپنے ذمے لی ہے کہ نفسیات اور فلسفہ تو ابھی تک اس کے پیچھے گھسٹ رہے ہیں۔ ’’روح کی بھٹی‘‘ میں اپنی تہذیب کا ’’ضمیر‘‘ ڈھالنے کی ذمہ داری بیسویں صدی کے ناول نگار نے ہی قبول کی ہے۔

    انسان کیا ہے؟ انسان کی تقدیر کیا ہے؟ ان دو سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کی جیسی شدید پیاس آپ کو مالرو، سارتر، کامیو، سین تیگزوپری میں ملے گی، ویسی کسی فلسفی یا ماہر عمرانیت میں نظر نہیں آئے گی۔ نفسیات، فلسفہ اور دوسرے علوم پڑھ پڑھ کے چاہے آپ چلتی پھرتی انسائیکلوپیڈیا بن جائیں، لیکن اگر آپ نے ناول نہیں پڑھے ہیں تو آپ بیسویں صدی کے انسان اور اس کے روحانی مطالبات کو نہیں سمجھ سکتے۔

    غرض بیسویں صدی میں ناول کو دو کام کرنے پڑ رہے ہیں، ایک تو ’’آدمی‘‘ کی حقیقت بیان کرنا، دوسرے ’’انسان کی تعریف ڈھونڈنا۔ اسی لئے میں نے اس مضمون میں بحث کی بنیاد ناولوں پر قائم کی ہے۔‘‘

    بیسویں صدی کے ناول انسان کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ دس پندرہ سال ہوئے انگلستان کے ادبی حلقوں میں اس پورے موضوع کا ایک تجزیہ بہت مقبول ہوا تھا۔ اس نظریہ کے مطابق بیسویں صدی کے ناول انسان کے تین تصورات پیش کرتے ہیں۔ (۱) سیاسی انسان (لارنس نے اس کا نام سماجی انسان رکھا ہے۔) اس قسم کے انسان کی داخلی زندگی اتنی اہم نہیں ہوتی جتنی خارجی زندگی۔ اس کی شخصیت اور عمل کا دارومدار سماجی اور سیاسی نظام پر ہوتا ہے۔ اگر سماجی نظام بدل جائے تو انسان کو بھی اپنی مرضی کے مطابق بدلا جا سکتا ہے۔ یہ تصور ایچ جی ویلز اور گالذوردی کے یہاں ملتا ہے اور ان کے بعد اشتراکی حقیقت نگاروں کے یہاں (۲) فطری انسان ہر قسم کی سماجی اور اخلاقی بندشوں سے آزاد ہو کر فطری جبلتوں کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہتا ہے اور اس کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ سماجی ذمہ داریوں سے آزاد ہو کر انفرادی اور ذاتی تسکین حاصل کرنے کا ہوتا ہے۔ ان دنوں اس رجحان کی مثال کے طور پر لارنس کا نام تجویز کیا گیا تھا لیکن اس زمانے میں لارنس کے خلاف بہت سے تعصبات کام کررہے تھے، ورنہ لارنس کومحض اس تصور کی چاردیواری میں بندنہیں کیا جا سکتا۔ اس نے تو انسان کے متعلق اس سے زیادہ بہت کچھ کہا ہے۔ ان محدود معنوں میں فطری انسان کی مثال ڈھونڈنی مقصود ہو تو ارسکین کالڈویل کے یہاں ملے گی۔ خصوصاً GOD,S LITTLE ACRC کے ایک کردار کے اس وعظ میں جو زنا بالجبر والے واقعے کے بعد اس نے دیا ہے۔

    نمبر(۳) نامکمل انسان۔ یہ وہ انسان ہے جس کی اندرونی زندگی خارجی زندگی سے زیادہ اہم ہے اور جس کے اندر کوئی تبدیلی صرف داخلی عمل کے ذریعہ واقع ہو سکتی ہے۔ یہ انسان صلاحیتیں تو بہت سی رکھتا ہے لیکن اس میں خامیاں بھی اتنی ہیں کہ وہ مکمل کسی طرح نہیں ہو سکتا۔ کم سے پورا سکون اور پوری خوشی کبھی حاصل نہیں کر سکتا۔ انسان کا یہ تصور جوئس کے یہاں ملتا ہے اور اس کا تعلق ازلی گناہ کے عیسوی عقیدے سے ہے۔ اس زمانہ میں کہا جاتا تھا کہ انسان کا یہ تصور سب سے گہرا اور حقیقت آگیں ہے۔ اور سچا ادب صرف اسی کے ذریعہ پیدا ہو سکتا ہے۔

    اگر انسان کے صرف تین ہی تصور ممکن ہوں تو یہ رائے بالکل درست ہے۔ سیاسی یا سماجی انسان صرف آدھا انسان ہے۔ اگرہم آدمی کے اندر سماجی تعلقات کے سوا اور کچھ دیکھتے ہی نہ ہوں تو ہم اس کی شدید ترین اور عمیق ترین زندگی کو حذف کر دیں گے اور نہ صرف ادب کو سطحی بنا دیں گے بلکہ اس نظریے کی رو سے معاشرے کی تشکیل ہوئی تو انسانی زندگی مسخ ہو جائے گی۔ اسی طرح کالڈویل کے فطری انسان میں پھیلاؤ اور لطافت نہیں ہو سکتی، اس سے آپ دیر تک دلچسپی نہیں لے سکتے۔ ہر پھر کے ان ہی باتوں کا کہاں تک مشاہدہ کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کا بہت ساغیر سرکاری ادب تک بے زار کن یکسانیت کا شکار ہو گیا ہے۔ پھر سماجی تعلقات اور سماجی پابندیوں کو قبول کرنے سے آدمی میں جو وسعتیں پیدا ہوتی ہیں فطری انسان میں ان کا امکان نہیں ہوتا۔

    نامکمل انسان کے تصور میں خوبی یہ ہے کہ فطری انسان اور سماجی انسان کو رد کرتے ہوئے یہ ان دونوں کا مطالعہ بھی کر لیتا ہے اور ان سے آگے بھی نکل جاتا ہے، اس لئے میں نے کہا کہ انسان کا کوئی تصور ممکن نہ ہو تو ان تینوں میں یہ نظریہ سب سے زیادہ وقیع ہے، ادب کے لئے بھی اور زندگی کے لئے بھی۔ انسان کے اس تصور کی قدر و قیمت تو خیر ہم نے تسلیم کر لی لیکن جب ہم جوئس جیسے عظیم ناول نگار کو اس نظریہ کی روشنی میں پڑھتے ہیں تو اس میں تھوڑی سی کوتاہی بھی نظر آتی ہے۔ اگر نامکمل انسان کو انیسویں صدی کے عقیدے کا جواب سمجھا جائے کہ سماجی نظام کو بدل کر ہر اعتبار سے مکمل بنایا جا سکتا ہے تب تو ٹھیک ہے۔ جوئس واقعی یہی کہتا ہے کہ انسان مکمل کبھی نہیں ہوگا۔ اس کے لئے خارجی اور داخلی مسئلے پیدا ہوتے رہیں گے، وہ انہیں حل کرے گا، لیکن اس حل سے ایک نیا مسئلہ پیدا ہوگا جسے از سر نو حل کرنا پرے گا۔ جوئس نے نامکمل انسان کو جس طرح پیش کیا ہے اس میں مستقل اور ابدی تکمیل کی نہ سہی، عارضی تکمیل کی گنجائش ضرور باقی رہتی ہے۔

    یولس کے آخر میں تینوں برے کرداروں نے کسی نہ کسی قسم کی تسکین اور سیرابی ضرور حاصل ہے۔ اسٹیون کو وہ اعتبار مل گیا ہے، جس کے بغیر تخلیقی کام نہیں ہو سکتا۔ بلوم نے مردانہ وقار دوبارہ پالیا ہے۔ برین کے یہاں اپنے شوہر کے سلسلے میں خود سپردگی از سرنو پیدا ہوئی ہے بلکہ برین بلوم کی خود کلامی میں تو فطری انسان کا اثبات بھی نظر آتا ہے۔ پھران تینوں نے جو عارضی تکمیل پائی ہے وہ صرف حیوانی یا حیاتیاتی قسم کی تسکین نہیں ہوتی بلکہ انسانی معنویت رکھتی ہے۔ ان کرداروں نے غیر آسودگی سے آسودگی تک جسمانی اور روحانی سفر طے کیا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ یہ آسودگی لازوال نہیں ہوگی۔ لیکن بہر حال یہ لوگ آسودگی تک جا پہنچے ہیں۔ اس لحاظ سے جوئس کا انسان صرف نامکمل انسان نہیں ایک جدلیاتی حقیقت ہے۔ ایک ایسی نامکمل ہستی ہے جو مکمل بننے کے لئے جدوجہد کرتی رہتی ہے۔ جوئس اس جدلیاتی کشمکش کا رزمیہ لکھتا ہے۔ یہ کشمکش خاص انسانی چیز ہے، اور انسانی سطح پر چلتی ہے۔

    اگر کسی ماورائے انسانی طاقت کے وجود کا سوال نہ اٹھایا جائے تو جوئس کے ناول کی معنویت میں فرق نہیں آتا۔ اسے ازلی گناہ کے عقیدے کے اندر بند کر دینا اس کے ساتھ سراسرظلم ہے۔ لیکن یورپ کی تنقید میں ایک فیشن یہ بھی چل گیا ہے کہ ہر بڑے مصنف کو کھینچ تان کرعیسائی ثابت کیا جاتا ہے بلکہ اس کی عظمت کی دلیل بھی یہ پیش کی جاتی ہے کہ وہ عیسائی ہے۔ اس قسم کی تفسیروں نے کم سے کم جوئس کو بہت نقصان پہنچایا ہے اور اس کے ناولوں کی معنویت کو محدود کر کے رکھ دیا ہے۔ ورنہ جوئس نے تو انسان کو ہر سطح پر قبول کیا ہے اور اس کی ہر حیثیت کو مد نظر رکھا ہے۔

    اب جوئس جیسے عظیم ناول نگاروں کو چھوڑیے۔ جن کو اس طرح عقیدوں کے اندر محصور نہیں کیا جا سکتا، ان ناول نویسوں کو لیجئے جن پر بے واسطہ یا بالواسطہ ازلی گناہ کے عقیدے کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ ان لوگوں کی دو قسمیں ہیں۔ ایک طرف تو وہ ناول نگار ہیں جو آدمیوں کی فطرت میں اچھائیوں کے وجود سے تو انکار نہیں کرتے، لیکن مطالعہ بدی کا کرتے ہیں۔ ایسے ناولوں میں آپ کو ہر طرف بغض، عداوت، بداندیشی، غیظ و غضب، شہوت اسی قسم کی چیزوں کے مظاہرے ملیں گے۔ مگر یہ ناول نگار اپنے مشاہدات کو کسی مذہبی عقیدے کے ماتحت نہیں لاتے۔ پھر یہ لوگ صراحتاً انسان کی کوئی تعریف بھی مہیا نہیں کرتے۔ چند حقائق پیش کر دیتے ہیں جن کی بنا پر انسان کا ایک تصور مرتب کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً آپ نہایت آسانی کے ساتھ ان ناولوں سے انسان کا مشینی تصور اخذ کر سکتے ہیں، وہ یہ انسان کاٹھ کا پتلا ہے جو چند جبلتوں کے ہاتھ میں کھیلتا ہے۔ میں ان ناول نگاروں پر یہ الزام نہیں لگا رہا ہوں کہ وہ انسان کے بارے میں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہتے۔ میں تو ان کے مشاہدے کی جرأت اور ایمان داری کا بھی قائل ہوں مگر ان کے یہاں انسان کا کوئی واضح اور قطعی تصور نہیں ملتا۔ غالباً یہ لوگ اس مسئلے کا کوئی فیصلہ نہیں کر سکے ہیں کہ انسان صرف جسم ہی ہے یا اس کے اندر روح بھی ہے اور اگر ہے تو روح اور جسم کا آپس میں کیا تعلق ہے؟

    میرے اس قیاس کا ثبوت فاکسنز کے اس بیان میں ملتا ہے جو انہوں نے نوبیل پرائز پانے کے وقت دیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ایٹم بم نے سارے روحانی مسائل کو ختم کر کے رکھ دیا ہے۔ اب انسانیت کے سامنے صرف ایک جسمانی مسئلہ رہ گیا ہے کہ نسل انسانی زندہ بچتی ہے یا نہیں۔ لیکن اس بات کا دوسرا رخ یہ ہے کہ روحانی مسائل اتنے عریاں اورہیبت ناک شکل میں انسان کے سامنے پہلے کبھی نہیں آئے تھے اور پوری نسل انسانی کے وجود کا دارومدار چند روحانی مسائل کے تصفیہ پر اس حد تک کبھی نہیں رہا تھا۔ ایٹم بم نے روحانی مسئلوں کو ختم نہیں کیا ہے بلکہ پہاڑ بنا دیا ہے۔ انسانیت کو موت سے بچانے کا یہی طریقہ ہے کہ انسان کا ایک تخلیقی تصور پیدا کیا جائے۔ مگر یہ ناول نگار ہمیں آدمی کی رگ رگ تو دکھا دیتے ہیں لیکن صاف صاف یہ نہیں بتاتے کہ اس آدمی کے اندر سے انسان کس قسم کا نکلتا ہے۔ یعنی انسان کی تعریف متعین کرنے کےکام کو یہ لوگ ملتوی کرتے رہے ہیں۔ اس التوا کو ہچکچاہٹ کہا جائے یا گھبراہٹ؟ بہر حال ایک بات ضرور ہے۔ فاکسز جیسے بڑے ناول نگار کے متعلق تو جلدی سے فیصلہ نہیں کرنا چاہئے۔ لیکن اس سے چھوٹے ناول نگاروں کے یہاں تو یہ ہچکچاہٹ ایک دلدل بن جاتی ہے، جس میں پڑا آدمی ہاتھ پیر مارتا رہتا ہے اور باہر نہیں نکل سکتا۔

    حقیقت کے مشاہدے اور اظہار کے لئے جتنی ہمت اور ایمانداری درکار ہے تو وہ ان لوگوں کے پاس ہوتی ہے، لیکن جب حوصلہ دکھانے کا وقت آتا ہے جسے فلسفہ زیست والے اندھیرے میں چھلانگ لگانا کہتے ہیں تو یہ لوگ خاموشی سے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ دوسری قسم کے ناول نگار وہ ہیں جو آدمی کی وہی تصویر پیش کرتے ہیں جو پہلے گروہ والے۔ مگران کے پاس انسان کا ایک پہلے سے بنا بنایا تصور ہوتا ہے۔ یعنی یہ لوگ انسانی زندگی کا مطالعہ ابتدائی گناہ کے عیسوی عقیدے کی روشنی میں کرتے ہیں اور انسان کی فطرت ہی کو داغدار سمجھتے ہیں۔

    اس عقیدے کے مطابق انسان اپنی فطرت کی بدی اور گندگی سے بس خدا کی رحمت کے ذریعہ آزاد ہوسکتا ہے، ورنہ نہیں۔ چونکہ خدا کی رحمت زبردستی تو حاصل نہیں کی جا سکتی، اس لئے انسان کے پاس معصیت کاری ہی رہ جاتی ہے۔ چنانچہ اس عقیدے کے طفیل بعض دفعہ ناول نگاروں میں ایک طرح کی اذیت پرستی آ جاتی ہے اور وہ انسان کا ایک ایک گناہ کرید کرید کر نکالنے لگتے ہیں جیسے اپنے دشمن سے انتقام لے رہے ہوں۔ اور تو اور خود موریاک کے بعض ناولوں میں زندگی ایک کال کوٹھری بن جاتی ہے۔ جس میں پڑا انسان دوسروں کو، اپنے آپ کو اذیت پہنچا رہا ہے اور اس کی کوٹھری سے نکلنے کی بھی کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے۔ جب تک کہ خدا نہ نکالے۔

    مویارک کے یہاں سے توکبھی کبھی انسانی رحم کا جذبہ تک غائب ہونے لگتا ہے۔ کیونکہ جب انسانی زندگی کی لازمی کیفیت یہ مجبوری ہے تو پھر رحم کا جذبہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ چنانچہ اس کے طنز میں سستا پن آ جاتا ہے۔ اگر انسان اپنی گناہ کاری میں واقعی اتنی ہی بری طرح گرفتار ہے تو چاہے وہ عیسوی دینیات کو سمجھنے میں ناکام رہے لیکن ہمیں اسے مطعون نہیں کرنا چاہئے۔ اس کے بر خلاف گریہم گرین نےBRIGHT ON ROCK) ) میں ایک طوائف نماعورت کو جو زندگی سے ہرحالت میں لطف اندوز ہونا چاہتی ہے اور لذت کے علاوہ زندگی سے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرتی، آزاد خیالی اور بے دینی کی علامت بنا کر جا و بے جا اس کا مذاق اڑایا ہے۔ لیکن انسان کی گناہ گاری پر تو چو سرکار بھی ایمان تھا۔ پھر اس کا معاشرہ بھی عیسائیت میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس کے باوجود (WIFE BATH) کو قبول کر لیتا ہے۔

    گریہم گرین صاحب خدا کے فرائض خود انجام دینے شروع کر دیتے ہیں۔ آخر انہیں کیسے پتہ چلا کہ خدا کی رحمت اس طوائف پرنہ نازل ہوگی؟ غرض جن لوگوں نے ابتدائی گناہ کے عقیدے کی رو سے زندگی کی تفسیر کی ہے، انہیں انسان کا ایک ٹھوس اور بے لاگ تصور تو ضرور مل گیا ہے، لیکن ساتھ ہی ان میں ایک راہبانہ اذیت بھی آگئی ہے اور ان کا انداز کچھ احتسابی کارروائی سا ہو گیا ہے۔

    مگر ابھی دو ایک مثالیں موجود ہیں جہاں اس گروہ کے ناول نگاروں نے اپنے کرداروں میں ایک روحانی انقلاب پیدا ہوتے دکھایا ہے۔ مثلا مویارک کا ناول (VIPERS TONGLE) ایک ایسے آدمی کی داستان ہے، جس کا دل مایوسی، غصے، نفرت اور انتقام سے لبریزہے اور جو خود اپنی اولاد سے اپنی محرومی کا بدلہ لینا چاہتا ہے۔ لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوتا ہے کہ وہ اپنے ارادوں میں کامیاب نہیں ہوتا۔ ناکامیوں کے ذریعے اس کے دل میں اتنی وسعت پیدا ہونے لگتی ہے کہ وہ غلط کاروں سے بھی ہمدردی کر سکے اور اس طرح مرنے سے پہلے اس کی روح میں ایک نئی محبت اور ایک نیا سکون جنم لیتا ہے۔

    اس حد تک تو اس ناول میں انسان کا جدلیاتی تصور پیش کیا گیا ہے اور اس میں تخلیقی عمل کی اہلیت تسلیم کی گئی ہے۔ لیکن اس تخلیقی عمل کوعیسوی عقیدے کے مطابق خدا کی رحمت کا اتنا پابند بنا دیا گیا ہے کہ اس اندرونی انقلاب کی انسانی معنویت کم ہو جاتی ہے۔ یہ سارا عمل بنیادی طور سے ایک ایسی سطح پر واقع ہوتا ہے جو انسان کی تخلیقی صلاحیت سے بلند ہے۔ مویارک نے یہ تو مانا ہے کہ انسان اپنی بدی کی گہرائیوں کو پار کر کے دوسری طرف نیکی تک پہنچ سکتا ہے مگر نیکی تک پہنچنے کے وسائل محض انسانی نہیں ہیں۔ مویارک ’’آدمی‘‘ کے مشاہدے سے آگے بڑھ کر ’’انسان‘‘ کی تعریف متعین کرنے کی منزل تک تو آ پہنچا ہے لیکن یہ تعریف خود انسان کی تخلیقی صلاحیتوں پر پوری طرح بھروسہ نہیں کرتی اور انسان کو خلا میں لٹکتا چھوڑ جاتی ہے۔ یہ تعریف انسان کی ذمہ داری کو اس کے کندھوں پر اس طرح نہیں لا کے رکھتی کہ وہ تخلیقی عمل کے فریضے سے بھاگ بھی نہ سکے۔ مویارک کے ناولوں میں تو آدھا بوجھ انسان کے کندھوں پر ہوتا ہے اور آدھا خدا کے کندھوں پر۔

    مویارک کے نقطہ نظر پر میں نے یہ اعتراض اس لئے کیا کہ چیزوں کی تعریف متعین کرنا کوئی خالص علمی مشغلہ نہیں ہے اور محض تفنن طبع ہے۔ میز، کرسی، گھڑے اور لوٹے تک کی تعریف ہم اس غرض سے متعین کرتے ہیں کہ زندگی کے تخلیقی عمل میں آسانی رہے۔ کسی انسانی مسئلے میں گرفتار ہو کر ہی ہمیں اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ یہ کام کسی خاص صورت حال کے اندر سے ہوتا ہے، باہر سے نہیں۔ چنانچہ انسان کی تعریف ہم اس لئے متعین کرنا چاہتے ہیں کہ ہماری تخلیقی صلاحیتیں آزاد ہوں اور بر سر کار آئیں۔ انسان کی ہر تعریف کا آخری معیار یہی ہوگا۔ اب اسی لحاظ سے دیکھنا چاہئے کہ آج انسانیت کی صورت حال کیا ہے۔ یہاں میں مغرب کو انسانیت کے مترادف سمجھوں گا۔ کیونکہ ایٹم بم تو بہر حال مغرب نے بنایا ہے اور ہماری تقدیر بھی بڑی حد تک مغرب کی تقدیر کے ساتھ بندھی ہے۔

    رائخ نے بتایا ہے کہ جو لوگ عام طور سے نفسیاتی علاج کے لئے آتے ہیں ان کی شخصیت میں اوپر نیچے تہیں ہوتی ہیں۔ باہر سے تو آدمی ایسا لگتا ہے، جیسے اس میں کوئی خرابی نہ ہو۔ اپنا کام بھی کرتا ہے لوگوں سے ملتا جلتا بھی ہے۔ غرض کوئی غیر معمولی بات نظر نہیں آتی۔ البتہ اس کی تخلیقی صلاحیتیں پوری طرح کام نہیں کرتیں۔ معالج اس تہہ کو توڑ دیتا ہے تو نیچے سے تخریبی رجحانات ابھرتے ہیں۔ اس دوسری تہہ کو ہٹایا جائے تو تخلیقی صلاحتییں، مسرت، محبت، بھرپور طریقے سے زندہ رہنے کی خواہشیں نکلتی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ اصول معاشرے اور ادب پر بھی صادق آتا ہے۔ پہلے مغربی معاشرے کا جائزہ لیجئے۔ انیسوی صدی کی حالت رائخ والی پہلی تہہ جیسی تھی۔ معاشرے کی گہرائیوں میں تخریبی رجحانات پرورش پارہے تھے۔ لیکن ظاہر میں راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔ خود اطمینانی کا یہ عالم تھا کہ لوگ سمجھتے تھے کہ جنگ ہمیشہ کے لئے ختم ہو گئی۔ ۱۹۱۴ء میں یہ تہہ ٹوٹی تو خونریزی، تباہی، بربادی کا سیلاب امڈ پڑا۔ چنانچہ مغرب اور اس کے ساتھ ساتھ باقی دنیا بھی اب تک اسی دلدل میں پھنسی پڑی ہے اور اس تہہ کو توڑ کر نیچے آب حیات کے سرچشموں تک پہنچنے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔ نظریاتی اور عملی کوششیں البتہ ہوتی رہتی ہیں۔ اس قسم کی ایک بڑی کوشش روس میں اشتراکی معاشرے کا قیام تھا لیکن اسٹالن کی تنگ نظری نے اسے پوری طرح کامیا ب ہونے نہیں دیا۔

    اب ادب کی طرف آئیے۔ چونکہ ادب سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ انسان کی پوری ہستی کا احاطہ کرے گا، اس لئے یہاں زمانہ وار تقسیم نہیں چل سکتی۔ پھر جو ادب تیسری تہہ تک نہ پہنچے وہ بڑا نہیں ہو سکتا اور جو پہلی تہہ سے آگے نہ بڑھے وہ سچا ادب نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ عام طور سے ادیبوں میں ہر تہہ کی کوئی نہ کوئی مل جائے گی۔ اس تنبیہ کے بعد ہم رائخ کے اصول کو ادب میں بھی کارفرما دیکھ سکتے ہیں۔ پہلی تہہ سے توروس اورامریکہ کا سرکاری ادب مطابقت رکھت اہے۔ دوسری تہہ کی مثال گریہم گرین، فاکنز اور وہ ادیب ہیں جو انسانی فطرت کے تخریبی رجحانات پیش کرتے ہیں، تیسری تہہ تک انگریزی ناول نگاروں میں درحقیقت صرف دو آدمی پہنچے ہیں جوئس اور لارنس۔

    اس تجربہ کی رشنی میں دنیا کے ادب کا مسئلہ کچھ یوں نظر آتا ہے۔ دنیا میں جو لوگ بر سر اقتدار ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ادب خود اطمینانی اور نیاز مندی کی حد سے آگے نہ بڑھے۔ ایسی چیزیں لکھنے کے لئے ’’آدمی‘‘ کے ٹھوس تجربات سے آنکھیں بند کر کے ایک ’’فرضی انسان‘‘ ایجاد کرنا پڑا ہے۔ ایسا جھوٹ ادب کے لئے بھی مہنگا پڑے گا اور زندگی کے لئے بھی۔ پھر وہ سچے ادیب بھی آتے ہیں جو خارجی دباؤ سے آزاد ہو کر اپنے آپ ہی زندگی کو تجربے میں لانا چاہتے ہیں۔ ان میں اتنی ہمیت ہےکہ انسانی فطرت کے تخریبی رجحانات کو گھبرائے بغیر تسلیم کر لیں۔ لیکن بعض دفعہ وہ اس بدی کے گھنے جنگل میں ایسے پھنس جاتے ہیں کہ اس سے آگے انسانی مسرت کے سبزہ زاروں تک نہیں جا سکتے۔ بلکہ بعض ناول نگار تو شاید مسرت کو سطحیت کے مترادف سمجھتے ہیں۔ اس لئے وہ ’’آدمی‘‘ کے اندر سے ’’انسان‘‘ کا کوئی ایسا تصور نہیں نکال سکتے، جس میں انسان کو اپنی مسرت کا خالق سمجھا گیا ہو۔ چنانچہ اس وقت دنیا ایک ایسے ادب کی ضرورت محسوس کر رہی ہے جس میں ’’آدمی‘‘ کو روکے بغیر ’’انسان‘‘ کا ایک تخلیقی تصور وضع کیا جائے، اس روحانی ضرورت کا سب سے شدید احساس آج کل فرانس کے ادیبوں کو ہے۔ اور اسی احساس نے وہاں ’’نئی شاعری‘‘ کی تحریک پیدا کی ہے۔

    ’’آدمی‘‘ اور ’’انسان‘‘ کا ایسا امتزاج بیسویں صدی میں ممکن بھی ہے یا نہیں؟ جہاں تک شاعری کا تعلق ہے، اس امکان کا اشارہ خود بودیلیر کے یہاں موجود ہے، مگر وہاں یہ ’’غم‘‘ اور یہ ’’نشاط‘‘ ایک دوسرے سے الگ نظر آتے ہیں۔ اپولی نیئر نے اس المیہ رنگ کے خلاف بغاوت کر کے نشاطیہ رنگ کو ابھارا۔ فرانس کے ’’نئے شاعر‘‘ اپولی نیئر کی اس روایت کی پیروی کر رہے ہیں لیکن ان کے یہاں اندیشہ یہ ہے کہ یہ روایت ہی روایت بن کہ نہ رجائے اور یہ محض جعل ہوگا۔ آدمی کے الم اور تخلیقی انسان کے نشاط کا سب سے عظیم اور حقیقی امتزاج شاعری میں ییٹس اور لورکا کے یہاں ملتا ہے اورناول میں جوئس اورلارنس کے یہاں۔ (پروست اور ٹومس مان کے متعلق میں کوئی فیصلہ کرنے سے معذور ہوں) مگر یہ تو دیو قامت لوگ ہیں۔ انہوں نے اپنی تخلیقات میں مکمل امتزاج تو حاصل کرلیا ہے لیکن اس عمل میں جو منزلیں طے کرنی پڑتی ہیں، ان کی نشان دہی اس طرح نہیں کی کہ پورا ہدایت نامہ تیار ہو جائے۔ یہ کام اس درجے کے ادیبوں کاہے بھی نہیں۔ اس کے لئے تو ہمیں دوسرے درجے کے ادیبوں سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔

    بہ فریضہ پچھلے بیس سال سے چند فرانسیسی ناول نگار انجام دے رہے ہیں۔

    سارتر، سمون دبووار، کامیو، سیں تیگرزپری، مالرو، ان سب کی روحانی کاوشوں کا مرکز یہی انسانی تقدیر کا مسئلہ ہے اور سب کے سب یہی کہتے ہیں کہ ’’آدمی‘‘ کے تجربات کو چھوڑ کر ’’انسان‘‘ کی کوئی تعریف مقرر نہیں کی جا سکتی۔ دوسری طرف اگر ٹھوس تجربات ہی سے انسان کا کوئی تصور برآمد نہ ہو سکے تو ان میں کوئی معنویت نہیں ہوتی۔ یہ لوگ انسان کی بدی سے انکار نہیں کرتے، لیکن بدی میں الجھ کر رہ جانے کی بجائے یہ دیکھتے ہیں کہ انسان اپنے تخریبی رجحانات کے باوجود تخلیقی قوت کس طرح بنتا ہے اور کسی ماروائی طاقت کے بغیر خود اپنے خارجی اور داخلی عمل سے اپنے وجود کے الم کو نشاط میں کس طرح تبدیل کرتا ہے۔

    چنانچہ سب سے پہلے تو یہ لوگ انسان کے اندرچند متضاد کیفیتوں کی بیک وقت موجودگی کا اعتراف کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر انسانی ہستی کے تضاد کے دو چار پہلو یہ ہیں۔ (۱) موت اور زندگی، (۲) تنہائی اور دنیا سے رشتہ، (۳) مجبوری اور آزاد ی، (۴) خارجی وجود اور داخلی وجود۔ ایسے تضادوں کو قبول کرنے کے بعد ہی انسان اپنے جوہر کی تخلیق کر سکتا ہے اور اس جوہر کی تخلیق کے بغیر انسانی زندگی میں اہمیت اور معنویت، وقار، حسن اور گیرائی نہیں آتی۔ یہی چیز زندگی کو حال کے لمحوں میں ریزہ ریزہ ہو جانے سے بچاتی ہے۔ اس کے ذریعے ماضی، حال اور مستقبل میں ربط قائم ہوتا ہے اور انسانی زندگی ایک وحدت بنتی ہے۔ پھر یہ جوہر ایسی چیز نہیں جو ایک دفعہ بناکے رکھ لی جائے اور ہمیشہ کام دے۔ یہ جوہر ایک خاص صورت حال میں ’’پھنسنے‘‘ کے بعد کیا جاتا ہے اور نئی صورت حال پیدا ہوتے ہی ٹوٹ جاتا ہے۔

    چنانچہ یہ ایک ہمیشہ جاری رہنے والا تخلیقی عمل ہے۔ انسان کو ہرہر لمحے اپنے آپ کو از سرنو تخلیق کرنا پڑتا ہے۔ یعنی آدمی اور انسان کا تعلق ایک جدلیاتی عمل ہے اور اس عمل کی جدلیت انسانی زندگی کو سیراب کرتی ہے۔ اس جدلیاتی عمل سے انکار کرنا یا اس کی ذمہ داریوں سے بچنا بے ہمتی اور یاس پرستی ہے۔ بلکہ موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ کیونکہ انسان اپنے آپ کو صرف اسی جلدیاتی اور تخلیقی عمل کے ذریعے زندہ رکھ سکتا ہے۔ ایٹم بم نے اس حقیقت کو دبایا نہیں بلکہ اور ابھار دیا ہے۔ ہمارے روحانی مسائل ختم نہیں ہوئے ہیں۔ آج ہم انسانی زندگی کے سب سے بنیادی مسئلہ سے دوچار ہیں۔ ہم ’’آدمی‘‘ کے اندر سے ’’انسان‘‘ اخذ کرنے کی اہلیت اور طاقت رکھتے ہیں یا نہیں؟ اسی سوال کے جواب میں نسل انسانی کے مستقبل کا دارومدار ہے۔ غالب نے کہا ہے،

    آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

    یہاں انسان کے لفظ کو غالب نے اپنے ہی معنوں میں استعمال کیا ہے اور وہ ایک بات نہیں سمجھ سکے تھے کہ آدمی اپنی اس مجبوری سے تخلیقی قوت حاصل کرتا ہے۔ اگر اس مضمون کے اصطلاحی معنوں میں آدمی کو انسان بننا میسر نہ ہوا تو پھر آدمی زندہ نہیں رہ سکے گا۔

    مأخذ:

    (Pg. 442)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے