Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آج کا ادب اور ادیب

ذکاء الرحمن

آج کا ادب اور ادیب

ذکاء الرحمن

MORE BYذکاء الرحمن

    میرا خیال ہے کہ ہم کبھی اس قابل نہیں ہوسکیں گے کہ اس دور میں زندہ، ہرفرد کے لاشعوری ذہن پر مسلط ہونے والے اس روحانی اور نفسی خوف کا تعین کرسکیں، جس نے ایٹم اور سائنس کے تخلیق کردہ دوسرے تباہ کن آلات کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ مہذب انسانیت کی تاریخ میں، بلکہ مہذب اور غیرمہذب انسانیت کی تاریخ میں پہلی بار ہم پر یہ حقیقت بظاہر ایک مخفی حقیقت واشگاف ہوئی ہے اور ہم اس حقیقت کی بھاری صلیب اٹھاکر زندگی بسر کر رہے ہیں کہ ہماری شخصیت کا موہوم ترین گوشہ، یا ہمارے خیالات کا بے حد معمولی اظہار، یا دوسرے لفظوں میں، ہماری شخصیت اور جذبات کا عدم، اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ہماری موت کسی بے پناہ ثماریاتی طریقے (Statistical Imperation) سے واقع ہوگی، جس میں ہمارے دانت گنے جائیں گے، اور ہمارے بال محفوظ کرلیے جائیں گے۔ اور یہ کہ یہ موت گمنامی، بے عزتی کی موت ہوگی اور دیکھا جائے تو گیس چیمبر اور ریڈیائی شعاعوں سے مرنے والوں کا حشر یہی ہونا چاہیے۔ یہ حقیقت، ایک تہذیب کے روپ میں ہمارے چاروں طرف بکھری ہوئی ہے۔ گویا ہم ایک تہذیب کے حصار میں قید ہیں، جو وقت کو غلام بناکر اور معاشرتی مقاصد اوراثرات کے تلازموں پر قابو پاکر، فطرت پر فتح حاصل کرنے کی خواہش پراستوار کی گئی ہے۔ یہ ایک معاشی تہذیب ہے، جس کی بنیادیں اس یقین پر قائم ہیں کہ وقت ہماری خواہشوں کا زرخرید غلام ہے، یابنایا جاسکتا ہے۔ اس طرح اس تہذیب نے ہم سے ہماری زندگی کے مقاصد چھین لیے ہیں، اور وقت، مقاصد اور اثرات سے محروم ہوکر، ٹھہر گیاہے۔

    دوسری جنگِ عظیم نے، ہند و پاک میں ۴۷ء کے واقعات نے، اور اب کشمیر اور ویت نام نے انسان کو وہ آئینہ دیا ہے، کہ جس نے بھی اس آئینے میں ہونے والے تماشے کو دیکھا، اندھا ہوگیا۔ اگر لاکھوں انسان، محض اس لیے مارے جاسکتے ہیں کہ چند مملکتیں، انصاف کے تمام تقاضوں کو نظرانداز کرکے اپنی برتری منوانا چاہتی ہیں۔ اور اگر وہ معاشرہ، جو انسان کی انفرادی اور اجتماعی تخلیق ہے۔ اتنا قاتل ہوسکتا ہے کہ چند بزعم خود برتر انسانوں کی جھوٹی انا کی تسکین کرنے کے لیے، لاکھوں زندگیوں کو آن کی آن میں موت کے گھاٹ اتاردے، تو پھر ہمیں اس چبھتے ہوئے تلخ سوال کا جواب دینے سے بھی منہ نہ پھیرنا چاہیے کہ خود انسان کی بنیادی فطرت کیا ہے؟

    اس سے بھی بدتر صورتِ حال یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی اپنی انفرادیت قائم رکھنے کی جرأت برقرار نہیں رکھ سکتا۔ آج کون ہے جو اپنی آواز سے بولتاہے؟ وہ سنہرا دور تو ہمیشہ کے لیے بیت چکا جب ہم اپنے آپ کو، اصلاح پسندی کے چاؤ میں، ایک نکھرے ستھرے اجتماع کا حصہ مان لیتے تھے۔ اس وقت ہر کسی کو معلوم تھا ک جب وہ اس اجتماع سے الگ ہوگا۔ تو اس کی یاد باقی رہ جائے گی۔ لیکن آج یاد تو بعد کی بات ہے، ہمیں اپنا جسم ہی قائم رکھنا مشکل ہو رہا ہے۔ چونکہ اجتماع تتر بتر ہوچکا ہے او رایک ذلیل موت کا خوف ہمیں اژدہا بن کر لپٹ گیا ہے۔ آج ہم اعصابی شکستگی کاشکار ہیں۔ ہماری ہمتوں اور جرأتوں کو ایک ان دیکھی دیمک چاٹ گئی ہے۔ اور جو باقی ہیں، وہ تنہا انسانوں کی تنہا ہمتیں ہیں۔

    یہ وہ تاریک منظر ہے۔ جس نے اپنا سایہ ادب پر ڈالا، تو نئے ادیب نے جنم لیا۔ اس ادیب نے جس نے سوچا کہ اگر ہمیں ایٹمی موت کے پہلو میں زندہ رہناہے، اگر جابر ریاستوں کا لقمۂ تر بننا ہے، اگر بیسویں صدی کے انسان کا مقدر یہی ہے کہ وہ آغازِ بلوغت سے لے کر انجامِ ہستی تک موت کے خوف کی چھتری، اپنے سر پر تانے رکھے، تو پھر زندگی کرنے کی ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے۔ موت کو اس کے تمام لوازمات اورکیفیات کے ساتھ قبول کرلیاجائے، موت کو فوری خطرہ سمجھ کر معاملہ کیا جائے، اپنے وجود کو معاشرے سے علیحدہ کرلیاجائے، روایات اور جڑوں کے بغیر زندہ رہاجائے اور وجود کے، ان جنگلوں کا سفر اور راستوں کا تعین کیے بغیر، اختیار کیا جائے، جہاں انا، اَمر، اذِن اوربغاوت کے درخت اگتے ہیں۔ باالفاظِ مختصر، زندگی مجرمانہ ہے، یا شریفانہ، مقصدیہ ہوناچاہیے کہ اپنے وجود تک پہنچنے کی سبیل نکالی جائے۔ واردات کی اس دنی اکو کھنگالا جائے، جہاں تحفظ، اکتاہٹ سے آگے بڑھ کر مرض بن جاتا ہے اور فرد حال میں زندہ رہتا ہے۔ اس بے پناہ حال میں، جس کانہ کوئی ماضی ہے اور نہ کوئی مستقبل، جہاں نہ یاد ہے اور نہ کسی شعوری ارادے کاامکان۔ وہ زندگی بسر کی جائے، جو موت کی سرحد تک ساتھ دے۔ اور جس کو بسر کرتے سمَے انسان اپنی تمام قوتوں کے ساتھ جواکھیل سکے۔

    آج کاادیب محسوس کرتاہے کہ نت نئی فتوحات، نت نئی شکستوں کے دروازے کھول رہی ہیں۔ اور یہ ایسی شکستیں ہیں، جو انسان کے جسم پر حملہ کرتی ہیں اور انسان کی قوتوں کو مقید کرلیتی ہیں۔ حتی کہ ایک انسان، دوسرے انسانوں کی، خواہشوں، اکتاہٹوں، خاموش لاابالیوں اور وجود کو تباہ کرنے والے غصوں کے جیل میں بند ہوجاتا ہے۔ انسان یا تو گول ہے، یا مربع ہے، یا تو باغی ہے یا سمجھوتہ کرنے والا ہے، یا تو صحرائے مروٹ کی سرحدوں پر رہنے والا وحشی ہے، یالاہور کے کسی مربع کمرے میں محصور استحصالی معاشرے کاحقیر جرثومہ ہے۔

    ایک استحصالی معاشرہ انسانی ہمت سے اَن گنت مطالبے کرتاہے۔ اور ایک نیم استحصالی معاشرہ، اور بھی زیادہ مطالبے کرتاہے۔ کہ ایسے معاشرے میں انتشار کا تناسب زیادہ ہوتاہے۔ چنانچہ یہ محض کوئی اتفاق، یا حادثہ نہیں کہ نئے ادیب کے الہامی سرچشمے، ان انسانوں کے دلوں سے پھوٹے ہیں، جو کئی صدیوں سے استحصال اور جمہوریت کے درمیان پنڈولم کی طرح لٹک رہے ہیں۔ لیکن نئے ادیب کے الہام نے ایک باقاعدہ اور عملی فلسفۂ حیات کی شکل اس وقت اختیار کی جب بیسویں صدی کے تقاضوں، غموں اور تفریحوں نے اس پر اپنے اثرات ڈالے۔

    نئے ادیب، دراصل بیسویں صدی کی شہری تہذیب کے وہ مہم جو ہیں، جو راتوں کو، مظلوم انسانوں کے دلوں اور دماغوں کی روشنی لے کر، عمل کی جستجومیں نکلتے ہیں۔

    نیا ادیب وہ ہے، کہ وہ اپنے آپ کو محسوس کرے۔ اپنی خواہشوں، اپنے غصوں، اپنی پشیمانیوں کا ادراک حاصل کرے۔ جو اپنے اضطراب و انتشار کی نوعیت سے آگاہ ہو، اور اس کی تسکین کا طریقہ جانتا ہو۔ ایک حد سے زیادہ شریف اور مہذب ادیب (احمد ندیم قاسمی سے معذرت کے ساتھ) اسی وقت نیا ادیب کہلانے کا مستحق ہوگا، جب کہ اس میں بچپن کی شرارت آمیز حماقت بھی ہوگی۔ یہ کہنا قطعی غلط ہے، کہ نیا ادیب مذہب کامنکر ہے۔ میرے خیال میں تو ایک سچے نئے ادیب کے لیے مذہبی ہونا ضروری ہے، کہ اس کے فلسفۂ حیات کے ڈانڈے بالآخر مذہب سے جاملتے ہیں۔ لیکن اس کا مذہب مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا مذہب نہیں ہے، بلکہ ایک سچے صوفی کامذہب ہے۔ گویا نیا ادیب، بنیادی طور پر صوفی ہے۔ میری اس بات پر شاید کچھ لوگوں کو اعتراض ہو۔ لیکن میں اس کی وضاحت کروں گا۔

    فرض کیجیے، ایک دہریے اور ایک صوفی کے درمیان مکالمہ ہوتاہے۔ ظاہر ہے، دہریہ زندگی کی وکالت کرے گا۔ ایک ٹھوس اور عقلی زندگی کی وکالت۔ چونکہ دہریے کے نزدیک موت ایک خلا کانام ہے۔ اور وہ دھکے کھا کھاکر تنگ آچکا ہو، لیکن اس کی خواہش یہی ہوگی کہ اسے مزید زندگی ملے۔ وہ اپنی اس خواہش کو زندگی سے پیار کاعنوان دے گا۔ (ترقی پسند ادیبوں کاعمومی رویہ) ۔ ایک دہریے کا تمام سرمایۂ افتخار یہی ہے، کہ وہ اپنی کمزوری اور روحانی تھکن کے باوجود، موت کی ’’رومانی‘‘ تمنا نہیں کرتا۔ زندگی کے ساتھ، یہ بظاہر مردانہ اور دبنگ رویہ، ایک صوفی کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ وہ یہ تو تسلیم کرتا ہے، کہ زندگی ایک حقیقت ہے۔ لیکن اس کا دعویٰ ہے، کہ وہ ہی وہ وجود ہے، جو موت کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے رازسے آگاہ ہے۔ زندگی کے ساتھ ساتھ، موت بھی اس کے لیے ایک تجربہ ہے۔

    جب کہ ایک دہریہ، اس تجربے سے صرفِ نظر کرتا ہے۔ صوفی اپنے ذاتی وژن (Vision) کی شدت کو لے کر آگے برھتا ہے۔ اور اس شدید، ذاتی وژن کے محسوساتی نظارے اتنے غیر معمولی ہیں کہ کوئی عقلی اور منطقی دلیل، خارجی اور سطحی احساس کی کوئی لہر، اور کوئی حسابی فارمولہ اس بات کی توجیہہ نہیں کرسکتا، کہ یہ نظارے ایک صوفی کے لیے، ایک عام منطقی حقیقت سے زیادہ حقیقت کیوں بن گئے ہیں۔ موت کے اندر چھپے ہوئے امکانات کاداخلی تجربہ، صوفی کی منطق ہے۔۔ بالکل یہی کیفیت آج کے ادیب کی ہے۔ اس کا اور اس کے دوسرے تمام ساتھیوں کا مشترکہ نقطۂ ارتکاز، ان کا جلتا ہوا شعورِ حال ہے۔ اور یہ ہو بہو وہی شعور ہے، جس کے دروازے موت کے اندر چھپے ہوئے امکانات نے ان کے لیے کھولے ہیں۔ آج کے ادیبوں کے انتشار و اضطراب کی گہرائی انہیں اس قابل بناتی ہے کہ وہ موت کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر زندگی سے معاملہ کریں۔ اس طرح انہیں یہ علم حاصل ہوا ہے، کہ برقیاتی حال میں جو کچھ لمحہ بہ لمحہ ظہور پذیر ہو رہا ہے، ان کے لیے، ان کے نصب العین کے لیے، ان کے اعمال کے لیے، ان کی محبتوں کے لیے اور ان کی ضرورتوں کے لیے، بیک وقت خیر بھی ہے اور شر بھی۔

    یہی وہ علم ہے، جس نے نئے ادیب کی دنیا میں، احساسات کے ایک عجیب و غریب فرقے کو جنم دیا ہے۔ اس فرقے نے یقیناً مذہبی نشاۃِ ثانیہ کا ایک غیرمحسوس پرسکون کام سرانجام دیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس میں کئی جوشیلے، تہہ و بالا کرنے والے، اور شاید خوفزدہ کرنے والے عنصر بھی ہیں۔ اور اس فرقے میں اِن عناصر کی موجودگی کی وجہ یہ ہے کہ تضادات اکٹھے ہوگئے ہیں۔ پرسکون، داخلی زندگی، اور تھرکتی ہوئی خارجی زندگی، خرمستیاں اور محبت کے اجلے خواب، قتل کرنے کی خواہش اور تخلیق کرنے کی تمنا، طاقت کی ہوس کے ساتھ وجود کاتصور، اور وجود کا یہ نیم تاریک اور رومانی، مگر بے پناہ نظریہ، جو ہر مرد اور عورت کو زندگی کے ہرگزرے لمحے کے آئینے میں، انفرادی طور پر، زرخیزی کی طرف آگے بڑھتے ہوئے یا موت کی طرف پیچھے ہٹتے ہوئے دیکھتا ہے۔

    کسی نئے فلسفۂ حیات کا ادراک اس وقت تک ناممکن ہے جب تک کہ ایک نئی زبان بھی تخلیق نہ کی جائے۔ نئے ادیب نے، جب یہ زبان تخلیق کی، تو اس پر ابہام کے الزام لگے۔ اس مقام پر میں ابہام، اظہار اورابلاغ وغیرہ کی گھسی پٹی بحث میں الجھنا نہیں چاہتا۔۔۔ میں تو صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ نئی زبان کی تخلیق نے نئے ادب کو تکنیک کاایک لائحہ عمل عطا کیا ہے۔ اور یہی وہ لائحہ عمل ہے جس کے ذریعے نیا ادب، ماضی اور مستقبل کی آویزشوں کا مکمل اظہار کرتا ہے۔ اس تکنیکی لائحہ عمل کاتجزیہ کرنے کے لیے ہمیں مندرجہ ذیل درجوں اور نوعیتوں کا تعین کرنا ہوگا۔

    (۱) اس دور کے تجربوں اور واردات کے نئے آرٹ کے ذریعہ آگاہی۔

    (۲) آرٹ کے ذریعے امیدکے ایک ایسے منظر کی ایجاد، جس سے معاشرہ اثرپذیر ہو۔

    (۳) آرٹ کا ایک ایسا تصور، جو حال کو غالب کرکے ماضی کاوجود مٹادے اور داخلی زندگی کے جدید سمبلزم کو اجاگر کرے۔

    (۴) تکنیک کاایک ایسا پیٹرن (Pattern) جووجود کی اندرونی تھرتھراہٹوں سے اپنی زندگی کی غذا حاصل کرے۔

    (۵) روایت کا ایک انقلابی تصور۔

    آگاہی، جدید ادب کا پہلا اور بنیادی اشارہ ہے۔ اور یہ اشارہ ایک ایسے نئے اسلوب کی ایجاد کاعزم ظاہر کرتا ہے جو دورِ جدید میں رونما ہونے والی ان تبدیلیوں کا اظہار کرسکے، جو احساس کو نشتر لگاتی رہتی ہیں۔ کیا آپ کو بھی یہ محسوس نہیں ہوتا، کہ صنعتی قصبوں، مشینوں اور انقلابات نے، زندگی کے مناظر کے کچھ رنگ زائل کیے ہیں اور کچھ رنگ اجیالے ہیں۔ ان تبدیلیوں کے اثرات، آپ کی روز مرہ کی بولی ٹھولی، اورآپ کے عمومی ذوق میں بھی نمایاں ہوچکے ہیں۔ اس لیے ایک ادیب کے لیے ضروری ہوجاتا ہے، کہ وہ بدلتی ہوئی زبان کے محاورے سیکھے اورپھر اپنی واردات کو انہی محاوروں میں بیان کرے۔ پس اس آگاہی کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ایسے نئے محاورے ایجاد کیے جائیں، جو زمانے کی آواز کو معنی عطا کرسکیں، مشین اور رفتارکی اس دنیا کے آہنگ کا ساتھ دے سکیں، اور اس دکھی انسانیت کی نمائندگی کرسکیں، جو پرانی معاشرتی وراثت کے قید خانے میں کراہ رہی ہے۔ یہی محاورے بالآخر ادیب کے ذہن میں، ہیبت کو جنم دیتے ہیں۔

    امید کے منظر، سے میری مراد یہ ہے کہ نئے ادب کاآہنگ، عصری ماحول کو بدل سکتا ہے۔ اور اس دورکے باشندوں کے غصوں اور جھنجھلاہٹوں کو فرو کرکے، اور ان کو امن اور شرافت کے ساتھ رہنا سکھاکر، ایک انقلاب برپا کرسکتا ہے۔ اس سلسلے میں لفظ ’’امید‘‘ کو سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس صدی کے شروع میں ’’امید‘‘ سے مراد یہ لی جاتی تھی کہ ادب، بیلے، فن تعمیر، فرنیچر ڈیزائن، مصوری، موسیقی اور شاعری کاباہمی اتحاد قائم کرکے، انہیں ایک ایسی تحریک کی شکل دے دی جائے، جو عمومی ذوق کو انقلاب آشنا کردے اور اس کے ساتھ ساتھ اس بدلے ہوئے انقلابی ذوق کو زندگی کی ایک تحریکی، عملی اور تنقیدی طاقت بنادیا جائے۔ چنانچہ ۱۹۰۹ء میں میونخ میں مصوروں کی جو جماعت تشکیل ہوئی تھی، اس نے ا پنے اراکین کی مصوری کے نمونوں پر مشتمل ایک کتاب ۱۹۱۴ء میں ’’ڈربلارائٹر‘‘ کے نام سے شائع کی تھی۔ اس کتاب کے دیباچے میں ’’امید‘‘ کے بارے میں انہی خیالات کااظہار کیا گیا تھا۔ لیکن میرے نزدیک ’’امید‘‘ کی حقیقی تقسیم یہ ہے کہ یہ ادیب کے تنہا وجود کے اندر پرورش پانے والے ادب کا رشتہ خارجی دنیا سے جوڑدیتی ہے۔ اور ادب کے وژن کو کائناتی وژن بنادیتی ہے۔ گویا ایک کا دکھ سب کادکھ بن جاتا ہے۔ (طبقاتی تقسیم کے بغیر)

    آرٹ کے ایک ایسے تصور سے جو داخلی زندگی کے جدید سمبلزم کو اجاگر کرے، میرا مطلب یہ ہے کہ ماضی کی روایتوں کا جھوٹا سہارا لیے بغیر، اس جدید مادی دنیا کے امیجز (Images) کی تشریح بھی کی جاسکتی ہے، اور ترجمانی بھی۔ اور ان امیجز کو داخلی زندگی کی علامتوں کاروپ بھی دیا جاسکتا ہے۔ مشہور جرمن شاعر رلکے کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس نے ’’ڈیونوایلی جیز‘‘ (Dvino Elegies) میں اس کابھرپور تجربہ کیا ہے۔ اس نظم میں انسانی پس منظر کے ساتھ فرشتے، بالکل مشینی وجودوں کی طرح عمل کرتے ہیں اور یہ عمل اقدار کی دنیا میں رونما ہوتاہے۔ گویا فرشتے خارجی مادیت کو داخلی اقدار میں ڈھالنے میں مصروف ہیں۔ اس سلسلے میں رلکےؔ کا وہ بے پناہ مکتوب بھی میرے پیش نظر ہے، جو اس نے وائی ٹولڈ کے نام لکھا تھا۔ مَیں رلکےؔ کے اس مکتوب کو وہی درجہ دیتا ہوں جو شیلےؔ کے مضمون ’’شاعری مدافعت میں‘‘ کا ہے۔ شیلے نے شعروں کو ایسے قانون ساز کہا تھا، جن کو کوئی تسلیم نہیں کرتا۔ رلکےؔ شاعروں کوایسے موجودوں کے روپ میں دیکھتا ہے، جنہوں نے علامتوں کی مشینری ایجاد کی ہے۔ ایسی مشینری جو حقیقت کو داخلی وجود کی خوابناکیوں میں ڈھال دیتی ہے۔

    آرٹ کاایک ایسا پیٹرن، جو وجود کی اندرونی تھرتھراہٹوں سے اپنی زندگی کی غذا حاصل کرتاہے، میرے نزدیک وہ پیرٹن ہے، جس میں آرٹ کو اس طرح استعمال کیا جائے، کہ وہ خارجی مادیت کی ترجمانی، داخلی زندگی کی زبان میں کرسکے۔ اور روایت کے انقلابی تصور سے میں یہ مطلب لیتا ہوں، کہ ماضی کی روایت کوسرے سے نظرانداز کرکے، چند منتخب روایتوں کو متعارف کرایاجائے۔ خواہ ایسی روایتیں ہمیں خود ایجاد کرنی پڑیں۔

    یہ ہے نیا ادب اور نیا ادیب۔ مجھے بتایا جائے کہ آخر اس ادب اور ادیب نے وہ کون ساگناہ کیا ہے، جس کی پاداش میں اسے ’’ابلاغ‘‘ اور ’’اظہار‘‘ کے پتھروں سے سنگسار کیا جائے؟ اور میں نئے ادیبوں سے پوچھتا ہوں کہ وہ اپنی بے گناہی کے ’’جرم‘‘ میں کب تک یوں چپ چاپ سنگسار ہوتے رہیں گے؟ ٹی۔ ہاؤس کی دھواں، دھواں فضاؤں سے نکلو اور دیکھو زمانہ تمہارے استقبال کے لیے بازو پھیلائے کھڑا ہے۔ اور زمانہ، خدا ہے۔

    مأخذ:

    Adab E Lateef Khaas No 1966-SVK (Pg. 4)

      • ناشر: استقلال پریس، لاہور
      • سن اشاعت: 1966

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے