Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

افسانہ نگار پریم چند: تکنیک میں IRONY کا استعمال

گوپی چند نارنگ

افسانہ نگار پریم چند: تکنیک میں IRONY کا استعمال

گوپی چند نارنگ

MORE BYگوپی چند نارنگ

    یہ مضمون میں اعتذار کے طور پر نہیں لکھ رہا ہوں بلکہ یہ احساس اس کا محرک ہے کہ پریم چند کے انتقال کے چوالیس پینتالیس سال بعد بھی لوگوں نے پورے پریم چند کو قبول نہیں کیا۔ پریم چند کے ایک پارکھ رادھا کرشن نے ایک جگہ لکھا ہے، ’’اپنے عہد میں بنگلہ میں شرت چندر چٹوپادھیائے اور ہندی میں پریم چند بہت مشہور تھے۔۔۔‘‘ شرت چندر بنگالی ادب میں اچانک آئے اور چھا گئے۔ شرت چندر کا بنگالی ادب میں آنا ایک حادثہ تھا، بنگالی زبان بولنے والوں نے یکایک شرت چندر کو اپنے سامنے پایا اور خوشی خوشی انھیں اپنی ہتھیلی پر اٹھا لیا۔

    اس کے برعکس ہندی ادب کی دنیا میں پریم چند کسی حادثے کی طرح نہیں آئے، وہ اپنی جانفشانی اور غیرمعمولی ریاضت کے ذریعے ہی دنیائے ادب میں داخل ہوئے۔۔۔ ہندی ادب کی دنیا میں پریم چند کو جتنی عزت ملنی چاہیے تھی اتنی ان کی زندگی میں نہیں مل سکی، ایک طرف تو انھیں ’’اپنیاس سمراٹ‘‘ یعنی ’’کہانیوں کا شہنشہاہ‘‘ کا خطاب دیا جاتا تھا۔ دوسری طرف انھیں تاش کے بادشاہ سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ ان کی موت کے بعد ہی لوگوں نے ان کی طرف خاطر خواہ توجہ دی۔‘‘

    یہ ایک ہندی ادیب کے الفاظ ہیں جو ۱۹۷۸ء کی شائع شدہ کتاب میں ملتے ہیں۔ پریم چند کے بارے میں اول تو ہندی، اردو کی کشاکش ہی دور نہیں ہوئی۔ زیادہ تر ہندی والے اردو پریم چند سے ناواقف ہیں اور زیادہ تر اردو والے ہندی پریم چند سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے، حالانکہ پریم چند کی شخصیت اور ان کے فن کو ان کی ابتدائی تربیت، تصنیف وتالیف کے اردو پس منظر اور اردو زبان کے شعوری اور غیرشعوری اثرات کے بغیر سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔ اسی طرح ہندی کی طرف ان کا جو جھکاؤ ہوا اور اپنے تخلیقی اظہار کے لیے بعد میں انھوں نے جس طرح ہندی کو اختیار کیا تو لامحالہ اردو میں بھی پورے پریم چند کو ان کے ہندی میلان واظہار کے بغیر سمجھانا ناممکن ہے۔ ابھی تک کوئی ایسا اعلیٰ تنقیدی کارنامہ نظر نہیں آتا جو پریم چند کی اردو ہندی شخصیت سے پوری غیرجانب داری اور علمی معروضیت کے ساتھ انصاف کرتا ہو۔

    دوسرے یہ کہ ایک زبان کے دائرے میں رہ کر پریم چند کے بارے میں بنیادی امور تک پر اتفاق نہیں۔ ہندی والوں میں اس بارے میں جو جھگڑے ہیں ان کا تو ذکر ہی کیا، اردو میں جو صورت حال ہے وہ بھی کچھ کم افسوسناک نہیں۔ لوگوں نے پریم چند کو ٹکڑے ٹکڑے کر رکھا ہے اور اس کے حصے بانٹ لیے ہیں۔ کم از کم پریم چند صدی کے موقع پر تو یہ توقع کی جا سکتی تھی کہ پریم چند کے ماہرین ہر طرح کے ذہنی تحفظات اور تعصبات سے ہٹ کر پورے پریم چند کو پیش کرتے۔ پریم چند کے ایک قاری کی حیثیت سے یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ پریم چند کی ذات، شخصیت اور فن کی افہام وتفہیم طرح طرح کے سیاسی، نیم سیاسی، مذہبی، سماجی اور لسانی تعصبات کا شکار ہے اور ان تعصبات کو بجائے کم کرنے کے روز اور بھڑکایا جاتا ہے۔ فن کار پریم چند کیا تھے کیا نہیں تھے، اس بات کو یاروں نے زیادہ تر فراموش کر دیا اور زورِ بیان صرف ہوتا ہے تو اس پر کہ ان کی سیاسی، نظریاتی اور مذہبی وابستگی کیا تھی؟ یعنی پریم چند اور مصلح پریم چند، تخلیقی پریم چند سے زیادہ اہم قرار پا چکے ہیں۔

    قدرتی طورپر ایسی بحثوں میں پریم چند کے دیباچوں، ان کے خطوط، مضامین اور بیانات سے زیادہ سے زیادہ مدد لی جاتی ہے اور پریم چند کی تخلیقات سے کم سے کم۔ یہ طریقۂ کار چونکہ بنیادی طور پر غیرادبی ہے اس لیے اس کا رد عمل بھی خاصی شدت سے ہوا ہے، چنانچہ ادھر چند برسوں سے یہ ہورہا ہے کہ کچھ دوستوں نے پریم چند کو اپنی سیاسی جاگیر تصور کر لیا ہے اور اس کی تعریف کے جملہ حقوق اپنے نام لکھوا لیے ہیں اور باقی پوری دنیا سے یعنی ہنستی کھیلتی، دکھ سکھ، اونچ نیچ، سیاہی وسفیدی، انکار واقرار اور ردو قبول کی تخلیقی دنیا سے، جہاں فن کار اپنے ایمان پر بھی سوالیہ نشان قائم کرتا ہے یا خدایا ایشور کے حضور میں بھی گستاخی کرتا ہے، یا ہستی کی بڑی سے بڑی صداقت کو بھی حلقۂ دام کے دھندلکے میں ڈوبتا ہوا دیکھ سکتا ہے، پریم چند کے ان نادان دوستوں نے پریم چند کا رشتہ اس ساری ’بدعقیدہ‘ دنیا سے منقطع کر دیا ہے۔

    اب چونکہ فیصلہ فقط دیے ہوئے نظریات اور عقائد کی بنا پر ہونا طے پا چکا ہے اس لیے پریم چند دنیا کے عظیم سے عظیم فن کار سے بھی زیادہ عظیم ہیں۔ وہ سر تا پا اشتراکی اور انقلابی ہیں۔ ان میں سب حق ہی حق، خیر ہی خیر اور حسن ہی حسن ہے۔ ان کی کوئی کمزوری یا خامی، کمزوری یا خامی نہیں ہے۔ دوسرے سوچتے ہیں کہ اگر پریم چند واقعی یہی ہیں تو اس پریم چند سے ان کا کوئی معنوی رشتہ نہیں۔ شاید پریم چند کی روح کو بھی اس صورت حال سے تکلیف ہوتی ہوگی یا اگر انھیں اس دنیا کی سیر کا موقع ملے تو شاید وہ اپنی اس صورت کو پہچان بھی نہ سکیں جو بعض نیم سیاسی ادبی بین الاقوامی کانفرنسوں یا سمیناروں میں پیش کی جاتی ہے۔

    اجارہ داری اور نظریہ پرستی کا ایک برا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ بعض دلوں میں پریم چند کے بارے میں للّٰہی بغض راہ پاگیا ہے اور لے دے کر اگر پریم چند کا ذکر ہوتابھی ہے تو صرف ’کفن‘ کی حد تک یاکسی نے بہت فیاضی دکھائی تو ’’گئو دان‘‘ پر کرم کردیا۔ الاکفن وگئودان، پورا پریم چند حرف غلط ہے، وہ عینیت پرست اور آدرش وادی تھے، انھیں فن کا کوئی شعور نہیں تھا، وہ انسانی نفسیات سے ناواقف محض تھے، ان کی حقیقت نگاری سطحی اور بچکانہ ہے، ان کی اصلاح پسندی اور اخلاقیت ہر جگہ حاوی رہتی ہے اور اعلیٰ فن کار کا منصب ادا کرنے سے انھیں روکتی ہے، مختصر یہ کہ کون سا عیب ہے جو پریم چند میں نہیں دکھایا جاتا؟

    ظاہر ہے کہ یہ رجحان سر تا سر منفی اور اتنا ہی غیرادبی ہے جتنا پہلا۔ اگر پہلا رجحان ذہنی تحفظات کی دین ہے وکالت اور غیرمشروط تعریف وتحسین کی حد تک، تو دوسرا بھی ذہنی تحفظات کا پروردہ ہے انکار وتردید اور عیب جوئی کی حد تک۔ اصل پریم چند کیا تھے؟ اردو ہندی فکشن کی روایت کی تعبیروتشکیل میں ان کا کتنا زبردست حصہ ہے، ان کی دین، اہمیت اور معنویت کیا ہے، اس سے ہم صرف یہ کہہ دامن نہیں چھڑا سکتے کہ وہ اردو ہندی افسانے کے جنم داتا ہیں اور بس۔ زیر نظر مضمون کا مقصد پورے پریم چند کا تعارف کرانا نہیں، نہ ہی پریم چند کی اہمیت، دین اور معنویت کے تمام پہلوؤں سے بحث کرنا ہے، یہ کام تو پریم چند کے ماہرین کاہے۔ میرا مقصد صرف اس احساس کو اجاگر کرنا ہے کہ پریم چند سے اس وقت تک انصاف نہیں کیا جا سکتا جب تک نظریات اور رد نظریات کے خارجی اور غیرادبی دباؤ سے ہٹ کر فن کار پریم چند پر توجہ مرکوز نہ کی جائے۔

    فن کار پریم چند اس صدی کے کروٹ بدلتے ہی نمودار ہوا اور چھتیس برس تک شب وروز کی جگر کاوی سے اس نے اردو ہندی افسانے اور ناول کی کشتِ ویراں کو سرسبزوشاداب کیا اور اسے ایسی بہار سے ہمکنار کیا ہے جس کے جلوۂ صد رنگ کی رنگینی روز بروز بڑھ رہی ہے۔ کسی بھی فنکار کے یہاں ہر تخلیق ایک پایے کی نہیں ہوتی اور نموپذیر ادیبوں میں ذہنی ارتقا برابر ملتا ہے۔ پریم چند چونکہ کم عمری میں رخصت ہو گئے، اس لیے لازمی طور پر ان کے آخری برسوں کی تخلیقات فن کے بہتر نمونوں کو سامنے لاتی ہیں۔ ان کی زیادہ تر خامیوں اور کمزوریوں کا تعلق ان کے فن کی ابتدائی منزلوں سے ہے۔

    روایت ہے کہ ’’پریم چند کی خواہش تھی کہ ان کی ہندی کہانیوں کے پہلے مجموعے ’’سپت سروج‘‘ کا دیباچہ شرت بابو لکھ دیں۔ اس کے لیے انھوں نے کلکتے کا سفر کیا اور شرت بابو سے ملے۔ کہا جاتا ہے ان کی کہانیاں سن کر شرت بابو بہت متاثر ہوئے اور کہا، بنگالی زبان میں روی بابو کو چھوڑکر دوسرا کوئی بھی شخص ایسی کہانیاں نہیں لکھ سکتا۔ کم سے کم میں آپ کی کہانیوں کا دیباچہ لکھنے کے لائق نہیں ہوں۔‘‘ عام طور سے ہندی اردو نقاد اس واقعہ کو پریم چند کے فن کی تحسین کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے یہ پریم چند کے اس زمانے کے فن پر بہترین تنقید ہے۔ شرت بابو غیرمعمولی فنکار تھے۔ ان کا انکار محض انکسار کی وجہ سے نہ ہوگا۔ گمان ہے کہ اس میں ذہنی عدم قربت کا احساس بھی شامل رہا ہوگا۔

    کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پریم چند شہاب ثاقب نہیں تھے۔ ان کے فن نے کلی کی طرح کم کم کھِلنا اور ہواؤں کے تھپیڑے کھاکر اور اوس کی بوندوں سے نہاکر دھیرے دھیرے پھول بننا سیکھا تھا۔ پریم چند کے تخلیقی سفر میں پختگی کی طرف بڑھنے کا تدریجی عمل ملتا ہے۔ انھوں نے دھرتی میں بیج ڈالا اور برسوں اس کی آبیاری کی۔ یہ ایک دقت طلب، صبر آزما اور حوصلہ مندانہ عمل تھا جس کی مثالیں پریم چند کے تخلیقی سفر میں جگہ جگہ مل جاتی ہیں۔

    یہاں میں اس بات پر اصرار کرنا چاہتا ہوں کہ ’’کفن‘‘ جیسا افسانہ پریم چند کے فن کی تاریخ میں حادثے کی حیثیت نہیں رکھتا۔ اس کی جڑیں ان کی تخلیقات میں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ یہاں اپنی بات کو واضح کرنے کے لیے پہلے میں ’’کفن‘‘ کا مختصراً ذکر کروں گا، اس کے بعد بعض دوسری کہانیوں سے بحث کروں گا تاکہ ’’کفن‘‘ کی فنی جڑیں جو پریم چند کے تخلیقی اور ذہنی سفر میں دور دور تک چلی گئی ہیں، ان کی طرف توجہ مبذول کرا سکوں۔

    شروع شروع میں پریم چند پر داستانوں کا اثر تھا، پھر ایک دور راجپوتیت کا گزرا۔ (’’رانی سارندھا‘‘، ’’گناہ کا اگن کنڈ‘‘، ’’راجا ہردول‘‘) اس دور کی تجرباتی کہانیوں کے بعد ایسے فن پارے جگہ جگہ چمک جاتے ہیں جہاں انسانی نفسیات سے ان کی واقفیت اور حقیقت کی ماہرانہ پیش کش پر پریم چند قادر نظر آتے ہیں۔ طوالت کے خوف سے یہاں صرف افسانوں سے استصواب کیا جائےگا، اور افسانوں میں بھی صرف چند ہی پر نظر ڈالی جا سکےگی تاکہ واضح ہو کہ پریم چند کی اعلیٰ تخلیقیت کا سلسلہ ان کی کہانیوں میں دور دور تک پھیلا ہوا ہے۔

    یہاں ’’کفن‘‘ کا تفصیلی تجزیہ مقصود نہیں۔ ’’کفن‘‘ کے بارے میں یہ معلوم ہے کہ اس میں حقیقت کی ترجمانی نہایت بے رحمی اور سفاکی سے کی گئی ہے، لیکن جو حضرات اس کہانی کو تمثیلی سطح پر سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں، یعنی ولادت سے مراد آنے والی نسلیں یا زمانہ ہے، درد زہ میں کراہتی ہوئی عورت افریقی ایشیائی سماج ہے یا تاڑی کا نشہ انقلاب کا جنون ہے تو ایسی تنقید سے زیادہ سے زیادہ ہمدردی یہ کی جا سکتی ہے کہ اسے غیرعلمی معصومانہ کوشش سمجھ کر نظرانداز کر دیا جائے۔ یہ حضرات یہ نہیں جانتے کہ پوری کہانی کی جان حالات کی وہ Irony (ستم ظریفی) ہے جس نے انسان کو انسان نہیں رہنے دیا اور اسے Debase اور Dehumanise کر دیا ہے۔ کفن کے فنی کمال اور اس کی معنویت کا نقش ابھارنے کے لیے اسے تمثیلی طور پر نہیں بلکہ Irony کی سطح پر پڑھنے کی ضرورت ہے۔ Irony میں لفظوں کے وہ معنی نہیں ہوتے جو بادی النظر میں دکھائی دیتے ہیں، بلکہ ان میں صورت حال میں مضمر المیے پر یا آنکھوں سے اوجھل حقیقت کے کسی دردناک پہلو پر طنزیہ وار مقصود ہوتا ہے۔

    اونچی ذاتوں اور صاحب اقتدار طبقے نے جس طرح انسان کا استحصال کیا ہے اور اس کی روح کو نچوڑ کر اس کو عام انسانی حس تک سے محروم کر دیا ہے یا حیوان کی سطح پر جینے کے لیے مجبور کیا ہے، یہ کہانی اس کی دردناک طنزیہ تصویر ہے۔ صورت حال کی دردناکی اور اس کی طنزیہ پیشکش شروع ہی سے سامنے آ جاتی ہے جب جھونپڑے کے اندر جوان بہو، بدھیا دردِ زہ سے پچھاڑیں کھا رہی ہے، لیکن باپ بیٹا دونوں باہر بجھے ہوئے الاؤ کے سامنے خاموش بیٹھے ہیں۔ جاڑے کی تاریک رات میں عورت تڑپ رہی ہے، رہ رہ کر اس کے منہ سے ایسی دل خراش صدا نکلتی ہے کہ دونوں کلیجہ تھام لیتے ہیں، دونوں اس کا درد محسوس کرتے ہیں لیکن اندر جانے کو کوئی تیار نہیں کیونکہ اندیشہ ہے کہ الاؤ میں بھون بھون کر چوری کیے ہوئے جو آلووہ کھا رہے ہیں، دوسرا ان کا بڑا حصہ صاف کر دےگا۔

    اگرچہ یہ کہانی کفایت لفظی کا شاہکار ہے اور ایک سنگین حقیقت کی ترجمانی نہایت کھردرے الفاظ میں کرتی ہے، تاہم گھیسو اور مادھو کی ذہنیت کے عوامل کی وضاحت کرتے ہوئے جو جملے پریم چند نے لکھے ہیں وہ پوری کہانی کی Irony اور طنزیہ اشاریت کے خلاف ہیں کیونکہ بات ان کے بغیر بھی مکمل ہے۔

    چماروں کا یہ کنبہ سارے گاؤں میں بدنام تھا۔ دونوں کام چور تھے۔ اس لیے انھیں کہیں مزدوری نہیں ملتی تھی۔ جب تک دو ایک فاقے نہ ہو جاتے وہ کام یا چوری کے لیے گھر سے نہ نکلتے تھے۔ مادھو کی ’کارکردگی‘ کے بارے میں پریم چند لکھتے ہیں، ’’مادھو سعادت مند بیٹے کی طرح باپ کے نقشِ قدم پر چل رہا تھا بلکہ اس کا نام اور بھی روشن کر رہا تھا۔‘‘ کیونکہ وہ گھنٹہ بھر کام کرتا تو گھنٹہ بھر چلم پیتا۔ Irony کی یہ لہر کہانی کی صورت حال، کرداروں کے رویوں، برتاؤ اور مکالموں اور بیانیہ ہر چیز میں ملتی ہے۔ بیانیہ کا یہ طنز دیکھیے،

    ’’گھر میں دوچار مٹی کے برتنوں کے سوا کوئی اثاثہ نہیں۔ پھٹے چیتھڑوں سے اپنے ننگے پن کو ڈھانکے ہوئے جیے جاتے تھے۔ دنیا کی فکروں سے آزاد، قرض سے لدے ہوئے، گالیاں بھی کھاتے، مار بھی کھاتے مگر کوئی غم نہیں۔۔۔ دونوں سادھو ہوتے تو انھیں قناعت اور توکل کے لیے ضبطِ نفس کی مطلق ضرورت نہ ہوتی۔‘‘

    کہانی کا مرکزی نقطہ بدھیا کی موت ہے۔ اس بے بس ونادار عورت کی موت کا المیہ ایک تاریک سایہ بن کر پوری کہانی پر چھایا رہتا ہے، لیکن سوائے کراہنے کی آواز کے جو رہ رہ کر درد کی ٹیس بن کر ابھرتی ہے، بدھیا کے کسی عمل کی کوئی تفصیل پریم چند نے پیش نہیں کی اور موت کا روح کو جکڑ لینے والا منظر بیان کیا بھی تو بالواسطہ طور پر اور صرف تین سطروں میں،

    ’’صبح کو مادھو نے کوٹھری میں جاکر دیکھا تو اس کی بیوی ٹھنڈی ہو گئی تھی۔ اس کے منھ پر مکھیاں بھنک رہی تھیں۔ پتھرائی آنکھیں اوپر ٹنگی ہوئی تھیں۔ سارا جسم خاک میں لت پت ہو رہا تھا۔ اس کے پیٹ میں بچہ مر گیا تھا۔‘‘

    کہانی کے وسط سے موت کا المیہ اور بیانیہ کی Irony پوری طرح گرفت میں لے لیتے ہیں۔ بعد کا حصہ اسی تاثر کی شدت اور کیفیت کو مزید گہرا کرتا ہے۔ کرداروں کی بے حسی اور بے حیائی اور کھل کر سامنے آتی ہے۔ انسان خواہ کتنا گر جائے، حیوان کی سطح پر زندہ رہنے کے لیے بھی ریاکاری کے بغیر گزارہ نہیں۔ بدھیا جب مر رہی تھی تو دوا دارو تو ایک طرف، باپ بیٹے میں سے کسی نے اندر جاکر ہمدردی یا دلاسے کے دو لفظ نہ کہے اور اب کریا کرم اور کفن کے لیے روپے جمع کرنے کا وقت آیا تو گھیسو زمیندار کے گھر جاتا ہے اور زمین پر سر رکھ کر آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے کہتا ہے،

    ’’سرکار بڑی پبتا میں ہوں۔ مادھو کی گھر والی گجر گئی۔ دن بھر تڑپتی رہی سرکار۔ ساری رات ہم دونوں اس کے سرہانے بیٹھے رہے۔ دوا دارو جو کچھ ہو سکا کیا، مگر وہ ہمیں دگا دے گئی۔ اب کوئی ایک روٹی دینے والا نہیں۔ مالک تباہ ہو گئے۔ گھر اجڑ گیا۔ آپ کا گلام ہوں۔ اب آپ کے سوا کون اس کی مٹی پار لگائے گا۔ ہمارے پاس جو کچھ تھا وہ سب دوا دارو میں اٹھ گیا۔ سرکار ہی کی دیا ہوگی تو اس کی مٹی اٹھےگی۔‘‘

    ساری رات اس کے سرہانے بیٹھے رہنے اور دوا دارو کرنے کی بھی ایک ہی رہی۔ کہانی کا سارا ڈھانچا ہی دراصل طنزیہ ہے اور اسی طرح کے معکوس جملوں سے پریم چند انسانیت کے اس گھناؤنے پہلو کو بے نقاب کرتے چلے گئے ہیں، جس کو براہ راست سیدھے سادے طور پر بیان کر دیتے تو اس میں یہ تاثیر ہرگز پیدا نہ ہوتی۔ ’’مٹی پار لگانے‘‘ کے لیے جو پیسے جمع کیے ہیں، وہ اس ضروری کام میں خرچ نہیں ہوتے۔ کہانی کے Climax کو پریم چند اس طرح بنتے ہیں کہ الاؤ کے گرد بیٹھے ہوئے باپ بیٹے کے آلو کھاتے رہنے اور بدھیا کے کراہ کراہ کر مر جانے سے Irony کا جو سنگین عنصر کہانی میں داخل ہوا تھا، Climax پر آکر وہ بے پناہ ہو جائے۔ ’’مٹی پار لگانے‘‘ کے لیے گھیسو اور مادھو مانگ مانگ کر بالآخر پانچ روپے کی ’’معقول رقم‘‘ جمع کر لیتے ہیں اور کفن لانے کے لیے بازار کا رخ کرتے ہیں۔ یہاں پریم چند بدھیا کی لاش کا ذکر ایک جملے میں اس لیے کر رہے ہیں کہ لاش کا تصور ذہنوں سے محو نہ ہو جائے اور اس سے المیے کی کیفیت ابھارنے اور تضاد کی شدت پیدا کرنے میں مدد ملے،

    ’’گاؤں کی نرم دل عورتیں آ آکر لاش دیکھتی تھیں اور اس کی بے بسی پردو بوند آنسو گراکر چلی جاتی تھیں۔۔۔‘‘

    کہانی کے آخری حصے میں صورت حال کی Irony اپنی انتہا پر یوں پہنچتی ہے کہ کفن کا کپڑا دیکھتے دیکھتے دونوں بجائے کفن خریدنے کے ایک شراب خانے کے سامنے آ پہنچتے ہیں اور ’’گویا کسی طے شدہ فیصلے کے مطابق‘‘ اندر چلے جاتے ہیں۔ گھر میں لاش رکھی ہے اور یہاں دونوں کفن کے پیسوں سے شراب پینے لگتے ہیں، لیکن دونوں کے ذہنوں میں لاش کا تصور ہے، اس لیے اپنے عمل کی وہ طرح طرح سے تاویلیں کرتے ہیں۔ ان مکالموں میں اکثر و بیشتر لفظوں کے معنی معکوس ہیں۔ یہ طنز میں بجھے ہوئے نشتر ہیں جو انسان کی ریاکاری، خود غرضی اور خواہش نفسانی کا پردہ چاک کرتے ہیں اور پوری صورت حال پر وار کرتے ہیں کہ انسان گر جانے کے بعد کس کس طرح خود کو دھوکا دیتا ہے اور کیسے کیسے سمجھوتوں سے زندہ رہتا ہے۔

    دونوں سوچتے ہیں کہ کفن تو لاش کے ساتھ جل ہی جاتا ہے، بہو کے ساتھ تھوڑی چلا جاتا، یہی پانچ روپے پہلے ملتے تو دوا دارو کرتے۔ تابڑ توڑ پینے اور پوریاں اور کلیجی کھانے کے بعد دونوں بدھیا کو دعا دیتے ہیں، ’’بڑی اچھی تھی بچاری، مری بھی تو خوب کھلا پلاکر‘‘ اور یہ کہ اگر ’’ہماری آتما پر سن ہو رہی ہے تو اسے کیا پن نہ ہوگا۔‘‘ لیکن مادھو جس نے اس کی مانگ میں سیندور بھرا تھا، بار بار تشویش میں گرفتار ہوتا ہے کہ دادا ایک نہ ایک دن تو ہم لوگ بھی وہاں جائیں گے اور وہ پوچھے گی کہ تم نے کپھن کیوں نہیں دیا تو کیا کہیں گے۔ دونوں میں تکرار ہوتی ہے۔ باپ گرم ہوکر کہتا ہے کہ ’’کپھن ملےگا اور بہت اچھا ملے گا۔۔۔ تو مجھے ایسا گدھا سمجھتا ہے۔ میں ساٹھ سال سے دنیا میں گھاس کھودتا رہا ہوں۔۔۔ وہی لوگ دیں گے جنھوں نے اب کی دیا۔ ہاں وہ روپے ہمارے ہاتھ نہ آئیں گے۔‘‘

    پریم چند نے آخری حصے میں اس صورت حال کو نہایت چابکدستی سے زیادہ سے زیادہ Sustain کیا ہے تاکہ صدمے کی کیفیت کو زیادہ سے زیادہ شدید اور طنز کے نشتروں کو زیادہ سے زیادہ گہرا کر سکیں۔ دونوں باپ بیٹے جی بھر کے پیتے ہیں، بچی ہوئی پوریوں کا پتل اٹھاکر بھکاری کو دیتے ہیں اور کہتے ہیں، ’’لے جا، کھوب کھا، اور آسیرباد دے جس کی کمائی ہے وہ تو مر گئی۔۔۔ روئیں روئیں سے آسیرباد دے، بڑی گاڑھی کمائی کے پیسے ہیں۔‘‘ مادھو کہتا ہے، ’’بے کنٹھ میں جائےگی دادا۔۔۔ بے کنٹھ کی رانی بنے گی۔‘‘ نشے کی حالت میں مادھو پر رقت طاری ہو جاتی ہے اور وہ رونے لگتا ہے تو گھیسو سمجھاتا ہے، ’’کیوں روتا ہے بیٹا۔ کھس ہو کہ وہ مایا جال سے مکت ہوگئی۔۔۔ جنجال سے چھوٹ گئی۔ بڑی بھاگوان تھی جو اتنی جلدی مایا موہ کے بندھن توڑ دیے۔‘‘

    پیتے پیتے دونوں گانے لگتے ہیں اور بدمست ہوکر وہیں گر پڑتے ہیں اور یوں یہ کہانی اپنی صورت حال، کرداروں کے رویوں، عمل اور مکالموں سے ایک شدید درد اور صدمے کی کیفیت سے دوچار کرتی ہے اور طنز کے کچوکے لگاتی ہے۔ پوری کہانی کی فضا طنزیہ ہے۔ پریم چند ایک سنگین سچائی سے پردہ اٹھاتے ہیں اور آخری وار ایسا بھرپور کرتے ہیں کہ پوری کہانی نام نہاد انسانیت اور شرافت کے منھ پر زبردست طمانچہ بن جاتی ہے۔ کفن میں دراصل دو کفن ہیں ایک وہ جس کے پیسوں سے یہ تاڑی پیتے ہیں، دوسرا کفن وہ ہے جسے مرنے والی نے اپنی لاش سے اس بچے کو پہنایا ہے جو ان جنا پیٹ کے اندر مر گیا۔

    حقیقت کی بے رحمانہ ترجمانی کے لیے فنکار کے لیے حقیقت سے معروضی فاصلہ ضروری ہے تاکہ وہ اخلاق اور آدرش کی جس روشنی میں انسانیت کے سورج کو طلوع ہوتے دیکھنا چاہتا ہے، اسے حقیقت پر مسلط نہ کرے بلکہ صرف اپنے عمل جراحی سے اس کا دردناک چہرہ دکھادے۔ معروضیت اور حقیقت کی بے لاگ ترجمانی کا یہ تار ’’دوبیلوں کی کہانی‘‘، ’’عیدگاہ‘‘، ’’مس پدما‘‘، ’شطرنج کے کھلاڑی، ’’دودھ کی قیمت‘‘، ’’سواسیر گیہوں‘‘، ’’نئی بیوی‘‘، ’’پوس کی رات‘‘، ’’جرمانہ‘‘ اور کئی دوسری اچھی کہانیوں کی شیرازہ بندی میں دکھائی دیتا ہے۔ ’’نئی بیوی‘‘ میں پریم چند نے ایک نوجوان بیوی کو بداخلاقی کی طرف راجع دکھایا ہے۔ اس کی شادی ایک مالدار بڈھے کھوسٹ سے ہوئی ہے جو سمجھتا ہے کہ محبت دولت سے خریدی جا سکتی ہے لیکن ئی بیوی اپنے معمر شوہر سے زیادہ نوجوان دیہاتی نوکر کی طرف مائل ہے۔ یہ بات پریم چند کے اخلاقی آدرشوں کے خلاف ہے۔ پریم چند کی کہانیوں میں کرم دھرم، پتی ورت ناری، اور ’’پتی پرمیشور‘‘ کا خاصا چرچا ہے لیکن ’’نئی بیوی‘‘ میں پریم چند کی حقیقت نگاری انھیں اس Ironic Situation کو بے باکانہ دکھانے پر مجبور کرتی ہے،

    ’’اس نے (نئی بیوی نے ) سر پر آنچل کھینچ لیا اور نوکر سے یہ کہتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف چلی۔۔۔ لالہ کھانا کھاکر چلے جائیں گے، تم ذرا آنا۔۔‘‘

    یہ فنکارانہ معروضیت ’عیدگاہ‘ میں بھی دیکھی جا سکتی ہے، اگرچہ اس کہانی میں اس کی حیثیت موج تہ نشیں کی سی ہے۔ یہ کہانی اس لحاظ سے اہم ہے کہ پریم چند نے ایک طرف اسلامی مساوات کا روح پرور منظر ابھارا ہے اور دوسری طرف اسے معاشرتی سطح پر مساوات کے تناظر میں امیری غریبی، اونچ نیچ اور بھید بھاؤ کے فرق سے Juxtapose کرکے سماجی نابرابریوں کی جان لیوا سچائی کو نمایاں کیا ہے۔ جب تک عیدگاہ میں تھے، سب ایک تھے لیکن جیسے ہی میلے کے بازار میں آئے، بڑے تو بڑے، چھوٹے چھوٹے ے بچوں تک میں اونچ نیچ کا فرق پیدا ہو گیا۔ کہانی تو دراصل کھلونوں کی خریداری کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے، پریم چند اپنی اچھی سے اچھی کہانیوں میں بھی کچھ نہ کچھ زیادتی تو کرتے ہی ہیں۔ چنانچہ اسے خواہ مخواہ دادی امینہ تک پہنچایا ہے اور چھوٹے حامد کے فطری انسانی عمل کو بڑھاپے میں اور بوڑھی امینہ کے عمل کو بچپن میں تبدیل کرنے کی غیرضروری کوشش کی ہے۔ کہانی کا مرکزی حصہ عیدگاہ کا منظر ہے،

    ’’اچانک عیدگاہ نظر آئی۔ اوپر املی کے گھنے درختوں کا سایہ ہے۔ نیچے کھلا ہوا فرش ہے جس پر جازم بچھی ہوئی ہے اور نمازیوں کی قطاریں ایک کے پیچھے دوسری نہ جانے کہاں تک چلی گئی ہیں۔ پختہ فرش کے نیچے جہاں جازم بھی نہیں ہے، کئی قطاریں کھڑی ہیں، جو آتے ہیں پیچھے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ آگے اب جگہ نہیں۔ یہاں کوئی رتبہ کوئی عہدہ نہیں دیکھا جاتا۔ اسلام کی نگاہ میں سب برابر ہیں۔ دیہاتیوں نے بھی وضو کیا اور جماعت میں شامل ہو گئے۔ کتنی باقاعدہ منظم جماعت ہے۔ لاکھوں آدمی ایک ساتھ جھکتے ہیں اور ایک ساتھ بیٹھ جاتے ہیں اور یہ عمل بار بار ہوتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے گویا بجلی کی لاکھوں بتیاں ایک ساتھ روشن ہوجائیں اور ایک ساتھ بجھ جائیں۔ کیسا بے مثال منظر ہے جس کی ہم آہنگی اور وسعت دلوں پر ایک وجدانی کیفیت پیدا کرتی ہے۔ کوئی ایسی کشش ہے جس نے سب کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے۔‘‘

    لیکن نماز ختم ہونے کے بعد جیسے ہی بچے میلے کے بازار میں جاتے ہیں اور کھلونوں اور مٹھائیوں کی دکانوں پر دھاوا ہوتا ہے، سماجی تفریق کا دردناک منظر ابھرتا ہے۔ محمود، محسن اور سمیع تو ہنڈولے پر چڑھتے ہیں، کبھی آسمان پر جاتے ہیں کبھی زمین پر آتے ہیں، لکڑی کے ہاتھی، گھوڑوں اور اونٹوں کی چرخیوں پر چڑھتے ہیں اور غریب حامد کھڑا کا کھڑا رہ جاتا ہے۔ کھلونوں کی دکان پر کوئی سپاہی خریدتا ہے، کوئی راجا، کوئی سادھو۔ حامد نہ کھلونے خرید سکتا ہے، نہ ریوڑیاں کھا سکتا ہے نہ مٹھائی۔ اور خریدتا بھی ہے تو دست پناہ کیونکہ اسے خیال آتا ہے کہ اس کی دادی کے پاس دست پناہ نہیں ہے، توے سے روٹیاں اتارتی ہے تو ہاتھ جل جاتا ہے۔

    ’سوا سیر گیہوں‘ بھی ’بلیدان‘ کی طرح ان بہت سی کہانیوں میں سے ایک ہے جو دیباچہ کہی جا سکتی ہیں گئودان کا، جہاں ایک سیدھا سادا کسان، جسے اپنے کام سے کام ہے، جو نہ کسی کے لینے میں ہے نہ دینے میں، چھکا جانے نہ پنجا، چھل کپٹ کی جسے ہوا نہیں لگی ایک نہ ایک دن پنڈت یا مہاجن کے ہتھے چڑھتا ہے تو استحصال کے شکنجے میں ایسا کسا جاتا ہے کہ زندگی بھر محنت کرتا اور خون تھوکتا ہے لیکن سوا سیر گیہوں کا بوجھ نہیں چکا سکتا۔ وہ یہ سوچتا ہے کہ یہ پچھلے جنم کا بھوگ ہے، بچے دانے دانے کو ترستے ہیں اور وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر اس دنیا سے گزر جاتا ہے لیکن گیہوں کے دانے کسی دیوتا کی بددعا کی طرح جنم جنم نہ صرف اس کے سر سے نہیں اترتے بلکہ اس کی بیوی اور اس کی اولاد کے سر سے بھی نہیں اترتے۔

    اسی طرح ’’دو بیلوں کی کہانی‘‘ کہنے کو جانوروں کی کہانی ہے، لیکن اس میں بھی گہرا حقیقت پسندانہ طنز ہے اور اس Irony کو ابھارا گیا ہے جس میں حیوان خود غرضی کے مارے ہوئے انسان سے زیادہ ہوش مندی کا ثبوت دیتے ہیں۔ جھوری کوئی آدرشیا یا ہوا کسان نہیں، اس کی سسرال والے بھی کسان ہیں لیکن وہ ہیرا موتی سے اچھا برتاؤ نہیں کرتے۔ یہی حال کانجی ہاؤس کے چوکیدار کاہے اور اس شخص کا بھی جو بیلوں کو نیلامی میں خریدتا ہے۔ قطع نظر اس امر کے کہ اس کہانی میں دیہاتی زندگی کا اور اس زندگی میں بیل کی مرکزیت کا خوبصورت اظہار ہوا ہے، اصل معاملہ رشتوں کا ہے یعنی انسان، انسان ہوتے ہوئے بھی اگر بنیادی درمندی سے عاری ہے اور صرف استحصال کرنا ہی جانتا ہے تو حیوان سے بدتر ہے، اور دوسری طرف حیوان یا کچلے پسے ہوئے انسان سے اگر ہمدردانہ برتاؤ کیا جائے تو اس کا دل محبت سے چھلکنے لگتا ہے۔

    ’’جرمانہ‘‘ ایک چھوٹی سی کہانی ہے۔ اس کا بنیادی عنصر بھی طنز ہے جو کرداروں کی معصومیت سے پیدا ہوتا ہے اور استحصال اور غلامی کے منہ پر طمانچہ مارتا ہے۔ اللہ رکھی کو کبھی پوری تنخواہ نہیں ملتی۔ یہ آج سے نصف صدی پہلے بھی ہوتا تھا اور آج بھی ہوتا ہے۔ اللہ رکھی ظلم کی اس چکی میں پستی آئی ہے اور آج بھی پس رہی ہے۔ کبھی وہ اس کو اپنا مقدر سمجھ کر قبول کرتی ہے اور کبھی اگر اس راز سے واقف بھی ہے تو زبان نہیں کھولتی، مبادا وہ اس ادھوری تنخواہ سے بھی جائے۔ لیکن ایک بار جب اسے پوری تنخواہ ملتی ہے تو ایک چھوٹا سا جملہ بے ساختہ اس کی زبان سے نکل جاتا ہے، ’’یہ تو پورے روپے ہیں۔‘‘ خزانچی پوچھتا ہے، ’’تو کیا چاہتی ہے، کم ملیں ہیں؟‘‘ تو وہ اسی بے ساختگی اور معصومیت سے کہتی ہے، ’’کچھ جریمانہ نہیں ہے۔‘‘ اس ساری کہانی کی جان یہی ایک لفظ ’’جریمانہ‘‘ ہے۔ اس میں جو خوف اور بے بسی ہے اور دردمندی اور دبا دبا احتجاج ہے، وہ اس کہانی کو لافانی بنا دیتا ہے۔

    ’’دودھ کی قیمت‘‘ کا بنیادی فنی عنصر بھی Irony ہے جو ان سب کہانیوں میں قدر مشترک کا درجہ رکھتی ہے اور جس نے ’’کفن‘‘ کو لافانی بنا دیا ہے۔ بات صرف ٹیکنیک کی نہیں، ’’کفن‘‘ کے بعض بول تک پہلے کی کہانیوں میں مل جاتے ہیں۔ ’’کفن‘‘ کے خاتمے کے بول ’’ٹھگنی کیوں نینا جھمکاوے۔۔‘‘ ’’اگنی سمادھی‘‘ میں پورے بھجن کی شکل میں موجود ہیں جسے پیاگ رات کو کھیت کی طرف جاتے ہوئے گاتا جاتا ہے۔ ’’کفن‘‘ میں نشہ تاڑی کا ہے، ’’اگنی سمادھی‘‘ میں یہ گانا چرس کی ترنگ میں ہوتا ہے،

    ’’ٹھگنی کیوں نینا جھمکاوے

    کدوکاٹ مردنگ بناوے

    ٹیبو کاٹ مجیرا

    پانچ تروئی منگل گاویں، ناچ بالم کھیرا

    روپا پہر کے روپ دکھاوے سونا پہر رجھاوے

    گلے ڈال تلسی کی مالاتین لوک بھرماوے

    ٹھگنی۔۔۔‘‘

    ’’دودھ کی قیمت‘‘ میں گاؤں کے زمیندار بابو مہیش ناتھ کے گھر جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو ساری دیکھ بھال گودڑ اور گودڑ کی بہو بھونگی کرتے ہیں جو دراصل اچھوت ہیں۔ بھونگی دائی بھی تھی اور دودھ پلائی بھی، چونکہ مالکن کو دودھ نہیں ہوتا تھا، بھونگی کا دودھ مہیش بابو کا بچہ پیتا ہے اور بھونگی اپنا تین مہینے کا بچہ باہر کے دودھ پر پالتی ہے۔ پریم چند طنز کرتے ہیں کہ ’’بیماری مجبوری کی بات اور ہے، اس میں کپڑے پہن لیتے ہیں، کھچڑی کھا لیتے ہیں لیکن اچھے ہو جانے پر اصول کی پابندی تو کرنی ہی ہوتی ہے۔ گویا دھرم بدلتا رہتا ہے، کبھی کچھ کبھی کچھ۔ راجا کا دھرم الگ، پرجا کا دھرم الگ، امیر کا دھرم الگ، غریب کا دھرم الگ۔ امیر جس کے ساتھ چاہیں کھائیں جس کے ساتھ چاہیں اڑائیں، ان کے لیے کوئی بندھن نہیں۔ بندھن تو دوسروں کے لیے ہیں۔‘‘

    پلیگ کے زور میں گودڑ مر جاتا ہے۔ بھونگی ایک دن مہیش ناتھ کے گھر کا پرنالہ صاف کرتے کرتے کالے سانپ کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس کا بیٹا منگل جسے ماں کا دودھ نصیب نہیں ہوا تھا اور جو مہیش بابو کے بیٹے سریش کے سامنے پدّی سا لگتا تھا، اب ان کے دروازے پر منڈلاتا رہتا ہے اور گھر کی جھوٹن پر پلتا ہے۔ مکان کے سامنے نیم کے پیڑ کے نیچے منگل کا ڈیرا ہے، ’’ایک پھٹا سا ٹاٹ کا ٹکڑا، دو مٹی کے سکورے اور ایک دھوتی جو سریش بابو کی اترن تھی، جاڑا، گرمی، برسات ہرموسم میں یہ جگہ ایک سی آرام دہ تھی۔‘‘

    منگل کا کوئی دوست تھا تو ایک کتا، جو اپنے ساتھیوں سے عاجز آکر منگل کی پناہ میں آ گیا تھا۔ دونوں ایک ہی کھانا کھاتے اور ایک ہی ٹاٹ پر سوتے تھے۔ پریم چند کی کہانیوں میں کتے، بیل، گائے اور دوسرے جانور بے وجہ نہیں آتے۔ ان کرداروں کی مدد سے وہ انسان کی اس خود غرضانہ بہیمیت کو ننگا کرکے دکھاتے ہیں جس نے اسے جانوروں سے بھی پست کر دیا ہے۔ Irony میں متضاد اور ملتے جلتے رویوں کو ابھارا جاتا ہے۔ یہ چوٹ دیکھیے،

    ’’گاؤں کے دھرماتما لوگ مہیش بابو کی اس فیاضی پر تعجب کرتے تھے۔ ٹھیک دروازے کے سامنے، پچاس ہاتھ کا فاصلہ نہ ہوگا، منگل کا پڑا رہنا انھیں دھرم کے خلاف لگتا تھا۔ یہ ٹھیک ہے کہ بھنگی کو بھی بھگوان ہی نے پیدا کیا ہے لیکن سماج کی مریاد ابھی کوئی چیز ہے۔‘‘

    ایک دن سریش ترس کھاکر منگل کو کھیل ’’سوار سوار‘‘ میں شریک کرتا ہے کیونکہ کھیل میں چھوٹ اچھوت کون دیکھنے آتا ہے۔ لیکن منگل پوچھتا ہے، ’’میں ہمیشہ گھوڑا ہی رہوں گا یا کبھی سواری بھی کروں گا۔‘‘ منگل کی ماں نے لاکھ سریش کو اپنا دودھ پلاکر پالا ہو لیکن بھنگی کے بیٹے کو سریش کیوں اپنی پیٹھ پر بٹھاتا۔ منگل کو زبردستی پکڑا اور گھوڑا بنایا جاتا ہے، جھگڑا ہوتا ہی تھا، مالکن کو معلوم ہوتا ہے تو جی بھر کے ڈانٹتی ہے اور نیم کے نیچے جو جماؤ تھا، وہاں سے بھی نکال دیتی ہے۔ منگل اپنے سکورے اٹھاتا ہے، ٹاٹ کا ٹکڑا بغل میں دباتا ہے اور دھوتی کندھے پر رکھ کر روتا ہوا وہاں سے چلا جاتا ہے، یہی سوچتے ہوئے ’’یہاں کبھی نہیں آئے گا۔ یہی تو ہوگا کہ بھوکوں مرجائے گا۔‘‘ لیکن شام ہوتے ہی جیسے جیسے بھوک چمکتی ہے، ذلت کا احساس ویسے ویسے معدوم ہوتا جاتا ہے۔

    کتا تو بہرحال جانور ہے۔ غریب منگل کی حالت اس سے مختلف نہیں۔ دونوں پھر اسی دروازے پر جانے، پتیلیاں چاٹنے اور جھوٹن کھانے پر مجبور ہیں۔ منگل اندھیرے میں دبک کے کھڑا ہو گیا۔ اتنے میں ایک کہار جھوٹن کا تھال ہاتھ میں لیے نکلا، اب دونوں سے صبر نہ ہو سکتا تھا۔ منگل اندھیرے سے نکل کر روشنی میں آ گیا۔ کتا تو پہلے ہی روشنی میں تھا۔ ’’لے کھا لے، میں پھینکنے جا رہا تھا۔‘‘ منگل اور کتا وہیں نیم کے نیچے جھوٹن کھانے لگے۔ منگل ایک ہاتھ سے کتے کا سر سہلاتا جاتا تھا اور کتا دم ہلاتا جاتا تھا۔ یہ ہے دودھ کی وہ قیمت جسے کوئی چکا نہیں سکتا۔

    ’’شطرنج کے کھلاڑی‘‘ میں جو گہری دردمندی ہے، وہ تو ستیہ جیت رے کی زد میں آکر دو آتشہ ہو چکی ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ کہانی کے متن میں انتزاع سلطنتِ اودھ کے بارے میں صرف چند جملے ملتے ہیں، ’’چار کا گجر بج ہی رہا تھا کہ فوج کی واپسی کی آہٹ ہوئی۔ نواب واجد علی شاہ پکڑ لیے گئے تھے اور فوج انھیں نامعلوم مقام پر لیے جارہی تھی۔ شہر میں نہ کوئی ہل چل تھی نہ مارکاٹ۔ یہاں تک کہ کسی جانباز نے ایک قطرہ بھی نہ بہایا۔ نواب گھر سے اسی طرح رخصت ہوئے جیسے لڑکی روتی پیٹتی سسرال جاتی ہے۔ بیگمیں روئیں، نواب روئے، مامائیں، مغلانیاں روئیں اور بس سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔‘‘

    لیکن پورے افسانے میں اس تاریخی اور تہذیبی المیے کی دردناک پرچھائیاں لہراتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ’’کفن‘‘ کی طرح اس کہانی کی بنیادی تکنیک بھی Irony (طنزیہ) ہے اور گھیسو اور مادھو کی طرح مرزا سجاد علی اور میر روشن علی بھی کھوکھلے ہو چکے ہیں۔ وہاں انسان Debase ہو چکا ہے تو یہاں وہ ازکار رفتگی کی انتہا کو پہنچ کے بے وقعت ہو چکا ہے۔ اس میں Sardonic لہر بھی ہے یعنی تمام ہندوستانی رجواڑے، غیرملکی سامراجی نظام کی بساط پر شطرنج کے مہروں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے تھے اور معاشرے کی حالت یہ تھی،

    ’’صبح سویرے دونوں دوست ناشتہ کرکے بساط بچھاکر بیٹھ جاتے تھے۔ مہرے سج جاتے اور لڑائی کے داؤ پیچ ہونے لگتے۔ پھر خبر نہ ہوتی تھی کہ کب دوپہر ہوئی کب شام۔ گھر کے اندر سے بار بار بلایا جاتا کہ’’ کھانا تیار ہے۔‘‘ یہاں سے جواب ملتا، ’’چلو آتے ہیں، دستر خوان بچھواؤ۔‘‘ یہاں تک کہ باورچی مجبور ہوکر کمرے ہی میں کھانا رکھ جاتا تھا اور دونوں دوست دونوں کام ساتھ ساتھ کرتے تھے۔‘‘

    اس زوال آمادہ معاشرے میں حرم کی جو حالت تھی، پریم چند نے اس کی قطعی متضاد کیفیتوں اور کرداروں کو ابھار کر کھولی ہے۔ ایک واقعہ تو وہ ہے جب مرزا سجاد علی کی بیگم درد سر کے بہانے سے مرزا صاحب کو اندر بلاتی ہیں، ان کے پیچھے میر صاحب حسب ضرورت دوچار مہرے تبدیل کر دیتے ہیں اور اپنی صفائی جتانے کے لیے باہر چبوترے پر چہل قدمی فرمانے لگتے ہیں۔ بیگم صاحبہ غصے میں تو تھیں ہی، وہ اندر پہنچ کر بازی الٹ دیتی ہیں اور مہرے پھینک دیتی ہیں۔ ان بیگم میں زندگی باقی ہے۔ دوسری طرف میر صاحب کی بیگم ہیں جنھیں میر صاحب کا گھر سے دور رہنا ہی راس آتا ہے۔ وہ ان کے شطرنج کھیلنے کا گلہ نہیں کرتیں بلکہ کبھی کبھی انھیں دیر ہو جاتی ہے تو انھیں یاد دلاتی ہیں۔

    لیکن مرزا کے یہاں سے نکالے جانے کے بعد جب بساط میر صاحب کے گھر جمنے لگتی ہے تو میر صاحب کی دائمی موجودگی سے بیگم صاحبہ کی آزادی میں حرج واقع ہوتا ہے۔ آخر وہ سازش کرتی ہیں اور بادشاہی فوج کا گھڑسوار افسر میر صاحب کا نام پوچھتا ہوا آ پہنچتا ہے۔ اس طلبی سے میر صاحب کے ہوش اڑ جاتے ہیں کیونکہ ’’حضور میں طلبی سے خدشہ ہے کہ شاید کہیں مورچہ پر جانا پڑا تو بے موت مریں گے۔‘‘ دونوں دوستوں میں ٹھیرتی ہے کہ گھر پر مت ملو۔ اس کے بعد سے گومتی کے پاس کسی ویرانے میں نقشہ جمنے لگتا ہے، ادھر بیگم بہروپ بھرنے پر سوار کی پیٹھ ٹھونکتی ہیں اور چھپ چھپ کر داد عیش دینے لگتی ہیں۔ پریم چند کی فن کارانہ چابک دستی آخری منظر میں اپنے کمال پر ملتی ہے۔ اور طنز کا نشتر اس سیاسی اور معاشرتی زوال کی تہہ میں اتر جاتا ہے۔ Irony میں الفاظ کے اصل معنی سے بالکل الٹے مراد لیے جائیں تو طنز کی جمالیاتی معنویت کھلتی ہے،

    دونوں دوست بغل میں چھوٹی سی دری دبائے، ڈبے میں گلوریاں لیے، گومتی پار ایک پرانی ویران مسجد میں جا بیٹھتے۔ راستے میں چلم، تمباکو لیتے، پھر انھیں دین دنیا کی فکر نہ رہتی۔ کشت، شہ، مات کے سوا ان کے منہ سے کوئی اور کلمہ نہ نکلتا۔ معنویت کو شدت عطا کرنے کے لیے پریم چند محض اشارتاً اس سیاسی کھیل کا ہلکا سا ذکر کر دیتے ہیں جو انگریز کھیل رہا تھا، جس میں شہ سامراج کی تھی اور مات ہندوستان کی۔ اس لحاظ سے یہ کہانی ’کفن‘ اور ’پوس کی رات‘ کی طرح کفایت لفظی سے بھی متصف ہے جس کا پریم چند اکثر وبیشتر زیادہ خیال نہیں رکھتے۔ دونوں دوست کھنڈر میں بیٹھے بازی کھیل رہے ہیں، اچانک کمپنی کی فوج سامنے آتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ مرزا صاحب بار بار انگریزی فوج کی دہائی دیتے ہیں، لیکن میر صاحب کو سوائے شطرنج کے کسی چیز کا ہوش نہیں۔

    مرزا آپ بڑے بے درد ہیں۔ واللہ ایسا حادثہ جانکاہ دیکھ کر آپ کو صدمہ نہیں ہوتا! ہائے غریب واجد علی شاہ۔۔۔

    میر پہلے اپنے بادشاہ کی جان بچائیے پھر نواب صاحب کا ماتم کیجئے گا۔ یہ کشت اور یہ مات۔ لانا ہاتھ۔

    اس کے بعد پریم چند نے صرف اتنا لکھا ہے، ’’نواب کو لیے ہوئے فوج سامنے سے نکل گئی۔‘‘

    آخر شام ہو جاتی ہے۔ سلطنت اودھ پر سورج غروب ہو چکا ہے۔ ’’مسجد کے کھنڈروں میں چمگادڑوں نے چیخنا شروع کیا۔ ابابیلیں آ آکر اپنے گھونسلوں سے چمٹیں اور دونوں کھلاڑی بازی پر ڈٹے ہوئے تھے۔ گویا دو خون کے پیاسے موت کی بازی کھیل رہے ہوں۔‘‘ یہ موت کی بازی شخصی بھی ہے، سماجی بھی، سیاسی بھی اور تاریخی بھی۔ اس سارے حصے میں شدت سے طنزیہ تکنیک برتی گئی ہے۔ ان میں لفظ صرف لفظ نہیں، ایک سماجی زوال اور تاریخی المیے کا اشاریہ ہیں۔ ان میں وہ معنیاتی تہہ داری اور گہری تخلیقیت ہے جو کسی بھی سچائی کو فن کی سطح پر لافانی کر دیتی ہے۔ دونوں بار بار چالیں چلتے ہیں، بدلتے ہیں، لیکن بازی تو مات ہوہی چکی ہے، آخر تو تکار ہوتی ہے، تکرار بڑھتی ہے۔ معاملہ باپ دادا کی عزت آبرو تک پہنچتا ہے۔ زنگ خوردہ تلواریں نکل آتی ہیں۔ دونوں پینترے بدلتے ہیں، چھپاچھپ کی آواز آتی ہے، دونوں زخم کھا کر گرتے ہیں اور تڑپ تڑپ کر جان دے دیتے ہیں۔ اس عبرت ناک منظر کی تہہ میں ایک شدید کرب اور روح فرسا طنز ہے،

    ’’اپنے بادشہ کے لیے جن آنکھوں سے ایک بوند آنسو کی نہ گری، انھیں دونوں آدمیوں نے شطرنج کے وزیر کی حفاظت کے لیے جان دے دی۔ اندھیرا ہو گیا۔ بازی بچھی ہوئی تھی۔ دونوں بادشاہ اپنے تخت پر رونق افروز تھے۔۔۔ چاروں طرف سناٹے کا عالم تھا۔ کھنڈر کی بوسیدہ دیواریں، خستہ کنگورے اور مینار ان لاشوں کو دیکھتے تھے اور سر دھنتے تھے۔‘‘

    کون نہیں جانتا کہ ان لاشوں میں اور وسط انیسویں صدی کے ہندوستانی معاشرے میں کیسا گہرا معنوی رشتہ ہے، یا کھنڈر کی بوسیدہ دیواریں اور شکستہ کنگورے اور مینار، کیا لڑکھڑاتی ہوئی اور معدوم ہوتی ہوئی مغلیہ سلطنت کی یاد نہیں دلاتے؟ یا جو ’’بادشاہ اپنے اپنے تخت پر رونق افروز تھے‘‘ کیا وہ کاٹھ کے مہرے نہیں تھے؟ ’شطرنج کے وزیر اور جانِ عالم میں جو تطبیق کی گئی ہے، وہ شدید طور پر جتنی دردناک ہے، اتنی ہی طنزیہ بھی ہے اور یہی اس فن پارے کی کامیابی کی دلیل ہے۔ ’’اندھیرا‘‘ غروب کی علامت ہے۔ کہانی کے آخر میں ’’بازی‘‘ مات ہو چکی ہے لیکن ’بساط بچھی‘ رہتی ہے۔ یہ زندگی کی بساط ہے جس پر بازی مات ہو کے بھی مات نہیں ہوتی اور جس پر ہار جیت کا کھیل برابر جاری رہتا ہے۔

    یہ ساری بحث ’’پوس کی رات‘‘ کے ذکر کے بغیر نامکمل رہےگی۔ اس کہانی میں بھی پریم چند نے ایک بڑی دردناک صورت حال کو سفاکانہ معروضیت کے ساتھ پیش کیا ہے اور زمینداری کے لگائے ہوئے گھاؤ کو طنز کے نشتر سے کریدا ہے۔ یہ کہانی بھی Irony کی سطح پر سانس لیتی ہے۔ پلاٹ کی تعمیر اور مکالموں کو ایک کے بعد ایک بناہی اس طرح گیا ہے کہ ایسی صورت حال سامنے آئے جو بنیادی طور پر طنزیہ ہو، لیکن اس سے پیدا ہونے والا تاثر انسان کی بے بسی اور مجبوری کے درد سے دل کو تڑپا دے۔ شروع میں ہلکو جس طرح اپنی بیوی کو ڈانٹ ڈپٹ کے اور بہلا پھسلا کے کمبل کے لیے جمع کیے ہوئے تین روپے شہنا کو دے دیتا ہے، پوس کی کڑ کڑاتی سردی روح کو وہیں سے جکڑنے لگی ہے۔

    ہلکو جس طرح بار بار منی سے خوشامدانہ لہجے میں بات کرتا ہے اور منی جس طرح چمک کے بولتی ہے اور شدت آمیز رویہ اپناتی ہے، اس سے ’’بلیدان‘‘ میں گردھاری کی بیوی سوبھاگی کی اور ’’گئودان‘‘ کی دھنیا کی یاد تازہ ہو جاتی ہے جو اپنے تیز طرار لہجے سے سماج کے استحصالی طبقوں کو برہنہ کردیتی ہیں۔۔۔ کیا یہ واقعہ نہیں کہ پریم چند کے کرداروں میں اگر کہیں جان دکھائی دیتی ہے تو صرف عورتوں میں۔ ناانصافیوں سے لڑنے کی کسی میں سکت ہے تو عورتوں میں یا احتجاج یا سنگھرش کا کوندا لپکتا ہے تو انھیں کرداروں میں جو اگرچہ حیاتیاتی طور پر کمزور ہیں، لیکن ان کے اندر کے انسان نے ابھی دم نہیں توڑا، یا حالات کے جبر نے انھیں ابھی پاش پاش نہیں کیا،

    ’’میں کہتی ہوں تم کھیتی کیوں نہیں چھوڑ دیتے۔ مرمر کر کام کرو، پیداوار ہو تو اس سے باقی ادا کرو، چلو چھٹی ہوئی۔ باقی چکانے کے لیے ہی تو ہمارا جنم ہوا ہے۔۔۔ میں روپیہ نہ دوں گی، نہ دوں گی۔‘‘

    ’’تو کیا گالیاں کھاؤں؟‘‘

    ’’گالی کیوں دےگا، کیا اس کا راج ہے!‘‘

    آخر میں بھی وہ اس ولولے سے کہتی ہے، ’’میں اس کھیت کا لگان نہ دوں گا۔ کہے دیتی ہوں کہ جینے کے لیے کھیتی کرتے ہیں، مرنے کے لیے نہیں۔‘‘

    ’’کتے کی کہانی‘‘ والا کتا جو ’’دودھ کی قیمت‘‘ میں منگل کی رفاقت کا دم بھرتا ہے اور ’’بوڑھی کاکی‘‘ میں لاڈلی کی تشفی کا باعث ہوتا ہے، وہی کتا ہلکو کے کھیت پر اس کا واحد حامی و مددگار ہے۔ ایک ایسی اندھیری رات میں جب آسمان پر تارے بھی ٹھٹھرے ہوئے معلوم ہوتے ہیں، ہلکو اپنے کھیت کے کنارے بانس کے کھٹولے پرپرانی گاڑھے کی چادر اوڑھے ہوئے کانپ رہا ہے، کھٹولے کے نیچے اس کا ساتھی کتا ’’جبرا‘‘ پیٹ میں منہ ڈالے، سردی سے کوں، کوں کر رہا ہے۔ پچھوا ہوا جسم چیرے دیتی ہے۔ دونوں میں سے کسی کو نیند نہیں آتی،

    ’’ہلکو اٹھا اور گڑھے میں سے ذرا سی آگ نکال کر چلم بھری۔ جبرا بھی اٹھ بیٹھا۔ ہلکو نے چلم پیتے ہوئے کہا، ’’پئے گا چلم؟ جاڑا تو کیا جاتا ہے، ہاں ذرا من بہل جاتا ہے۔‘‘

    پریم چند کی کہانیوں میں انسان اور جانور کے رشتوں کی طرف اشارہ کیا جاچکا ہے جو پریم چند کی کئی کہانیوں میں ملتاہے۔ ایسے موقعے پر گفتگو خموشی کی زبان سے ہوتی ہے لیکن ربطِ ذہنی اور تکلم Communication مکمل ہے۔ ہلکو کو جب کسی طرح نیند نہیں آتی تو جبرا کو اٹھاتا ہے اور اس کے سر کو تھپ تھپا کر اسے اپنی گود میں سلا لیتا ہے۔

    ’’کتے کے جسم سے معلوم نہیں کیسی بدبو آرہی تھی، پر اسے اپنی گود سے چمٹائے ہوئے ایسا سکھ معلوم ہوتا تھا جو ادھر مہینوں سے اسے نہ ملا تھا۔‘‘

    یہاں اس وضاحت کی ضرورت نہ تھی، ’’وہ (ہلکو) اپنی غریبی سے پریشان تھا جس کی وجہ سے وہ اس حالت کو پہنچ گیا تھا۔‘‘ پریم چند کا کچھ ٹھیک نہیں، اعلیٰ سے اعلیٰ کہانی میں بھی اکا دکا کمزور جملہ ان کے قلم سے نکل سکتا ہے۔

    سردی بڑھتی ہے اورا بھی پہر رات باقی ہے تو ہلکو کھیت سے تھوڑے فاصلے پر ایک باغ سے سوکھی پتیاں بٹورتا ہے اور الاؤ روشن کرتا ہے۔ آگ کی لپٹیں درخت کے پتوں کو چھو چھو کر بھاگنے لگتی ہیں۔ تاریکی کے اتھاہ سمندر میں آگ تاپتے تاپتے آخر وہ دونوں پاؤں پھیلا دیتا ہے۔ آخری منظر میں پتیاں جل چکی ہیں، باغیچے میں پھر اندھیرا ہے، ہلکو گرم راکھ کے پاس بیٹھا ہے، پر جیسے جیسے سردی بڑھتی جاتی ہے اسے سستی دبائے لیتی ہے۔ دفعتاً جبرا زور زور سے بھونکنے لگتا ہے اور کھیت کی طرف بھاگتا ہے۔ ہلکو کو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جانوروں کا غول کھیت میں گھس آیا۔ کودنے، دوڑنے اور چرنے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں، پر ہلکو دل کو تسلی دیتے ہوئے کہتا ہے، ’’نہیں جبرا کے ہوتے ہوئے کوئی جانور کھیت میں نہیں آ سکتا۔ مجھے وہم ہو رہا ہے۔‘‘جبرا بھونکتا رہتا ہے۔ اس کے پاس نہیں آتا۔ جانوروں کے چرنے کی آوازیں آتی رہتی ہیں، پر ہلکو اپنی جگہ سے نہیں ہلتا۔

    ’’کیسا گرمایا ہوا مزے سے بیٹھا تھا، اپنی جگہ سے نہ ہلا، بالآخر اسی راکھ کے پاس زمین پر وہ چادر اوڑھ کر سو گیا۔‘‘

    یوں صورت حال کی Irony پوری طرح نمایاں ہوکر سامنے آتی ہے اور درد میں ڈوبے ہوئے طنز کے تاگوں سے پریم چند آخری منظر یوں بنتے ہیں،

    ’’سویرے جب اس کی آنکھ کھلی تو دیکھا چاروں طرف دھوپ پھیل گئی تھی اور منی کھڑی کہہ رہی تھی تم کہاں آکر مر گئے، ادھر سارا کھیت چوپٹ ہو گیا۔‘‘ ہلکو نے اٹھ کر کہا، ’’کیا تو کھیت سے ہوکر آ رہی ہے؟‘‘ منی بولی، ’’ہاں، سارے کھیت کا ستیاناس ہو گیا۔ بھلا ایسا بھی کوئی سوتا ہے۔‘‘ ہلکو نے بہانہ کیا، ’’میں مرتے مرتے بچا، تجھے کھیت کی پڑی ہے۔ پیٹ میں ایسا درد اٹھا تھا کہ میں ہی جانتا ہوں۔‘‘

    جبرا منڈیا کے نیچے چت پڑا تھا۔

    ’’جبرا ابھی تک سویا ہوا ہے، اتنا تو کبھی نہ سویا تھا۔‘‘

    جانور کی نجات آسان ہے، انسان کی مشکل۔ جبرا نے تو جان کی بازی لگائی اور حق ادا کرکے سو گیا۔ یہ انسان ہی کا مقدر ہے کہ ظلم، کمینگی، لالچ، خود غرضی اور منافع خوری کی چکی میں پستا ہے اور اس سے ٹکر لیتا ہے، کبھی جیت ہوتی ہے کبھی مات۔ کبھی الاؤ جلاتا ہے، اندھیرے میں روشنی کرتا ہے، جسم گرماتا ہے، سردی سے مسلسل لڑتا ہے اور اس پر فتح پاتا ہے لیکن جسم کی گرمی سے چت بھی ہو جاتا ہے۔ بڑی سے بڑی جد وجہد یا لڑائی میں ایک لمحہ ایسا آ سکتا ہے جب انسان، جو طاقت اور کمزوری یا حوصلے اور بزدلی کا ملا جلا مرقع ہے، سپر ڈال دیتا ہے اور موت کو سر سے گزرنے دیتا ہے۔ انسان کی زندگی میں گرمی اور سردی، اندھیرے اور روشنی اور زندگی اور موت میں یہ تاک جھانک یوں ہی جاری ہے۔

    فصل اگانے، اسے پال پوس کربڑا کرنے کے بعد جب یہ پک چکی ہے اور کٹنے کو تیار ہے، اسے اپنی آنکھوں کے سامنے برباد ہوتے دیکھنا اور کچھ نہ کر سکنا ایک ایسی دردناک طنزیہ صورت حال ہے جو حالات کے جبر کو بے نقاب کر دیتی ہے۔ پریم چند کی دردمندی اور انسان دوستی وہاں زیادہ کامیاب ہے جہاں انھوں نے بالواسطہ طور پر پلاٹ کو ایسی صورت حال سے تعمیر کیا ہے جو Irony کا عنصر رکھتی ہو اور کرداروں کے برتاؤ اور عمل کو طنز کے تیروں سے زبان دی ہو۔

    ان چند افسانوں کے ذکر سے اتنا تو ثابت ہو ہی جاتا ہے کہ پریم چند انسانی نفسیات کا شعور رکھتے تھے۔ ان کے پاس صرف ایک دردمند اور انسان دوست دل ہی نہیں، حقیقت کو پہچاننے والی نظر اور اسے بیان کرنے والا قلم بھی تھا۔ سچا فنکار جس طرح حقیقت کی باز یافت کرتا ہے، تخیل کی سطح پر اس سے جس طرح چراغ روشن کرتا ہے اور گزراں حقیقت کی تقلیب کرکے اسے جس طرح فنکارانہ چابکدستی سے تخلیقی سطح پر زندۂ جاوید کر دیتا ہے، پریم چند کے یہاں اس کی مثالوں کی کمی نہیں۔ وہ اخلاقیات اور جذبات سے ہٹ کر بھی دیکھ سکتے تھے۔

    انھوں نے حق وانصاف، عدل وشجاعت، دھرم کرم اور سماج سیوا کے جو آدرش تراشے ہیں، انھیں بعض جگہ اپنے ہی کرداروں کے ہاتھوں ریزہ ریزہ ہوتے ہوئے بھی دکھایا ہے۔ اس کے لیے جس فنکارانہ ہمت اور بے دردی کی ضرورت ہے، وہ بھی ان میں تھی۔ انھوں نے بےلاگ حقیقت نگاری بھی کی، گہرے طنز سے بھی کام لیا اور نہایت سفاکی اور بے رحمی سے Irony کی تعمیر وتشکیل کا حق بھی ادا کیا۔ تاہم ان کی ابتدائی اور بہت سی بعد کی کاورشوں کا غالب رجحان اخلاقی اور اصلاح پسندانہ ہے، اس الزام سے پریم چند کس طرح بری قرار دیے جا سکتے ہیں؟

    اس مضمون کے شروع میں ہم نے پریم چند کے بارے میں شرت بابو کی رائے نقل کی تھی۔ شرت بابو کو بنگالی میں نفسیات کی ترجمانی اور سماجی حقیقت نگاری کی جو روایت ملی تھی، وہ خاصی وقیع تھی۔ پریم چند اتنے خوش نصیب نہیں تھے۔ انھوں نے خود زمین صاف کی، خود بیج ڈالا اور خود فصل اگائی۔ ہندی اردو دونوں زبانوں میں ناول اور افسانے کا یہی حال تھا۔ داستانوں اور شرر، سرشار ونذیر احمد کے بعدیہ بہت بڑا قدم تھا۔ اتنا بڑا قدم جس کے تین ڈگ میں وامن نے ساری سرشٹی ناپ لی تھی۔ پریم چند کا یہ کارنامہ معمولی نہیں کہ انھوں نے ایک پوری نئی کائنات کو، ایک بالکل نئے انسان کو اردو ہندی فکشن میں داخل کیا۔ ہاں وہ اتنے بڑے انقلابی نہیں تھے کہ کسی سطح پر کوئی سمجھوتا نہ کرتے۔ انھوں نے دھیرے دھیرے چلنا سیکھا تھا، ان کی اخلاقیات متوسط طبقے کی اخلاقیات تھی، چنانچہ اس کی مہر ان کی تخلیقات پر لگنی ہی تھی۔ شاید اس سے بچنا ان کے لیے ممکن بھی نہ تھا۔

    وہ جنوں اور پریوں کے قصوں سے دھرتی کی کوکھ، کھیت کھلیان، جھونپڑی اور منڈیا تک آئے تھے، اور شہزادے شہزادیوں سے غریب، نادار، مفلس اور بے سہارا، ہل جوتنے اور مزدوری کرنے والے، پھٹی چادر پہن کر گزر بسر کرنے والے انسان اور ہاتھ چاٹنے اور ساتھ نباہنے والے جانوروں تک آئے تھے۔ اس عہد میں اس سے زیادہ جوکھم لینا ان کی تو کیا، اردو ہندی میں شاید کسی دوسرے کے بس کی بات بھی نہ تھی۔ پریم چند نے ساری زندگی راہ کے کانٹے نکالنے میں گزاری۔ اردو کی بھی خدمت کی اور ہندی کی بھی۔ ہندی میں لکھا تو اردو میں بھی ساتھ ساتھ شائع کیا۔ بعد میں آنے والوں نے جن بنیادوں پر اردو ہندی افسانے اور ناول کا ایوان تعمیر کیا ہے، وہ بنیادیں پریم چند ہی کی رکھی ہوئی ہیں۔

    پریم چند کا ذہنی، فکری اور فنی ارتقا برابر جاری رہا۔ وہ داستان کی فضا سے نکل کر شجاعت و مردانگی کی راجپوتی فضا میں آئے اور پھر اس سے بھی آگے قدم بڑھا کر انھوں نے وطن کے درد کو سمجھا، تحریک آزادی کی تڑپ بھی محسوس کی، اور انسان کو بھی پہچاننا سیکھا۔ اس میں انھوں نے پچھلے آدرشوں سے بھی مدد لی، گاندھی واد کو بھی آزمایا اور اشتراکیت کا بھی سہارا لیا۔ لیکن ایک سچے فنکار کی طرح وہ آگے بڑھنا، ردوقبول کرنا اور ٹھکرانا اور اپنانا جانتے تھے۔ اپنے حق سے وہ کبھی دست بردار نہیں ہوئے، ان کے فن کی سب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ انھوں نے ہمیشہ اپنے آپ کو Outgrow کیا اور اپنے تخلیقی سفر کے دوران وہ کبھی کسی ایک نقطے یا دائرے کے اسیر نہیں رہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر عمر نے ان سے وفا کی ہوتی تو اپنے آئندہ تخلیقی سفر میں کیا ’کفن‘ کی معروضیت کے بعد وہ رومانی انقلابیت کے پروں سے پرواز کرتے یا کھردری حقیقت پسندی کا حق اد اکرتے؟

    مأخذ:

    فکشن شعریات تشکیل وتنقید (Pg. 46)

    • مصنف: گوپی چند نارنگ
      • ناشر: ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2009

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے