Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

علامت کی پہچان

شمس الرحمن فاروقی

علامت کی پہچان

شمس الرحمن فاروقی

MORE BYشمس الرحمن فاروقی

    تخلیقی زبان چار چیزوں سے عبارت ہے، تشبیہ، پیکر، استعارہ اور علامت۔ استعارہ اور علامت سے ملتی جلتی اور بھی چیزیں ہیں، مثلاً تمثیل Allegory، آیتSign، نشانی Embelm وغیرہ۔ لیکن یہ تخلیقی زبان کے شرائط نہیں ہیں، اوصاف ہیں۔ ان کا نہ ہونا زبان کے غیرتخلیقی ہونے کی دلیل نہیں۔ علاوہ بریں انھیں استعارے کے ذیل میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔


    لیکن تشبیہ، پیکر، استعارہ اور علامت میں سے کم سے کم دو عناصر تخلیقی زبان میں تقریباً ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ اگر دو سے کم ہوں تو زبان غیرتخلیقی ہوجائے گی۔ یہ اصول اس قدر بین اور شواہد وبراہین کے ذریعہ اس قدر مستند ہے کہ اس سے اختلاف شاید ممکن نہ ہو، تشبیہ کی تعریف بہت آسان اور بہت معروف ہے، دو مختلف اشیاء میں نقطۂ اشتراک کی دریافت اور اس نقطۂ اشتراک کی وضاحت کے ساتھ ان مختلف اشیاء کا ذکر، یہ ہے تشبیہ۔ مثلاً زید شیر کی طرح بہادر ہے۔

    پیکر کی تعریف میں اردو کے نقادوں نے ہمیشہ ٹھوکر کھائی ہے۔ مشتاق قمر صاحب بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں اور پیکر تراشی کے عمل کو ’’خواب کی سی کیفیت سے گزرتے ہوئے جذبے کو ایک ہیولے کی شکل میں پیش کردینے، 1 وغیرہ وغیرہ غیرقطعی اور نادرست الفاظ کے ذریعے ظاہر کرتے ہیں۔ حالانکہ پیکر یعنی Image کی نہایت سادہ اور جامع تعریف یہ ہے کہ ہر وہ لفظ جو حواس خمسہ میں کسی ایک (یا ایک سے زیادہ) کو متوجہ اور متحرک کرے پیکر ہے۔ یعنی حواس کے اس تجربے کی وساطت سے ہمارے متخیلہ کو متحرک کرنے والے الفاظ پیکر کہلاتے ہیں۔ (اسی لیے پیکر کی وضاحت کے لیے محاکات کی اصطلاح ناکافی ہے۔) 

    کبھی کبھی حواس کے مختلف تجربات پیکر یاپیکروں کے ذریعہ اس طرح مل جل کر محسوس ہوتے ہیں کہ ایک خوش گوار، لیکن مکمل وضاحت سے ماورا امتزاج کی شکل پیدا ہو جاتی ہے۔ کچھ نقادوں نے اس صورت حال کو Synesthesia کا غیرتشفی بخش نام دیا ہے، لیکن نام سے قطع نظر، یہ کیفیت دنیا کی بڑی شاعری میں خاصی عام ہے، شیکسپیئر کے آخری ڈراموں کی زبان، (جس کی اوائلی مثالیں میک بتھ میں ملتی ہیں) اور غالب کے بہت سے اشعار امتزاج پیکر کے اعلیٰ نمونے ہیں۔

    محفلیں برہم کرے ہے گنجفہ باز خیال
    ہیں ورق گرادنیٔ نیرنگ یک بت خانہ ہم

    باوجود یک جہاں ہنگامہ، پیدائی نہیں
    ہیں چراغان شبستان دل پروانہ ہم

    ان اشعار میں ’’محفلیں برہم کرے ہے‘‘ بہ یک وقت حرکت اور آواز کے تجربے کو راہ دیتا ہے لیکن بصری تجربہ بھی موجود ہے، ’’ورق گردانی‘‘ بصری تجربہ ہے، لیکن ورق الٹنے کی ہلکی سی آواز کا تاثر موجود ہے، جو اصطلاحی معنوں سے مستحکم ہوتا ہے۔ (گنجفہ میں پتوں کے پھینٹنے کو ورق گردانی اور پتوں کو ورق کہا جاتا ہے۔) ’’نیرنگ‘‘ میں بصری، استماعی دونوں طرح کے تجربے ہیں۔ ’’نیرنگ یک بت خانہ‘‘ بصری ہے، لیکن بت خانے میں مکمل سکوت (یعنی شور کے عدم وجود) کا تصور اس پیکر کو استماعی بھی کر دیتا ہے۔ ’’ورق گردانی‘‘ میں لمسی تاثر بھی موجود ہے، جو ’’بت خانہ‘‘ سے مستحکم ہوتا ہے، کیونکہ بتوں کو چھونا، ان کے قدموں پر سر رکھنا، یہ معمولہ اعمال ہیں۔

    ’’یک جہاں ہنگامہ‘‘ بہ یک وقت بصری، استماعی اور لمسی پیکر ہے، اس کی وضاحت ضروری نہیں۔ ’’چراغانِ شبستان کی خاموشی (یعنی شور کا عدم وجود) استماعی ہے لیکن بنیادی حیثیت سے یہ پیکر بصری ہے (روشنی، اندھیرا، روشنیوں کی قطار) اور لمسی بھی ہے، کیونکہ شبستان میں بستر ہوتا ہے جسے ہم چھو سکتے ہیں۔ چراغان شبستان دل پروانہ مل کر ایک مشامی اور حاری Thermal پیکر بناتے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ ان دونوں اشعار کے تمام پیکروں میں حرکاتی پیکر Kinesthetic Imagery کا بھی شائبہ ہے۔ محفلیں برہم ہورہی ہیں، خیال گنجفہ بازی کر رہا ہے، ہم ورق گرداں ہیں، ایک جہاں ہنگامہ ہے، دل پروانہ میں چراغاں ہے، جس میں شعلے متحرک ہیں وغیرہ وغیرہ۔

    اس طرح پیکر تراشی میں فن کار کو کسی خواب یا مراقبہ کی منزل سے گزرنے اور جذبے وغیرہ کو ہیولے کی شکل میں پیش کرنے یا کسی لمحہ خاص کے تمام زمانی اور مکانی رشتوں سمیت تجسیمی شکل میں پیش کرنے وغیرہ کے پراسرار عمل کے بجائے اپنے حواس خمسہ کو پوری طرح بیدار رکھنا اور اس طرح آپ کے حواس خمسہ کو بیدار کرنے کا عمل کرنا پڑتا ہے۔ یہیں پر مشتاق قمر صاحب کی ایک اور لغزش واضح ہوتی ہے جب وہ انتہائی مشفقانہ اور مربیانہ انداز میں شاعر کو مشورہ دیتے ہیں کہ پیکر تراشی میں ’’متحرک ہیولے کی تجسیم کے لیے متحرک اور ساکن کے لیے غیرمتحرک عناصر کا استعمال ازحد ضروری ہوتا ہے،‘‘ ورنہ خدا جانے کیا کیا مصیبتیں پیش آتیں۔ اب وہ الیٹ کی مثال دیتے ہیں،

    The Fog Rubbing its back
    Against the Window Panes

    اور کہتے ہیں کہ Fog ایک متحرک جسم ہے، اس لیے شاعر اس کی بے قراری ظاہر کرنے کے لیے اسے ایک متحرک عمل یعنی Rubbing its back سے گزارتا ہے۔ اچھا تو لیجئے اسی متحرک جسم کو یہی الیٹ صاحب اپنی دوسری شہرۂ آفاق نظم یعنی The Waste Land میں پیش کرتے ہیں لیکن اسے کسی متحرک عمل سے نہیں گزارتے یعنی،

    Unreal City
    Under the Brown Fog of a Winter Dawn

    یہاں Fog کا پیکر اپنی پوری بصریت کے ساتھ موجود ہے، لیکن حرکت کا کہیں پتہ نہیں، کیونکہ پیکر کے ساتھ حرکت یا سکون کی کوئی قید ہے ہی نہیں۔ اگر مشتاق قمر صاحب کی شرط کو تسلیم کر لیا جائے تو

    Light Thickens
    And the Crow makes Wing..
    اور
    Brightness falls from the air

    جیسے خوبصورت پیکروں کو مہمل قرار دینا پڑےگا، کیونکہ نہ تو Light متحرک جسم ہے اور نہ Brightness، لیکن شاعر نے دونوں کو متحرک ٹھہرایا ہے۔ 2

    استعارے کی تعریف ارسطو سے لے کر اب تک ایک ہی رہی ہے۔ امریکن نقادوں نے اس میں گھٹانے بڑھانے کی کوشش کی ہے، لیکن بنیادی حقیقت سے کسی نے انکار نہیں کیا ہے کہ استعارہ دو مختلف اشیاء میں مشابہت یا نقطۂ اشتراک کی دریافت کا نام ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ وجہ اشتراک کو واضح نہ کیا جائے، علاوہ بریں استعارے کی جتنی قسمیں ہیں، وفاقیہ، عنادیہ، غریبہ، حسی، عقلی، بالکنایہ، تخئیلیہ، وغیرہ، ان سب میں دوسری بنیادی شرط یہ ہے کہ مستعار لہ یا مستعار منہ میں سے ایک مذکور ہو اور ایک مقدر، یعنی ایک کا ذکر ہو اور ایک کا نہ ہو اور استعارے کے لیے استعمال کیے گئے لفظ کے دونوں معنوں (یعنی حقیقی اورمجازی) میں ربط تشبیہی ہو، لیکن ربط تشبیہی مقدر ہو۔

    ان سب مسائل کو اکٹھا جانچیے تو استعارہ کی بنیادی معنوی خصوصیت یہ نظر آتی ہے کہ استعارہ اصلاً مشاہدے پر مبنی ہوتا ہے، علم پر نہیں۔ مغربی تنقید کی زبان استعمال کی جائے تو ہربرٹ ریڈ کی طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’’استعارہ مشاہدے کی مختلف اکائیوں کو ایک واحد حاکمانہ پیکر Commanding Image میں متحد ہوکر دینے کا نام ہے۔‘‘ اس کی مزید وضاحت کے لیے اس تشبیہ کو لیجئے جو میں نے اوپر پیش کی ہے، زید شیرکی طرح بہادر ہے۔

    اس میں زید مشبہ ہے، شیر مشبہ بہ، اور بہادری وجہ شبہ یا ربط تشبیہی۔ گویا اس جملے میں زید اور شیر کی مشابہت کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔ جب تک اس مشاہدے میں وجہ شبہ کی قید موجود ہے، یہ جملہ مشاہدے کی صرف ایک اکائی، یعنی بہادری تک محدود ہے۔ لیکن جب اس قید کو اڑاکر ہم زید کو صرف شیر کہتے ہیں تو مشاہدے کی اکائی باقی نہیں رہ جاتی۔ اب ہم یہ فرض کرنے میں حق بہ جانب ہیں کہ زید اس لیے شیر ہے کہ مندرجہ ذیل مشاہدات میں سے کچھ یا سارے کے سارے، جو شیر پر منطبق ہوتے ہیں، زیدپر بھی ہوتے ہیں،

    (۱) شیر بہادر ہوتا ہے، (۲) شیر طاقتور ہوتا ہے، (۳) شیر کے ایال ہوتی ہے، (۴) شیرخوں خوار ہوتا ہے، (۵) شیر چالاک ہوتا ہے، (۶) شیر جنگل (یعنی اپنے Habitat) کا راجا ہوتا ہے، (۷) شیر پھرتیلا ہوتا ہے، (۸) شیر ایک مخصوص مردانہ حسن کا حامل ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

    ظاہر ہے کہ تشبیہ اور پیکر کی طرح استعارے کا انتخاب بھی شعوری یا غیرشعوری ہو سکتا ہے۔ شعوری اس معنی میں کہ میں نے سوچ سمجھ کر اپنے مستعار کے لیے کوئی مستعار منہ ڈھونڈا اور اس سوچ سمجھ کے دوران میں بہت سے مستعار منہ جو مجھے نسبتاً کم مناسب یا کم معنی خیز یا کم خوبصورت نظر آئے، میں نے انھیں مسترد کر دیا۔

    غیرشعوری اس معنی میں کہ ممکن ہے اچانک از خود مجھے کوئی نادر مستعار منہ سوجھ گیا ہو اور میں نے اسے استعمال کر لیا ہو۔ یہ اور بات ہے کہ اس اچانک از خود سوجھ کے پیچھے بھی کوئی دور کی تحت الشعوری یا لاشعوری یا غیرشعوری سوچ اور تلاش رہی ہو۔ معشوق کے لیے گل کا استعارہ جو ہم آپ آج استعمال کرتے ہیں، ہمیں اچانک بھی سوجھ سکتا ہے اور غوروفکر کے بعد بھی۔ دراصل یہ بحث تخلیقی عمل کی ہے، اس کا کوئی علاقہ تخلیقی زبان کے خواص سے نہیں ہے۔ ممکن ہے ہمیں تخلیقی زبان کے وجود میں آنے کے وقت یہ سوال اٹھانا پڑے کہ یہ شعوری ہوتی ہے یا غیرشعوری۔ تخلیقی زبان کی تعریف متعین کرنے کے لیے اس کے سرچشموں کی دریافت ضروری نہیں۔ اس کے تفاعل Function اور اوصاف کی تعیین البتہ ضروری ہے۔

    میں نے تشبیہ، استعارہ اور پیکر کا نسبتاً تفصیلی ذکر اس لیے کیا ہے کہ اس طرح چھنٹائی Elimination کا عمل ہو جائے۔ یعنی ہم یہ جان لیں کہ تخلیقی زبان کے وہ مظاہر جو علامت نہیں ہیں، ان کے کیا خواص ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، جب میں نے یہ جان لیا کہ تشبیہ، استعارہ اور پیکر کے کیا خواص ہیں، تو میں یہ بھی مستنبط کر سکتا ہوں کہ تخلیقی زبان کے وہ مظاہر جن پر تشبیہ، استعارہ یا پیکر کا اطلاق نہیں ہو سکتا، علامت کہے جا سکتے ہیں۔ میں نے بار بار تخلیقی زبان کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ بنیادی مسئلہ بالکل واضح ہو جائے کہ میں علامت اور استعارہ وغیرہ کے ادبی مفہوم سے بحث کر رہا ہوں۔

    یعنی میرا مقصد یہ ہے کہ اس علامت کی تعریف متعین کی جائے جو ادب میں استعمال ہوتی ہے۔ ریاضیاتی، نفسیاتی، مصورانہ یا مذہبی علامتوں سے میرا کوئی تعلق نہیں، سوائے اس حد تک کہ جب وہ ادب میں اس طرح استعمال ہوئی ہوں کہ اس کا ایک حصہ بن گئی ہوں، مثلاً صلیب ایک مذہبی علامت ہے لیکن ادب کا حصہ بن گئی ہے، لیکن مثبت کا نشان (+) جو ایک ریاضیاتی علامت ہے، ادب کا حصہ نہیں ہے، اس لیے میں علامت کی ایسی تعریف متعین کرنا چاہتا ہوں جوصلیب کو تو اپنے دائرے میں لے لے لیکن اگر مثبت علامت (+) کو نہ لے سکے تو کوئی ہرج نہیں۔

    ظاہر ہے کہ تعیین تعریف کی اس کوشش میں ہمیں بنیادی (اور ایک حد تک آخری) مدد صرف تخلیقی فنکاروں یا ادب کے نقادوں ہی سے مل سکتی ہے۔ ان تخلیقی فن پاروں میں استعمال ہونے والی علامت کے کیا خواص ہیں؟ اور ان خواص کی تفصیل وتوضیح نقادوں نے کس طرح کی ہے؟ یہی ہمارا مسئلہ ہے، اس لیے اس مسئلہ کے حل کا آغاز یونگ کی تعریف سے کرنادرست نہیں، کیونکہ یونگ نے صرف ایک طرح کی علامتوں یعنی آر کی ٹائپ کے ذیل میں آنے والی علامتوں کا ذکر کیا ہے۔ کم وبیش یہ سب علامتیں ادب میں بھی ہیں، لیکن ادب میں اور طرح کی بھی علامتوں سے کام لیا گیا ہے، اس لیے صرف یونگ کی تعریف کو ہی علامت کی تعریف سمجھ لینا ویسا ہی ہے جیسے فروئڈ نے خواب کی علامتوں کی جو تعریف کی اسے ہی علامت کی تعریف سمجھ لیا جائے۔

    ظاہر ہے کہ یہ ادبی علامت کے ساتھ زیادتی اور اس کی غیرمنصفانہ تحدید ہوگی۔ یہ اور بات ہے کہ نقادوں نے (مثلاً سوسن لینگر نے فروئڈ اور یونگ، کنتھ برک نے فروئڈ) ماہرین نفسیات سے استفادہ کرکے اپنے فہم کو وسیع کیا ہے، لیکن فروئڈ یونگ میں کسی ایک یا ان دونوں کی تعریف کو کسی نقاد نے بجنسہ قبول نہیں کر لیا ہے، ورنہ ادبی علامت کی وہی تحدید ہو جاتی جس کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے۔

    پھر بھی، چونکہ ان دنوں یونگ کا ذکر ہمارے کچھ نقاد بہ ذوق وشوق سے کر رہے ہیں، اس لیے مناسب ہے کہ یونگ کی بتائی ہوئی تعریف کا ایک نہایت مختصر جائزہ لے ہی لیا جائے اور اسے فروئڈ سے بھی ملاکر دیکھ لیا جائے۔ مشتاق قمر صاحب نے یونگ کے چند جملوں کا حوالہ دیا ہے، لیکن ان کی تشریح میں خاصی ٹھوکر کھائی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ علامت استعارہ کی وسیع شکل ہے۔ استعارے کے بارے میں میں دکھا چکا ہوں کہ وہ اصلاً مشاہدے پر مبنی ہوتاہے، لہٰذا علامت بھی مشاہدے پر مبنی ہوئی، حالانکہ یونگ کے دونوں جملے جو مشتاق قمر صاحب نے نقل کیے ہیں اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ علامت مشاہدے پر مبنی نہیں ہوتی۔

    یونگ کہتا ہے کہ علامت کسی مقابلتاً ان جانی چیزوں کا اظہار ہے، پھر کہتا ہے کہ Sign (یعنی آیت) حقیقی چیز کا تمثال یعنی Representation 3 ہے جب کہ علامت کسی روحانی یا نیم روحانی امر Psychic fact کا اظہار کرتی ہے۔ 4 لہٰذا یونگ کی نظر میں علامت، علم Knowledge پر مبنی ہے، جب کہ آیت مشاہدے پر۔ اس بات کی وضاحت شاید ضروری نہیں کہ آیت استعارے کی ایک شکل ہوتی ہے۔ یونگ کے نظریے کی وضاحت کے لیے ’’آر کی ٹاپ اور اجتماعی لاشعور‘‘ سے ایک اور اقتباس میں حاضر کرتا ہوں،

    ’’علامت جتنی ہی قدیم اور ’’گہری‘‘ 5 یعنی جتنی ہی جسمانیاتی ہوگی، وہ اتنی ہی ’’مادی اور کلی‘‘ Material بھی ہوگی۔ یہ جتنی تجریدی، مفروق Differentiated اور مخصوص ہوگی اور جتنی ہی اس کی فطرت شعوری واحدیت اور انفرادیت کی طرف مائل ہوگی، اسی حد تک وہ اپنی آفاقیت کو اتار پھینکےگی۔ جب یہ پوری طرح شعور حاصل کر لیتی ہے تو محض تمثیل Allegory بن جانے کا خطرہ اسے ہمیشہ لاحق رہتا ہے جو کبھی بھی شعوری ادراک کے حدود سے باہر قدم نہیں نکالتی۔‘‘ 

    ان جملوں سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ علامت شعوری ادراک کی ضد ہوتی ہے، لہٰذا مشاہدے کی ضد ہوتی ہے، توسیع نہیں۔ لیکن پوری طرح شعور میں آجانے کے بعد اس کا علامتی کردار برقرار رہ سکتا ہے۔ اگرچہ اسے ہمیشہ یہ خطرہ لاحق رہتا ہے کہ وہ تمثیل یعنی استعارہ بن جائےگی۔ علامت جسمانیاتی ہوتی ہے، یعنی اس کا تعلق ذہن کے ان Processes سے ہوتا ہے جو جسم میں بند رہتے ہیں۔ اس طرح علامت مشاہدہ نہیں بلکہ علم ہوتی ہے۔

    ظاہر ہے کہ اس تعریف سے پوری طرح اتفاق ماہرین نفسیات بھی نہیں کرتے ہیں، کجا کہ ادیب اور نقاد۔ آر کی ٹائپل علامت کی اس تعریف کو پوری طرح درست مان بھی لیا جائے تو ادبی علامتی اظہار کے لیے یہ موزوں نہیں، کیونکہ ادبی علامت میں دوسرے درجہ کا مشاہدہ اور شاعر کے سماجی، تہذیبی اور ذاتی تجربات بھی کارفرما ہوتے ہیں، جو سب کے سب جسمانیاتی یعنی غیرشعوری نہیں ہوتے۔ بہرحال فروئڈ اس کے برخلاف خواب کی علامتوں کی تشریح کرتے ہوئے افشار Condensation کا ذکر کرتا ہے۔ اس نے علامتوں کو Over Determined کہہ کر ان کی کثیر المعنویت مراد لی اور کہا کہ خواب میں شعوری اور لاشعوری Repressed تصورات یک جا ہوکر نئی شکلیں بناتے ہیں۔

    وہ کہتا ہے کہ خواب میں ایسے عناصر کے مل جل جانے سے نئی وحدتیں بنتی ہیں جن کو ہم جاگنے کی حالت میں الگ رکھنا پسند کرتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ بہت سی علامتیں ایسی ہوتی ہیں جن کی توضیح خواب کے اس عمل کا حوالہ دیے بغیر نہیں ہو سکتی لیکن ساری علامتیں ایسی نہیں ہوتیں۔ اس طرح یونگ علامت کو لاشعور سے شعورکی طرف سفر کرتے ہوئے اور فروئڈ اسے لاشعور مثبت شعور کے افشار کے ذریعہ نئی شکلیں بناتے ہوئے دیکھتاہے۔ دونوں بہرحال براہ راست مشاہدے کی نفی کرتے ہیں۔ 6

    علامت میں براہ راست مشاہدے کی نفی کی ایک مثال بلیک کی نظم The Tiger سے دی جا سکتی ہے جس میں وہ چیتے کو Burning Bright کہتاہے۔ ظاہر ہے کہ یہ فقرہ دو مشاہدوں پر مبنی ہے، لیکن یہ مشاہدے براہ راست چیتے پر صادق نہیں آتے، کیونکہ چیتے کی دھاریاں اسے جنگل کی روشنی اور سایوں میں گم ہونے میں مدد دیتی ہیں، نہ کہ Bright ہوتی ہیں، اسی طرح چیتے کے ساتھ Burning کا مشاہدہ بھی براست منسلک نہیں ہو سکتا، کیونکہ یہاں Burning کے معنی یہ نہیں ہیں کہ چیتا آگ میں جل رہا ہے۔ لیکن اس علامت کے ذریعے بلیک نے چیتے کی علامت کے بارے میں اپنے علم کا اظہار کیا ہے۔

    یہ دو الفاظ بہ یک وقت روشنی، آگ، تمازت، آنکھوں کی چمک، قوت وجلال، چھلاوے کی سی برق رفتاری، ان سب اشیاء کو ظاہر کرتے ہیں جو بلیک کے علم میں ہیں۔ ممکن ہے یہ علم اسے خواب سے حاصل ہوا ہو، ممکن ہے یہ اس کے لاشعور کا اظہار ہو (اگرچہ اس کا امکان بہت کم ہے) لیکن Burning Bright کو جس لمحہ آپ نے مشاہدہ کیا، اس کی ساری علامتی معنویت سے ہاتھ دھولیں گے اور جو استعاراتی معنویت ہاتھ آئے گی وہ علامت کے مقابلے میں فرومایہ ہوگی۔ علامت جس قسم کے علم کا اظہار کرتی ہے اور یہ علم شاعر کو جس طرح حاصل ہوتا ہے، اس کی توضیح کے لیے سوسن لینگر نے کچھ دلچسپ اشارے کیے ہیں، وہ کہتی ہیں،

    ’’ایسی بھی چیزیں ہیں جو اشیاء کے قواعدی نظم میں فٹ نہیں بیٹھتیں۔ لیکن ضروری نہیں ہے کہ یہ معاملات اندھے، ناقابل تصور یا سری Mystical ہوں۔ بس وہ ایسے معاملات ہیں جنھیں کسی علامتی نظم فکر کے ذریعہ ہی تصور کیا جا سکتا ہے، توضیحی اور تفصیلی زبان کے ذریعہ نہیں (۷)۔‘‘ 7 سوسن لینگر آگے چل کر واضح کرتی ہے کہ ’’گفتگو دراصل انسانی ذہن کے اس بنیادی عمل کی سب سے آسان اور فعال منزل ہے جس کو ہم تجربے کے علامت میں ڈھل جانے کا نام دیتے ہیں۔‘‘ 

    اس طرح ساری زبان کو علامت قرار دے کر وہ اسے Presentational Symbolism اور توضیحی فکر میں تقسیم کرتی ہے۔ توضیحی فکر وہ ہے جو ہم آپ روز مرہ کام میں لاتے ہیں اور پیش آور Presentational علامت وہ ہے جسے ہم عام زبان میں ذہنی صورت حال کہہ سکتے ہیں۔ علامت اسی ذہنی کیفیت کی پروردہ ہوتی ہے۔ لیکن اسے ہم غیرمنظم نہیں کہہ سکتے، بلکہ رویوں کے اس پیچیدہ نظم کا نام دے سکتے ہیں جو توضیحی فکر کے پہلے ہی پہلے وجود میں آ چکا ہوتا ہے۔

     یہ ذہنی صورت حال اچانک بھی ہم پر منکشف ہو سکتی ہے، جسے والیری ’’تحکمانہ لفظی تنویروں‘‘ کا نام دیتا ہے، یا غوروفکر کے بعد۔ دونوں صورتوں میں منطقی اور مشاہداتی عمل کی نفی کرنی پڑتی ہے اور الیٹ کے الفاظ میں ’’تخئیل کی منطق‘‘ سے کام لینا پڑتا ہے۔ خود والیری جس کی نظمیں علامتی اظہار کی اعلیٰ مثال ہیں، اپنے بارے میں کہتا ہے کہ کبھی کبھی خدا مجھے بس ایک مصرع سمجھا دیتا ہے، گویا کوئی چیز منکشف ہوگئی ہو، وہ مصرع بقیہ نظم کے لیے نیوکلس کا کام کرتا ہے، جس کے گرد میں آہستہ آہستہ نظم کو خلق کرتا ہوں۔

    جدید امریکی نقادوں مثلاً برک، پن وارن اور رین سم وغیرہ کی موشگافیوں ایک لمحے کے لیے الگ رکھ دیں، کیونکہ انھوں نے کولرج سے اینٹیں مستعار لے لے کر اپنی فکر کی نازک عمارت تعمیر کی ہے (اگرچہ ان سے علامتوں کی طبقہ بندی میں ضرور مدد ملی ہے) اور خود کولرج کی زبان سے سنیں کہ وہ تمثیل، استعارہ اورعلامت میں کس طرح فرق کرتا ہے۔

    ’’(تمثیل کا) اصل مفہوم یہ ہے، کسی اخلاقی مفہوم کو پوشیدہ طور پر ادا کرنے کے لیے نمائندہ (اشیاء) اور پیکروں کے ایک دستے Set کو استعمال کرنا، جس میں تخئیلی مماثلت ہو لیکن جس کے معنی مختلف ہوں۔۔۔ اور یہ نمائندہ اشیاء اور پیکر اس طرح مجتمع کیے جائیں کہ ایک ہم جنس کلیت Homogenous Whole بن جائے، یہی چیز اسے استعارے سے ممتاز کرتی ہے، جو تمثیل کا حصہ ہوتا ہے۔۔۔ بیانیہ تمثیل اور ضنمیات میں وہی فرق ہے جو حقیقت اور علامت میں ہوتا ہے۔ مختصراً، تمثیل شخص اور تشخیص کے بین بین ہوتی ہے۔‘‘ 

    یعنی حقیقت شخص ہے، علامت تشخیص اور تمثیل بیچ بیچ کی چیز ہوتی ہے۔ علامت تشخیص اسی معنی میں ہے جس معنی میں برک اسے ’’تجربہ کے Pattern کی لفظی شکل’’متوازی‘‘ سمجھتا ہے اور آگے چلیے، کولرج تمثیل کی تعریف میں کہتا ہے کہ تمثیل ’’تجریدی تصورات کو تصویری زبان میں ڈھال دیتی ہے۔‘‘ لیکن علامت کی تخصیص یہ ہے کہ وہ ’’فرد میں نوع اور عام میں خاص کے نیم روشن نفوذ‘‘ کی صورت پیدا کرتی ہے۔ یعنی وہ بہ یک وقت عمومی بھی ہوتی ہے اور مخصوص بھی۔ علامتی اظہار عادت کا مرہون منت نہیں ہوتا، بلکہ وہ عمومی اشیاء مثلاً پانی، ہوا، سمندر، چٹان، پرندہ، دھوپ چھاؤں وغیرہم میں مخصوص معنویت اور اہمیت پیدا کرتا ہے۔

    ہماری شاعری میں گل، بلبل، منزل، قاصد وغیرہ اس وقت تک علامت کا کام دیتے تھے جب تک شاعر ان میں مخصوص معنی پہنانے پر قادر تھا (فیض جس کی آخری مثال ہیں۔) لیکن جب شاعر انھیں الفاظ کو عادت سے مجبور ہوکر، اورکسی ذاتی یامخصوص معنویت کا لحاظ رکھے بغیر استعمال کرتا ہے تو ان کو علامت نہیں کہا جا سکتا۔ اس کی ایک اچھی مثال قصیدہ کی بہاریہ تشبیب میں ملتی ہے۔ اول اول تشبیب شاعر کے تجربۂ شان و شوکت، جاہ وجلال یا عز وافتخار کی تمہید کے لیے علامت کا کام کرتی تھی۔ یعنی شاعر بہار کے مناظر بیان کرکے اپنی اور اپنے ممدوح کی برتری اور بابرکتی کا اظہار کرتا تھا۔ لیکن جب یہی بہاریہ آغاز تشبیب میں رسم کے طور پر داخل ہو گیا تو شاعر اسے عادت کے طور پر قصیدے کا آغاز کرنے کے لیے استعمال کرنے لگا، حالانکہ دوسرے اسالیب اظہار موجود تھے۔ اب تشبیب اپنے علامتی مفہوم سے محروم ہو گئی۔

    قرون وسطیٰ کے اوائلی زمانوں میں یورپ کی شاعری میں بھی اسی بہاریہ آغاز کی مثالیں ملتی ہیں اور بعینہ وہی کام کرتی ہیں جو عربی شاعری میں تشبیب کرتی تھی اور ٹھیک ہماری شاعری کی طرح یورپ میں بھی بوکاچیو اور چاسر تک آتے آتے بہاریہ آغاز محض ایک رسم بن کر رہ گیا۔ اردو کے اکثر شاعر جو کمزور تخلیقی قوت کے مالک ہوتے ہیں، غزل کہتے وقت عادت کے غیرشعوری انتخاب سے مجبور ہوکر انھیں الفاظ کا استعمال کرتے ہیں جن میں وہ At Home محسوس کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک اوسط درجے کے غزل گو سراج لکھنوی کی یہ غزل دیکھیے،

    تیری بزم طرب کا ایک نالے سے سماں بدلا
    ذرا سی دیر میں رنگ غرور جاوداں بدلا

    ستم گاروں سے لے گی خود صدائے الامان بدلا
    ابھی کروٹ کہاں بدلی ابھی پہلو کہاں بدلا

    دعائیں دوں میں آہ معتبر یا اب تجھے کوسوں
    نہ یہ دنیا ابھی بدلی نہ ظالم آسماں بدلا

    ہنسی پر رکھ لیا پھولوں نے جس کو اس کی موت آئی
    وہی اچھا رہا جس نے قفس سے آشیاں بدلا

    نہ میلا کر سکی اس رنگ کو گرد زمانہ بھی
    ہزاروں انقلاب آئے مگر یہ دل کہاں بدلا

    وہی پانی کی چادر اوڑھ کر لب پر ہنسی آئی
    خوشی کے آنسوؤں نے بھی مزاج غم کہاں بدلا

    ہمیں خود بن گئے آئینہ دنیا کے تغیر کا
    زمین کی گردشیں بدلیں نہ دور آسماں بدلا

    مذاق زیست میں ترمیم کی ایسی زمانے نے
    قفس خود بن گیا یوں رفتہ رفتہ آشیاں بدلا

    یہ کس کا وقت رفتہ سانس لے کر پھر پلٹ آیا
    تری آواز پر ہنگام مرگ ناگہاں بدلا

    قفس میں اب وہ پر ٹوٹے پڑے ہیں وضع داری کے
    رہے جب تک چمن میں ہم نے روز اک آشیاں بدلا

    اسے مجبوریوں کی رت کہو یا صبر کا موسم
    سراج اب کیا بتائیں کیوں قفس سے آشیاں بدلا

    گیارہ شعروں میں سے چار میں قفس اور آشیاں اور دو میں آسماں کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اگر کہا جائے کہ قافیے کی مجبوری نے یہ کثرت پیدا کی ہے تو بھی میری بات قائم رہتی ہے، حالانکہ قافیہ کی اتنی مجبوری بھی نہیں ہے۔ غزل میں تیرہ قافیے نظم ہوئے ہیں جن میں سے چھ ’’آشیاں‘‘ اور ’’آسماں‘‘ ہیں اور تین ’’کہاں۔‘‘ اگر شاعر عادت کے غیرشعوری انتخاب سے مجبور نہ ہوتا تو تین آشیاں کی جگہ مہرباں، بیاں اور نہاں، ایک آسماں کی جگہ رائگاں اور دو کہاں کی کہاں سائباں اور ہم رہاں وغیرہ استعمال کرکے تیرہ کے تیرہ قافیے منفرد کر سکتا تھا۔

    ظاہر ہے کہ ’’قفس‘‘، ’’آشیاں‘‘ اور ’’آسماں‘‘ کی اس غیرشعوری کثرت کو ہم علامتی اظہار نہیں کہیں گے اور نہ اس بات کو نظرانداز کریں گے کہ جب شاعر تھوڑی جگہ میں اتنے بہت سے آشیاں اور آسماں بنا سکتا ہے تو اس کا خلاقانہ عمل کمزور ہے۔ وہ انھیں الفاظ کو منتخب کرتا ہے جن سے وہ مانوس ہے لیکن (یا شاید اسی وجہ سے) ان میں وہ علامت کی نیم روشنی نہیں بھر سکتا ہے۔ تکرار یقینا ًعلامت بناتی ہے۔ لیکن اس درجہ تکرار نہیں، کیونکہ اس کی آخری شکل یہ ہوگی کہ ہم کسی نظم میں صرف لفظ سمندر پچاس بار لکھ دیں اور دعویٰ کریں کہ چونکہ سمندر ہمارا مخصوص لاشعوری اظہار ہے اور تکرار علامت کی شرط ہے، لہٰذا سمندر علامت ہے، لہٰذا ہم علامتی شاعر ہیں۔

    تخلیقی زبان میں استعمال ہونے والے ہرلفظ کی طرح علامت بھی اپنے سیاق وسباق کو متاثر کرتی ہے اور متاثر ہوتی ہے، مجرد خلامیں معلق نہیں رہتی۔ لہٰذا ہمیں دیکھنا پڑےگا کہ کوئی لفظ علامتی عمل کر بھی رہا ہے یا نہیں، ورنہ ہم ہر اس لفظ کو علامت کہہ دیں گے جو بہ طور علامت ادب میں استعمال ہوا ہے یا ہو سکتا ہے۔ علامت کی تکرار دراصل ایک نظام کی نشان دہی کرتی ہے اور اگر کوئی علامت ایک نظم میں ایک ہی بار آئے تو وہ اپنی کثیر المعنویت اور غیرقطعیت کی وجہ سے پہچانی جا سکتی ہے اور ان جانے کے اس علم سے مملو ہونے کی وجہ سے بھی، جس کی طرف یونگ نے اشارہ کیا ہے۔ ان مسائل کی طرف میں کولرج کی ’’نیم روشنی‘‘ والی اصطلاح کے حوالے سے آئندہ اشارہ کروں گا۔

     اس وقت تکرار کے مسئلے کو سمجھنے کے لیے کولرج کی ہی نظم The Rime of the Ancient Mariner کے سلسلے میں آرچی بال میک لیش سے استفادہ کروں گا۔ اردو میں علامتی نظموں کا تقریباً قحط ہے، اور جو نظمیں ہیں بھی، وہ تنہا علامتوں کا استعمال کرتی ہیں (جیسے بلراج کومل کی نظم سرکس کا گھوڑا، افتخار جالب کی نظم چومتا پانی پانی) اس لیے موجودہ مقصد کے لیے ناکافی ہیں۔ لیکن غالب کی غزل کا ایک مختصراً مطالعہ آگے پیش کروں گا۔

    میک لیش کولرج کی نظم میں چاند کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یہ اشارہ اوروں نے بھی کیا ہے لیکن میک لیش نے چاند کی مثال سے علامت کی تکراری نوعیت واضح کیا ہے۔ (اس نے بھی میری طرح یہ بات پہلے ہی صاف کر دی ہے کہ وہ شعری علامتوں کا ذکر کر رہا ہے، آر کی ٹائپل علامتوں کا نہیں۔) وہ کہتا ہے، ’’ سامنے کی چیز ہے، چاند کو لیجیے، کیا صرف لفظ چاند کہنے سے کوئی علامت پیدا ہو جاتی ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ لیکن فرض کیجئے میں کولرج کی نظم ’’قدیم العمر جہازی کا گیت‘‘ کا سب سے مشہور بند پڑھوں۔

    چلتا پھرتا چاند آسمان میں چڑھا
    نہ رکا نہ ٹھہرا
    دھیرے دھیرے چڑھتا گیا
    اور اس کے آس پاس ایک دو تارے بھی تھے۔

    تو کیا اب کوئی علامت بن گئی؟ میں سمجھتا ہوں کہ ابھی بھی نہیں۔ نہیں اس نظم میں، چاند علامت اس وقت بن جاتا ہے جب اس کی روشنی میں تغیر آتا ہے اور اس کی وجہ سے دنیا میں تغیر آ جاتا ہے، وہ بھیانک گھناؤنے پانی کے سانپ جہازی کی آنکھوں کو حسین لگتے ہیں۔۔۔ دوسرے الفاظ میں وہ چاند جس کی روشنی میں وہ بھیانک اور گندی چیزوں کو بھی حسین دیکھنے لگتا ہے۔۔۔ اور کیا یہ علامت شاعر کی یا نظم کی بنائی ہوئی نہیں ہے۔۔۔؟ جی ہاں علامتیں ایجاد بھی ہو سکتی ہیں۔ لیکن یہ سچ ہے کہ آپ جب مرضی آئے تب علامت ایجاد نہیں کر سکتے۔‘‘ 

    کولرج کی نظم میں قدیم العمر جہازی اپنی بے بسی، بے کسی، تنہائی، خوف، لاچاری اور گناہ گاری کی کہانی بیان کرتا ہے۔ چاند نظم میں قدم قدم پر موجود ہے، لیکن کسی بند میں اس کی حیثیت صرف ایک جرم فلکی کی نہیں، بلکہ وہ قدیم العمر جہازی کی ذہنی صورت حال، اس کے گناہ وثواب، اس کے طبیعی ماحول، ان سب چیزوں اور بہت ساری چیزوں کا مرجع بن جاتا ہے۔ اس کو کولرج نے یوں بھی کہا ہے کہ ’’علامت‘‘ اس حقیقت کا حصہ بن جاتی ہے جس کو وہ قابل فہم بناتی ہے۔ یہ کہنا کہ فلاں علامت، فلاں چیزکی نمائندہ ہے، علامت کی توقیر کم کرنا ہے۔ لیکن کولرج کی اس وضاحت کے باوجود کہ علامت ’’وقتی میں دائمی‘‘ اور ’’عام میں خاص‘‘ کا ’’نیم روشن نفوذ‘‘ پیدا کرتی ہے، یہ تصور عام ہے کہ علامت ایک برابر ایک یازید برابر بکر کی سی ریاضیاتی مساوات Equation پیدا کرتی ہے۔

    نیم روشنی کے اس تصور سے علامت کی دوسری بڑی پہچان پیدا ہوتی ہے، جسے سمجھنے کے لیے یے ٹس کا حوالہ کافی ہے۔ اپنی نظم The Cap and Bells کے بارے میں وہ لکھتا ہے، ’’یہ نظم میرے لیے ہمیشہ بڑی اہم رہی ہے، اگرچہ جیسا کہ علامتی نظموں کا خاصہ ہے، یہ میرے لیے ہمیشہ ایک ہی معنی کی حامل نہیں رہی ہے۔‘‘ اس جملے کی مزید توضیح کے لیے ڈی۔ ڈبلیو۔ ہارڈنگ کا سہارا لیا جا سکتا ہے، ’’علامت ایک تمثال Representation ہے جس کی عمومی نوعیت تو واضح ہوتی ہے، لیکن جس کے قطعی حدود اور معنی کی سرحدیں آسانی سے اور فوراً بلکہ شاید سودمند طور پر واضح نہیں کی جا سکتیں۔‘‘ 

    تمثیل کے لیے وہ نشان Emblem کا لفظ استعمال کرتا ہے اور کہتاہے کہ، ’’نشان اگر کسی بھی معنی میں علامت ہے، تو نہ قاری اور نہ مصنف اعتماد کے ساتھ اس کے محدود یا قابل ترجمہ معنی کو (اس میں سے) الگ کر سکتا ہے، کیونکہ ہم یقین کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتے کہ واقعے کے کون سے پہلو یا واقعے کو بیان کرنے و الے الفاظ کے کون سے انسلاکات غیرمربوط Irrelevant کہہ کر الگ کیے جا سکتے ہیں۔‘‘ 

    اب یہاں پر کولرج پھر یاد آتا ہے، اگرچہ یہ بات اس نے علامت کے حوالے سے نہیں کہی ہے، لیکن جب یہ بات ساری شاعری پر صادق آتی ہے تو علامت پر اور زیادہ صادق آئے گی۔ بہترین اسلوب کی پہچان کا شرطیہ طریقہ وہ یہ بتاتا ہے کہ، ’’اس کا ترجمہ اسی زبان کے الفاظ میں، بغیر معنی کو مجروح کیے ممکن نہ ہو۔ یہ ملحوظ رہے کہ میں کسی لفظ کے معنی سے صرف اس کی متبادل شے نہیں، بلکہ وہ تمام انسلاکات بھی مراد لیتا ہوں جو اس لفظ کے ذریعہ پیدا ہوتے ہیں۔‘‘ 

    کسی ناقابل ترجمہ کثیر المعنویت سے بھرپور لفظ کو جب شاعر بار بار استعمال کرتا ہے تو اس کی علامتی حیثیت کے بارے میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا۔ لیکن یہ کثیر المعنویت Arbitrary نہیں ہوتی اور نہ انتخاب معنی کی قائل ہوتی ہے، مثلاً سرخ رنگ اگر آر کی ٹائپ کے اعتبار سے خون، قربانی، شدید جذبہ اور انتشار کی علامت ہے تو جب بھی یہ علامت آپ آر کی ٹائپ کی قماش میں استعمال کریں گے، ان تمام معنوں میں اکٹھا استعمال کریں گے۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں نے اس نظم میں یہ علامت فلاں فلاں معنی میں استعمال کی ہے، فلاں فلاں میں نہیں کی ہے۔ جو علامتیں زیادہ شدید ہیں، ان کے ساتھ یہ شدت اور زیادہ ہے۔

     مثلاً فروئڈ کے اعتبار سے جھیل جنسی جذبہ سے متعلق علامت ہے۔ جب آپ فروئڈ کے معنی میں اسے استعمال کریں گے (مثلاً ہنری جیمز کاناول The Turn of the Screw تو پھر جھیل کو پانی فرض کرکے اسے یونگ کے معنوں میں تخلیق کے اسرار تزکیہ اور نجات وغیرہ کے معنی میں نہیں لے سکتے۔ یہ اس وجہ سے کہ مختلف نظاموں کی علامتوں کو گڈمڈ کرکے ممکن ہے آپ کوئی ظاہری قسم کی چمکیلی نظم خلق کر لیں، لیکن آپ اپنے پڑھنے والے کے Response کو قابو میں نہ رکھ پائیں گے، کیونکہ پھر شاعر اور قاری کا وہ رشتہ قائم نہ رہ پائےگا جس کی رو سے نظم قاری اور شاعر دونوں کے مشترک تجربات کی گہرائی میں جنم لیتی ہے۔

    ذاتی علامت کے ساتھ یہ سوال اور اہم ہو جاتا ہے۔ فرض کیجئے آپ نے جہاز کی علامت کو عورت، زندگی اور جستجو کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ اب آپ جہاں بھی لفظ جہاز کا علامتی استعمال کریں گے، یہ تمام معنی اس میں موجود ہوں گے، آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں نظم میں جہاز عورت کے معنی ہے، فلاں میں زندگی کے معنی میں ہے وغیرہ۔ کیونکہ اس طرح آپ جہاز کو بہ طور علامت نہیں بلکہ بہ طور استعارہ یا تمثیل استعمال کر رہے ہیں۔ علامت اپنے معنی بدلتی نہیں اور نہ محدود کرتی ہے۔ زندہ علامت میں معنی کا بڑھنا تو ممکن ہے، سمٹنا ممکن نہیں۔

    اس حقیقت کی طرف میں پہلے بھی اشارہ کر چکا ہوں کہ بہت سارا خیال الفاظ میں بند رہتا ہے اور الفاظ کا طرز یا محل استعمال نئے خیالات کو نظم میں ’’پیدا‘‘ کر دیتا ہے۔ اس طرح بہ قول ہارڈنگ ’’زبان جس خیال کا اظہار کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔‘‘ دراصل وہ محل یا طرز استعمال کا ’’خلق کردہ‘‘ ہوتا ہے۔ جب عام شعری زبان کے ساتھ یہ معاملہ ہے تو علامتی زبان کے ساتھ لامحالہ ایسا ہوگا۔ نہ صرف یہ کہ علامت کی تکرار اس میں معنی کا نفوذ کرتی رہتی ہے، بلکہ یہ بھی کہ مختلف سیاق وسباق میں مسلسل آتے رہنے کی وجہ سے یہ اپنے سیاق وسباق کو منور اور متبدل بھی کرتی رہتی ہے۔

    مثلاً غالب نے لفظ دشت کا استعمال کثرت سے کیا ہے۔ اگر دشت کو علامت فرض کیا جائے تو پہلی شرط تو یہ ہوگی کہ دشت صرف اپنے لغوی معنی Wilderness یا استعاراتی معنی (جنوں کی کیفیت اور اس کی پیدا کردہ آوارہ گردی کی جگہ) میں نہیں، بلکہ اور بھی کئی معنوں میں استعمال کیا گیا ہو اور جہاں جہاں استعمال ہوا ہو، وہاں یہ سب معنی موجود ہوں۔

    یہیں پر ادبی اور غیرادبی علامت کا آخری بنیادی فرق بھی واضح ہو جاتا ہے۔ غیرادبی علامت کے لیے ممکن ہے کہ وہ فی نفسہ بے معنی ہو، مثلاً ریاضی کی علامات، مذہب کی بہت سی علامات، یا خوب صورت نہ ہو، مثلاً شولنگ کی علامت، لیکن ادبی علامت نہ صرف فی نفسہ با معنی اور خوب صورت ہوتی ہے، بلکہ اس میں ایک انوکھی شدت اور قوت ہوتی ہے جو عام الفاظ میں (یعنی ان الفاظ میں جوعلامت بننے کے متحمل نہیں ہوتے) مفقود ہوتی ہے۔

    اسی وجہ سے ایسے الفاظ جو عام بول چال میں تھوڑا بہت استعاراتی مفہوم رکھتے ہیں لیکن بہت زیادہ مستعمل ہیں، مثلاً دن، رات، بارش، سویرا، شام، دھوپ، چاند، سورج وغیرہ، علامت بننے میں ناکام رہتے ہیں کیونکہ ان کی شدت خرچ ہو چکی ہوتی ہے۔ ان الفاظ کا علامت بننا غیرممکن نہیں، لیکن اس کے لیے کسی انتہائی غیرمعمولی طور پر متحرک ذہن کی ضرورت ہے۔ اس نظریے کی روشنی میں غالب کا ’’دشت‘‘ ایلن ٹیٹ کی اصطلاح میں معمول سے بہت زیادہ Tension اور Intersion کا حامل ہوکر علامت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

    صبح قیامت ایک دم گرگ 8 تھی اسد
    جس دشت میں وہ شوخ دو عالم شکار تھا

    یک قدم وحشت سے درس دفتر امکاں کھلا
    جادہ اجزائے دوعالم دشت کا شیرازہ تھا

    ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب
    ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا

    یک قلم کا غذآتش زدہ ہے صفحۂ دشت
    نقش پا میں ہے تب گرمیٔ رفتار ہنوز

    مانع دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں
    ایک چکر ہے مرے پاؤں میں زنجیرنہیں

    وسعت جیب جنوں تپش دل مت پوچھ
    محمل دشت بہ دوش رم نخچیر آیا

    سیر آں سوئے تماشا ہے طلب گاروں کا
    خضر مشتاق ہے اس دشت کے آواروں کا

    برق بہار سے ہوں میں پادر حنا ہنوز
    اے خار دشت دامن شوق رمیدہ کھینچ

    کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
    دشت کو دیکھ کر گھر یاد آیا

    موج سرابدشت وفا کا نہ پوچھ حال
    ہر ذرہ مثل جوہر تیغ آب دار تھا

    جس جا نسیم شانہ کش زلف یار ہے
    ناقہ دماغ آہوئے دشت تتار ہے

    اس طرح بہت سے اشعار ہیں، اور اگر صحرا، بیاباں اور وادی بھی شامل کرلیے جائیں تو یہ فہرست کم سے کم تین گنی ہو سکتی ہے۔ لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ دشت کی یہ تکرار غیرخلاقانہ نہیں ہے، بلکہ ہر شعر میں دشت کی کوئی نئی صورت حال بیان کی گئی ہے، جو دوسرے شعر سے ممتاز بھی ہے، لیکن ان کی یاد بھی دلاتی ہے۔ دشت میں شوخ دوعالم شکار، اجزائے دوعالم دشت، دفتر امکاں، دشت امکاں، دشت کا شیراز ہے، صفحۂ دشت، گرمیٔ رفتار، دشت نوردی، زنجیر، محمل دشت، دوش رم نخچیر (جنون تپش دل نے دشت کو رم نخچیر پر محمل کی طرح باندھ لیا ہے، اس لیے) خضر مشتاق ہے دشت کے آواروں کا، خار دشت آوارگان دشت جن کا سیر آں سوئے تماشا ہے، ان کو روکنے کے لیے خار دشت دامن کشاں ہو جائے۔) 

    دشت اور گھر، گھر اور خانہ باغ، خانہ باغ اور خار دشت وفا، دشت امکاں، موج سراب میں ذرۂ دشت تیغ آب دار تھے، گویا وہ دشت امکاں کی طرح خیالی تھا، دشت تتار جس میں آہو رم کر رہے ہیں، رم نخچیر۔ یہ اشعار میں نے کسی ترتیب سے نقل نہیں کیے ہیں، لیکن پھر بھی ایک دوسرے کی طرف پرواز کناں معلوم ہوتے ہیں، اور ان کے اوپر جس کیفیت کا دور دورہ ہے وہ رفتار اور رم کی کیفیت ہے۔ ان اشعار کا دشت موہوم بھی ہے، جس طرح گھر اصلی اور حقیقی ہے اور جس طرح دشت میں وہ آوارہ پھرنے والے اصلی ہیں۔ خار دشت جن کے دامن کشاں ہیں۔ یہ وقت کی طرح ٹھہرا ہوا اور متحرک بھی ہے کیونکہ اس میں صبح قیامت بس ایک دم گرگ کے برابر ہے (بہت مختصر یا بہت طویل، صبح قیامت دم گرگ کی طرح بے حقیقت تھی یا مختصر تھی، یا دم گرگ صبح قیامت کی طرح ہنگامہ خیز تھی۔) 

    یہ دشت زماں بھی ہے، کیونکہ خضر جو ہمیشہ زندہ رہتے ہیں وہ اس دشت کے آواروں کے مشتاق دید ہے، وہ آوارہ جن کا مدعا زماں کے تماشا کے بھی آگے ہے اور مکاں بھی ہے، کیوں جادۂ وحشت اس کا شیرازہ ہے۔ یہ وسیع بھی ہے، کیونکہ اک ہی قدم بڑھنے سے درس دفتر امکاں کھل جاتاہے اور مختصر بھی ہے کیوں کہ گھر کے برابر ہے۔ یہ معروضی بھی ہے، کیونکہ بس ایک نقش پاہے، موضوعی بھی ہے کیونکہ محض ایک نقش پا ہے اور اس کا ہر ذرہ مثل تیغ آب دار ہے، تلوار کی دھار اس کا پانی ہے، اس کا پانی سراب ہے، سراب کی دھار ہے، اس طرح دشت ایک طلسم ہے جس میں اشیابہ یک وقت ہیں بھی اور نہیں بھی۔ ان کا وجود ان کے عدم موجودسے ہے، اور اس کا پیمانہ صرف رفتار ہے، لہٰذا غالب کا دشت بنیادی حیثیت سے وقت کی علامت ہے، یا زمان کی، مکان جس کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا۔ زمان ومکان دونوں کا پیمانہ رفتار ہے، اس طرح دشت اس موضوعی دشت (یعنی ذہن انسانی) کی بھی علامت ہے جو مسلسل سفر میں ہے۔

    یہ سب معنی ان تمام شعروں میں کم و بیش موجود ہیں، لیکن سیاق وسباق کی روشنی دشت کی علامت میں کہیں زمان کا تصور ابھار دیتی ہے، کہیں اس کے برعکس ہوتا ہے۔ اسی طرح دشت کی علامت سیاق وسباق کو کہیں رفتار کا جامہ پہنادیتی ہے، کہیں وجود کا کہیں عدم کا۔ ان سب کے علاوہ دشت ایک خوب صورت، معنی خیز استعاراتی لفظ بھی ہے جو اپنے لغوی اور محدود معنی میں بھی اچھا لگتا ہے۔ لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لفظ کے علامتی معنی اس قدر شدید ہوں کہ صرف لغوی اور صوتی حسن رہ جائے، استعاراتی معنی بالکل پس پشت پڑ جائیں۔ اس کی مکمل مثال الیٹ کی Four Quartets میں گلاب باڑی کی علامت ہے۔ اس علامت میں ذاتی، مسیحی اور آر کی ٹائپل تینوں پہلو ایک ساتھ موجود ہیں، اور ہر جگہ تینوں طرح کے اشارات در آتے ہیں۔

    ذاتی علامت کی حیثیت سے گلاب باڑی وقت کے چنگل سے آزادی اور اس طرح نجات کی علامت ہے۔ مذہبی حیثیت سے جنت یاحدیقۃ السرور کی اور آر کی ٹائپ کی حیثیت سے جنت، معصومیت، غیرمسخ شدہ (خاص کر زنانہ) حسن اور زرخیزی (زمین اور عورت کی) علامت ہے۔ چونکہ یہ سب مفاہیم ایک دوسرے سے بہت زیادہ متغائر نہیں ہیں اس لیے ایک ہی علامت میں تینوں روپ سما گئے ہیں۔ لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ گلاب کا استعاراتی مفہوم، یعنی عشق اور ارضی موسم بہار بہت پیچھے چلا جاتا ہے۔ شاعر اپنے مخفی مفاہیم کو کس طرح مستحکم کرتا ہے، اس کی بھی مثال Burnt Norton (یعنی نظم زیر بحث کا حصہ اول) کے شروع ہی میں مل جاتی ہے۔ گلاب باڑی کی ازلیت ظاہر کرنے کے لیے الیٹ کہتا ہے،

    کیوں کہ گلابوں کی شکل
    ایسے پھولوں کی طرح تھی جن کو دیکھا جاتا ہے۔
    گویا کوئی ان دیکھی آنکھ ان کو ہمیشہ دیکھتی رہتی تھی۔

    اس طرح کی علامتوں کے بارے میں یہ کہنا درست نہیں ہے کہ یہ غیرشعوری یا خودکار عوامل کے ذریعہ ہی وجود میں آ سکتی ہیں۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ نظم یا ناول یا پورے کلیات میں پائے جانے والے نظام سے مربوط کیے بغیر ان کا لطف بہت کم ہو جاتا ہے، بودلیئر کی حبشی، دیونی، سڑتی ہوئی لاش، ان جانے سمندروں میں سفر اور بچپن کی بھولی بسری یادوں کی تفتیش، ان کو اگر پورے نظام احساس سے الگ کر لیا جائے تو وکٹر ہیوگو کے اس جملے کی صداقت مشتبہ ہوجاتی ہے جو اس نے بودلیئر کو ایک خط میں لکھا تھا، ’’آپ نے آسمان فن پر ایک ناقابل بیان اور پراسرار بھیانک روشنی بکھیر دی ہے۔ آپ نے ایک نیا سنسنی انگیز ارتعاش پیدا کر دیا ہے۔‘‘ یہ ارتعاش محض سڑتی ہوئی لاشوں کے تذکرے سے کہاں پیدا ہو سکتا تھا؟

    علامتی نظم کی تخلیق کے عمل کا ذکر کرتے ہوئے کولرج کی کبلا خاں کو معرض بحث میں لانا اور یہ کہنا کہ علامتی تخلیق کسی خواب کی کیفیت میں ہی پیدا ہو سکتی ہے، دو حیثیتوں سے غلط ہے۔ کیونکہ اگر بہ فرض محال کبلا خاں ساری کی ساری خواب کی سی کیفیت کی مرہون منت ہے (یعنی خودکار تحریر رکھتی ہے) تو اور ہزاروں نظمیں ایسی ہیں جن کی تخلیق میں خواب کا شائبہ تک نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ شیکسپیئر نے کنگ لیئر یا ملارمے نے اپنی راج ہنس والی سانٹ یا غالب نے اپنی غزلیں خواب میں تو نہیں لکھی تھیں۔ علاوہ بریں کولرج تو افیون کا استعمال مسکن Sedative کی حیثیت سے اور اپنے بے قرار ذہن کو سکون پہنچانے کے لیے کرتا تھا نہ کہ مہیج Stimulant کی حیثیت سے اور اگر آپ The Road to Xanadu سے واقف ہیں تو آپ یہ بھی فرض نہیں کر سکتے کہ کولرج کی نظم خالصۃً خواب کی سی خودکار تحریر ہے۔

    بنیادی بات ہے کہ لاشعوری یا نیم شعوری طور پر حاصل کی ہوئی علامت بھی لچر ہو سکتی ہے اور شعوری طور پر منتخب کی ہوئی علامت بھی لغو ہو سکتی ہے۔ یہ سب اوصاف اضافی ہیں جن کا علامت کے خواص سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اسی طرح جیسے کد وکاوش کے کہے ہوئے شعر اور بےساختہ موزوں ہوئے شعر میں بہ حیثیت شعر گوئی فرق نہیں۔ کدو کاوش، ردو قبول کے بعد کہاہوا شعر بھی شعر ہے اور بےساختہ بلکہ بے ارادہ موزوں ہونے والا شعر بھی شعر ہے۔ ان کی خوبی یا خرابی کا کوئی تعلق اس بات سے نہیں کہ ان کی تخلیق میں کون سا مشینی ذریعہ استعمال ہوا ہے۔


    حاشیے
    (۱) یہ تعریف ازرا پاؤنڈ نے امیجز والے امیج کے لیے وضع کی تھی، شعری پیکر کے لیے نہیں۔
    (۲) میں نے پیکر کے مختلف اقسام مغربی تنقید کی روشنی میں گنائے ہیں۔ لیکن مشرقی تنقید میں پیکر کے بنیادی پانچ اقسام تشبیہ کی ضمن میں مبصرات، مشمومات، مسموعات، مذوقات اور ملموسات کے نام سے مذکور ہیں۔
    (۳) تمثال کو بہت سے نقاد پیکر یعنی Image کے معنی میں استعمال کرتے ہیں لیکن چونکہ Image کے لیے پیکر کا لفظ ممکن ہے لیکن Representation کے لیے کوئی واقعی مناسب لفظ نہیں، اس لیے میں اس کا ترجمہ تمثال کرتا ہوں۔
    (۴) یہ اقتباسات جیسا کہ ظاہر ہی ہوگا، مشتاق قمر صاحب نے اپنے مضمون میں انگریزی میں دیے ہیں۔
    (۵) واوین یونگ کے ہیں۔
    (۶) داستفکی نے اپنے ناولوں میں خواب کا دل چسپ تخلیقی استعمال کیا ہے۔ اس کے اہم کردار بار بار خواب دیکھتے ہیں اور وہ خواب ان کی پوری صورت حال کی علامت بن کر نمودار ہوتے ہیں۔
    (۷) اے بسا کہ معنی از نامحرمی ہائے زباں
    باہمہ شوخی مقیم پردہ ہائے راز ماند (بیدل)
    جن اسرار تک مغرب اب پہنچ رہا ہے۔ وہ بیدل کے لیے آئینہ تھے۔
    (۸) دم گرگ = صبح کاذب (بہار، گم)

    مأخذ:

    شعر، غیر شعر اور نثر (Pg. 134)

    • مصنف: شمس الرحمن فاروقی
      • ناشر: ڈائرکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2005

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے