Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اپنی تلاش میں۔۔۔

شمیم حنفی

اپنی تلاش میں۔۔۔

شمیم حنفی

MORE BYشمیم حنفی

    یہ کتاب میرے ذہنی سفر کا ایک باب ہے۔

    فن اور ادب میرے لیے صرف اس وقت بامعنی بنتے ہیں جب میرا انفرادی تجربہ بن جائیں اور میں ان کا مطالعہ، مشاہدہ اور تجزیہ ایک ذاتی حوالے کے ساتھ کرسکوں۔ بات بس یہ ہے کہ فنون کے مختلف شعبے ہوں یا انسانی اور سماجی علوم کے رنگارنگ دائرے، ان سب میں مجھے تلاش اس وحدت کی ہوتی ہے جس کا مرکزی نقطہ میرا اپنا جذباتی، روحانی، عقلی اور طبعی وجود ہے اور جس سے وابستہ خطوط کا سلسلہ چاروں طرف دور تک پھیلا ہوا ہے۔ اس عرصۂ سفر کے ایک سرے پر فرد ہے اور دوسرے پر وہ کلی استعارہ جو انسان سے عبارت ہے، زمانے اور ادوار مجھے ایک ہی مالا کے منکوں کی مثال دکھائی دیتے ہیں۔ سچائی کا وہ روپ جو دھندلا ہے، غبار آلود ہے اور جس کے میرے بیچ ایک لمبا فاصلہ حائل ہے، کبھی کبھی مجھے اس سچائی سے زیادہ روشن اور متحرک دکھائی دیتا ہے جس کی فضا میں میرا حال سانس لیتا ہے۔ میرے لیے ماضی اور مستقبل دونوں اسی لمحۂ موجود کے اجزا ہیں جس سے میں اپنے آپ کو دو چار پاتا ہوں۔ پرانی باتیں مجھے پرانی نہیں لگتیں اور آئندہ فصلوں کے مہیب خلا سے اب تک جو صورتیں نمودار نہیں ہوتیں وہ مجھے د یکھی بھالی سی محسوس ہوتی ہیں۔

    میں نے اپنے ایک ڈرامے کے کسی کردار کی زبانی کہا تھا: ’’کھنڈر نہ ہوں تو یہ بستی اور بھی ویران دکھائی دے!‘‘ خرابے میں آبادی کا یہ تماشہ سبز کو سرخ اور سفید کو سیاہ کردکھاتا ہے۔ اسی لیے ادب کی لفظیات کے معاملے میں لغات پر بھروسہ کرنے کی عادت اب تک نہ پڑسکی۔

    پس، جدیدیت پر کتاب لکھنے کا ارادہ کیا تو سب سے پہلے سر میں یہ سمائی کہ مولانا حالی اور آزاد نے ’جدید‘ کے جو معنی متعین کیے اس کے ڈانڈے پرانے وقتوں کی شورش اصلاحِ دین سے جاملتے ہیں اور اس کا تکیہ جس طرزِ نظر پر ہے وہ خاصا پرانا ہوچکا۔ نوح ناروی مرحوم کو میں نے جاگتی آنکھوں سے دیکھا ہے، لیکن اس بوالعجبی کا کیا علاج کہ صدیوں کی دھند میں کھوئے ہوئے میر صاحب ان کے مقابلے میں نئے اور رگِ جاں سے بھی قریب محسوس ہوتے ہیں۔

    قصہ دراصل یہ ہے کہ بعض حقیقتیں صدیوں کی خلیجیں عبور کرکے سامنے آموجود ہوتی ہیں اور بعض لمحوں کے اس حصار کو بھی توڑنے میں ناکام رہ جاتی ہیں جس نے انہیں جنم دیا ہو۔ ظاہر ہے کہ اس نوع کی ناکام سچائیاں حقیقت نہیں حقیقت کا فریب ہیں۔ ہماری تاریخ اور ہماری روایت کے مابین کبھی کبھی مشرقین کا بعددرآتا ہے۔

    رہا عصری حوالے کا مسئلہ تو اس کی بات الگ ہے۔ جدیدیت تمام و کمال عصریت نہیں ہے۔ معلوم نہیں ہم ’اپنے زمانے‘ کے انسان کی الجھنوں کے لیے صرف سائنس اور ٹیکنالوجیکل تمدن کو قصوروار ٹھہرانے کے عادی کیوں ہوتے جارہے ہیں۔ روزوشب کے بدل جانے کا پتا مجھے صبح کے اخبار سے چلتا ہے۔ تاریخیں مجھے اکثر یاد نہیں رہتیں۔ سنی سنائی باتوں پر آنکھ بند کرکے ایمان لانے کا مرض بھی ہے۔

    سو مجھے حیرانی نہ ہوگی اگر اس کتاب کا پڑھنے والا یہ اعتراض عائد کرے کہ میرا تاریخی شعور ناقص ہے۔ میرے استاد سید احتشام حسین مرحوم نے بھی ایک بار اس بات پر میری سرزنش کی تھی:

    ’’آپ تاریخ کے طالبِ علم رہ چکے ہیں، مجھے اندیشہ ہو رہا ہے کہ آپ کا ذہن ہرطرف سے بند ہوتا جارہا ہے اور وہ سائنٹفک رویہ جو ہونا چاہیے، باقی نہیں رہا ہے۔ علمی مضامین میں اس سے صرف ایک طرح کی تاثراتی فضا پیدا ہوکر رہ جائے گی۔ اگر ہمارے پاس کوئی نقطۂ نظر ہے تو لکھتے وقت اس کی وکالت تو کسی نہ کسی حدتک ضرور ہی ہوگی لیکن اس نقطۂ نظر کی صداقت کی کوئی نہ کوئی کسوٹی ضرور ہونی چاہیے تاکہ وکالت بھی محض جانبداری اور اعتذار یا دوسروں کے نقطۂ نظر کی جانب تحقیر کا رویہ بن کر نہ رہ جائے، یہ باتیں اس وقت یونہی آپ کے بعض تبصرے اور شعر و حکمت کے مضامین دیکھ کر کی گئیں اور خیال ہوا کہ لکھ بھی دینا چاہیے۔‘‘ (خط بنام راقم الحروف، 29ستمبر 1970)

    آج ستمبر 1977 کی چھبیسویں تاریخ ہے۔ احتشام حسین مرحوم کے اس خط کو اب کوئی سات برس ہونے کوآئے۔ ان برسوں میں ذہن خدا جانے کہاں کہاں بھٹکتا رہا۔ یہ کتاب کہ اسی گمرہی کہ روداد ہے، یکم جنوری 1974 کو مکمل ہوئی۔ اب اس بات کو بھی تین ساڑھے تین برس گزر چکے ہیں۔ اس عرصے میں الجھنیں کم ہونے کے بجائے کچھ اور بڑھیں۔ مرحلہ اگر جدیدیت یا جدید شاعری کی تاریخ نویسی کا ہوتا تو شاید اس سے آسان گزرجانے کی صورت نکل آتی لیکن یہاں تو تاریخ نے بھی عجیب چکروں میں ڈال دیا اور سوال اس کی مرکز جو (Centripetal) اور مرکز گریز (Centrifugal) قوتوں کی کھینچاتانی اور اس کھینچاتانی میں واقعات کی ٹوٹ پھوٹ کا آن پڑا۔ مجھ سا شخص کہ قصص الانبیا کو بھی تاریخ سمجھ کر پڑھتا ہے، اسے بالآخر حیران ہونا ہی تھا۔ نئی شاعری کو میں نے بلاکسی حیل و حجت کے آزادانہ پڑھنے کی کوشش کی۔ بڑی مشکلوں سے تحفظات کی زمین چھوڑی اور تعصبات کو مسخر کیا لیکن نتیجہ وہی کم نظری و گمرہی۔ تاریخ کے معنی ہی روشن نہ ہوئے پھر تاریخی نقطۂ نظر کیوں کر ہاتھ لگتا؟ اس طرح سفر کسی سیدھی راہ کے بجائے ایک مسلسل بڑھتے پھیلتے دائرے میں ہوا۔ مذہب، عقلیت، اشتراکیت، مابعدالطبعیات، تاریخ، عمرانیات، فلسفہ اور نفسیات کے گورکھ دھندے میں دل و دماغ پر جو ضربیں پڑیں اس کی تفصیل یہ کتاب ہے۔

    اسی زمانے میں جب میں یہ کتاب لکھ رہا تھا، بعض اصحابِ علم یہ کہتے ہوئے دیکھے گئے کہ نئی شاعری محض بکواس ہے یا پھر خالی خولی لفظی بازی گری۔ نظر سے عاری، خبر سے عاری، اثر سے عاری، نئے شاعر کسی سیاسی سازش یا مریضانہ داخلیت پسندی کے ہاتھوں گردوپیش کی دنیا سے یکسر بے نیاز ہیں۔ نئی شاعری ایک مذموم کوشش ہے۔ لوگوں کو انسان اور اس کی حقیقی کائنات کے مسائل سے بے توجہ کرنے کی غرض کہ خاصی دھوم مچی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس صدی کے چوتھے دہے میں جب ریویل نے فرانسیسی فکشن پر فلسفے اور نفسیات کے تسلط کی مخالفت کی اور فکشن سے کرداروں کو بھی نکال باہر کرنے کا شور برپا کیا تو کچھ اہل علم اس امر کے شاکی ہوئے کہ یہ سارا کھیل فن سے انسان کے اخراج کا ہے۔ اگاسی کے Dehumanization کے تصور سے ایک بہانہ بھی ہاتھ آگیا۔ لیکن بات شاید اتنی سہل نہیں جتنی دکھائی دیتی ہے۔ اب گرئیے نے تو خیر دوٹوک انداز میں یہ کہہ دیا کہ ’’جولوگ اس بات پر چیں بہ جبیں ہیں انہیں کم از کم اتنا تو سوچ ہی لینا چاہیے کہ ا نسان ہر لفظ، ہر سطر اور کتاب کے ہر صفحے میں موجود ہوتا ہے‘‘ میں کہ شعر و ادب کے ہر لفظ کے باب میں بھانت بھانت کے توہمات سے گزرتا ہوں، نئی شاعری کے شناختی تصور یعنی جدیدیت کے ضمن میں بھی خاصا بھولا بھٹکا خلائی سفر کے دور میں زمین کے سرے ناپنے کی ٹھانی اور جگوں جگوں کی خاک اڑاتا ہوا جب اپنے محلے میں واپس آیا تو پتا چلا کہ بعض جیالے چاند کی مٹی پتھر تک اٹھالائے اور مجھے ابھی شق القمر کے معجزے نے عاجز کر رکھا ہے۔ ایک صاحب نے کہا کہ چاند کا طلسم ٹوٹا۔ دوسری طرف یہ آواز آئی کہ عشقیہ شعر کہنے والے ایک بنے بنائے استعارے سے گئے۔ ادھر میں نے رات گئے جب آسمان پرنگاہ کی تو چاند پہلے سے سوا پُر اسرار دکھائی دیا اور یوں محسوس ہوا کہ بوڑھیا کا چرخہ اور تیزی سے چلنے لگا ہے۔

    جدید کے تاریخی تصور اور اس کے تخلیقی تصور، ان میں ایک دوسرے سے یگانگت اور مفاہمت کے نشانات کے باوجود دوریاں بھی دکھائی دیں۔ وہ دنیا جسے ہم کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں مجھے ہمیشہ اسی دنیا سے خاصی مختلف نظر آتی ہے جو تخلیقی لفظ کے لبادے میں سامنے آتی ہے۔ بڑھتی ہوئی گرانی کا حال جاننے کے لیے میں روزانہ اخبارات کو زیادہ قابل اعتبار نہیں سمجھ پاتا کہ اس ہنگامۂ محشر میں بھی ہزاروں سکھ کی نیند سوئے ہوئے ملتے ہیں۔ لیکن میر صاحب کا ایک پرانا شعر اس نئے وقوعے کا سارا بھید کہہ سناتا ہے اور آنکھ کے تل میں ایسے ایسے جہانوں کا منظر سمیٹ لاتا ہے جو ہماری مادی اور طبعی دنیا کے دائرے میں رہ کر بھی اس سے باہر ہیں۔ اسٹاک ایکسچینج کی صورتِ حال اور گندم کا بھاو جاننے کی طلب ہو تو بے شک روزناموں کاٹریڈاور کامرس والا صفحہ کام آسکتا ہے، مگر اعداد و شمار اکٹھا کرنے پر طبیعت مائل ہوتی ہی نہیں۔ مؤرخ بھی وہی جی کو بھاتا ہے جو تھوڑا بہت غَپی ہو۔ پھر یہ سوچیے کہ ہمارے عہد کی فکر کا کون سا ایسا مکتب یا زاویہ ہے جو اپنی عقلی اور منطقی تعبیر کا دعویٰ نہ کرتا ہو۔ جب سے تعقل کے تصور کی توسیع ہوئی ہے اور حیاتیاتی ارتقا کے ساتھ ساتھ تخلیقی ارتقا کا شور برپا ہوا ہے، ڈارون اور برگساں اور مارکس اور مدرسے کے بوڑھے مولوی صاحب سب کے سب ایک ساتھ معنی خیز اور ایک جیسے اہم دکھائی دیتے ہیں۔ آدمی سمٹنے میں آئے تو پاؤ بھر گیلے آٹے کی روٹی میں سمٹ آئے اور بڑھے پھیلے تو کیا چاند سورج اور کیا سیارے اور آسمان، اس کا سفر ختم ہونے میں ہی نہیں آتا۔ آدمی کی حقیقت نے حقیقت کے معنی ہی بدل دیے۔ ولیم جیمس صاحب نہ ہوتے جب بھی اس حقیقت کے معنی کو تو بدلنا ہی تھا۔

    پس جب میں نے سنا کہ جدیدیت رومانیت کی توسیع ہے یا ترقی پسندی کی توسیع ہے تو بات کچھ سمجھ میں نہ آئی۔ انگلستان میں صنعتی انقلاب کے بعد جس رومانیت کو اور فرانس میں 1870 کی جنگ میں شکست کے بعد جس اشاریت پسندی کو فروغ حاصل ہوا تھا اس کا سلسلہ کبھی تو ختم ہونا چاہیے۔ پھرایک لہر اس زمانے میں آخر جرمن میں اثباتیت کی بھی تو اٹھی تھی جس کے ثناخواں اقبال ہیں۔ ان میں ہر ایک کی اپنی مادّی بنیادیں تھیں اور منطقی جواز، رومانیت انگلستان میں روحانی احتجاج کی اور اشاریت پسندی فرانس میں دھیان کی ایک متصوفانہ موج رہی تو رہی ہو، ہماری دھرتی پر ان کا روپ رنگ بدلنا تھا۔ نیا شعر میراجی کی موت کے بعد بھی کہا جاتا رہا۔ پھر افراد ایک دوسرے کا جعلی دستخط تو ہونے سے رہے۔ توسیع میں باہر کا نقشہ جتنا کچھ بھی بدل جائے بنیاد وہی کی وہی رہتی ہے۔ اس کے علاوہ فن کی ہیئتوں اور ملک کے ادب میں فرق اور اختلاف ویسا نہیں ہوتا جیسا مثال کے طور پر سرسید کو اپنے زمانے کے ہندوستانی اور اس زمانے کی شائستہ قوم انگریز کے مابین نظر آیا تھا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں اور جزوی امتیازات کو ذہن میں رکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ بعض حقیقتیں دور سے ایک جیسی لگنے کے باوجود اصلاً ایک جیسی نہیں ہوتی۔ قلم، کاغذ، سیاہی، لفظ، دماغ کا استعمال بہی کھاتے کی تیاری میں بھی ہوتا ہے اور افسانہ نویسی میں بھی۔ اسی طرح جیسے چلنے کے عمل میں بھی ہاتھ پیر اور جسم کو حرکت ہوتی ہے اور رقص میں بھی۔ مانا کہ اچھی چال بھی ایک فن ہے لیکن اسے فنونِ لطیفہ میں شامل کرنے کا حوصلہ صرف پطرس جیسوں کے بس کی بات ہے، خرام یار کے معاملے کو اس بحث میں نہ الجھائیے۔

    مختصر یہ کہ جدیدیت کو میں نے توسیع کے تماشے سے الگ ہوکر ایک آزاد مظہر کی شکل میں دیکھا اور کتاب لکھنی تھی اس لیے کچھ دلیلیں بھی ڈھونڈ نکالیں۔

    دلیلوں کی تلاش میں بات پہلے سے طے تمام ہوتی تو مارکس یا فرائڈ یا سارتر یا کامیو میں سے کسی ایک کا راستہ پکڑ لینے میں عافیت تھی۔ میں کہ خاصا حواس باختہ تھا، ہر اس دریچے کے قریب گیا جس سے روشنی کی کوئی کرن جھانکتی دکھائی دی۔ مظہریت، نئی تاریخیت، اشتراکیت، مذہبیت، عمرانیات، زین بدھ مت اور سریت، پھر وجودیت، منطقی اثباتیت اور جدید نفسیات؛ غرض کہ ہر کنوئیں میں ڈول ڈالا۔ اسنو صاحب کی رہ نمائی میں دو ثقافتوں کے تصادم کی بحت کا تماشہ دیکھا تو سب سے پہلے خود اسنو صاحب کے اندازے غلط نظر آئے۔ تعقل کے مدارج سائنسی عقلیت اور منقطی استدلال سے آگے بھی ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو سائنس کی فرعونیت اور ٹیکنالوجی کے نازشِ بے جا پر خود آئن سٹائن اورہائزن برگ نے شک کی نگاہ نہ ڈالی ہوتی اور اپنی فراست اور قوت پر انسان کااعتماد جس جس طرح ٹوٹا ہے اس میں سچائی نہ ہوتی تو نطشہ سے مارلیو پونتی تک ایک ایک بڑا وجودی عقیدے سے بے عقیدگی اور دین داری سے دہریت تک اس طرح چکر نہ کاٹتا۔

    المیہ یہ ہے کہ اس عہد میں انسان آپ اپنے لیے متنازع فیہ بن گیا ہے۔ وجہ شاید یہ ہو کہ عالم فاضل لوگوں میں بہتیرے مذہب کانام لیتے ہوئے شرماتے ہیں اور اس سائبان کے باہر جو ہولناک خلا اور سناٹا ہے اسے پر کرنے کا سامان اب تک میسر نہ آیا۔ نتیجتاً آپ بھی اِدھر اُدھر بھٹکتے پھرتے ہیں اور دوسروں کو بھی ہلکان کرتے ہیں۔ اشتراکی حقیقت نگاری کی بنیادوں کے تجزیے میں مارکس سے چیگو یوارا تک میں نے جب ترقی پسندی کے تصور کو پرکھنا چاہا تو اندازہ ہوا کہ ایک لینن صاحب کو چھوڑ کر جوادب کے معاملے میں اپنی ہٹ کے پکے تھے (کہتے ہیں کہ یہ شاید ان کے مخصوص سماجی اور مادی ماحول کے جبر کا ناگزیر نتیجہ بھی تھا)، بقیہ سب بہ شمولیت مارکس اور اینگلز ڈھلمل یقین تھے۔ پلیخا نوف روسی داں گاردتک ادب کے تصور کی تعبیر میں جیسے جیسے تضادات سامنے آئے ہیں اس سے مجھے پریشانی تو نہیں ہوئی کہ مجھے تضادات میں بھی کسی نہ کسی طرح ایک اندرونی وحدت کی ڈور تلاش کرلینے کی مشق ہے۔ لیکن اشتراکی حقیقت نگاری کی فکری بنیادوں کے ثبات کی طرف سے اندیشے ضرور لاحق ہوئے۔

    بہرحال، یہ کتاب ایک پریشان نظر جاتری کی جستجو کا منظر نامہ ہے۔ مجھے جن سوالوں کی یورش نے سراسیمہ کیا ان کا بھید پانے کی میں نے مقدور بھرکوشش کی۔ جواب ڈھونڈ نکالنے کا دعویٰ تو میں نہیں کروں گا البتہ اتنا ضرور ہے کہ وہ تمام سوال جو نئی حسیت کے خم و پیچ سے وابستہ ہیں اور جن کی نمود نئے شعری اظہار کے افق پرہوئی ہے انہیں بعض اہلِ علم کی طرح لایعنی ماننے کی ہمت مجھ میں نہیں۔ یہ سارے سوال مجھے ایک پیچیدہ اور گاہے دھندلی گاہے روشن بنیادوں پر استوار دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی حقیقت کا تجزیہ میں نے اپنی طبیعت کے برخلاف ایک معروضی اور غیر جذباتی زاویۂ نظر کے ساتھ کرنے کی کوشش کی ہے۔ بے ترتیبی میں ایک ترتیب اور انتشار میں ایک نظم پیدا کرنے کا ایک خواب دیکھا ہے اور اسی خواب کی ہمر ہی میں اپنے ہزار ہا روز و شب بسر کیے ہیں۔ نئی حسیت کا میلان اگر الف سے یے تک سیدھا، صاف اور واضح ہوتا تو وزیر آغا صاحب کی طرح میں بھی جدیدیت کو چپ چاپ ایک تحریک مان لیتا اور یہ سارا کھڑاگ پھیلانے کے بجائے جوڑتوڑ کرکے اس کی تاریخ لکھ ڈالتا۔ مجھے تو ایک ہی نقطے کے مرکز سے الگ الگ سمتوں میں ایک ساتھ جاتی ہوئی، ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی اتنی لکیریں دکھائی دیں کہ زمانوں اور زاویوں کی سرحدیں بکھر گئیں۔ حال کے حصار میں ماضی کا شنکھ بھی گونجا اور مستقبل کی دستکیں بھی سنائی دیں۔ ان دکھوں کاسراغ بھی ملا جنہیں زمانہ بھولتا جاتا ہے اور ان کا بھی جن سے ابھی باقاعدہ تعارف ہونا باقی ہے۔ اس صورتِ حال کے باوجود اگر آپ بھی جدیدیت کو ایک تحریک یا مکتبِ فکر ماننے پر مصر ہیں تو اس کے دستور العمل، لمحۂ آغاز اور موسس کے نام لینے کی اطلاع مجھے بھی دیجیے۔

    یہ سفر نامہ کوئی سات سو صفحوں پر پھیلا ہوا تھا۔ اس کتاب میں صرف چار سو صفحوں کی روداد سمائی ہے۔ اس کے دائرے میں جدیدیت کی فکری اساس کاتجزیہ اور اس کے مختلف النوع عناصر کی نشان دہی کی گئی ہے۔ سو یہ ادب ہے نہ ادبی تنقید۔ اس سلسلے کی دوسری کتاب ’نئی شعری روایت‘ میں فکر کی یہ اساس رکھنے والی شاعری کا قصہ قلم بند کیا گیا ہے۔

    جاتری کو اس سفر میں کچھ ملا ہو یا نہ ملا ہو، اس کا سفر بہرحال غیر دل چسپ نہیں تھا۔ جستجو کا ایک صلہ یہ بھی ہے۔

    مأخذ:

    اردو ادب،نئ دہلی (Pg. 92)

      • ناشر: انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی
      • سن اشاعت: 2018

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے