Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ادبی مسئلہ

احمد علی

ادبی مسئلہ

احمد علی

MORE BYاحمد علی

    ایک وقت تھا کہ شاعر اور انشاء پرداز دنیا کے قانون سازوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ لیکن آج ہم اس منزل سے بہت دور چلے آئے ہیں اور معصومیت کی آواز بالادستی اور طاقت کی کش مکش کے شور و غل اور جنگ کی چیخ پکار میں ا س طرح گم ہوکر رہ گئی ہے جیسے نقار خانے میں طوطی کی آواز۔ آج دنیا خون میں نہائی ہوئی ہے اور اس کا جسم زخموں سے چھلنی ہوگیا ہے۔ وہ ابھی تک نہ صر ف عالمگیر جنگ کے ہیبت ناک اثر سے پورے طور پر سنبھل نہیں سکی ہے۔ بلکہ اس سے بھی عظیم تر نراج کے سائے بڑی شدومد سے ہمارے سروں پر مستولی ہیں۔ اتحادو یگانگت کی وہ آواز جو اس صدی کے اوائل میں بنی نوع انسان کے لیے نجات کے پیغام سے لبریز تھی بدستور سنائی دے رہی ہے اور ابھی تک مکمل طور پر اس دنیا کی پر شور فضاؤں میں ڈوب کر نہیں رہ گئی ہے۔ یہ آواز اس غوغاے قیامت خیز میں بھی گوش زد ہوئی جو گزشتہ جنگ عظیم میں ہیروشیما پر ایٹم بم کے پھٹنے اور تباہی و بربادی کے دھواں دار بادل نمودار ہونے سے پیدا ہوا۔ مگر یہ آواز انگلستان سے ای۔ ایم۔ فارسٹر کے الفاظ میں ایک امید افزا نغمہ کی طرح گونجی۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو فارسٹر نے ایک مضمون میں پچھلی جنگ کے دوران میں لکھے تھے اور کہا تھا کہ مجھ سے کہا جائے کہ ملک اور دوست میں سے کس کو ترجیح دوگے۔ تو مجھے امید ہے کہ میں دوست کو ملک پر ترجیح دوں گا۔

    اگرچہ میری عنفوان شباب کی تصوریت جس کا میں چند سال قبل قائل تھا گزشتہ چند برس کے پرآشوب ہنگاموں اور تلخ واقعات سے پارہ پارہ ہوچکی ہے۔ میں اپنے دل کی گہرائیوں میں کہیں دور یہ محسوس کرتا ہوں کہ ای۔ ایم۔ فارسٹر کے محولہ بالا الفاظ بدستور بنی نوع انسان کی شان ارجمندی کے آئینہ دار ہیں۔

    تمام مفکر اور فیضان کی دولت سے بہرہ ورار باب قلم غیر شعوری طور پر اپنے ابنائے جنس کی نبض کی رفتار بدرجہ اتم محسوس کرسکتے ہیں۔ نوع انسان کو فراموش نہ کرتے ہوئے وہ ان زیادہ گہرے اور بنیادی مسائل کا جائزہ لیتے ہیں جو حیات انسانی کے پس پردہ فعال عناصر کے طور پر کارفرما ہیں۔ وہ کبھی اس امر کو نظراندازنہیں کرتے بلکہ انہوں نے کبھی بھی اس کو ناقابل غور قرار نہیں دیا کہ نوع بشر کی مسرت و خوش حالی، اس کی مادی اور روحانی دونوں ضروریات پر منحصر ہے۔ لیکن نوع انسان کے روزمرہ کے مصائب و شدائد سے پرے بلکہ ایک حدتک انہیں سے پیدا شدہ ایک ایسی امید کے افق موجود ہیں جو کبھی سریع ایسر جھلکیوں کی صورت میں نمایاں ہوجاتے ہیں اور کبھی چکاچوند کردینے والے عظیم الشان التہاب کی شکل میں اس امر کی دلالت کرتے ہیں کہ انسان آخر کار ان ترددات کی جکڑ بندیوں سے آزاد ہوجائے گا جو اس کی زندگی کو پکڑے ہوئے ہیں یعنی فاقہ کشی اور غلامی کا ڈر، جبر و تشدد سے قومی یا بین الملی کا خوف۔

    شعراء اور ارباب فکر نے کبھی افراد بنی نوع میں امتیاز روا نہیں رکھا۔ اور نہ جغرافیائی حدود تسلیم کی ہیں۔ جب حکیم افلاطون نے ’جمہوریہ‘‘ کا تصور پیش کیا اور مورس نے اپنا ’’اٹوپیہ‘‘ مرتب کیا، تو ان کے پیش نظر کوئی خاص نسل یا قوم نہیں تھی، بلکہ کرہ ارض کے تمام ممالک اور آگے آنے والے تمام زمانے تھے۔ ایک غیرمعین مادی مستقبل کی طرف اقدام نے اجتماعی خوش حالی کی ترقی کو روک دیا۔ اسلام کا پیغام آج بھی ایک دنیا کی آغوش میں لیے ہوئے ہے۔ جہاں تمام بنی آدم خدا اور انسان کی نظر میں برابر ہوں اور ہر شخص کو اپنا مقدر سنوارنے اور بہتر بنانے کا موقع حاصل ہو۔ یہی نصب العین ہے جس کی تحصیل کے لیے ہمیں ازسرنو جدوجہد کرنی چاہیے۔ ہمیں ان مقاصد کے حاصل کرنے کی سعی کرنی چاہیے جو تشتت و افتراق میں ڈوبی ہوئی دنیا کے طوفان میں غرق ہوچکے ہیں۔ ایک ایسی دنیا جس میں ہر ملک اپنے مطالبات منوانے پر بضد ہے اور جہاں ہر ایک طبقہ دوسرے طبقہ کی آواز کا گلا گھونٹنے پر تلا ہوا ہے۔

    اگر ہمارے ارباب قلم سابقہ ثقافتی میراث اور روایات سے وفاداری کا حق ادا کریں تو انہیں اپنے دل کی گہرائیوں میں ڈوب کر لکھنا چاہیے۔

    ایک پرخلوص دل کی دنیا میں نہ کوئی حدیں ہیں نہ پابندیاں۔ اس میں رنگ، جماعت اور نظریات کے امتیازات بھی نہیں۔ ہمارے ادیبوں نے یہ حقیقت بڑی حد تک فراموش کردی ہے۔ اس کا احیا اور پرزور تائید ان پر فرض ہے۔ کنفیوشس سے ایک بار کسی نے سوال کیا کہ کیا کوئی واحد لفظ تمام انسانی فرائض کو ادا کرسکتا ہے تو اس نے جواب دیا کہ ہاں۔ ’’ہمدردی‘‘ ۔ ایک اور جگہ اس نے لکھا ہے کہ ’’انسان کا دل محبت کی جولان گاہ ہے اور اس کا راستہ سیدھی راہ چلنا ہے۔ اگر ہم اس راہ پر نہ چلیں، دل کو ادھر ادھر بھٹکنے دیں اور یہ نہ جانیں کہ وہ کہاں ہیں تو یہ بات بہت افسوس ناک ہوگی۔ جب کسی شخص کا کتا یا مرغی کھوجاتی ہے تو وہ جانتا ہے کہ اسے کہاں تلاش کیا جائے۔ لیکن جب اس کا دل بہک جاتا ہے تو نہیں جانتا کہ اسے کہاں ڈھونڈے۔ ایک عالم کا راستہ اس کے سوا کچھ اور نہیں کہ وہ اپنے کھوئے ہوئے دل کو تلاش کرے۔‘‘

    ان حقائق و بصائر کی روشنی میں (P-E-N) کے اغراض و مقاصد قابل ستائش اور واجب التسلیم ہیں۔ موجودہ دور میں انسانوں کی پیدا کی ہوئی حدبندیوں کے باوجود ادیبوں کی حقیقی معنوں میں ایک پرخلوص جماعت، اقوام عالم کی پرخلوص سنگت پیدا کرسکتی ہے اور گم گشتہ انسانی معصومیت اور و اماندہ جذبہ اعتماد و یقین کو سرابھارنے میں مدد دے سکتی ہے۔ شاید یہ باتیں آپ کو محض خیالی ہنگامہ آرائی معلوم ہوں۔ ذرا خیال تو کیجیے ہم لوگ کتنے تنگ نظر ہوگئے ہیں۔ اس کے باوجود ادیبوں کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ اس دنیائے دنی کی ان ادنی ادنی باتوں سے بلند ہونے کی کوشش کریں جو انسانوں کی تنگ نظری اور کم ظرفی سے پیدا ہوتی ہیں اور ان ہی کے ساتھ مر بھی جاتی ہیں۔

    ہم اہل پاکستان کو ابھی ادباء شعراء سے متعلقہ اہم فرائض اور نصب العین پر غور کرنے کا موقع نہیں ملا اور نہ ایک قومی ادب پیدا کرنے کے مرتبہ پر غور و فکر کرنے کی فرصت ملی ہے جس کی ضرورت بہت شدید ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سلسلہ میں ہماری مشکلات بہت ہی زیادہ رہی ہیں اور جن مسائل سے ہمیں دوچار ہونا پڑتا ہے وہ بہت ہی کثیر ہیں۔ مگر ایسی دنیا میں سلامت روی پیدا کرنے کے لیے جس سے ہوشمندی کا عنصر فرار ہوجاتا ہے ہمیں اس عالمگیر جمود سے جو بقول فارسٹر دنیا پر طاری ہے نکل کے آزاد فصا میں سانس لینا چاہیے۔

    زندگی آنی جانی اور عارضی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس وقفہ کو جو پیدائش اور موت کے درمیان ہے جس قدر اپنے ابنائے جنس کی ہمدردی کے سپرد کرسکیں اتنا ہی اچھا ہے۔ لوگوں میں انسانوں کی زندگی زیادہ سے زیادہ مسرت حاصل کرسکتی ہے۔

    (ترجمہ۔ جمیل نقوی) بشکریہ نیادور، ممتاز شیریں، صمد شاہین

    مأخذ:

    سوغات،بنگلور (Pg. 351)

      • ناشر: مکتبہ سوغات، بنگلور
      • سن اشاعت: 1994

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے