Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ادب اور منصوبہ بندی

حکیم محمد اجمل خاں شیدا

ادب اور منصوبہ بندی

حکیم محمد اجمل خاں شیدا

MORE BYحکیم محمد اجمل خاں شیدا

    معزز خواتین و حضرات!

    حلقہ ارباب ذوق سے میرا تعلق غائبانہ سا رہا ہے۔ طالب علمی کے زمانہ میں مَیں نے اس کی ایک آدھ محفل میں شرکت کی تھی۔ ہاں لندن میں اعجاز بٹالوی نے اپنے آپ کو خودبخود اس ادارہ کی ایک شاخ بنالیا تھا۔ اس شاخ سے متاثر ہوکر میں نے بسااوقات زمزمہ سرائی کی کوشش کی تھی۔ اس کے بعد واپسی پر حلقہ کے پروگراموں میں میرا نام کئی مرتبہ چھپا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ میں اپنے آپ سے اور انتظار حسین سے واضح الاعتقاد عہد و پیمان کے باوجود، نہ تو کبھی مضمون پڑھ سکا اور نہ کسی اجلاس میں شامل ہوسکا۔

    عہد اور ایفائے عہد کے درمیان جو مسافت ہے وہ آسانی سے طے نہیں ہوسکتی۔ اگرمیں آپ سے وعدہ کروں کہ میں کل آپ کاقرض اداکردوں گا۔ اور جیسا کہ عین ممکن ہے میں وہ قرض ادا نہ کرپاؤں۔ تو آپ کہیں گے کہ میں نے جھوٹا وعدہ کیا تھا۔ لیکن کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ چند اٹل حالات کے باعث، جن میں غالباً میری پست ہمتی کے علاوہ میری بدنیتی بھی شامل ہے۔ میں وہ قرض چکا نہ سکوں۔ پھر بھی آپ مجھے مطعون کرسکتے ہیں کہ میں نے نیت صاف نہیں رکھی اور حق بہ حق دار نہیں پہنچا۔

    اگلے وقتوں کے لوگ جس حقیقت کو نیرنگیٔ زمانہ کہتے تھے۔ آج کل مفکر اسے تغیرو انقلاب کانام دیتے ہیں۔ اور ہمارے ایک مفکر عظیم تویہاں تک کہہ گئے ہیں کہ انہیں دمادم صدائے کن فیکون آرہی ہے۔ اس بدلتے ہوئے زمانہ کو جس میں ’’سکون و ثبات‘‘ محض فریب نظر ہے عہد و پیمان کی کیا حیثیت ہے؟ کیا کسی قسم کاعہد و پیمان کرنا ہی اپنے آپ کو فریب دینے کے مترادف نہیں۔ کیا یہ مستقبل کو حال کے سانچہ میں ڈھالنے کی سعی ہوتا ہے۔ کتنی امیدیں، کتنی توقعات اور ان کے ساتھ ساتھ کتنی فکر مندی اور کتنی تشویش اور خوف اس عہد و پیمان کے عمل کے ساتھ وابستہ ہے؟ لیکن غالباً اجتماعی زندگی، وعدہ اور ایفائے وعدہ کے بغیر ناممکن ہے لیکن اگر ہم وعدہ اور ایفائے وعدہ کے تعلق کو زندگی کاایک لازمی فریب سمجھ کر جس میں ایفائے عہد کوایک قطعی جزء ایمان نہ بنائیں تو کیا یہ طرز فکر حقیقت پسندی کے قریب نہ ہوگا؟ دیکھیے کہ درحقیقت نہ صرف حالات بدلتے ہیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ میں اور آپ بھی بدلتے رہتے ہیں۔

    میں جو کہ آج ہوں ’’کل‘‘ نہیں تھا اور ’’کل‘‘ نہیں ہوں گا۔ اگر سکون و ثبات، فریب نظر ہے تو میری ذات کا وجود بھی فریب نظر ہے۔ ’’میں‘‘ اور ’’آپ‘‘ ہیں۔ لیکن ہم کیا ہیں؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ افکار و حوادث کا یہ تسلسل جسے ہم شخصیت کہتے ہیں۔ اس کی ذاتی نوعیت محض فریب ہو، ذات کا یہ ڈھانچہ زمان و مکان میں زندگی کوطویل تر کرنے کے لیے ہو۔ گویا ’’ذات‘‘ کا وجود ہی شہادت اور صلیب سے گریز کرنے کافریضہ اداکررہاہو۔ درحقیقت ’’میں‘‘ بدلتا رہتا ہوں، لیکن میری ’’انا‘‘ میری ’’ذات‘‘ کی حقیقت ہی یہ ہے کہ اس تغیر کی پردہ پوشی کرتی رہے۔

    ’’انا‘‘ اور ذات کی ایک صنعت یہ بھی ہے کہ یہ ماضی اور مستقبل کی طرف دوڑتی ہے۔ حال میں پوری طرح سرشار نہیں ہوتی۔ اور جب یہ یادوں اور ارادوں کی طرف فرارکرتی ہے یہ بہت کم ہوتا ہے کہ جب میں کسی یاد کو تازہ کروں، تو اپنے آپ سے یہ بھی کہہ سکوں کہ میں اس وقت فلاں واقعہ کو یاد کر رہاہوں۔ جو فلاں تاریخ کو ہواتھا۔ یا اگر میں کسی بات کاارادہ کروں تو اپنے دل سے کہوں کہ اس وقت میں مستقبل کے متعلق ایک منصوبہ بنارہا ہوں۔ اور یہ ارادہ اور یہ عمل میرے فلاں خوف، میری فلاں تشویش سے، جو کہ حال ہے فرار کی ایک راہ ہے۔

    آپ ذرا غور کریں کہ ہمارے اکثر و بیشتر اعمال اپنے آپ سے گریز کے راستے ہیں۔ تجزیۂ نفسی کا ایک فرض یہ بھی ہے کہ مریض کو عمل سے اس لیے روکے، تاکہ وہ اس عمل کی نوعیت سمجھے، اس عمل کے پیچھے جو جذبات اور احساسات کارفرما ہوں انہیں مریض کے شعور میں لائے۔ آگہی کے بیدار ہونے سے مریض یہ دیکھنا شروع کردیتا ہے کہ اس کے اکثر اعمال حال کی آگہی سے بھاگ جانے کے لیے کیے گئے ہیں۔

    تو پھر ’’عہد و پیمان‘‘ کیا ہوئے؟ اجتماعی زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے (اگر وہ برقرار رکھنے کے قابل ہے) تو عہد و پیمان کی ضرورت ہے۔ لیکن اگر ہمیں ساتھ یہ بھی آگہی ہو کہ یہ فریب ضروری ہے، او ریہ فریب ’’انا‘‘ کے استحکام کے لیے ضروری ہے، اور یہ فریب ’’انا‘‘ کے فتح و شکست کے زیروبم کو قائم رکھتا ہے، تو پھر ایفائے عہد کی حرمت کا اخلاقی کلیہ اپنی جارحانہ مطلق العنانیت کو زائل کردیتا ہے اور اس میں ایک لچک پیدا ہوتی ہے جو حال کی نفی نہیں کرتی۔

    اس عہد و پیمان کے بارہ میں آپ کیا کہیں گے، جو آپ ادبی اور فنی تخلیق کے متعلق کرتے رہتے ہیں۔ اس پند و نصیحت کے انبار کو کیا کریں گے جو ارباب اقتدار ادیبوں اور فن کاروں پر لادتے رہتے ہیں۔ اورجسے بسا اوقات ادیب اور فن کار خندہ پیشانی سے اپنے کندھوں پر اٹھانے کے لیے رضا مند ہوجاتے ہیں۔ لیکن مصیبت یہی نہیں۔ ایک دشواری یہ بھی ہے کہ ادیبوں کا ایک گروہ دوسرے گروہ کو تلقین کرتاہے کہ ایک خاص قسم کا ادب پیدا کرو۔ ادیب ناصح اور محتسب کے فرائض بھی سرانجام دینے لگے ہیں۔ اور جس ادیب کا اپنا تخلیقی سرچشمہ خشک ہونے پر آتا ہے۔ وہ تنقید و خردہ گیری میں کمال حاصل کرتا جاتا ہے۔ ادب کے فقیہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اسلامی ادب پیدا کرو، پاکستانی ادب پیدا کرو۔ اور بعض اوقات ادبی منبروں سے یہ بھی صدااٹھی ہے کہ ادب پیدا کرو۔

    چلیے اجتماعی زندگی کو قائم رکھنے کے لیے عہد و پیمان ضروری ہے، لیکن کیا آپ ادب کو بھی کسی منصوبہ بندی میں اسیر کرنا چاہتے ہیں؟ کیا آپ یہ عہد کرسکتے ہیں کہ آپ فلاں وقت فلاں نظم تخلیق کریں گے؟ اسلامی ادب سے کیا مطلب ہے؟ جو اسلامی روایات کے مطابق ہو؟ لیکن کیا کبھی کوئی روایت بغیر ٹوٹے ہوئے بھی پنپی ہے؟ روایت کو زمان ومکان پر پھیلائیے تو دیکھیے کہ ہر تخلیق حال میں رس بس کر رہی وجود میں آئی ہے۔ ’’انا‘‘ کیا ہے؟ کیا یہ وہی ذات نہیں، جو ساری کائنات سے ایک جارحانہ مدافعت میں مبتلا ہے جو انسان کی حاکمیت پر پابندیاں لگاتی ہے۔ جب وہ حرص پر آمادہ ہوتی ہے تو چھینا جھپٹی کے مہذب طریقے اختراع کرتی ہے۔ جب وہ حرص میں شکست کھاتی ہے تو ’ناحرص‘ کی کیفیت کو حریصانہ نظر سے دیکھتی ہے۔ اور اپنے جذبہ حرص کو قابو میں لاتی ہے۔ اس پر فتح پاتی ہے۔ اسے زیر کرتی ہے۔ گویا فتح و شکست کی یہ رزم و پیکار ہر حالت میں جاری رہتی ہے۔ ’’انا‘‘ کی بقا اور اس کا استحکام جذبۂ انتقام کی تسکین و تکمیل سے ہوتاہے۔ یہ ہر منتصفانہ فعل کو انصاف کے خروش اورلفظ کے استعمال سے جائز قرار دیتی ہے۔ ہرگرسنہ طلب، ہر ہوسناکی کو نہایت شاطرانہ انداز میں خوب صورت لفظوں کا پہناواعطا کرتی ہے۔ گویا اس کا کام ہی فطرت کے ساتھ ایک مستقل فریب کا رشتہ قائم کرنا ہے۔ اور اس فریب کاری میں خود فریبی کا شکار بن جانا ہے۔ فطرت سے فرار میں یہ ہزار پناہیں تلاش کرتی ہے۔ اور ہر ہجرت میں اپنا استحکام ڈھونڈتی ہے۔

    ’’انا‘‘ کی امنگوں اور آرزوں کو دبانا بھی ’’انا‘‘ ہی کا کام ہے۔ اور اس سے بھی ’’انا‘‘ ہی مستحکم ہوتی ہے۔ تو جب یہ اپنے جبر و اقتدار کو پھیلاتی ہے۔ تو کبھی مذہب، کبھی قومیت کے جذبہ سے مسحور ہوکر اپنی قلم رو کی توسیع کرتی، ’’یقین‘‘ اور ’’ایمان‘‘ کا نام لے کر فطری شکوک و شہبات کو روندتی ہے۔ عقل کانام لے کر ہرجارحانہ کارروائی کو صحیح بناتی ہے۔

    جنسی ہوس کے جذبہ پر غور کیجیے، جنسی ہوس سے میری مراد وہ جذبہ ہے جو مجھ میں ہو تو عشق ہے او اگر رقیب میں ہو تو وہ بوالہوسی ہے۔ یہ جذبہ اپنی نوعیت میں ’’انا‘‘ کی نفی کرتاہے۔ یہ اپنا آپ دوسرے کو سپرد کرنے کا جذبہ ہے۔ یہ سپردگی جتنی مکمل اور قطعی ہو اتنی ہی لذت شدید ہوتی ہے۔ لیکن آپ یہ دیکھیں کہ جس شخص کے جابرانہ اور فاتحانہ انداز پختہ ہیں۔ اسی قدر اسے اس جذبہ کی تسکین کی ضرورت ہے اور جونہی یہ جذبہ تسکین پاجاتا ہے وہ ’’انا‘‘ کی فتوحات کی فہرست میں شامل کرلیاجاتاہے۔ وہ ایک ’’یاد‘‘ بن جاتاہے۔ جسے گاہے گاہے تازہ کرنے سے مجھے اپنے آپ کو قبول صورت اور قبول سیرت سمجھنے کا موقع ملتا رہتاہے۔ لیکن اگر یہ موقع نہ ملے تو حسرت و یاس کی تیرگی میں بھٹکتا رہتا ہوں، یعنی ’’انا‘‘ سے فرار بھی ’’انا‘‘ کے استحکام ہی کی ایک صورت بن جاتی ہے۔ کس کس طرح ’’انا‘‘ اس جذبہ کو تسکین دینے کے لیے نہیں، اسے زیادہ چابک دست، مجنون اور بے اختیار کرنے کے وسائل سوچتی ہے۔ فلموں، رسالوں اور کتابوں سے واہمے اور دن سپنے مستعار لیتی ہے اور اس جذبہ کو فکر و تخیل میں لاکر منصوبہ بندی کے پورے اہتمام کے ساتھ اس کی تسکین کرتی ہے۔ اس طرح ’’انا‘‘ کی شکست و ریخت نہیں ہوتی بلکہ اس کی گرسنگی زیادہ تیز اور زیادہ ہولناک ہوتی ہے۔ اس میں ایک جبر، ایک بے دردی سی پیدا ہوتی ہے اور اپنے مفتوحین کی مردم شماری کرکے، یعنی حسین اور دل کش یادوں کے سحر کو ذہن پر پھیلاکے، اپنی خامیوں اور بدعنوانیوں سے نظر بچاکر اپنے جگر کو قوی تر اور پنجوں کو خوں خوار کرتی ہے۔

    ’’انا‘‘ ایک دفاعی حربہ ہے۔ وہ چاہے مذہبی عقائد سے یگانگت پیدا کرے یا قومی اور وطنی نصب العین سے۔ اس کی حقیقت مدافعتی ہے۔ جب تک ہم ’’انا‘‘ کے حیلوں، بہانوں، اس کی فریب افروزی کی پوری آگہی نہ پیدا کریں۔ ہم اپنے اندر اس تخلیقی سرچشمہ کو پھوٹنے نہیں دیں گے، جو ہمارے اندر فطرت کی آواز ہے۔ یہی آگہی، تخلیقی سرمستی ہے۔ اس آگہی کی بدولت میں پتھروں درختوں، پھول کانٹوں اور پرندوں سے ہم کلام ہوسکتا ہوں۔ ’’انا‘‘ اور اس کے ہتھ کنڈوں کو ارادتاً اور کرہاً ختم کرنا مقصود نہیں بلکہ اس کی پوری آزادی کے ساتھ آگہی پیدا کرنا مقصود ہے۔ اسی آگہی سے ’’انا‘‘ زائل ہوتی ہے۔ اور وہ بے وقت سناٹا جو تخلیق کے دریا میں تموج اور طوفان پیدا کرتا ہے۔ ظہور میں آتا ہے۔

    تخلیقی جذبہ اور ادب کسی نظریہ کی منصوبہ بندی میں جکڑ کر پیدا نہیں ہوتے، وہ کسی فکر، کسی استدلال، کسی علم کی اساس پر تعمیر نہیں ہوتے۔ ہر نظر یہ جو ماضی اور مستقبل کو اپنی لپیٹ میں لائے۔ حقیقت حال سے فرار کی ایک صورت ہے۔ اس لیے نظریاتی ادب، ادب نہیں، تخلیقی جذبہ کااظہار نہیں۔ وہ ہزاروں آوازوں، ہزاروں نظاروں کو حذف کردیتا ہے۔ وہ ایک خیال کے ذریعہ حقیقت کو دیکھتا ہے اور اگر صبح سویرے میناکا راگ اس کے خیال کی وحدت میں نہ سمائے تو وہ اسے گوش اندازکردیتا ہے۔ گویا کہ مینا نے کبھی پوپھٹتے گیت نہیں گایا تھا۔ اور درختوں کے پتے کبھی ہوا میں نہیں لہرائے تھے۔ اور کسی مستانی آنکھوں والی نے کبھی ادیب کو جی بھر کے پیار سے نہیں دیکھا تھا۔ یہ ایک خیال، یہ واحد فکر، ہماری بنیادی تنہائی، اور خلوت کے خلاء کو پرکرتاہے۔

    کبھی آپ آکھیں بند کرکے دیکھیں، غالباً دوچارحسین تصورات ذہن میں ابھریں گے، اور پھر یکایک تاریکی اور خلاءپھیل جائے گا۔ جی بے چین ہوجاتا ہے۔ فوراً ذہن میں ارادہ لپکتا ہے کہ اس خلاء کو کسی نہ کسی طرح پرکیا جائے۔ ورنہ پاؤں تلے سے زمین نکل جائے گی۔ فوراً اس خلا ء پر جابرانہ عمل کرنے کو جی چاہتا ہے اور آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ لیکن اگر ہم اس عمل کی نوعیت سمجھ کرخلاء پر کوئی جارحانہ کارروائی نہ کریں اور پاؤں تلے سے زمین نکلنے دیں تو دیکھیں گے کہ یہی عدم تحفظ کا احساس ہمیں نظریات کادامن پکڑنے پر مجبور کرتاہے۔ اور اسی عدم تحفظ کی پوری آگہی ہمیں اس سکوت سے آشنا کرواتی ہے جس میں تخلیقی نغمے پھوٹتے ہیں۔

    لیکن مستقل خلوت اور گوشہ گیری سے حساسیت مرجھا جاتی ہے۔ زندگی انسانی تعلقات اور روابط ہی سے بھرپور اور شدید ہوتی ہے۔ اور اکثر اوقات ان روابط سے فرار ’’انا‘‘ کو تقویت دینے کے لیے ہی کیا جاتا ہے۔ انسانی اور شخصی روابط تو ہیں لیکن ہمیں ان روابط کی پوری آگہی نہیں ہے۔ دو دوست ملتے ہیں۔ دوست داری کی باتیں کرتے ہیں۔ لیکن خدا جانے جی ہی جی میں کیا گزرجاتی ہے اور دل کی واردات کو اپنی نظروں سے پنہاں رکھنے کے لیے وہ اور زیادہ باتیں کرتے ہیں۔ اس طرح ’’انا‘‘ اپنی دفاعی تدابیر میں کامیاب رہتی ہے۔ لیکن اگر ہم اس میل ملاپ میں اس رابطہ کی حقیقت سے آگاہ ہوجائیں۔ اور اپنے آپ سے یہ کہہ سکیں کہ میں اس وقت یہ محسوس کر رہاہوں، میں اس وقت بور ہوں۔ اب یہ تعلی کر رہا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے پھر بھی مجھے رشک کااحساس ہو رہا ہے۔ اب اس نے بہت باتیں کرلی ہیں۔ مجھے بھی کچھ بولنے کا جوہر دکھانا چاہیے۔ کہیں یہ شخص یہی بدگمانی لے کر گھر نہ چل دے کہ میں بے وقوف ہوں، وغیرہ وغیرہ۔ ہاں۔ اس آگہی میں زیادہ بات چیت کا امکان نہیں رہتا۔ لیکن زیادہ بات چیت کرکے لینا بھی کیا ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم بات چیت چاہے کم کریں۔ لیکن اپنے روابط سے آگاہ تر ہوتے جائیں جو احساس بھی پیدا ہو، جو خیال بھی آئے اُسے آگہی میں لے آئیں۔ اس خیال، اس احساس کو کسی اخلاقی یا مذہبی احتساب کے ذریعے گردن زدنی نہ قرار دیں۔ یہ عمل مشکل ہے۔ کیونکہ یہ فرار کی کھڑکیاں بند کرتا ہے اور تخلیقی زندگی کی راہیں کھول دیتا ہے۔

    محض دوستانہ روابط کی آگہی ہی نہیں، ہر رشتہ، ہر تعلق اور ہر رابطہ کی آگہی کی ضرورت ہے۔ گھر میں ماں باپ، بہن بھائی، بیوی بچوں سے رابطہ کی آگہی دنیا کے اس وسیع اجتماع میں ہر رابطہ کی آگہی، استاد اور شاگرد، حاکم اور محکوم کے باہمی رابطوں کی آگہی، حیوانوں سے محبت یانفرت کی آگہی، بے جان اشیاء کے حسن و قبح کی آگہی، ظالم اور مظلوم، فاتح اور مفتوح، دولت مند اور مفلس کے تعلقات کی آگہی۔ جب یہ آگہی پیدا ہو تو تخلیق ذہانت چمک اٹھتی ہے، احساس تنہائی کی تاریکی میں ایک روشن سکوت بیدار ہوتا ہے جس کی اتھاہ خاموشی میں مسائل کاحل آسان ہوجاتا ہے۔

    یہ آگہی ابتداء میں لفظوں کے توسط ہی سے ممکن ہے۔ یعنی اس وقت میں یہ محسوس کر رہا ہوں، اور اب اس وقت یہ، لفظوں کے استعمال ہی سے آگہی کی ابتداء ہوتی ہے لیکن ’’انا‘‘ حال سے گریز کرنے کے لیے لفظوں میں کچھ اس قسم کی جاذبیت پیدا کرتی ہے کہ وہ حقیقت معلوم ہونے لگتے ہیں۔ لفظ تو علامتیں ہیں اور بسااوقات لفظ محض حال کی کیفیات سے فرار حاصل کرنے کی علامت ہیں۔ ان میں نصب العین، آدرش، وغیرہ اکثر و بیشتر فرار ہی کی راہیں ہیں۔ اس لیے لفظوں کے استعمال کے ساتھ ساتھ ’’تعطل زبان‘‘ زبان بھی لازمی ہے۔ اگرچہ یہ مشکل منزل ہے۔ لیکن یہ عین ممکن ہے۔ ’’تعطل زبان‘‘ کا ایک طریقہ کورزبسکی نے بتایا تھا، کورزبسکی کا یہ خیال تھا کہ اکثر و بیشتر ذہنی امراض کاسبب لفظوں کاغلط استعمال ہے۔ انسانی تعلقات میں لفظ بہت جلد ہی اشیاء کامرتبہ حاصل کرلیتے ہیں۔ لفظوں کا اس طرح تجزیہ کرنا کہ وہ علامت ہی رہیں۔ اورخود ایک شے نہ بن جائیں۔ ذہنی صحت کی دلیل ہے اس نے کہا کہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر کسی چیز کی طرف انگلی سے اشارہ کرو۔ اور اس طرح دوسری چیزوں کی طرف بھی اشارہ کرو، اس عمل کے اعادہ سے لفظ اور شے کی یکانگت ٹوٹ جائے گی۔ اور پھر عام فقروں میں ’’وغیرہ وغیرہ‘‘ کی اہمیت پر غور کیجیے۔

    آپ نے کبھی لفظوں کی نوعیت پر غور کیا ہے۔ کوئی لفظ لے لیجیے۔ مثلاً خوب صورت یا بدصورت، روایت یا تقدیر۔ ذرا ان لفظوں کا محسوسات پر اطلاق کرتے جائیے، یعنی وہ چیزیں گنتے جائیے جن کے لیے یہ لفظ مستعمل ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ گنتے گنتے آپ ایسے مقام پر پہنچ جائیں گے جہاں دیانت داری سے آپ کو ’’وغیرہ وغیرہ‘‘ کہنا پڑے گا۔ کسی ایک منظر کو بیان کرتے کرتے بھی آپ کو آخر میں وغیرہ وغیرہ ہی سے کام لینا پڑے گا۔ گویا ہر لفظ تجربہ کو محدود و مقید کرتاہے۔ اگر لفظی بیان کی حدیں پہچان کو آپ اپنی کیفیات کو محسوس کریں۔ یعنی لفظوں سے آزاد ہوکر اپنی تمام کیفیات کی آگہی حاصل کریں۔ تو تمام شخصیت میں ایک تخلیقی توانائی دوڑ جاتی ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ان کہے لفظوں یعنی ان لفظوں کو جو فقط اپنے آپ سے کہے گئے ہوں، ارادہ کے تشدد سے روک دیں۔ بلکہ یہ کہ ان لفظوں کی بے بسی اور معذوری سے آگاہ ہوکر اُن سے آزاد ہوجائیں۔ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ میں اس وقت غصہ میں آرہاہوں۔ کیونکہ زید نے بکر سے میرے متعلق یہ کہا اور اب میں خوف زدہ ہوں۔ کیونکہ... وغیرہ وغیرہ، تو یہ کیا ضرور ہے کہ یہ دولفظ، غصہ اور خوف، آپ کے صحیح جذبات اور احساسات کی ترجمانی کر رہے ہوں۔ یقیناً آگاہی کی ابتدائی منازل میں لفظوں کا استعمال ناگزیر ہے۔ لیکن جونہی آگاہی شعوری کیفیات سے گزر کر لاشعور کی تہوں کو کریدنے لگے، تو لفظ بھی بے کار نظر آنے لگتے ہیں۔ لفظوں کی اس مجبوری کی آگہی ہی خاموش آگہی پیدا کرتی ہے۔ جس میں کسی جذبہ، کسی احساس کو کوئی متعین نام نہیں دیا جاسکتا، افکار اور جذبات ایک دوسرے میں اس طرح بہتے ہیں کہ ’’انا‘‘ کے محبوب لفظ تخلیق کی اس بہار میں بے برگ وبار نظر آتے ہیں۔

    منصوبہ بندیوں کے فریب کو سمجھ کر ان سے آزادہوکر ہی تخلیقی عمل بروئے کار آتا ہے۔ یہ عمل ’’حال‘‘ کا عمل ہے۔ اس کے لیے کوشش نہیں ہوسکتی، اس کا انتظار نہیں ہوسکتا، یا کم سے کم وہ انتظار نہیں ہوسکتا جو شب ہجراں میں ہمارے رسمی عاشق کو جگائے رکھتا ہے۔ یہ انتظار کچھ اس قسم کا ہے جو دوستو یفیسکی کے “IDIOT” احمق نے کیا تھا۔

    اس احمق ہیرو نے اپنی محبوبہ سے ایک باغ میں ملاقات کا وعدہ لیا تھا۔ محبوبہ آداب محبوبی کا احترام کرتے ہوئے ملاقات کے وقت سے کچھ دیر بعدپہنچی، اسے یہ توقع تھی کہ اس کا احمق محبوب انتظار کی بے چینی میں مبتلا ہوکر اِدھر اُدھر ٹہل رہا ہوگا۔ لیکن وہاں پہنچ کر اس نے دیکھا کہ وہ ایک بنچ پر سورہا ہے۔ لڑکی نے غصہ میں اسے جھنجھوڑا، جب وہ احمق بیدار ہواتو کہنے لگی کہ یہ انتظار کا اچھا طریقہ ہے؟ احمق نے جواب دیا کہ انتظار کا اس سے بہتر طریقہ بھی ہوسکتا ہے۔

    ’’انا‘‘ اور اس کے وظائف کامعروضی مطالعہ کرنے والے ماہرین نفسیات آج کل جب اپنے طرز فکر اور انداز تحقیق کا تجزیہ کرتے ہیں، تو اپنے بیان میں جنگجویانہ اصطلاحات کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے لگتے ہیں۔ گویا وہ کائنات کے ساتھ ایک نہایت عظیم جنگ لڑ رہے ہیں۔ میں نے ایک امریکی ماہر نفسیات سے یہ پوچھا کہ یہ کیا بات ہے کہ نفسیات کی منطق آج کل جنگجویانہ اصطلاحات کے استعمال کے بغیر بیان ہی نہیں ہوسکتی، تو انہوں نے جواب دیا کہ ’’یہ اس لیے کہ ہمارے مسائل ہمارے دشمن ہیں۔‘‘ یہ بات بہت حدتک درست ہے کہ اکثر ماہرین نفسیات ہمارے مسائل کا مطالعہ اس طرح کرتے ہیں جیسے ہمارے مسائل ہمارے دشمن ہوں۔ لیکن یہ حقیقت بھی اہم ہے کہ جدیدنفسیات کا ایک نہایت اہم شعبہ، اس انکشاف پر مبنی ہے کہ ہم خود بنیادی مسئلہ ہیں۔ پہلے ہم اسے حل کریں تو اور مسائل بھی حل ہو سکتے ہیں۔ بلکہ جب تک ہم خود کو اپنا دشمن تصور کرتے رہیں گے، یہ مسائل بڑھتے رہیں گے۔ لیکن جب ہم اپنے آپ کی اور اپنے روابط کی آگہی حاصل کرنے لگیں گے۔ توبنیادی مسئلہ حل ہوجائے گا۔ اور پھر دوسرے مسائل جنہیں ہم نے خود پیدا کیا ہوا ہے اور غالباً ’’انا‘‘ کے استحکام کے لیے پیدا کیا ہوا ہے حل کرنے آسان ہوجائیں گے۔

    اگر ادب بنیادی طور پر ’’انا‘‘ کے استحکام کے لیے پیدا کرنا ہے تو بہتر تو یہی ہے کہ ہم اس حقیقت سے بھی آگاہ رہیں۔ اگرتخلیقی کام کو اپنی مدافعت اور تحفظ کے مبارزہ میں ایک حربہ بنایا ہے تو اپنے آپ سے ہمیں کہہ دینا چاہیے کہ ہم ادب کو کسی جنگ میں سامان جنگ بنا رہے ہیں اور پھر اگر ادب میں انحطاط کے آثار نظر آئیں تو اس انحطاط کواخلاقاً معیوب سمجھ کر اسے مسترد نہ کریں بلکہ اسے سینے سے لگائیں کہ یہ ہماری ’’انا‘‘ کاانحطاط ہے اور اس کا ماتم کرنے سے ہم ’’انا‘‘ کو قوی تر کر رہے ہیں۔

    غالباً اسی آگہی سے ہمارا تخلیقی سرچشمہ ابلے گا۔

    (حلقہ ارباب ذوق کے سالانہ اجلاس منعقدہ مئی ۶۴ء میں پڑھا گیا)

    مأخذ:

    ادب لطیف،لاہور (Pg. 8)

      • ناشر: دفتر ماہنامہ ادب لطیف، لاہور
      • سن اشاعت: 1964

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے