Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آرٹ تاریخ اور کروچے

قمر جمیل

آرٹ تاریخ اور کروچے

قمر جمیل

MORE BYقمر جمیل

    آرٹ تاریخ اور کروچے

    فلسفۂ تاریخ کو یونیورسٹیوں میں باعزت مقام دیا جاتا ہے ہماری یونیورسٹیوں میں نہیں یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں میں، لیکن کبھی اس کی حیثیت مہمان ِخصوصی کی بھی ہو جاتی ہے اور کبھی اسے یونیورسٹیوں سے نکال بھی دیا جاتا ہے۔ لیکن بقول کروچے یہ پچھلے دروازے سے واپس آجاتی ہے تاریخ کے خلاف پہلا فیصلہ تو خود ارسطو نے کیا تھا کہ اس کے خیال میں تاریخ سے زیادہ فلسفیانہ شاعری ہوتی ہے۔ آج کل تو ایسی شاعری بھی لکھی جارہی ہے جس سے زیادہ شاعرانہ خود تاریخ ہے کبھی شاعری نے ہر چیز کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا تھا یہاں تک کہ تاریخ کو بھی۔

    یہ سلسلہ تاریخ سے نکل کر اساطیر تک پہنچ جاتا ہے یوسف زلیخا، ایوب کا صبر، طوفان نوح، قصہ آدم اور باغ ارم ان سے زیادہ شاعرانہ اور کیا چیز ہو سکتی ہے کیوں کہ ان سب چیزوں کو شاعری نے اپنے دامن میں سمیٹ رکھا ہے یہی تاریخ، قبل تاریخ اور اساطیر کلاسیکی شاعری ہی کا نہیں جدید شاعری کا بھی ماخذہیں۔

    تاریخ کے مقابلے میں شاعری کو ارسطو اس لئے زیادہ فلسفیانہ قرار دیتا ہے کہ تاریخ مخصوصیت یعنی (Particularity) سے اپنا تعلق قائم رکھتی ہے اور شاعری آفاقیت سے تو ارسطو کی اس رائے کے بعد فلسفہ تاریخ کا یہ فرض ہو گیا کہ ایسی عمومیت (Generalisation) یا نمونے (Patterns) تلاش کرے جو بار بار رونما ہوتے ہیں۔ صرف حادثاتی امور تک اپنے آپ کو محدود نہ رکھے۔ امپی ڈوکلیس (Empedocles) اسپنگلر اور سوروکن اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ تاریخ دائروں میں گھومتی ہے یہ دائرے ہمارے سامنے بار بار آتے ہیں لیکن کسی خاص سمت میں آگے نہیں بڑھتے جو لوگ تاریخ کی رفتار کو بامقصد سمجھتے ہیں جیسے کارل مارکس ان کا یہ خیال ہے کہ تاریخ ایک خاص سمت میں آگے بڑھ رہی ہے سینٹ اگسٹائن یہ سمجھتا تھا کہ تاریخ ماورائیت رکھتی ہے مذہبی مفکر کا ایسا سمجھنا ضروری بھی تھا لیکن کارل مارکس سمجھتا تھا کہ تاریخ کوئی ماورائیت نہیں رکھتی ہے اور نہ کسی ماورائی قوت کی بنیاد پر تاریخ حرکت کرتی ہے بلکہ تاریخ انسانی اداروں اور انسانی کلچر کے نشوونما میں ظہور کرتی ہے لیکن ہابس، کانٹ اور کروچے کا خیال ہے تاریخ آزادی کا ترقی پسندانہ(Realization) ہے۔ ہر ڈر نے کہا کہ تاریخ روح کا آلہ کار ہے روح یعنی اسپرٹ کا اس بات کو ہیگل نے آگے بڑھایا۔ ہیگل معاشرہ میں روح (Geist) کا عقلی ارتقاء تلاش کرتا ہے۔ جرمن زبان میں Geist کے معنی ہوتے ہیں Spectre, Ghost, Spirit, Wit, Intellect , Mind ملاحظہ کیجیے۔ Wichmann کی جرمن انگلش ڈکشنری میں ان لفظوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ جرمن زبان کے اس لفظ کا ترجمہ صرف روح کے لفظ سے نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ روح Soul کا ترجمہ ہے ہیگل کی (Geist) کا مطلب ہے اسپرٹ یا انٹلکٹ یا خیال۔ تاریخی مادیت اجتماعیت اور سوشلزم ہیگل کے اسی تصور سے پیدا ہوئے ہیں کروچے ہیگل کی فکری روایت کو مانتا ہے اس کے ہاں آزادی ہی انسانیت کا اخلاقی آئیڈیل ہے آزادی ہی ابدی خالق ہے اور تاریخ کی وضاحت کرنے والا بنیادی اصول کرو چے ہیگل کی محدود عقلیت پرستی سے نکل کر لاشعور، فطرت، آرٹ اور وجدان کی دنیا میں آجاتا ہے۔ کروچے تاریخی واقعات اور ان کے علم کو الگ الگ نہیں سمجھتا کروچے ہیگل اور سینٹ ٹامس اکیناس کی طرح یہ سمجھتا ہے کہ مطلق دنیا کے (Process) میں عمل پیرا بھی ہوتا ہے اور مطلق ہی اس پر غور و فکر بھی کرتا ہے۔

    تاریخ پر رد عمل کے ساتھ ساتھ کروچے کا نام جمالیات کے ساتھ وابستہ ہے۔ جمالیات کے سلسلے میں اس کی اہمیت یہ ہے کہ اس نے وجدان اور اظہار کا ایک نیا نظریہ پیش کیا۔ وہ مارکس سے اس قدر ضرور متاثر ہوا کہ نیکی، خوبصورتی اور سچائی کے ساتھ افادیت کو بھی ایک قدر تسلیم کرنے لگا ویسے وہ (Geist) یعنی اسپرٹ کو اصل حقیقت مانتا تھا یعنی وہ Intellect اور Mind کی اہمیت کا قائل تھا مادہ کا نہیں کرو چے سمجھتا ہے کہ کائنات میں جو صورتیں رونما ہوئی ہیں وہ (Spirit) کے اظہار ذات سے پیدا ہوئی ہیں۔ انسان کی روح بھی ایک وحدت ہے چنانچہ جب ہم کوئی کام کرتے ہیں تو اس میں ہماری عقل، ہمارے جذبات، ہمارا لاشعور، ہمارے احساسات سب شامل ہوتے ہیں ہم جو آرٹ تخلیق کرتے ہیں اس میں ہماری روح اپنی پوری وحدت میں ظاہر ہوتی ہے، تاریخ کے ہر لمحہ میں روح بھر پور طور سے موجود ہوتی ہے ہمارا آرٹ اور ہماری زندگی دونوں روح کا مظہر ہیں۔

    آرٹ اسی وقت تخلیق ہوتا ہے جب فنکار کے وجدان میں روح اپنے آپ کو معرض وجود میں لاتی ہے آرٹ فنکار کے وجدان میں تخلیق ہوتا ہے۔ آرٹ کیا ہے؟ ایک لیریکل امیج یہی لیریکل امیج آرٹ میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے شاعری سے لے کر عمارت سازی تک ہر آرٹ کی جان یہی لیریکل امیج ہے جو نقاد اس حقیقت کو نہیں سمجھتے وہ آرٹ میں فکر، نکتہ سنجی یا فنی اظہار پر زور دینے لگتے ہیں، مجسمہ سازی، شاعری، موسیقی، مصوری سب ایک ہیں۔

    کروچے کا خیال ہے کہ رزمیہ، ڈرامائی اور لیریکل، شاعری کی تقسیم اس لئے ہے کہ آرٹ معروضیت حاصل کرنا چاہتا ہے تو یہ تین منزلیں آتی ہیں پہلی منزل غنائی شاعری ہے ،غزل، گیت، دو ہے وغیرہ ان میں ذات یا انا اپنی تصویر کھینچتی ہے اپنے آپ کو پیش کرتی ہے میر کا یہ شعر دیکھئے۔

    ہمارے آگے ترا جب کسی نے نام لیا

    دلِ ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا

    غنائی شاعری شاعر کا عاشقانہ روپ اور اس کی تصویر پیش کرتی ہے، اس کا تعلق ایک طرف بصری حسن سے ہوتا ہے اور دوسری طرف سماعی حسن سے یعنی موسیقیت سے۔

    اب ایپک شاعری کی طرف آئیے۔ ایپک شاعری میں شاعر اپنے آپ کو چھپا کر دنیا کو پیش کرتا ہے۔ ڈرامائی شاعری میں شاعر کی فیلنگ اپنے اظہار کے لیے کردار تخلیق کرتی ہے اور ان کے تصادم میں اپنے جذبات کا اظہار کرتی ہے۔ شاعر کی ذات معروضیت کے یہی تین طریقے ہیں جو اختیار کرتی ہے، پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ شاعر اپنی ذات کا ڈراما خود پیش کرے دوسرا طریقہ یہ ہے کہ خود چھپ جائے اور دنیا کو پیش کرے تیسرا طریقہ یہ ہے کہ شاعر اپنے جذبات کے اظہار کے لیے کردار تخلیق کرے یہ تین طریقے غنائی رزمیہ اور ڈرامائی شاعری کہلاتے ہیں۔

    غنائی شاعری صرف گیت اور غزلوں تک محدود نہیں رہتی بلکہ رزمیہ اور ڈرامائی شاعری میں بھی ظاہر ہوتی ہے مثلاً میکبتھ اور انطونی اور کلو پیٹرا میں معقول حد تک غنائی شاعری بھی موجود ہے۔

    ہیملٹ زندگی سے بیزاری اور مایوسی کے موڈ کا اظہار ہے، کردار، سچویشن اور انجام سب اسی موڈ کا اظہار ہیں، ہیملٹ کے مختلف مناظر اور مختلف کرداروں میں ایسی مایوسی کی مختلف تدریجی کیفیتوں اور لہجوں کا اظہار ہے، او تھیلو کا کردار بھی صرف تخیل نہیں بلکہ سچائی کا فنکارانہ اظہار ہے۔

    اس سے کروچے کا مطلب یہ ہے کہ سچائی کے حصول کا ذریعہ صرف عقل نہیں ہے۔ وجدان بھی ہے آرٹ کی تخلیق وجدان سے ہوتی ہے۔ عقل سے نہیں۔ آرٹ کا جو ہر قوت متخیلہ ہے جوا سے تاریخ اور عقل سے الگ کر دیتا ہے۔ متخیلہ سے مراد وہ جوہر ہے جو صرف خیال یا تصور میں موجود ہوتا ہے۔ فنکار جب اپنے خیال یا تصور سے نکل کر غور و فکر اور ان کے نتائج کی دنیا میں آجاتا ہے تو آرٹ ختم ہو جاتا ہے۔ وجدان چیزوں کو ان کی کلیت میں دیکھنے کا نام ہے برگساں نے وجدان کا تصور بڑی شدومد سے پیش کیا ہے وہ سمجھتا ہے کہ وجدان اشیاء کی اصل حقیقت تک پہنچنے کا ذریعہ ہے اور تعقل صرف عملی دنیا میں راہنمائی کرتا ہے لیکن کروچے وجدان کو جمالیاتی سچائی تک پہنچنے کا ذریعہ بتاتا ہے۔ وجدان کو جو چیز ہم آہنگی عطا کرتی ہے وہ احساس کی شدت ہے اور احساس کی یہی شدت آرٹ کی علامتوں کو ہلکا بھی کر دیتی ہے۔ کروچے کہتا ہے کہ فنکارانہ وجدان ہمیشہ لیریکل ہوتا ہے وجدان کے ساتھ غنائی کہنا ایک زائد لفظ کا استعمال ہے کیوں کہ وجدان ہوتا ہی غنائی ہے۔

    آرٹ کے جھوٹے نمونے وہ ہوتے ہیں جن میں ذہن کی مختلف حالتوں کے درمیان کشاکش رہتی ہے جو حل نہیں ہونے پاتی۔ کروچے کہتا ہے کہ شاعر جب اپنے وجدان کا اظہار لفظوں میں اپنے ذہن میں کرتا ہے تو نظم اسی وقت مکمل ہو جاتی ہے لیکن جب شاعر یہ نظم سپرد قلم کرتا ہے یا دوسروں کو سنانا چاہتا ہے یا اشاعت کی غرض سے بھیجتا ہے تو اس بات کا تعلق عملی دنیا سے ہوتا ہے جمالیات کی دنیا سے نہیں۔ اگر مصور کے برش کا اسٹروک اس کے وجدان کے مطابق نہ ہو تو مصور اس اسٹروک کو فوراً منسوخ کر دیتا ہے اور پھر درست کرتاہے۔

    تکنیک کا تعلق ابلاغ سے ہے، تکنیک آرٹ کا بنیادی عنصر نہیں ہے جو فنکار اپنے آرٹ میں کوئی کمی محسوس کرتا ہے وہی تکنیک پر زور دیتا ہے۔حساس قاری شعر کے ایک ہی مصرعہ میں ان گنت کیفیتیں محسوس کرتا ہے، شاعری کے ایک مصرعہ میں ایک حساس قاری کو ایک پینٹنگ مل سکتی ہے، ایک مجسمہ کی بھرپور کیفیت مل سکتی ہے، ایک عمارت کا پورا اسٹرکچر مل سکتا ہے۔

    دیکھنے والے کی روح میں تصویر صرف رنگ کے طور پر نہیں بلکہ آواز کی حیثیت سے بھی زندہ ہوتی ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ ہم مصوری یا موسیقی کی کیفیات کو گرفت میں نہیں لے سکتے یہ خصوصیات ہماری گرفت سے باہر نکل جاتی ہیں یا ایک خصوصیت دوسری خصوصیت میں ڈھل جاتی ہے یا مختلف خصوصیتیں مل کر ایک ہو جاتی ہیں۔

    آرٹ دراصل ایک ہوتا ہے اسے مختلف فنون میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا اس کے باوجود آرٹ لامحدود طور پر متنوع ہوتا ہے، مختلف فنون کے تصورات کے طور پر نہیں بلکہ فنکارانہ شخصیتوں اور ان کی ذہنی کیفیتوں کے لامحدود تنوع کے طور پر کروچے کی رائے میں شاعری کی بنیاد شخصیت پر ہوتی ہے اور شخصیت کی تکمیل اخلاقیات سے ہوتی ہے یعنی شاعری کی بنیاد اخلاقی شعور سے گہرا تعلق رکھتی ہے لیکن صرف اخلاقی شعور کسی کو شاعر بنانے کے لیے کافی نہیں ہے شاعری کے لیے شاعرانہ جینیئس ضروری . ہے۔ باقی سب چیزیں ایندھن کا کام کرتی ہیں۔ کروچے کے خیالات کو خلاصہ کے طور پر یوں بیان کیا جاسکتا ہے۔

    ’’شاعری کا کوئی مقصد نہیں ہوتا، کوئی پیغام نہیں ہوتا ، شاعری ایسی کرن کی طرح ہوتی ہے جو اپنی روشنی کا باعث خود ہوتی ہے اور تاریکی میں چھپی ہوئی چیزوں کو روشن کر دیتی ہے ہر شخص کے دل میں خواہ وہ مفکر ہو، سیاست داں ہو یا نقاد تخیل کا پرائیویٹ ذخیرہ ہوتا ہے سیاسی شاعری، شاعری نہیں ہوتی۔ شاعری کا تعلق تخیل کی دنیا سے ہوتا ہے لیکن خالص شاعری کا تصور مضحکہ خیز ہے یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی یہ سمجھتا ہو کہ پھول زمین اور پودے کے بغیر اگ سکتا ہے۔‘‘

    واقعات کی دنیا اور ہوتی ہے خواہشات کی دنیا اور شاعری خواہشات کی دنیا کو پیش کرتی ہے آرٹ کا تعلق حقیقی شاعرانہ تخیل سے ہوتا ہے صرف خیال آفرینی یا خیالی اڑان سے نہیں ہوتا۔

    آرٹ اپنے امیج میں اس طرح رہتا ہے جیسے بادشاہ اپنی مملکت میں شاعری غیر معقول نہیں ہوتی اور نہ منطق سے لا پرواہی برت سکتی ہے اس کی اپنی معقولیت اور اپنی ایک منطق ہوتی ہے۔

    آرٹ کی بنیاد وجدان اور فلسفہ کی بنیاد عقل ہے۔ اچھا قاری آرٹ کی روح کے اندر اتر جاتا ہے۔ آرٹ کے دل کی دھڑکن سنتا ہے اور اگر یہ دھڑکن سنائی نہ دے تو وہ اس شاعری کو رد کر دیتا ہے۔

    انسانی روح صرف علم سے مطمئن نہیں ہوتی بلکہ عمل کی دنیا میں بھی قدم رکھنا چاہتی ہے۔ اس لیے ہم تاریخ میں حصہ لیتے ہیں۔

    خطابت شاعری کی آفاقیت کو ختم کر دیتی ہے۔ مقبول شاعری اور عظیم شاعری میں فرق ہے مقبول شاعری ان جذبات کا اظہار ہے جو عام فکر اور جذبات کی رو کے مطابق ہوتی ہے عظیم شاعری فلسفہ حیات کے بغیر نہیں ہو سکتی عظیم شاعری ہمارے اندر عظیم یادوں اور عظیم خیالات کو بیدار کرتی ہے۔

    شاعری وہ سنہرا تیر ہے جو آسمان کی طرف چلایا جاتا ہے یعنی آرٹ کا کوئی مقصد نہیں ہوتا۔

    لیکن کروچے یہ تسلیم کرتا ہے کہ آرٹ فنکار کی شخصیت کا اظہار ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آرٹ پورے معاشرے کی شخصیت کا اظہار یعنی پوری انسانیت کا اظہار ہے۔

    RECITATIONS

    ظفر جمیل

    ظفر جمیل,

    ظفر جمیل

    volume01 article11 ظفر جمیل

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے