aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ادب اور مقصد

مجنوں گورکھپوری

ادب اور مقصد

مجنوں گورکھپوری

MORE BYمجنوں گورکھپوری

    حضرات!

    جس وقت آپ لوگوں نے اس انجمن کے صدر کے لئے میرا نام تجویز کیا تو پہلی بے اختیار تحریک تو میرے اندر یہ پیدا ہوئی کہ میں اپنا نام واپس لے لوں اور اپنی جگہ کسی ایسے شخص کا نام تجویز کروں جو تن و توش اور ہوش و گوش میں مجھ سے بہتر ہو اور ایسوں کی ہمارے درمیان کمی نہیں تھی۔ لیکن انسانی کمزوری کہئے یا مجلسی آداب کا احساس یا عام زبان میں مروت، بہرحال اسی احساس نے مجھے باز رکھا اور میں چپ رہ گیا۔

    بعد کو جب کچھ لوگ رکنیت سے اپنے اپنے نام واپس لینے لگے تو ایک بار پھر انتقاماً میرے دل میں ایک لہر اٹھی۔ میرے لئے نام واپس لینے کا موقع تو رہا نہیں تھا۔ زبانی استعفیٰ داخل کر دینے کا خیال آیا، لیکن پھر میں نے سوچا کہ ایسے موقعوں پر جو لوگ اپنے نام واپس لیتے ہیں یا انکار کرتے ہیں ان میں بہت کم ایسے ہوتے ہیں جو ایمانداری کے ساتھ اپنی نااہلی کے قائل ہوں۔ عام طور سے یا کسی شرما حضوری کے احساس کے زیر اثر لوگ ایسا کرتے ہیں یا پھر انکسار کے پردے میں اپنی برتری کے احساس کا اظہار کرنا مقصود ہوتا ہے جو دراصل ایک قسم کی نفسیاتی پیچیدگی یا گرہ کی علامت ہے اور میں اپنے اندر ان دونوں میں سے کوئی احساس نہیں پاتا تھا۔ صرف اپنی نااہلی کا احساس تھا جس کو کوئی ماننے کے لئے تیار نہ تھا۔ کہنے کا مطلب یہ کہ آپ لوگوں نے اس انجمن کی صدارت میرے سپردگی ہے جس کے لئے میں اپنے دل میں تشکر کا کوئی جذبہ نہیں پاتا۔ اس کو غنیمت سمجھئے کہ مجھ کو آپ سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ یہ ایک ذاتی بات تھی جس کو کہہ ڈالنا ہی اچھا تھا۔

    اب میں چند ایسے امور کی طرف آپ کی توجہ چاہتا ہوں جن پر ہم سب کو غور کرنا چاہئے۔ اس نووارد انجمن کو وجود میں لانے کے سلسلے میں ہم کئی بار مل چکے ہیں۔ ایک ایسی انجمن کی ضرورت ہر گروہ اور ہر دبستان کے لوگوں نے محسوس کی اور مجھے اس ضرورت کا احساس دلایا۔ اس لئے پہلے دن سے اس انجمن کی تشکیل کی غرض سے جتنی رسمی اور غیررسمی صحبتیں ہوتی رہی ہیں ان سب میں شریک رہا۔ میری دلی آرزو یہی تھی اور ہے اور رہےگی کہ ایک صحت مند اور منصف مزاج ادبی انجمن صرف علی گڑھ میں نہیں، صرف ہندوستان میں نہیں بلکہ سارے عالم میں قائم ہو جائے۔ یہ کوئی ’’خواب وخیال‘‘ کے عنوان کی بات نہیں ہے۔ ایسا ہو سکتا ہے اس لئے کہ ایسا ہی ہونا چاہئے۔ بہ قول ایمرسن،

    When duty whispers, Lo, Thou must The youth replies, I can.

    (جب فرض زیر لب مطالبہ کرتا ہے ’’دیکھو تم کو یہ کرنا ہے‘‘ تو نوجوان (صالح نوجوان) کا جوا ب ہوتا ہے ’’میں یہ کر سکتا ہوں۔‘‘) میں اپنے ہم عمروں سے زیادہ ان نوجوانوں سے یہ امید لگائے ہوئے ہوں جو ابھی پچیس سال سے آگے نہیں بڑھے ہیں۔

    ہاں تو اس انجمن کے بنانے کے دوران میں کبھی دبی زبان میں، کبھی بلند آواز سے یہ سوال برابر اٹھایا جاتا رہا ہے کہ ادب کیا ہے اور ادیب کس کو سمجھا جائے، حالانکہ بیسویں صدی کے نصف سے زائد گزار چکنے کے بعد، جبکہ ہم ایلیڈ اور مہابھارت سے لے کر شاہنامہ، سکندرنامہ، ڈیوائن کامیڈی، پیراڈائزلاسٹ کے دور سے گزر چکے ہیں، یہ سوال کچھ مضحکہ انگیز سا معلوم ہوتا ہے اور سوال کرنے والے کی منطقی نہیں بلکہ اس ذہنیت کی دلیل ہے جس کو کارلائل ’’منطق تراشی‘‘ (Logic Chopping) کہتا ہے اور جس کے لئے عام فہم محاورہ ’’بال کی کھال نکالنا‘‘ ہے۔

    میں ابھی الہ آباد محض ذہنی آب و ہوا بدلنے گیا ہوا تھا۔ وہاں بھی کئی روز تک اسی سوال کا سامنا کرنا پڑا۔ سوال کرنے والوں کا منہ بند کرنا کچھ بڑا مشکل کام نہیں ہے۔ لیکن میں خود اپنی جگہ پر سوچنے لگا کہ آخر ادب اور غیر ادب کے درمیان فرق کیا ہے۔ یہ سوال میرے لئے کوئی نیا سوال نہیں ہے۔ گزشتہ تیس سال سے میں نے اپنی رسائی فکر اور مقدور تک اسی قسم کے سوالات میں صرف کئے ہیں اور آپ لوگ بھی ان پر غور کرتے رہے ہوں گے اور اپنے اپنے نتیجے پر پہنچے ہوں گے۔

    فن اور ادب کی بہت سی تعریفیں کی گئی ہیں اور ان گنت نظریے اب تک پیش کئے جا چکے ہیں۔ کسی نے فن اور ادب کو زندگی کا وہ عکس سمجھا جو ایک شخصی مزاج کے آئینے میں نظر آئے، کسی نے شخصیت کو دبا لینے کا نام ادب رکھا، کسی نے شخصیت کے اظہار کو ادب کا نصب العین قرار دیا اور کسی نے ایک نئی اصطلاح گڑھ کو ہم کو ایک سحابی دنیا میں چھوڑ دیا۔ یہ اصطلاح Super Personality یعنی فوق الذات یا ماورائے شخصیت ہے۔ ادب کو کبھی زندگی کی تنقید بتایا گیا، کبھی زندگی کی تمجید (Sublime & Lion) کسی نے اس کو زندگی کا پھول پھل کہا۔ کسی نے فکریاتی عمارت کی اوپری کاریگریاں۔ یہ سب ادھوری حقیقتیں ہیں جو ہم کو دھوکے میں ڈال دیتی ہیں۔ ادب یہ سب کچھ ہے اور اس سے بہت زیادہ۔ بہرحال یہ تمام چہ می گوئیاں ہوتی رہی ہیں اور ادب اپنی جگہ ادب رہا اور ہمیشہ رہےگا، تمام بدلتے ہوئے میلانات و نظریات کے باوجود۔

    ادب کیا ہے؟ اس سوال کی تہہ میں بنیادی سوال یہ ہے کہ ادب میں کوئی مقصد ہوتا ہے یا نہیں اور اگر ادب میں کوئی مقصد ہے تو وہ کیا ہے۔ یہ سوال جتنا اہم ہے اتناہی گمراہ کن ہے۔ اگر ادب کو بالکل زندگی کا مرادف مان لیا جائے تو سب سے پہلے یہ سوال کیا جائےگا کہ خود زندگی کا مقصد کیا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ہم میں سے اکثر بغلیں جھانکنے لگیں گے۔ یہ کہنے سے کام نہیں چلےگا کہ تمام بندگان خداکے لئے بھر پیٹ کھانا اور تن پوشی کے لئے بہترین سامان اور جسمانی آرام و فراغت کے اچھے سے اچھے اسباب و مواقع مہیا کرنا زندگی کا اصلی مقصد ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ صرف انسان ہی نہیں بلکہ تمام حیوانی دنیا کا پہلا مقصد یہی ہے جس کو پورا ہونا ہے۔ لیکن اس مقصد کی بھرپور تکمیل کے بعد کیا ہوگا؟ کم سے کم انسانی دنیا میں زندگی اور اس کا مقصد اس کے بعد بھی باقی رہےگا۔ زندگی آگے بڑھتی رہےگی اور اس کے نت نئے مقصد کی تکمیل ہوتی رہے گی۔ ترقی کی رفتار کہیں رکےگی نہیں۔

    انسان کی زندگی میں ارتقا ایک لامحدود تصور ہے۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ ’’انسان صرف روٹی سے زندہ نہیں رہےگا۔‘‘ اگرچہ روٹی بغیر بھی زندہ رہنا ناممکن ہے۔ روٹی کا پیغمبر مارکس بھی ایک جگہ لکھتا ہے کہ ’’ایک انشا پرداز کو زندہ رہنے اور اپنے کو لکھنے کے قابل بنائے رکھنے کے لئے یقیناً روٹی کمانا ہے، لیکن صرف روٹی کمانے کے لئے اس کو زندہ رکھنا اور لکھنا نہیں چاہئے۔‘‘ اسی سلسلے میں آگے چل کر مارکس کا قول ہے کہ ’’پریس کی پہلی اور اصلی آزادی یہ ہے کہ وہ اپنے کو تجارت یا کاروبار نہ ہونے دے۔‘‘

    حضرات! اول تو انسانی زندگی کی طرح ادب کا مقصد بھی سمت اور تنوع (Dimensioned Variety) دونوں اعتبار سے لامتناہی ہے۔ دوسرے یہ کہ اگرچہ بغیر مقصد کے کسی زمانے میں بھی کوئی ادب پیدا نہیں ہوا ہے (یہ مقصد شعوری ہو یا غیر شعوری) لیکن یہ بھی اپنی جگہ نہایت اہم حقیقت ہے کہ صرف مقصد کا نام کبھی ادب نہیں رہا۔ مقصد میں جب تک ایک تخلیقی مثبت (Creative Plus Sign) کااضافہ نہ ہو، وہ ادب نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ محض واقعہ کی اطلاع یا اخبار کی نامہ نگاری دنیا میں آج تک ادب کا درجہ حاصل نہیں کر سکی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ زندگی کی طرح زندگی کا مقصد بھی کوئی اقلیدس یعنی ٹھہرا ہوا نقطہ نہیں ہے۔ زندگی بھی مائل بہ نمو و ارتقا ہے اور زندگی کا مقصد بھی اور جو بات زندگی کے بارے میں صحیح ہے، ادب کے بارے میں اس سے زیادہ صحیح ہے۔ جب تک موجودمیں ممکن، واقعہ میں تخیل، حال میں مستقبل کا عنصر داخل نہ ہو، ادب وجود میں نہیں آتا۔

    ادب انسان کے جملہ مادی اور غیرمادی موثرات کا نتیجہ ہے اور اس کے تمام عملی اور فکری حرکات و سکنات کا ماحصل۔ اس نقطہ نظر سے اگر دیکھا جائے تو ادب نہ تو خارجی اسباب و حالات سے ماورا ہے، نہ مقصد و غایت سے بے نیاز، لیکن ادب اور اس کے مقصد کے درمیان وہ سطحی اور ظاہری نسبت نہیں ہوتی جو ایک مجوزہ پل یا عمارت کے ’’نیلے خاکے‘‘ (Blue Print) اور اس کے فوری اور براہ راست مقصد کے درمیان ہوتی ہے۔ بے مقصد ادب کا وجود کم سے کم ہماری گردوباد کی دنیا میں کبھی بھی نہیں رہا ہے، لیکن یہ مقصد ادب کے وجود کی اندرونی ترکیب میں مزاح کے طور پر داخل ہوتا ہے، بالکل اسی طرح جس طرح سورج کے وجود کے اندر اس کا مقصد یعنی ہم کو روشنی اور گرمی پہنچانے کا فریضہ ناگزیر اور غیرشعوری طور پر چھپا ہوا ہے۔

    لیکن ذرا سوچئے اگر سورج شعوی طور پر اور غلویا یا مبالغے کے ساتھ اپنا مقصد پورا کرنے پر آمادہ ہو جائے یا ہم مؤکد اصرار کے ساتھ اس سے اس کے مقصد کی انجام دہی کا مطالبہ کرنے لگیں تو ہمارے لئے کتنے بڑے خطرے کا اندیشہ ہے۔ غرض کہ مقصدکی ننگی نمائش کا نام فن یا ادب نہیں ہے۔ بدویت کے دور سے لے کراب تک اگر انسانی ثقافت کا تاریخی مطالعہ کیا جائے تو اس حقیقت کو تسلیم ہی کرنا پڑےگا اور صالح ذہن اس کو مانتے آئے ہیں۔

    مارکس، انگلز اورلینن بھی ادب کو ڈھنڈورا نہیں سمجھتے تھے اور انگلز تو جس کو میں کئی اعتبار سے مارکس کے مقابلے میں بہت زیادہ بالغ اور رچی ہوئی شخصیت مانتا ہوں، ادب کو پروپیگنڈہ سمجھتا ہو یا نہ سمجھتا ہو، لیکن پروپیگنڈے کو ادب نہیں سمجھتا۔ اس نے ایک موقع پر صاف صاف لکھا ہے کہ ’’جتنا ہی زیادہ مصنف کا مقصد چھپا ہوا ہوگا، اتنا ہی زیادہ فنی تخلیق کے حق میں بہتر ہوگا۔‘‘ اسی سلسلے میں وہ فرانس کے مشہور افسانہ نگار بالزک کے شہرہ آفاق کارنامہ (Human Comedy) کی مثال دیتا ہے۔ بالزک کو انگلزبہت بڑا حقیقت نگار (Realist) مانتا تھا اور مارکس بھی بالزک کی عظمت کا قائل تھا۔

    بالزک کے جس افسانے کا ابھی حوالہ دیا گیا ہے اس میں غور سے پڑھنے والے کے لئے ۱۸۱۶ء سے لے کر ۱۸۴۸ء تک فرانس کے سماجی نظام کا گویا سال بہ سال روزنامچہ ہے جس میں بڑی تفصیل کے ساتھ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ فرانس کی نواب شاہی پر ابھرتے ہوئے مہاجنی سماج یا بورژوا طبقہ کا دباؤ کس طرح مسلسل پڑتا رہا، یہاں تک کہ آخرکار فرسودہ نوابی فرانس سے گرد ہوکر اڑ گئی۔ انگلز کا یہ کہنا ہے کہ اس نے جتنا اس ناول سے سیکھا ہے اتنا اس دور کے پیشہ ور مؤرخوں، اقتصادیوں اور احصائیات یعنی اعداد و شمار کے ماہروں سے نہیں سیکھا ہے۔ لیکن بالزک کا ناول فن پہلے ہے اور مقصد بعد کو۔ اس کے فن کی عظمت نے اس کے مقصد کی عظمت کو بڑھایا۔ مقصدکی عظمت نے اس کے فن کی عظمت کو نہیں بڑھایا ہے۔

    میں نے بالزک کے ذکر کو قصداً طوالت دی ہے، اس لئے کہ دنیائے ادب کی تواریخ میں اب تک کوئی ترقی پسند یا غیرترقی پسند شخص یا گروہ ایسا نہیں گزرا جس نے بالزک کی عظمت کو نہ مانا ہو۔ شیکسپئر اور ڈکنس کی عظمت کا راز بھی یہی ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ مارکس کے محبوب ترین ادیب کون تھے؟ وہ جنہوں نے فن کو فن قائم رکھتے ہوئے اپنے دور کی نمائندگی کی۔ یعنی السیکائلیس، ہومر، ورجل، دانتے، شیکسپئر، سروانتینر، گوئٹے، شیلی۔ مارکس، سروالٹر اسکاٹ کے ناولوں کو بھی بڑے شوق وانہماک سے پڑھتا تھا اور ان سے بصیرت حاصل کرتا تھا۔

    حضرات! اگر مقصد ہی ادب یا کسی دوسری صنف فنکاری کا مقصد قرار دے دیا جائے تو آپ کو معلوم ہے کیا ہوگا؟ سافو کی غزلیات اور ہومر کے رزم ناموں سے لے کر اب تک کے ننانوے فیصدی فنی تخلیقات کو فضول اور بیکار سمجھ کر دریابرد کر دینا پڑےگا۔ جیساکہ میں اشارہ کر چکا ہوں، ادب کوئی بے مقصد حرکت نہیں ہے۔ اس کا بھی مقصد ہے اور یہ مقصد نہایت مہتم بالشان ہے۔ ادب انسان کی تہذیب کی علامت اور اس کی ضمانت ہے۔

    ادب کا مقصد یہ ہے کہ اس کے اثر سے انسان بغیر وعظ و تبلیغ کے خودبخود پہلے سے زیادہ مہذب، زیادہ شریف، زیادہ نیک ہوتا جائے، فنکاری بالخصوص ادب انسان کے کردار سے نفس پرستی، خود غرضی، بغض وحسد، کینہ وعناد، مکاری، عیاری دوسروں کو فریب اور سازش کا شکار بنانے کے و حشیانہ اور رکیک میلانات کو سلب کرتا رہت اہے۔ یہی رہا ہے ادب کا مقصد اور یہی ہے اس کا مقدر۔ زندگی بیساختہ فنکاری، جس میں ادب بھی شامل ہے پیدا کرتی رہی ہے اور فنکاری خاموشی اور معصومیت کے ساتھ زندگی کو فروغ دیتی رہی ہے۔ یہی رہی ہے انسانی زندگی کی روز اول سے تاریخ۔

    میں نے مختصر طور پر ادب کی جو تعریف کی ہے اور اس کا مقصد بتایا ہے، معلوم نہیں اس سے آپ لوگوں کو کس حد تک اتفاق ہے۔ لیکن اگر اس کو صحیح مان لیا جائے تو یہ بھی ماننا پڑےگا کہ کچھ عرصے سے دنیا میں اور خاص کر ہمارے ملک میں جو ادب پیدا ہوتا رہا ہے اس کا دسواں حصہ ہی شاید ایسا ہو جس کو اصلی ادب، سچا ادب، کھرا ادب کہا جا سکے۔ کوئی بیس سال سے دنیا میں اور سب سے زیادہ ہمارے ملک میں ادب کے خوردہ فروش یا بساطی (Pedlar and Hawkers) زیادہ پیدا ہو رہے ہیں، ادیب کم۔ یہ کسی ایک جماعت یا گروہ یا دبستان کا حال نہیں ہے۔ ہردبستان، ہر گروہ، ہر جماعت میں ایسے ہی لوگوں کی تعداد غالب ہے۔ ’’لے ادب! لے ادب!‘‘ کی ہانک لگانے کا نام ادب نہیں ہے۔ ’’من قاش فروش دل صدپارہ خویشم‘‘ کا نعرہ لگا کر ہم زیادہ عرصے تک گاہکوں کو دھوکا نہیں دے سکتے اور اگر ہم ایسا کرتے رہیں گے تو ہمارے سردہ یا تربوز کے ٹکڑوں کو بھی کوئی نہیں پوچھےگا اور وہ بھی ہماری ٹوکریوں میں سڑ کر رہ جائیں گے اور اب تو ادب کے بساطی بھی کم نظر آنے لگے ہیں۔ ان کی جگہ ادب کے چوکیداروں نے لے لی ہے جو خواہ مخواہ شور مچاکر بےخطرہ کا خطرہ پیدا کئے ہوئے ہیں۔

    حضرات! نہ اس کا موقع ہے نہ اتنی مہلت کہ اس سے زیادہ کھل کر باتیں کی جائیں۔ میں نے اپنے خیال میں واضح اشارے کر دیے ہیں کہ ادب اور اس کی غایت کیا ہے۔ میں نے ادب کے بارے میں جو کچھ کہا ہے اس کے یہ معنی نہیں کہ زندگی کے اور جو مطالبات ہیں، ادب ان کو خاطر میں نہیں لاتا یا ان کو رد کرتا ہے۔ ادب زندگی کے تمام مادی اور غیرمادی حوائج اور مطالبات کا خیرمقدم کرتا ہے اور اپنے طور پر نہ صرف ان کی تائید کرتا ہے بلکہ ان کی تکمیل وتشفی میں خود مددگار ہوتا ہے۔ لیکن سب سے بڑا سوال ’’طور‘‘ یاانداز کا ہے۔ یہی طور یا اندازادب کی جان ہے۔ ادب خود اپنی ایک شریعت رکھتا ہے۔ وہ زندگی کے دوسرے شعبوں کے وقت بہ وقت بدلتے ہوئے ضابطوں کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی میکانکی رہنمائی قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اس لئے کہ ادب خودزندگی اور زندگی کے ہر شعبہ کا رہنما ہے۔

    ادب کے بارے میں اپنی رائے کے برے بھلے اظہار کر چکنے کے بعد اب میں اس ادبی انجمن کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ اس کے قوانین و ضوابط اور اغراض و مقاصد آپ کے سامنے آ چکے ہیں اور آپ سب بلاکسی اختلافی آواز کے ان کو منظور کر چکے ہیں، لیکن اس دستوری کارروائی سے برطرف ہوکر مجھے اس انجمن کے بارے میں کچھ کہنا ہے۔ کم وبیش دس مہینے سے اس انجمن کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے اور علی گڑھ ہی میں نہیں بلکہ باہر بھی دس بارہ سال سے شدت کے ساتھ لوگ محسوس کر رہے ہیں کہ کوئی ایسا متحدہ ادبی محاذ قائم ہو جس میں ہر فکری دبستان اور ہرنظری اور عملی مدرسے کے لوگ مل کر تبادلہ خیالات کر سکیں، جو ہماری آئندہ زندگی میں شمع راہ بن سکے۔

    ہم میں سے سبھی کو احساس ہو چکا ہے کہ ہم کچھ بھٹکے بھٹکے سے ہیں اور اگر اسی طرح بھٹکتے رہ گئے تو ہمارا خدا ہی حافظ ہے۔ بہرحال جس احساس کے زیر اثریہ انجمن وجود میں آئی ہے وہ کم و بیش ہم سب کے دلوں میں موجود ہے اور اس کی ایک خوش آئند علامت یہ ہے کہ جب اس انجمن کی پہلی ملاقات میں اس کے اغراض و مقاصد اور اس کے نصاب اور دستورعمل کا خاکہ ہم لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا تو سب نے بالاجماع اس کو منظور کر لیا۔ میں واقعی اس کو بڑی اچھی بات سمجھتا ہوں۔ یہ ہمارے دلوں کی فطری اور اصلی آواز ہے۔

    اس ادبی انجمن کا اولین مقصد یہ ہے کہ مختلف خیالات کے لوگ اکٹھا ہوں اور اپنے اپنے خیالات کو سچائی کے ساتھ ظاہر کریں۔ دوسروں کے خیالات کو صداقت اور شرافت نفس کے ساتھ سنیں اور سمجھیں اور ان کی روشنی میں بغیر کسی قسم کے ذاتی یا جماعتی تعصب کے، خود اپنے نقطہ نظر میں دیانتداری کے ساتھ ترمیم یا اضافہ کریں۔ اختلاف زندگی اور ادب دونوں میں بڑی فطری اور لازمی چیز ہے جو صحت اور ترقی کی ضمانت ہے، لیکن اختلاف کو مخالفت نہ ہونے دینا چاہئے۔

    مادیت اور تصوریت، جسمانیت اور روحانیت کی فضول بحث کو کنارے کرکے ایک بات یاد رکھئے۔ زندگی کا راز جدلیت ہے، یعنی مقابلہ اور پیکار۔ تضاد اور تصادم زندگی کے فروغ کی دلیل ہے۔ یہ صرف ہیگل اور مارکس کا خیال نہیں ہے۔ دوسروں کو بھی ہستی کی اس اصلیت کی جھلکیاں نظر آتی رہی ہیں۔ انگریزی کا مشہور شاعر بلیک بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ کر گیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ’’اضداد کے بغیر ترقی نہیں ہو سکتی۔‘‘ اگر یہ صحیح ہے تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ اختلافات برحق ہیں۔ ہم کو ان کا فراخ دلی اور نیک نیتی کے ساتھ استقبال کرنا چاہئے اور ان سے زندگی میں تہذیب و تحسین میں مدد لینا چاہئے۔

    یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ وہ اتفاق رائے زیادہ جاندار اور پائدار ہوتا ہے جو سچے اور صحت مند اختلاف سے پیدا ہوتا ہے، اس اختلاف سے جس کواب سے تیرہ سو برس پہلے بھی امت کے لئے رحمت بتایا گیا تھا، لیکن میں پھر کہوں گا کہ اختلاف کے معنی مخالفت نہیں ہیں۔ اختلاف کا مقصد تصحیح اور ترکیب جدید ہے۔

    میں نے اس گفتگو کی ابتدا ادب کی سرسری تعریف سے کی تھی۔ چلتے چلتے اس سلسلے میں ایک بات ذہن میں آ گئی۔ وہ بھی سن لیجئے۔ ممکن ہے نفس مطلب سمجھنے میں اس سے کچھ مزید مدد ملے۔ اس وقت میرے دھیان میں تین الفاظ ہیں جو ادب کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ ان میں سے دو الفاظ تو ادب کے مواد اور اس کی اندرونی ترکیب کی طرف اشارہ کرتے ہیں لیکن تیسرا لفظ اس کی ظاہری حیثیت پر زور دیتاہے۔ پہلا لفظ تو وہی ہے جو اس وقت ہم بول رہے ہیں اور جو عربی، فارسی اور اردو میں رائج ہے یعنی ادب۔ دوسرا لفظ ساہتیہ ہے جو سنسکرت اور ہندی میں ادب کے لئے استعمال ہوتا آیا ہے۔

    ادب اور ساہتیہ دونوں کے اصلی معنی اجتماعی اور مجلسی شعور کے اظہار کے ہیں۔ ادب صداقت اور شرافت کے ساتھ ہل مل کر رہنے کا سلیقہ سکھاتا ہے، بلکہ وہ اسی سلیقے کی پہچان ہے۔ تیسرا لفظ انگریزی کا ہے یعنی لٹریچر۔ لٹریچر جس مادہ سے نکلا ہے اس کے معنی لکھے ہوئے حرف کے ہیں۔ لٹریچر ادب کے ظاہری اور خارجی روپ کو واضح کرتا ہے۔ ادب بولا ہوا لفظ نہیں ہے لکھا ہوا لفظ ہے۔

    اس لئے جب بعض دوستوں نے مجھ سے فرمائش کی کہ میں اپنی باتیں لکھ ڈالوں اور آج کی صحبت میں پڑھ کر سناؤں تو باوجود اس کے کہ مجھے اب لکھنے پڑھنے کی فرصت نہیں، میں خوش ہوا۔ ممکن ہے کہ آپ لوگوں میں سے کوئی سوال کرے کہ کیا فن تحریر کے وجود میں آنے سے پہلے ادب نہیں تھا۔ تو جواب یہ ہے کہ ’’تھا۔‘‘ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ’’ادب لکھا ہوا لفظ ہے‘‘ تو ہمارا مقصد یہ ہے کہ ادب وہ لفظ ہے جو محفوظ رہنے کی قابلت رکھتا ہو اور محفوظ رہ سکے۔ چاہے لوگوں کے دلوں میں، چاہے پتھر پر، چاہے بھوج پترپر، چاہے آج کل کے کاغذ پر اور جو لفظ محفوظ نہ رہ سکے وہ ادب نہیں ہے اور چونکہ اب لفظ کو محفوظ رکھنے کی بہترین اور سب سے زیادہ آسان صورت اس کو لکھ ڈالنا ہے، اس لئے اگر یہ کہا جائے کہ ادب لکھا ہوا لفظ ہے توبہت صحیح بات ہوگی، اگرچہ یہ بھی کچھ کم صحیح بات نہیں ہے کہ ہر لکھا ہوا لفظ ادب نہیں ہوتا۔

    حضرات! اس وقت کہنے کے لائق یا نہ کہنے کے لائق جتنی باتیں مجھے کہنا تھیں، کہہ چکا ہوں اور جہاں تک میں سمجھ سکتا ہوں، ان میں کوئی بات ایسی بات نہیں جو سوال آفریں یا جواب طلب ہو۔ یہ اس اثر یا اس احساس کا بے دریغ اظہار ہے جو گزشتہ بارہ سال سے میرے ذہن پر چھایا ہوا ہے۔ لیکن ہو سکتا ہے کچھ لوگوں کے دلوں میں کچھ سوالات اٹھ رہے ہوں۔ سو اس بارے میں میری کچھ گزارش ہے۔ ایسے کم میعاد موقعوں پر صرف سوال وجواب تشفی بخش نہیں ہو سکتے، نہ سوال کرنے والا اپنے مافی الضمیر کو اچھی طرح واضح کر پاتا ہے، نہ جواب دینے والا سائل کی بھرپور تسکین کر سکتا۔

    دوسرے سوال و جواب میں اکثر اس کا امکان رہتا ہے کہ محض تو میں میں ہو کر رہ جائے اور ہم کسی وقیع اور سنجیدہ نتیجہ پر نہ پہنچ سکیں۔ اس لئے میری تجویز یہ ہے کہ میں اپنا نقطہ نظر پیش کر چکا۔ اب اگر دوسرے حضرات بھی چاہیں تو آکر اپنے اپنے خیالات کی وضاحت کریں۔ اہل انجمن کے سامنے ہم سب کے خیالات ہوں گے اور موازنہ اور مقابلے کے بعد وہ خود کسی صحیح اور معقول نتیجہ پر پہنچ سکیں گے۔ بلکہ میری رائے میں اب اس انجمن کا پروگرام یہ ہونا چاہئے کہ وہ کسی ایک شخص کے سپرد کرے کہ کسی ادبی مسئلہ یا اس کے کسی رخ پر ایک صحبت میں اپنا خیال لکھ کر واضح طور پر پیش کرے، پھر کسی دوسری صحبت میں کوئی دوسرا شخص یا کئی دوسرے اشخاص پہلی صحبت کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے اپنے خیالات کو تحریری طور پر ہمارے سامنے لائیں۔

    اس طرح ہم نے ابھی ادب کے ظاہری روپ کے بارے میں جو کچھ کہا ہے اس کی لاج بھی رہ جائےگی اور بہت جلد مختلف ادبی مسائل پر مختلف زاویوں سے مختلف خیالات کا اچھا خاصا ذخیرہ جمع ہو جائےگا، جس کی اشاعت بڑی مفید ہو سکتی ہے، پھر بیکن کا یہ قول یاد رکھئے۔

    Writing Maketh an exact man. (لکھنا آدمی کو سنجیدہ یا جنچا تلا بناتا ہے)

    لیکن میں پھر کہوں گا کہ اختلاف اور مخالفت میں فرق ہے اور ادبی انجمن، ادبی انجمن ہے کوئی اکھاڑا نہیں ہے۔

    (یہ خطبہ ادبی انجمن، علی گڑھ کے جلسے میں پڑھا گیا)

    مأخذ:

    ادب اور زندگی (Pg. 34)

    • مصنف: مجنوں گورکھپوری
      • ناشر: اردو گھر، علی گڑھ
      • سن اشاعت: 1984

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے