Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اپنے بارے میں

ضمیرالدین احمد

اپنے بارے میں

ضمیرالدین احمد

MORE BYضمیرالدین احمد

    یوپی میں مغرب میں آگرہ او رمشرق میں کانپور کے درمیان دریائے گنگا کے کنارے فتح گڑھ نام کاایک چھوٹا سا قصبہ آباد ہے۔ وہیں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوا۔ میٹرک کے سرٹیفکیٹ پر تاریخ پیدائش ۹/جولائی ۱۹۲۶ء درج ہے۔ مقامی سرکاری ہائی اسکول، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، سینٹ اینڈریوز کالج گورکھ پور اور الہ آباد یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔

    تقسیم کے چند ماہ بعد کراچی چلا گیا اور پیشہ صحافت کا اختیار کیا۔ اسی سلسلے میں چار سال ہندوستان میں بہ حیثیت نمائندہ خصوصی قیام رہا۔ اس کے علاوہ برطانیہ، امریکہ اورمشرقِ وسط میں بھی بہ حیثیت صحافی اور براڈ کاسٹر کام کیا۔ برطانیہ میں بی بی سی اور امریکہ میں وی۔ او۔ اے سے وابستہ رہا۔ پاکستان میں دوڈھائی برس فلمی صنعت سے متعلق ایک ادارے میں ملازمت کی۔ ریڈیو پاکستان او رپاکستان ٹی وی کے لیے ڈرامے اور سیریل بھی لکھے۔

    ۱۹۵۲ء میں پہلا افسانہ بہ عنوان ’’چاندنی اور اندھیرا‘‘ لکھا جو ’’نقوش‘‘ (لاہور) میں شائع ہوا مگر ابتدا یونیورسٹی کے زمانے میں شاعری سے کی جسے اس قابل نہیں سمجھا کہ شائع کرایا جائے۔ منہ کا مزہ بدلنے کے لیے اب بھی کبھی کبھار شعر کہہ لیتا ہوں۔ ابھی تک کل ۴۲ / افسانے اور چند تنقیدی مضامین لکھے ہیں۔

    دیوناگری رسم خط میں افسانوں کا ایک مجموعہ بہ عنوان ’’پہلی موت‘‘ دلی سے شائع ہوچکا ہے اور کراچی سے اردو شاعری میں محبوب کی حسیت کے موضوع پر ایک مطالعہ بہ عنوان ’’خاطرِ معصوم‘‘ افسانوں کا ایک اور مجموعہ ’’سوکھے ساون‘‘ کراچی سے بس شائع ہوا چاہتا ہے اور ایک اور مجموعہ زیرترتیب ہے۔ ایک ناول زیرتصنیف ہے۔ اس کی تکمیل کا انحصار میری صحت پر ہوگا جو آج کل بہت خراب ہے۔

    ۱۹۷۱ء میں دوسری بار ہجرت کرکے لندن آگیا اور تب سے یہیں مقیم ہوں بہ جز چند برسوں کے جو امریکا میں گزارے۔ شادی شدہ ہوں۔ دو بیٹے ہیں۔

    تقسیم سے پہلے جب لکھنا نہیں شروع کیا تھا تو کچھ عرصہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہا۔ اس کے بعد کبھی کسی ادبی تحریک یا تنظیم سے رشتہ نہیں جوڑا۔ مگر پاکستان رائٹرز گلڈ کے داعیوں میں شامل ہونے کی غلطی ضرور کی لیکن جلد ہی اس کی رکنیت ترک کردی۔

    ضمیر الدین احمد

    ان سطروں کے راقم نے اپنے بارے میں یہ تحریر نومبر ۱۹۹۰ء کو لکھی اور اس کے ایک ماہ بعد لکھنے والی انگلی نے آخری سطر لکھی،

    ۲۶/دسمبر کو لندن میں انتقال ہوگیا۔ وہیں دفن ہوئے۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون۔

    مأخذ:

    سوغات،بنگلور (Pg. 111)

      • ناشر: محمود ایاز, پاسبان برقی پریس، بنگلور
      • سن اشاعت: 1991

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے