Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اخباری زبان

عبد المجید سالک

اخباری زبان

عبد المجید سالک

MORE BYعبد المجید سالک

    (ایک تقریر)

    (’’اخباری زبان‘‘ کوئی باقاعدہ مقالہ نہیں بلکہ یہ اس تقریر کے بستہ جستہ نوٹ ہیں جو مولانا عبدالمجید صاحب سالکؔ مدیر روزنامہ انقلاب، لاہور نے پنجاب یونیورسٹی کی جرنلزم کلاس کے طلبا کے سامنے کی تھی۔ سالک صاحب نے ادبِ لطیف کے لیے ان نوٹوں کو ایک مسلسل لڑی میں پرودیا ہے۔ کہنہ مشق اور تجربہ کار اخبارنویسوں کے بجائے محترم مقرر کے مخاطب نوجوان اور مبتدی طلباء تھے۔ اردو اخبار نویسی کے اس بے انتہا دشوار پہلو کی اہمیت کو پوری طرح اجاگر کرنے کے لیے مولانا سالک صاحب نے اپنے ذاتی تجربہ کی روشنی میں اختصار لیکن جامعیت کے ساتھ ایسے زریں اصول تجویز کیے ہیں جن پر عمل کرکے ہمارے نوجوان اردو صحافت کو عروج کے اس نقطہ پر لے جاسکتے ہیں، جہاں مغربی زبانوں کے اخبار مدتوں پہلے پہنچ چکے ہیں۔) ’’ن‘‘

    میرے نوجوان دوستو!

    کسی زبان کی نثر اور اس کے اسالیب کے متعلق ایک آدھ گھنٹے کی تقریر میں تمام ضروری باتیں بیان کردینا بے انتہا مشکل کام ہے۔ یہاں تک کہ اگر نثر کی مختلف قسموں کو علیحدہ علیحدہ بھی کرلیا جائے اور علمی نثر، ادبی نثر، اخباری نثر اور سرکاری نثر کو الگ الگ بیان کرنے کا بندوبست بھی کرلیا جائے تو ان میں سے کسی ایک کو ایک لکچر میں بیان کرنا بھی آسان نہیں ہے۔ لیکن آج میں کوشش کروں گا کہ آپ کو اردو کی کم از کم اخباری نثر کی ارتقا اور اس کے مختلف اسالیب کے متعلق تھوڑا بہت علم حاصل ہوجائے۔ میں جو کچھ بیان کروں گا وہ محض اس موضوع کا ایک خاکہ سا ہوگا۔ اور اس سے میرا مطلب یہ ہے کہ آپ میں سے جو نوجوان اس موضوع کومطالعہ و تحقیق کا سامان بنانا چاہیں ان کی خدمت میں ضروری مشورے عرض کردوں۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ اردو اخبارات کوئی ایک سو سال سے جاری ہیں۔ لیکن سرسید احمد خاں کی تحریک سے پہلے جو اخبارات جاری ہوئے ان کی زبان اور نداز تحریر میں وہی پرانا فارسی آمیز رنگ موجود تھا۔ بلکہ بعض اخباروں میں مقفےٰ و مسجع عبارتیں لکھی جاتی تھیں۔ سرسید احمد خاں اردو کے پہلے اخبار نویس ہیں جنہوں نے اپنے رسالہ تہذیب الاخلاق اور علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں ایسے مضامین لکھے جن کا آج بھی مطالعہ کیا جائے تو ان کی زبان اور ان کے اسلوب میں کوئی قدامت اور کوئی پرانا پن محسوس نہیں ہوتا۔ سرسید نے زبان کو تمام پرانے تکلفات سے پاک کیا۔ غیرضروری تمہیدوں اور مشکل فارسی اور عربی کے لفاظ کو ترک کیا۔ مقفےٰ و مسجع عبارتوں کا مضحکہ اڑایا اور اردو لکھنے والوں کو اس پختہ اور زریں اصول سے روشناس کرایا کہ ’’جو بولو وہ لکھو‘‘ ۔ چنانچہ ان کی اور ان کے ساتھیوں کی تحریریں پڑھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایک ذی علم آدمی ایک شائستہ مجلس میں بے تکلف اپنے خیالات کا اظہار کر رہا ہے اور وہ جو کچھ کہتا ہے اس کی ایک ایک بات سننے والوں کے دلو ں میں اترتی چلی جاتی ہے۔ ایک وہ زمانہ تھا کہ سید انشاء اللہ انشا نے مرزا مظہر جانجاناں شہید سے ملاقات کی، تو عرض کیا کہ،

    ابتدائے سن صبا سے تااوائل ریعان دادائل ریعان سے الی الآن اشتیاق تقبیل عتبہ عافیہ نہ بحدے تھا۔ کہ سالک تحریر و تقریر میں منسلک ہوسکے۔ لہٰذا بے واسطہ و بے وسیلہ حاضر ہوا ہوں۔

    اور مرزا مظہر جانجاناں نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا،

    ہم کو بھی عہدطفلی سے تم ایسوں ہی سے مجالست و موانست رہا کی ہے۔ یعنی پڑھے لکھے لوگ ایسی زبان استعمال کرنا ضروری سمجھتے تھے۔ جس کو اہل علم کے سوا کوئی دوسرا سمجھ بھی نہ سکے۔ اور جو شخص سادہ و سلیس تقریر و تحریر کو پسند کرتا تھا۔ اس کو جاہل سمجھتے اور اس کے بازاری پن پر ناک بھوں چڑھاتے تھے۔ آپ کو معلوم ہے کہ ڈاکٹر جانسن انگریزی تحریر میں مشکل پسندی کے شوقین تھے۔ اور جب انہیں کے زمانے میں گولڈسمتھ نے سلیس انگریزی میں لکھنا شروع کیا۔ تو اہل علم نے اس کو پسند نہ کیا۔ لیکن چونکہ سلاست عام لوگوں کے لیے بے انتہا مرغوب تھی۔ اس لیے گولڈسمتھ کی تحریریں بہت جلد مقبول ہوگئیں۔ اور تھوڑی ہی مدت میں وہ انگریزی کا مایۂ ناز انشاپرداز سمجھا جانے لگا۔ یہی کیفیت ہمارے ہاں ہوئی۔ سرسید احمد خاں ایک مقبول عام تحریک کے لیڈر تھے۔ جب انہوں نے اپنے خیالات سادہ و سلیس انداز سے لوگوں تک پہنچانے شروع کیے تو سارا ہندوستان ان کی طرف متوجہ ہوگیا اور جب ان کے مضامین ذوق شوق سے پڑھے جانے لگے تو دوسرے لکھنے والوں کو بھی خواستہ یا ناخواستہ سلاست اختیار کرنی پڑی۔ عین اسی زمانے میں مرزا غالبؔ نے اپنے خطوط میں پورے پورے تجدد کا ثبوت دیا۔ اور تمام پرانے القاب و خطابات اور تمہیدات کو اس طرح اتار پھینکا جس طرح سانپ اپنی کینچلی اتار دیتا ہے۔ آپ میں سے جن دوستوں نے مرزا غالب کے رقعات پڑھے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ وہ آج تک اردو نثر کا بہترین نمونہ ہیں۔ ہماری زبان کو قدامت کی زنجیروں سے آزاد کرانے میں سرسید اور مرزا غالب کا بہت بڑا حصہ ہے۔ پنڈت رتن ناتھ سرشار مصنف فسانہ آزاد کی خدمت بھی کچھ کم نہیں۔ لیکن ان کے ہاں رنگارنگ بزم آرائی ہے۔ کہیں کہیں ان کی نثر سادگی، محاورہ اور سلاست کا معجزہ معلوم ہوتی ہے۔ لیکن کہیں وہ بھی قدامت کی دلدل میں ایسے پھنس جاتے ہیں کہ الفاظ و تراکیب کاہجوم پڑھنے والے کو پریشان کردیتا ہے۔

    اس دور کے بعد جو اخبارات جاری ہوتے ان میں یہی سادگی اور سلاست جلوہ ریز نظر آتی ہے۔ پنجاب میں پیسہ اخبار، وطن، اخبار عام، اور لالہ دینا ناتھ کا ہندوستان اور ہمالہ اور دیش اسی مسلک پر گامزن ہے۔ ان اخباروں کی عبارت سیدھی سادی اور سلیس تھی۔ ہر قسم کے تکلف سے پاک نہ اس میں پرانے رنگ کا تصنع تھا نہ غیرضروری عربی فارسی اور سنسکرت الفاظ کی ٹھونس ٹھانس تھی۔ اگر انہیں یہ کہنا ہوتا تھا کہ ہندوستان کو آزادی حاصل کرنی چاہیے تو اس کو اسی طرح کہہ دیتے تھے۔ یہ نہ کہتے تھے کہ ’’ہندوستان کو استخلاص و استقلال کی منزل پر فائز المرام ہونے کی جہد بلیغ کرنی چاہیے۔‘‘ چونکہ یہ لوگ صحیح اصول پر کام کرتے تھے۔ عوام ان کی ہر بات کو سمجھتے تھے۔ اس لیے ان کے اخباروں کی اشاعتیں بہت کافی تھیں اور ہر گھر میں ان کا مطالعہ کیا جاتا تھا۔

    لیکن اس میں شک نہیں کہ ان کی تحریروں میں پھیکا پن بہت نمایاں تھا۔ ان کے انداز میں پڑھے لکھوں اور علمی و ادبی ذوق رکھنے والوں کے لیے کوئی خاص دلکشی نہ تھی۔ اور آپ اس معاملے میں میرے ساتھ اتفاق کریں گے کہ اخبار کا کام صرف خبر پہنچانا اور واقعات فراہم کردینا ہی نہیں۔ بلکہ پڑھنے والوں کے ذوق کی تسکین اور ان کے علم اور کلچر میں اضافہ کرنا بھی ہے۔ چنانچہ عین اس زمانے میں جب یہ اخبارات اپنے عروج پر تھے بعض سیاسی حالات نے بعض بڑے بڑے ادیبوں اور صاحب طرز انشاء پردازوں کو اخبار نویسی کے میدان میں لاڈالا اور لاہور میں مولانا ظفر علی خاں اور کلکتہ میں مولاناابوالکلام آزادؔ نے ’’زمیندار‘‘ اور ’’الہلال‘‘ کی بنیاد رکھی۔ ’’زمیندار‘‘ روزانہ ہوگیا لیکن الہلال ہفتہ واری رہا۔ چونکہ یہ اخبارات بڑے سازوسامان سے نکلے تھے۔ زمیندار کے عملے میں ملک کے بہترین لکھنے والے فراہم کرلیے گئے تھے۔ اور ہندوستان میں سب سے پہلے ایک اردو اخبار نے رائٹر اور ایسوشی ایٹڈ پریس کی خبریں براہ راست مہیا کی تھیں۔ اس کے علاوہ ’’الہلال‘‘ کا ٹھاٹھ یورپ کے بہترین باتصویر اخباروں اور رسالوں کا سا تھا۔ اس لیے قدامت کے ایوانوں میں ایک زلزلہ سا پڑگیا۔ سیاسی گرم بازاری نے ان اخباروں کو اور بھی تقویت دے دی۔ اور ان کی تیز روشنی کے سامنے پرانوں کے چراغ اس طرح ماند پڑگئے جیسے بجلی کے بڑے بڑے قمقوں کے آگے مٹی کے دیے کی روشنی ماند پڑجاتی ہے۔ مولانا ظفر علی خان بہت بڑے زبان دان تھے۔ اور اگر چاہتے تو اپنی تحریر میں سادگی ملحوظ رکھ سکتے تھے لیکن چونکہ فارسیت بہت غالب تھی اور اردو ادب کے بلند نمونے بہرحال فارسیت کے اثر سے آزاد نہیں رہ سکتے۔ اس لیے مولانا کی تحریر عوام کے لیے خاصی مشکل اور اہل علم اور اربابِ ذوق کے لیے خاصی دلفریب ثابت ہوئی۔ اگر یہ کہنا مقصود ہو کہ ’’وہ لوگ جو خدا کے آگے جھکتے ہیں۔‘‘ تو مولانا اس کو یوں فرمائیں گے ’’وہ بندگان عجز و تذلل جن کی جبینِ نیاز و عبودیت جنابِ باری کے آستانۂ جلال و جبروت کے آگے سجدہ ریز رہتی ہے۔‘‘ مولانا ابوالکلام آزاد کا معاملہ اس سے بھی چار قدم آگے تھا۔ وہ اپنی نثر میں قرآن و حدیث اور منطق و فلسفہ کی تلمیحات و اصطلاحات بے تکلف استعمال کرتے تھے۔ اور عربی و فارسی کے اشعار اس طرح بے ساختہ لکھ دیتے تھے جیسے ان کا ہر مخاطب ابوالکلام آزاد کا ہم سبق یا ندوۃ العلماء کا طالب علم رہا ہے۔ ’’تذکرہ‘‘ کے آخر میں اپنے حالات لکھتے ہوئے مولانا آزاد نے جو چند ابتدائی سطریں لکھی ہیں وہ ملاحظہ فرمائیے۔

    ’’یہ غریب الدیار عہد وفا ناآشنائے عصر، یگانۂ خویش و نمک پروردۂ ریش، معمورۂ تمنا و خرابۂ حسرت کہ موسموم بہ احمد و مدعوبابی الکلام ہے۔ ۱۸۸۶ء مطابق ۱۳۰۵ہجری میں ہستی عدم سے اس عدم ہستی نما میں وارد ہوا۔ اور تہمتِ حیات سے مہتمم الناس ینام اذاماتو افانتبہو!،

    شورے شد و از خوابِ عدم چشم کشودیم

    دیدیم کہ باقیست شبِ فتنہ غنودیم

    میں انتہائی بدذوقی کا ثبوت دوں گا اگر اس ادب و انشاء کی خوبیوں کی قدر نہ کروں۔ علم و ذوق رکھنے والے اشخاص کے لیے یہ بدیع انداز تحریر بے انتہا دلکش اور روح افروز ہے۔ لیکن جن تحریروں کے مخاطب عوام ہوں۔ ان میں اس قسم کی لفاظی و لسانی کچھ معنی نہیں رکھتی۔ اس کے علاوہ ظفر علی خاں اور ابوالکلام ہر روز پیدا نہیں ہوتے۔ جس طرح شعر میں مرزا غالبؔ کی مشکل پسندی نے ان کے ہزاروں پیر و پیدا کردیے۔ جو محض الفاظ و تراکیب کو شعر میں جمع کردینا ہی کمال سمجھتے ہیں۔ اور اپنے زعم میں مرزا غالب کے جانشیں بنے پھرتے ہیں۔ اسی طرح ان نئے ادیب اخبار نویسوں نے بھی جاہل اور برخود غلط نوجوانوں کی ایک قطار پیدا کردی جو مشکل اور الجھی ہوئی نثر لکھ کر اپنے آپ کو ابوالکلام آزاد کا مثنےٰ سمجھ لیتے ہیں۔ حالانکہ ان بزرگوں کے دماغوں میں اگر الفاظ کی کثرت تھی تو علم کی افراط بھی تھی۔ لیکن ان کے پیر و محض الفاظ کی کثرت پر ناز کرتے ہیں۔ اور یہ نہیں سمجھتے کہ سب سے پہلی اور ضروری چیز علم ہے۔

    غالباً اسی عمل کے ردعمل نے خواجہ حسن نظامی کو پیدا کیا۔ جنہوں نے آسان زبان اور روزمرہ نویسی کو رواج دیا۔ اور اپنی تھوڑی سی عمر میں بیسیوں اخبارات جاری کیے اور بند کیے۔ بلکہ جاری کرائے اور بند کرائے۔ ان میں سے کچھ سخت جان پرچے اب تک جاری ہیں۔ آپ خواجہ حسن نظامی کے خیالات کو پست اور معلومات کو محدود اور زاویہ نگاہ کو تنگ کہتے۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ انہوں نے اخباری زبان کو مشکل پسندی اور ژولیدگی سے نجات دلانے میں بہت پرزور جہاد کیا اور اپنے بے شمار مقلدین پیدا کردیے جو سادہ و سلیس لکھتے ہیں۔ اگر ان میں کوئی ذی علم اور عالی دماغ آدمی پیدا ہوگیا تو اس کی تحریر معقولیت سنجیدگی اور سادگی کا دلفریب مرقع بن جائے گی۔

    ’’زمیندار اور الہلال‘‘ وغیرہ کے بعد پنجاب میں بندے ماترم، ملاپ، پرتاپ، زمیندار، سیاست، اور ان کے بعد انقلاب، شہباز، احسان، ویربھارت جاری ہوئے۔ اس دور میں اخباری زبان کو دو نئی مصیبتوں سے سابقہ پڑا۔ اس میں شک نہیں کہ لفاظی اور مشکل پسندی تو بہت بڑی حدتک ختم ہوگئی لیکن ایک تو بعض ایسے حضرات نے اردو میں اخبارنویسی کا آغاز فرمایا جن کو زبان اردو سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ دوسرے چونکہ اخبارنویسی کا دائرہ وسیع ہوگیا۔ اخباروں کے مشاغل بہت زیادہ بڑھ گئے اور خبروں اور مضمونوں کی بھرمار ہونے لگی۔ اس لیے انگریزی سے ترجمہ کا کام بہت بڑھ گیا۔ نئے اخبار نسیوں میں جو لوگ زبان دان اور ادیب تھے۔ جب وہ ترجمے کی بیماری سے محفوظ نہ رہ سکے تو زبان نہ جاننے والے اناڑی اس رَد کا کیا مقابلہ کرسکتے۔ غرض اخباری زبان میں غلط زبان، غلط محاورات، غلط الفاظ او رناگوار جملوں کا ایک طوفان برپا ہوگیا۔ میں مانتا ہوں کہ گزشتہ جنگ عظیم، تحریک عدم تعاون، سول نافرمانی، بین الاقوامی شورشوں اور موجودہ جنگ میں بے شمار نئے الفاظ دوسری زبانوں سے اردو میں منتقل ہوگئے اور ان میں بعض بہت ہی خوشنما اور بے بہا ہیں۔ لیکن ان ہنگاموں کی وجہ سے زبان اور اندازبیان میں ایک طوائف الملوکی سی برپا ہوگئی۔ اردو بخوبی جاننے والوں نے اس ترجمے کی مصیبت کو پورا کرنے کے لیے عربی اور فارسی الفاظ سے کھلم کھلا او ربے تکلف فائدہ اٹھایا۔ لیکن اس سے بعض اوقات ان کی نثر میں گرانباری بہت بڑھ گئی۔ اور جن کو عربی فارسی کا علم بھی بہت کم حاصل تھا۔ ان کی بیکسی اور بے بسی بہت ہی قابل رحم تھی۔ وہ انگریزی الفاظ اور فقروں کو سمجھتے تو تھے لیکن اپنی زبان میں بیان نہیں کرسکتے تھے۔ آپ خود خیال فرمالیجیے۔ آیا اس شخص کی حالت قابلِ رحم نہیں جو اپنی زبان نہ جاننے کی وجہ سے اظہارِ خیالات پر قادر نہ ہو۔ گونگے کی طرح سمجھے تو سب کچھ اور بول نہ سکے۔ لیکن چونکہ اظہار خیالات ضروری تھا اور ترجمہ بھی لازمی لہٰذا انہوں نے بڑی بڑی ٹھوکریں کھائیں اور زبان پر بڑے بڑے ظلم کیے۔

    اب ہماری اخباری زبان کا رنگ کیا ہے؟ چونکہ اخبار نویسی یورپ سے آئی ہے۔ لہٰذا اس کو یورپ ہی سے سیکھنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ چونکہ بدقسمتی سے ہماری خبریں، ہماری اطلاعات اور باہر کے مکتوب انگریزی میں موصول ہوتے ہیں۔ اس لیے ہمیں ترجمہ بھی کرنا ہے۔ چنانچہ ہمارے اخبارات روزبروز انگریزی رنگ اختیار کرتے چلے جاتے ہیں۔ اگر اخباری اولوالعزمی حریفانہ مقابلہ، وسیع سازوسامان اور انتظامات کی عمدگی میں ہم انگلستان کے اخباروں کی نقل کریں۔ تو اس سے بہتر اور کیا ہوسکتا ہے۔ لیکن ہم زبان میں ان کی نقل کر رہے ہیں۔ مثلاً آج کل اخباروں میں جو مترجم کام کر رہے ہیں ان کو آپ یہ فقرہ ترجمہ کرنے کو دے دیجیے۔

    Adverse climatic conditions prove F ed the socialists from holding their conference.

    تونوے فیصدی اس کا ترجمہ یوں کریں گے،

    ’’ناموافق موسمی حالات نے سوشلسٹوں کو کانفرنس منعقد کرنے سے روک دیا۔‘‘

    حالانکہ اس کا ترجمہ اردو میں یوں ہونا چاہیے تھا کہ،

    ’’موسم کی خرابی کی وجہ سے سوشلسٹوں کا جلسہ نہیں ہوسکا۔‘‘

    ایک دفعہ میرے ماتحت ایک مترجم صاحب کام کرتے تھے۔ ان کے سامنے ایک خبر آئی۔

    There was an explosion in a coal mines resulting in the death of five persons.

    مترجم صاحب نے علم و فضل کے جوش میں اس کا یہ ترجمہ فرمایا،

    ایک معدنِ زُغال میں دھماکہ ہوا۔ نتیجے کے طور پر پانچ نفوس کی ہلاکت وقوع پذیر ہوئی۔

    حالانکہ بات صرف اتنی تھی کہ ’’کوئلے کی کان پھٹ گئی۔ پانچ آدمی مر گئے‘‘ اور پھر ’’نتیجے کے طور پر‘‘ تو ایسی نفرت انگیز ترکیب ہے کہ قطعی پور پر ترک ہونی چاہیے۔

    مثلاً ایک مشہور فقرہ ہے،

    He was conveyed to his place of residence in an intoxicated condition.

    آپ جانتے ہیں۔ کہ یہ فقرہ بھی کچھ اچھی انگریزی یا۔۔۔ King’s English کا نہیں۔ شاید یہ بہتر ہوتا

    He was carried home drunk.

    لیکن ہمارے مترجم صاحب اس کا ترجمہ یوں کریں گے،

    ’’وہ مخموری کی حالت میں اپنے مقام سکونت کو لے جایا گیا۔‘‘

    حالانکہ اردو زبان میں اس کا ترجمہ یہ ہونا چاہیے،

    ’’وہ نشے میں تھا۔ اسے گھر لے گئے۔‘‘ یا ’’وہ نشے کی حالت میں گھر پہنچا دیا گیا۔‘‘

    پرانے زمانے کے ایک عالم بزرگ کا ذکر کرتے ہیں کہ کسی دوست نے ان سے اپنے گھوڑے کے لیے تھوڑی سی گھاس مانگ بھیجی۔

    عالم صاحب کے اں اس وقت گھاس موجود نہ تھی۔ انہوں نے جواب میں رقعہ لکھا کہ،

    ’’مکرم معظم۔ ہمارے متبن میں تو اتنا بِتن بھی نہیں کہ عصافیر اپنے مناقیر میں لے کر سقف خانہ میں آشیانہ بناسکیں۔ چہ جائے کہ اخیال و افیال احبّا و اخلا کے لیے قدر قلیل مہیا کیا جاسکے۔‘‘

    آپ اس پر ہنستے ہیں۔ یقین کیجیے کہ آج سے پچاس سال کے بعد ہمارے پڑپوتے ہمارے ترجموں پرہنسیں گے۔ اور پھر یہ بیماری ترجمہ ہی تک محدود نہیں رہتی۔ بلکہ ترجمہ کرتے کرتے اسی قسم کی اردو لکھنے کی عادت ہوجاتی ہے۔ اور یہی زبان اور اسلوب نوٹوں اور لیڈروں کے اندر نظر آنے لگتا ہے۔ گویا ہماری اخباری زبان کا پہلامرحلہ لفاظی اور مقفیٰ عبارت اور تکلفات کا تھا۔ اس کے بعد سادگی اور سلاست آئی۔ جس میں غیرملکی اثر کا نشان نہ تھا اور ہماری زبان محفوظ تھی۔ پھر زمیندار و الہلال کی وجہ سے قدیم کے بجائے جدید رنگ کی مشکل پسندی اور تکلف و تصنع کا دور دورہ ہوگیا۔ اس کے بعد زبان پھر صاف اور سلیس ہوے لگی۔ لیکن ایک تو غیرزبان دان اناڑی اخبارنویسوں نے اور دوسرے بے احتیاط ترجمہ کرنے والوں نے گڑبڑمچادی۔ اگر آپ حضرات اخبار نویسی کی زبان کو اس گڑبڑ سے نجات دلادیں تو پھر ہماری اخبار نویسی کو کوئی خطرہ نہ رہے گا۔ اور وہ بھی دوسرے ملکوں کی صحافت کی طرح ٹھیک رستے پر رواں ہوجائے گی۔

    بعض لوگ اسلوب تحریر پر بہت زور دیتے ہیں جسے انگریزی میں اسٹائل کہا جاتا ہے۔ اس معاملے میں میرا خیال سن لیجیے۔ اسٹائل حقیقت میں اندرونی ہوبی کلچر کا بیرونی مظاہرہ ہے۔ اس لیے جو شخص تکلف اور آرزو کے ساتھ کوئی خاص اسٹائل اختیار کرتا ہے۔ وہ میرے نزدیک اسٹائلسٹ نہیں الفاظ کا مداری ہے۔ شعبدہ باز ہے۔ اس کی نثر کھوٹا سکہ ہے۔ ذرا گڑنے سے اس کی اصلیت ظاہر ہوجائے گی۔ جو شخص دانستہ یہ کوشش کرتاہے کہ میرے ہر فقرے میں ایک آدھا فارسی ترکیب اور ایک آدھا اردو کا محاورہ ضرور آنا چاہیے۔ اور اس کے لیے سوچ سوچ کر فقرے بناتا ہے وہ اپنا وقت ضائع کرتا ہے۔ اسے لکھنے کی جگہ کوئی اور کام کرنا چاہیے۔ وہ لوہار یا بڑھئی ہوتا تو بہتر تھا۔

    آپ لوگ چونکہ نوجوان ہیں۔ اور ابھی لکھنے پڑھنے کی پہلی منزل پر ہیں اس لیے میں آپ کی خدمت میں یہ گزارش کرتا ہوں کہ آپ عمر بھر اسٹائل کی فکر نہ کیجیے۔ اگر آپ اخبار نویس بننا چاہتے ہیں تو یہ تکلف والا مصنوعی اسٹائل اختیار کرنا آپ کی طاقت و توفیق سے باہر ہے۔ اس کے لیے بے حد مغززنی کرنی پڑتی ہے۔ لکھنے میں دیر بہت لگتی ہے اور حاصل حصول کچھ نہیں۔ اخبار نویسی کی زندگی میں آپ کو ہمیشہ نہایت جلد جلد اور تیزی سے لکھنا پڑے گا اس لیے اسٹائل وغیرہ کی عیاشیوں سے پرہیز کیجیے۔ میرا نسخہ یہ ہے کہ متعلقہ مضامین سیاسیات، اقتصادیات، جغرافیہ، تاریخ، آئین، ادب میں جہاں تک وسیع معلومات حاصل ہوسکیں، حاصل کیجیے۔ اپنے دماغ کو استدلال کا عادی بنائیے۔ مطالعہ زیادہ کیجیے۔ کتابوں کا بھی، انسانوں کا بھی، اداروں کا بھی، اس کے بعد یقین کیجیے کہ آپ جو کچھ لکھیں گے اس میں ایک اسٹائل ہوگا جو آپ کو محسوس ہوسکے یا نہ ہوسکے۔ پڑھنے والے اسے ضرور محسوس کریں گے۔ میں اپنے متعلق عرض کرتا ہوں کہ میرا کوئی اسٹائل نہیں۔ میں ہمیشہ نہایت فراٹے سے لکھتا ہوں اپنا لکھا ہوا کبھی میں نے دوبارہ پڑھنے کی تکلیف گوارا نہیں کی۔ لیکن بے شمار ایسے اہل ذوق دوست موجود ہیں جن کے سامنے ’’انقلاب‘‘ کا کوئی سا پرچہ رکھ دیجیے وہ پڑھ کر بتادیں گے کہ کون سا مضمون سالک کا لکھا ہوا ہے اور کون سا مہر صاحب کا۔ اس لیے آپ اپنے دماغوں کی تربیت کی فکر کیجیے، اسٹائل اپنی فکر خود کرلے گا۔

    میری گزارشوں سے آپ کو یہ اندازہ تو ہوگیا ہوگا کہ ہماری اخباری زبان کو کیا کیا منزلیں طے کرنی پڑی ہیں اور کیا کیا مصیبتیں درپیش ہیں۔ اب میں ایک عملی اخبارنویس کی حیثیت سے جو پچیس سال سے اس کوچے کی خاک چھان رہا ہے۔ چند باتیں آپ سے عرض کرتاہوں۔ اگر آپ ان کا خیال رکھیں گے تو کبھی ٹھوکر نہ کھائیں گے اور آپ کا کام بے حد آسان ہوجائے گا۔

    (۱) پہلی بات یہ ہے کہ زبان اردو کو باقاعدہ حاصل کیجیے۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے آج کل کے نظام تعلیم کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ ایک غیرملکی زبان تو ایسے طریقے سے سکھائی جاتی ہے کہ بی، اے۔ ایم، اے کرلینے کے بعد ہرنوجوان صحیح انگریزی میں چار سطریں لکھ سکتا ہے۔ لیکن اردو کئی سال تک سیکھنے کے بعد بھی ہمارے اکثر تعلیم یافتہ نوجوان دوسطریں صحیح نہیں لکھ سکتے۔ جس طرح آپ انگریزی میں ارتھاگرافی۔ سنٹیکس۔ پراسوڈی۔ ایڈیم اور کمپوزیشن سیکھتے ہیں اور ان چیزوں کی تعلیم اور مشق حاصل کیے بغیر آپ کو انگریزی زبان نہیں آسکتی۔ اسی طرح اردو میں بھی صرف و نحو، محاورہ عروض، مضمون نگاری کی کتابیں موجود ہیں۔ مصنفوں کی تصنیفات موجود ہیں۔ ان کو ذوق شوق اور محنت سے پڑھیے۔ اور جس طرح آپ انگریزی لٹریچر کے تمام اسلوبوں اور زبانوں کے متعلق گفتگو کرسکتے ہیں۔ اسی طرح اردو لٹریچر کے متعلق بھی معلومات پیدا کیجیے تاکہ ایک تو آپ کو اپنے ملک کی زبان کا حال معلوم ہو۔ اس کا ادبی ذخیرہ سامنے آئے اور آپ کو تحریر و تقریر کے لیے ذخیرہ الفاظ حاصل ہو۔ کوئی شخص جو زبان نہیں جانتا۔ اس زبان کا اخبار نویس نہیں بن سکتا۔ اس وہم میں کبھی نہ رہیے کہ اِدھر اُدھر کے غلط سلط اخبار پڑھ کر آپ اردو کے اخبار نویس بن جائیں گے۔ اردو اخبار نویسی کے لیے اردو سیکھنی پڑے گی۔

    (۲) دوسری بات یہ ہے کہ رپورٹنگ کرتے وقت دماغ پر بالکل زور نہ دیجیے اور اسلوب اور اسٹائل ڈھونڈنے میں وقت ضائع نہ کیجیے۔ بس جو دیکھیے اور سنیے، نہایت سیدھے سادے طریقے سے لکھنا شروع کردیجیے جو الفاظ خود بخود آتے جائیں وہ لکھتے جائیے۔ رپورٹنگ میں عوام آپ سے خبریں اور واقعات چاہتے ہیں۔ لفاظی اور دلائل نہیں چاہتے۔ خبر کو اس طرح لکھیے جس طرح آپ گھر جاکر اپنے گھر والوں کو تازہ خبریں سنایا کرتے ہیں۔ وہی صاف سیدھا، گھریلو انداز۔ مثلاً یوں نہ کہیے،

    یہ بیان کرتے ہوئے کہ اس نے اپنے باپ کو ہتھوڑے سے نہیں بلکہ محض ایک لکڑی کے ٹکڑے سے مارا تھا ملزم نے سیشن جج کی عدالت میں اپنی برأت ظاہر کی۔

    بلکہ یوں لکھیے کہ،

    سیشن جج کی عدالت میں ملزم نے کہا کہ میں نے قتل نہیں کیا۔ یہ غلط ہے کہ میں نے اپنے باپ پر ہتھوڑا پھینکا تھا بلکہ وہ محض لکڑی کا ایک ٹکڑا تھا۔

    آپ کہیں گے کہ اگر رپورٹنگ میں بھی دلچسپی اور دل آویزی پیدا ہوجائے تو اس میں کیا حرج ہے؟ میراجواب یہ ہے کہ کوئی حرج نہیں بلکہ ضروری ہے۔ لیکن اس کاطریقہ یہی ہے کہ اپنی ادبی کلچر اور اپنے مشاہدے کو زیادہ پاکیزہ اور بلند بنانے کی کوشش کیجیے۔ اس کے بعد تحریر میں دلچسپی خود بخود پیدا ہوجائے گی۔ چیزوں اور واقعات کو دیکھنے اور ان سے متاثر ہونے اور ان کو لوگوں کے آگے بیان کرنے کاطریقہ ہرشخص کا اپنا ہوتا ہے۔ مثلاً اگر آپ مجھے اور مہر صاحب کو اور مکیش صاحب کو اور مہاشہ کرشن کو ایک ہی جلسے یا حادثے رپورٹ لینے کے لیے بھیج دیجیے تو ظاہر ہے کہ ہر شخص کی رپورٹ کا رنگ جداگانہ ہوگا۔ بہت سی چیزیں ہوں گی جو ایک نظر سے اوجھل رہ جائیں گی۔ اور دوسرا انہیں اجاگر کرے گا۔ بس یہیں سے اسٹائل کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ وہ چیز جو ہم چاروں کی تحریروں کو ایک دوسرے سے الگ اور ممتاز کرے گی۔ اسی کا نام اسٹائل ہے اور یہ تکلف نہیں بلکہ خود پیدا ہوجایا کرتا ہے۔

    (۳) تیسری بات یہ ہے کہ لمبے فقرے نہ لکھیے۔ اخبار نویسی میں پیچیدگی سے اس طرح پرہیز کیجیے۔ جیسے بازار میں چلتے ہوئے کسی کوڑھی سے بچ کر چلتے ہیں۔ مثلاً اس قسم کے فقرے ہمارے اخباروں میں اکثر نظر آتے ہیں۔

    سرسکندر حیات خاں نے مسٹر بھیم سین سچر کے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ یونیورسٹی میں حساب کے پرچے کے سلسلے میں جو واقعات پیش آئے۔ ان کے متعلق حکومت پنجاب نے کیا تدبیر اختیار کی ہے اور آیا قصوروار کو سزا دی جائے گی یا نہیں۔ یہ کہا کہ مسئلہ حکومت کے زیرغور ہے۔

    حالانکہ اس کو سیدھے طریقے سے بیان کیا جاسکتا تھا کہ مسٹر بھیم سین سچر نے اسمبلی میں یہ سوال کیا۔ اور سرسکندر نے یہ جواب دیا۔ سر سکندر کانام فقرے کے آغاز میں ٹانک دینے سے خبر کی اہمیت میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا بلکہ گورکھ دھندا سا بن جاتا ہے۔

    ایک اور سنیے۔

    سر سٹیفرڈ کرپس جن کی دوستی پنڈت جواہر لال سے کسی بیان کی محتاج نہیں۔ اور جو چند مہینے پہلے ہندوستان میں آکر پنڈت جی ہی کے مہمان ہوئے تھے۔ اور سوشلسٹ ہونے کے باوجود کانگرس والوں سے ان کے گہرے تعلقات ہیں۔ اب ہندوستان میں آئیں گے۔ تو ان سے اس غیرجانب داری کی توقع رکھنا جس کی توقع کسی لبرل یا ٹوری سے ہوسکتی تھی۔ اور جس سے ہندوستان کی قوموں کے درمیان کسی عملی اتحاد کے خیال کو تقویت دینے کا امکان ہوسکتا تھا سراسر حماقت ہے۔

    اس شیطان کی آنت کو خود آپ ذرا سے غور کے بعد نہایت آسان اور سادہ فقروں میں تقسیم کرکے لکھ سکتے ہیں۔ جن کو پڑھنے میں کسی کو الجھن نہ ہوگی۔

    (۴) چوتھی بات یہ ہے کہ ترجمہ کرتے وقت مکھی پہ مکھی نہ ماریے انگریزی ترکیب جملہ کی پیروی آپ پر فرض نہیں ہے۔ ہر زبان کا ایک علیحدہ مزاج ہوتا ہے۔ انگریزی کا مزاج ’’سردخشک‘‘ ہے۔ اور اردو کا ’’گرم تر‘‘ آپ فرنگیوں کی برودت اور یبوست اپنی زبان میں کیوں پیدا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس حقیقت کو بھی ہر وقت سامنے رکھیے کہ انگریز پیچیدہ فقروں کو پڑھنے اور سمجھنے کا عادی ہوگیا ہوگا۔ اور انگریزی تعلیم پائے ہوئے لوگوں کا ذہن بھی ان فقروں میں الجھتا نہ ہوگا۔ لیکن آپ کے اخبار پڑھنے والے ابھی کم تعلیم یافتہ ہیں۔ اس لیے ان کے سامنے انگریزی کی خبروں کو پانی کی طرح آسان کرکے پیش کیجیے تاکہ کچھ ان کے پلے بھی پڑے۔ وہ محض لفظوں اور فقروں کے ہیر پھیر ہی میں گم نہ ہوجائیں۔ ترجمے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے پوری چیز کے ایک ایک پیراگراف کو پڑھ لیجیے۔ اس کے بعد اسے سامنے رکھ کر اس کا مفہوم ٹھیک ٹھیک اپنی زبان میں لکھ لیجیے۔ ڈکشنری استعمال کرنا کوئی ذلت کی بات نہیں۔ ایک لفظ کے معنی آپ کو آتے بھی ہوں تو ڈکشنری میں ضرور دیکھ لیجیے۔ وہاں اس کے سات معنی لکھے ہوں گے۔ شاید آپ کو کوئی نہایت عمدہ اورمناسب لفظ ہاتھ آجائے جس سے خبر کا ترجمہ نہ صرف صحیح بلکہ بارونق ہوجائے۔ اس مقصد کے لیے فیلن ڈکشنری اور ’’ترقی اردو‘‘ والوں کی ڈکشنری بہت کام دے سکتی ہیں۔

    (۵) پانچویں بات یہ ہے کہ اخبارنویسی میں لفظوں کی فضول خرچی سے بچیے۔ کم علم اخبارنویس کے پاس الفاظ کا ذخیرہ بھی کم ہوتا ہے اور خیالات بھی قلیل ہوتے ہیں۔ اس لیے اس کو تو چھوڑدیجیے۔ بھوکا ننگا فضول خرچی کیا کرے گا۔ اکثر اخبار نویسوں کے پاس الفاظ بہت زیادہ ہوتے ہیں لیکن خیالات کم۔ ان کے مضامین پڑھیے تو چار کالم پڑھ جانے کے بعد دو یا تین نکتے آپ کے ہاتھ آئیں گے، یعنی بھوسی ہی بھوسی ہوگی۔ دانہ کہیں شاذونادر ہی ملے گا۔ اس کے بعد دوسری منزل توازن کی آتی ہے جس میں خیالات اور الفاظ متناسب ہوجاتے ہیں۔ لیکن بلند ترین منزل وہ ہے جہاں الفاظ کم اور خیالات زیادہ ہوتے ہیں۔ شوپن ہائر ایسے اخبار نویسوں کو ’’جینئیس‘‘ کہتا ہے۔ جو تھوڑے الفاظ میں بہت زیادہ خیالات ظاہر کردیں۔ وہ قصہ تو آپ کو یا دہی ہوگا۔ ریویو آف ریویوز نے ایڈیٹر ڈبلیو ٹی سٹید کے پاس مسٹر و کہم سٹیڈ حاضر ہوئے اور عرض کی کہ آپ بزرگ اور تجربہ کار ہیں۔ مجھے اخبار نویسی کا کوئی گڑ بتائیے۔ تو انہوں نے یہ فرمایا۔ کہ جب تم اخبار کے لیے مضمون لکھو تو یہ سمجھ لو کہ میں یہ مضمون اپنے خرچ پر بذریعہ تار آسٹریلیا بھیج رہا ہوں۔ یعنی ان کا مطلب یہ تھا کہ اظہار مطالب میں انتہائی اختصار مدنظر رکھو۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ احتیاط بھی رہے کہ کوئی ضروری بات چھوٹ نہ جائے۔ کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ مطلب ہوجائے (ورنہ دوبارہ آسٹریلیا کو تار دینا پڑے گا اور وہاں تار دینے کی اجرت پانچ شلنگ فی لفظ ہے)

    میں یہ نہیں کہتا کہ آپ کو بالکل مسٹر سٹیڈ کے قول پر عمل کرنا چاہیے۔ آپ کے اہل وطن ابھی علم و معلومات کی اونچی منزل پرنہیں پہنچے۔ انہیں بعض چیزیں کھول کھول کر بتانے کی ضرورت بھی پڑے گی۔ میرا مطلب صرف یہ ہے کہ اخبار میں جگہ کم ہوتی ہے اور خبریں، اطلاعات، مراسلات، لیڈر، نوٹ، مستقل فیچرغرض ایک ہجوم قابلِ اندراج ہوتا ہے۔ اس لیے جہاں تک ہوسکے ہر چیز میں اختصار ضروری ہے۔

    اب آپ خود اندازہ کرلیجیے۔ اخبار نویس کے لیے ضروری ہے کہ وہ صاحب علم ہو، زبان دان ہو، سیاسی و اقتصادی معلومات کافی رکھتا ہو، سادہ سلیس اور جلد سے جلد لکھ سکتا ہو، لمبے اور پیچیدہ فقروں سے پرہیز کرتا ہو، ترجمہ بامحاورہ کرسکتا ہو اور اختصار سے اپنے مطلب کے اظہار پر قادر ہو۔ بس یہی طریقے ہیں جن سے آپ زبان کی خدمت بھی کرسکتے ہیں اخبار نویسی کو بھی بلندی پر پہنچا سکتے ہیں اور رفتہ رفتہ خود ایک خاص اسلوب یا اسٹائل کے مالک بھی ہوسکتے ہیں۔

    مجھے معلوم نہیں میری ان گزارشات سے آپ کی معلومات میں کوئی اضافہ ہوا یا نہیں۔ بہرحال آپ نے جس مہربانی اور نوازش سے میری باتیں سنیں اس کے لیے میں آپ کا دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔

    مأخذ:

    Adab E Lateef Saal Nama 1944-SVK (Pg. 28)

      • ناشر: چودھری برکت علی
      • سن اشاعت: 1944

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے