Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

احمد مشتاق: رنگ سب آسمان کے دیکھے

شمیم حنفی

احمد مشتاق: رنگ سب آسمان کے دیکھے

شمیم حنفی

MORE BYشمیم حنفی

    ہمارے ادبی معاشرے میں مطبوعہ لفظ کی باڑھ سی آئی ہوئی ہے۔ بے تحاشا کتابیں چھپتی ہیں۔ اردو میں نثر سے زیادہ شعری مجموعوں کا بازار گرم ہے، خریداروں کے قحط کے باوجود۔ شاعری کی بیشتر کتابیں صرف چھپتی ہیں، تقسیم ہوتی ہیں اور گم ہوجاتی ہیں۔ کچھ عرصہ بعد ان کے نام بھی ذہن سے محو ہوجاتے ہیں۔ اس صورت حال کے باوجود ہمارے زمانے کے ایسے شاعر بھی، جنہیں اپنا انتخاب شایع کرتے ہوئے بھی جھجکناچاہیے، کلیات کی اشاعت کا اہتمام کرتے ہیں۔

    اس واقعے کی طرف ذہن اس لیے بھی جاتا ہے کہ کچھ ہی دنوں پہلے احمد مشتاق کا ’کلیات‘ بھی شایع ہوا ہے، اپنے تمام اچھے برے ہم عصروں سے بہت مختلف۔ یہ اختلاف صرف احمد مشتاق اور ان کے زیادہ تر ہم عصروں کی شاعری کے مرتبے اور معیار کا نہیں، احمد مشتاق کے کلیات اور دوسروں کے کلیات کی ضخامت اور حجم کا بھی ہے۔ احمد مشتاق کا کلیات کل دوسو بہتر صفحوں پر مشتمل ہے۔ ان کا پہلا مجموعہ جو ’مجموعہ‘ کے نام سے چھپا تھا، دوسرامجموعہ ’گرد مہتاب‘ اور اس کے بعد کا سارا کلام اس میں سماگئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ احمدمشتاق تخلیقی لفظ کو ’’ہاتھ کا میل‘‘ نہیں سمجھتے۔

    اشعار کی اس چھوٹی سی کتاب کا انتظار ہر اس شخص کو تھا جسے شعر کی کچھ سمجھ ہے اور جو شاعری کو شاعری کی طرح پڑھنا چاہتا ہے۔ اپنے معروف معاصرین میں احمد مشتاق شاید سب سے ’کم گو‘ شاعر ہیں۔ اپنے اکثر معمولی لیکن معروف ہم عصروں کے برعکس، احمد مشتاق کی شہرت کاانحصار صرف کلام کی اشاعت میں تواتر اور کثرت پر نہیں ہے۔ ہمارے ایک دوست کا خیال ہے کہ احمد مشتاق کی شاعری میں ایک ایسی شان محبوبی ملتی ہے جس سے اس زمانے کے زیادہ تر شاعروں کا خانہ خالی ہے۔ احمد مشتاق کو پسند نہ کرنے کے لیے حوصلہ چاہیے، جب کہ جدید شاعروں کی اکثریت کو پسند کرنے کے لیے حوصلہ درکار ہوگا۔

    احمد مشتاق کا نام ہمارے دور کے سب سے ممتاز غزل گویوں کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ناصر کاظمی کے بعد احمد مشتاق کا نام سب سے پہلے ذہن میں آتا ہے۔ اس معاملے میں صرف ظفر اقبال کا خیال، احمد مشتاق کے ساتھ، ہمارے شعور کو منور کرتا ہے۔ دونوں کے کلام سے بے مثالی کا تاثر قائم ہوتا ہے۔

    احمد مشتاق بنیادی طور پر محسوسات کے شاعر ہیں۔ آگہی احساس میں کیونکر منتقل ہوتی ہے اور فکر جذبے کا قالب کس طرح اختیار کرتی ہے، اس کا سب سے بہتر نمونہ احمد مشتاق کے اشعار ہیں۔

    اس زاویۂ نظر سے دیکھا جائے تو احمد مشتاق کی شاعری کا سلسلہ ناصر کاظمی اور فراق کی غزل سے ملتا ہے۔ فراق اور ناصر کاظمی دونوں، اپنے اپنے معاصرین کے ہجوم میں، جو تنہا اور منفرد دکھائی دیتے ہیں تو اس لیے کہ اپنی روایت سے استفادے کے عمل میں دونوں نے ایک طرح کے شعوری انتخاب کے رویے سے کام لیا ہے۔ فراق کی غزل جس ماحول میں رونما ہوئی اس پر فانی، اصغر، یگانہ، جگر، شاد، عزیز، صفی، ثاقب کا سایہ بہت گہرا تھا۔ ان سب کے اپنے اپنے انفرادی رنگ تو تھے، مگر ان میں ایک مشترکہ روایتی انداز کی پہچان مشکل نہ تھی۔ فراق کی بہت سی غزلوں پر بھی روایت کا رنگ نمایاں ہے۔ تاہم، یگانہ کی طرح، فراق نے بھی مانوس مضامین اور تجربوں کی بھیڑ میں اپنی اپنی الگ راہ نکالنے کی جستجو بھی کی۔

    فراق کے محسوسات اور یگانہ کے انفرادی مزاج کی سطح اپنے ہم عصروں سے مختلف بہت ہے اور فراق کی غزل کے نمائندہ شعروں میں ناصر کاظمی کی حسیت کو کچھ نئے عناصر کا سراغ جو ملا تو اس لیے کہ فراق نے جس روایت سے اثر لیا تھا وہ صرف اردو غزل کی عام روایت نہیں تھی۔ یہ عام روایت فارسی غزل کے دائرے سے باہر نہیں نکلتی تھی جب کہ فراق نے جتنا فیض اردو اور فارسی غزل کے مشاہیر سے اٹھایااسی قدر فیض ہندی روایت اور مغرب سے بھی اٹھایا۔ فراق کی بہت سی ترکیبیں، علائم، استعارے اور اظہار کے سانچے فارسی سے زیادہ انگریزی کے رومانی شعرا اور سنسکرت و ہندی شعرا اور شعریات کے فیضان کا پتہ دیتے ہیں،

    بدھ نے سچ ہی کہا تھا، کبھی سرؤم دُکھّہہ

    زمیں خلاف ہے بھائی، یہاں نہ باندھو ناؤ

    اسی کھنڈر میں کہیں کچھ دیے ہیں ٹوٹے ہوئے

    ماتھے پہ مرے دھوپ اترتی تھی سہانی

    تمام خستگی و ماندگی ہے عالم ہجر

    شہر غم کے مضافات ہیں یہ

    اس کوچے میں قدم رکھتے ہی میرا ماتھا ٹھنکا تھا

    یونہی ساتھا کوئی جس نے مجھے مٹاڈالا

    نئے خیال کی تکلیف اٹھی ہے مشکل سے

    کہاں کا وصل تنہائی نے شاید بھیس بدلا ہے

    اکا دکا صدائے زنجیر

    کہ جب ملتے ہیں دل کہتا ہے کوئی تیسرا بھی ہو

    منزل منزل دل بھٹکے گا

    آج تمہی نے روکا ہوتا

    یہ لہجہ، آہنگ، ذخیرۂ الفاظ، احساس اور تجربے کی یہ جہتیں نہ تو روایتی اردو غزل کی ہیں نہ فارسی غزل کی۔ بول چال کی زبان، گفتگو کا لہجہ، گہری رچی ہوئی کیفیتوں کا بیان، محسوسات کی مجموعی سطح اور تخلیقی تجربے کا حوالہ بننے والی اشیا اور مظاہر، ہمیں ایک نئی دنیا تک لے جاتے ہیں۔ ناصر کاظمی کی ’پہلی بارش‘ کے اشعار اور فراق کے ’مشعل‘ کی غزلوں پر ایک ساتھ نظر ڈالی جائے تو دونوں کے طرز احساس کی منطق میں اشتراک اور مماثلت کے بھید صاف کھلتے نظر آتے ہیں۔ ناصر کاظمی نے اپنی ایک غزل،

    تیرے سوا مجھے پہنے کون

    میں ترے تن کا کپڑا ہوں

    میرا دیا جلائے کون

    میں ترا خالی کمرہ ہوں

    کومیرا بائی کے ایک بھجن سے جاملایا تھا اور بھکتی کی اس روایت کا فیضان بتایا تھا جس کی ترجمانی میرا بائی کے گیتوں میں ہوئی ہے۔ اسی طرح ناصر کی غزل،

    نئے کپڑے پہن کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے

    وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا اب باہر جاؤں کس کے لیے

    کے لسانی، حسی اور فکری مناسبات اردو کی عام روایتی غزل کے برعکس، محسوسات کے ایک نئے نظام، ایک نئی حسیت کے ظہور کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس حسیت کی ایک سطح وہ بھی تھی جس تک ہماری رسائی ابن انشا کی گیت نما نظموں اور بول چال کی بھاشا میں ڈوبی ہوئی غزلوں سے ہوتی ہے۔ جمیل الدین عالی کی چند غزلوں اور دوہوں کو اسی رویے کی توسیع کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ لیکن ان کے احساسات اور تجربوں کادائرہ چھوٹا بہت ہے اور اپنی خوش آہنگی کے باوجود ان کے اشعار اور دوہے گھوم پھر کر روایتی محبت کے ایک مرکز سے بہت دور نہیں جاتے۔

    ناصر شہزاد کی ’چاندنی کی پتیاں‘وزیر آغا کے خیال میں ایک نئی ارضیت کے احساس اور شعری تجربے کے طبیعی و جغرافیائی پس منظر سے مربوط تھیں، مگر ان کے یہاں آورد بہت ہے اور ہندی لفظوں، علامتوں، پیکروں کے استعمال میں ان کی نظر زبان و بیان کی اوپری سطح سے آگے نہیں جاتی۔ اسی لیے ان کی غزلوں میں بہت جلد تکرار کی فضا پیدا ہوجاتی ہے۔

    احمد مشتاق نے اس معاملے میں ناصر کاظمی کے لسانی شعور اور طرز احساس کو ایک ایسے جادوئی اور سحر طراز تخلیقی تجربے تک پہنچایا ہے، جہاں اپنے تمام معاصرین کے درمیان وہ تنہا، منفرد اور ممتاز دکھائی دیتے ہیں۔ شاہ میڈ اس کے جیسا جادوئی لمس ان کی تخلیقیت کے علاقے میں داخل ہونے والے ہر لفظ، زبان و بیان کے ہر سانچے کو، وہ چاہے جتنا عام اور مانوس ہو، ایک انوکھی واردات کا ترجمان بنادیتا ہے،

    مل ہی جائے گا کہیں دل کو یقیں رہتاہے

    وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے

    دل فسردہ تو ہوا دیکھ کے اس کو لیکن

    عمر بھرکون جواں کون حسیں رہتا ہے

    اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے

    اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے

    ترے آنے کا دن ہے تیرے رستے میں بچھانے کو

    چمکتی دھوپ میں سائے اکٹھے کر رہا ہوں میں

    کوئی کمرہ ہے جس کے طاق میں اک شمع جلتی ہے

    اندھیری رات ہے اور سانس لیتے ڈر رہا ہوں میں

    تنہائی میں کرنی تو ہے اک بات کسی سے

    لیکن وہ کسی وقت اکیلا نہیں ہوتا

    یہ دھیما، نرم آثار، مترنم آہنگ صرف لفظوں کے کھیل سے نہیں بلکہ احمد مشتاق کے مجموعی تجربے سے منسلک ہے۔ اسی لیے احمد مشتاق کے شعر کا طلسم بہت دیر تک برقرار رہتا ہے۔ ان کا تاثر خوشبو کی طرح ہمارے احساسات میں رچ بس جاتا ہے اور ہمیں ایک ایسے مکمل اور منظم جمالیاتی ذائقے سے ہم کنار کرتا ہے جو صرف ان سے مخصوص ہے۔ اس کیفیت تک رسائی کے سلسلے میں وہ بے مثال ہیں۔ فراق اور ناصر کاظمی کی طرح احمد مشتاق کے نمائندہ شعروں میں بھی ایک انتہائی رچی ہوئی، شائستہ اور ملائم حسیت کا اظہار ہوا ہے۔ فراق صاحب اسے ’گھلاوٹ‘ اور ’چمکار‘ سے تعبیر کرتے تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس کیفیت کو کسی قسم کا متعین اور واحد المرکز نام نہیں دیا جاسکتا۔ احمد مشتاق کے شعروں میں یہ کیفیت اس طرح نمودار ہوتی ہے جیسے صبح کا اجالا بتدریج پھیل رہا ہو یا ہمارے ادراک کی سطح پر ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی ہو۔

    مجھ کو تو سارے ناموں میں

    تیرا نام اچھا لگتا ہے

    بھول گئی وہ شکل بھی آخر

    کب تک یاد کوئی رہتا ہے

    پانی میں عکس اور کسی آسماں کا ہے

    یہ ناؤ کون سی ہے یہ دریا کہاں کا ہے

    سب کچھ بدل گیا ہے تہہ آسماں مگر

    بادل وہی ہیں رنگ وہی آسماں کا ہے

    ان شعروں میں واقعے سے زیادہ صورت حال کا بیان ملتا ہے۔ احمد مشتاق کی غزل نپے تلے ذہنی تجربوں کے بجائے دراصل ہماری مختلف حسوں سے ایک ساتھ مکالمہ قائم کرتی ہے۔ اسی لیے اس کا اثر بھی ہمہ گیر ہوتا ہے۔ ہم اس کے معنی و مفہوم کے پھیر میں نہیں پڑتے۔ اس کی عطا کردہ کیفیتوں میں اپنے آپ کو گم ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔

    مختلف ذہنی اور جذباتی معاملات کا بیان بھی احمدمشتاق نے جہاں کہیں کیا ہے، ایک نئے تخلیقی تناظر کے ساتھ کیا ہے۔ ان کی گرفت میں آنے کے بعد ہر واقعہ، ہر معاملہ، اپنے چاروں طرف ایک طرح کی دھند سی بکھیر دیتا ہے۔ اسے ہم دوٹوک اور غیرمبہم لفظوں اور اصطلاحوں میں بیان نہیں کرسکتے، محسوس کرسکتے ہیں اور اپنے احساسات میں دیر تک اس سے پیدا ہونے والے ارتعاش سے محفوظ ہوسکتے ہیں،

    یار سب جمع ہوئے رات کی تاریکی میں

    کوئی رو کر تو کوئی بال بناکر آیا

    غضب کی چمک اس کے چہرے پہ تھی

    مجھے کیا خبر تھی کہ مرجائے گا

    گیروا، سبز، چمپئی، دھانی

    رنگ سب آسمان کے دیکھے

    گرمیاں، سردیاں، بہار، خزاں

    سب مزے اس جہان کے دیکھے

    وہی بستی وہی قصبہ ہمارا

    پتہ اب تک نہیں بدلا ہمارا

    وہی ٹوٹی ہوئی کشتی ہے اپنی

    وہی ٹھہرا ہوا دریا ہمارا

    ہم ان کو سوچ میں گم دیکھ کر واپس پلٹ آئے

    وہ اپنے دھیان میں بیٹھے ہوے اچھے لگے ہم کو

    بہت شفاف تھے جب تک کہ مصروفِ تمنا تھے

    مگر اس کارِ دنیا میں بڑے دھبے لگے ہم کو

    کل جس کا تصور ہی نشاطِ دل و جاں تھا

    آج اس سے ملاقات بھی اچھی نہیں لگتی

    احمد مشتاق اپنے احساسات پر وارد ہونے والی ہر کیفیت، ہر تجربے کا معروضی تلازمہ اپنے گردوپیش کی دنیا میں ڈھونڈتے ہیں۔ پھول، پرندے، درخت، رنگ، موسم، فصلیں، چیزیں اور لوگ جن سے یہ دنیا آباد ہے، وہ احمد مشتاق کے لیے اپنے اظہار کا واسطہ بن جاتے ہیں۔ وہ عام شاعروں کے برعکس، نہ تو کسی غیرمعمولی سطح تک رسائی کی جستجو کرتے ہیں، نہ انوکھی، غیررسمی کیفیت پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے اشعار میں معمولی اور مانوس مظاہر کا غیرمعمولی پن ان کی حسیت کے منفرد زاویے، زبان و بیان کے گہرے شخصی آہنگ اور پڑھنے یا سننے والے کو فوراً اپنے اعتماد میں لے لینے والی کیفیت کے باعث رونما ہوتا ہے۔

    اس سلسلے میں احمد مشتاق اور ان کے ہم عصروں میں دوباتوں نے بہت فرق پیدا کیا ہے۔ ایک تو یہ کہ احمد مشتاق ذہنی اور حسی تجربوں کو ٹھوس پیکروں کی مدد سے بیان کرنے کا خاص ملکہ رکھتے ہیں۔ ان کے شعور کی سطح پر قدم رکھتے ہی، ہر خیال ایک مجسم واردات بن جاتا ہے۔ پڑھنے و الا یہ محسوس کرتا ہے کہ اس خیال کو دیکھنا اور چھونا بھی ممکن ہے۔ یہ رسمی نوعیت کے علامتی تبدل سے زیادہ ایک طرح کی مادہ پرستی ہے اور اس کے لیے دیدۂ بینا کی وہ شرط عایدہوتی ہے جس کے مطابق تخلیقی تجربے کا حصہ بنتے ہی خیال ایک نیا قالب اختیار کرلیتے ہیں۔ غیر حساس کائنات بھی حساس بن جاتی ہے۔

    دوسرے یہ کہ احمد مشتاق مظاہر سے اپنے تمام تر لگاؤ کے باوجود پامال اور پیش پا افتادہ استعاروں اور علامتوں سے اپنے آپ کو حتی الامکان بچائے رکھتے ہیں۔ سمندر، ریت، پیاس، صحرا، دھوپ، آگ، شجر جیسے علائم اپنی تکرار کے باعث ساری کشش کھو بیٹھے ہیں اور ان کے وسیلے سے ہم بالعموم گھسے پٹے موضوعات اور مضامین تک پہنچتے ہیں۔ احمد مشتاق کے یہاں عمومی نوعیت کے علائم اور پیکروں کی طرف بھی ایک اختصاصی (specific) اندازِنظر نے ان علامتوں اور پیکروں کو ایک خاص شخصیت، ایک علاحدہ پہچان دے دی ہے۔ ہمارے عہد کے غزل گویوں میں علائم اور الفاظ کے اس منفرد تشخص کا طلسم، احمد مشتاق کی جیسی گہری اور دل پذیر سطح پر کہیں اور نظر نہیں آتا۔

    شمس الرحمن فاروقی نے احمدمشتاق کو فراق سے بہتر غزل گو قرار دیا تھا۔ ان کی یہ رائے کچھ دنوں تک گفتگو کا موضوع بھی بنی۔ جہاں تک خود احمد مشتاق کا تعلق ہے تو ان کا یہ رویہ کچھ کم اہم نہیں کہ انہوں نے کبھی اپنے آپ کو پروجیکٹ کرنے کی ذرا بھی کوشش نہیں کی۔ بازار میں کیا ہو رہا ہے، اس سے وہ یکسر بے نیاز اور اپنے آپ میں گم رہے۔ وہ عادتاً شعر نہیں کہتے۔ اس لیے جب چاہتے ہیں چپ بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کے ہم عصروں میں، پڑھنے والوں نے کسی اور کے شعر کا کبھی اس طرح انتظار نہیں کیا جس طرح احمد مشتاق کے شعر کا۔ یہ بھی ایک عجب شان محبوبی ہے، استغنا، بے نیازی اور اعتماد کے عناصر سے بھری ہوئی۔

    مأخذ:

    ہم نفسوں کی بزم میں (Pg. 213)

    • مصنف: شمیم حنفی
      • ناشر: مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2006

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے