Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

افلاطون کے اعیان

میکش اکبرآبادی

افلاطون کے اعیان

میکش اکبرآبادی

MORE BYمیکش اکبرآبادی

    علامہ اقبال نے شنکر اور ابن عربی کے علاوہ افلاطون کو بھی نفی خودی کے حامیوں میں شمار کیا ہے۔ اسرارِ خودی میں افلاطون پر تنقید کرتے ہوئے فرماتے ہیں،

    راہبِ اول فلاطونِ حکیم

    ازگروہِ گو سفندانِ قدیم

    آنچناں افسونِ نامحسوس خورد

    اعتبار از دست و چشم و گوش برد

    گفت سرِ زندگی اور مردن است

    شمع راصد جلوہ از افسردن است

    گو سفندے درلباسِ آدم است

    حکمِ اوبر جانِ صوفی محکم است

    *

    بسکہ از ذوقِ عمل محروم بود

    جانِ ادوار فتۂ معدوم بود

    منکرِ ہنگامۂ موجود گشت

    خالقِ اعیانِ نامشہود گشت

    زندہ جاں را عالمِ امکاں خوش است

    مردہ دل راعالمِ اعیاں خوش است

    *

    علامہ اقبال کا خیال یہ ہے کہ افلاطون نے محسوسات کو ناقابلِ اعتبار سمجھا اورنامحسوس و نامشہود کے دام میں گرفتار ہوگیا۔ عالمِ اسباب کو افسانہ خیال کیا۔ معدوم کو موجود اورموجود کو معدوم سمجھا۔ اور موت کو زندگی پر ترجیح دی۔ خود بھی ذوقِ عمل سے محروم تھا۔ اور اس کی تعلیم سے بہت سی قومیں ذوقِ عمل سے محروم ہوگئیں۔

    ان اعتراضات میں خاص اعتراض نفی خودی، ترکِ عمل اور زندگی سے گریز پر ہے، جس کے علامہ اقبال شدت سے مخالف ہیں۔ اسرار کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا ہے،

    ’’میں نے افلاطون کے فلسفے پر جو تنقید کی ہے اس سے میرا مطلب ان فلسفیانہ مذاہب کی تردید ہے جو بقاکے عوض فنا کو انسان کانصب العین قرار دیتے ہیں۔ یہ مذاہب انسان کو بزدلی سکھاتے ہیں۔ ان مذاہب کی تعلیم یہ ہے کہ مادے کامقابلہ کرنے کے بجائے اس سے گریز کرنا چاہیے حالانکہ انسانیت کا جوہر یہ ہے کہ انسان مخالف قوتوں کا مردانہ وار مقابلہ کرے اور انہیں اپنا خادم بنالے۔‘‘

    ڈاکٹر اقبال ہندوستان کے ان چند فاضلوں میں سے تھے جنہیں افلاطون پر تنقید کرنے کا حق تھا لیکن ان کی تنقید پر غور کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ افلاطون کے نظریۂ اعیان کو سمجھ لیا جائے۔ جہاں تک مجھے علم ہے علامہ اقبال پر لکھنے والوں نے بالاتفاق اعیان کے بیان سے گریز کیا ہے۔

    افلاطون اعیان کا ا س طرح قائل ہوا کہ وہ ابتدا میں ہر قلیطوس ۱، کے ایک نظریہ سے متاثر ہوکر شک میں پڑگیا تھا جس سے آخر اسے سقراط نے نجات دلائی۔ ہر قلیطوس کا نظریہ یہ تھا کہ ہر وقت تمام چیزیں بدلتی رہتی ہیں۔ فطرت ایک بہتے ہوئے چشمے کے مانند ہے۔ ہم ایک دریا میں دوبارہ قدم نہیں رکھ سکتے۔ کیونکہ جس پانی میں پہلی بارقدم رکھاتھا وہ بہ گیا اور اس کی جگہ دوسرے پانی نے لے لی۔

    (۱) ہر قلیطوس شہر افیس کا باشندہ تھا۔ اس کا زمانہ پانچویں صدی قبل مسیح ہے۔ اس مضمون کی تحریر کے وقت نیرنگِ خیال کا اقبال نمبر اور سی، جی ویب کی تاریخ فلسفہ پیش نظر ہے۔

    اس نظریے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جب کوئی شے اپنی حالت پر قائم نہیں رہتی تو اس کا علم کیونکر ممکن ہے۔ جو دعویٰ بھی کیا جائے گا وہ کہنے والے کے منہ سے لفظ نکلنے کے ساتھ ہی غلط ہوجائے گا۔ کیونکہ وہ چیزیں، جن کے متعلق علم حاصل کیا گیا یا دعویٰ کیا گیا ہے، اتنے عرصے میں بدل چکی ہوں گی۔ اس کے علاوہ گیتا کی طرح سوفسطائیوں کا بھی یہ عقیدہ تھا کہ خیر و شر کوئی حقیقی چیزیں نہیں ہیں بلکہ محض رواجی اور اعتباری ہیں ایک ہی بات جو ایک جگہ خیر ہوتی ہے دوسری جگہ شر ہوتی ہے۔

    آخر افلاطون کو سقراط نے بتایا کہ خیر و شر عدالت و شجاعت وغیرہ کے مستقل اعیان ہیں اور ان چیزوں کی تعریف کا مطلب یہ ہے کہ ان اعیان کو ظاہر کیا جائے۔ یہ اعیان حواسِ جسمانی کے معروض نہیں ہیں۔ حواسِ جسمانی کے ذریعے سے کسی خاص موقع پر ہمیں کسی خاص شخص یا خاص چیز کا ادراک ہوسکتا ہے۔ اس ادراک سے ہمیں یہ خیال ہوتا ہے کہ ہم نے اس عین کو پہچانا جس سے ہم واقف ہیں لیکن یہ عین خود حواس کا معروض نہیں بلکہ فہم کا معروض ہے۔ محسوس اشیا کا عالم ہر وقت بدلتا رہتا ہے۔ اس لیے اس کے متعلق جو کچھ کہا جاتا ہے وہ کبھی مستقل طور پر صحیح نہیں ہوتا، لیکن اس عالم کے ساتھ ساتھ ابدی صوریا اعیان کا عالم ہے جن کے متعلق ہمیں صحیح معنی میں علم حاصل ہوسکتا ہے۔

    کہا گیا ہے کہ سقراط نے اس نظریے کو صرف اخلاقیات تک محدود رکھا تھا لیکن افلاطون نے یہ سلسلہ آگے بڑھایا کیونکہ یہ جاننے کے لیے فلاں فعل قرینِ عدالت ہے یا نہیں، ہمارے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ عدالت کیاشے ہے۔ جس طرح یہ سمجھنے کے لیے کہ خط ’’ا، ب‘ سیدھا ہے یا خطوط ’’ا، ب، اور ج، د‘‘ برابر ہیں۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ سیدھا ہونااور برابر ہوناکیا شے ہے۔ یہاں بھی ایک عین ثابت ہے جس کا وقوف حواس کے ذریعے سے نہیں بلکہ عقل و فہم کے ذریعے سے ہوتا ہے اور جب ہم اس کا تذکرہ کرتے ہیں تو تذکرے کے دوران میں اس میں تبدیلی بھی نہیں ہوتی۔

    سقراط اس کوشش میں تھا کہ ہمارے اخلاقی احکام و آراء کے لیے کوئی ایسی مستقل شے مل جائے جو رواج اور حالات کے تابع نہ ہو، اس کوشش میں اس نے اعیان کا انکشاف کیا اور یہی اعیان سقراط کے بعد افلاطون کے فلسفے کا اصلِ اصول بنے۔ انہیں افلاطون مثل یا تصورات کہتا ہے۔

    تصور کے معنی عموماً یہ سمجھے جاتے ہیں کہ کوئی شے ذہن میں موجود ہے، لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ اس تصور کے مطابق خارجی عالم میں بھی کوئی شے پائی جائے۔ ممکن ہے کہ پائی جائے اور ممکن ہے کہ نہ پائی جائے۔ لیکن افلاطون کے نزدیک تصور کے معنی مثال کے ہیں۔ یعنی کسی شے کی محض خارجی شکل نہیں بلکہ اس کی اصلی ہیئت یا نوعیت جو معروض حواس نہیں بلکہ معروضِ فہم ہے، اور جو محض خیال ووہم اور ایسی شے نہیں ہے جس کا وجود صرف ذہن ہی میں ہو بلکہ ایسی شے جس کا خیال دوہم ہوتا ہے مگر اس کا وجود ہمارے خیال کرنے پر مبنی نہیں ہوتا۔

    افلاطون کے اعیان یا تصورات وہ مستقل صورتیں ہیں جن پر کائنات کی حقیقت باطنی مشتمل ہوتی ہے۔ اعیان نہ پیدا ہوتے ہیں۔ نہ فنا ہوتے ہیں، اور نہ ان پر زمانہ گزرنے کا کوئی اثر ہوتا ہے۔ اعیان کاعالم ہمیشہ رہنے والا ہے اور ہمارے اس محسوس عالم کی اصل ہے۔ افلاطون کے نزدیک ان غیرمتغیر اور ابدی اعیان کے سمجھنے ہی کا نام فلسفہ ہے۔ اعیان متعدد ہیں اور ان میں باہمی تعلق نہیں ہے۔

    افلاطون کے اعیان کلیات ہیں وہ شخصی یا جزئی مثال کا قائل نہ تھا۔ یہ دعویٰ فلاطینوس۱، نے کیا کہ کل بنی نوع انسان کے لیے ہی نہیں بلکہ ہر انسان کے لیے ایک علیحدہ عینِ ثابت، صورت یامثال ہوتی ہے۔ یہ بات اس سے پہلے افلاطون یا ارسطو نے نہیں کہی تھی۔

    (۱) فلاطینوس تیسری صدی عیسوی کا نو افلاطونی فلسفی ہے۔ نوافلاطونی تیسری اور چوتھی صدی عیسوی کے ان فلسفیوں کو کہتے ہیں جنہوں نے الٰہیات پر افلاطون کے نظریات کی تقلید میں غور و فکر کی تھی۔ وہ اپنے زمانے میں فلاطونی کہلاتے تھے۔ مگر چونکہ ان کے اور افلاطون کے نظریات میں کوئی مشابہت نہ تھی۔ اس لیے بعد کے ناقدین ان کو نوفلاطونی کہتے ہیں۔

    اس وضاحت کے بعد یہ بات آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ اعیان کا نفی خودی سے کتنا تعلق ہے۔ اعیان کانظریہ تو دراصل نفی محض یا اور اس قسم کے دوسرے منفی نظریوں کے خلاف ہے۔ کیونکہ اعیان کے اقرار میں یہ دعویٰ مضمر ہے کہ عالم بے حقیقت اور سراب نہیں ہے، بلکہ محسوسات اور مشاہدات کے پس پردہ حقائق موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جدید فلاسفہ میں سے برکلے اور ہیوم آثار و مظاہر کے پس پردہ اعیان کا وجود نہیں مانتے، اور ان فلسفیوں کا زبردست ناقد کانٹ اعیان کا قائل ہے۔ اس کا خیال ہے کہ ان مظاہر کے پس پردہ اعیان کا وجود ہے۔ فلسفے کامطالعہ کرنے والے یہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ برکلے مادی عالم اور خود مادے کے وجود کاقائل نہیں ہے۔ اور اسی کے دلائل سے کام لے کر ہیوم نے غیرمادی حقائق کا بھی انکار کیا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں اعیان کے قائل نہیں ہیں۔ ترکِ عمل ’’رہبانیت‘‘ اور ہنگامہ موجود سے انکار کاتعلق بھی اعیان کے نظریے سے سمجھ میں نہیں آتا۔ رہی یہ بات کہ اعیان نامشہود ہیں۔ اور اس لیے افلاطون نامشہود کا قائل تھا صحیح معلوم ہوتی ہے۔ لیکن یہ بات علامہ کے علاوہ کوئی اور کہتا تو بہتر تھا، کیونکہ علامہ مذہب کے قائل ہیں، اور کوئی بھی مذہب نامشہود پر اعتقاد رکھنے سے گریز نہیں کرسکتا۔ ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری نے اسرارِ خودی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے،

    ’’تصوف کے رویتِ حق اور افلاطون کے نامشہود میں مماثلت ہے۔ صوفیوں کا رقصِ مستانہ نقل ہے فلاطونی روح کی جو ایک متحرک دائرہ ہے اپنے مرکز قدیم کے گرد اوربس، اور یہ مرکز خدا کے سوا اورکوئی نہیں۔‘‘ (نیرنگ خیال۔ اقبال نمبر)

    اس قسم کی مماثلت بیان کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ڈاکٹر بجنوری نے تصوف اور افلاطون کے نظریات میں مماثلت تلاش کرنے کی کوشش نہ فرمائی۔ بجنوری صاحب کے علم میں یہ بات ضرور ہوگی کہ رقصِ مستانہ کا تصور سے کوئی علاقہ ہے بھی یا نہیں۔ اور یہ کہ رقصِ مستانہ کب سے صوفیوں میں افلاطون کی متحرک روح کی نمائندگی کر رہا ہے۔ رویت حق کے بارے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس عقیدے کاتعلق محض تصور سے نہیں ہے۔ بلکہ یہ سوال صحابہ کے زمانے میں قرآن کی آیات کی تشریح کے سلسلے میں پیداہوچکا تھا۔ صوفیوں میں اس مسئلے کی نوعیت اہل ظاہرِ سے زیادہ مختلف نہیں ہے، اگر ہے تو اتنی کہ علمائے ظاہر دنیا میں خداکو نامشہور سمجھتے ہیں، اور آخرت میں مشہود اور صوفی دونوں جگہ مشہود سمجھتے ہیں،

    ہر کہ ایں جانہ دید محروم است

    در قیامت زدولتِ دیدار

    عطاؔر

    خود علامہؔ اقبالؔ رویت حق کے قائل ہیں فرماتے ہیں،

    سید کل صاحب ام الکتاب

    پردگیہار ضمیرش بے حجاب

    گرچہ عینِ ذات رابے پردہ دید

    ربِّ زدنی از زبانِ اوچکید

    علامہ اقبالؔ نے ’’حکم اوبر جانِ صوفی محکم است‘‘ کہہ کر غالباً اس طرف اشارہ کیا ہے کہ نفی خودی میں صوفی افلاطون کے ہم خیال ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ علامہ کا اشارہ اس طرف ہو کہ صوفی ابنِ عربی کی تقلید میں اعیانِ ثابتہ کے قائل ہیں۔ اعیانِ ثابتہ اور نفی خودی کے نظریوں میں صوفیوں اور افلاطون کے اشتراک کے بعد ڈاکٹر بجنوری کو اس دوراز کار تاویل کی ضرورت ہی نہ تھی کہ صوفیوں کا رقصِ مستانہ اور دیدارِ خداوندی کا عقیدہ افلاطون کی روحِ متحرک اور اعیانِ نامشہود سے مماثل ہے۔

    صوفیوں کی نفی خودی کا بیان علیحدہ ہوچکا ہے اس مقام پر یہ معلوم کرنا کافی ہوگا کہ ابنِ عربی کے اعیانِ ثابتہ اور افلاطون کے اعیان میں کچھ وجہ اشتراک ہے یا نہیں۔

    یہ کہنا مشکل ہے کہ افلاطون کے اعیان ابنِ عربی کے اعیانِ ثابتہ کے مانند ہیں یا عالمِ مثال کے؟ علامہ شبلی نے ابونصر فارابی کا ذیل کا قول نقل کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ افلاطون کا نظریہ اعیان ثابتہ سے مشابہ ہے نہ کہ مثال کے ابونصر فارانی نے ’’الجمع بین الرائین‘‘ میں کہا ہے،

    ’’مشہور ہے کہ افلاطون عالمِ مثال کا قائل تھا۔ یعنی جو چیزیں ہمارے اس عالم میں موجود ہیں اس قسم کی تمام چیزیں ایک اور عالم میں موجود ہیں صرف فرق یہ ہے کہ یہ مادی ہیں اور وہ غیرمادی، اور ان کو کبھی زوال نہ ہوگا لیکن یہ غلط ہے۔ افلاطون اس بات کا قائل تھا کہ تمام عالم میں جو کچھ موجود ہے یا آئندہ ہوگا وہ علم باری میں موجود ہے، جس طرح ایک کاریگر کے ذہن میں اس کا مکان کانقشہ موجود ہوتا ہے جس کو وہ بنانا چاہتا ہے۔‘‘ (علم الکلام، ص۱۷۹)

    اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ ابن عربی کے اعیانِ ثابتہ افلاطون کے اعیان کے ہم معنی ہیں، اور دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے۔ تو یہ قیاس صحیح قرار دیا جائے گا کہ اعیانِ ثابتہ کا نظریہ افلاطون کے اعیان سے ماخوذ ہے۔ قیاس یہ ہے کہ جس طرح ابنِ عربی نے دوسرے رائج الوقت مذہبی اور فلسفی نظریات کو قبول تسلیم کرتے ہوئے ان سے اپنے نظریہ وجود کے اثبات میں کام لیا ہے۔ اسی طرح اعیان کے نظریے کو بھی قبول کرکے اپنے مقصد کے اثبات میں کام لیا ہے۔ ان کا مخصوص نظریہ وحدۃ الوجود ہے جسے وہ قرآن و حدیث سے بھی ثابت کرتے ہیں، اور فلسفیانہ نظریات سے بھی۔ وہ عقلی اور نقلی مواد سے یکساں فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ان کا مخصوص نظریہ وحدۃ الوجود ہے جسے وہ قرآن و حدیث سے بھی ثابت کرتے ہیں، اور فلسفیانہ نظریات سے بھی۔ وہ عقلی اور نقلی مواد سے یکساں فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ان کا مقصود ان نظریات پر نقد و تبصرہ نہیں ہوتا۔ بلکہ جو نظریات اور معتقدات کہ ان کے زمانے میں دماغوں اور دلوں پر قبضہ کیے ہوئے ہوں اور ان سے اپنا کام لے لیتے ہیں۔

    مجدد صاحب (شیخ احمد سرہندی) نے بھی ابنِ عربی سے مخالفت کے باوجود اعیانِ ثابتہ کو تسلیم کیا ہے۔ اور خود علامہ اقبالؔ بھی اس اصول کو اس شکل میں تسلیم کرتے ہیں،

    ’’عالم جیسا کہ پہلے کہا جاچکا ہے خدا کے حریف غیر کی حیثیت سے موجود نہیں ہے۔ عالم ایک آزاد غیر کی حیثیت سے جب ہی ظاہر ہوسکتا ہے جب ہم عملِ تخلیق کو خدا کی تاریخِ حیات میں ایک اہم اور ممتاز واقعہ تسلیم کریں۔ ایک انائے محیط کے نظریے سے کوئی غیر نہیں ہے۔ اس میں تصور اور عمل، جاننے کا عمل اور تخلیقی عمل، سب ایک حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘

    ’’خدا کا تصور اور عبادت کے معنی‘‘ (ازخطباتِ اقبال)

    اسی بات کو ابنِ عربی نے فصِ عیسوی میں اس طرح فرمایا ہے،

    و کنافیہ اکوانا

    واعیانا وازمانا

    یعنی ہم علم حق میں اعیانِ ثابتہ اور عالمِ ارواح میں اکوان اور اس صورتِ انسانی تک پہنچنے میں زمانہ اور دہر تھے۔‘‘

    اعیان عین کی جمع ہے۔ ابنِ عربی نے اکثر عین کا لفظ وجودِ خارجی کے معنی میں استعمال کیاہے۔ اعیانِ ثابتہ مختلف ہے الاعیان الثابۃ فی العلم کا، یعنی وہ موجوداتِ خارجی جو علمِ الٰہی میں اپنے خارج میں موجود ہونے سے پہلے موجود تھے۔ اللہ تعالیٰ اپنے ازلی علم سے جزئی اور کلی حقیقتوں سے واقف ہے۔ کسی شے کے علم کے معنی یہ ہیں کہ وہ شے علم میں موجود ہے۔ اس طرح تمام چیزیں علمی وجود رکھتی ہیں۔ یہ اعیان مصباتِ خارجی کی حقیقت ہیں لیکن خود خارج میں موجود نہیں ہیں، اسی اعتبار سے اعیان کو عدم اضافی کہا جاتا ہے۔ یعنی ان کا وجود عالمِ خارجی میں نہیں ہے، اور خارج کے اعتبار سے یہ عدم ہیں۔ اسی معنی میں ابنِ عربی نے فرمایا ہے،

    الاعیان ماشمت رائحۃ الوجود

    اعیان نے وجود (خارجی) کی بو بھی نہیں سونگھی۔ اس کا مطلب یہ کسی طرح بھی نہیں ہوسکتا کہ اعیان یعنی خدا کا علم یا صور علمی معدوم ہیں، اور وجودِ خارجی کی حقیقت عدم ہے۔ کیونکہ اس نظریے کی رو سے عالم خارج میں جو کچھ ہے وہ ان اعیان کا ظہور ہے جو علمِ الٰہی میں موجود ہیں۔ اور وجودِ مطلق نے اعیان کے آثار و احکام کے مطابق ظہور کیا ہے۔ اسی طرح تمام چیزیں اس مرتبے میں حق کے علم کی صورتیں ہیں اور اس لیے عین حق ہیں۔

    مثال دینے کے لیے کہا گیا ہے کہ اعیانِ ثابتہ حق تعالیٰ کا آئینہ ہیں، اور عالمِ خارجی گویا اس وجود کاعکس ہے جو آئینے میں ظاہر ہوا ہے۔ اس عکس کو اسی مشابہت کی وجہ سے سایہ کہتے ہیں، کہ جس طرح سایہ روشنی سے ظاہر اور محسوس ہوتا ہے۔ اور اگر روشنی نہ ہو تو بذاتِ خود سایہ معددم۔ اسی طرح عالم بھی وجودِ حق تعالیٰ کے نور سے ظاہر اور روشن ہے۔

    یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس نظریے میں اور مسلکِ ظل میں فرق ہے۔ مسلکِ ظل ایک مستقل نظریہ ہے جس کو محققین کی تائید حاصل نہیں ہے۔ اس لیے اس کا بیان غیرضروری ہے۔

    بعض لوگ اس قسم کی مثالوں اور ابن عربی کے اس قول سے، کہ اعیان نے وجود کی بو بھی نہیں سونگھی، یہ رائے قائم کرلیتے ہیں کہ ابن عربی بھی عالم کو وہم مانتے ہیں۔ اور اس طرح مجدد صاحب (شیخ احمد سرہندی) اور ویدانت کانظریہ اور ابن عربی کا نظریہ ایک ہی ہے۔ یہ بات یا تو وہ اصحاب کہتے ہیں جو ابنِ عربی کے نظریات سے پوری طرح واقف نہیں ہیں، اور یا وہ لوگ کہتے ہیں جو نظریہ شہود (مجدد صاحب کا نظریہ) اور نظریۂ وجود (ابن عربی کا نظریہ) ہیں صلح کرانے کی مومنانہ کوشش کرتے رہتے ہیں۔

    اول تو عدم اور وہم ایک شے نہیں ہے۔ عالم کو عدم کہہ دینے کے بعد بھی یہ سوال ہوسکتا ہے کہ اگر عالم عدم محض ہے تو یہ کثرت جو ہمیں محسوس ہوتی ہے کیا ہے۔ اس کے جواب میں جس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ سب وہم اور نظر کا دھوکا ہے جیسا کہ مجدد صاحب اور شنکر نے کہا ہے اسی طرح یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ حق ہے، جس طرح ابنِ عربی اور دوسرے محققین نے کہا ہے۔

    عالم کو عدم اس معنی میں کہا گیا ہے کہ یہ کثرتِ محسوس اورمغائرتِ معقول جسے عالم کہا جاتا ہے حق کے سواکچھ نہیں ہے۔ الحق محسوس و الخلق معقول۔ یعنی محسوسات کا عالم حق بھی ہے اسے خلق سمجھنا صرف ذہنی دھوکا ہے۔ اسی قول کا ترجمہ اقبال نے کس خوبصورتی سے کیا ہے،

    بہ بزمِ ماتجلی باست بنگر

    جہاں ناپید داد پید است بنگر

    (زیر تصنیف کتاب ’’نقدِ اقبال‘‘ کے چند صفحات)

    مأخذ:

    Adab E Lateef November 1951-SVK (Pg. 21)

      • ناشر: چودھری برکت علی
      • سن اشاعت: 1951

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے