Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

عقل و عشق اقبال کی شاعری میں

سید عابد حسین

عقل و عشق اقبال کی شاعری میں

سید عابد حسین

MORE BYسید عابد حسین

     

    عشق وعقل کی کشمکش اردو اور فارسی شاعری کا پرانا مضمون ہے۔ عشقیہ شاعری میں عقل مصلحت اندیشی اور احتیاط کے معنی میں آتا ہے اور عشق اس والہانہ محبت کے معنی میں جو آداب مصلحت سے نا آشنا اور وضع احتیاط سے بیگانہ ہے۔ ظاہر ہے کہ دونوں چیزیں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتی۔

    عشق درآمد نہ درگفت سلام علیک
    عقل بروں شدز سر گفت سلام علیک

    متصوفانہ شاعری میں عقل سے مراد ہے منطقی استدلال سے جس کے ذ ریعہ سے ظنی مظاہر کا ایک دھندلا سا تصور قائم ہوتا ہے، اور عشق سے مراد ہے جذبۂ باطن جس کی بدولت طالب تعینات کے پردوں کو ہٹا کر حقیقت کی بلا واسطہ معرفت حاصل کرنا ہے۔ عقل کی کوششوں کا ماحصل علم یا ’’خبر‘‘ ہے، یعنی ذہنی ادراک، اور عشق کی منزل معرفت یا ’’نظر‘‘ یعنی وجدانی مشاہدہ، اگر ہم عقل و ادراک سے حقیقت کے عقدے کو حل کرنا چاہیں تو تصورات کا ایک لا متنا ہی سلسلہ بن جاتا ہے۔ ہر تصور کی تشریخ کے لئے ایک نئے تصور کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور یہ نیا تصور پھر ایک نئی تشریح کا محتاج ہوتا ہے۔ غرض یہ عقدہ کبھی حل نہیں ہوتا، بلکہ اور نئی نئی گتھیاں پڑتی چلی جاتی ہیں۔

    فلسفی راز حقیقت نتوانست کشود
    گشت راز دگرآں راز کہ افشامی کرد

    اس عقدے کو حل کرنے کے یعنی وجود حقیقی کی معرفت حاصل کرنے کی صرف یہی صورت ہے کہ ہم ذوق شوق سے ریاضت جسمانی اور مجاہدۂ نفس کے مرحلے طے کرکے وہ نظر پیدا کریں جو ہمیں شاہد حقیقت کا جلوہ دکھاتی ہے۔

    آدمی دیداست باقی پوست است
    دیدآں باشد کہ دید دوست است

    جملہ تن را درگداز اندر بصر
    درنظر رو در نظر رو در نظر

    اقبال نے عقل اور عشق کے تصورات صوفی شاعروں سے لے کر ان پرجدید فلسفۂ وجدانیت کا رنگ چڑھایا ہے اور اپنی جدت فکر سے ان کے تضاد کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔

    صوفی شعراء ’’ہمہ اوست‘‘ کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک حقیقی وجود صرف ذات الٰہی کا ہے۔ کائنات کا وجود محض ہمارے حواس ظاہری کا فریب ہے۔ اس لئے عقل جس سے ہمیں کائنات کا علم ہوتا ہے، ان کی نظرمیں کوئی قدر نہیں رکھتی، مگر جدید فلسفۂ وحدانیت، جس کا سب سے ممتاز نمائندہ فرانسیسی فلسفی برگسان ہے، عقل تصور کائنات کی عملی قدر کو تسلیم کرتا ہے۔ برگسان کہتا ہے انسان کے ذہن کا کام یہ ہے کہ حسّی وظائف کو حرکتی وظائف میں منتقل کردے، اس لئے جو تصور کائنات ذہن و حواس سے حاصل ہوتا ہے وہ عملی زندگی کے لئے ناگزیر ہے، لیکن یہ تصور حقیقت کا تصور نہیں ہے۔ حقیقت کی معرفت بغیر عقل اور معروض کا فرق مٹ جاتا ہے اور نفس انسانی بیگانگی کے پردوں کو ہٹا کر اس حقیقت کا جس کا وہ خود ایک جزو ہے بلاواسطہ محرم ہو جاتا ہے۔

    اقبال برگسان کی زبان سے کہتے ہیں،

    تابر تو آشکار شود راز زندگی
    خود را جدازشعلہ مثال شرر مکن

    بہر نظارہ جزتگہ آشنا میار
    برمر زد بومِ خود چو غریباں گذر مکن

    نقشے کہ بستۂ اوہامِ باطل است
    عقلے بہم رساں کہ ادب خوردۂ دل است

    اب اسی مضمون کو خود اقبال کی زبان سے سنئے،

    عقل نے ایک دن یہ دل سے کہا
    بھولے بھٹکے کی رہنما ہوں میں

    ہوں مفسرِ کتاب ہستی کی
    مظہرِ شان کبریا ہوں میں

    دل نے سن کر کہا یہ سب سچ ہے
    پر مجھے بھی تو دیکھ کیا ہوں میں

    راز ہستی کو تو سمجھتی ہے 
    اور آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں

    ہے تجھے واسطہ مظاہر سے
    اور باطن سے آشنا ہوں میں

    علم تجھ سے تو معرفت مجھ سے
    تو خدا جو، خدا نما ہوں میں

    تو زمان ومکاں سے رشتہ بپا
    طائر سدرہ آشنا ہوں میں

    کس بلندی پہ ہے مقام مرا
    عرش ربّ جلیل کا ہوں میں

    ان اشعار سے عقل اور عشق کا وہ تصور جو اقبال کے ذہن میں ہے واضح ہو جاتا ہے۔

    عقل رازِ ہستی کو سمھتی ہے۔ یعنی مظاہر کی صورت میں اس کا بالواسطہ ادراک کرتی ہے اور عشق اسے آنکھوں سے دیکھتا ہے، یعنی حقیقت ہستی کا بلاواسطہ مشاہدہ کرتا ہے۔ عقل زبان و مکان کی پابند ہے اور یہ صرف مظاہر کے ادراک کی صورتیں ہیں۔ اس لئے عقل کے ذریعہ سے ہمیں صرف ’’علم‘‘ حاصل ہوتا ہے، عشق زمان ومکان کی حدود سے نکل کر اس عالم نا محدود میں پہنچ جاتا ہے، جہاں حقیقت مطلق بے حجاب نظر آتی ہے۔ اور یہ معرفت کا مقام ہے۔

    عقل کی منزل مقصود بھی ہستی مطلق کی معرفت ہے۔ وہ ’’خدا جو‘‘ ہے، لیکن اس کی جستجو بجائے خود ناتمام ہے۔ عشق ’’خدا نما‘‘ ہے یعنی راہ طلب میں عقل کی رہبری کرتا ہے اور اسے منزل تک پہنچا دیتا ہے۔ عقل اور عشق ایک دوسرے کے حریف نہیں بلکہ دراصل عشقِ عقل کا مرشد ہے۔

    اب ہم اقبال کے قصورعقل و عشق کے ان دونوں پہلوؤں یعنی ان کے اختلاف اور اتحاد کو کسی قدر تفصیل کے ساتھ آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔

    (۱)
    عقل کی کل کائنات ’’خبر‘‘ یعنی مظاہر کا علم ہے۔

    خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ نہیں

    اس کا ادراک صورت زمانہ اور حواسِ ظاہری کا پابند ہے، اس لیے وہ کعبۂ حقیقت سے نا آشنا اور صنم خانۂ مجاز کی پرستار ہے۔

    خرد زنجیری امروزودش است
    پرستار بتان چشم و گوش است

    صنم در آستیں پوشیدہ دارد
    برہمن زادۂ زنار پوش است

    عقل کا علم جو شاہدۂ حققت سے محروم ہے، ظن و گمان سے زیادہ نہیں۔ انسان کا دل محض گمان سے مطمئن نہیں ہو سکتا۔ بلکہ یقین حاصل کرنے کے لئے بیچین ہے۔

    چوخس از موج ہر بادے کہ می آید زجارفتم
    دل من از گمانہادر خروش آمد یقینے دہ

    کائنات کا سطحی علم بیکار ہے، جب تک انسان کی نظر اس کی تہ تک نہ پہنچ جائے،

    اگر بسینۂ ایں کائنات در نہ روی
    نگاہ را بہ تماشا گذاشتن ستم است

    عقل کی بصارت کے ساتھ عشق کی بصیرت بھی شامل ہو تو کائنات جسے خود محرم راز کی تلاش ہے اپنے اسرار پنہاں آشکار کر دیتی ہے۔

    یہ کائنات چھپاتی نہیں ضمیر اپنا
    کہ ذرے ذرے ہی ذوق آشکارائی

    کچھ اور ہی نظر آتا ہے کاروبار جہاں
    نگاہِ شوق اگر ہو شریک بینائی

    کائنات کی حقیقت معلوم کرنے کی جو لگن انسان کے دل میں ہے وہ اقبال کے فلسفۂ خودی کی رو سے محض نظری اہمیت نہیں بلکہ اخلاقی اور عملی اہمیت رکھتی ہے۔ انسان کا مقصدِ حیات یہ ہے کہ اپنی شخصیت کی توسیع اور تکمیل کرے اور اسے پائیدار اور لازوال بنائے۔ عقل کو اس مقصد کا احساس تک نہیں وہ تو کشمکشِ حیات کا دور سے تماشا دیکھتی ہے، مگر عشق جو پیغام خودی کا مخاطب اور محرم ہے، بے تائل کار زارعمل میں کود پڑتا ہے،

    بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
    عقل تھی محوِ تماشائے لبِ بام ابھی

    عشق فرمودۂ قاصد سے سبک گامِ عمل
    عقل سمجھی ہی نہیں معنیٔ پیغام ابھی

    اس مقصد کے حاصل کرنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ انسان کائنات کی قوتوں کو تسخیر کرے اور زمانے کی قیود کو توڑ کر اپنی زندگی کو لازوال بنا دے۔

    حیات چیست جہاں اسیر جاں کردن
    تو خود اسیرِ جہانی کجا توانی کرد

    تواز شمارِ نفس زندۂ نئی دانی
    کہ زندگی زشکستِ طلسم ایام است

    ظاہر ہے کہ ’’ شکست طلسمِ ایام‘‘ قل کے بس کی بات نہیں، اس لئے کہ وہ تو اپنی فطرت کی روسے صورتِ زمان ومکان کی پابند ہے، یعنی اس پر مجبور ہے کہ عالم خارجی کے تصور کو مکان کے سانچے میں اور عالم داخلی کے ادراک کو زمانے کے سانچے میں ڈھالے۔ وہ مظاہر کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے دیکھتی ہے۔ اور آہستہ آہستہ ایک ایک قدم آگے بڑھاتی ہے۔ اسی لئے وہ کائنات کو نا محدود سمجھتی ہے اور اس کے احصاء سے عاجز ہے، ان قیود کو توڑ کے لازمان ولامکان کا مشاہدہ کرنے کے لئے عشق کی جرأت رندانہ درکار ہے۔

    عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
    اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں

    اس مطلب کو اقبال نے جاوید نامے میں ایک تمثیل کے پیرائے میں ادا کیا ہے، جب شاعر زندہ رود اپنے پیر طریقت مولانا روم کے ساتھ عالمِ علوی کی سیر کو جانا چاہتا ہے تو روح زمان و مکان جس کا نام زردان ہے ظاہر ہوتی ہے اور کہتی ہے کہ میں طلسم کائنات کی محافظ ہوں، اس طلسم کو وہی توڑ سکتا ہے جو صدق دل سے ’’لی مع اللہ وقت‘‘ کہے یعنی صرف عشق الٰہی کو توفیق سے زمانے کی حدود سے گذر کر اہدیت کی نا محدود فضا میں قدم رکھنا ممکن ہے۔

    گفت زردانم جہاں را قاہرم
    ہر نہانم از نگہ ہم ظاہرم

    من حیاتم من مماتم من نشور
    من حساب و دوزخ و فردوس و حور

    در طلسم من اسیراست ایں جہاں
    از دمم ہر لحظہ پیراست ایں جہاں

    لی مع اللہ ہر کراور دل نشست
    آں جوا نمردے طلسم من شکست

    گر تو خواہی من نہ ہاشم درمیاں
    لی مع اللہ بازخواں از عین جاں

    زردان سے آنکھ ملاتے ہی شاعر کے سامنے زمان ومکان کا طلسم ٹوٹ جاتا ہے، تعینات کے پردے اٹھ جاتے ہیں اور عالم حقیقت بے حجاب نظر آنے لگتا ہے۔ یہ واردات قلب خود شاعر کی زندگی میں کایا پلٹ کر دیتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس عالم میں مر کر ایک اور عالم میں پیدا ہوا ہے۔ وہ اپنے جسم و روح میں ایک عجیب لطافت اور اپنی چشم باطن میں ایک نئی بصیرت پاتا ہے۔

    درنگاہِ ادنمی دانم چہ بود
    از نگاہم ایں کہن عالم ربود

    مردم اندر کائنات رنگ و بو
    زادم اندر عالم بے ہائے وہو

    رشتۂ من زاں کہن عالم گست
    یک جہانِ تازہ آمد بدست

    از زیانِ عالمے جانم تپید
    تاو گر عالم زخاکم بردمید

    تن سبک تر گشت و جاں ہشیار تر
    چشم دل بنیندۂ و بیدار تر

    یہی وہ کیفیت ہے، جس میں شاعر بے اختیار کہہ اٹھتا ہے،

    با مروز اسیرم نہ بہ فردا نہ بدوش
    دنشیبے نہ فراز سے نہ مقامے دارم

    در جہانِ دل مادورِ قمر پیدا نیست
    انقلابیست دلے شام و سحر پیدانسیت

    بہ گوشِ من رسیداز دل سرودے
    کہ جوئے روز گار از چشمہ سارم

    ازل تاب و تب بیشینۂ من
    ابد از ذوق و شوق انظارم

    (۲)
    ان سب اشعار میں اقبال کے پیش نظر عقل کا مروجہ تصور تھا، یعنی وہ قوت جو حواس ظاہری کی مدد سے زمان ومکان کے دائرے کے اندر مظاہر کا علم و ادراک حاصل کرنے پر قناعت کرتی ہے، لیکن خود ان کا تصور عقل اس سے جدا ہے۔ ان کے نزدیک عقل حقیقت میں عشق کی ضد نہیں بلکہ اس کی تمہید ہے۔ اگر وہ صحیح راہ پر چلے تو ہمارے دل میں مشاہدۂ حقیقت کی آرزو پیدا کرتی ہے اور اس طرح اس کی حد عشق سے جاملتی ہے، وہ ’’خبر‘‘ پر قانع نہیں بلکہ ذوق ’’نظر‘‘ بھی رکھتی ہے۔ لیکن اس کی پرواز اتنی نہیں کہ مقام نظر کی بلندی تک پہنچ سکے۔

    عقل ہم عشق است و از ذوقِ نظر بیگانہ نیست
    لیکن ایں بیچارہ را آں جرأت رندانہ نیست

    ارباب معنی کے دل میں فلسفۂ و حکمت کی قیل و قال بھی کیف و حال پیدا کرتی ہے۔

    مگر رسم دراہِ فرزانگی ذوق جنوں بخشد
    دل از درسِ میں خرد منداں گریباں چاک می آید

    عقل اگر اپنی صحیح فطرت سے منحرف یعنی ذوق نظر سے خالی ہو تو جو علم اس کے ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے وہ ہماری آنکھوں پر پردہ ڈال دیتا ہے، ہم مظاہر میں الجھ کر حقیقت سے محروم رہ جاتے ہیں، لیکن اگر عقل اپنی منزل مقصد سے واقف ہے تو وہ علم ظاہر کے ذریعہ سے علم باطن کی راہ ہموار کر دیتی ہے اور اس حدتک ہماری رہنمائی کرتی ہے کہ ہمارے دل میں معرفت حقیقت کی آرزو پیدا کر دے، یہی اس کی منتہائے پرواز ہے۔ یہاں پہنچ کر وہ ہمیں چھوڑ دیتی ہے کہ ہم عشق کے سہارے آگے بڑھتے چلے چائیں۔

    علم اگر کج فطرت وبد گوہر است
    پیش چشم ما حجاب اکبر است

    علم را مقصود اگرباشد نظر
    می شود ہم جادۂ وہم راہبر

    می نہد پیش تو از قشردجود
    تاتو پرسی چلیست رازایں نمود

    جادہ راہموار ساز دایں چنیں
    شوق رابیدار سازوایں چنیں

    علم تفسیر جہان رنگ وبو
    دیدۂ دل پرورش گیر دازد

    بر مقام جذب و شوق آرد ترا
    باز چوں جبریل بگذاروترا

    عقل کا اس سے بھی زیادہ تصور یہ ہے کہ وہ ’’خبر‘‘ اور ’’نظر‘‘ ’’علم و عشق‘‘ دونوں پر جاوی ہے، اس کے دو پہلو ہیں ایک ناسوتی دوسرا لاہوتی۔ ایک پہلو سے دیکھئے تو اس کا عمل ادراک عالم آب وگل سے تعلق رکھتا ہے اور اس میں بھی سطحیات یعنی مظاہر تک محدود ہے۔ دوسرے پہلو سے دیکھئے تو اس کی نظر ظاہر کائنات سے گذر کر اس کی ماہیت و حقیقت میں ڈوب جاتی ہے اور عالم تحت قمر سے گذر کر عالم علوی کی سیر کرتی ہے۔ ایک طرف وہ زمان ومکان کے پردے میں مجاز کے ظنی علم سے آگے نہیں بڑھتی اور دوسری طرف ان پردوں کو اٹھاکر حقیقت کا عینی مشاہدہ کرتی ہے۔ یہی عقل کا دوسرا پہلو ہے، جو سوز محبت سے آشنا اور نور معرفت سے روشن ہے، عشق کہلاتا ہے۔

    عقل خود میں دگر و عقل جہاں میں دگر است
    بال بلبل و گرو بازوئے شاہیں دگراست

    دگر است آنکہ برودانۂ افتادہ زخاک
    آنکہ گیرو خورش از وانۂ پرویں دگر است

    دگر است آنکہ زند سیر چمن مثل نسیم
    آنکہ درشد بہ ضمر گل و نسریں دگر است

    دگراست آں سوئے نہ پردہ کشا دن نظرے
    ایں سوئے پردہ گمان وظن و تخمیں دگر است

    اے خوش آں عقل کہ پہنائے دو عالم بااوست
    نورِ ما فرشہۂ زدل آدم بااوست

    غرض اقبال کے تصور عقل وعشق کا ماحصل یہ ہے کہ ان دونوں میں کوئی حقیقی فرق نہیں بلکہ صرف مدارج ارتقا کا فرق ہے، ان میں مابہ الامتیاز آرزوئے معرفت کی وہ خاص کیفیت ہے، جسے شاعر نے سوز کہا ہے، اگر عقل میں یہ سوز پیدا ہو جائے تو وہ عشق بن جاتی ہے۔

    چہ م پرسی میان سینہ و دل چیست
    خرد چوں سوز پیدا کرو دل شد

     

    مأخذ:

    مضامین عابد (Pg. 96)

    • مصنف: سید عابد حسین
      • ناشر: کتابی دنیا، دہلی
      • سن اشاعت: 1947

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے