اصغر ندیم سید: تخلیقی دھنک کی رنگارنگ دنیا
اصغر ندیم سید جنہیں ادبی دنیا میں شاہ جی کے نام سے پہچانا جاتا ہے 14 جنوری 1950ء کو ملتان کے ایک قدیم محلے، ٹبی شیر خان میں نانا کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کے والد غلام اکبر سبزواری کا تعلق ریاست بہاولپور کی ایک بستی چاچڑاں شریف سے تھا اور وہ آٹھویں جماعت تک تعلیم یافتہ تھے۔ اسی رسمی تعلیم کے سبب وہ ملتان میں خاکوانی خاندان کے مالیاتی امور کے انچارج تھے جسے مختار عام کہا جاتا تھا۔ ثمینہ پیر زادہ کو انٹرویو دیتے ہوئے اصغر ندیم سید کا کہنا تھا کہ،
”ملتان میں تین چار Fuedal تھے، میرے والد ان کے manager تھے۔“ 1
اس جاگیردار خاندان کی ایک بہت بڑی حویلی تھی جو اصغر ندیم سید کے والد کو رہائش کے لیے دی گئی تھی۔ اصغر ندیم سید کا بچپن اسی حویلی میں مختلف کھیل کھیلتے اور شرارتیں کرتے گزرا۔ ان کی والدہ معمولی پڑھنا لکھنا جانتی تھیں۔ کیونکہ اصغر ندیم سید پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے، اس لیے ان کی والدہ سے زیادہ انسیت تھی۔ بڑا بیٹا ہونے کے سبب والدہ کے کام میں ان کا ہاتھ بٹاتے اور سودا سلف بھی خرید لاتے۔ والدہ انہیں جو پیسے سودا سلف لانے کے لیے دیتی تھیں وہ اس میں سے کچھ پیسے علیحدہ رکھ لیتے اور پسندیدہ چیزیں کھاتے، یوں انہیں دوپہر میں کھانے کی طلب نہ رہتی۔ ثمینہ پیر زادہ کو انٹرویو دیتے وقت انہوں نے یوں کہا کہ،
”ماں سودا سلف کے لیے جو پیسے دیتی تھیں میں اس میں سے کچھ کاٹ کر عیاشی کرتا تھا۔“2
محلے میں پھیری والے مختلف اشیاء مثلاً گول گپے، سموسے، آلو چنے اور کیمے کی ٹکیاں بیچنے آتے جن کے ذائقوں نے اصغر ندیم سید کو چٹخورا بنا دیا۔ ان پھیری والوں سے متاثر ہو کر ایک بار اصغر ندیم سید نے گلی میں چنوں کا ٹھیلہ لگایا اور بارہ آنے کمائے گویا یہ ان کی پہلی کمائی تھی۔
بچپن میں اصغر ندیم سید عام بچوں سے مختلف نہیں تھے اور نہ ہی ان کا زندگی کا تصور عام معاشرتی افراد کے برعکس تھا۔ ان کے خواب بس اسی دنیا تک محدود تھے جس میں ان کی پیدائش ہوئی اور جہاں وہ پلے بڑھے۔ ثمینہ پیر زادہ کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ،
”بچپن میں زندگی بہت محدود دکھائی دیتی تھی۔ لگتا تھا کہ بس یہ چند چیزیں مل جائیں تو ہم مطمئن ہیں۔ زندگی کا ایک بہت بڑا میدان، ایک بہت بڑا سمندر ہم نے دیکھا ہی نہیں تھا۔ لیکن یہ ضرور تھا کہ کچھ نہ کرنا ضرور چاہتے تھے۔ میں لکھنا چاہتا تھا۔“3
ملتان شہر کی ایک مخصوص ثقافت ہے جس میں اولیاء کی تعلیمات مرکزی حیثیت کی حامل ہیں۔ اس شہر کی مساجد، قہوہ خانے، باغیچے، لائبریریاں اور گلیاں کئی صدیوں کی بازگشت کا پتہ دیتی ہیں۔ اصغر ندیم سید نے انہی گلیوں میں پٹھو گرم، گلی ڈنڈا، لٹو گھمانا، پتنگ بازی، چھپن چھپائی، پکڑ پکڑائی اور بنٹے کھیلتے ہوئے اپنا بچپن گزارا۔ Melody Time کو انٹرویو دیتے ہوئے ملتان کے قہوہ خانوں کے متعلق انہوں نے یوں کہا کہ،
”قہوہ خانے کا مطلب کھانا کھانا نہیں ہے۔ قہوہ خانہ ایک جگہ ہے جہاں پینٹرز، آرٹسٹ، میوزیشنز اور رائٹرز بیٹھتے ہیں اور گفتگو کرتے ہیں۔ یہ گفتگو ہی اصل ہوتی ہے جو تربیت کرتی ہے۔“ 4
اصغر ندیم سید شام کو دوستوں کے ساتھ ملتان کی گلیوں میں گھومنے نکلتے اور ملتان کے مختلف قہوہ خانوں میں کچھ نہ کچھ لمحات گزارتے اور اسی طرح گھومتے پھرتے رات گزار دیتے۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ”میری تربیت انہی قہوہ خانوں میں ہوئی۔“ 5
کیونکہ اصغر ندیم سید کے والد کا تعلق ریاست بہاولپور کے ایک گاؤں سے تھا لہذا ان کا ددھیال اسی گاؤں میں سکونت پذیر تھا۔ یہ اصغر ندیم سید کی خوش بختی تھی کہ انہیں جہاں ملتان جیسے ثقافتی، تاریخی اور روحانی شہر میں بچپن گزارنے کا موقع ملا، وہیں انہیں گاؤں کا ماحول اور اس کی آب و ہوا بھی میسر آئی۔ وہ گرمیوں کا موسم ددھیال میں گزارتے۔ وہاں کھجوروں اور آموں کے باغوں میں کھیلتے کودتے، اپنے ہاتھوں سے کھجوریں اور آم اتارا کرتے۔ وہیں اصغر ندیم سید نے گھڑ سواری سیکھی، جنگلوں میں گم ہونا اور ان دیکھے رستوں پر چلنا سیکھا۔ وہ ایک ایسا گاؤں تھا جہاں شہر جیسی سہولیات میسر نہ تھیں مگر اس ماحول کی تاثیر ایسی تھی کہ اصغر ندیم سید کے دہائیوں بعد لکھے گئے ڈراموں میں اس کی جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ یعنی وہ ماحول اصغر ندیم سید کے اندر ایسی شدت سے اترا کہ تخلیقی سطح پر اظہار کیے بغیر نہ رہ سکا۔ Melody Time کو انٹرویو دیتے ہوئے اصغر ندیم سید نے اپنے ددھیال کے گاؤں کے متعلق یوں کہا کہ،
”میرے ددھیال خان پور ریاست بہاولپور میں تھے وہ ایک دور افتادہ گاؤں تھا۔ وہاں بجلی اور پانی نہیں تھے، کنواں تھا۔ کھجوروں اور آموں کے باغ تھے۔“ 6
GNN کو انٹرویو دیتے ہوئے بیک وقت شہر اور گاؤں کا ماحول میسر آنے کے حوالے سے انہوں نے یوں کہا کہ،
”میرا بچپن ملتان شہر میں گزرا۔ اور میں اس حوالے سے Lucky رہا کہ میرا ددھیال ریاست بہاولپور کے گاؤں میں تھا۔ مجھے Rural اور Arban دونوں ماحول ملے۔“ 7
اصغر ندیم سید کے گھر کا ماحول ادبی نہیں تھا مگر لبرل ضرور تھا۔ گھر میں چار پانچ کتب موجود تھیں جن میں سعادت حسن منٹو کی کتاب ”خالی بوتلیں خالی ڈبے “ بھی شامل تھی۔ یہی وہ پہلی کتاب تھی جو اصغر ندیم سید نے پڑھی اور ان کا سعادت حسن منٹو سے تعلق قائم ہوا۔ یہ ایسا تعلق تھا کہ بعد میں اصغر ندیم سید کے ایک افسانے ”ایک اور ٹوبہ ٹیک سنگھ“ کی صورت ظاہر ہوا۔ یہ دراصل خراجِ عقیدت کا ایک وسیلہ ہوتا ہے کہ اپنے رفتگاں کے رنگ میں تخلیقی اظہار کیا جائے۔
اصغر ندیم سید کے والد کا شوق تھا کہ ان کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں اس لیے انہوں نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ یہ ان کے والدین کی تربیت کا ہی اثر تھا کہ اصغر ندیم سید خود پروفیسر، ان کی ایک بہن وکیل اور دوسری پروفیسر، جبکہ ایک بھائی ڈاکٹر بنے۔
اصغر ندیم سید کے بچپن میں ان کے والد صاحب کے پاس ایک فلپس ریڈیو ہوا کرتا تھا۔ جب ان کے والد گھر سے باہر جاتے تو اصغر ندیم سید اس پر محمّد رفیع، طلعت محمود، لتا، ہیمنت کمار، اور نور جہاں کے گانے سنتے۔ اس ریڈیو کو جب کچھ دیر کے لیے چلایا جاتا تھا تو وہ گرم ہو جاتا تھا۔ جب ان کے والد گھر آتے تو وہ ریڈیو پر ہاتھ رکھ کر معلوم کر لیتے کہ ریڈیو کتنی دیر چلا ہے۔ یوں اصغر ندیم سید اکثر پکڑے جاتے۔ اس لیے جب ریڈیو بند کیا جاتا تو ان کی والدہ ریڈیو پر ٹھنڈا کپڑا ڈال دیا کرتی تھیں تاکہ ریڈیو ٹھنڈا ہو جائے اور اصغر ڈانٹ سے بچ جائے۔ اصغر ندیم سید کے والد غلام اکبر بچوں پر تعلیم کے حوالے سے سختی کرتے تھے مگر اس کے باوجود اصغر ندیم سید کھیل کود کے لیے رستے نکال لیتے۔ دوسری طرف وہ روحانی حوالے سے بھی اہم مقام رکھتے تھے اور ان کے گھر لوگ دعائیں کروانے آیا کرتے تھے۔ ان کے کردار کو اصغر ندیم سید نے اپنے ڈرامے ”پیاس“ میں پینٹ کیا اور افضال احمد کے کردار کے ذریعے پیش کیا۔ پیاس ڈرامے کا کردار افضال احمد، اصغر ندیم سید کے والد غلام اکبر سبزواری کی کاربن کاپی معلوم ہوتا ہے۔ اس کا اعتراف خود انہوں نے Melody Time کو انٹرویو دیتے ہوئے بھی کیا۔
اصغر ندیم سید کی ابتدائی تعلیم و تربیت ملتان کے ملت ہائی سکول کے ان اساتذہ کے ہاتھوں ہوئی جو تقسیم ہند کے بعد انبالہ، پانی پت اور ہریانے سے ہجرت کر کے ملتان شہر آئے اور تعلیم و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہو گئے۔ اسی تربیت کا اثر تھا کہ اصغر ندیم سید کے اندر مختلف علاقوں کی ثقافت کا امتزاج رچ بس گیا۔ اصغر ندیم سید سکول میں درمیانے درجے کے طالب علم تھے جو نصابی کتب کے بجائے بچوں کے رسالے شوق سے پڑھا کرتا تھا۔ اس وقت ملت ہائی سکول میں ”اردو ڈائجسٹ“ آیا کرتا تھا جسے پڑھتے پڑھتے ان کا ادبی ذوق ایسا پروان چڑھا کہ انہوں نے چوتھی جماعت کا طالب علم ہوتے ہوئے، ایک کہانی لکھ ڈالی اور اتفاق سے وہ بچوں کے رسالے میں شائع ہو گئی۔ یوں ان کے ادبی سفر کا آغاز ہوا۔
ملت ہائی سکول جس میں اصغر ندیم سید نے ابتدائی تعلیم حاصل کی وہ ملتان کا مشہور سکول تھا جہاں سے اداکار محمد علی جیسے تراشے گئے ہیرے اپنے فن کا لوہا منوا چکے تھے۔ اس سکول کے پہلو میں بابر سینما تھا۔ اسی سینما میں اصغر ندیم سید اپنے دوستوں کے ہمراہ فلمیں دیکھنے جایا کرتے تھے۔ یہاں سے ہی ان کا فلمی ذوق پروان چڑھا جس نے بعد میں ان کے ڈراموں کی بنت میں نمایاں کردار ادا کیا اور فلمی فن کی جدلیات کو سمجھنے میں ان کی رہنمائی کی۔
اصغر ندیم سید آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے کہ انہوں نے ایک روز اشتہاروں کی پیروڈی کی اور اسے احمد ندیم قاسمی کی رسالے امروز میں شائع ہونے کے لیے بھیج دیا۔ احمد ندیم قاسمی نے اسے بغیر کوئی بھی تبدیلی کیے رسالے میں شائع کر دیا۔ یہاں سے گویا ان کے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ سکول کے زمانے سے ہی ان کا رجحان ترقی پسند نظریات کی طرف رہا اور سکول میں انہیں ایسے اساتذہ ملے جنہوں نے ان کے اندر ترقی پسندانہ سوچ کو پروان چڑھایا۔ ثمینہ پیر زادہ کو انٹرویو دیتے ہوئے ترقی پسندی کے متعلق انہوں نے یوں کہا کہ،
”ترقی پسندی ایک سوچ کا نام ہے۔ اس کے لیے ضروری نہیں کہ آپ مارکسسٹ ہوں، سوشلسٹ ہوں۔ ترقی پسندی تو ایک scientific approach کا نام ہے۔“ 8
ملت ہائی سکول ملتان سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد ان کا داخلہ ایمرسن کالج ملتان میں کروایا گیا۔ یہ سال تھا 1964ء۔ ایمرسن کالج ملتانی ادبی منظر نامے میں اہم مقام رکھتا تھا اور ادبی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ سکول سے جب اصغر ندیم سید کالج کی فضا میں آئے تو ادبی حوالے سے انہیں بہترین ماحول ملا۔ وہاں پر انہیں اے بی اشرف، سجاد حیدر جیلانی، ڈاکٹر سلیم اختر، اسلم انصاری، عرش صدیقی اور نذیر احمد جیسے اساتذہ سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا۔ کالج میں اصغر ندیم سید نے ادبی مقابلہ جات میں بھی بھرپور شرکت کی، ایک سال میں سترہ مقابلے جیتے اور ٹرافیوں کا انبار لگا دیا۔ اس بنیاد پر انہیں کالج کے رول آف آنر سے نوازا گیا۔ اسی دوران انہوں نے کالج میں مشاعرے منعقد کروائے اور انتظامی سرگرمیوں میں بھی بھرپور حصہ لیا۔ ایمرسن کالج سے ایک رسالہ ”نخلستان“ کے نام سے شائع ہوا کرتا تھا۔ اصغر ندیم سید اس رسالے کی مجلسِ ادارت کا بھی حصہ رہے اور ایک سال تک مدیر کی حیثیت سے بھی فرائض سر انجام دیے۔
ان کے ننھیال کے قریبی بزرگ جن کا نام سید قسور گردیزی تھا کی ذاتی لائبریری سے اصغر ندیم سید نے ٹالسٹائی، دوستوفسکی، ترگینف، پشکن، شولو خوف، مایا فسکی کو تفصیل سے پڑھا اور پھر چینی ادب میں لوہلسون اور ماؤزے تنگ کو پڑھا۔ وہاں سے ہی ان کا تعارف دنیا کے عظیم ادیبوں سے ہوا۔ اسی زمانے میں انہوں نے مختلف ملکوں کی مزاحمتی شاعری کا اردو میں ترجمہ کیا جو کہ بعد میں کتابی صورت میں شائع ہوا۔ یہی ان کا پہلا بڑا قدم تھا جو انہیں ادبی دنیا میں لے آیا۔
1971ء میں جب وہ ایمرسن کالج میں طالب علم تھے تو انہوں نے امروز اخبار، جو کہ ترقی پسند نظریات کا حامی تھا اور جس کے ایڈیٹر اس وقت مسعود اشعر تھے، میں باقاعدگی سے کالم لکھنا شروع کیے۔ ایم اے کے بعد انہوں نے تین ماہ بنک میں ملازمت کی، آخر PPSC کے ذریعے لیکچرر منتخب ہوئے اور مظفّر گڑھ کالج میں پڑھانے لگے۔
تقسیم ہند، برصغیر کے تخلیق کاروں اور فنکاروں کے لیے ایک بہت بڑا سانحہ تھا۔ اس کا ثبوت ہمیں ان فن پاروں میں ملتا ہے جو اس زمانے میں وجود میں آئے۔ اس دور کے اردو فکشن مثلاً پنجر، یاخدا، پشاور ایکسپریس، لاجونتی، ماں بیٹا اور ٹھنڈا گوشت وغیرہ کو دیکھا جائے تو خون کی ندیاں بہتی محسوس ہوتی ہیں۔ یہی کرب ناک صورتحال پاکستانی تخلیق کاروں نے اس وقت محسوس کی جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا۔ اس کا تخلیقی اظہار مختلف ناولوں جیسا کہ کاغذی گھاٹ، چلتا مسافر، صدیوں کی زنجیر اور افسانوں مثلاً پچھتاوا، اب جاگتے رہنا اور دوسری ہجرت وغیرہ کی صورت ہوا۔ اصغر ندیم سید پر بھی اس واقعے نے اتنا ہی گہرا اثر کیا جتنا باقی فنکاروں پر کیا تھا۔ کیونکہ اصغر ندیم سید ترقی پسند نظریات کے حامی ہیں اس لیے ان کے لیے تقیسم ہند کا دکھ بہت بڑا تھا تو جب سقوط ڈھاکہ ہوا تو یہ گویا ایک قیامت تھی جو ان پر گزری۔ اس کا تخلیقی اظہار انہوں نے اپنے ڈرامے ”میگھ ملہار“ میں کیا جس کی کہانی 1971ء کے مشرقی اور مغربی پاکستان کے بیچ دو محبت کرنے والے کرداروں کے گرد گردش کرتی ہے۔ یہ ڈراما 1995ء میں پی ٹی وی سے نشر کیا گیا۔
جب اصغر ندیم سید ملتان میں تدریسی فرائض انجام دے رہے تھے اس وقت ملتان ریڈیو شروع ہو چکا تھا، اصغر ندیم سید وہاں مشاعرے پڑھنے جایا کرتے تھے۔ یہ سلسلہ 1977ء تک جاری رہا۔ 1977ء میں جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی اور ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لاء لگایا تو اصغر ندیم سید کو پہلے شکر گڑھ کالج بھیجا گیا اور پھر ان کا تبادلہ لاہور کر دیا گیا۔ ان تبادلوں کی وجہ اصغر ندیم سید کی ترقی پسندانہ سوچ، امروز اخبار کے صحافیوں کی جبراً اخبار سے بے دخلی کے خلاف آواز اٹھانا اور مختلف ممالک کی وہ مزاحمتی شاعری تھی جس کا ترجمہ انہوں نے ”زمین زاد کا اُفق“ کے عنوان سے کیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پاکستانی عوام کے لیے کسی سانحے سے کم نہ تھی۔ اسی لیے جب بھٹو کو پھانسی دی گئی تو کئی شہروں میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور سندھ میں کئی جیالوں نے خود کشی کی بھی کوشش کی۔ ایسے قومی سانحے تخلیق کار کے ضمیر پر بہت بڑا بوجھ ہوا کرتے ہیں۔ اس لیے تخلیق کار ایسے چور راستے تلاش کرتا ہے جن کے ذریعے وہ اس ضمیر کے بوجھ کو ہلکا کر سکے۔ یہی صورت حال اصغر ندیم سید کی بھی تھی۔ بھٹو کی پھانسی اور جمہوریت کے سر عام قتل نے ان کے اندر ایک طوفان کھڑا کر دیا تھا جو ان کے ڈرامے ”ہوائیں “ کی صورت منظر عام پر آیا۔ ریختہ کو انٹرویو دیتے ہوئے اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ،
”بھٹو صاحب کی پھانسی میرے ضمیر پر بوجھ تھی۔ میں اس تلاش میں تھا کہ کبھی مجھے موقع ملے تو میں ایک ایسا کردار تخلیق کروں جس پر ظلم ہوا ہو اور جس کو بے گناہ پھانسی کی سزا ہو رہی ہو۔ اس کی دو بیٹیاں بھی ہوں اور بیوی بھی ہو۔“ 9
جب ”ہوائیں “ ڈرامہ آن ائیر ہوا تو لوگوں کو ڈرامے کے مرکزی کردار میں بھٹو کا سایہ نظر آنے لگا۔ چاہے کسی نہ کسی حد تک وہ کردار بھٹو کی زندگی سے کئی حوالوں سے مختلف تھا مگر اسے مختلف پیش کرنا ڈرامہ نویس کی مجبوری تھی۔ تب ملک میں مارشل لاء کا دور تھا اور پی ٹی وی پر نشر ہونے والے ڈرامے سینسر ہوا کرتے تھے اور ضیاء الحق خود ڈرامے شوق سے دیکھا کرتا تھا۔ اس لیے ڈرامہ نگار کو ایسی کہانی بننا پڑی کہ سانپ بھی مر جائے اور لٹھ بھی نہ ٹوٹے۔
ادب کی تاریخ میں ان شخصیات کا ہمیشہ اہم کردار رہا جن کی تعلیم و تربیت اور نشوونما میں ثقافتی تنوع کا عنصر شامل تھا۔ ثقافتی تنوع کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں مثلاً شخصیت کا تعلق کسی ایسے علاقے سے ہو جہاں مختلف قوموں کے مزاج اور ثقافت کا امتزاج پایا جاتا ہو، اور وہ علاقہ تاریخ کے اتنے ادوار دیکھ چکا ہو کہ ہر علاقے اور خطے کی ثقافتی حرکیات اس کے تاریخی و تہذیبی سوتوں میں شامل ہو کر اس علاقے کی ایک منفرد ثقافت کا روپ دھار چکی ہوں۔ یا شخصیت کا بچپن کسی ایک علاقے میں گزرا ہو اور کچھ وقت بعد وہ کسی دوسرے علاقے میں ہجرت کر جائے۔ اس ہجرت کے کئی محرکات ہو سکتے ہیں جیسا کہ ذریعہ معاش کی تلاش، ملازمت کی ضرورتیں یا کسی مضافاتی علاقے سے نکل کر شہروں میں آباد ہونے کی تمنا۔ ہجرت کا محرک چاہے کچھ بھی ہو مگر اس کا ایک درپردہ فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کے اندر مختلف علاقوں کی ثقافت رچ بس جاتی ہے۔ اور اگر وہ شخصیت تخلیقی ذہنیت کی حامل ہو تو اس کا براہ راست اثر فنونِ لطیفہ پر پڑتا ہے اور وہ فنون لطیفہ کی جس بھی قسم کو اظہار کا ذریعہ بناتا ہے، اس میں مختلف ثقافتی منظر نامے اپنی مخصوص رمزیت کو علامتوں، اشاروں اور کنائیوں میں ڈھال دیتے ہیں۔ میر تقی میر ہو، غالب ہو یا اقبال۔ چیخوف ہو یا اورحان پاموک، عبدالرزاق گرناہ ہو یا قرۃ العین حیدر سب کے ہاں مختلف ثقافتی تجربات جو انہوں نے ہجرت/ سفر کے توسط سے حاصل کیے، ان کی تحریروں میں جابجا نظر آتے ہیں۔
یہ تخلیق کار کی خوش بختی ہوتی ہے کہ اسے ایک cultural ethos سے دوسرے cultural ethos میں جانے کا موقع ملے۔ جب تخلیق کار ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتا ہے تو اس کے اندر کئی نئے سوالات جنم لیتے ہیں اور پھر وہ ان سوالات کے جوابات کھوجنے کی کوشش کرتا ہے۔
یہی معاملہ اصغر ندیم سید کے ساتھ بھی ہے۔ جب وہ ملتان جیسے تاریخی شہر سے لاہور جیسے ادبی شہر پہنچے تو ان کے اندر کئی سوالوں نے جنم لیا اور کئی نئے راستوں نے نئی منزلوں کے پتے دیے۔ ریختہ کے سیگمنٹ روبرو میں انٹرویو دیتے ہوئے اصغر ندیم سید کا کہنا تھا کہ،
”ملتان شہر کا ایک تاریخی حوالہ ہے۔ اور جہاں آپ تاریخ کی جڑوں میں رہتے ہوں تو جڑیں پھر آپ کے ساتھ سفر کرتی ہیں۔“10
یہی سبب تھا کہ جب اصغر ندیم سید نے ڈراموں کی دنیا میں قدم رکھا تو ان کے ڈراموں میں مختلف ثقافتی حرکیات اپنی موجودگی کا پتہ دیتی ہیں۔
لاہور میں اصغر ندیم سید کی پوسٹنگ گورنمنٹ کالج میں ہوئی تو ان کے لیے یقیناً خوش قسمتی کا باعث رہی۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور (موجودہ یونی ورسٹی) میں پچیس سال تدریسی فرائض سر انجام دیے اور اسی دوران وہ گورنمنٹ کالج ڈرامیٹک کلب کے انچارج بھی رہے۔ GNN کو انٹرویو دیتے ہوئے اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ،
”میرا اصل کام پڑھانا ہے۔ میں پچاس سال سے پڑھا رہا ہوں۔ میں نے اس میں پچیس سال گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھایا۔ میری زندگی کا اس سے بڑا خواب کوئی ہو نہیں سکتا کہ میں GCDC کا انچارج رہوں۔“ 11
اصغر ندیم سید کی طبع زاد شاعری کی اولین کتاب بعنوان ”جنگل کے اس پار جنگل“ شائع ہوئی اور وہ اکثر مشاعروں میں شرکت کرتے رہے۔ پاکستان ٹیلی ویژن بھی شاعروں کی میزبانی کیا کرتا تھا اور مشاعرے منعقد کرواتا تھا۔ سرمد صہبائی، جو اس وقت پاکستان ٹیلی ویژن پر سکرپٹ ایڈیٹر تھے، اصغر ندیم سید کو ٹیلی ویژن پر ہونے والے مشاعروں میں شرکت کے لیے بلایا کرتے تھے۔ ایک روز اصغر ندیم سید پاکستان ٹیلی ویژن پر مشاعرہ پڑھ رہے تھے تو کنور آفتاب احمد، جو کہ اس وقت اسٹیشن ڈائریکٹر تھے، نے انہیں اپنے کمرے میں بلایا اور پوچھا کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ جب اصغر ندیم سید نے انہیں بتایا کہ وہ پڑھاتے ہیں تو کنور آفتاب احمد نے کہا کہ اگر آپ کو کہانی کا خاکہ دیا جائے تو کیا آپ سکرپٹ لکھ سکتے ہیں۔ اصغر ندیم سید نے کہا کہ پہلے کبھی سکرپٹ لکھا نہیں مگر کوشش کی جا سکتی ہے۔ یوں کنور آفتاب احمد نے انہیں ایک کہانی کا خاکہ دیا جس کی بنیاد پر اصغر ندیم سید نے سکرپٹ لکھ دیا۔ 1980ء وہ سال تھا جب ضیاء الحق نے پہلی بار حکومتی سطح پر 14 اگست کو یوم آزادی منانے کی اجازت دی تھی۔ Melody Time کو انٹرویو دیتے ہوئے اصغر ندیم سید نے یوں کہا کہ،
”14 اگست کا خصوصی play ”صبح کی دستک“ کنور آفتاب احمد نے پروڈیوس کیا اور یہاں سے میں ڈراموں کی دنیا میں داخل ہو گیا۔“ 12
زمانہ طالب علمی سے ہی اصغر ندیم سید ادبی سرگرمیوں سے وابستہ تھے۔ جب ان کا لاہور تبادلہ ہوا تو ان کا تعلق پاک ٹی ہاؤس سے قائم ہوا۔ یوسف کامران، انیس ناگی، کشور ناہید، افتخار جالب، عطاء الحق قاسمی، سعادت سعید، امجد اسلام امجد اور پاک ٹی ہائوس کے سب ادیبوں بشمول انور سجاد اور انتظار حسین سے دوستیاں بڑھنے لگیں۔ وہ باقاعدگی سے پاک ٹی ہاؤس میں ہونے والے اجلاسوں میں شرکت کرنے لگے۔ 1983-84ء میں وہ حلقہ ارباب ذوق کے سیکرٹری منتخب ہوئے اور اپنے فرائض بخوبی نبھائے۔
اصغر ندیم سید کی پہلی شادی فرزانہ سے 80ء کی دہائی میں ہوئی۔ ان کے بطن سے دو بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوئے۔ اصغر ندیم سید ایک ڈرامے کے سلسلے میں لندن گئے ہوئے تھے کہ پیچھے سے ان کی بیوی کی طبعیت خراب ہوئی اور جب انہیں ہسپتال لے جایا گیا تو ڈاکٹروں کی لاپرواہی کی وجہ سے ان کا انتقال ہو گا۔ یہ اصغر ندیم سید کی زندگی کا بہت بڑا المیہ ہے کہ ان کی عدم موجودگی میں ان کی زندگی کی ساتھی ان سے بچھڑ گئی۔ اصغر ندیم نے دوسری شادی 2000ء میں شیبا عالم سے کی جو کہ کنیئرڈ کالج لاہورکے شعبہ اردو سے وابستہ ہیں۔
اصغر ندیم سید نے مختلف عہدوں پر کام کیا جن میں بورڈ آف اکیڈمی آف لیٹرز کے ممبر رہے، پی ٹی وی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل رہے، قائد اعظم لائبریری کے بورڈ آف گورنرز میں بھی فرائض انجام دیے، نیشنل ہیریٹیج اینڈ آرکیالوجی کے Financial Chairman کا عہدہ بھی سنبھالا، دس سال فلم سنسر بورڈ میں ذمہ داریاں نبھائیں، یو بی ایل لٹریری ایوارڈ، آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس جیوری اور لیکس سٹائل ایوارڈ کی جیوری کے ممبر بھی رہے اور لاہور میوزیم کے ڈائریکٹر کے طور پر بھی کام کیا۔ ریختہ کو انٹرویو دیتے ہوئے میوزیم کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ، ”میوزیم ماضی کا قبرستان نہیں ہے۔ وہ جیتی جاگتی چیزیں ہیں۔ محسوس کرنے کی بات ہے۔“ 13
2000ء کے بعد اصغر ندیم سید نے ڈرامے لکھنے کے بجائے زیادہ توجہ دیگر اصناف پر مرکوز کی اور باقاعدگی سے لکھنے لگے۔ اس حوالے سے جب ریختہ انٹرویو میں ان سے سوال کیا گیا کہ وہ کیا محرکات تھے کہ انہوں نے ڈرامے سے ناول کی طرف آنے کا سوچا اور اب ناول لکھنے میں مصروف ہیں تو اصغر ندیم سید نے کہا کہ،
”میرا بنیادی اظہار وہی ہے جو میں کہنا چاہتا ہوں۔ میڈیم کا فرق ہو سکتا ہے۔ شاعری میں، میں جو ناانصافیوں کے خلاف بات کرتا ہوں، وہی بات میں ناول میں بھی کرتا ہوں، وہی بات لیکچر میں بھی کرتا ہوں۔ میری بات، میری واردات وہی ہے صرف میڈیم کے فرق کے ساتھ۔“14
اصغر ندیم سید کو ان کی خدمات کی بدولت کئی ایوارڈز سے نوازا گیا جن میں صدراتی تمغہ برائے حُسن کارکردگی، پی ٹی وی کی طرف سے دس سال کے بہترین ڈرامہ نگار کا ایوارڈ، این ٹی ایم کی جانب سے پانچ سال کے بہترین ڈرامہ نویس کا ایوارڈ، گریجویٹ ایوارڈ، نگار ایوارڈ اور پہلا لکس سٹائل ایوارڈ شامل ہیں۔
اصغر ندیم سید اب مختلف یونی ورسٹیوں میں فلم پڑھا رہے ہیں اور علمی و ادبی کاموں میں مصروف ہیں۔
اصغر ندیم سید کی زندگی کے بعض گوشوں پر روشنی ڈالنے کے بعد اب ضروری ہے کہ ان کی کتب کا مختصر تعارف پیش کیا جائے۔
زمین زاد کا اُفق
”زمین زاد کا اُفق“ اصغر ندیم سید کی وہ پہلی کتاب ہے جو 70ء کی دہائی کے آخری سالوں میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں دنیا کے ترقی پسند اشتراکی خیالات رکھنے والے شعراء مثلاً پابلو نرودا، ماؤزے تنگ، ہوچی سنہ، ناظم حکمت، بریخت، پتوفی اور چیسلو میلوش وغیرہ کی نظموں کا اردو ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔ جب یہ کتاب شائع ہوئی تو اس کتاب پر ملتان میں ایک نشست رکھی گئی جس میں کشور ناہید اور منو بھائی نے بھی شرکت کی۔ اس کتاب کی تقریب کے حوالے سے اصغر ندیم سید نے اپنی کتاب ”پھرتا ہے فلک برسوں ۲“ میں یوں لکھا ہے کہ ”اس کتاب کی ملتان میں دوستوں نے تقریب رکھ دی۔ اصل میں تو مارشل لاء کے خلاف یہ احتجاج کی ایک معصوم سی کوشش تھی۔ ملتان کے دوستوں نے کشور ناہید، منو بھائی اور مستنصر حسین تارڑ کو دعوت دی کہ ملتان آئیں اور مل کر ہم کتاب کے حوالے سے مارشل لاء کے خلاف دل کی بڑھاس نکالیں۔“ 15 اس کتاب کا تازہ ایڈیشن 2024ء میں سنگ میل پبلی کیشنز لاہور سے شائع ہوا ہے۔
طرزِ احساس
1988ء میں منظرِ عام پر آنے والی کتاب ”طرزِ احساس“ اصغر ندیم سید کے چوبیس مضامین پر مشتمل ایک ایسی کتاب ہے جس میں بیک وقت کہانی کی کتھا، شاعری کی رمزیت، نثری نظم اور نثر میں فرق، معاصر ادبی منظر نامے پر نظر اور ساتھ ساتھ مختلف ادبی و سماجی کرداروں مثلاً منو بھائی، انیس ناگی، منیر نیازی، حبیب جالب اور اصغر ندیم سید کے ماموں وغیرہ سے ملاقات بھی کروائی گئی ہے اور ان کی انفرادیت کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔ اس کے علاؤہ قدرتی مناظر اور انسانی محرومیاں بھی کتاب کے صفحات پر بکھری ملتی ہیں۔ مضمون ”زرد اوڑھنی سے زرد آسمان تک“ میں کشور ناہید کے متعلق یوں لکھتے ہیں کہ ”بعض شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں جن کی تلاش میں نکلیں تو راستے ہی راستے۔ چوراہے اور کئی قسم کے موڑ آتے ہیں۔ بس یہاں خود کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کشور ناہید ایسی شخصیتوں میں سے ہیں۔۔۔ بعض لوگ اپنی ذات میں انجمن ہوتے ہیں۔ کشور کے ساتھ معاملہ الٹ ہے۔ وہ انجمن میں ذات ہے۔ کوئی انجمن اس کے بغیر نہیں سج سکتی۔ اگر سج بھی جاتی ہے تو گونگی رہتی ہے یا زیادہ سے زیادہ تھتھی رہتی ہے۔“ 16
دریا
چولستان کی تہذیب و ثقافت پر لکھا گیا تیرہ اقساط پر مشتمل ڈرامہ ”دریا“ اصغر ندیم سید کا پہلا طبع زاد ڈرامہ ہے، جو پاکستان ٹیلی ویژن لاہور سے آن ائیر ہوا۔ اس کی طباعت 1991ء میں ہوئی۔ جب یہ ڈرامہ آن ائیر ہوا تو اس کی کل پندرہ اقساط تھیں مگر جب اسے کتابی شکل دی گئی تو اقساط کی تعداد کم کرتے ہوئے تیرہ کر دی گئی۔ اس کا انتساب انہوں نے اپنی ماں کے نام کیا ہے۔ اصغر ندیم سید کیونکہ بڑے بیٹے تھے اس لیے ان کی ماں سے انسیت زیادہ تھی۔ اصغر ندیم سید کی چھوٹی چھوٹی شرارتوں کی پشت پناہی بھی ان کی والدہ ہی کیا کرتی تھیں۔ یوں ان کا اپنی والدہ کے نام انتساب، ایک نئی معنویت میں بدل جاتا ہے۔ یہ ڈرامہ دراصل روحی کا المیہ ہے کہ لوگ روحی میں رہتے ہوئے ایک ایک گھونٹ پانی کو ترس جاتے ہیں مگر وہ روحی سے بے وفائی کرتے ہوئے کسی دوسرے علاقے کا رخ نہیں کرتے۔ اس ڈرامے کا کردار سانول ایک جگہ کہتا ہے کہ ”ایک دریا تھا، ہزاروں سال پہلے چولستان کے ساتھ بہتا تھا، کسی بات پہ روٹھ گیا۔ میں نے دریا نہیں دیکھا، دریا کی قبر دیکھی ہے۔“
اصغر ندیم سید نے روحی میں بسنے والے لوگوں کی مجبوریوں اور دکھوں کو خواجہ غلام فرید کی کافیوں کے حوالے سے بیان کیا ہے۔ اس ڈرامے میں جہاں روحی کے باشندوں کے غم و الم کو پیش کیا گیا ہے وہیں ان کی اقدار، روایات اور منفرد ثقافت کو بھی منظرنامے کا حصہ بنایا گیا ہے۔
آدھے چاند کی رات
”آدھے چاند کی رات“ اصغر ندیم سید کا اولین ناولٹ ہے جو پہلی بار 1993ء میں منظرِ عام پر آیا۔ اس کا انتساب اصغر ندیم سید کے بچوں عدیل، ماھم اور مریم کے نام ہے۔ ناولٹ کی کہانی ماہ رخ جو کہ پہاڑی علاقے میں ایک سکول ٹیچر ہے اور فیصل جو کہ اسی علاقے کا اسسٹنٹ کمشنر ہے کی ادھوری محبت کے گرد گھومتی ہے۔ دونوں کی ملاقات اتفاقاً ہوتی ہے اور پھر وہ ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ اس محبت کے کھیل میں ایک اور کردار بھی شامل ہے جس کا نام عامر ہے۔ عامر دراصل ماہ رخ کا طالب علم ہے۔ وہ ہاسٹل میں رہتا ہے کیونکہ اس کے والدین کی ایک دوسرے سے علیحدگی ہو چکی ہے۔ والدین کی محبت کے خلا کو وہ ماہ رخ سے انسیت کی صورت پُر کرنا چاہتا ہے۔ عامر، فیصل کی وجہ سے پریشان ہے کہ جب سے ماہ رخ اس سے ملی ہے وہ عامر کا خیال نہیں رکھتی۔ جبکہ فیصل اپنے باپ کی پابندیوں میں جکڑا ہوا ہے اور ماہ رخ سے شادی نہیں کر سکتا۔ جبکہ ماہ رخ داخلی کرب کو برداشت کرنے اور اپنی شخصیت کو ٹکڑوں کی صورت بکھر جانے سے بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ آخر میں فیصل تمام پابندیوں سے بغاوت کرتے ہوئے ماہ رخ سے شادی کرنے کے ارادے سے اس سے ملتا ہے مگر وہ انکار کرتے ہوئے، عامر کا ہاتھ پکڑے، ہاسٹل چلی جاتی ہے۔ یوں یہ کہانی اختتام کو پہنچتی ہے۔
چاند گرھن
اصغر ندیم سید پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے لکھا کرتے تھے اس لیے وہ جو کہنا چاہتے تھے، وہ کھل کر نہیں کہہ سکتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے لکھے گئے ڈرامے سینسر ہوتے تھے اور جو بات ٹیلی ویژن کی پالیسی کے خلاف ہوتی اسے ڈرامے سے خارج کر دیا جاتا۔ نوے کی دہائی میں پاکستان میں پہلا نجی ٹیلی ویژن چینل NTM شروع ہوا۔ اس چینل پر سے اصغر ندیم سید کا لکھا گیا ڈرامہ ”چاند گرھن“ آن ائیر ہوا۔ کیونکہ یہ نجی چینل تھا اس لیے سینسر کی پابندیاں نہ تھیں۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اصغر ندیم سید نے ریاست کے تین اہم ستونوں سیاست، بیوروکریسی اور صحافت کو اپنا موضوع بنایا اور کھل کر بات کی۔ انہوں نے تکنیک یہ استعمال کی کہ پہلے ان تینوں ستونوں کی شخصیات کو دوستی کے بندھن میں باندھا اور پھر ان کے ذریعے سے سیاہ گوشوں کو اجاگر کروایا۔ یہ ڈرامہ 1995ء میں کتابی صورت میں شائع ہوا۔ اس کا دوسرا ایڈیشن 2013ء میں منظرِ عام پر آیا۔
ادھوری کلیات
”ادھوری کلیات“ اصغر ندیم سید کی نظموں پر مشتمل مجموعہ ہے جو 2014ء میں شائع ہوا۔ اس میں شامل نظموں میں معاشرتی ناہمواریوں، حکومتی قہر، عدالتی جکڑ بندیوں، نوکری کی پابندیوں، ان کہی باتوں، جبری قربانیوں، انسانی المیوں، سماجی اداسیوں اور آدمیت کی محرومیوں کو موضوع بنانے کے ساتھ ساتھ لطیف جذبات جیسا کہ محبت، احساسِ تحفظ، الفت اور خوشی کے درجنوں رنگوں کو پیش کیا گیا ہے۔ اس کے علاؤہ قدرتی مناظر، آفاقی خوبصورتی اور موسمی تبدیلیوں میں پہناں رعنائیوں کو بھی شاعری میں بکھیرا گیا ہے۔
ایک نظم بعنوان ”ماں کے لیے“ ملاحظہ کیجئے کہ،
تُو ایک سیپارہ ہے
جس کے لفظ پرانے معبد کی
خوشحال کائی سے لکھے گئے ہیں
تیرے قدموں کے نیچے جو تصور ہے
اس کی خواہش میں
بندوں نے کیسے کیسے بہروپ لیے ہیں کیسے کیسے گیان پانچ وقتوں میں پالتے پوستے ہیں
تیری آنکھوں کی آماجگاہ میں
میرے خواب بُور آور ہوتے ہیں 17
سید وقار عظیم: شخصیت اور فن
اصغر ندیم سید نے 2007ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے مکمل کی۔ ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ سید وقار عظیم کی ادبی خدمات پر تھا۔ اکادمی ادبیات پاکستان کی درخواست پر انہوں نے اپنے مقالے کو بنیاد بنا کر کتاب ”سید وقار عظیم: شخصیت اور فن“ ترتیب دی جسے اکادمی ادبیات پاکستان کی معمار ادب کی سیریز کے تحت 2017ء میں شائع کیا گیا۔ یہ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے جس میں سید وقار عظیم کی سوانح حیات، تخلیقات، تنقیدی مضامین، تراجم اور ان کی اقبال شناسی کو موضوع بنایا گیا ہے۔
کہانی مجھے ملی
2017ءمیں اصغر ندیم سید کے دس افسانوں پر مشتمل کتاب ”کہانی مجھے ملی“ شائع ہوئی۔ تمام افسانوں کے موضوعات انسانی ادھوری خواہشات، زندگی کے تنگ و تاریک گوشوں، ہجرت کا کرب، تقیسم سے تقیسم ہوئی انسانیت، تقسیم در تقسیم کے کرب سے گزرتے لوگ اور بچھڑی محبتوں کے گرد گھومتے ہیں۔ مگر یہاں محبت دو جوان جسموں کے درمیان ہونے کے بجائے تاریخی سرحدوں سے پھوٹتی نظر آتی ہے۔ اس مجموعے کی دو کہانیاں بڑی اہمیت کی حامل ہیں، پہلی کہانی ”ایک اور ٹوبہ ٹیک سنگھ“ جو کہ سعادت حسن منٹو کے رنگ میں لکھی گئی ہے اور دوسری ”ایک اور شہر افسوس“ اس میں انتظار حسین کے اسلوب کو برتا گیا ہے۔ یہ دونوں کہانیاں دراصل دونوں لیجنڈز کی خدمات کا اعتراف اور ان سے عقیدت کا اظہار ہیں۔ جب کوئی ادیب اپنے سے پہلے والے یا ہم عصر ادیب کا رنگ اپناتے ہوئے کوئی تخلیق کرتا ہے تو یہ دراصل ان ادیبوں کی قبولیت اور ان سے محبت کے اظہار کا نام ہے۔ مجموعی طور پر تمام افسانوں کا موضوع تقیسم ہے چاہے وہ تقسیمِ ہند ہو یا تقسیمِ پاکستان۔ چاہے وہ حویلی کے بیچ کھڑی دیوار ہو یا دو ملکوں کے درمیان کھینچی گئی سرخ خونی لکیر۔ اس کتاب کا ہندی ترجمہ ہندوستان سے شائع ہو چکا ہے۔
دبستان کُھل گیا
اصغر ندیم سید کے مضامین پر مشتمل کتاب ”دبستان کُھل گیا“ 2019ءمیں منظرِ عام پر آئی۔ اس کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے بعنوان ”اپنے افکار کی، اشعار کی دنیا ہے یہی“ کے تحت مختلف ادیبوں کے انفرادی پہلوؤں جیسا کہ پریم چند اور سماجی حقیقت، فیض احمد فیض کی مزاحمتی شاعری اور احمد ندیم قاسمی کے افسانوں میں نچلے کردار، جیلانی کامران اور جدید نظم، سماجی تحریکوں کے اثرات وغیرہ کو احاطہ تحریر میں لایا گیا ہے۔ جبکہ ”صورت گر کچھ خوابوں کے “ کی سرخی کے تحت مختلف ادیبوں اور فنکاروں کی یادداشتیں اور ان سے ملاقاتوں کا بیان ہے۔ ان ادیبوں اور فنکاروں میں قدرت اللہ شہاب، احمد ندیم قاسمی، انور سجاد، انیس ناگی، کشور ناہید، بانو قدسیہ، اشفاق احمد، تبسم کاشمیری، نصرت فتح علی خان، سرمد صہبائی، معین اختر اور ان جیسے کئی دوسرے ادبی سرخیل شامل ہیں۔ اصغر ندیم سید، سرمد صہبائی کے متعلق لکھتے ہوئے یوں آغاز کرتے ہیں کہ،
”اگر میں سرمد صہبائی کی شخصیت پر لکھوں تو پنجاب پریس اینڈ پبلی کیشن ایکٹ حرکت میں آ سکتا ہے۔ اور اگر شاعری کی طرف رجوع کرتا ہوں تو اس میں موجود واردات اور پل بھر کا بہشت کے لمحوں کا کسی حد تک عینی شاہد ہونے کی وجہ سے میرے لیے کچھ مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ تو ایسے میں کیا لکھوں۔ سرمد صہبائی نے مجھے دعوت دے کر خود ہی رسک لے لیا ہے۔ میں کیا کر سکتا ہوں۔“ 18
”ٹوٹی ہوئی طناب اُدھر“
ملتان کی ایک ہزار سالہ تاریخ کے تناظر میں لکھا گیا ناول ”ٹوٹی ہوئی طناب اُدھر“ 2019ء میں شائع ہوا۔ اس ناول کا مرکزی کردار قصہ گو امام بخش ہے جس کی رسائی راجوں مہاراجوں کے درباروں تک بھی ہے اور شاہی حرم تک بھی۔ اصغر ندیم سید نے اس قصہ گو کردار کے ذریعے جاگیرداری نظام کے سیاہ گوشوں کے ساتھ ساتھ جاگیر داروں کی بیویوں کے مسائل تک کو اجاگر کیا ہے۔ یہ ناول دراصل قرۃ العین حیدر کے ناول ”گردشِ رنگِ چمن“ کی طرح مٹتی ہوئی تہذیب اور گم ہوتی بستیوں کا نوحہ ہے۔ ملتان کی تہذیب و ثقافت کو بھی منظرنامے میں شامل کیا گیا ہے۔ حویلیاں کیسی ہوا کرتی تھیں، ان کے رہائشی کیسے لباس اوڑھا کرتے تھے، کیسے کیسے کھانے دن رات پکائے جاتے اور دستر خوانوں پر سجائے جاتے۔ اس ناول کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ملتانی زمین میں درگاہوں، آستانوں کی کیا اہمیت رہی اور اب تک چلی آتی ہے۔ ملتان میں ادبی حوالے سے کیسے کیسے چائے خانے ہوا کرتے تھے جہاں بیٹھ کر لوگ تازہ موضوعات پر بحثیں چھیڑا کرتے تھے۔ ملتان کی گلیاں محرم الحرام کے دنوں میں کیسا منظر پیش کرتی تھیں اور جدید عہد میں ان گلیوں میں کیوں ہو کا عالم طاری رہتا ہے۔ وہ بازار کہاں گم ہو گئے جو عرقیات و مربہ جات خریدنے کا مرکز ہوا کرتے تھے۔ وہ خوبصورت لوگ کہاں کھو گئے جو بازار میں خاندانی وجاہت کے ساتھ آلتی پالتی مار اپنی نشستوں پر براجمان ہوتے تھے۔ چوک کے اطراف کی ساری رونقیں کیوں سوگ میں بدل گئیں۔ یہ سب اور اس طرح کے کئی المیے ناول کے کینوس میں بکھرے پڑے ہیں۔ ناول پڑھنے کے بعد قاری خود کو زمان و مکان سے ماوراء ہزار سالوں کو اپنے اندر سموئے، خاموش کھڑا محسوس کرتا ہے اور محو حیرت کہ اتنی بڑی تبدیلی کیوں کر ممکن ہوئی۔ ناول کا اختتام یوں ہوتا ہے کہ ”قصہ گو خود بھی تو ایک قصہ ہوتا ہے۔ جس کا یقین کرنا ہے کر لو۔ نہیں کرنا نہ کرو۔ ایسا ہی کچھ ہوا امام بخش کے ساتھ۔ ایک تھا امام بخش ہمارا تمہارا امام بخش۔ ایک تھا بادشاہ ہمارا تمہارا خدا بادشاہ۔“ 19
دشتِ امکاں
2021ء میں ”دشتِ امکاں “ منظرِ عام پر آیا۔ یہ اردو ناول کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ ہے جس میں قصہ گو زمان و مکان سے ماوراء ہو کر کسی بھی وقت خود کو کسی بھی زمانے میں کھڑا پاتا ہے اور تاریخ کو اپنی نظروں کے سامنے جنم لیتا دیکھتا ہے۔ اس ناول کی کہانی دو میاں بیوی کرداروں کے گرد گھومتی ہے۔ مرد کردار، جس کا نام آنس ہے، وہ فوت ہو چکا ہے اور کہانی اس کی زندگی کی داستان جو کہ اس کی بیوی بیان کر رہی ہے سے شروع ہوتی ہے۔ مگر جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی ہے ہمیں آنس زندہ نظر آنے لگتا ہے جو اپنی کہانی خود بیان کر رہا ہے۔ آنس نیورو ڈس آرڈر کا شکار ہے جس سبب وہ خود کو زمان و مکان سے ماوراء محسوس کرتا ہے۔ کبھی وہ اس زمانے میں پہنچ جاتا ہے جب وہ لندن کی یونیورسٹیوں میں طالب علم تھا، عشق لڑایا کرتا تھا تو کبھی مؤرخ کے اس روپ میں آ جاتا ہے جس کا کام تاریخی منافقت کو بے نقاب کرنا ہوتا ہے۔ اس کی بیوی بھی آہستہ آہستہ اسی بیماری کا شکار ہونے لگتی ہے اور وہ بھی اپنے شوہر کی طرح اپنی زندگی کے ان سیاہ گوشوں کو سامنے لاتی ہے جو شوہر سے پوشیدہ رہیں تو بہتر ہوتا ہے۔ دوسری طرف آنس بھی اپنی زندگی کے ایسے ایسے راز کھول کے رکھ دیتا ہے کہ اگر وہ تندرست ہوتا تو کبھی اس حوالے سے ایک لفظ بھی نہیں کہہ سکتا تھا۔
اس ناول میں وہ حصے بڑے شاندار ہیں جہاں آنس کے سامنے کبھی فیض احمد فیض تو کبھی ن م راشد آ کر بیٹھ جاتے ہیں، اپنی شاعری اور سماجی بے حسی کو موضوع بناتے ہوئے بڑی جاندار گفتگو کرتے ہیں۔ یہاں یہ نکتہ قابلِ غور ہے کہ آنس کے نام کو اگر کھولا جائے تو وہ اصغر ندیم سید بنتا ہے اور ناول میں کئی جگہ ایسے واقعات موجود ہیں جو خود اصغر ندیم سید پر گزرے۔ اس لیے یہ ناول ایک سطح پر اصغر ندیم سید کی زندگی کی ایک ایسی افسانوی داستان ہے جو آدھے سچ کو مکمل بیان کرتی معلوم ہوتی ہے۔
جہاں آباد کی گلیاں
پاکستان پر مارشل لاء کے دور بڑے بھاری گزرے ہیں۔ ایسے ہی ایک دور کی سیاہ داستان کو احاطہ تحریر میں لاتا ناول ”جہاں آباد کی گلیاں “ ہے۔ یہ ناول 2023ء میں شائع ہوا جس کا پسِ منظر ضیاء الحق کے مارشل لاء کا سخت دور ہے۔ کہانی مرکزی کردار کے گرد گھومتی ہے جو اپنی کہانی اپنی زبانی بیان کرتا ہے۔ مارشل لاء کے دوران جب بھٹو کو پھانسی دی گئی تو اس حوالے سے مرکزی کردار نے ایک نظم لکھی۔ جس کو حکمران برداشت نہ کر پایا اور مرکزی کردار کو رات کی تاریکی میں گھر سے اٹھا کر شاہی قلعے میں بند کر دیا گیا۔ وہاں سے جلاوطن کرتے ہوئے اسے لندن روانہ کر دیا گیا۔ وہاں کی کہانی بیان کرتے ہوئے مرکزی کردار پاکستانی سیاست دانوں کی منافقت کو سامنے لانے کے ساتھ ساتھ دنیا کے مختلف حصوں کے ایسے لوگوں کی کہانیاں منظرِ عام پر لاتا ہے جو غربت کی جبریت کے سبب مجرم بن گئے یا بنا دیے گئے۔ اس ناول میں یہ بھی دیکھایا گیا ہے کہ ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران کیسے پاکستانی مزدوروں کے لیے لندن کے دروازے کھلے اور پھر ان پاکستانی مزدوروں نے کیسے ان پاکستانی عورتوں کا، جنہیں وہ بیوی کے روپ میں لندن لائے تھے، استحصال کیا۔ ناول میں یہ بحث بھی چھیڑی گئی ہے کہ کیسے مارشل لاء نے پاکستان کو لسانی، نسلی، صوبائی اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم در تقسیم کیا۔ مرکزی کردار پاکستان میں بیوی اور ایک نومولود بیٹا چھوڑ کر گیا تھا مگر جب وہ گیارہ سال بعد واپس آیا تو اس کا اپنا ملک اس سے روٹھ چکا تھا، آبائی شہر اجنبی بن چکا تھا اور بیوی بچے سمیت تمام رشتے مارشل لاء کی تاریکی میں کہیں کھو گئے تھے۔
پھرتا ہے فلک برسوں
پھرتا ہے فلک برسوں ۲
خاکہ نگاری ایک مشکل فن ہے وجہ یہ کہ انسان کی تصویر لفظوں میں ایسے اتارنا کہ وہ سر جس کا عکس کھینچا گیا ہے وہ کسی بھی جسم پر نظر آنے کے بجائے، صرف اسی گردن پر نظر آئے جس کو خاکے کا موضوع بنایا گیا ہے۔ اصغر ندیم سید کے خاکوں کی خاصیت یہ ہے کہ وہ لفظی تصویروں کے بجائے چلتی پھرتے کردار پیش کرتے ہیں۔ کبھی نیاز احمد اصغر ندیم سید سے مکالمہ کر رہے ہیں تو کبھی انتظار حسین گفتگو کرتے ملتے ہیں۔ کبھی شہریار سے ملاقات ہو رہی ہے تو کبھی ظہیر کاشمیری، عبداللہ حسین اور احمد فراز منظر نامے پر ابھرتے ہیں۔ کبھی نیّر مسعود سے گپ شپ ہو رہی ہے تو کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ حبیب جالب کسی بات پر روٹھ چکے ہیں اور اصغر ندیم سید انہیں منانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 2022ء میں اصغر ندیم سید کی خاکوں پر مشتمل کتاب ”پھرتا ہے فلک برسوں “ شائع ہوئی۔ اس سیریز کی دوسری جلد ”پھرتا ہے فلک برسوں ۲“ 2024ء میں شائع ہوئی۔ دوسری جلد میں منو بھائی، اشفاق احمد، حمید اختر، ضیاء محی الدین، احمد راہی اور احمد ندیم قاسمی جیسے کئی ہیروں کا عکس اتارا گیا ہے۔ کہیں کوئی لطیفہ سناتا نظر آتا ہے تو کہیں یاروں کی محفل میں قہقہے سنائی دیتے ہیں۔ کہیں کوئی کسی پر جملہ کس رہا ہے تو کوئی اسے جواب سے لاجواب کر رہا ہے۔
”پھرتا ہے فلک برسوں ۲“ میں منو بھائی کے متعلق اصغر ندیم سید لکھتے ہیں کہ ”منو بھائی کو سبھی چھیڑتے تھے کہ تمہاری بیوی آخر تمہیں کیا کہتی ہوگی تو تنگ آکر اس نے ایک دن کہا اچھی طرح سب سنو، وہ پہلے تو مجھے صرف منو بھائی کہتی تھی، اب سمجھتی بھی ہے۔“ 20
ان کتب کے علاؤہ اصغر ندیم سید کے تحقیقی مضامین بھی مختلف رسائل میں شائع ہوئے۔ ان کی شاعری کی کتاب ”جنگل کے اس پار جنگل“ بھی منظر عام پر آ چکی ہے۔ اصغر ندیم سید نے دو کتابیں بعنوان ”دیوانِ غالب نسخہ خواجہ تجزیہ و تحسین“ اور ”نئے زمانے کی برہن“ مرتب بھی کی ہیں۔ ان کی تین کتب، اردو سینما کی تاریخ، خود نوشت اور ایک ناول ”قیدیوں کی مملکت“ زیر طبع ہیں۔
حوالے
(1) انٹرویو: ثمینہ پیر زادہ، ریوائنڈ ود ثمینہ پیر زادہ، یوٹیوب چینل، 22 اگست 2019ء
(2) انٹرویو: ثمینہ پیر زادہ، ریوائنڈ ود ثمینہ پیر زادہ، یوٹیوب چینل، 22 اگست 2019ء
(3) انٹرویو: ثمینہ پیر زادہ، ریوائنڈ ود ثمینہ پیر زادہ، یوٹیوب چینل، 22 اگست 2019ء
(4) انٹرویو: نجم الحسن، میلوڈی ٹائم، سنو ڈیجیٹل یوٹیوب چینل، 31 جنوری 2022ء
(5) انٹرویو: ثمینہ پیر زادہ، ریوائنڈ ود ثمینہ پیر زادہ، یوٹیوب چینل، 22 اگست 2019ء
(6) انٹرویو: نجم الحسن، میلوڈی ٹائم، سنو ڈیجیٹل یوٹیوب چینل، 31 جنوری 2022ء
(7) انٹرویو: محسن بھٹی، جی این این کے سنگ ود اصغر ندیم سید، جی این این یوٹیوب چینل، 21 مئی 2023ء
(8) انٹرویو: ثمینہ پیر زادہ، ریوائنڈ ود ثمینہ پیر زادہ، یوٹیوب چینل، 22 اگست 2019ء
(9) انٹرویو: رحمان فارس، روبرو ود اصغر ندیم سید، ریختہ یوٹیوب چینل، 24 ستمبر 2023ء
(10) انٹرویو: رحمان فارس، روبرو ود اصغر ندیم سید، ریختہ یوٹیوب چینل، 24 ستمبر 2023ء
(11) انٹرویو: محسن بھٹی، جی این این کے سنگ ود اصغر ندیم سید، جی این این یوٹیوب چینل، 21 مئی 2023ء
(12) انٹرویو: نجم الحسن، میلوڈی ٹائم، سنو ڈیجیٹل یوٹیوب چینل، 31 جنوری 2022ء
(13) انٹرویو: رحمان فارس، روبرو ود اصغر ندیم سید، ریختہ یوٹیوب چینل، 24 ستمبر 2023ء
(14) انٹرویو: رحمان فارس، روبرو ود اصغر ندیم سید، ریختہ یوٹیوب چینل، 24 ستمبر 2023ء
(15) اصغر ندیم سید، پھرتا ہے فلک برسوں ۲، لاہور، سنگِ میل پبلی کیشنز، 2024ء، ص، 14
(16) اصغر ندیم سید، طرزِ احساس، لاہور، سنگِ میل پبلی کیشنز، 1988ء، ص، 15-16
(17) اصغر ندیم سید، ادھوری کلیات، لاہور، سنگِ میل پبلی کیشنز، 2014ء، ص 22
(18) اصغر ندیم سید، دبستان کُھل گیا، لاہور، سنگِ میل پبلی کیشنز، 2019ء، ص، 255
(19) اصغر ندیم سید، ”ٹوٹی ہوئی طناب اُدھر“، لاہور، سنگِ میل پبلی کیشنز، 2019ء، ص 216
(20) اصغر ندیم سید، پھرتا ہے فلک برسوں ۲، لاہور، سنگِ میل پبلی کیشنز، 2024ء، ص، 14
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.