Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ادبی تخلیق اور ادبی تنقید

شمس الرحمن فاروقی

ادبی تخلیق اور ادبی تنقید

شمس الرحمن فاروقی

MORE BYشمس الرحمن فاروقی

     

    تخلیق اور تنقید کے باہمی تعلق، ان کے درمیان وجودی تناؤ اور خود نقاد کے منصب کے بارے میں بعض سوالات گزشتہ چالیس برس میں ہمارے یہاں کئی بار اٹھے یا اٹھائے گئے ہیں۔ ان سوالات کو مختصراً یوں بیان کیا جا سکتا ہے، 

    (۱) کیا تنقید کا مرتبہ تخلیق سے بلندتر ہے؟ 

    (۲) اگر ایسا ہے تو کیا یہ برتری وجودی (Ontological) اعتبار سے ہے، یا علمیاتی (Epistemological) اعتبار سے؟ یعنی کیا تنقید اس لیے برتر ہے کہ وہ تخلیق سے پہلے وجود میں آتی ہے، یا اس لیے برتر ہے کہ ہمیں تنقید سے جوعلم حاصل ہوتا ہے وہ اس علم سے برتر ہے جو تخلیق سے حاصل ہوتا ہے۔ 

    (۳) لہٰذا، کیا تخلیق کو نقاد کا محکوم کہہ سکتے ہیں؟ 

    (۴) کیا تنقید بھی تخلیقی کارگزاری ہے؟ 

    (۵) اگر ایسا ہے تو کیا ان دونوں میں کوئی بنیادی فرق نہیں؟ 

    (۶) اگر ایساہے تو کیا کسی تنقیدی تحریر کو تخلیقی تحریر کے معیاروں سے جانچ سکتے ہیں؟ 

    (۷) ادبی معاشرے میں نقاد کیا کام انجام دیتا ہے؟ 

    (۸) ادبی تخلیق کار کے تعلق سے نقاد کے کیا فرائض ہیں؟ 

    (۹) نقاد کی ضرورت ہی کیا ہے؟ میر اور غالب کے زمانے میں نقاد کہاں تھے؟ اس زمانے میں نہ توادبی معاشرے میں کوئی نقاد گرم کار تھا، اور نہ تخلیقی فنکاروں کے درمیان کوئی نقاد تھا۔

    سچ پوچھیے تو مندرجہ بالا میں کوئی سوال ایسا نہیں ہے جو نظری اعتبار سے کچھ قرار واقعی اہمیت رکھتا ہو۔ اور نہ ہی کوئی سوال ایسا ہے جس کے حل ہو جانے سے تخلیقی فنکار، یا نقاد، یا دونوں کو کچھ راحت ملے گی۔ اس قسم کے سوالات عام طور پر اس وقت اٹھتے ہیں جب کسی ادب میں اولین تنقید ی کاوشیں سامنے آتی ہیں، یا پھر جب ادب کسی عبوری یابحرانی دور سے دوچار ہوتا ہے۔ ہمارے زمانے میں ایسی کوئی بات نہیں۔ اس لیے اس زمانے میں ان کا ہونا یہ بات ضرور ثابت کرتا ہے کہ نقاد ہمارے ادبی منظرنامے پر اس درجہ حاوی ہیں کہ ہمارے تخلیقی فنکار اور خود نقاد، ان سوالوں سے دست وگریباں ہونے اور دست وگریباں رہنے کے لیے خود کو مجبور پاتے ہیں۔ 

    فرض کیجیے یہ مان لیا جائے کہ تنقید افضل ہے اور تخلیق مفضول، تو بھی کوئی یہ نہ کہے گا کہ لاؤ میر کا کلیات، یا اقبال کا کلیات، ہم اسے آگ میں پھینک دیں۔ ہمارے پاس کلیات محمد حسن عسکری، یا کلیات احتشام حسین، یا کلیات آل احمد سرور تو ہے ہی۔ یہ زیادہ قیمتی چیزیں ہیں۔ یہ ہیں تو میر یا اقبال رہیں یا جلیں، کیا فرق پڑتا ہے؟ ان کے ہوتے ہوئے ہمیں کمی کچھ نہیں۔ ان کی رہنمائی میں ہم دوسرا اقبال، دوسرا میر، یاکوئی بھی اپنی پسند کا تخلیق کار پیدا کر لیں گے۔ یا اگر ایسا ممکن نہ بھی ہوا تو بھی اقبال ؔیامیرؔ سے ہاتھ دھو بیٹھنا اتنا بڑا سانحہ نہیں جتنا کہ عسکری یا احتشام یا سرور سے محروم ہو جانا ہے۔ 

    فرض کیجیے یہ مان لیا جائے کہ تنقید بھی تخلیقی کارگزاری ہے، تو کیا یہ ممکن ہوگا کہ تخلیق کی سطح پر ’’مقدمۂ شعر وشاعری‘‘ اور ’’دیوان غالب‘‘ کے درمیان محاکمے کے کچھ معیار مرتب ہو سکیں؟ کیا ہم کہہ سکیں گے کہ تنقیدی متن ہونے کے اعتبار سے ’’مقدمۂ شعروشاعری‘‘ افضل ہے، لیکن تخلیقی متن ہونے کے اعتبار سے ’’دیوان غالب‘‘ افضل ہے، یعنی’’مقدمۂ شعروشاعری‘‘ میں جو شعریت ہے وہ’’دیوان غالب‘‘ سے کم تر درجہ کی ہے اور’’دیوان غالب‘‘ میں جو تنقیدیت ہے وہ’’مقدمہ‘‘ سے فروتر ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا فیصلہ مضحکہ خیز ہوگا، کیونکہ پھر تو ’’تخلیقی‘‘ اور’’تنقیدی‘‘ کے مراتب اور انواع ہی مٹ جائیں گے۔

    فرض کیجیے مان لیا جائے کہ میر ومرزا کی ادبی تہذیب اور ادبی معاشرے کو یا خود میر و مرزا کو نقاد کی ضرورت نہ تھی، لہٰذا ہمیں یا ہمارے ادبی معاشرے کو بھی نقاد کی ضرورت نہیں۔ آؤ اسے تخلیق کی گاڑی کا ایک ازکار رفتہ، غیرضروری اور بیچ راہ میں اٹکاؤ ڈالنے والا، نہ کہ رفتار کو رواں کرنے والا پہیہ قرار دے کر برادری باہر کردیں۔ لیکن پھر اس سے فائدہ کیا ہوگا؟ اول تو یہ کہ تنقید کے طور پر یا تنقید کے نام پر پچیسوں ہزار صفحات جو گزشتہ سو سوا سو برس میں ہمارے یہاں سیاہ کیے گئے ہیں، وہ کالعدم تو نہ ہو جائیں گے۔ دوسری اور زیادہ اہم بات یہ کہ ادبی معاشرہ نقاد کو دیس نکالا دے بھی دے تو تعلیمی، تجارتی اور اخباری معاشرے نے ادبی نقاد کا وجود ناگزیر کر دیا ہے۔ ادبی نقاد بوتل کا جن ہے، دوبارہ اپنے مامن میں واپس نہیں جا سکتا۔ 

    اگر یہ فیصلہ کر لیا جائے اور ہر طرف مان بھی لیا جائے کہ نقاد اور تخلیقی فنکار میں حاکم ومحکوم کا رشتہ ہے۔ یا حاکم ومحکوم نہ سہی، نقاد بہر حال تخلیقی فنکار کا رہنما، اس کا مشیر، اس کو اچھے برے سے آگاہ کرنے او ر آگاہ رکھنے والا، اس کو گمراہی سے بچانے والا اور آئندہ کی خبر دینے والا ہے، تو بھی یہ ممکن نہ ہوگا کہ ایک نقاد، یا سارے نقاد مل کر کوئی سنسر بورڈ قائم کریں اور کسی بھی تخلیق کے منظر عام پر آنے کے پہلے اس کو ٹھونک بجا کر دیکھ لیں۔ ظاہر ہے کہ یہ منظر نامہ کسی نقاد کے لیے کتنا ہی خوش آئند کیوں نہ ہو، ممکن العمل نہیں ہے۔ 

    اول تو نقادوں ہی میں آپس میں اتنی پھوٹ، اتنا اختلاف رائے ہے کہ وہ معیاروں کا ایسا گوشوارہ ہی مرتب نہ کر سکیں گے جو سب نقادوں کو قبول ہو اور جسے ہر قسم کی ادبی تخلیق پر جاری بھی کیا جا سکے۔ پھر یہ بھی ہے کہ ہر تخلیق کار بھلا کب اس کو قبول کرےگا کہ اس کی تحریر چھپنے سے پہلے نقادوں کی ٹولی کے ہاتھ میں سنسر ہونے کے لیے جائے۔ اپنے پسندیدہ نقاد، یا اپنے وقت کے بااثر نقاد سے دیباچہ، تبصرہ، تجزیہ یاکچھ نہیں تو اپنی کتاب کے فلیپ پر چند جملوں کی چشم داشت رکھنا اور چیز ہے اور نقاد کے سامنے خودسپردگی اور چیز۔ لہٰذا نقاد کی فیصلہ جاتی کارروائی شروع ہونے کے پہلے ہی ختم ہو جائےگی۔ 

    اگر فرض کیجیے یہ طے ہو گیا کہ اگرچہ انفرادی طور پر کوئی تنقیدی متن کسی تخلیق متن سے برتر نہیں ہو سکتا لیکن مجموعی طور پر تنقید کا مرتبہ تخلیق سے افضل ہے کیونکہ تنقید پہلے ہے تخلیق بعد میں۔ تنقیدی شعور کے بغیر بلکہ تنقیدی تجربے سے گزرے بغیر تخلیق ممکن نہیں۔ ہر تخلیق اپنے اندر تنقید کا عنصر بھی رکھتی ہے، چاہے بالقوۃ، چاہے بالفعل۔ تو پھر اس فیصلے سے نقاد یا تنقید کو کیا فائدہ ہوگا؟ ممکن ہے اس فیصلے میں بعض نقادوں کے لیے خود بینی اور خود نگری کے جھولے میں پینگ لگانے کا سامان مہیا ہو جائے، لیکن فی نفسہ تنقید بطورعلم یا ادبی متن بطور تخلیقی تجربہ کے اسرار کو سمجھنے کے لیے یہ فیصلہ قطعی بےمصرف ہے۔ 

    اگرچہ یہ سوالات اور ان کے جوابات نہ فیصلہ کن ہو سکتے ہیں اور نہ ان جوابوں پر کسی قسم کا عمل درآمد ہی ممکن ہے، لیکن ان کی اہمیت پھر بھی ہے اور وہ اہمیت یہ ہے کہ گزشتہ چالیس پچاس برس سے ان سوالوں کا مسلسل وجود اور ان پر اٹھنے والی بحث، تنقید کے بارے میں تخلیق کار کی دلی بے اطمینانی ظاہر کرتی ہے۔ ان سوالوں سے ثابت ہوتا ہے ہمارے تخلیقی فنکاروں نے تنقید اور نقاد دونوں کا وفور محسوس کیا ہے۔ تنقید ہمارے ادبی معاشرے میں تقریباً مرکزی اہمیت اختیار کر گئی ہے، لیکن مندرجہ بالا سوالوں کا وجود ہمیں یہ بھی پوچھنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا تنقید اور خاص کر گزشتہ پچاس برس کی تنقید، تخلیق کے تئیں اپنے فرائض کو ادا کر سکی ہے؟ پھر یہ سوال بھی لامحالہ اٹھےگا کہ تخلیق کے تئیں تنقید کے فرائض کیا ہیں؟ 

    (۲) 
    یہ بات بھی غور کرنے کی ہے کہ تنقید کے بارے میں جو سوالات میں نے اوپر درج کیے، ان کو تو گزشتہ پچاس برس میں بار بار اٹھایا گیا ہے، لیکن اس مدت میں ادب کی نوعیت یا افادیت کے بارے میں سوالات اس شدت او رتواتر سے نہیں اٹھائے گئے۔ مثلاً کسی نے مبارز طلبی کے انداز میں یہ نہ پوچھا کہ تخلیقی فن کار کی کیا ضرورت ہے؟ کسی نے ناراض ہوکر یہ نہ پوچھا کہ ادب سے ہمیں کیا ملتا ہے؟ کسی نے بہ بانگ دہل یہ اعلان کرنے کی ضرورت نہ سمجھی، یاہمت نہ کی، کہ تخلیق افضل ہے اور تنقید مفضول۔ اس کی وجہ شاید یہ رہی ہو کہ لوگوں کی نظروں میں ان سوالات کے جوا ب کم وبیش طے ہو چکے تھے، یا خود یہ سوالات ہی اہم نہ تھے۔ یہ نقاد تھا جو تخلیقی فنکاروں اور ادبی معاشرے کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا تھا۔ 

    تنقید بطور صنف ادب ہمارے یہاں ناول سے بھی کم عمر، اور مختصر افسانے کی کم وبیش ہم عمر ہے۔ ناول اور مختصر افسانے کی طرح تنقید بھی بطور صنف ادب ہمارے یہاں مغرب سے آئی ہے اور تنقید کے مرتبے کے بارے میں بہت سے مزعومات بھی ہمارے یہاں مغرب سے حاصل ہوئے۔ یہ مزعومات ہم نے تقلید اور اثر پذیری کے خودکار عمل، یا شعوری عمل کے ذریعہ اپنے تنقیدی او رادبی شعور میں جذب کر لیے لیکن بات اتنی سادہ نہیں ہے، جیسا کہ میں آئندہ مفصل بیان کروں گا۔ 

    یہاں یہ بات دھیان میں رکھنے کی ہے کہ نقاد بطور اقتدار دار شخصیت (Authority Figure) کے تصور نے مغرب کی ادبی تہذیب میں کئی روپ بدلے ہیں، لیکن جدید عہد میں یہ خیال عام ہے کہ نقاد کو کچھ ایسا اقتدار حاصل ہے یا اسے ایسا اقتدار حاصل ہونا چاہیے جس کے بل بوتے پر وہ ادبی معاشرے کے ذوق کی اور ادبی فنکار اور اس کی تخلیقی قوت کی تربیت اور رہنمائی کر سکے۔ کچھ برس پہلے انگریزی میں تنقید کی تاریخ کے بارے میں پیٹرک پیرنڈر (Patrick Parrinder) کی کتاب Authors and Authority بہت بااثر ثابت ہوئی ہے۔ اس کا نام ہی اقتدار کے اس تناؤ اور اس باہم عمل اور ردعمل کو ظاہر کر دیتا ہے جو تخلیقی فن کار اور نقاد کے درمیان رونما ہوتا رہا ہے۔ نقاد کوشش کرتا رہا ہے کہ تخلیقی فنکار کو’’راہ راست‘‘ پر لگائے رکھے اور تخلیقی فن کار، اکثر و بیشتر تنقید اقتدار کے جوے کو اتار پھینکنے کی سعی کرتا رہا ہے۔ 

    نقاد اور تخلیقی فنکار کے درمیان یہ کشمکش مغرب میں اس وقت شدت اختیار کر گئی، جب جرمنی، اور پھر انگلستان میں رومانیت اور فرانس میں علامت نگاری کا دور دورہ ہوا۔ یہ زمانہ تقریباً وہی ہے جسے ہم روشن فکری (Enlightenment) کے پوری طرح قائم ہو جانے کا زمانہ، یعنی اٹھارہویں صدی کا ربع آخر کہہ سکتے ہیں۔ انیسویں صدی کا وسط آتے آتے یورپ کے تخلیقی فن کاروں میں یہ خیال پھیل چکا تھا کہ نقاد اگر غیرضروری شے نہیں تو کوئی بہت اہم ہستی بھی نہیں ہو سکتا۔ ہم ملارمے کے قول سے واقف ہیں کہ صرف تخلیقی فنکار ہی تخلیق کا سچا قاری ہو سکتا ہے۔ ملارمے کے بہت پہلے بودلیئر نے صاف کہہ دیاتھا کہ شاعری کی تنقید کا حق صرف شاعر کو ہے۔ 

    بودلیئر نے کولرج سے کوئی اثر قبول کیے بغیر تخیل کے بارے میں کولرج کی سی بات کہی کہ یہ وہ قوت ہے جو ’’اشیا کے مابین گہرے، قلبی اور خفیہ‘‘ رشتے، متوازیت (Correspondence) اور مشابہت ڈھونڈ لیتی ہے۔ لیکن بودلیئر نے ایک قدم آگے جاکر یہ بھی کہا کہ ’’وہ عالم Scholar یعنی (نقاد) جو تخیل سے عاری ہے، ہمارے سامنے جھوٹے عالم یا کم سے کم نامکمل عالم کی صورت میں نظر آتا ہے۔‘‘ لہٰذا وہ شخص جو تخیل کی قوت سے عاری ہے یعنی جس میں شاعرانہ صفات نہیں ہیں، جھوٹا عالم نہیں تو نامکمل ضرور ہے اور شعر کے بارے میں اظہار خیال کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ 

    یہ خیال بھی بودلیئر ہی کا ہے کہ شاعری خود ہی تنقیدی صلاحیت کا اظہار ہوتی ہے۔ ایڈگرایلن پوپر اپنے مضمون میں (جس کا اقتباس میں نے اوپر پیش کیا) بودلیئر نے یہ کہا تھا کہ قوت متخیلہ سے عاری شخص نامکمل عالم ہے۔ اب واگنر (Wagner) کی موسیقی پر مضمون میں بودلیئر نے کہا کہ’’مجھے ان شعرا پر رحم آتا ہے جو صرف وجدان (Instinct) کے بل بوتے پر کام کرتے ہیں۔ مجھے وہ نامکمل لگتے ہیں۔‘‘ پھر اس نے کہا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ شاعر کے اندر نقاد موجود نہ ہو۔ 

    یہ بات بھی دھیان میں رکھنے کی ہے کہ فرانسیسی رومانیوں اور علامت نگاروں کے یہ تصورات ایک مخصوص ذہنی پس منظر میں رکھ کر دیکھنے کے ہیں۔ ان کے عہد کی بنیادی صفت یہ ہے کہ شعرا خود کو خارجی دنیا، روز مرہ کی سیاسی اور سماجی دنیا، طاقت اور کامیابی کی دنیا سے جلاوطن کر چکے تھے۔ فنکار اور معاشرے میں انقطاع مکمل ہو چکا تھا۔ ایڈگر ایلن پوپر اپنے دوسرے مضمون کے شروع میں بودلیئر نے آلفریڈ ڈَ وینائی (Alfgred de Vigny) کا قول تحسین کے ساتھ نقل کیا ہے کہ اس زمانے میں شاعر کہیں بھی پنپ نہیں سکتا، نہ جمہوریت میں، نہ آمریت میں نہ اشرافیہ کے راج میں۔ ڈوینائی وہ شخص ہے جسے پروست نے بودلیئر کے ساتھ انیسویں صدی کے فرانس کا سب سے بڑا شاعر تسلیم کیا ہے۔ بودلیئر اور ڈوینائی کے بہت پہلے ورلن (Verlaine) کہہ چکا تھا کہ ’’دنیاجسے شعرا کے عمیق معنی خیز الفاظ نے الجھن میں ڈال دیاہے، شعرا کو جلا وطن کر دیتی ہے۔ پھر شاعر جوابی کارروائی کے طور پر دنیا کو جلا وطن کر دیتے ہیں۔‘‘ 

    فرانس کے رومانی شعرا اور علامت نگار شعرا خود کو اپنے معاشرے سے ذہنی اور روحانی طور پر بالکل منقطع محسوس کرتے تھے۔ انقطاع کا یہ احساس انیسویں صدی کے اواخر میں بھی اتنا ہی شدید تھا۔ چنانچہ ملارمے نے ایک گفتگو کے دوران ۱۸۹۱ میں کہا، ’’موجودہ معاشرہ شاعر کو جینے کا حق دینے سے انکار کرتا ہے۔ اس وقت شاعر کی حیثیت اس آدمی کی سی ہے جو تنہائی ڈھونڈتا ہے کہ اپنا مزار خود تراش سکے۔‘‘ پھر کیا تعجب کہ ایسا شخص یہ کہے کہ ’’میرے معاصروں میں سے اکثر کو پڑھنے کا فن نہیں آتا۔ ہاں اخبار وہ ضرور پڑھ سکتے ہیں۔‘‘ 

    انگلستان میں انقطاع کی صورت حال اتنی شدید نہ تھی، لیکن اتنی تو تھی ہی کہ الیٹ کوآئندہ چل کہنا پڑا کہ سترہویں صدی سے انگریزی شاعری میں ’’ہوش مندی کا انقطاع‘‘ نظر آتاہے۔ چنانچہ ورڈز ورتھ نے ۱۸۰۰ء میں Lyrical Ballads کے دوسرے ایڈیشن کا جو دیباچہ لکھا اس میں اس نے خود کو بہرحال اس بات پر مجبور پایا کہ شاعر کی آزاد حیثیت کو مضبوطی اور وضاحت سے بیان کیا جائے۔ ورڈز ورتھ نے شاعر کے جو صفات شمار کرائے، ان میں یہ بھی تھا کہ بڑا شاعر اپنے زمانے کے مذاق شعری سے متاثر تو ہوتا ہے، لیکن وہ اسے بدلتا او ر اپنے مطابق ڈھالتا بھی ہے۔ 

    یعنی مذاق عام کو بدلنے کا کام نقاد کا نہیں، بلکہ خود شاعر کا ہے۔ شاعر بقول ورڈز ورتھ، ’’عام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ متحرک ہوش، مندی، زیادہ جوش وخروش اور رقت قلب‘‘ کا حامل ہوتا ہے۔ اسے ’’انسانی روح کے بارے میں عام لوگوں سے زیادہ علم وشعور ہوتا ہے۔‘‘ اب ظاہر ہے کہ یہ صفات محض نقاد میں نہیں ہو سکتے، کیونکہ جس شخص میں یہ خوبیاں ہوں گی، وہ خود ہی کیوں نہ شعر کہنے لگے گا؟ 

    اس معاملے کو ورڈز ورتھ کے چند برس بعد کولرج نے بڑے لطف کے ساتھ پیش کیا۔ اس نے کہا، ’’اس سوال کو صاف صاف بیان کرنا چاہیے کوئی شخص جو خود شاعر نہ ہو، کس حد تک شعر کا مناسب و کافی نقاد ہو سکتا ہے، یا اگر مناسب وکافی نہیں تو ناکافی لیکن اپنی حد تک اچھا نقاد ہو سکتا ہے، یانقاد ہونے کے امکان کا حامل ہو سکتا ہے؟ کیا وہ ایک مناسب وموزوں نقاد ہو سکتا ہے، کیا وہ ایک اچھا نقاد ہو سکتا ہے، (چاہے وہ اس شاعر کے حسب مرتبہ نہ ہو جس پر وہ تنقید لکھ رہا ہے) لیکن ابھی ایک امتیاز اور بھی ہے۔ مان لیجیے وہ شخص شاعر ہی نہیں بلکہ خراب شاعر ہے۔ تو پھر؟‘‘ 

    لہٰذا کولرج کا کہنا ہے کہ نہ صرف غیر شاعر بلکہ خراب شاعر بھی نقد شعر کا حق ادا کرنے سے قاصر ہے۔ ہیزلٹ (Hazlitt) نے بھی معاملے کو رومانیت کے مخصوص انداز میں صاف کرکے کہا، ’’ہم یہ نہیں کہتے کہ نقاد ہونے کے لیے شاعر ہونا لازم ہے۔ لیکن ہم یہ ضرور کہتے ہیں کہ اگر کسی کو اچھا نقاد بننا ہے تو اسے خراب شاعر نہ ہونا چاہیے۔ جیسی شاعری کوئی لکھے گا ویسی ہی وہ پسند بھی کرےگا۔‘‘ 

    جرمن رومانیت نہ صرف یورپ کی سب سے پہلی رومانی تحریک ہے بلکہ اس میں وہ انتہائی پسندی ذرا کم ہے جو فرانس اور بعد میں انگریزی رومانیت میں نمایاں ہوئی۔ لہٰذا اس بحث کو ختم کرنے کے لیے میں فریڈرک شلیگل (۱۷۷۲ تا۱۸۲۹) کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں۔ ’’شعرکی تنقید صرف شعر ہی کی طرز اور شعر ہی کی راہ سے ہو سکتی ہے۔ کسی فنکارانہ تخلیق پر تنقید ی فیصلے کے کوئی بھی حقوق نہیں، اگر وہ خود بھی فن پارہ نہ ہو۔‘‘ 

    (۳) 
    جیسا کہ میں نے ابھی کہا، تنقید بطور صنف ادب ہمارے یہاں مغرب سے آئی اور ہمارے ادبی معاشرے میں اس کی عمر مختصر افسانے سے کچھ ہی زیادہ ہے۔ جس زمانے میں تنقید ہم نے مغرب سے حاصل کی، یہ وہی زمانہ ہے جس میں مغربی ادب میں تنقید بنام تخلیق کی بحث کا فیصلہ کم وبیش تخلیق کے حق میں ہو چکا تھا۔ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں، انیسویں صدی کے اواخر تک مغرب میں رومانیت اور علامت نگاری کے زیر اثر مندرجہ ذیل باتیں دور دور تک پھیل چکی تھیں۔ 

    (۱) تخلیق کا مرتبہ تنقید سے برتر ہے۔ 

    (۲) شعر (یعنی تخلیقی ادب) کی تنقید وہی کر سکتا ہے جو خود شاعر (یعنی فنکار) ہو۔ 

    (۳) شاعر (یعنی فن کار) خود کو جدید معاشرے میں تنہا اور انمل محسوس کرتا ہے۔ 

    اب لطف کی بات یہ ہے کہ تنقید کے بارے میں جو تصور اور جو اصول ہمارے یہاں انیسویں صدی کے اواخر میں مغرب سے آئے، ان پر مندرجہ بالا مفروضات کی پرچھائیں بھی نہ تھی۔ تنقیدی ادب کے بارے میں جو اصول ہمارے یہاں رائج ہوئے وہ سب کے سب پروٹسٹنٹ ضابطہ اخلاق کے پروردہ تھے۔ اس ضابطہ اخلاق کا پہلا اصول یہ تھا کہ اشیا کو کارآمد ہونا چاہیے نہ کہ خو ب صورت۔ اورد وسرا اصول یہ تھا کہ فن اور فنکار دونوں میں خرابی کے عناصر ہیں، لہٰذا ان کی تادیب اور تدریب ہوتی رہنا چاہیے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ کام نقاد ہی انجام دے سکتا تھا یا اگر نقاد نہیں تو کوئی بھی ایسا شخص جو ادب کی تادیب کا کام کر سکے۔ ہمارے یہاں آزاد اور حالی نے یہ کام کیا اور یہاں لطف کی دوسری بات یہ ہے کہ ان دونوں ہی کے سروکار ادبی سے زیادہ تاریخی، سماجی اور تعلیمی تھے۔ 

    آزاد نے ’’آب حیات‘‘ (۱۸۸۰ء) کو جگہ جگہ ’’تذکرہ‘‘ کہا ہے اور ان کا ذیلی عنوان ہے، ’’مشاہیر شعرائے اردو کی سوانح عمری اور زبان مذکور کی عہد بہ عہد کی ترقیوں اور اصلاحوں کابیان۔‘‘ پوری کتاب میں ’’تنقید‘‘ یا’’انتقاد‘‘ یا’’نقاد‘‘ جیسا کوئی لفظ نہیں استعمال ہوا ہے۔ حالی کے ’’مقدمہ شعروشاعری‘‘ (۱۸۹۳ء) میں کوئی ذیلی عنوان نہیں ہے لیکن اس کا سرنامہ ایک عربی مقولہ ہے ’’درمع الدھر کیف دار‘‘ اور اس کا ترجمہ لکھا ہے، ’’جس رخ زمانہ پھرے اس رخ پھر جاؤ۔‘‘ (پروفیسر نثار احمد فاروقی نے مجھے بتایا کہ اصل میں کمادار ہے اور یہ غالباً بدیع الزماں الہمدانی کے ’’مقامات‘‘ سے ماخوذ ہے۔ ’’مقدمۂ شعروشاعری‘‘ میں بھی ’’تنقید، انتقاد یا نقاد‘‘ جیسا کوئی لفظ نہیں برتا گیا ہے۔ ’’مقدمہ‘‘ کے چار سال بعد حالی نے جب ’’یاد گار غالب‘‘ لکھی (۱۸۹۷ء) تو اس میں غالب کی نظم ونثر کے تنقیدی محاکمے پر ’’ریویو‘‘ (Review) اور’’ریمارک‘‘ (Remark) جیسے عنوانات قائم کیے۔ امداد امام اثرنے یہ تو کہا کہ وہ شاعری کے اصول وضع کر رہے ہیں، لیکن یہ نہیں کہا کہ میں ’’تنقید‘‘ لکھ رہا ہوں۔ 

    ایسا نہیں ہے کہ یہ حضرات ’’نقد ادب‘‘ کے تصور سے ناآشنا رہے ہوں۔ بجا کہ لفظ ’’تنقید‘‘ عربی فارسی میں نہیں ہے اور تفعیل کے وزن پر یہ لفظ اردو والوں کا ایجاد کیا ہوا ہے۔ لیکن ’’نقد‘‘، ’’مناقدہ‘‘، ’’انتقاد‘‘ اور’’نقاد‘‘ تو عربی میں موجود ہیں۔ حالی وآزاد سے تقریباً ہزار برس پہلے قدامہ ابن جعفر نے اپنی شہرہ آفاق کتابیں ’’نقد الشعر‘‘ اور’’نقدالنثر‘‘ لکھی تھیں۔ ’’نقد النثر‘‘ تو ناپید ہے، لیکن ’’نقد الشعر‘‘ موجود ہے۔ حالی، اثر اور آزاد تینوں بلاشبہ اس کتاب سے واقف رہے ہوں گے۔ ان کے یہاں ’’نقد‘‘ اور اس سے مشتق اصطلاحات کا عدم استعمال اس بات کا ثبوت ہے کہ خود اپنی نظر میں وہ نقاد نہ تھے، مورخ، مصلح، مبلغ، سوانح نگار، کچھ بھی رہے ہوں۔ ’’تنقید‘‘ کا لفظ ہمارے یہاں سب سے پہلے مہدی افادی نے ۱۹۱۰ء میں استعمال کیا۔ بلکہ انہوں نے ایک قدم آگے بڑھ کر ’’تنقید عالیہ‘‘ کی اصطلاح بنائی، جو ان کے خیال میں کسی انگریزی اصطلاح High Criticism کا ترجمہ تھی۔ 

    شبلی کو لفظ ’’تنقید‘‘ پر اعتراض تھا کہ یہ لفظ موضوعہ ہے، لیکن سید سلیمان ندوی کے یہاں یہ لفظ ۱۹۲۳ میں نظر آتا ہے (یہ دونوں حوالے ’’اردو لغت، تاریخی اصول پر‘‘ جلد دوم میں ملاحظہ ہوں۔) اگلے دس سال میں یہ لفظ ’’ادب کی پرکھ‘‘ اور ’’نکتہ چینی‘‘ دونوں معنی میں ہمارے یہاں رائج ہوا۔ بہت سے لوگ اس کے بارے میں پھر بھی گومگو میں مبتلا رہے، چنانچہ نیاز فتح پوری کو اس لفظ کی صحت پر شک تھا۔ انہوں نے اپنے تنقیدی مضامین کے مجموعے کا نام ’’انتقادیات‘‘ رکھا، لیکن متن کتاب میں انہوں نے لفظ ’’تنقید‘‘ استعمال بھی کیا۔ اب لفظ ’’انتقاد‘‘ آہستہ آہستہ تقریباً غائب ہو چکا ہے اور ہر طرف تنقید کا دور دورہ ہے۔ 

    لفظ ’’تنقید‘‘ کی اس مختصر تاریخ میں ہمارے لیے کئی سبق آموز باتیں ہیں۔ حالی، آزاد اور امداد امام اثر کے یہاں اس کا عدم موجود بھی ہمارے لیے معنی خیز ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم لوگوں نے حالی، آزاد، امداد امام اثر اور پھر شبلی کو تنقید نگار کے طور پر سمجھا اور قبول کیا۔ یہ لوگ خود کو بھلے ہی کچھ اور سمجھتے ہوں، لیکن ہمارے لیے وہ نظری اور عملی نقاد ہیں۔ ہمارے ادبی معاشرہ پر ہمارے تخلیقی فنکاروں پر اور ہمارے تنقید نگار پر ان لوگوں نے بحیثیت نقاد اپنا سکہ قائم کیا اور اپنا نقش بٹھایا ہے۔ 

    اس کے معنی یہ ہیں کہ انیسویں صدی کے اواخر میں ہمارے ادبی معاشرے کو کسی رہنمائی، کسی ہدایت، کسی نئی سوجھ بوجھ کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔ ان بزرگوں کی تحریروں کے ذریعہ ہماری یہ ضرورت پوری ہوئی اور چونکہ ان کی تحریروں میں ادب کی تخلیق کے بارے میں نظری اور عملی باتیں کثرت سے تھیں، لہٰذا ہم نے ان کے پورے پیغام کو ادبی تنقید قرار دیا۔ اس پیغام میں اصلاح ادب اور اصلاح معاشرہ کے لیے بھی گوشوارۂ عمل موجود یا مضمر تھا اور گوشوارہ عمل بھی تنقید کے تحت قبول کر لیا گیا۔ یعنی ہمارے یہاں تنقید اورنقاد کی باقاعدہ پیدائش کے پہلے ہی تنقید اور تنقید نگار، ادبی رہنما، ہدایت دہندہ اور اصلاح گوش استادکی حیثیت سے قائم ہو چکے تھے۔ 

    دوسری بات یہ ہے کہ تنقید سے زیادہ کامیاب عمل اور تنقیدنگار سے زیادہ کامیاب فاعل ہماری ادبی تاریخ میں ناپید ہیں۔ تنقیدنگار صحیح معنی میں آمدی کے پیر شدی کا مصداق ہے۔ حالی، آزاد، شبلی اور امداد اثر کا تنقیدنگار کی حیثیت سے قائم ہو جانا اور بات ہے اور اقتداری ہستی کی حیثیت سے ان لوگوں کاایوان ادب میں جلوہ گر ہونا اور بات ہے۔ یعنی ایک تو یہ کہ کوئی شخص تنقیدنگار ہو اور اس کی بات کو ہم ردوقبول، چھان بین، مناقشہ ومناظرہ کے عمل سے گزار یں۔ 

    اور ایک یہ کہ کسی شخص کو ہم تنقیدنگار قرار دیں اور اس کی قریب قریب ہر بات کو براہ راست یا بالواسطہ اپنے ادبی شعور اور لاشعور کاحصہ بنا لیں۔ حالی اور آزاد کی تقریباً ساری تحریریں جنہیں ہم تنقید کہتے ہیں، اسی زمرے میں آتی ہیں۔ شبلی نے میر انیس پر جو لکھ دیا، وہ ادب بھی ہمارے لیے حرف آخر ہے۔ وہی حال ہندوستانی فارسی شاعری کے بارے میں امداد اثر اور شبلی کی رایوں کاہے۔ ہم اپنی ’’آزادی فکر‘‘ کا مظاہرہ کرنے کے لیے ان لوگوں سے ضمنی اختلاف کرتے ہیں لیکن بنیادی رایوں میں گھوم پھر کر ان سے اتفاق ہی کر لیتے ہیں۔ 

    تیسری بات یہ ہے کہ ’’ تنقید‘‘ ہمارے یہاں جتنی تیزی سے قائم ہوئی، اتنی ہی کثرت سے پھیلی بھی۔ اردو میں تنقیدنگار جس تیزی اور کثرت سے پیدا ہوئے، پیداوار کی وہ کثرت اور تیزی ناول یا افسانے کی صنف میں نظر نہیں آتی۔ ’’آب حیات‘‘ کا پہلا ایڈیشن ۱۸۸۰ کا ہے۔ اس کے پچاس سال کے اندر یعنی ۱۹۳۰ تک ہمارے یہاں تنقید کم وبیش ایک انڈسٹری کی صورت اختیار کر گئی تھی۔ مشرق اور مغرب دونوں کے ادب پر ہمارے یہاں اچھی بری تنقید کثرت سے لکھی جانے لگی تھی۔ اسی زمانے میں ہماری کئی یونیورسٹیوں میں اردو کا شعبہ قائم ہوا۔ تنقید کو فروغ دینے میں ان شعبوں کا بڑا حصہ ہے۔ 

    (۴) 
    اس طرح تنقید نے ہمارے ادب کی سربراہی کا بوجھ کچھ تو اپنے ہی مزعومات کے زیر اثر اور کچھ پیراں نمی پرندمریداں می پرانند کے مصداق ہمارے ادبی اور تخلیقی معاشرے کے مفروضات اور ضرورتوں کے باعث قبول کر لیا۔ بیسویں صدی کا وسط آتے آتے نقادوں کے قدم میدان ادب میں پورے طور پر جم چکے تھے، اور اسی اعتبار سے ان میں ر عونت بھی آ گئی تھی۔ یہاں میں ذرا یاد دلادوں کہ حالی نے اپنا مقدمہ اظہار عاجزی ومعذرت پر ختم کیا تھا۔ حالی نے لکھا ہے، 

    ’’اس مضمون سے ملک میں عموماً یہ خیال پھیل جائے کہ فی الواقع ہماری شاعری اصلاح طلب ہے تو ہم سمجھیں گے کہ ہم کو پوری کامیابی حاصل ہوئی ہے۔۔۔ اگر بہ مقتضائے بشریت کوئی ایسی بات لکھی گئی جو ہمارے کسی ہم وطن کو ناگوار گزرے تو ہم نہایت عاجزی اور ادب سے معافی کے خواستگار ہیں۔‘‘ 

    یہ رویہ حالی کا شاید اس لیے بھی تھا کہ وہ خود کو تنقید نگارنہیں سمجھتے تھے۔ بیسویں صدی کے وسط سے حالی کے معنوی شاگردوں کادور شروع ہوتا ہے۔ کلیم الدین احمد کی کتاب ’’اردو تنقید پر ایک نظر‘‘ ۴۰۔ ۱۹۴۱ میں بالاقساط اور ۱۹۴۲ء میں کتابی صورت میں منظر عام پر آئی۔ انہوں نے یہ تو کہا کہ اردو تنقید کا وجود محض خیالی ہے، لیکن اس سے بڑھ کر انہوں نے یہ کہا کہ ’’یہ خیال کہ مقدمۂ شعرو شاعری، اردو میں بہترین تنقیدی کارنامہ ہے، نہایت حوصلہ شکن ہے۔‘‘ اس میں دو زیادتیاں تھیں۔ ایک تو یہ کہ انہوں نے حالی کو نقاد کی طیلساں خواہ مخواہ اڑھا دی، حالانکہ حالی نے خود کو تنقید نگار نہ کہا تھا نہ فرض کیا تھا۔ 

    دوسری زیادتی یہ تھی کہ اس جملے اور اس قبیل کی اور عبارتوں نے نقاد کے تصور کے ساتھ سنگ دل اور تنگ نظر ماسٹر سارجنٹ کا تصور پیوست کر دیا۔ لہٰذا نقاد وہی ٹھہرا جو اپنے موضوع کے ساتھ خواہ اس کا موضوع تخلیقی فنکار ہو، خواہ کوئی اور، نقاد وہی تحکمانہ برتاؤ کرے جو ہمدردی اور درد مندی سے عاری سارجنٹ ؍استاد پریڈ کے میدان میں اپنے تربیت یا بندگان کے ساتھ کرتا ہے۔ ایسا استاد دولت مند معاشرے میں اپنی مادی مفلسی کا بدلہ اپنے توانگر شاگرد پر سختی کرکے نکالتا ہے۔ 

    ’’اردو تنقید پر ایک نظر‘‘ کے اضافہ شدہ ایڈیشن (۱۹۸۳) کے دیباچے میں کلیم الدین صاحب نے نقاد کے لیے ’’بیدرد‘‘ اور اس کے رویے کے لیے ’’بیدردی‘‘ کے لفظ بار بار استعمال کیے ہیں۔ کلیم الدین صاحب تسلیم کرتے ہیں کہ ’’تنقید ادب کی پیروی کرتی ہے۔‘‘ لیکن وہ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ’’نقاد ادبی کارناموں سے اصول فن اخذ کرتا ہے۔‘‘ اس دعوے میں یہ مفروضہ پوشیدہ ہے کہ ادب سے اصول فن کے استخراج میں نقاد سے غلطی نہیں ہو سکتی۔ بطور تنقیدنگار، کلیم الدین صاحب کے رویے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ تنقید خاص کر اردو تنقید کو اردو ادب کے نقائص کا بیان تصور کرتے ہیں۔ کلیم الدین صاحب لکھتے ہیں، 

    ’’اگر اردو ادب کے نقائص بیان کیے جاتے ہیں تو اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ اردو انشا پرداز، ان نقائص سے شناسائی حاصل کریں اور ان سے بچ کر ایک بہترین ادب کی تخلیق میں منہمک ہو جائیں۔ اگر کوئی شخص بھٹک رہا ہو تو اسے صحیح راستہ بتانا اخلاقی فرض ہے، نہ یہ کہ اسے بھٹکتا ہوا چھوڑ دیا جائے۔‘‘ 

    یہاں تک تو کلیم الدین صاحب نقاد کو ادب کے رہنما، اصلاح کنندہ، اور استاد کے روپ میں دیکھ رہے تھے اور تنقید کو اخلاقی فریضہ قرار دے رہے تھے۔ اپنی کتاب ’’ادبی تنقید کے اصول‘‘ (۱۹۷۸) میں انہوں نے نقاد کو قطب وقت اور فلسفی کامل کے روپ میں دکھایا۔ انہوں نے لکھا، ’’نقاد جو بات کہتا ہے وہ عالمگیر ہوتی ہے۔ ادبی تنقید ناطق اور گویا اور عالمگیر ردعمل ہے، گونگی اور ذاتی نہیں۔‘‘ کلیم الدین صاحب نے یہ بھی کہا کہ’’ہر تخلیقی عمل میں تنقید کا ہونا ضروری ہے۔ فنی کارنامہ تنقیدی شعور کی فضا میں پھلتا پھولتا ہے۔‘‘ اس طرح ان کی رائے میں تخلیق پر تنقید کی افضلیت اور بھی مستحکم ہو جاتی ہے۔ 

    حالی کی طرح کلیم الدین احمد بھی بہت موثر ثابت ہوئے۔ کلیم الدین احمد صاحب کے یہ مفروضے کہ نقاد کے ارشادات مطلق اور عالم گیر ہوتے ہیں اور یہ کہ نقاد کاکام بے دردی سے اردو ادب کی اصطلاح کرنا ہے، ہمارے اکثر نقادوں کے قول وفعل میں نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر احتشام صاحب ہمارے عہد کے سب سے بڑے ترقی پسند نقاد اور ہمارے بزرگ ترین نقادوں کی فہرست میں بہت بلند مرتبے کے مالک ہیں۔ کچھ تو ترقی پسند اصول حیات وسیاست کے زیر اثر اور کچھ نقاد کے مرتبے کی بابت خود بھی بلند توقعات اور تصورات کے حامل ہونے کے باعث، احتشام صاحب بھی نقاد کو ادیب کا رہنما، اصلاح کنندہ اور ادیب کو نقاد کے سامنے جواب دہ قرار دیتے ہیں۔ اپنے مضمون ’اصول نقد‘ (۱۹۴۶) میں احتشام صاحب نے لکھا کہ، 

    ’’نقاد اگر یہ بات ظاہر کردے کہ وہ ادیب یا شاعرسے کیا چاہتا ہے یا وہ اپنا فرض کیا قرار دیتا ہے تو اس کی راہوں کو متعین کرنا یااس کے اصولوں کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں رہ جاتا۔۔۔ رطب ویابس میں تمیز کرنا، غیر مخلصانہ اور سچے ادب میں فرق پیدا کرنا، اجالے کو اندھیرے سے الگ کرنا، نقاد کا کام ہے۔ ادیب خود مکمل طور پر اس کام کو انجام دے تونقاد کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔۔۔ اگر نقاد خلوص سے کام کرے تو وہ صالح ادب کی پیدائش میں معین بن جاتا ہے۔۔۔ ایک لحاظ سے نقاد کا کام مصنف سے زیادہ مشکل ہوتا ہے۔‘‘ 

    اپنی کتاب’’تنقید اور عملی تنقید‘‘ (۱۹۵۲) کے دیباچے میں احتشام صاحب نے بڑی عمدہ بات کہی کہ ’’نقاد ایک لحاظ سے عام پڑھنے والوں اور مصنفوں کے درمیان رابطے کا کام دیتا ہے۔‘‘ اگر وہ’’ایک لحاظ‘‘ سے فقرہ نہ رکھتے تو ان کی بات اور بھی قیمتی ہوتی۔ لیکن احتشام صاحب درحقیقت نقاد کو روز مرہ کی ادبی زندگی گزارنے والا انسان سمجھنے سے انکار کرتے ہیں۔ ان کے خیالات میں تنقید نگار کا مرتبہ تخلیقی فنکار سے برتر ہے۔ اسی لیے انہوں نے اسی مضمون میں یہ بھی لکھا کہ ’’تنقیدنگار ی کئی حیثیتوں سے سب سے مشکل اور ذمہ دارانہ صنف ادب ہے۔‘‘ 

    اس بات کو تسلیم کرنے کے باوجود کہ ’’تخلیقی اور تنقیدی ادب سے سروکار رکھنے والے شعور کی دنیا ئیں اتنی مختلف نہیں ہوتیں جتنی فرض کر لی گئی ہیں۔‘‘ (تنقید اور عملی تنقید) احتشام یہ بھی کہنے سے نہیں چوکتے کہ نقاد کو یہ سمجھ کر لکھنا چاہیے کہ ’’وہ کسی کو کچھ سکھا رہا ہے، کسی کی رہنمائی کر رہا ہے۔ (مضمون موسوم بہ’’ادبی تنقید کی ضرورت پر چند خیالات‘‘ مطبوعہ ’’اعتبار نظر‘‘، ۱۹۶۵) 

    ان باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ احتشام صاحب کی نظر میں نقاد کا درجہ تخلیقی فنکار سے بلند ہی رہےگا یا اگر بلند نہیں تو برابر ضرور ٹھہرےگا۔ ایک جگہ انہوں نے لکھاہے کہ بعض لوگوں کے خیال میں ’’شعر فہمی شعر گوئی سے زیادہ مشکل ہے۔‘‘ پھر تذکرہ نگاروں کے حوالے سے کہا ہے کہ تذکرہ نگاروں کی نظر میں ’’شعرگوئی کی طرح شعر فہمی بھی ایک الہامی قوت ہے۔‘‘ 

    ہماری روشن فکر تنقید میں آل احمد سرور کا نام سب سے زیادہ روشن ہے۔ لیکن انہیں ادب اور تنقید سے لطف اندوز ہونا، ان کے بارے میں نظری مباحث اٹھانے سے زیادہ پسندیدہ ہے، لہٰذا انہوں نے نقاد کے منصب اور تنقید کے تفاعل پر بہت کم لکھا ہے۔ لیکن انہوں نے اس موضوع پر جب کچھ لکھا ہے تو اس میں وہ کشمکش بھی نظر آتی ہے جو بیسویں صدی کے آغاز سے ہی ہمارے نقادوں کے ساتھ رہی ہے۔ اپنی پہلی تنقیدی کتاب ’’تنقیدی اشارے‘‘ (۱۹۴۲) کے دیباچے میں سرور صاحب لکھتے ہیں، ’’ (نقاد) کے لیے ضروری ہے کہ وہ سارے ادب پر نظر رکھتا ہو۔۔۔ اس کا پہلا کام ترجمانی ہے پھر انصاف۔ وہ ہر شاعر اور افسانہ نگار کے آگے بھی رہےگا اور ساتھ بھی۔۔۔ وہ تقلید اور اپج میں خود فرق کر سکےگا اور دوسروں پر یہ فرق واضح کر سکےگا۔‘‘ 

    یہاں سرور صاحب کی سلامتی طبع اور روشن فکری پوری طرح نمایاں ہیں، لیکن وہ کشمکش بھی ظاہر ہے جس کا میں نے اوپر ذکر کیا۔ اگر نقاد سارے ادب پر نظر رکھتا ہوگا تو وہ پھر انسان نہیں کوئی مافوق الفطرت ہستی ہوگا۔ وہ تخلیقی فن کار کے ساتھ بھی ہوگا، یعنی وہ اس کا ساتھی ہوگا، اس کے قدم بہ قدم چلےگا۔ لیکن وہ اس کے آگے بھی ہوگا، یعنی وہ فنکار کے مقابلے میں زیادہ ترقی یافتہ ہوگا اور اس کے آگے آگے چل کر اس کی رہنمائی کرےگا۔ اپنی کتاب ’’کچھ خطبے کچھ مقالے‘‘ (۱۹۹۶) میں سرور صاحب تقریباً یہی بات دوسرے ڈھنگ سے کہتے ہیں۔ یہاں ان کا قول ہے کہ نقاد ’’تخلیق کار کا رہنما، فلسفی اور ساتھی ہے۔‘‘ یہ انگریزی کے مشہور مقولے کا ترجمہ ہے، Guide, philosopher, and Friend لیکن اردو میں آکر اس کا لہجہ بدل جاتا ہے۔ انگریزی میں یہ فقرہ بے تکلفی کا انداز رکھتا ہے اور دوست کے لیے بولا جاتا ہے۔ اردو میں یہ استادانہ رنگ اختیار کر جاتا ہے۔ 

    آل احمد سرورکے اس مختصر ذکر کے بعد بیسویں صدی کے نصف دوم کے سب سے بڑے جدید نقاد محمد حسن عسکری کا کچھ بیان کرکے اس بحث کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ عسکری صاحب کی دلجمعی نے کئی رنگ بدلے، لیکن ان کی وہ تحریریں سب سے زیادہ بااثرثابت ہوئیں جن میں وہ مغربی ادب کے زبردست طالب علم، لیکن اپنی روایت سے بھی باخبر نظر آتے ہیں۔ عسکری صاحب نے ترقی پسندوں کے خلاف بہت کچھ لکھا، لیکن انہوں نے مغرب کے جدید فنکاروں پر بھی کڑی نکتہ چینی کی ہے اوریہ نکتہ چینی ان کی کتاب ’’جدیدیت یا مغربی گمراہیوں کی تاریخ‘‘ کے بہت پہلے کی ہے۔ 

    محمد حسن عسکری نے اپنی مشہور ترین کتاب ’’انسان اور آدمی‘‘ کے دیباچے میں اپنا تنقیدی موقف بتانے سے انکار کیا، لیکن کہا کہ ’’اس کا مطلب یہ نہیں کہ میرے ذہن میں تنقیدنگار کا کوئی تصور نہیں، یا میں اس تصور کو عملی شکل نہیں دے سکتا۔‘‘ انہوں نے یہ ضرور کہا کہ ’’میں اپنی افسانہ نگاری اور اپنی تنقید نگاری کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرنا چاہتا کیونکہ دونوں کے پیچھے تجربہ اور تحریک وہی ایک ہے۔‘‘ 

    اس بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ عسکری صاحب کی نظر میں تخلیقی فنکار اور نقاد ایک دوسرے کی تکمیل تو شاید کرتے ہوں، لیکن تخلیق کو تنقید کا محکوم نہیں کہہ سکتے۔ اس کے باوجود ہمارے یہاں نقاد بطور استاد اور رہنما کا اسطور اس قدر مضبوط تھا کہ عسکری صاحب کی ساری تنقید یا تو اپنے قاری کو تعلیم یا پھر تخلیقی فنکار کی تربیت کی سعی پر مشتمل ہے۔ ’’ہیئت یا نیرنگ نظر‘‘ سے یہ دو اقتباس دیکھیے، 

    ’’عملی ہیئت آرٹ کے لیے لازمی ہو یا نہ ہو، بہر حال خالص جمالیاتی ہیئت ادب میں بالکل بے معنی چیز ہے، ایک ایسا سراب ہے جس کی ذرا بھی اصلیت نہیں۔ اس کا حصول اسی قدر ممکن ہے جتنی پریوں سے ملاقات۔ ہیئت کی جستجو نے فلوبیئر کو جس طرح ناکوں چنے چبوائے وہ بھی عبرتناک چیز ہے۔‘‘ 

    ’’غرض کہ جمالیات ہو یا نفسیات، کوئی چیز فنکار کو اخلاقی ذمہ داری سے آزاد نہیں کر سکتی۔ اس کا کام حسن کی تخلیق ضرور ہے مگر نیکی اور صداقت سے قطع تعلق کرکے وہ حسن کو بھی نہیں پا سکتا۔ ہیئت کا افسانہ گڑھ کے فنکاروں نے اخلاقیات سے نکل بھاگنے کی تو بہیتری کوششیں کیں لیکن گھوم گھوم کر انہیں وہیں آنا پڑاجہاں سے چلے تھے۔‘‘ 

    ان عبارات میں جو رائیں اور فیصلے ہیں، ان کے غلط یا درست ہونے سے بحث نہیں۔ اس وقت صرف یہ دکھانا مقصودہ ے کہ نقاد ایک شان مقنانہ سے فیصلے صادر کر رہا ہے اور فنکاروں کو ہدایت دے رہا ہے۔ 

    (۵) 
    لہٰذا تنقید ہمارے یہاں شروع ہی سے فنکار کی رہنمائی اور اصلاح کا دعویٰ کرتی رہی ہے۔ نقادوں کا لہجہ ہمارے یہاں عموماً تحکمانہ اور مزعوماتی رہا ہے۔ فنکار کے تئیں ہمارے نقادوں کا رویہ مربیانہ رہاہے اور ہر نقاد خود کو ہر فنکار سے برتر سمجھ کر آغازکار کرتا ہے۔ انکسار کا وصف ہمارے نقادوں میں کم کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ چونکہ نقادوں کی برتری ہمارے یہاں شروع سے مسلم قرار دی گئی، اس لیے تنقید میں تحکمانہ اور مربیانہ رنگ در آنا لازمی تھا۔ محمد حسین آزاد کو یہ کہنے میں کچھ تکلف نہ تھا کہ اردو کی قدیم شاعری مر چکی ہے اور اسے مرنا ہی تھا، کیونکہ وہ محدود، مصنوعی اور تغیر ناپذیر تھی۔ حالی بے خوف ہوکر کہہ سکتے تھے کہ ہمارے شعروقصائد کا ناپاک دفتر عفونت میں سنڈاس سے بدتر ہے اور آسمان پر فرشتے اس سے تھراتے ہیں۔ (’’مسد حالی‘‘، ۱۸۷۹) 

    حالی کے مقدمے کو چالیس سال گزر چکے تھے اور مسدس کو پچپن سال، جب اختر حسین رائے پوری نے اپنا مضمون ’’ادب اور زندگی‘‘ (۱۹۳۵) لکھا۔ عام حالات میں یہ مدت اس بات کے لیے کافی ہوتی کہ کسی کتاب کا تاثر دھندلا پڑ جائے اور اس کے مشمولات پر جرح و محاکمہ کاعمل کرکے کچھ باتوں کو چھانٹ بھی دیا جائے، یا انہیں غلط یا غیرضروری ٹھہرایا جائے۔ لیکن دیکھیے اختر حسین رائے پوری’’ادب اور زندگی‘‘ میں کیا لکھتے ہیں، ’’قصیدہ خواں شاعر ایک ایسا مصاحب ہے جو مقفی تک بندی کر لیتا ہے۔ غزل گوئی۔۔۔ جیسے کوئی مشین ایک رفتار سے ایک سی آواز کرتی جا رہی ہے۔۔۔ اس ادب کی مثال اس امر بیل سے دی جا سکتی ہے جو اسی درخت کو فنا کرتی ہے جس پر پرورش پاتی ہے۔‘‘ 

    ’’کالی داس، کبیر، نظیر اور غالب وغیرہ کے سوا شاید کوئی ایسا شاعر نہیں جسے مستقبل کا انسان عزت سے یاد کرےگا۔‘‘ 

    ’’اقبال اسلامی فاسیسٹ ہے اور اس کا ردعمل بھائی پر مانند اور ڈاکٹر منجے کے ہندو فاسیزم (کذا) کی صورت میں ظہور پذیر ہو رہا ہے۔‘‘ 

    لطف یہ ہے کہ مندرجہ بالا سارے بیانات منطقی اور تاریخی تضاد سے بھرے ہوئے اور استدلال یا ثبوت جیسی چیزوں سے خالی ہیں۔ حالی اور آزاد کے یہاں بیان (Description) کم ہے، تجویز اور ہدایت (Prescription) زیادہ۔ لیکن استدلال ان کا میدان نہ تھا اور نہ وہ اس بات کے دعوے دار تھے کہ ہم اپنی ہر بات کا منطقی ثبوت پیش کریں گے۔ آزاد اور حالی دونوں کے یہاں تضادات کی کثرت ہے۔ لیکن یہ ان کی نظر میں شاید عیب نہ تھا۔ امداد امام نے البتہ دعویٰ کیا کہ اصول فن جو انہوں نے اپنی کتاب میں بیان کیے ہیں، ’’ضرور ہے کہ پہلے فقیر کے قائم کردہ اصول صحیح مان لیے جائیں۔ ظاہراً یہ اصول بعد استقرا وتفحص بلیغ کے قائم ہوئے ہیں اور بنا ان کی محض فطرت پر قائم ہوئی ہے۔‘‘ 

    ممکن ہے کہ ہم امداد امام اثر کے دعوؤں یا اصولوں کو غلط قرار دیں، لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے استدلال سے گریز کیا۔ جیسا کہ ہم اختر حسین رائے پوری کی مثال سے دیکھ سکتے ہیں۔ اثر، آزاد اور حالی کے جانشینوں نے تو استدلال کی جگہ صرف احکامات صادر کیے۔ حالی اور اختر حسین رائے پوری میں ذہنی ہم آہنگی ظاہر ہے کہ دونوں اردو شاعری کے بہت بڑے حصے کو نگاہ حقارت سے دیکھتے ہیں، لیکن مزید ثبوت درکار ہوتو اختر حسین رائے پوری کو ’’ادب اور زندگی‘‘ میں پھر سنیے، 

    ’’یہ مضمون اردو کے ادیبوں کے لیے لکھا گیا ہے۔ لہٰذا میرا خطاب ان سے ہے۔ ایک طرف پولیس کا وہ پنشن خواہ داروغہ ہے جو تاعمر اپنی فرعونیت اورہوس پرستی کا مظاہرہ کرنے کے بعد تسبیح کے دانوں پر اپنے گناہوں کا شمار کر رہا ہے۔۔۔ پھر وہ مولوی ہے جو دین کے پردے میں سب سے بڑا دنیا دار ہے اور جس کی ہوس پرستی کو اشعار کے اس ناپاک دفتر سے یک گونہ تسکین ہوتی ہے۔ آپ اب تک ان ہی لوگوں کے لیے لکھتے رہے ہیں۔ کیا آپ کی آئندہ کاوشیں بھی انہیں کے لیے وقف ہوں گی؟‘‘ 

    ان عبارتوں کو پڑھ کر اقبال شاید مسکرا دیے ہوں، لیکن اب تو ان پر رونا بھی مشکل ہے۔ 

    (۶) 
    جیسا کہ ہم جانتے ہیں، اختر حسین رائے پوری کا مضمون ’’ادب ار زندگی‘‘ ۱۹۳۵ کا ہے۔ دوسرے جدید نقادوں کی عبارات جو میں نے ان سے پہلے پیش کیں، ان میں سے بیشتر۱۹۴۱ سے ۱۹۵۲ کے درمیان کی ہیں۔ لہٰذا ہم یہ نتیجہ نکالنے میں حق بجانب ہوں گے کہ اردو میں گزشتہ پچاس برس کا تخلیقی ادب نقادوں کے سائے میں پیدا ہوا۔ نقادوں نے تخلیقی فنکاروں کو اپنا محکوم نہیں تو عملی طور پر اپنا پابند یا اپنا شاگرد قرار دینے کی پوری کوشش کی۔ تنقید نگار اکثر اعلان کرتے رہے کہ تخلیقی فن کار کو چاہیے کہ وہ ایسا لکھے، ویسا نہ لکھے، وہ ایسا ہو، ویسا نہ ہو۔ 

    رشید احمد صدیقی نے تو یہاں تک کہہ دیاکہ اخلاقی طور پر خراب کردار کا آدمی اچھا شاعر ہو ہی نہیں سکتا اور ان سے بھی پہلے یگانہ جن بنیادوں پر بار بار غالب کو خراب شاعر ثابت کرنا چاہ رہے تھے، ان میں ایک غالب کی نام نہاد بدکرداری بھی تھی۔ یگانہ کے بعد بھی لوگوں نے جگر مرادآبادی، جوش، فیض، غالب، میر، میراجی، فراق، راشد وغیرہ کے عقائد یاکردار کو حوالہ بناکر انہیں اچھا یا برا ثابت کرنا چاہا ہے۔ لیکن ایک جوش ملیح آباد ی کی ذرا ہسٹیریائی نظم کے سوا تخلیقی فنکاروں کی طرف سے کسی نے نقادوں کو چنوتی دینے اور یہ بتانے کی کوشش نہیں کی کہ انہیں کیا کرنا چاہیے، یا شاعری میں ان کی حقیقت کیا ہے۔ 

    جوش صاحب کی نظم ’’نقاد‘‘ ان کے مجموعے ’’فکر ونشاط‘‘ (۱۹۳۷) میں شامل ہے۔ اس سے دو نتیجے نکلتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ۱۹۳۰۔ ۱۹۴۰کی دہائی میں ہی تنقید ہمارے ادبی منظر نامے پر اس درجہ حاوی ہو چکی تھی کہ نقاد کا وجود ہمارے شعرا کے لیے مسئلہ بن گیا تھا۔ دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ جوش نے نقاد کو شعر فہمی سے نہ صرف بے خبر بلکہ ’’عاشق دیرینۂ فکر معاش‘‘ کہہ کر یہ دعویٰ کر دیا تھا کہ نقاد کی نیت کھوٹی ہے، اسے شعر سے نہیں، اپنے حلوے مانڈے سے کام ہے۔ جوش صاحب نے نقاد سے یہ بھی کہا کہ ’’تیری دنیا اور ہے شاعر کی دنیا اور ہے‘‘ اور ’’مرکے بھی تو شاعری کا بھید پا سکتا نہیں۔‘‘ لیکن ہمارے دوسرے شعرا نے جوش کی تائید نہ کی۔ انہوں نے نقاد کو مطعون کیا نہ اسے بتایا کہ تمہارا صحیح فریضہ کیا ہے۔ 

    ایک طرح سے کہا جا سکتا ہے کہ شاعر نے تنقیدنگار کے سامنے سپر ڈال دی۔ معلوم ہوتا ہے جوش صاحب بھی اس نتیجے پر پہنچے کہ نقاد سے الجھنا ٹھیک نہیں۔ چنانچہ انہوں نے اس طرز کی دوسری نظم ۱۹۵۰ء میں مجاز کے نام ’’پند نامہ‘‘ کی شکل میں لکھی۔ اس میں انہوں نے مجاز اور’’دیگر جوانان بے پروا‘‘ کو شراب پینے میں خوش سیلقگی اور شعر میں فطرت کے حسن کی عکاسی کی تلقین کی ہے، 

    شبنم آلود کر سخن کا لباس
    چکھ دھندلکے میں بوے گل کی مٹھاس

    شاعری کو کھلا ہوائے سحر
    اس کا نفقہ ہے تیری گردن پر

    رقص کی لہر میں ہو گم لب نہر
    یوں ادا کر عروس شعر کا مہر

    جذب کر بوستاں کے نقش ونگار
    ذہن میں کھول مصر کا بازار

    جوش صاحب کی یہ نظم’’نقاد‘‘ سسے بدر جہا بہتر ہے۔ لیکن مقبولیت نہ’’نقاد‘‘ کو حاصل ہوئی نہ ’’پند نامہ‘‘ کو۔ اس وقت میرے سامنے ذیل مجلدات ہیں جن میں جوش کے کلام کا انتخاب درج ہے، 

    (۱) انتخاب جوش از عصمت ملیح آبادی، ۱۹۸۳ء
    (۲) جوش شناسی، مرتب کا ظم علی خاں ۱۹۸۶ء
    (۳) جو ش ملیح آبادی، خصوصی مطالعہ، مرتب قمر رئیس، ۱۹۹۳ء
    (۴) ماہنامہ ’’آج کل‘‘ جوش نمبر، مرتب محبو ب الرحمن فاروقی، ۱۹۹۵ء

    ’’پند نامہ‘‘ مندرجہ بالا کسی انتخاب میں شامل نہیں۔ ’’نقاد‘‘ صرف عصمت ملیح آبادی کے انتخاب میں ہے، باقی اس سے بھی خالی ہیں۔ مجھے یاد نہیں آتا کہ کسی نقاد یا شاعر نے ’’پند نامہ‘‘ یا’’نقاد‘‘ کاسیر حاصل تجزیہ پیش کیا ہو۔ سلیم احمد نے اپنے مضمون ’’جوش اور فن‘‘ میں ’’نقاد‘‘ پر ایک ڈیڑھ صفحہ ضرور لکھا ہے، لیکن بحث سے گریز کرتے ہوئے۔ ان کے خیالات میں بحث کی شاید ضرورت ہی نہ تھی۔ راشد صاحب نے ۹جون ۱۹۷۵ء کے ایک خط میں ساقی فاروقی کو لکھا، ’’تنقید بے شک نہایت مفید کام ہے لیکن اس میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اسے نقاد لکھتے ہیں۔ تنقید نقادوں کے بس کا روگ نہیں۔ شعر کو شاعر سے زیادہ اور ادب کو ادیب سے زیادہ کوئی نہیں سمجھتا اور ادراک اور شعور کے جن راستوں سے شاعر اور ادیب شعروادب کو سمجھتے ہیں، وہ پیشہ ور نقادوں کو کم ہی نصیب ہوتے ہیں۔‘‘ 

    راشد صاحب نے ’’پیشہ ور‘‘ نقادوں کی الگ نوع قائم کرکے کچھ نقادوں کے لیے راہ نکال لی تھی۔ لیکن وہ اگر ایسا نہ بھی کرتے تو کچھ فرق نہ پڑتا۔ ان کا یہ خط ۱۹۸۶ میں چھپا، تب تک تنقید کا پانی ہمارے تقریباً ہر شاعر سے اوپر ہوکر گزر رہا تھا۔ 

    جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں، ہمارے یہاں تنقید بطور صنف سخن کے ہوتے ہی ہاتھ پاؤں نکالنے شروع کر دیے تھے۔ لیکن ہمارے سب سے بڑے جدید شاعر میرا جی کی ۱۹۴۹ میں موت اور اسی زمانے میں محمد حسن عسکری کے فروغ کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ گزشتہ نصف صدی ہمارے ادب میں نقاد کی صدی ہے، شاعر کی نہیں۔ ہماری ادبی تہذیب میں تنقید کی بالادستی میرے خیال میں تین وجوہ کے باعث ہے۔ ایک وجہ تو سیاسی، دوسری کا گہرا تعلق ہماری ادبی تہذیب کی روایت سے ہے اور تیسری کی جڑ جدید معاشرے میں اقدار کے عمومی زوال میں ہے۔ ان کی تفصیل مختصراًعرض کرتا ہوں۔ 

    (۱) محمد حسین آزاد، حالی او ر امداد امام اثر نے جس زمانے میں ہمارے ادب کی اصلاح اور اس میں تازہ اقدار کی بیخ افگنی کا بیڑا اٹھایا وہ ہماری کلی سیاسی شکست کاتھا۔ ان لوگوں نے بالخصوص حالی اور آزاد نے ہمیں یہ بتایا کہ سیاسی شکست کے ساتھ ہماری تہذیبی شکست بھی ہو گئی ہے اور ایک کو دوسری سے الگ نہیں کر سکتے۔ ان لوگوں نے ہماری ادبی اصلاح کے جو نسخے تجویز کیے ان میں یہ بات واضح یا مضمر تھی کہ یہ نسخے مغربی اصولوں پر تیار کیے گئے ہیں اور مغربی اصولوں کے بارے میں یہ بات ثابت تھی کہ وہ ہمارے اصولوں سے بہتر ہیں۔ اس طرح حالی اور آزاد کے اثر اور نئے ادبی خیالات کی مقبولیت اور حاکمیت کا دور شروع ہوا۔ اور یہی لوگ ہمارے سب سے پہلے بلکہ حالی کے بارے میں تو کہہ سکتے ہیں کہ سب سے بڑے نقاد قرار دیے گئے اور ان لوگوں کی وجہ سے نقاد کا تسلط ہمارے یہاں مسلم ہوا۔ 

    (۲) شاگردی استادی کا ادارہ نہ فارسی میں ہے نہ عربی میں۔ اولاً یہ اردو میں بھی نہ تھا۔ جب اٹھارہویں صدی کے شروع میں دہلی والوں نے اپنے اشہب تخلیق کو فارسی کی مانوس راہ چھوڑ کر اردو کی نئی گلی میں بہ تکلف موڑا توانہیں ایسے لوگوں کی ضرورت محسوس ہوئی جو فارسی اور ریختہ دونوں پر قدرت رکھتے ہوں اور جن سے ریختہ میں شعر گوئی کے گر سیکھے جا سکیں۔ خان آرزو اس سلسلے میں فطری رہنما ثابت ہوئے۔ پھر یہ سلسلہ چل نکلا اور بیس ہی تیس برس میں ساری اردو دنیا میں پھیل گیا۔ بڑے استادو ں کی شہرت آسمان کو چھونے لگی اور اکثر کسی شاعر کی شہرت اور توقیر میں اس بات کا بھی دخل ہوتا کہ اس کا استاد کون ہے۔ انیسویں صدی کے اواخر میں جب محمد حسین آزاد نے اعلان کیا کہ پرانی شاعری مر چکی ہے اور اس چیز کی بنیاد پڑی جسے حالی نے ’’نئی شاعری‘‘ کہا تو پرانی شاعری کی اوقات کم ہوئی اور پرانی طرز کے استادوں کا بھی دبدبہ گھٹنا شروع ہوا۔ 

    آل احمد سرور نے اس بات کو اپنے مضمون ’’اردو میں ادبی تنقید کی صورت حال‘‘ (مشمولہ’’نظر اور نظریے‘‘ ۱۹۷۳) میں یوں بیان کیا ہے، ’’آزاد اور حالی۔۔ دونوں کی تنقید دراصل ان کی شاعری کی مقبولیت کے لیے نیا احساس پیدا کرنے کی کوشش سے شروع ہوتی ہے، مگر اس سے آگے بھی جاتی ہے۔۔۔ حالی اور آزاد کو ایک نئے قسم کی شاعری کرنا تھی جس کے لیے ایک جواز کی ضرورت تھی۔ آزاد کی تنقید صرف جواز تک رہ گئی، حالی کی خوبی یہ ہے کہ ان کی تنقید جواز سے شروع ہوکر ایک ادبی دستاویز تک پہنچتی ہے۔‘‘ 

    لیکن واقعہ یہ ہے کہ حالی اور ان کے ہم نواؤں نے صرف نئی شاعری کی بنیاد نہ قائم کی تھی۔ انہوں نے نئی شاعری کے لیے اصول بھی بتائے تھے اور آزاد نے تو ’’آب حیات‘‘ میں انہیں اس طرح گھول دیا تھا کہ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد پرانی شاعری کے بارے میں پرانی رائے قائم رہنا ممکن نہ تھا۔ گویا آزاد اور ان کے ساتھی نئی شاعری کے بنا پر داز اور نئے ادب کے استاد ٹھہرے۔ اس طرح ہمارے ادبی معاشرے نے روایتی استاد کی کمی نقاد سے پوری کی اور نقاد کو وہی برتری حاصل کرنے دی جو پہلے زمانہ میں استاد کا حصہ تھی۔ 

    اس سلسلے میں ناسخ کا وہ واقعہ یا لطیفہ سبق آموز ہے جب کسی نوعمر شاعر نے ان کی بات سے اختلاف کیا تھا کہ کتاب میں کچھ لکھا تھا اور ناسخ کچھ کہتے تھے۔ محمد حسین آزاد لکھتے ہیں کہ ناسخ لکڑی اٹھاکر اس شخص پر دوڑ پڑے کہ ابے تو ہمیں کتاب کی دھونس کیا دیتا ہے۔ کتاب پڑھتے پڑھتے ہم خود کتاب ہو گئے ہیں۔ ہم لوگوں نے نقاد کے بارے میں بھی یہی سمجھ لیا کہ وہ کتاب پڑھتے پڑھتے خود کتاب ہو گیا ہے۔ 

    (۳) نئے زمانے میں جب ہمارے یہاں صارفیت بڑھی، اور گزشتہ پچاس سال میں خاص طور پر ادب کی پیداوار میں تجارتی مفاد پرستی (Commercialism) کھلے بندوں عمل میں آنے لگی تو ہمارے تخلیقی فنکار نے نقاد کا دامن تھاما کہ نقاد اگر تعریف یا تبلیغ کر دےگا تو ہماری کتاب چل جائےگی، یا ہماری شہرت میں اضافہ ہوگا۔ نقاد بطور ناقد، پھر بطور مبصر، پھر بطور مبلغ، بازار ادب کا باد فروش بن گیا۔ ہر شاعر کو محسوس ہونے لگا کہ ہم بھی کسی باد فروش کو اپنے ساتھ رکھیں تو ہماری شہرت اور خوبی کی ہوا دور دور تک بندھ جائےگی۔ 

    (۷) 
    میں نے اب تک اس تنقید اور ان نقاد کا ذکر نہیں کیا ہے جو محمد حسن عسکری کے بعد ہیں۔ اس کی دو وجہیں ہیں۔ ایک تویہ کہ نقاد کی برتری تو ہمارے یہاں ۱۹۳۰۔ ۱۹۴۰ کی دہائی میں ہی پوری طرح قائم ہو چکی تھی ورنہ جوش صاحب کو ’’نقاد‘‘ جیسی نظم لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آتی؟ لیکن دوسری اور زیادہ اہم وجہ یہ کہ محمد حسن عسکری کے بعد آنے والے لوگوں میں میرا بھی نام ہے اور یہ مناسب ہے کہ میرا اور میرے ساتھ والوں کا محاکمہ ہمارے بعد والوں کے ہاتھوں انجام پائے تاکہ اس میں معروضیت کا کچھ رنگ پیدا ہو سکے۔ 

    ایک سوال یہ بھی ہے کہ نقادوں کے تسلط عام سے پچھلے پچاس سال کی شاعری کو نقصان پہنچایا فائدہ؟ اس سوال کے کئی جواب کئی طریقوں سے ممکن ہیں لیکن مناسب جواب تب ہی مل سکیں گے جب نقاد کے ہاتھ میں ادب اور ادیب کی رہنمائی کا جھنڈا نہ ہوگا۔ آل احمد سرور نے اپنے مضمون ’’تنقید کے مسائل‘‘ مشمولہ’’نظر اور نظریے‘‘ (۱۹۷۳) میں لکھا ہے، ’’ہماری تنقید نے ابھی تک کھلے دل سے اور صاف لفظوں میں اس حقیقت کا اعتراف نہیں کیا ہے کہ ادب میر کا وہ باغ ہے جسے کسی امیر دوست کے پائیں باغ کے دریچے کی ضرورت نہیں، کیونکہ اس کے اپنے باغ میں پہلے سے زندگی کے کتنے باغ وصحرا حل ہوئے ہیں۔‘‘ 

    میرا کہنا ہے کہ نقاد کی بالادستی اور اس کے میر کارواں ہونے کا تصور اب ہمارے ادب سے ختم ہو جانا چاہیے۔ ہم نقادوں کو اپنی بات کے صحیح تسلیم ہونے کا ہوگا بہت ہے۔ سرور صاحب نے محولہ بالا مضمون میں لکھا ہے، ’’بڑا نقاد وہ نہیں ہوتا جس کی رائے ہمیشہ صحیح مانی جائے۔ بڑا نقاد وہ ہوتا ہے جس کی رائے سے دوسروں کو کسی موضوع پر بہتر اور جامع رائے قائم کرنے کی توفیق ہو، (اور) اس جامع رائے کا سراغ اس نقاد کی رائے سے ملا ہو۔‘‘ 

    میرا خیال ہے آج کی گفتگو کے اختتام کے لیے اس سے بہتر کوئی نکتہ نہیں۔

     

    مأخذ:

    تنقیدی افکار (Pg. 243)

    • مصنف: شمس الرحمن فاروقی
      • ناشر: ڈائرکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2004

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے