aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ادب اور ادیب کا مقصد

محمد مجیب

ادب اور ادیب کا مقصد

محمد مجیب

MORE BYمحمد مجیب

    ہمارے زمانے کے عجائبات میں سے ایک بہت ہی عجیب چیز ہے یہ مقصد کی بحث۔ جس وقت سے ہمیں کچھ شعور ہوتا ہے ہم ہر چیز کا، ہر کام کا، ہر خیال کا مقصد پوچھنے لگتے ہیں۔ جب تک ہم میں غور کرنے کی صلاحیت رہتی ہے ہم مقصد کی جستجو میں رہتے ہیں اور جب خود مایوس ہو جاتے ہیں تو دوسروں کے پیچھے پڑتے ہیں کہ وہ کچھ معلوم کریں اور ہمیں بتائیں۔ کسی مقصد کے ہاتھ نہ لگنے سے ہمارے بڑے بوڑھے چڑچڑے اور بدگمان ہو جاتے ہیں۔ ہمارے نوجوان درخواستیں لکھتے اور سفارشیں کراتے پھرتے ہیں اور ہماری جماعت میں ایک ایسا انتشار پیدا ہو گیا ہے جسے شاید اب مقصد کا صحیح علم بھی دور نہ کر سکےگا۔

    لطف تو یہ ہے کہ وہی چند لوگ جنہوں نے اپنے نزدیک زندگی کا ایک مقصد معلوم کر لیا ہے، پریشانی میں اور زیادہ پریشان کرتے ہیں۔ ان مقصد کا علم رکھنے والوں میں ایک گروہ وہ ہے جو زندگی کے اسلامی طریقے کو صحیح طریقہ مانتا ہے اور معاشرت، تہذیب اور سیاست کو اس ایک رنگ میں رنگ دینا چاہتا ہے۔ اسلامی طریقے کو برتنے سے کسی مسلمان کو انکار نہ کرنا چاہئے لیکن ابھی تک اس کے مبلغوں میں ایسے نمونے نظر نہیں آئے جس کی تقلید کی جا سکے۔ گویا رنگ موجود ہیں، رنگنے کو سطح موجود ہے، رنگریز تیار کھڑے ہیں، بس اس کی دیرہے کہ وہ آپس میں طے کر لیں کہ کون سا رنگ اسلامی ہوگا، کون سانہ ہوگا۔ ان کی حجت ہمیں اس دبدھے میں ڈال دیتی ہے کہ اسلامی رنگ استعارہ ہے یا واقعی کوئی رنگ۔ اوراس کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ ہم پھر مقصد کے پھیر میں پڑ جاتے ہیں۔

    دوسرا گروہ جومقصد کے صحیح علم رکھنے کا دعویٰ کرتا ہے وہ ہے جس کے نزدیک ہر مشکل کا حل انقلاب ہے۔ بعض لوگ تو انقلاب کے ایسے گرویدہ ہیں کہ وہ اسی کو ایک مقصد سمجھے بیٹھے ہیں اور اس لفظ میں کچھ ایسی شان ہے کہ لغت میں اس کے معنی دیکھنا نئی زندگی کی توہین معلوم ہوتی ہے۔ انقلاب کی صدا لگانے والے بہت ہیں اور ان میں ان چند لوگوں کی آواز گم ہو جاتی ہے جو جانتے ہیں کہ انقلاب محض ایک ذریعہ ہے اور وہ اسی وقت توجہ کے قابل ہے جب کہ وہ اشتراکی نظام کا پیش خیمہ ہو۔ اشتراکی نظا م کا تصور اصطلاحوں اور سیاسی فرقہ بندیوں میں الجھ نہ گیا ہوتا تو وہ ایک مقصدبن سکتا تھا۔ فی الحال وہ بحث سے نجات ملنے کی صورت نہیں ہے کہ اسے تسلیم کرنے کے بعد بھی صحیح مقصد اور صحیح طریقہ کی جستجو کا فرض باقی رہتا ہے۔

    لیکن ہم ہیں کہ مقصد کی فکر میں سرگردانی پر مجبور ہیں۔ معلوم نہیں یہ بیداری کی علامت ہے یا غفلت کی، ترقی کی یا انحطاط کی۔ بظاہر تو مقصد کے آرزومندوں کی کیفیت ان لوگوں سے ملتی ہے جو طبیبوں سے لمبے مشورے کرتے ہیں، گھنٹوں نبض پر ہاتھ رکھ کر اور معدے اور جگر کے فعل پر دھیان جماکر بیٹھتے ہیں کہ تندرست ہونے کا مقصد حاصل کر لیں۔ وہ لوگ جو زندگی کے مقصد کو زندگی سے ایک الگ چیز سمجھتے ہیں، اپنے آپ سے اور دوسروں سے پوچھتے ہیں کہ ان کی زندگی کا مقصد کیا ہونا چاہئے یا اس پر غور کرتے ہیں کہ وہ کسی بڑے مقصد کو پورا کر رہے ہیں یا نہیں، دراصل ایک قدرتا ًمکمل چیز کو توڑکر پھر بنانا چاہتے ہیں اور ان کے منتشر افکار کا مسالہ زندگی کے اجزا کو جوڑ نہیں سکتا۔

    زندگی کا تجزیہ کرنے والوں کو اعصاب کے مریضوں کی طرح اپنی ذات، اپنی دشواریاں، اپنے مسائل بالکل ہی نرالے معلوم ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ اپنی زندگی کے لیے ایک مقصد چاہتے ہیں جو خاص ان کا مقصد ٹھہرایا جا سکے۔ ان میں ایسی انفرادیت پیدا ہو جاتی ہے جو صرف اپنی ذات کو حقیقی سمجھتی ہے، جو بنتے بنتے کائنات کا مرکز بن جاتی ہے، اس کے لیے یہ سوال محض ضمنی ہو جاتا ہے کہ دنیا کو کس نے بنایا۔ وہ خدا سے پوچھنا چاہتی ہے کہ وہ کس طرح وجودمیں آیا۔ اس کے نزدیک یہ کوئی نامناسب بات نہیں کہ کائنات کے سارے کام بند تصور کیے جائیں جب تک کہ یہ طے نہ ہو جائے کہ اس کاروبار میں اس کا کتنا حصہ ہے، کتنے کام اس کے بنانے سے بن جائیں گے اور بگاڑنے سے بگڑ جائیں گے۔ ایسی انفرادیت کسی مقصد، کسی فن، میراجی چاہتا ہے کہ کہوں کہ کسی خوبی کی بھی حامل نہیں ہو سکتی اور اس پر ازل سے یہ لعنت بھیجی گئی ہے کہ اپنے اوپر غور کرتی رہے اور اپنے لائق مقصد اور کام کو تلاش کرتی رہے اور اسے کچھ نصیب نہ ہو۔

    افسوس ہے کہ یہ انفرادیت ہمارے ملک میں ایک وبا کی طرح پھیلی ہے اور مقاصد کی کوئی بحث اس کی نحوست سے پاک نہیں رکھی جا سکتی۔ ہم کسی ایسے مسئلے پر گفتگو ہی نہیں کر سکتے جس میں فیصلہ کرنا اور ایک راہ اختیار کرنا ہمارے بس میں ہے، اس لیے کہ یہ انفرادیت کسی بنیادی بات کو قبول نہیں کرتی۔ ہم اپنی محنت کے پھلوں سے محروم رہتے ہیں، اس لیے کہ جو درخت بھی لگایا جاتا ہے اس کی جڑوں کو یہ انفرادیت کھود کھود کر دیکھتی ہے کہ وہ زمین میں ٹھیک طرح سے پھیلی ہی یا نہیں۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ادب کا مقصد جی بہلانا ہے، اس ڈر میں کہ وہ تمام لوگ جن کا قلم دنیا کی تقدیر لکھ رہا ہے، چلا اٹھیں گے کہ ان کی توہین کی گئی ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ادب کا مقصد شخصیت کا اظہار کرنا ہے کیونکہ پھر ہماری دنیا بے شمار شخصیتوں کی نمائش گاہ بن جائے گی جو اس انتظار میں بیٹھی ہیں کہ انہیں ان کا حق دیا جائے۔ ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ادب کا مقصد انسان کو حسن کامل کا جلوہ دکھانا ہے، اس لیے کہ ادب میں حسن کا جلوہ آج کل عام ہے اور اسے دیکھنا کوئی بات ہی نہیں۔ آپ دل میں سمجھتے ہوں تب بھی خدا کے لیے زبان سے نہ کہئے کہ ادب کا مقصد جماعت کی اصلاح اور رہ نمائی ہے۔

    اب تو نہ جانے کتنے ادیب ہیں جو قلم کو یہ سمجھ کر اٹھاتے ہیں کہ زندگی کا صحیح نقشہ بنانا ان کا خاص منصب ہے اور ہم نے تسلیم کر لیا کہ ادیب کو رہنما ہونا چاہئے تو رہنماؤں کے ہجوم میں رستہ چلنا دشوار ہو جائےگا۔ اس سے تو یہی کہہ دینا بہتر ہے کہ ادب آپ اپنا مقصد ہے۔ ادیب ہر قید سے آزاد ہے اور کسی کو حق نہیں کہ اس سے بازپرس یا محبت کرے، سوائے دوسرے ادیبوں کے اور خدا انہیں بھی ان کی آزادی مبارک کرے۔

    آپ میرے اس بیان سے یہ نہ سمجھیں کہ میرے دل میں ادب یا ادیبوں کی قدر نہیں۔ مجھے شکایت ہے تو یہ کہ ہم ادب کا اور ادیب اپنے فن کا جیسا کہ چاہئے احترام نہیں کرتے۔ میرے خیال میں ادب اور ادیب کے مقصد کی بحث چھڑنے اور جاری رہنے کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو ادب کا خادم نہیں سمجھتے، ادب کو اپنا خادم بنانا چاہتے ہیں اور اس ظاہری اختیار سے جو ہمیں حاصل ہے کہ جو چاہیں لکھیں اور جس طرح چاہیں لکھیں، دھوکہ کھاکر فرض کر لیتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک ادب کو ایک نئی شکل دے سکتا ہے۔ ہمارے ادیب اس صلاحیت کو جو انہیں قدرت کی طرف سے ملی ہے، کافی سمجھ کر مشق اور محنت اور کام کی جانچ کو غیرضروری قرار دیتے ہیں اور انہیں دو چار ہم مذاق مل جائیں تو رائے عامہ کی کوئی پروا نہیں رہتی۔

    لیکن زبان اور ادب جماعت کی ملک ہے افراد کی نہیں۔ افراد کو ان کے حسب مقدور اس کا ایک حصہ امانت کے طور ملتا ہے اور اسے وہ چاہیں تو ضائع بھی کر سکتے ہیں۔ اگر وہ ضائع کرنا نہیں چاہتے اور اسے اپنا خاص حق ٹھہراکر جماعت کے عام خزانے سے الگ رکھنا نہیں چاہتے تو انہیں وہ تمام شرطیں اور پابندیاں قبول کرنا ہوں گی جو جماعت کے کاموں کو جاری رکھنے اور ترقی دینے کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ انہیں زبان کواس طرح سیکھنا ہوگا جیسے کسی فن کو سیکھتے ہیں۔ غلط اور صحیح میں اسی طرح فرق کرنا اور غلطی سے بچنے کی فکر اسی طرح کرنی ہوگی جیسے کہ نازک آلات بنانے والے کرتے ہیں۔ انہیں ان نمونوں کو جنہیں زبان جاننے والے معیاری مانتے ہیں، اسی طرح ذہن نشین کرنا ہوگا جیسے کہ کسی علم یا فن کے بنیادی اصول ذہن نشین کیے جاتے ہیں اور اپنے ہر کام کو اس سختی سے جانچنا ہوگا جو بےمروت ممتحن کا حصہ مانی جاتی ہے۔

    ریاضت کا یہ سلسلہ تکمیل کو پہنچ جائے تب سمجھنا چاہئے کہ شخصیت ظاہر کرنے کا موقع آتا ہے، لیکن یہ شخصیت جواب ظاہر ہوگی فن کو مٹاکر نہیں، اپنے آپ کو مٹاکر بنی ہوگی۔ اسے اپنی صلاحیتوں کا صحیح اندازہ ہوگا۔ وہ ایسے ہی کام اٹھائے گی جنہیں انجام دے کر وہ فن کی عزت بڑھاسکے۔ اسے ناکام اورگمنام رہناگوارا ہوگا مگر وہ اپنی کسی گستاخی سے فن کو بے آبرو نہ کرےگی۔ ایسی شخصیت اپنے مقصد کے بارے میں سوال نہیں کرتی اور دوسرے اس کا مقصد معلوم کرنا چاہیں تو جواب نہیں دیتی۔ اسے اپنے کام سے مطلب ہوتا ہے اور اس کو بہتر سے بہتر انجام دینے سے۔ اس کا مقصد تھا کہ اپنی خا ص استعداد کا پتہ چلا لے اور استعداد کے مناسب کام کو سیکھ لے۔ یہ سب منشا ہو گیا تو پھر مقصد کا سوال نہیں رہتا، بس ا ستعداد دکھانے اورفن کی خدمت کرنے کی آرزو ہوتی ہے۔

    ہمارے ادیبوں کی تربیت اس نہج پر ہو تو بہت سی پیچیدگیاں جو اس وجہ سے پیدا ہوتی ہیں کہ ادیب اپنے آپ کو فن سے برتر سمجھتے ہیں اور اپنا ہر کام دل میں یہ ٹھان کر کرتے ہیں کہ وہ جماعت اور فن پر ایک احسان کر رہے ہیں، دور ہو جائیں گی۔ یہ مقصد کی بحث بھی جو فطرت اور تہذیب کے خلاف باتیں کرایا کرتی ہے، ختم ہو جائےگی اور ادیب صیح معنوں میں آزاد ہو جائےگا۔ مگر ٹھہریے ہم کو ایک اوچھے فلسفے نے اس غلط فہمی میں ڈال دیا ہے کہ آزادی ایک اثباتی چیز نہیں ہے، رکاوٹوں کے موجود نہ ہونے کا دوسرا نام ہے۔ اس کا تعلق سیاست اور قانون سے ہے، انسانیت اور تہذیب سے نہیں۔

    اب میں آپ سے یہ کیسے کہوں کہ آزاد وہی شخص ہو سکتا ہے جس نے تعلیم کی ساری پابندیاں قبول کی ہوں، اپنی خاص استعداد کا صحیح اندازہ کر لیا ہو، جسے ایسی تربیت دی گئی ہو کہ وہ اپنی استعداد سے پورا کام لے سکے، جس کی جماعت اس کی قدر کرے اور جو فن کو ترقی دینا، جماعت کی خدمت کرنا اپنا منصب جانے۔ میرے ذہن میں آزاد ادیب کا جو تصور ہے وہ ایسے شخص کا ہے جسے اپنی زبان میں پورا ملکہ ہو، جو اپنے فن کے امکانات سے واقف ہو اور اس سے ایسے کام لینے کا خیال ہی نہ کرے جس کے لیے وہ موزوں نہیں۔ ایسا ادیب کبھی کبھی اپنا اور دوسروں کا جی بہلائےگا، اگر اسے جی بہلانا آتا ہے۔ اپنے کام میں اپنی شخضیت کو ظاہر کرےگا اور جتنا نمایاں اس کا کام ہوگا اتنی ہی نمایاں اس کی شخصیت ہوگی۔ وہ کامل حسن کے دیدار کے لیے تڑپتا رہےگا اور یہ دیدار اسے نصیب ہوا تو وہ اس کے کام کو کامل حسن کا نمونہ بنا دےگا۔ ایسے ادیب کو حقیقت کی تلاش ہوگی اور وہ چاہےگا کہ اس کا ہر کام حق کی جستجو میں اسے ایک قدم آگے لے جائے۔

    وہ یہ کبھی تصور ہی نہ کر سکےگا کہ انسانی زندگی معنی اور مقصد سے خالی ہو سکتی ہے۔ وہ ظاہری باتوں سے دھوکہ نہ کھائےگا۔ حقیقت نگاری کے بہانے سے حالات کی لاحاصل عکاسی نہ کرےگا اور رومانیت کو اپنا مقصد بتاکر جذبات کو آوارہ نہ چھوڑےگا۔ اسے اپنی خامیوں کا، اپنے علم کی کمی کا ایسا احساس ہوگا کہ وہ رہنما بننے کا حوصلہ نہ کرےگا، مگر اسے اپنے اوپر اتنا قابو ہوگا کہ خالی اور کمی کا احساس فاسد مادہ بن کر اس کی طبیعت میں بگاڑ نہ پیدا کر سکےگا۔ اس کے دل میں فن کی عزت ہوگی اور اس جماعت سے محبت ہوگی جس کی گود میں اس فن نے پرورش پائی ہے۔ جماعت کی دنیا اس کی دنیا ہوگی اور وہ جانتا ہوگا کہ اس دنیا سے الگ اور باہر اس کا وجود محض فرضی ہے۔ جماعت کا دین اس کا دین ہوگا اور وہ جانتا ہوگا کہ جس نے اس دین کو چھوڑا، وہ اگر پیغمبر نہ ہوا تو شیطان بن جائےگا۔

    ادیب کو حقیقت کا علم دنیا دیکھ کر نہیں ہو سکتا اور اس کی نظر دنیا ہی پر نہ ہونا چاہئے۔ اس کے لیے خلوص، سچائی، دیانت، ہمت ضروری ہیں مگر کافی نہیں۔ انسانی سیرت کا علم بھی خواہ وہ کتنا ہی گہرا اور مکمل کیوں نہ ہو، ادیب کے لیے کافی نہیں۔ اس لیے کہ انسان کی قدر معین اور معلوم نہیں۔ اس کی شخصیت ایک حالت پر قائم نہیں رہتی اور ادیب کی نظر میں صرف کسی ایک وقت کی کیفیت ہوئی تو اس کے تصورات اور اس کے سارے کام ناقص رہیں گے، اوپر کی تسلی اس کے فن اور اس کی شخصیت کی تکمیل کے لیے لازمی ہے کہ جس طرح اس نے اپنی جماعت کی زبان کو اور اس کے ادب کو قبول کیا ہے اسی طرح وہ اپنی جماعت کے عقائد کو قبول کرے اور اسے یقین ہوکہ ان عقائد پر جیسا کہ چاہیے عمل کیا گیا تو انسانی زندگی کے ابدی مقاصد حاصل ہو جائیں گے۔

    ادیب کی طبیعت جو انسانی فطرت کو سمجھنے اور پرکھنے کی خاص صلاحیت رکھتی ہے، جھوٹ اور ریاکاری کو دور سے پہچان لیتی ہے۔ جذبات کی کشمکش جو بےشمار کیفیتیں پیدا کرتی ہے، انہیں محسوس کرتی ہے اور بیان کر سکتی ہے، کبھی اسے گوارانہ کرےگی کہ وہ ایسے عقائد کو زبان سے صحیح کہے جنہیں وہ دل میں غلط سمجھتا ہو، اس لیے وہ اپنی جماعت کی اور اپنے عقائد کی اس طریقے پر جانچ کرےگا جو اسے آتا ہے اور جماعت پر یہ واضح کرےگا کہ وہ اپنے اصل نمونے سے کس قدر مختلف ہو گئی ہے لیکن آدھی بات کہنے سے بہتر ہے کہ کچھ نہ کہا جائے۔ آدھے راستے تک لے جاکر چھوڑ دینے سے بہتر ہے کہ رہنمائی کا دعویٰ نہ کیا جائے۔

    ایسا ادیب اچھا ہو سکتا ہے جو زندگی کا دلچسپ پہلو دیکھے اور دکھائے، مایوسی اور رنج کو ہنساکر یا جی بہلاکر دور کرے، لیکن اسے سمجھ لینا چاہئے کہ اس میں بس اسی کی صلاحیت ہے۔ ایسا ادیب بھی اچھا ہو سکتا ہے جو زندگی کے طریقے کا مانے ہوئے اخلاقی اصولوں سے مقابلہ کرے اور اپنی جماعت کا علم عام کرکے طبیعتوں میں گہرائی، تخیل میں وسعت اور برتاؤ میں رواداری پیدا کر سکتا ہے۔ مگر یہیں سے اس کی دشواریاں بھی شروع ہو جاتی ہیں۔ اس کے لیے خالی اصول معیار کا کام نہیں دے سکتے۔ وہ منطقی یافلسفی نہیں ہوتا۔ جیسے مصور رنگوں اور سنگ تراش پتھر کے بغیر معذور ہو جاتا ہے، ادیب بھی عقیدے اور اصول کو سمجھ نہیں سکتا جب کہ وہ ان جیتی جاگتی ہستیوں میں مشکل نہ ہو جو اس کی نظر اور دل میں سمائی رہتی ہیں۔

    سچا ادیب اس منزل پرپہنچ کر بیٹھ نہیں جاتا اور واپسی کا ارادہ نہیں کرتا۔ جیسے زبان کو سیکھتے وقت اس نے ان صفات کو جم کر مان لیا تھا جو خود اس میں موجود نہ تھیں اور پھر آہستہ آہستہ انہیں اپنے اندر پیدا کیا تھا، ویسے ہی اس مقام پر وہ اس تعلیم کو جو وجدانی یا الہامی علم کی بنا پر دی جاتی ہے، صحیح مان کر اپنے فن کو اس کا رازداں اور حامل بناتا ہے۔ رہنمائی وہ اب بھی نہیں کرتا۔ یہ اس کا منصب نہیں لیکن وہ انسان اور اس کی دنیا کو لاوارث نہیں سمجھتا۔ وہ جانتا ہے کہ جیسا رشتہ اس نے اپنے معبود سے قائم کیا ہے، ویسا ہی رشتہ ہر انسان قائم کر سکتا ہے اور انسان اور اس کی زندگی کی تکمیل یقینی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ انسان اس حقیقت پر دل سے بھروسا کرے اور اس کے جذبات کا سارا کھیل، کائنات کا سارا کاروبار ایک پراسرار عبادت بن جائے۔

    مأخذ:

    نگارشات (Pg. 182)

    • مصنف: محمد مجیب
      • ناشر: مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1974

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے