Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ادب کا مادی تصور

سیداحتشام حسین

ادب کا مادی تصور

سیداحتشام حسین

MORE BYسیداحتشام حسین

    ادب اور فنون لطیفہ کی دوسری شکلوں کا خواب کثرت تعبیر سے ہمیشہ پریشان رہا ہے۔ کسی قسم کی مادی بنیاد کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے شعروادب کی دنیا اکثر وبیشتر خواب وخیال کی دنیا سمجھی گئی جس کی نہ تو راہیں متعین ہیں اور نہ سمت مقرر ہے، یعنی ادیب اپنے جذبات اور خیالات کے اظہار کے لئے آزاد ہے اور کوئی ضرورت نہیں کہ ہم اس کے جذبات اور خیالات کی بنیاد وں کی جستجو کرکے اسے کسی قسم کا مشورہ دیں کیونکہ خیالات کی غیر مادی نوعیت اور جذبات کے بے روک بہاؤ سے الجھنا کوئی معنی نہیں رکھتا، لیکن خیالات کی یہ رفتار بہت دنوں تک قائم نہ رہ سکی۔

    تاریخ اور سماج کے مطالعہ نے بتایا کہ خیالات اور ان کے فنی مظاہر بھی انسان کی مادی زندگی کے عروج و زوال سے تعلق رکھتے ہیں اور انسان جس طرح کا سماجی اور معاشی نظام رکھتا ہے، اسی کے مطابق اس کے خیالات اور شعور کا ارتقا ہوتا ہے۔ اس تاریخی حقیقت نے اس فلسفیا نہ اصول کی طرف رہنمائی کی کہ انسان کا مادی وجود اس کے شعور کا تعین کرتا ہے، دوسرے لفظوں میں ا س کا مطلب یہ ہے کہ ذہن حقیقتوں کا خالق نہیں ہے بلکہ مادی حقائق خود ذہن کی تخلیق کرتے ہیں اور انسانی ذہن سے باہر ان کا ایک مادی وجود ہوتا ہے۔

    اس اصول کو پیش نظر رکھ کر دیکھیں تو ہمیں تسلیم کرنا پڑےگا کہ ادیب کے تخلیقی کا رنامے ان حقیقتوں کا عکس ہوتے ہیں جو سماج میں پائی جاتی ہیں، ہو سکتا ہے کہ کوئی ادیب اس فلسفے سے واقف نہ ہو لیکن پھر بھی اس کی تخلیق میں وہ حقیقتیں کسی نہ کسی شکل میں نمایا ہوں گی جو اس کے گرد وپیش ہیں، جو اس کے ذہن کی تشکیل کرتی ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو خیال اور شعور کی حیثیت بھی مادی ہو جاتی ہے اور جب ادب کے مادی تصور پر غور کیا جائےگا تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ ادب میں جن جذبات، خیالات اور تجربات کا اظہار کیا گیا ہے ان کے مادی اور سماجی پس منظر کو پیش نظر رکھا جائے تاکہ حقایق کی اصل بنیاد کا علم ہو سکے۔ بعض لوگوں کے خیال میں یہ ایک مفروضہ ہے۔ اگر اسے ایک مفروضہ بھی مان لیں تو نقصان نہیں ہوتا کیونکہ سماجی تاریخ، تغیرات کی بنیاد کو اس طرح واضح کر دیتی ہے کہ مفروضہ حقیقت بن جاتا ہے۔ انسانی افکاروخیالات کی تاریخ اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔

    ادیب کے گردوپیش کی دنیا، اس کا حسن اور اس کی بدصورتی، اس کی کش مکش اور اس کا الجھاؤ، اس میں بسنے والوں کی امیدیں اور مایوسیاں، خواب اور امنگیں، رنگ اور روپ، بہار اور خزاں اس کے موضوع بنتے ہیں اور مختلف تاریخی ادوار میں انسانی جذبات سے ان کا تعلق یکساں نہیں ہوتا بلکہ انسان کی معاشی زندگی اور اس کی پیحیدگیوں کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور کا ادب اپنا مخصوص رنگ رکھتا ہے، جس طرح ہر دور کا شعور اپنی مخصوص ہیئت رکھتا ہے، یہی نہیں بلکہ ہر ادیب کے شعور کے مطابق ایک ہی دور کے ادبی کارناموں میں فرق پایا جاتا ہے۔ اس طرح ایک بات اور واضح ہو جاتی ہے، معاشی زندگی اور طریق پیداوار، مادی ارتقاء اور ادبی شعور میں تعلق تو لازمی طور پر ہوتا ہے لیکن یہ تعلق ایک سیدھی لکیر کی طرح واضح اور متعین نہیں ہوتا۔ اس تعلق کو تلاش کرنے کے لئے کسی ملک، قوم یا دور کے معاشی ڈھانچے اور اس ڈھانچے پر بننے والی زندگی اور اس کی تاریخ کو بڑی گہری نظر سے دیکھنا چاہئے۔

    اسی کے ساتھ الگ الگ ہر ادیب کے شعور کا مطالعہ بھی اس نظر سے کرنا ہوگا کہ اس کا تعلق سماجی ارتقاء کے ساتھ کس قسم کا ہے۔ فلسفہ مادّیت کے بعض مبلغوں نے اس مسئلے کو خالص میکانکی نظر سے دیکھا ہے اور اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا ہے کہ مادّی حالات انسان پر اثر انداز ہوتے ہیں لیکن صرف انفعالی طور پر نہیں بلکہ انسان خود سماج اور فطرت کے خلاف جدوجہد کرکے مادی حالات میں تغیر پیدا کرتا ہے اور حالات بدلنے کے دوران میں خود بھی بدل جاتا ہے۔ یہ عمل میکانکی طور پر اثر قبول کرنے سے بالکل مختلف ہے۔ ایک صورت میں انسان بالکل بے اختیار نظر آتا ہے، دوسری صورت میں باشعور اور صاحب اقتدار دکھائی دیتا ہے۔

    ادب کی سماجی اہمیت اس وقت تک سمجھ میں نہیں آ سکتی جب تک ہم ادیب کو باشعور نہ مانیں۔ اس لئے ادب کا مادی تصور سب سے پہلے اس حقیقت پر زور دیتا ہے کہ ادب انسانی شعور کی وہ تخلیق ہے کہ جس میں ادیب اپنے ذہن سے باہر کے مادی اور خارجی حقائق کا عکس مختلف شکلوں میں فنی قیود اور جمالیاتی تقاضوں کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ عکس فوٹوگراف کی طرح ساکن یا بنا بنایا نہیں ہوتا بلکہ متحرک حقیقتوں کا متحرک عکس ہوتا ہے۔

    اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی مخصوص دور کے ذرائع پیداوار اور اس دور کے ادب یافنون لطیفہ کا رشتہ کس طرح ظاہر ہوتا ہے، اس کو واضح ہونا چاہئے۔ اگر ہم اس کو مثال سے سمجھانا چاہیں تو اس کی ایک اچھی مثال ابتدائی سماج میں مل سکتی ہے، جہاں سماج پیچیدہ نہیں تھا، ذرایع پیداوار سیدھے سادے تھے۔ ایک ساتھ مل جل کر کام کرنے میں ابتدائی انسان کو اندازہ ہوا کہ ایک آہنگ کے ساتھ کام کرنے، مخصوص قسم کی آوازیں نکالنے اور جسم کو ایک خاص طرح حرکت دینے میں کام جلد بھی ہوتا ہے، تھکن بھی کم ہوتی ہے اور اچھا بھی معلوم ہوتا ہے۔ اس لئے ان حرکات و سکنات، آوازوں اور بولیوں کو انھوں نے اپنے کام کے طریقوں اور ذہنی تفریح کے ذریعوں سے وابستہ کر لیا، یہی زبان، رقص، موسیقی اور شاعری کی بھدی مگر فطری ابتدا تھی جس کا تعلق براہ راست پیداوار کے ذرایع سے تھا۔ سماج اور ذرایع پیداوار میں جتنی پیچیدگی بڑھتی گئی فنون لطیفہ اور ادب سے ان کا تعلق بھی پیچیدہ ہوتا گیا۔

    اس سلسلہ میں ایک اور بات یاد رکھنا ضروری ہے۔ ذرایع پیداوار اور ادب کے رشتہ کو تسلیم کرتے ہوئے یہ ماننا غلط ہوگا کہ دونوں کے زوال یا ارتقا کی سطح بھی یکساں اور متناسب ہوگی۔ کسی ملک کی تاریخ دیکھی جائے تو معلوم ہو جائےگا کہ معمولی سماجی ارتقاء کے عہد میں بھی اعلیٰ ادب پیدا ہوا ہے۔ یونان نے غلامی کے عہد میں افلاطونؔ، ارسطوؔ، ایس کائیؔ لس اور یوروپیڈیز ہی کو نہیں ہو مرؔ کو بھی جنم دیا۔ یہ سمجھنا بھی درست نہ ہوگا کہ ایک عہد کا ادب اسی عہد کی ساتھ ختم ہو جاتا ہے اور نئے عہد میں م اضی سے سارے رشتے توڑ کر نیا ادب سر ابھارتا ہے۔ اس کی ایک کھلی ہوئی وجہ تو یہ ہے کہ ایک عہد کے پیداواری رشتے دوسرے عہد کی انقلابی منزل میں داخل ہوتے ہوتے بہت سی عبوری اور ارتقائی منزلوں سے گزرتے ہیں اور انسانی ذہن جب تک پوری شعوری کوشش سے تغیر کی کش مکش کو نہ سمجھے، ایک دور کا دوسرے دور سے الگ کرنا اس کے لئے دشوار ہو جاتا ہے۔ کسی عہد کے تمام ادیب شعور کی ایک ہی سطح پر نہیں ہو سکتے۔ ذہنوں پر خاندانی، طبقا تی اور سماجی ورثوں کا بوجھ ہوتا ہے، جسے زندگی کی کشمکش کو سمجھے بغیر اتار پھینکنا تقریباً نا ممکن ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ جب ایک دفعہ ادبی روایتیں جڑ پکڑ لیتی ہیں تو آسانی سے ختم نہیں ہوتیں اور معاشی ڈھانچے کے بدل جانے کے بعد بھی باقی رہتی ہیں۔

    جو لوگ ادب کی ترجمانی پر الزام لگاتے ہیں کہ اس طرح ادب کو ادب کے نقطۂ نظر سے دیکھنے سے محض معاشی تغیرات یا طریق پیداوار میں تبدیلی ہو جانے والے اثرات کے ماتحت دیکھا جاتا ہے، وہ درحقیقت اس رشتے کے مفہوم کو نہیں سمجھتے۔ اصل بات یہ ہے کہ مادی حقائق زبان، اسلوب، انداز بیان اور محسوسات کے اتنے دائروں سے گزر کر ادبی پیکر اختیار کرتے ہیں کہ انھیں نیچرل سائنس کی سطح پر رکھ کر نتائج نہیں نکالے جا سکتے۔ یہ بالکل صحیح ہے کہ گو ادب کی تخلیق میں ادیب کا وہی دماغ اور وہی شعور سرگرم عمل رہتا ہے جس کی تعمیروتشکیل مادی معاشی حالات سے ہوئی ہو، لیکن دوسرے اثرات بھی اپنا عکس چھوڑتے رہتے ہیں۔

    جس مادی فلسفہ کے نقطۂ نظر سے اس وقت تک کی گفتگو کی گئی ہے اس نے اس پر بھی زور دیا ہے کہ ادب کے مطالعہ کے لئے جو جمالیاتی انداز نظر اختیار کیا جاتا ہے وہ مادی نظام کا آفریدہ ہوتا ہے، جو طریق پیدا وار سے وجود میں آتا ہے۔ اس سے وہ عناصر جو بظاہر معاشی اسباب سے بے تعلق نظر آئیں گے اور مذہبی، فلسفیانہ، تہذیبی یا ادبی روپ اختیار کرکے ادبی تخلیق میں کارفرما ہوں گے، ان کو بھی انھیں مادی حقایق کا جزو قرار دینا ہوگا۔ جمالیاتی احساس میں خود اس مادی وجود کے دائرے کے باہر نہ جا سکےگا جو موجود ہے۔ ہاں اس وقت البتہ اس میں تبدیلی ہوگی جب واقعی زندگی کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی ہوگی یا تبدیلی کی ضرورت کا احساس ہوگا۔

    یہاں پہونچ کر اس بات کو واضح طور پر سمجھ لینا چاہئے کہ علمی حیثیت مادی نظر کا پتہ یونانی فلسفیوں ہی کے زمانے سے چلتا ہے، کیونکہ اگر ایک طرف افلاطون حقیقیت کی جستجو مادی زندگی کے ماوراء کسی اندیکھی دنیامیں کرتا تھا تو ڈیماکریٹس مادی طور پر سبب اور نتیجہ کے تعلق پر زور دیتا تھا، کسی نہ کسی شکل میں عینیت اور مادیت میں یہ کشمکش اس وقت تک چلی آ رہی ہے اور بھیس بدل بدل کر مختلف فلسفیا نہ سماجی اور ادبی تحریکوں میں ظاہر ہوتی رہتی ہے لیکن جس فلسفہ نے مکمل طور پر دونوں کو الگ کر دیا تھا، اور تغیر کا ایسا مادی اور سائنٹفک نظریہ پیش کیا جس سے ہر جگہ ان کی شکلیں پہچانی جا سکیں، وہ مارکسزم ہے۔ اس وقت تک جس مادی نقطۂ نظر کا ذکر کیا گیا ہے وہ کم وبیش اسی پر مبنی ہے۔

    اس فلسفے کے بانیوں اور مبلغوں نے اس کو سماج کے سبھی مظاہر پر منطبق کرکے دیکھا ہے اور خاص کر ادب کی مادی بنیادوں کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لئے جب کبھی ادب کے مادی تصور پر غور کرنے کی ضرورت ہوگی تو اسی فلسفہ کے اصولوں کو سامنے رکھنا ہوگا کیونکہ دوسرے مادی اور عمرانی فلسفے تغیر کے تمام پہلوؤں کو ایک ساتھ حرکت کرتے ہوئے نہیں دیکھتے۔

    بہر حال ادب چونکہ بظاہر ایک فرد کے ذہن سے نکلا ہوا کا رنامہ معلوم ہوتا ہے، اس لئے عام طور پر لوگ اس کی مادی حیثیت پر غور کرتے ہوئے الجھن محسوس کرتے ہیں۔ ان کے دل میں اس طرح کے سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ جب ادب فرد کے خیالات کا نتیجہ ہے تو اس میں اجتماعی سماجی حقائق کی جستجو کرنا کہاں تک درست ہوگا؟ کیا فرد اور سماج میں تصادم نہیں ہے؟ کیا یہ ضروری ہے کہ فرد سماجی زندگی کا پابند ہو؟ تصورپرست اور انفرادیت پسند فلسفیوں اور مفکروں نے طرح طرح کے سوالات پیدا کئے ہیں اور مادی نقطۂ نظر پر یہی اعتراض کیا ہے کہ اس میں فرد اور شخصیت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یہ اعتراض بھی بے بنیاد ہے کیونکہ فرد کو سماج کے باہر ایک وحدت سمجھ کر اس اس کے خیالات اور تجربات کو سمجھنے کی کوشش بے سود ہوگی۔

    خیالات انسانی ذہن میں خارجی ور مادی حقیقتوں کے عکس کی حیثیت سے نمودار ہوتے ہیں جنھیں انسان کا شعور یا تو خواہشوں سے ہم آہنگ پاتا ہے یا مخالف یا کسی قدر ہم آہنگ پاتا ہے۔ اور کسی قدر مخالف، انھیں قبول کرتا ہے یا رد، اور یہ عمل کسی نہ کسی قسم کے جذبے اور ذہنی یا مادی سکون کے لئے ہوتا ہے۔ کم سے کم ایک نار مل انسان یہی کرتا ہے اور اس طرح اس سماجی دائرہ میں آ جاتا ہے جس میں اسی کی طرح کے اور انسان بستے سوچتے اور عمل کرتے ہیں اور اس کا رشتہ اپنے طبقے سے مثبت یا منفی شکل میں قائم ہو جاتا ہے۔ مادی فلسفہ میں تو انسان ہی سب کچھ ہے۔ اسے کسی حالت میں نظر انداز کیا ہی نہیں جا سکتا۔ ہاں اس میں کسی ایسے انسان کا تصور البتہ نہیں کیا جا سکتا، جو کسی خاندان، گروہ، طبقہ یا سماج سے تعلق ہی نہ رکھتا ہو۔ چونکہ یہ سارے رشتے معاشی اور سماجی ہیں، اس لئے ہر ادیب کو بھی اسی کسوٹی پر پرکھنا پڑتا ہے اور اس کے تخلیقی کارناموں کو زیادہ سے زیادہ خیالی ماننے کے بعد بھی اسے ان سماجی رشتوں سے باہر سمجھنا ناممکن ہو جاتا ہے۔

    یہاں اس بات کی وضاحت غیر ضروری معلوم ہوتی ہے کہ مکمل اشترا کی سماج کے علاوہ ہر سماج اپنے ذرایع پیداوار کے لحاظ سے طبقوں میں بٹا ہوا ہوتا ہے اور عام طور پر ہر شخص کا ذہن اس کے طبقاتی مفاد سے وابستہ ہوتا ہے لیکن یہ کوئی لازمی بات نہیں ہے۔ انسان اپنی شعوری کوشش سے اپنے طبقاتی تصورات چھوڑ سکتا ہے۔ ایسی حالت میں اس کا طبقہ وہ طبقہ ہو جائےگا جس کے مفاد کے لئے وہ جدوجہد کرتا ہے اور چونکہ ذرایع پیداوار پر قبضہ رکھنے والوں اور محروموں میں اپنے حقوق اور مفاد کے لئے کش مکش جاری رہتی ہے، اس لئے عام طور سے یہ بات تسلیم کر لی جاتی ہے کہ کسی نہ کسی شکل میں ادیب کے شعور نے بھی اس کش مکش کو اپنے ادب پارے میں پیش کیا ہوگا۔

    ادیب اگر طبقاتی شعور نہ رکھتا ہوگا تو اس کا اظہار بھی بہت واضح شکل میں نہ ہوگا، کیونکہ مادی فلسفہ لا شعور کی اہمیت کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس لئے محض معمولی حد تک ادیب کے لاشعوری عمل کو پیش نظر رکھتا ہے۔ تحلیل نفسی میں اسے جو اہمیت حاصل ہے وہ مادی فلسفہ کی ضد ہے اور انسانی فطرت کو ایک ناقابل حل معمہ بنا دیتی ہے جو محض جبلتوں کے سہارے عمل اور زندگی کی منزلیں طے کرتی ہے۔

    ادیب کی طبقاتی نوعیت ہی کے سلسلہ میں یہ بحث بھی اٹھتی ہے کہ ماضی کے اعلیٰ ادیبوں کے تخلیقی کارناموں پر کس طرح نگاہ ڈالنا چاہئے، کیا ادیب کی طبقاتی نفسیات اسے بالکل مجبور کرتی ہے کہ وہ ہر حقیقت کو اسی طرح دیکھے یا وہ خارجی مادی حقائق کی تصویر کشی اپنے شعور کی سطح کے مطابق کرتا ہے؟ اس سوال کے جواب پر کئی باتوں کا دارومدار ہے۔ اگر ادیب محض اپنے طبقے کی نفسیات پیش کرنے پر مجبور ہے تو پھر سماج میں اس کی ذمہ داری کا بھی کوئی سوال پیدا نہ ہوگا اور ادیب صرف طبقاتی نہیں، ایک طرح کے روحانی جبر کا بھی شکار ہوگا۔ اگر ہم اسے صحیح تسلیم کر لیں تو ماحول اور ادب کا یہ تعلق پھر ایک میکانکی شکل پیش کرتا ہے جس میں ادیب ایک مجہول حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔

    ادب کا مادی تصور ادیب سے ہر دور کے حقائق کی روشنی میں واقعات کو اس طرح پیش کرنے کا مطالبہ کرتا ہے کہ اس دور کی (یا جس دور کی وہ ترجمانی کرتا ہے) ساری تہذیبی کش مکش نگا ہوں کے سامنے آ جائے اور یہ محسوس ہو کہ ادیب نے اپنی طبقاتی تنگ نظری سے بلند ہوکر زیادہ سے زیادہ مکمل حقیقت کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ماضی کا ادب اسی طرح حال کا تہذیبی ورثہ بنتا ہے۔ موجودہ ادب، فنون لطیفہ اور تہذیب اسی وقت مفید اور اعلیٰ بن سکتے ہیں جب انھیں ماضی کے سہارے انسانی سرمائے سے فیض حاصل کرنے کا موقع ملا ہو۔ اچھے فن کاروں نے ہر دور میں طبقاتی حدبندی کے طلسم توڑ کر عام انسانوں کے دلوں کی آرزوئیں حسین الفاظ اور رنگین پیکروں میں پیش کی ہیں اور اس طرح انسانی سرمایۂ تہذیب میں اضافہ ہوتا رہا ہے، اسی وجہ سے مادیت پسند فلسفی اور مفکر ادیبوں سے اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے ذہن کی گرمی اور قلم کی طاقت کو محنت کش عوام کی ترجمانی اور خدمت کے لئے وقف کر دیں۔

    جو لوگ اپنے طبقاتی مفاد یا ذہنی کج روی کی وجہ سے اس نقطۂ نظر کے مخالف ادیبوں سے ’’خالص ادب‘‘ کا مطالبہ کرتے ہیں، اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ ناممکن بات کا مطالبہ ہے کیونکہ ادب کا موضوع جیسے ہی انسان بنتا ہے وہ کسی نہ کسی نقطۂ نظر کا ترجمان بھی بن جاتا ہے۔ ادیب لاکھ غیر جانبدار رہنے کی کوشش کرے، اس کے کردار، اس کا موضوع، اس کے خیالات کسی نہ کسی قسم کی جابنداری کا پتہ ضرور دیتے ہیں اور پروپیگنڈے سے بچنے کے دھوکے میں وہ بعض دوسری باتوں کا پروپیگنڈہ کرنے لگتا ہے۔ فلسفہ مادیت سے متاثر ادیب شعوری طور پر جانبدار ہوتا ہے۔ یہ جانب داری سیاسی، سماجی، تہذیبی، فلسفیا نہ کسی شکل میں بھی نمودار ہو سکتی ہے۔ وہ جابنداری سے ڈرتا یا شرمندہ بھی نہیں ہوتا کیونکہ وہ کسی قسم کی نا انصافی، ظلم، انسان دشمنی، مایوسی، بدصورتی یا تنگ نظری کا ترجمان یا نمائندہ نہیں ہے بلکہ ان قدروں کی اشاعت کر رہا ہے جو عام انسانی مسرتوں میں اضافہ کرتی ہیں۔

    اوپر کی سطروں میں فلسفۂ مادیت کے جمالیاتی نقطۂ نظر کی طرف اشارہ کیا جا چکا ہے۔ فطرت میں حسن، انسان میں حسن اور زندگی میں حسن کا اندازہ انسان نے اپنی عملی زندگی میں مسرت کے اضافہ کے لحاظ سے کیا ہے۔ اس کے دل میں جو احساس پیدا ہوتا ہے وہ خارجی حقائق کے شعور اور ادراک کا نتیجہ ہے جسے انفرادیت سے گزر کر اجتماعی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ موضوع اور مواد کا تعلق، اسلوب، ہیئت اور فنی خصوصیات سے کیا ہے، اس کو بھی اسی نظر سے دیکھنا چاہئے۔ فنی خصوصیات کا ارتقا بھی موضوع کا صحیح اور زیادہ سے زیادہ پر اثر شعور حاصل کرنے کے سلسلے میں ہوا ہے اور دونوں کا مطالعہ ایک ساتھ کیا جا سکتا ہے، اس طرح ادب کا مادی تصور ہر ادبی مسئلے کا جائزہ لیتا اور ادب کو انسانی سماج اور تہذیب میں وہ جگہ دلاتا ہے جس کا تعلق اس انسانی شعور سے ہے جو سماجی، معاشی اور طبقاتی ارتقاء سے وجود میں آیا ہے اور سماجی رشتوں کے بدلنے سے بدل سکتا ہے۔

    نقطۂ نظر کے تسلیم کر لینے سے سب سے اہم نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ ادیب سماجی اور تہذیبی ارتقاء کی کش مکش اور تعمیروتشکیل حیات کی جدوجہد میں ایک ذمہ دار، باشعور اور حساس فرد کی حیثیت سے شریک ہوتا ہوا معلوم ہوتا ہے جس کی کاوشیں سیاسی، سماجی اور سائنٹفک کام کرنے والوں کی طرح اہم ہوتی ہیں۔

    اس ساری بحث سے جو ادبی اور تنقیدی نقطۂ نظر وجود میں آتا ہے، اور ادبی تخلیق اور تنقید دونوں کے لئے ایک اصول کی حیثیت سے کام میں لایا جاتا ہے، اسے ’’اشترا کی حقیقت پسندی‘‘ یا’’سماجی حقیقت نگاری‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ فنی اظہار کا یہ اصول ہر فن کار کی رہنمائی کر سکتا ہے۔ حقیقت نگاری کی مختلف تعبیریں پیش کی گئی ہیں جن سے مختلف اور بعض اوقات متضاد نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ اس حقیقت پسندی کو جو مادی تصور تاریخ سے پیدا ہوتی ہے، اور دسری طرح کی حقیقت نگاریوں سے الگ اور ممتاز کرنے کے لئے اشترا کی یا سماجی کی تحدید ضروری قرار پائی۔ اس اندازِ نظریا اصول کا مطالبہ یہ ہے کہ فن کار کو حقیقت کا ادراک اس طرح کرنا چاہئے کہ حقیقت اپنی ارتقائی اور انقلابی شکل میں تمام تاریخی اور مادی پہلوؤں کو نگاہ میں رکھتے ہوئے اس کے فن میں متشکل ہو۔

    اس کی یہ کاوش انفعالی نہیں ہو سکتی بلکہ لا محالہ اس کا مقصد یہ ہوگا کہ عوام کے شعور میں اس فن کے مطالعہ سے ایسا تغیر پیدا ہو جو اشترا کیت کی سچائی خو بی اور برتری کے تصورات کو راسخ کرے۔ بہ ظاہر یہ سیدھی سی بات معلوم ہوتی ہے لیکن جب کوئی ادیب یا نقاد اسے تسلیم کرے گا تو اسے ہر حقیقت کی نوعیت، ماہیت اور سماجی اہمیت کا اندازہ ہوگا، سماج کے تشکیلی عناٖصر کو دیکھنا ہوگا اور واقعات کی بنیادوں کو سمجھنا ہوگا، اس وقت وہ یہ جان سکےگا کہ کون سے حقایق زندگی کو کس جانب لے جا رہے ہیں اور لے جا سکتے ہیں۔ ہر لمحہ بدلتی ہوئی اور متحرک دنیا میں حقایق کی اصل نوعیت کا گرفت میں لانا آسان نہیں، وہی فنکار یا ادیب اس سے اچھی طرح عہدہ بر آ ہو سکتا ہے جو جد لیاتی نقطۂ نظر رکھتا ہے اور حقایق کے سمجھنے میں اس سے کام لیتا ہے۔

    ظاہر ہے کہ یہ چیز حقیقت نگاری کے معمولی تصور سے بالکل مختلف ہے۔ اس میں تاریخی حقیقت، احساس فن اور تصور زندگی سب مل کر ایک ہو جاتے ہیں۔ یہی ادب کا مادی تصور ہے جو فن کے تنوع کا مخالف نہیں ہے، جدت برائے جدت اور ہیئت پرستی کا مخالف ہے، جو ادب کے کھوکھلے پن، بے اثری، میکانکی اور بےرنگ حقیقت نگاری اور بےمقصدی کا مخالف ہے۔ یہی ادب کو جاندار، خوبصورت، انسان دوست بنانے کا تصور ہے۔

    مأخذ:

    ذوق ادب اور شعور (Pg. 101)

    • مصنف: سیداحتشام حسین
      • ناشر: ادارہ فروغ اردو، لکھنؤ
      • سن اشاعت: 1963

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے