Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

عظیم ترقی پسند شاعر: غالب

سجاد ظہیر

عظیم ترقی پسند شاعر: غالب

سجاد ظہیر

MORE BYسجاد ظہیر

    دنیا کے تمام اچھے اور بڑے ادیبوں میں ایک بات مشترک ہے؛ انسان کے ساتھ گہری ہمدردی، اس کے کردار کے مختلف پہلوؤں اور اس کی نفسیات کی پیچیدہ کیفیتوں کو دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت اور زندگی کو لطیف، پاکیزہ اور حسین، ثمر بار اور پر بہار دیکھنے کی تمنا۔ انسان اپنی اور سماجی زندگی کو بر قرار رکھنے اور اپنی خواہشات اور جبلتوں کی تسکین کے لیے طرح طرح کے کام کرتے ہیں اور باہمی رشتے اور تعلقات قائم کرتے ہیں۔

    وہ چیزیں، سامان اور اوزار بناتے ہیں۔ ان کے استعمال، ان کی ملکیت اور ان کی تقسیم کے لیے طرح طرح کے قاعدے اور اصول و ضوابط بناتے ہیں۔ انھیں اصول اور ضوابط سے سماجی ڈھانچے کے کردار کا تعین ہوتا ہے۔ اس ڈھانچے میں فنکار ایک مغنی، ایک مصور، ایک بت تراش، ایک شاعر کی کیا کیا جگہ ہے؟ افلاطون نے تو اپنی مثالی جمہوریہ سے شاعر کو خارج کر دیا تھا، اس لیے کہ افلاطون کے نزدیک وہ کوئی ’’مفید‘‘ کام نہیں کرتا تھا اور اس کی شاعری کی بنیاد مبالغہ اور جھوٹ پرتھی۔ لیکن یونان یا دنیا کے کسی بھی ملک نے افلاطون کی بات نہیں مانی اور فنکار اور شاعر سماج کے اہم ترین اراکین میں شمار کیا جاتا رہا۔

    اور آج ہم دیکھتے ہیں، جب سائنس اور ٹیکنک کی ترقی اور بڑے پیمانے کی مشینی صنعت کے فروغ نے نوع انسانی کو لامحالہ اور نا گریز طور پر اشتراکیت کا سماجی نظام قائم کرنے پر مجبور کر دیا ہے اور انسانی آبادی کا ایک تہائی حصہ اس نظام کے تحت رہ رہا ہے یا اس کی تشکیل میں مشغول ہے، تب خاص طور پر اشتراکی ملکوں میں ادیبوں، فنکاروں اور شاعروں کو ایک بلند مقام اور عام مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ فن کاروں کو اتنی زیادہ مقبولیت اس کے پہلے انسانی تاریخ کے کسی دوسرے دور یا انسانی سماج کی کسی دوسری شکل میں حاصل نہیں تھی۔

    یہ اس لیے ہے، چونکہ انسان اپنی مادی ضرورتوں کی تسکین کے ساتھ ساتھ زندگی کی کثافتوں اور لایعنی کلفتوں کو دور کر کے اپنی روح اور اپنے نفس کا تزکیہ بھی چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے باہمی رشتے، تعاون، محبت اور انسانیت کے احترام کی بنیادوں پر قائم ان کی زندگی پر معنی ہو اور تعمیر کے لیے نئے نئے امکانات ان کے لیے پیدا ہوں اور وہ پیہم حسن اور توازن کے نادر پیمانے قائم کریں اور شرافت اور رفعت کے نئے میدان سرکریں۔ فن کار اور شاعر اول تو اپنی تخلیقات سے ہماری زندگی کو نغمہ سنج اور مترنم بناتے ہیں، وہ ہم میں سرور انبساط کی کیفیتیں پیدا کرتے ہیں۔ دوسرے وہ ہمارے ذہنوں کو ایسی لافانی روشنی سے منور کر دیتے ہیں جو انسانیت کی بلند تر منزلوں کی طرف بڑھنے میں ہماری نشان دہی کرتی ہے۔

    غالب دنیا کے ان چند عظیم ترین فنکاروں میں سے ہے جس کی مقبولیت میں زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ برابر اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ افسوس ناک حقیقت ہے کہ غالب کی زندگی میں اسے وہ بلند مقام اور درجہ نہیں ملا جس کا وہ مستحق تھا۔ ان کے کلام کی شہرت، ان کی جوانی کے ہی زمانے میں آگرہ، دلی نیز شمالی ہندستانی کے تمام شہروں کے اردو حلقوں میں ہو گئی تھی لیکن غالب کی شاعری اپنی ہئیت اور معنی دونوں لحاظ سے، اس کے اپنے عہد کے مروجہ اور پسندیدہ اسلوب سے مختلف تھی۔ اس کے شعر میں نئی معنویت تھی اور اس کے شعر کا حسن نیا حسن تھا۔ اسے سمجھنے اور پسند کرنے اور اس سے لطف اندوز ہونے کے لیے ذہن اور احساس کو نئی سطح پر لانے کی ضرورت تھی اور اس کے لیے وقت درکار تھا۔

    غالب کے زمانے میں شمالی ہندستان کا سماج سخت کرب اور ایذا، انتشار اور اضطراب اور اضمحلال کے حالات میں مبتلا تھا۔ ان حالات میں بیشتر شاعری یا تو وقتی اور سطحی تلذ ذیا پھر بے پایاں مایوسی اور شکست کی کیفیتوں سے بھر گئی تھی۔ غالب کی اپنی نجی زندگی مصائب اور افلاس اور تنگ دستی کی ایک طویل داستان ہے اور دوسری طرف اس روح فرسا احساس کی بھی کہ اس کے فن کی قدردانی اس کے اصلی اور حقیقی مرتبے کے مطابق نہیں ہو رہی ہے۔ لیکن غالب کی عظمت اس بات میں ہے کہ اس نے اپنے عہد کے دوسرے بہت سے شاعروں کی طرح ان کیفیات کو خود پر طاری کر کے اور ان کا شکار ہو کر، شکست اور یخت اور تذلیل نفس کے فلسفہ ٔ حیات کو کبھی نہیں اپنایا۔

    وحدت وجود کے فلسفے سے اس نے حیرت انگیز طور پر نہایت انقلابی اور متحرک تنائج اخذ کیے۔ خیروشر، طرب و غم، حرکت وسکون کو متضاد اور باہم وگر دست وگربیاں دیکھتے ہوئے بھی زندگی اور اس کے تمام مظاہر کو ایک وحدت سمجھتا رہا اور زندگی کے اس ہنگامے میں انسان اس کی نظر میں سب سے زیادہ لائق اور قابل قدر وجود نظر آتا ہے۔ اس نے کہا،

    زما گرم ست ایں ہنگامہ بنگر شور ہستی را

    قیامت می دمداز پردہ خاکی کہ انساں شد

    (زندگی کے زوروشور پر ذرا نظر تو کرو۔ ہماری ہی وجہ سے تو یہ سارا ہنگامہ برپا ہے۔ اس خاکی پردے سے جس کا نام انسان ہے، قیامت کا سا طوفان چمک رہا ہے۔)

    غالب کو یہ انسان اسی لیے محبوب تھا۔ چوں کہ اس کے دل میں جوش وخروش، آرزو اور تمنا، شوق اور امید کی ایک لا زوال تڑپ تھی۔ اور جب وہ رنج و محن اور ناکامی اور نامرادی کے بھنور میں پھنس بھی جاتا تھا، اس وقت بھی وہ یہی کہتا تھا،

    گھر میں کیا تھا کہ ترا غنیم اسے غارت کرتا

    وہ جو اک رکھتے تھے ہم حسرت تعمیر سو ہے

    یہی حسرت تعمیر زندگی کو سنواز نے اور بنانے کی تمنا، جان کی مستقل بے چینی اور روح کا یہی مسلسل اضطراب، غالب کے نزدیک انسان کا سب سے گراں قدر سرمایہ ہے۔ جس دل میں یہ بے چینی اور یہ بےصبری نہیں اور جس روح میں زندگی کو بدلنے کا جذبہ نہیں، وہ غالب کے نزدیک سفلہ اور کم مایہ اور قابل نفرین ہے۔

    حذر از زمہر یر سینہ آسودگاں غالب

    چہ منت ہاکہ دردل نسیت جان نا شکیبارا

    (غالب! آسودہ اور مطمئن لوگوں کے سخت ٹھنڈے دل سے بچو۔ وہ دل اور جان جن میں اضطراب اور بےصبری ہے وہی لائق تحسین ہیں۔ کیسی کیسی نیکیاں اور احسانات ایسے دل و جان میں ہوتے ہیں۔)

    اسی مضمون کو ایک دوسرے شعر میں یوں کہا ہے،

    رشک بر تشنہ تنہا رو وادی د ارم

    نہ بر آسودہ دلان حرم وزمزم شاں

    (مجھے اگر کسی پر رشک آتا ہے تو اس پر جو پہاڑوں کی سنگلاخ وادیوں میں بھوکا پیاسا تنہا سفر کرتا ہے۔ حرم کے ان آسودہ دلوں پر نہیں، جو اپنے آب زمزم کو پی کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔)

    غالب کے مزاج میں طنزوظرافت کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ وہ اپنی محرومیوں پر ہنسنے کی بھی صلاحیت رکھتے تھے۔ اگر انھیں کوئی چیز نا پسند تھی تو سفلگی، سطحیت اور اوچھا پن۔ وہ جدت اپج، ندرت، لطافت اور پاکیزگی کو پسند کرتے تھے۔ زندگی کی سختیوں اور مصیبتوں کا مردانہ وار مقابلہ کرنا ان کے نزدیک انسانیت کی سب سے بڑی پہچان تھی۔ اگر انھیں کو فت ہوتی تھی تو زندگی کی یکسا نیت اور مردہ دلی اور احساسات کے ماند پڑ جانے سے۔ ایک خط میں مزاحیہ انداز میں انھوں نے لکھا ہے،

    ’’جب میں بہشت کا تصور کرتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ اگر مغفرت ہو گئی اور ایک قصر ملا اور ایک حور ملی، اقامت جاودانی ہے اور اسی ایک نیک بخت کے ساتھ زندگانی ہے، اس تصور سے جی گھبراتا ہے اور کلیجہ منھ کو آتا ہے۔ ہے ہے وہ حورا جیرن ہو جائےگی، طبیعت کیوں نہ گھبرائےگی، وہی زمردیں کاخ اور وہی طوبیٰ کی ایک شاخ۔۔۔‘‘

    غالب اپنے اردگرد امرا کی زندگی اور ان کے اطوارد یکھتے ہوں گے، یعنی بے حسی کا ایک عالم۔ انسانیت، ذہانت اور علم کا فقدان اور لطافت اور پاکیزگی سے مبرا خود پرستانہ عیش کو شی، تو انھیں ان سب باتوں سے سخت بیزاری اور نفرت ہوتی ہوگی۔ انھیں ہمیشہ جو ہر اصلی کی تلاش رہتی تھی۔

    نشاط جم طلب از آسماں، نہ شوکت جم

    قدح مباش زیا قوت، بادہ گر عینی ست

    (آسمان سے اس نشاط کی آرزو کرو جو جمشید کو حاصل تھی۔ جمشید کی شان وشوکت کی طلب نہ کرو۔ اس لیے کہ اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ اگر تمہارے پیالے میں انگور کی شراب ہے تو اصل چیز وہ ہے۔ قابل تعریف وہ ہے نہ کہ شراب کا پیالہ، چاہے وہ یا قوت کا ہی کیوں نہ ہو)

    ایک جگہ ایک خط میں بڑے صاف سادہ لفظوں میں غالب نے اپنا ’’عیش‘‘ کا تصور پیش کیا ہے، ’’سنو صاحب! جس شخص کو جس شغل کا ذوق ہو اور وہ اس میں بےتکلف عمر بسر کرے، اسی کا نام عیش ہے۔‘‘

    بے تکلف، اپنے شوق کے مطابق، اپنی مرضی کا کام کرنے کی آزادی، یہ نہ صرف عیش کی صحیح تعریف ہے، انفرادی آزادی کی بھی یہی تعریف ہے لیکن طبقے وار سماج کتنے کم لوگوں کو اس کا موقع دیتا ہے۔ اگر غالب کے سامنے یہ تصور ہوتا کہ ایک ایسے سماج کی تشکیل ممکن ہے، اشتراکی سماج، جس میں ہر فرد بشر کو اس کا موقع ملےگا تو یقینی وہ بڑے جوش و خروش سے اس کی طرف داری اور حمایت کرتے۔ غالب ایک جاگیر داری سماج کے فرد تھے اور خود طبقۂ اشراف سے تعلق رکھتے تھے۔ اس لیے جس بھرپور، متحرک اور ارتقا پذیر حیات کے وہ دلدادہ تھے، وہ اس سماج میں بیشتر حساس انسانوں کے لیے محض ایک سنہرے خواب کی طرح تھی۔ غالب کے دل میں بار بار یہ خواہش ہوئی تھی، بیاکہ قاعدۂ آسماں بگردانیم۔۔۔ (آؤ آسمان نے جو زندگی کا طریقہ مقرر کیا ہے، اسے بدل دیں۔۔۔)

    ان کی تمنا تو یہ تھی کہ ’’قلندری و آزادگی وایثاروکرم‘‘ کے جو جو ہر انسان کو ودیعت ہوئے ہیں، انھیں بہ روئےکار لانے کا اسے پورا موقع بھی فراہم ہو اور انھوں نے بڑی حسرت سے کہا، ’’اگر تمام عالم میں نہ ہو سکے نہ سہی، جس شہر میں رہوں اس شہر میں تو بھوکا ننگا نظر نہ آئے۔ خدا کا مقہور، خلق کا مردود، ناتواں، بیمار، فقیر، نکبت میں گرفتار، میرے اور معاملات کلام و کمال سے قطع نظر کرو، وہ جو کسی کو بھیک مانگتے نہ دیکھ سکے اور خود در بدر بھیک مانگے، وہ میں ہوں۔‘‘

    غالب نے یہ درد ناک خط آج سے تقریباً سو سال پہلے لکھا تھا لیکن اب دنیا کتنی بدل گئی ہے۔ غالب کا کلام ہمارا سب سے بیش بہا روحانی تحفہ ہے اور غالب ہمارا سب سے محبوب شاعر۔ اس کا کمال مسلم، اس کی شہرت روز افزوں اور اس کے دل کی خواہش کہ دنیا میں ’’کوئی بھوکا ننگا نظر نہ آئے۔‘‘ خواب سے حقیقت بنتی جاتی ہے۔ انسان کی بزم میں ’’جوش قدح‘‘ سے چراغاں ہے!

    مأخذ:

    مضامین سجاد ظہیر (Pg. 48)

    • مصنف: سجاد ظہیر
      • ناشر: غلام حسین زیدی
      • سن اشاعت: 1979

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے