Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

عزیز احمد کی افسانہ نگاری!

وارث علوی

عزیز احمد کی افسانہ نگاری!

وارث علوی

MORE BYوارث علوی

    عزیز احمد، احمد علی، محمد حسن عسکری اور ممتاز شیریں ادب کی وہ شخصیات ہیں جن میں اسکالر اور فنکار کے بیچ ایک مسلسل کشمکش رہی اور سوائے احمد علی کے تینوں کی ا سکالر شپ فنکاری پر غالب آئی۔ احمد علی تخلیقی کام کرتے رہے لیکن اردو میں نہیں انگریزی میں۔ جنہوں نے احمد علی کے افسانے پڑھے ہیں وہ جانتے ہیں کہ انہیں دہلوی اردو پر کیسا عبور حاصل تھا۔ ان کی ناول ’’دہلی کی ایک شام‘‘ کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ ان کی بیگم بلقیس جہاں نے کیا ہے اور یہ ترجمہ دلی کی ٹکسالی اردو کا بے مثال نمونہ ہے۔ احمد علی نے اس ترجمے پر نظرثانی کی ہوگی یہ بالکل قرین قیاس ہے۔ احمد علی کی انگریزی چاہے اتنی ہی اچھی سہی لیکن اس میں وہ بات کہاں جو ان کی اردو میں تھی۔ انگریزی ادب میں ان کا مقام کیا ہے مجھے پتہ نہیں لیکن میں سوچتا ہوں کہ اگر انہوں نے اردو کو اپنی کارکردگی کا ذریعہ بنایا ہوتا تو وہ اردو کے بڑے لکھنے والوں میں شمار ہوتے، اب انہیں شکایت ہے کہ اردو والے انہیں یاد نہیں کرتے۔ وہ بھی تو انگریزی کے پیچھے اردو کو بھولے ہوئے تھے۔ ایک توانا درخت بننے کے امکانات اس پودے میں زیادہ ہوتے ہیں جس کی جڑیں اپنی ہی زمین (یا زبان) میں گہری ہوتی ہیں۔

    محمد حسن عسکری میں بھی افسانہ نگاری کا جوہر غیر معمولی تھا لیکن ان کے اندر بیٹھا ہوا نقاد فن کار کو مسلسل مارتا رہا۔ ممتاز شیریں میں افسانہ نگاری کی کوئی غیرمعمولی صلاحیت نہیں تھی لیکن جو کچھ بھی تھی اس سے وہ بہتر کام لے سکتی تھیں اگر وہ پوری تن دہی اور یکسوئی سے افسانہ کی طرف عمر کی اس منزل میں متوجہ ہوتیں جب کہ تخلیقی ذہن ادبی اور تنقیدی افکار و آراء سے نسبتاً غیرآلودہ ہوتا ہے۔ ممتاز شیریں کے افسانوں میں تخیل کی پاکیزگی کی جگہ جو سوفسطائیت، صنعت گری، منصوبہ بندی اور علمی نمائش نظر آتی ہے اس نے تخلیقی بے ساختگی اور تازگی کو کہر آلود کردیتا ہے۔

    عزیز احمد میں ثقافتی مفکر شروع سے ناول نگار کا ہم قدم رہا اور بالآخر وہ ناول نگار پر غالب آگیا۔ انہوں نے اردوکو چند بہت اچھے ناول اور افسانے دیے لیکن ان کے افسانے کیفیت اور کمیت کے اعتبار سے ایسے نہیں ہیں کہ ان کا نام بیدی، منٹو، اور غلام عباس کے ساتھ لیا جائے۔ بے شک ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ناول نگاری کے میدان میں انہیں جو کام کرنا تھا وہ انہوں نے کرلیا اور پھر اسلامی فکر کی تاریخ کے کام پرلگ گئے۔ شاید سوچا ناولیں لکھنے سے بہتر ہے جاندار تحقیقی کام کیا جائے جو انہوں نے کیا۔ کون سا کام کرنا ہے اس کا فیصلہ بہرحال لکھنے والے ہی کو کرنا ہوتا ہے، ہم اس کے فیصلے کے صحیح یا غلط ہونے کا محاکمہ کرنے کی حیثیت میں نہیں ہوتے لیکن تخلیقی کام کرنے والے کے متعلق یہ خلش ہمیشہ دل میں رہتی ہے کہ شاید اس نے اپنی تخلیقی صلاحیت سے پورا انصاف نہیں کیا۔ عزیز احمد میں ناول نگاری اور افسانہ نگاری کی ایسی غیر معمولی صلاحیت تھی کہ انہیں اسی کا ہوکررہنا چاہیے تھا۔ مجھے اکثر خیال گزرتا ہے کہ ان کا آرٹ جب جگر کاوی کی منزل میں داخل ہوا تو انہوں نے اس سے منہ موڑ لیا۔ جگر کاوی سے میرا مطلب وہی ہے جو غالب نے ’’خنجر سے چیر سینہ‘‘ اور ’دل میں چھری چبھو‘‘ کے الفاظ کے ذریعہ ظاہر کیا ہے۔

    خنجر سے چیر سینہ اگر دل نہ ہو دونیم

    دل میں چھری چبھو مژہ گرخون چکاں نہیں

    محمد حسن عسکری نے کسی جگہ مارسل پروست کے حوالے سے کہا ہے کہ تخلیقی فن کا کام اتنا کرب ناک ہے کہ لوگ اس سے گھبراکر قومی جنگوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔ سردست میرا مطلب فلابیر کی راہبانہ ریاضت سے نہیں کیوں کہ عزیز احمد نے اپنی تخلیقات پر عرق ریزی اور ریاضت نہ کی ہو اس گمان کو بھی میں اپنے قریب پھٹکنے دینا نہیں چاہتا۔ جیسی چیزیں انہوں نے لکھی ہیں وہ نہ سرسری ہیں نہ قلم برداشتہ لکھی گئی ہیں۔ ان کے پیچھے بھی جگر خون ہوا ہے۔ لیکن جس جگر کا وی کا میں ذکر کر رہا ہوں اس میں فنکار اس وقت مبتلا ہوتا ہے جب تخلیقی تجربہ اور اس کے اظہار کے پیرائے دونوں اس کی گرفت میں نہیں آتے۔ تجربہ یا تو اس قدر تراجی اور ذہن کو ہڑبڑادینے والا ہوتا ہے کہ فن کار نہ تو اس کی طرف کوئی جذباتی یا فکری یا اخلاقی رویہ قائم کرسکتا ہے نہ اسے اظہار کے ایسے وسائل ہاتھ لگتے ہیں جن میں تجربہ اپنے خط و خال آشکارا کرسکے یہی فنکار کے لیے جاں کنی کے لمحات ہوتے ہیں۔ انہی سے گھبراکر آدمی تاریخ، کلچر، مذہب اور سماجیات میں پناہ ڈھونڈھتا ہے۔

    عزیز احمد کے افسانوں اور ناولوں سے پتہ چلتا ہے کہ جس دنیا کی وہ ترجمانی کر رہے تھے وہ اخلاقی قدروں سے عاری نہیں تھی لیکن آہستہ آہستہ نراج کی طرف بڑھ رہی تھی۔ جن انسانی اور اخلاقی روابط میں عزیز احمد کو دلچسپی تھی وہ بحران کا شکار ہو رہے تھے۔ بس اسی بحرانی لمحے میں جب کہ دنیائے افسانہ کو ان کی سب سے زیادہ ضرورت تھی وہ اس سے نکل کر تاریخ اور ثقافت کی دنیا میں داخل ہوگئے۔

    عزیز احمد بنیادی طور پر مدنی زندگی اور متمدن دنیا میں عورت مرد کے تعلقات کے مفسر اور ترجمان تھے۔ ان کا تاریخی شعور مذاہب عالم میں ان کی دلچسپی، ان کا مغربی ادب کا وسیع اور بسیط مطالعہ اور ان کی فنکارانہ بصیرت اس بات کی متقاضی تھی کہ وہ اس دنیا کی ترجمانی کرتے جو لبرل اور کھلے سماج کے دوراہے پر اخلاقی اور روحانی اقدار کے بحران کا شکار ہو رہی تھی۔ ایک نیا تمدن نئے انسانی مسائل لے کر پیدا ہو رہا تھا۔ اسے اپنا فنکار چاہیے تھا جو عزیز احمد میں پنہاں تھا۔ یہ فنکار ظاہر نہ ہوسکا۔ اسکالر عزیز احمد نے اسے پیدا ہونے کے کرب سے بچالیا۔ یہ خود عزیز احمد اور اردو ادب کے لیے گھاٹے کا سودا تھا۔ کیوں کہ اسکالر تو کوئی بھی یونیورسٹی پیدا کرسکتی ہے جب کہ فنکار کے جنم کا کاروبار ابھی تک قدرت نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے۔ قدرت کی بخشی ہوئی تخلیقی اور تخیلی طاقت کے زیاں کی تلافی علوم کے جواہرات کی کان بھی نہیں کرسکتی۔

    بے شک جس قسم کی نفیس اور شائستہ زندگی انہیں اپنی اسلامی اسکالرشپ کے سبب انگلینڈ، امریکہ اور کینیڈا میں ملی، شاید وہ اردو میں ناول نگاری سے انہیں حاصل نہ ہوتی۔ لیکن اپنی تخلیقی صلاحیت کو ہر نوع کی دست وبرد اور ترغیبات سے بچانے میں فنکار کی کسوٹی یہی ہے۔ یکسوئی سے تخلیق فن کی جو مثالیں مغرب کے ادیبوں میں ملتی ہیں وہ ہمارے یہاں کم ہیں۔ حالات ہی کچھ ایسے تھے کہ بے شمار باصلاحیت اردو کے ا دیب صرف ادب کے ہوکر نہ رہ سکے اور گویہ لوگ دولت اور شہرت کے اعلیٰ ترین مقامات پر پہنچے لیکن اپنی صلاحیتوں کی قیمت پر۔ قدرت تخلیقی ذہن وافر پیمانے پر پیدا نہیں کرتی اور جو پیدا ہوجاتا ہے اس کا تحفظ اگر خود فنکار اور معاشرہ نہیں کرسکتا تو یہ تہذیب کا ایسا زیاں ہے جس کی کمی کسی دوسرے ذہن سے نہیں ہوتی۔ اس کی عبرت ناک مثال پطرس ہیں۔ وہ سفارت کے اعلیٰ ترین عہدے پرمامور رہے، نفیس ترین زندگی گزاری، سیاسی حکمت عملی میں نام پیدا کیا، اپنے وقت کے زبردست مقرر قرار پائے۔ انگریزی میں ایسی تقریریں کیں کہ چاردانگ عالم میں دھوم مچ گئی۔ لیکن اندرسے وہ کتنے تنہا، کتنے خالی خالی اور ویران تھے، اس کا روح فرسا منظر اس سوانحی خاکے میں دیکھنے کو ملتا ہے جو عبدالحمید اعظمی نے سہ ماہی ’’ادبیات‘‘ پاکستان میں لکھا ہے۔ پطرس کی عظمت کا سورج ان کی زندگی کے ساتھ غروب ہوگیا۔ میرابک شیلف ان تمام بیش بہا کتابوں سے خالی ہے جو ان کے بے مثال قلم سے ادب، ثقافت، تاریخ، تنقید اور ظرافت کے موضوعات پر لکھی جاسکتی تھیں۔ دنیا میں سیکڑوں سفیر اور وزیر آئے، لیڈر اور ڈکٹیٹر آئے اور دنیا کو خراب سے خراب کرکے چلے گئے۔ سیاست اور سفارت کے جوہڑ میں گرکر پطرس نے بھی وہی کیا جو دوسرے کرتے تھے۔ ممکن ہے اپنے ملک کے لیے انہوں نے اچھا کام کیا ہو لیکن کسی کے بھی اچھے کاموں سے ملک اور قومیں سنبھلتی کہاں ہیں۔ جس یو این او کے لیے انہوں نے اپنا خون پسینہ ایک کیا اس سے دنیا میں کتنا امن قائم ہوا؟ اتنی محنت وہ چند کتابوں پر کرتے تو شاید زلف گیتی کے سنورنے کے امکانات زیادہ پیدا ہوتے۔

    وہ کتابوں کے آدمی تھے اور کتابوں سے رغبت انہیں اخیر دم تک رہی۔ نیویارک ٹائمز کا نمایندہ جو ان کاانٹرویو لینے گیا اس نے لکھا۔ ’’کمرے میں جگہ جگہ کتابیں بکھری ہوئی ہیں کہیں ایک، کہیں دو چار، کہیں ڈھیر کی ڈھیر۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قحط الرجال کی وجہ سے پاکستان کو ایک بلند پایہ عالم سفارت کی بھول بھلیاں میں لاکر چھوڑنا پڑا۔‘‘

    جب ڈاکٹر افصل اقبال نے اسپین کے دورہ کے موقع پر پطرس سے یہ سوال پوچھا کہ اب وہ لکھتے کیوں نہیں تو پہلے تو وہ خاموش رہے لیکن تھوڑی دیر بعد کہا کہ میں ’’بانجھ‘‘ ہوچکا ہوں۔ میں اب کچھ نہیں لکھ سکتا، پاکستان میں صرف دو قسم کی کتابوں کی مانگ ہے۔ اسلام اور کوک شاستر۔ میں ان پر لکھنے سے قاصر ہوں۔

    اتنے ذہین آدمی کی زبان سے یہ کتنی افسوس ناک بات نکلی ہے۔ بانجھ ہونے کی بات سے ہمدردی ہوسکتی ہے لیکن پاکستانی ادب کی رفتار پطرس کے خاموش ہونے سے رکی نہیں۔ انتظار حسین بھی پیدا ہوئے اور مشتاق احمد یوسفی بھی۔ وقت کی مانند ادب کا دھارا بھی کسی کے لیے رکتا نہیں۔ اسی لئے ہر ادیب کو چوکنا رہناپڑتا ہے ورنہ غفلت کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ وہ لوگ جو بلند جبینی کے زیر اثر اپنی زبان یا اپنے ملک کے ادب سے عدم توجہی برتتے ہیں ان کی تنبیہہ کے لیے عزیز احمد کا یہ اقتباس کافی ہے۔

    ’’بدقسمتی یہ ہے کہ یونیورسٹیوں کے پروفیسر اردو ادب او رخصوصاً جدید اردو ادب کے بے بضاعتی سے کچھ اتنے مطمئن ہیں اور اس زمانے میں اتنے زیادہ مطمئن تھے کہ کوئی نئی چیز پڑھنا بہت ہی ’’لوبرو‘‘ قسم کا مشغلہ سمجھتے تھے۔ اسی دھوکے میں میں نے بھی اس وقت تک اردو کے ان نئے ادیبوں کی چیزیں نہیں پڑھی تھیں لیکن جب میں ادب لطیف کا یہ سالنامہ ختم کرچکا تو مجھے کچھ یہ احساس ہوا کہ میں اونگھتا ہی رہ گیا اور زندگی میرے قریب سے ہوکر گزر گئی اور مجھے پیچھے چھوڑگئی۔‘‘

    عزیز احمد کو ان کے ہم عصر افسانہ نگاروں میں رکھ کر دیکھیں تو تقابل کے دلچسپ پہلو سامنے آتے ہیں، وہ منٹو، عصمت اور بیدی جتنے خلاق نظر نہیں آتے۔ وہ ان کی صف کے افسانہ نگار نہیں ہیں۔ وجہ صاف ہے کہ زندگی کی نبض پر ان کی گرفت اتنی مضبوط نہیں ہے جتنی کہ اردو کے ان تین افسانہ نگاروں کی تھی۔ یہ تینوں افسانہ نگار زندگی کی ہر دھڑکن کو محسوس کرتے تھے۔ اس کے کرب، اس کی الم ناکی، اس کی ارزانی اور اس کی رائیگانی کا انہیں ایسا شعور تھا جو کسی اور افسانہ نگار کے حصے میں نہیں آیا۔ ان افسانہ نگاروں کے کردار پہلو دار اور گہرے ہیں، واقعات میں بے ساختہ پن اور سہجتا کے ساتھ ساتھ نفسیاتی گہرائی اور ڈرامائی شدت ہے اور جزئیات نگاری اور فضا بندی میں وہ حقیقت نگاری کے عروج کو پہنچتے ہیں۔ عزیز احمد کا صرف ایک افسانہ اس معیار پر پورا ترتا ہے اور وہ ہے ’’تصورشیخ‘‘ ۔ دراصل ’’تصور شیخ‘‘ افسانہ نگاری کی صحیح راہ پر ان کا پہلا قدم تھا۔ افسوس یہ ہے کہ یہی ان کا آخری قدم بھی ثابت ہوا۔ وہ اس راہ پر چلتے تو شاید منٹو، بیدی اور عصمت نگار کی صف میں جگہ بنالیتے۔

    اگر کسی دوافسانہ نگاروں کے ساتھ عزیز احمد کی مشابہت ہے تو وہ کرشن چندر اور قرۃ العین حیدر ہیں۔ حالاں کہ دونوں کے مقابلے میں عزیز احمد کا اسلوب زیادہ کرارا اور ٹھوس تھا اور افسانوی طریقۂ کار بھی رومانی کی بجائے حقیقت پسندانہ تھا۔ کرشن چندر کی کردار نگاری کمزور ہے۔ ان کے کرداروں میں کوئی نفسیاتی گہرائیاں، جذباتی پیچیدگیاں اور فطرتِ انسانی کی پراسرار گتھیاں نہیں۔ لگ بھگ یہی عالم عزیز احمد کے افسانوی کرداروں کا ہے۔ انہوں نے بھی کوئی یادگار کردار اردو ادب کو نہیں دیا۔ بے شک وہ اپنے افرادِ افسانہ کی نقش گری گہرے رنگوں سے کرتے ہیں۔ انہیں دلچسپ بناتے ہیں، ایک دوسرے سے منفرد اور انہیں ایک دوسرے سے ممیز بھی کرتے ہیں لیکن وہ انہیں کوئی ایسی گہرائی اور پیچیدگی کا حامل نہیں بناتے جو کردار کو نفسیاتی تجزیہ یا فلسفیانہ تفکر کا مستحق بنائے۔ قرۃ العین حیدر کے کردار چونکہ ایک مخصوص تہذیبی سرزمین سے پھوٹتے ہیں اس لیے ان میں زمین کی بوباس زیادہ ہے اور ان کی نفسیاتی گہرائی کی کمی کو ان کی سماجی اور تہذیبی پہلو دار ی پوری کرتی ہے۔

    جہاں تک بورژاژی سوسائٹی کا تعلق ہے۔ کرشن چندر اور عزیز احمد کا رویہ اسے بے دردی سے بے نقاب کرنے کاہے۔ دونوں اپنے طنز میں کامیاب ہیں۔ دونوں کا رویہ ترقی پسندانہ ہے۔ بمبئی کے دھناسیٹھوں کا کیریکٹربنانے میں دونوں کو یدِطولیٰ حاصل ہے۔ عزیز احمد بھی جب سندھی خواجہ یا میمن سیٹھ کا خاکہ اڑانے بیٹھتے ہیں تو کرشن چند کی طرح اپنے قلم کو روک نہیں لگاتے۔ اس بات کا خیال نہیں کرتے کہ یہ سیٹھ لوگ عامیانہ اور بازاری بن جاتے ہیں۔ ان کے برعکس جب قرۃ العین حیدر نودولیتوں کو بے نقاب کرتی ہیں تو عصمت چغتائی کی طرح سماجی اور نفسیاتی حقیقت نگاری کا خیال رکھتی ہیں۔ اسی لیے ان کے افسانوں میں طنز ہے لیکن ان کے افسانے طنزیہ خاکے نہیں بنتے جیسا کہ عموماً کرشن چندر کے یہاں زیادہ تر اور عزیز احمد کے یہاں کم و بیش ہوجاتا ہے۔

    نودولتیوں کی طرف عزیز احمد، کرشن چند، قرۃ العین حیدر اور عصمت چغتائی کا رویہ عموماً نفرت و حقارت کا ہے۔ بیدی اور منٹو نے ان میں دلچسپی ہی نہیں لی۔ جاگیردارانہ اشرافیہ کی طرف عزیز احمد کا رویہ خالص ترقی پسندانہ ہے۔ وہ ان کے معاشی، سماجی اور اخلاقی زوال کی بے لاگ عکاسی کرتے ہیں۔ اس دائرے میں وہ عصمت چغتائی کی مانند سفاک حقیقت نگار بن جاتے ہیں۔ لیکن عزیز احمد کو کرشن چندر اور عصمت کی مانند عوام میں یا بیدی اور منٹو کی طرح عام آدمی میں دلچسپی نہیں۔ بطور ترقی پسند کے وہ مستقبل کی لگام عوام کے ہاتھوں میں دیتے ہیں لیکن اشاروں اور کنایوں میں۔ افسانوی کرداروں کی صورت میں نہیں۔ متوسط طبقہ ان کے ناولوں میں تو دکھائی دیتا ہے لیکن افسانوں میں نظر نہیں آتا۔ زوال پذیر جاگیردار طبقہ اور معاشی جکڑبندیوں میں جکڑا ہوا متوسط طبقہ اور دولت مندی کی عیاشیوں میں گھری ہوئی بورژوا کلاس ان تینوں طبقوں سے وہ بیزار تھے۔ قوم اور معاشرے کی نجات انہیں آزادی، جمہورت، اشتراکیت، مذہبی روشن خیالی، عقلیت، سائنس اور مغربی تہذیب کی لائی ہوئی برکتوں میں نظر آتی تھی۔ انگلینڈ اور یورپ کے سفر نے ان کے ذہن پر نہایت مثبت اثرات ڈالے تھے۔ ان کے ایک طویل افسانے ’’تیری دلبری کا بھرم‘‘ کا عنوان ہی اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ان کے دل میں انگلستان کے لیے دلبری کا احساس تھا۔ اس خوبصورت افسانے میں جنگ کے بعد کا انگلستان وہ نہیں رہا تھا جو عزیز احمد نے جنگ سے قبل دیکھا تھا۔ لندن میں ہندوستانیوں کی زندگی دیکھ کر ان کا بھرم ٹوٹتا ہے۔

    اس زمانے کے بہت سے لوگوں کے مانند عزیز احمد کا ذہن بھی بڑی حدتک ANGLICISED تھا۔ مغرب سے یہ فریفتگی عزیز احمد اور ن، م، راشد میں خاص طور پر نمایاں ہے۔ ان کے مقابلے میں منٹو، بیدی، عصمت اور کرشن چندر کے لیے اپنا دیس ہی سب کچھ ہے۔ ان کے یہاں مشرق و مغرب کی وہ کشمکش بالکل نہیں جو شاعر مشرق کا راشد اور عزیز احمد کو ورثہ ہے۔ بالآخر راشد اور عزیز احمد مغرب ہی میں بس گئے اور انہیں مغرب کاطرز معاشرت راس آگیا۔

    عزیز احمد کے افسانوں میں جو ایک نوع کااکھڑاپن ہے اس کا سبب یہی ہے کہ مشرق کی تہذیبی اور اخلاقی اقدار اور طرزِ حیات میں وہ دلچسپی گنوا بیٹھے تھے۔ ان کا ذہن مغربی تھا اور وہ ایک حقیقت پسند آدمی تھے جو قرۃ العین حیدر اور انتظار حسین کی طرح تہذیبی نوسٹالجیا اور ماضی میں جینا نہیں چاہتا تھا۔ نہ وہ ان کی طرح تہذیبی زوال کاافسانہ لکھنا پسندکرتے تھے۔ ان کی جنس پرستی، حسن پرستی اور ولولۂ حیات ان میں قرۃ العین حیدر اور انتظار حسین کی مانند قنوطیت اور کلبیت کے عناصر پیدا ہونے نہیں دیتے تھے۔ عزیز احمد اپنی ناولوں اور افسانوں بلکہ تاریخی افسانوں تک میں حقیقت پسند رہے جب کہ ہم جانتے ہیں کہ حقیقت نگاری نہ قرۃ العین حیدر کو راس آئی نہ انتظار حسین کو۔

    اس پس منظر میں عزیز احمد چاہے ہندوستان میں ہوں یا مغرب میں ایک سیاح نظر آتے ہیں۔ ’’گریز‘‘ یورپ کے سفر کی، ’’آگ‘‘ کشمیر کے سفر کی اور بیشتر افسانے فرانس، جرمن، اطالیہ، بمبئی اور دلی کے سفرکے مشاہدات پر مبنی ہیں۔ نہ کہانی، نہ نقطۂ نظر، نہ کردار۔ بلکہ مشاہدات ہی ان کے افسانوں کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ عزیز احمد کے یہاں المیہ احساس کی بڑی کمی ہے۔ اس کا سبب بھی یہی ’’ٹک دیکھا اور چل دیے‘‘ والا رویہ ہے۔ سیاح زندگی کے طربیہ میں شامل ہوتا ہے المیہ میں نہیں۔ عزیز احمد میں ایک نفیس حس مزاح اور گہرے طنز کی غیرمعمولی صلاحیت ہے جو ان کے مشاہدات کو ’’زندگی کے تماشے‘‘ کا روپ دیتی ہے۔ عزیز احمد کے افسانوی کرداروں میں کوئی انفرادیت نہیں۔ زیادہ تر کردار تو خود افسانہ نگار کا عکس ہیں جو کبھی آزاد اور کبھی عقیل اور کبھی اور کسی نام سے رونماہوتے ہیں۔ ان کرداروں کا پروٹوٹائپ وہ مرد ہے جو عورت کا شکاری ہے۔ شکار گاہ ظاہر ہے مغرب زدہ فیشنیبل سوسائٹی ہے جس میں عورت مرد کے جنگل میں پھنسنے کے لیے آزاد ہوئی ہے۔ بوریت کی حد تک عزیز احمد کے افسانوں میں مرد عورت کا پیچھا کرتے ہیں۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ رومانی افسانوں ہی کی مانند جنسی آوارہ گردی کے افسانے بھی بالآخر قاری کو تھکادیتے ہیں۔

    اگر دیکھاجائے تو عزیز احمد اردو کے واحد افسانہ نگار ہیں جن کے اعصاب پر عورت سوار ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ان کے یہاں سماجی حقیقت نگاری کا دائرہ محدود ہوگیا ہے۔ وہ سماج کے مختلف طبقات اور پیشوں سے تعلق رکھنے والے رنگارنگ کردار پیش نہیں کرسکتے۔ اعلیٰ طبقہ کے کرداروں میں انہیں دلچسپی ہے لیکن اس طبقہ سے انہیں کوئی ہمدردی نہیں۔ وہ طنز کرسکتے ہیں، لیکن ان کے دکھ درد میں شریک نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا بورژواژیوں کے مسائل ایسی نفسیاتی الجھنوں تک محدود رہتے ہیں جن میں خود افسانہ نگار کو دلچسپی نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عزیز احمد کے یہاں اکھڑے پن کے ساتھ ساتھ اکہراپن بھی پیداہوجاتا ہے۔

    ہم عموماً ترقی پسندوں کے ادب کو صحافیانہ کہتے ہیں لیکن صحافت محض سیاسی نہیں ہوتی۔ ثقافتی بھی ہوتی ہے جو فیشنیبل سوسائٹی کی سماجی اور تہذیبی سرگرمیوں کے ساتھ ان کے اسکینڈلز کی گرماگرم خبریں سوشل راونڈ اپ کے عنوان کے تحت بیان کرتی ہے ’’اور بستی نہیں‘‘ کا تانا بانا تو دو صحافیوں کی رپورٹنگ ہی سے بنایا گیا ہے، لیکن ’’سستا پیسہ‘‘ ’’زرخرید‘‘ اور ’’بیکار دن بیکار راتیں‘‘ جو عزیز احمد کے بہت کامیاب افسانے ہیں، ان میں سے بھی اگر کہانی کا باریک دھاگا نکال لیاجائے تو تمام واقعات ثقافتی صحافت کی شفاف سطح پر ٹوٹے ہوئے ہار کے چمکدار موتیوں کی طرح بکھر جائیں گے۔ آج کل جو یہ بات کہی جاتی ہے کہ کہانی نہیں بلکہ واقعہ افسانہ کی اساس ہے، یہی بات عزیز احمد اپنے مضمون ’’افسانہ افسانہ‘‘ مطبوعہ ’’سویرا‘‘ لاہور میں کہہ چکے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں ’’افسانہ میں جو چیز اہم ہے، جو اس کی جان ہے اور جو کسی تکنک کی پابند نہیں، وہ واقعہ محض واقعہ ہے‘‘ اس بیان کے ذریعہ عزیز احمد ای ایم فارسٹر کے اس نظریہ سے انحراف کرتے ہیں جس کی رو سے افسانہ میں واقعات اسباب و علل کے رشتہ سے بندھ کر پلاٹ کا روپ اختیار کرتے ہیں۔

    عزیز احمد کے یہاں پلاٹ سے بیزاری کے نشانات ’’ہوس‘‘ اور ’’مرمروخون‘‘ کے بعد نظر آتے ہیں۔ عزیز احمد کی یہ ابتدائی دونوں ناولیں جنہیں اپنا کہتے ہوئے خود عزیز احمد کو شرم آتی تھی، دراصل پلاٹ اور بہت ہی خراب پلاٹ کی ناولیں تھیں۔ خیالی ناول عموماً کردار کے نہیں بلکہ پلاٹ ہی کے ناول ہوتے ہیں کیوں کہ ناول نگار کی خیال کی دنیا میں قصہ یا کہانی کو انہونی یا ناممکنات یا ناقابل یقین کی سرحدوں میں داخل ہونے سے روکنے والی وہ نفسیاتی، اخلاقی یا سماجی مزاحمتیں نہیں ہوتیں جو حقیقت پسند ناول میں ہوتی ہیں۔ اس بات کا خود عزیز احمد کو احساس تھا۔ چنان چہ وہ لکھتے ہیں۔ ’’مرمر و خون‘‘ کے تمام کردار بدقسمتی سے محض احتیاطاً یا رسمی طور پر نہیں بلکہ واقعی طور پر فرضی اور پروردۂ تخیل ہیں۔ دراصل ’’مرمروخون‘‘ جمال پسندی کے اثرات کے تحت لکھا گیا ہے اور زیادہ ترجمال پسند ناولیں خیالی ہی ہوتی ہیں۔ اس نظر سے دیکھیں تو قرۃ العین حیدر کے پہلے افسانوی مجموعہ ’’ستاروں سے آگے‘‘ کے افسانے خیالی نہیں ہیں کیوں کہ سجاد حیدر یلدرم کی بیٹی ہونے کے باوجود وہ جمال پسند نہیں رہیں بلکہ شروع سے نیم حقیقت پسند اور نیم رومانی رہی تھیں جو اپنی ابتدا میں خود منٹو، بیدی، اور کرشن چندر بھی تھے۔ صرف عصمت اپنے پہلے افسانے ہی سے کھری اور بے لاگ حقیقت نگار تھیں۔ عزیز احمد کے یہاں خیال کی دنیا سے حقیقت کی دنیا میں قدم رکھنے کا مطلب تھا پلاٹ سے پیچھا چھڑانا اور واقعہ نگاری پر ناول کی ساخت کی تعمیر کرنا۔ اس اجتہاد کا آغاز ’’گریز‘‘ سے ہوتا ہے اور ان کے افسانے بھی ایسے واقعات پر مبنی ہیں جن سے کہانی کا نہایت باریک دھاگا بناگیا ہے۔

    اس طرح عزیز احمد پلاٹ سے انحراف میں جدید افسانہ کے پیشرو نظر آتے ہیں۔ اور بھی بہت سی باتوں میں عزیز احمد نے اپنے تجربات اور اجتہادات کے ذریعہ جدید افسانہ کے لیے راہیں کشادہ کی ہیں، مثلاً ’’مدن سینا اورصدیاں‘‘ کے ذریعہ داستانوی اسلوب کا احیاء ’’آبِ حیات‘‘ کے ذریعہ اسطوری افسانہ کی طرف پیش قدمی، ’’زرین تاج‘‘ کے ذریعہ خواب اور فنٹاسی کا امتزاج وغیرہ وغیرہ۔ یہاں پھر ان کے ہاں کرشن چندر سے زیادہ مماثلت نظر آتی ہے، پلاٹ سے رستگاری انہیں نت نئے تجربات کے دائرے میں لے جاتی ہے۔ ان تجربات سے بڑا افسانہ جنم نہیں لیتا لیکن تخلیق کی نئی راہیں کشادہ ہوتی ہیں۔ بڑے افسانے گو بہرحال بیدی، منٹو اور عصمت ہی نے لکھے جنہوں نے کہانی ہی نہیں بلکہ پلاٹ کابھی ڈسپلن قبول کیا۔ ان کے افسانے افسانے ہی رہتے ہیں جب کہ عزیزاحمد کے افسانے تاریخ، سفرنامہ، آپ بیتی اور رپورتاژ کی یاد دلاتے ہیں۔ عزیز احمد سفرنامہ اور رپورتاژ پر ہی نہیں بلکہ تاریخ پر بھی افسانے کا فارم مسلط نہیں کرسکے۔ کہانی کا باریک دھاگا اور ایک دو پرچھائیوں جیسے کردار ان تمام واقعات کو منسلک کرنے کی طاقت نہیں رکھتے جن کی ان کے افسانوں میں بھرمار ہے۔

    اس کا مطلت یہ نہیں کہ ان واقعات میں دلچسپی کا کوئی عنصر نہیں۔ پیرس کی صبح، لندن کی دوپہر، ’’رومۃ الکبریٰ کی شام‘‘، بمبئی کی راتیں، دہلی کے رات اور دن، جگمگاتی ہوٹلیں، شاندار کوٹھیاں، پررونق کلب، آثارِ قدیمہ، راجے مہاراجے، کروڑپتی سیٹھ، حسین و جمیل عورتیں، اور خوب رو نوجوانوں کی نظربازیاں اور دست درازیاں کیسے خالی از دلچسپی ہوسکتی ہیں؟ سچ بات تو یہ ہے کہ قاری اس جگمگاتی دنیا کی نظارگی میں ایسا کھو جاتا ہے کہ اسے یہ احساس بھی نہیں رہتا کہ اس چمک دمک کے علاوہ افسانہ میں کوئی او ربات بھی ہے۔ عموماً تو کوئی بات نہیں ہوتی لیکن گردوپیش کی دنیا کی یہ سیر بینی اپنی ایک قدر رکھتی ہے۔

    مشاہدات اور واقعات کے بیان کو جو چیز دلچسپ بناتی ہے وہ ہے بیانیہ میں ایک پڑھے لکھے، تیز اور طرار نکتہ سنج اور نکتہ آفریں ذہن کی کارفرمائیاں۔ عزیز احمد کے یہاں علم کی نکتہ آفرنیاں تخیل کی حسن آفرینیوں کا نعم البدل بنتی ہیں۔ ان کے افسانوں اور ناولوں کو آلڈس یکسلے کے ناولوں کی مانند NOVELS OF ERUDITION یا عالمانہ ناول اور افسانے کہہ سکتے ہیں۔ تاریخ، فلسفہ، تصوف اور مشرق و مغرب کے شعر و ادب میں رچابسا ذہن ہی خدنگ جستہ، زریں تاج اور تصور شیخ جیسے افسانے لکھ سکتا ہے، اس ذہن کی کارفرمائیوں نے ان کے دوم درجہ کے افسانوں کو بھی جن میں صحافتی مواد تخیل کو مغلوب کیے رہتا ہے، ایک پڑھے لکھے اور ذہین قاری کے لیے مطالعہ کا دلچسپ موضوع بنادیا ہے، گو ایک عام قاری شاذ ہی ان کی عالمانہ ثقالت کو برداشت کرپاتا ہے۔ ’’رومتہ الکبریٰ کی ایک شام‘‘ کا مواد صحافحانہ اور بیان عالمانہ ہے اور دونوں ایک عام قاری کی دلچسپی بیدار کرنے میں ناکام رہتے ہیں جب کہ ایک ذہین قاری کے لیے صحافتی مواد کی بے کیفی کی تلافی عالمانہ بیانیہ سے ہوجاتی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ گو عزیز احمد کے پاس اول درجہ کے تخلیقی تخیل کی کمی تھی لیکن وہ اتنے چابک دست فنکار تھے کہ ان کے یہاں دوم درجے کی چیز بھی پہلی نظر میں اول درجے کی ہی نظر آتی تھی۔

    مشاہدات اور واقعہ نگاری نے باہم مل کر عزیز احمد کے ا فسانوں میں بیسویں صدی کے اس جدید صنعتی شہر کو ابھارا ہے جو دو عالم گیر جنگوں کے درمیان روئے زمین پر ایک نئی تمدنی زندگی کی سوغات لیے ہوئے آتا ہے۔ اس معنی میں بھی عزیز احمد کا افسانہ جدید افسانہ ہے کہ وہ شہر کاافسانہ ہے۔ جس طرح شاعری میں ہمارے یہاں جدید شہر کا عکس اس طرح نہیں ابھرا جیسا کہ بادلیئر اور ایلیٹ کی شاعری میں ابھرا ہے، اسی طرح افسانوں اور ناولوں میں بھی بڑا شہر نظر نہیں آتا۔ پریم چند، علی عباس حسینی، احمد علی، بیدی، کرشن چندر، عصمت، احمد ندیم قاسمی، غلام عباس، بلونت سنگھ سب کے یہاں اردو افسانہ دیہات اور قصباتی شہر سے باہر نہیں نکل سکا۔ ’’سستا پیسہ‘‘ ’’زرخرید‘‘ ’’بیکار دن بیکار راتیں‘‘ میں پہلی بار اردو افسانہ ایک میٹرو پولین شہر میں داخل ہوتا ہے جو اپنے کشادہ راستوں، رفیع الشان عمارتوں اور جگمگاتے قمقوں کے ذریعے ایک ایسا منظر پیش کرتا ہے جو انسانی تمدنی کی تاریخ میں کہیں نظر نہیں آتاکیوں کہ جدید شہر دراصل بجلی اور ٹیکنالوجی کے ایسے کرشموں کی نشان دہی کرتا ہے جو صنعتی انقلاب سے قبل دکھائی نہیں دیتے۔ خاطرِ نشان رہے کہ شہروں کے پس منظر میں کہانیاں تو خاصی تعداد میں لکھی جاتی ہیں اور کہانیوں میں شہروں کی جھلکیاں بھی دکھانی پڑتی ہیں لیکن یہ تو عزیز احمد یا منٹو جیسا کوئی ایک فن کار ہوتا ہے جس میں شہر کی روح سمٹ آتی ہے۔

    بے شک عزیز احمد اور منٹو دونوں کے یہاں بمبئی کی جیتی جاگتی تصویریں ملتی ہیں، بمبئی ایک کے یہاں پررونق اور دوسرے کے یہاں کم رونق ہے۔ لیکن اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ منٹو بمبئی کا تاریک یا گھناؤنا رخ پیش کرتا ہے۔ بائی کلاء، ناگ پاڑہ، بمبئی کے علاقے ہیں جن کی اپنی فضائیں تھیں۔ فلیٹ، چالیاں، کھولیاں، گھوڑوں کے طبیلے، کھیل کے میدان، یہودیوں، عیسائیوں، پارسیوں، مسلمانوں، عربوں، مرہٹوں، یوپی والوں کی مشترک آبادی، چرچ، مسجد، اردو اخبار، تانگے والے، دودھ والے، سینما گھر، طوائفیں، ایرانی ہوٹلیں، منٹو اس بمبئی کا بے مثال مصور ہے، یہ بمبئی نہ عصمت کے یہاں ہے، نہ کرشن چند نہ بیدی نہ خواجہ احمد عباس کے یہاں۔ میں تو کہوں گا مرہٹی اورگجراتی افسانوں میں بھی بمبئی کی ایسی تاثراتی تصویریں نہیں ملتی جیسی کہ منٹو کے یہاں نظرآتی ہیں۔

    عزیز احمد نے لندن، روم، پیرس اور دہلی کے پس منظر میں افسانے لکھے ہیں لیکن ان کے افسانوں میں کوئی شہر اتنا پررونق اور خوبصورت نہیں جتنا کہ بمبئی ہے۔ عزیز احمد کے افسانوں میں بمبئی واقعی بقعۂ نور ہے ’’رات کے ہاتھو ں میں دن کی موہنی تصویر ہے‘‘ ۔ ہیروں کے ہار پہنے ہوئے عروس البلاد کی باہوں میں ولنگڈن کلب، تاج محل ہوٹل، سی سی آئی اور ریس کورس کی شاہراہوں پر رنگ برنگ کی کاریں دوڑتی نظر آتی ہیں۔ یہ راجاوں مہاراجوں، سرمایہ داروں، جوہریوں، فلم پروڈیوسروں، میمن اور خوجہ سیٹھوں کی بمبئی ہے۔ اس پر رونق شہر اور اس کی فیشینبل سوسائٹی کے عزیز احمد تماش بیں، نکتہ چیں اور فوٹو گرافر تھے۔ وہ جانتے تھے کہ کیمرہ کس پر فوکس کرنا چاہیے، کس کی گدزتی ہوئی جھلک کو گرفت میں لینا چاہیے اور کون سے زاویوں سے شہر کی کون سی تصویریں لینی چاہیے۔ بمبئی کی تصویر کشی میں عزیز احمد کا سیاحانہ رویہ اور کیمرہ دونوں کام کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ناول اور افسانہ دیہاتوں اور چھوٹے شہروں میں پھلتا پھولتا ہے۔ آج کے بڑے شہروں کو لفظوں میں نہیں بلکہ سلولائڈ پر ہی قید کیا جاسکتا ہے اور عزیز احمد کے گلے میں کیمرہ تھا اور ان کے پاس صحافی کی واقعہ نگاری کا آرٹ تھا ایک بڑے شہر کے جلال و جمال کاتجربہ فی نفسہ بڑا ہوش ربا تجربہ ہے۔ غیرشعوری طور پر عزیز احمد اس تجربہ کو قلم بند کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

    بڑے شہروں کاحسن ایک کارنیول کا سماں پیش کرتا ہے۔ عورت اپنی تمام آرائشوں کے ساتھ اس کارنیول کا حسن بڑھاتی ہے اور بے چہرہ بھیڑ میں نظریں اسی کی طرف کھینچتی ہیں۔ بڑے شہروں کی یہ دلربا مخلوق عزیز احمد کا پسندیدہ موضوع ہے۔ وہ ایک نہیں سینکڑوں عورتوں کابیان کرتے چلے جاتے ہیں اور نوجوان لڑکیوں سے لے کر ڈھلتی عمر کی عورتوں کے خط و خال، چال ڈھال، بناؤسنگھار، کپڑوں، زیوروں اور اداؤں کاان کا علم لامحدود ہے۔ وہ نہ صرف دعوتِ حسن دیتے ہیں بلکہ اپنے افسانوں میں حسن لٹاتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں لندن پیرس، روم، بمبئی، دہلی، مسوری کی پررونق شاہراہوں، ہوٹلوں، کلبوں اور دوکانوں میں بھانت بھانت کی سجی سجائی فیشنیبل عورتوں کی بہار ہے۔ بہار اسی وقت تک بہار ہے جب تک وہ رواں اورگرزاں ہے اور افسانہ نگار بھی گلوں کے اس قافلہ کے ساتھ رواں ہے۔ یہ روانی ایک ایسی گردش بن جاتی ہے اور زندگی ایسی گھمیریاں لیتی ہے کہ سوچنے کا وقت کم ملتا ہے۔ مسائل آتے ہیں۔ الجھنیں پیدا ہوتی ہیں، حسن کی ارزانی کے غم ناک لمحے بھی آتے ہیں لیکن ہر چیز گذشتنی ہے اور افسانہ نگار بھی بڑے شہر کے کارنیول کو ایک سیاح کی نظر سے دیکھتا گزر جاتا ہے۔

    قرۃ العین حیدر نے عزیز احمد پراپنے دلچسپ مضمون مطبوعہ رسالہ ’’اظہار‘‘ میں کہاتھا کہ عزیز احمد کے افسانوں میں عورت ایک جنسی موضوع SEXUAL OBJECT سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ بے شک ان کے افسانوں کا پہلا تاثر یہی ہے لیکن یہ پوری سچائی نہیں۔ پوری سچائی جس کا تفصیلی ذکر آگے آئے گا یہ ہے کہ مرد کی بوالہوسی کی فضا میں یہ عورت ہی ہے جو محبت کرتی ہے اور محبت کرنے پر مجبور ہے۔ عورت کے جنسی معروض ہونے کا تاثر اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ عزیز احمد کے پیشتر افسانوں میں مرد عورت کے تعاقب میں ہے۔ ’’زرخرید‘‘ ’’بیکار دن بیکار راتیں‘‘ اور سستا پیسہ‘‘ میں یہ مرد خوش باش اور عیش طلب نوجوان ہے۔ ایسے نوجوانوں سے ہم منٹو کے افسانوں میں بھی روشناس ہوتے ہیں جو حیدرآباد یا دوسرے شہروں سے اپنی جوانی کی راتوں کو رنگین بنانے کے لیے بمبئی آتے ہیں۔ یہ نوجوان اور ان کے متذکرہ بالا افسانے دونوں بے ضرر ہیں۔ لیکن ’’اور بستی نہیں‘‘ میں جنوب کے دو جرنلسٹ الف خان اور ب خان عورتوں کے تعاقب میں دہلی آتے ہیں اور پورا افسانہ ان کے تعاقب کی رپورٹنگ سے تشکیل پاتا ہے، اس افسانہ میں شکاری مرد کے لیے عورت کی آسان وسعت یا بی پورے دہلی شہر کو ایک قحبہ خانہ بنادیتی ہے جو بہت ہی ناگوار گزرتا ہے، اوباشیت رنگین مزاجی پر غالب آتی ہے اور صحافتی ریورٹنگ ادبی بیانات کو مغلوب کرتی ہے اور طنز نگار سرنگوں ہوجاتا ہے، باوجود اس کے اس افسانہ میں جستہ جستہ میں تحریر ظاہر ہوتاہے، یہ افسانہ ازدار ہے اور اس میں دہلی کا ثقافتی حسن بھی نمودار نہیں ہوا جس میں عزیز احمد کو بطور ثقافتی مورخ دلچسپی تھی، کسی بھی شہر کے مقامی رنگ کو پیش کرنے کا عزیز احمد کو بھی ا تنا ہی شوق ہے جتنا کہ قرۃ العین حیدر کولیکن اس افسانہ میں دہلی کی پوری فضا مٹیالی اور دل کو بٹھادینے والی ہے۔

    ممکن ہے اس مرحلہ پر آپ کہیں کہ عزیز احمد تاریخی شہروں کی بجائے جدید شہروں کی عکاسی بہتر طور پر کرسکتے ہیں جیسا کہ ان کے افسانوں میں بمبئی کی عکاسی سے ظاہر ہوتا ہے، لیکن ’’رومتہ الکبری کی ایک شام‘‘ میں انہوں نے روم کے فن تعمیر کے مطالعہ کے ذریعہ اس کی اچھی فضا بندی کی ہے گویہ بیان کچھ ذرا زیادہ ہی اکاڈمک اور کتابی ہونے کے سبب ثقیل ہوگیا ہے۔ سوادِ رومتہ الکبری، دہلی، آلِ سیزر، موسولینی، ابی سینا اور اقبال آپس میں اس طرح گتھے ہوئے ہیں کہ ان جیسا اقبال کاپرستار روم پر لکھتے ہوئے ادبی اور تاریخی حوالوں سے پہلو نہیں بچا سکتا تھا۔ اس افسانہ میں عزیز احمد اقبال کی موسولینی کی تعریف کو ان کی زندگی کا ایک کمزور لمحہ گردانتے ہیں۔ یہ افسانہ اس سبب سے بھی قابل قدر ہے کہہ اس میں فاشزم کی طرف ایک روشن خیال اور استہزائی رویہ کی تشکیل کا اچھا بیان ہوا۔

    اپنے ناول ’’ہوس‘‘ کے تیسرے ایڈیشن ۱۹۵۱ء میں عزیز احمد نے ’’بدترانہ گناہ‘‘ کے عنوان سے ایک دلچسپ مضمون لکھا ہے، اس میں ایک جگہ وہ لکھتے ہیں۔‘‘

    ’’اس زمانے میں مجھے ناولوں کے پڑھنے کا شوق بھی بہت تھا۔ اور خصوصیت سے میں ترگنیف، درماخرد، آلفرے دموسے اور ایسے دوسرے انیسویں صدی کے روسی اور فرانسیسی رومان نگاروں سے متاثر تھا جو محبت کے جذبہ کو اس طرح بیان کرتے ہیں گویا وہ ایک طرح کا ’’جبر‘‘ ہے اور افراد خصوصاً عورتوں کے اختیار سے باہر۔ ایسی عشقیہ یا جنسی جبر کے جراثیم آپ کو اس نیم پختہ ناول ’’ہوس‘‘ میں نظرآئیں گے۔‘‘

    عزیز احمد کے یہاں محبت کا یہ جبران کے تمام افسانوں پر حاوی رہا۔ ان کی سرزمین افسانہ کا مرکز ثقل مرد نہیں عورت ہے۔ ان کے یہاں مرد کا تو ایک ہی روپ ہے جو عورت کا شکاری ہے لیکن عورتوں کے بے شمار روپ ہیں جو محبت کے جبر کے تصور کو پیش کرتی ہیں۔ عزیز احمد کے یہاں نفسیات پر فلسفہ اور سوشیولوجی غالب ہے۔ وہ جنسی نفسیات کے نہیں بلکہ فلسفۂ محبت کے افسانہ نگار ہیں جو ان کی ابتدائی جمال پسندی کی ترقی یافتہ شکل ہے۔

    عورت عزیز احمد کے افسانوں کے مرد کرداروں کے لیے بھلے جنسی معروض رہی ہو لیکن خود عزیز احمد کے لیے وہ جنسی معروض سے کچھ زیادہ ہی تھی۔ وہ اس کی انسانی حیثیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ وہ اس کی آزادی اور ذہنی نشوونما کے قائل ہیں۔ لیکن عزیز احمد کے یہاں عورت کی مامتا کا کوئی تصور نہیں۔ اپنی کامل ترین شکل میں وہ مجسمہ حسن ہے جس میں ظاہری حسن کے ساتھ ساتھ ایک باطنی اور ذہنی تکمیل بھی ہے۔ انہیں ذہنی طور پر پس ماندہ، غلام، اور دوسروں کی دست نگر عورت میں دلچسپی نہیں۔ عشق بازیاں عزیز احمد کے یہاں عام ہیں کیوں کہ ان کے افسانے اس مرد کا تجربہ بیان کرتے ہیں جس نے یورپ کا سفر اس وقت کیاتھا جب کہ یہ سفر بہت عام نہیں تھا۔ یورپ میں اور بمبئی کی فیشنیبل سوسائٹی میں مرد کے سامنے پہلی بار وہ عورت آئی تھی جو سماجی اور جنسی طور پر آزاد تھی اور اسی لیے مرد کا آسان شکار تھی۔

    شکار اور شکاری کا بیان عزیز احمد کے یہاں اتنے وسیع پیمانہ پر ہے کہ بادی النظر میں ان کے افسانے جنسی تعاقب اور مہم سازی کے افسانے ہی معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن ذرا غور کرنے پر ہم دیکھ سکتے ہیں کہ جنس کی اس گرم بازاری میں وہ عورت کی نفسیات اور سماجیات سے کیسا گہرا دانشورانہ لگاؤ رکھتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ عزیز احمد عورت میں محبت کے جبر ہی کو نہیں بلکہ محبت جو مختلف روپ اختیار کرتی ہے اس کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں۔ ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ عزیز احمد کے یہاں معاشقے بڑے شہروں میں اور بڑے تاریخی واقعات کے پس منظر میں جنم لیتے ہیں۔ وہ ریاست، ملک قوم اور معاشرے کو بھول کر بات نہیں کرتے کیوں کہ وہ ’’ہوس‘‘ اور ’’مرمروخون‘‘ کی غلطی کو دہرا کر خیالی معاشقے قلم بند کرنا نہیں چاہتے۔ ان کا عورت کی نفسیات اور جنسیت کا مطالعہ بہت محدود ہے لیکن وہ سیمون دی بووارسے بہت مماثلت رکھتا ہے کیونکہ دونوں سماجی حوالوں سے بات کرتے ہیں۔ یہ چیز عزیز احمد کو FEMINIST ہونے سے بچاتی ہے اور کبھی کبھی یہ احساس بھی دیتی ہے کہ عورت کی طرف ان کا رویہ ہمدردانہ کم اور مردانہ زیادہ ہے۔ وہ سیمون دی بووار ہی کی طرح عورت کی نادانیوں کی سرزنش کرتے ہیں۔ ’’اور بستی نہیں‘‘ میں ایک فلرٹ لڑکی دل آرا کو الف خان (یاب خان) تھپڑ مار کر کہتا ہے۔

    ’’جب سچی محبت ہو تو دوسری بات ہے، ورنہ دوسری جنسی ہوس میں ٹھوکریں کھانا عورت کے لیے بہت مہلک ہے۔ بیماریاں، حمل، بدنامی، موت، جو انجام نہ ہو تھوڑا ہے۔ اور جب سچی محبت ہو تو یہ بھی سوچ لینا چاہیے کہ مرد اس قابل بھی ہے یا نہیں اور اگر وہ اس قابل نہیں تو پھر ہر چیز کی طرح محبت کا بھی مقابلہ کرنا چاہیے۔ محبت کو بھی شکست دینی چاہیے، اس میں فرد کی فتح اور اجتماعی کی بھلائی ہے۔ دیکھ دل آراء سامنے التمش کا مقبرہ۔ یہ رضیہ کا باپ تھا۔ رضیہ ہر چیز کو فتح کرسکی، محبت کو شکست نہ دے سکی۔ اس کی قدریں چاند بی بی اور اہلیا بائی کے مقابلہ میں گھٹیا تھیں اور وہ زندگی کا کھیل ہارگئی۔‘‘

    حزم اور احتیاط کایہ سبق عزیز احمدمختلف افسانوں میں پڑھاتے نظر آتے ہیں۔ مثلاً ان کاافسانہ ’’خطرناک پگڈنڈی‘‘ لیجیے۔ اس کا زمانہ دوسری جنگ عظیم سے قبل کا ہے اور پس منظر فرانس۔ افسانہ کے ہیرو مسٹر آزاد ۱۹۳۷ء میں پیرس کی نمائش دیکھنے آئے ہیں اور ان کی ملاقات جنوبی فرانس کی ایک لڑکی سے ہوتی ہے جس کے ساتھ نمائش دیکھتے دیکھتے خطرناک پگڈنڈی کی طرف مڑجاتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ لڑکی سے دوبارہ ملاقات ہو لیکن وعدے کے باوجود لڑکی ان سے نہیں ملتی۔ ایک خط میں وہ بتاتی ہے کہ اسے آزاد سے محبت ہوگئی ہے اور اسے ڈر ہے کہ مزید ملاقاتوں ے بعد آزاد بھی اس کے دام محبت میں گرفتار ہوجائے گا اور وہ یہ نہیں چاہتی۔ اسے اپنے منگیتر سے جو اسی کے ملک کا ہے محبت نہیں لیکن وہ اس سے شادی کرے گی کہ اسی میں عافیت ہے۔ اس افسانہ میں الف خان کی نصیحت پر عمل ہے کہ محبت کو بھی شکست دینی چاہیے۔

    اب آئیے ان کا افسانہ ’’جادو کا پہاڑ‘‘ دیکھیں جو ’’خطرناک پگڈنڈی‘‘ سے بدرجہا بہتر اور دلچسپ ہے گو یہ بھی ایسا نہیں کہ دنوں تک یاد رہے۔ یہ ان افسانوں میں سے ہے جو انسان کی چھوٹی موٹی غلطیوں اور حماقتوں پر تعمیر کیے جاتے ہیں۔ زندگی کی گاڑی ذرا کنٹرول سے باہر جاتی ہے اور پھر راہ راست پر آجاتی ہے۔ افسانہ کاپس منظر مسوری ہے جہاں اس زمانے میں پہاڑ کے جادو پرفیشنیبل سوسائٹی کاجادو غالب رہتا تھا۔ یہاں کملا اپنے شوہر شیام اور اپنی انگلواینڈین سہلی گریس کے ساتھ سیر کے لیے آتی ہے۔ کملا کو اپنے شوہر اور سہیلی پر پورا بھروسہ ہے جو اس کی بے قوفی ہے۔ پہاڑ چڑھتے ہوئے گریس کار میں شیام کے پہلو میں بیٹھتی ہے اور کملا ترچھی نظروں سے دونوں کے پیروں کاکھیل دیکھتی ہے۔ پہاڑ پہنچنے پر وہ شیام اور کملا کو اکیلے سینما دیکھنے بھیج دیتی ہے اور پھر وہ خود ان کا پیچھا کرتی ہے۔ تھیٹر میں دونوں کو بوس و کنار کرتے دیکھ کرا نتقاماً وہ ایک سردار جی کو اپنے جسم سے چھیڑچھاڑ کی اجازت دیتی ہے اور پھر پھوٹ پھوٹ کر روتی ہے۔ بہرحال مسئلے کا حل اتنا مشکل نہیں ہے۔ مسوری سے واپسی پر وہ کارمیں شیام اور گریس کے بیچ بیٹھتی ہے۔ چڑھائی کے وقت کی حماقت وہ اتار کے وقت نہیں دہراتی۔

    ’’مدن سینا اور صدیاں‘‘ میں ا سطوری زمانوں، تاریخی عہد اور دورِجدید کی چند کہانیوں کے ذریعہ وہ جنسی انارکی میں روشنی کی کرن اسی حزم و احتیاط میں دیکھتے ہیں جب کہ ایک مرد اور ایک عورت ترغیبات سے بھری تنہائی میں اکیلے ہوتے ہیں لیکن ایک دوسرے کی شخصیت کا خیال کرکے احتیاط برتتے ہیں۔ یہ آخری کہانی ای ایم فارسٹر کے اس تصور کو پیش کرتی ہے کہ دورِجدید میں جب رشتے نباہنا مشکل ہے دوستی اور رفاقت کے جذبہ کی نگہداشت اور تکریم ضروری ہے ’’مدن سینا اور صدیاں‘‘ میں عزیز احمد تاریخ پر افسانہ کو مسلط نہیں کرپاتے ہیں اور افسانہ نہ صرف تاریخی دستاویزیت کا بلکہ ادق تحقیقی مواد کی ثقالت کا شکار ہوجاتا ہے۔ مختلف زبانوں کے ادب میں ایک ہی اسطور کے نفوذیا اس کے مماثل اساطیر کا یہ مطالعہ افسانہ کے فارم میں نہیں سماتا۔ اس طویل افسانہ کی آخری کہانی اسطوری افسانہ کے ساتھ کوئی مماثلت بھی نہیں رکھتی۔

    افسانہ کو تاریخ پر مسلط کرنے سے میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ تاریخ میں داستان کا لطف پیدا نہیں ہوتا۔ یہ مطلب تو ہے ہی لیکن ساتھ ہی یہ اشارہ بھی ہے کہ کوئی THEME ابھر کر سامنے نہیں آتی۔ جب کہ ’’آنکھیں آہن پوش ہوئیں‘‘ عزیز احمد کاتیمور پر دلچسپ طویل افسانہ ہے۔ یہاں تاریخ افسانہ کے قالب میں اچھی طرح سماگئی ہے۔ لیکن کوئی معنی خیز تھیم ابھر کر نہیں آتی سوائے اس کے کہ بدن کے ساتھ ساتھ جب آنکھیں بھی آہن پوش ہوجائیں تو کھوپڑیوں کے مینار لگ جاتے ہیں۔ جس عہد اور قبیلہ کی یہ تاریخ ہے اس کی یہ بربریت اور حیوانیت کے بیان کے لیے عزیز احمد کو فلابیر کے ناول سلامبو کی مثال سامنے رکھنی چاہیے تھی۔

    خدنگ جستہ ان کا سب سے اچھا تاریخی افسانہ ہے۔ اس افسانہ کی داد وہ لوگ بہتر طور پردے سکتے ہیں جن کا تاریخی افسانوں کا ذوق مجھ سے زیادہ شائستہ ہے، یہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ عزیز احمد کے یہاں المیہ احساس کی کمی ہے۔ ان کے افسانے CATASTROPHY میں داخل ہوئے بغیر ہی اچھی کشمکش کو DISSOLVE کردیتے ہیں۔ احساس کی وہ شدت جو بیدی، منٹو اور عصمت کے یہاں نظر آتی ہے عزیز احمد میں نہیں ملتی۔ ان کے پاس وہ نظر تو ہے جو گردوپیش کی دنیا کو دیکھتی ہے لیکن وہ نظر (سوائے ایک دو افسانوں کے) کہیں دکھائی نہیں دیتی جو دل وجود کو چیر کر زندگی، فطرت اور انسان کا راز پاتی ہے۔

    عزیز احمد چاہے مرد اور عورت کی برابری کے قائل ہوں یا نہ ہوں عورت کی غلامی کو برداشت نہیں کرتے تھے۔ وہ لکھتے ہیں :

    ’’دوست اور عشاق ایک دوسرے کی تابعداری کرتے ہیں۔ محبت ایک فریق کے استبداد اور دوسرے کی غلامی کو برداشت نہیں کرسکتی۔ جب استبداد آتا ہے تو عشق کا دیوتا اپنے پر پھڑپھڑاتا ہے اور یہ جا وہ جا رخصت۔ ہرچیز کی طرح محبت کی روح بھی آزاد ہے، فطرتاً عورتیں بھی غلامی نہیں آزادی چاہتی ہیں۔۔۔ (اقبال نے زمرد کے گلوبند کی ایک ہی کہی۔۔۔ اور مرد بھی)

    (مدن سینا اور صدیاں)

    زمرد کے گلوبند کی بات چھڑی ہے تو ذرا یہ بھی دیکھیے کہ عزیز احمد کو اعلیٰ طبقہ میں عورتوں کی قحبگی کے سوال میں کتنی دلچسپی تھی۔ ’’زرخرید‘‘ میں امجد شیریں کے متعلق کہتا ہے۔ ’’لیکن وہ کسی اچھے لڑکے سے شادی کیوں نہیں کرلیتی۔ اس طرح کسی کی رنڈی بن کر رہنے میں وہ عزت تو محسوس نہیں کرتی ہوگی اس قحبگی کاایک سبب جواہرات کی چمک ہے۔‘‘ اسی افسانہ کا ایک کردار نذیر کہتا ہے۔ اکثر شریف لڑکیاں جواہرات اور بنارسی ساڑیوں کی وجہ سے جوہریوں اور بینوں کے ہاتھ گرو ی ہوجاتی ہیں۔‘‘ ایک اور اقتباس دیکھیے :

    ’’نئی دہلی میں ایک قسم ان عورتوں کی ہے جن کے میاں ان کو اپنے وطن یعنی باہر قصبات سے ساتھ لائے ہیں۔ وہ ابھی دہلی کی زندگی کی عادی نہیں ہوئی ہیں۔ میاں کی تنخواہ ڈیڑھ سو یا دوسو ہوتی ہے۔ جب میاں دفتر کو جاتے ہیں تو یہ عورتیں جن کی نظریں نئی دہلی کی چمک سے خیرہ ہیں خرید و فروخت کرتی پھرتی ہیں اور کبھی کبھی ان کی اپنی خریدوفروخت بھی ہوجاتی ہے۔‘‘

    (’’اور بستی نہیں‘‘ )

    ایک اور اقتباس دیکھیے،

    ’’یہ فلاں صاحب کی بیوی ہیں جو دفترمیں کلرک ہیں۔ چارسوتنحواہ ہے۔ مگر وہ صاحب آخر کیسے خاندان کے ہیں، میں نے پوچھا کیوں؟ تو کہنے لگے۔ یہ ان کی بیوی ہر ماہ سینکڑوں کا سامان خرید کرتی ہیں اور ان کا بل عجیب عجیب مشتبہ قسم کے لوگ آکے ادا کرتے ہیں۔‘‘

    (اور بستی نہیں)

    یہ افسانہ کے نقاب میں چوکھی سوشیولوجی ہے اور اسی نے افسانے کو غارت کیا ہے۔ جن مسائل کو عزیز احمد تجریدی خیال کی صورت میں پیش کرتے ہیں اگر وہ کرداروں کی صورت پیش کیے جاتے تو جدید دور کی سینکڑوں مادام بواریوں کی کہانیاں وجود میں آتیں، کیوں کہ ماس میڈیا اور خصوصاً ٹیلی ویژن کے ذریعہ جس طرح نوجوان لڑکیوں میں سامانِ آرائش، حسین و جمیل رومانی زندگی اور چیزوں کے خریدنے کاخبط پیدا کیا جارہا ہے اس کی طرف اشارے ان تنقیدوں میں ملتے ہیں جو مادام بواری پر لکھی گئی ہیں۔ رومانی خواب آفرینی اور زندگی کے تلخ حقائق کے تصادم سے زندگیاں کیسی تباہ ہوتی ہیں ان کے بیان کے لیے فلابیر ہی کے مانند کردار کی ناولیں لکھنی پڑتی ہیں اور عزیز احمد کے افسانوی کردار نرے صحافتی اور سطحی ہیں۔ وہ کسی نفسیاتی تھیم کی تجسیم کی طاقت نہیں رکھتے۔ اسی لیے سماجی مسائل افکار و آراء کی شکل میں نظر آتے ہیں۔

    زمرد کا گلوبند، چاندی کا طوق، نتھنی، اور پاؤں کے کڑے محض زیورات نہیں بلکہ عورت کی غلامی کی علامات بھی ہیں۔ نرگیست سے مغلوب عورت انہیں آرائش کے لیے پہنتی ہے لیکن گلوبند، طوق اور نتھ میں جو مردانہ آقائیت کے معنی پنہاں ہیں انہیں سمجھ نہیں پاتی۔ اطلس و کمخواب کی پوشاک اور زروسیم کے زیوروں میں لدی عورت اپنی نرگیست، اپنی حرص اور اپنے بدن میں قید ہے۔ عزیز احمد کے ایک افسانہ میں کوئی کردار پنجاب کی لڑکیوں کی تعریف کرتا ہے جو نئے نئے فیشن کے شلوار قمیض اور لہراتے دوپٹے میں سائیکل پر سوار کالج یا آفس کی طرف جاتی نظر آتی ہیں۔ گاؤتکیہ سے لگے ریشم کے ڈھیر کے مقابلہ میں لڑکیوں کا یہ چھریرا پن ایک اہم تمدنی تبدیلی کا علامیہ تھا۔ لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد کھلی سوسائٹی نے لبرل سوسائٹی کا بھی خاتمہ کردیا، جنسی انقلاب نے ہر چیز کو تہس نہس کردیا۔ اخلاقیات کی جگہ ایسے اندیشوں نے لے لی کہ باہرجانے سے قبل لڑکی نے ضبط تولید کی گولی کھائی ہے یا نہیں۔ طلاق اتنی عام ہوئی کہ ازدواجی زندگی کے دس سال پورے کرنے والا جوڑا عجوبۂ روزگار نظرآتا ہے۔ ایک زمانہ وہ تھا جب ماں باپ لڑکی کی شادی کی فکر کرتے تھے۔ اب وہ زمانہ آیا کہ لڑکی جب تک لڑکوں کے ساتھ کسی بندھن میں بندھے بغیر آزاد جنسی زندگی گزارتی ہے ماں باپ نچنت رہتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی وہ اعان کرتی ہے کہ وہ شادی کر رہی ہے تو والدین فکر مند ہوجاتے ہیں کہ یہ شادی کب تک چلے گی۔ مطلقہ کی زندگی غیرشادی شدہ، غیر باکرہ لڑکیوں سے زیادہ تنہا اور ویران ہوتی ہے جنس اب ارزاں تھی اور عورت محض جنسی معروض۔ وہ معاشرہ خواب و خیال ہوگیا جس میں شادی کا مطلب تھا سنسار بسانا، گھر بسانا، عورت اور بچوں کی ذمہ داری قبول کرنا۔

    عورت آزاد ہوئی، خودکفیل ہوئی تو مرد نے اس کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کردیا۔ زندگی فراٹے بھرتی کاروں میں ہائی وے پر دوڑنے لگی، چرس سے دھندلائے ناچ گھروں میں مستانہ وار ناچنے لگی، پاپ کلچر، پاپ میوزک، ہپی ازم اور الکٹرونک میڈیا نے ایک ایسا نوجوان طبقہ پیدا کیا جس نے جنس کو اتنا عام اور سہل الحصول بنادیا کہ جنس آدمی کا کوئی بڑا بھید بھرا تجربہ نہ رہی۔ جب تک جنس شجرممنوعہ تھی، وہ پراسرار تھی، رومان انگیز اور تمنا آفرین تھی، شاہراہوں اور ساحلوں پر عام ہوگئی تودل لگی اور کھیل بن گئی۔ نیباکوف سے لے کر جان اپڈائک اور ایریکا جانگ تک بے شمار لکھنے والوں میں اس جنسی انارکی کی درناک تصویریں دیکھنے ملیں گی۔

    ضبط تولید کی تمام احتیاطوں کے باوجود وہ لڑکا جو عورت کی کوئی ذمہ داری لینا نہیں چاہتا لڑکی کو حاملہ کرکے غائب ہوجاتا ہے۔ اب ایک نیا خاندان وجود میں آیا جسے یک ولدی خاندان یا ONE PARENT FAMILY کہاجانے لگا۔ ماں اور بچہ، کنواری ماں اور اس کا بچہ۔ چوں کہ ایسی مائیں اکثر DRUGS کا شکار ہوجاتی ہیں اور بچے کی دیکھ بھال نہیں کرسکتی تو بچہ ان کے پاس سے لے لیا جاتا اور کوئی ذمہ دار آدمی یا ادارہ اس کی نگہداشت کرتا ہے۔ یہ خاندان لاولد خاندان یا NO PARENT FAMILY کہلایا۔ خاندان کے یہ نئے روپ اس تمدن کا عطیہ ہیں جس نے اولین ضرب شادی اور خاندان کے اداروں پر لگائی تھی۔ عزیز احمد نے جنسی آزادی کی لائی ہوئی ان تباہ کاریوں کو بھی دیکھا تھا لیکن اس وقت تک ان کی تصنیفی مشغولیات کی نوعیت بدل چکی تھی اور ناول اور افسانے لکھنے کا کام انہوں نے ترک کردیا تھا ور نہ بطورِ فنکار وہ ہمیں یہ بتانے کی ضرور کوشش کرتے کہ وہ کنواری ماں جو حشیش کے نشہ میں دھت اپنے بلکتے بچے کے ساتھ پلنگ پر لیٹی ہوئی ہے وہ زمرد کے گلوبند کو کس نظر سے دیکھتی ہے۔

    عزیز احمد اپنے افسانوں میں جنسی انارکی کے شاہد نہیں ہیں۔ ان کے لیے دنیا نہ تو بے معنی تھی نہ ابزرڈ کچھ تضادات تھے جو توازن کی تلاش میں تھے۔ کچھ مسائل تھے جنہیں سلجھانا تھا۔ عزیز احمد کا لبرل آدرش وادی ذہن ابھی دنیا سے ہارا نہیں تھا۔ وہ لایعنیت کے اس تجربہ سے نہیں گزرے تھے جس سے قرۃ العین حیدر گزر رہی تھیں۔ ان کے یہاں ایک سمجھوتے کی تلاش ہے جو ان کے اندر ایک پیگن اور ایک متمدن آدمی کی ازلی پیکار کو ختم کرسکے۔ وہ جنس کے متلاشی بھی تھے اور جنس کے پیچھے لگی ہوئی عورت کو بھی اس کی پوری انسانیت کے ساتھ قبول کرنا چاہتے تھے۔ ’’تیری دلبری کا بھرم‘‘ میں ایک انگریز لڑکی کی زبانی یہ شکایت ملتی ہے،

    ’’معاف کیجیے۔ میں جتنے پاکستانی لڑکوں کے ساتھ اِدھر اُدھر گئی ہوں، میں نے ان سب کو ضرورت سے زیادہ چالاک پایا، سب ایک ہی چیز چاہتے ہیں۔ جنس اور جنس کے پیچھے جو عورت ہوتی ہے اس کے انسان ہونے کا انہیں احساس نہیں۔‘‘

    یہ گویا ایک معنی میں سرزنش ہے اس عزیز احمد کی جسے یورپ کا، خصوصاً یورپ کی آزاد عورت کا تجربہ ہضم نہیں ہوا تھا۔ کھلے سماج میں تو مرد نے عورت کو دیکھنے کا جھنجھٹ ہی نہیں رکھا۔ وہ اس کے لیے محض جنسی معروض ہے۔ تخلیقی سطح پر عزیز احمد کاذہن اب جنسی نفسیات اور اخلاقیات سے تھک کر ان سے بلند ہونا اور عورت کی طرف زیادہ جمالیاتی اور فلسفیانہ رویہ اختیا رکرنا چاہتا تھا۔ انہوں نے عورت میں محبت کے جبر کی جو بات کی تھی وہ بھی ان کے ذہن کا پیچھا کر رہی تھی۔ محض مشاہدات جس نوع کی صحافیانہ فکر کو جنم دیتے ہیں اس سے بھی عزیز احمد غیر مطمئن ہوگئے تھے۔ وہ عشق اور ابوالہوسی، وفاداری اور ہرجائی پن کی کشمکش سے بھی نجات پانا چاہتے تھے۔ حقیقت عزیز احمد کے لیے سینکڑوں مظاہر میں بٹ گئی تھی اور کثرتِ نظارہ میں کھوئی ہوئی ان کی نظر ایک نقطۂ وحدت اور ارتکاز کی جستجو میں تھی۔ ’’تیری دلبری کا بھرم‘‘ سے ایک طویل اقتباس دیکھیے۔ طویل سہی لیکن اس مرحلہ پر عزیز احمد کے ذہن کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے :

    ’’اور میں نظر ہوں۔ وہ نظر جو المیہ سے تشنہ ہے۔ المیہ تشنہ رہے گی۔ کیوں کہ المیہ سے، ہوش سنبھالنے کے بعد سے اب تک میری آنکھیں کسی کو ڈھونڈھتی رہیں۔ اس عورت کو جو کامل ہے، اس کا حسن کامل ہے، اسے میں نے کہیں نہیں پایا۔ وہ کہیں ثابت و سالم نظر نہیں آتی۔ گویا اس کے ایک لاکھ ٹکڑے ہیں۔ ایک لاکھ روپ ہیں جو لاکھوں جسموں، اربوں اداؤں میں منتشر ہیں۔ اس کے بال سیاہ ہیں کہ بھورے کہ سنہرے کہ لال۔ اس کی چوٹیاں اس کے سینہ پر لہرارہی ہیں کہ اس کے بال ترشے ہوئے ہیں۔ اس کے خدوخال ہزار طرح کے ہیں۔ اس کے کئی رنگ ہیں۔ کہیں اس کا قد دراز ہے۔ کہیں بوٹا سا، کہیں اس کا حسن غازہ اور تبسم سے جھلکتا ہے۔ اور اس کے لبوں کی لالی فضا میں بجلی کی طرح لپکتی ہے۔ کبھی رقص میں اس کی شانِ نارسائی میں فرق آجاتا ہے۔ آغوش میں وہ کلیم ہمدانی کی محبوبہ کی طرح آتی ہے جس کی الفت موج و کنار کی آمیزش سے جو دم بدم ساتھ بھی ہے اور گریزاں بھی۔ اور وصال کے عالم میں معلوم ہوتا ہے اس کے ساتھ گھڑیاں بیت گئیں اور بیدل کی محبوبہ کی طرح وہ کیا قیامت تھی کہ عمر بھر اس کے ساتھ قدح نوشی کرتا رہا اور وہ آغوش میں رہی اور آغوش میں نہ سماسکی۔ اور پھر نظر کہتی ہے یہ وہ نہیں اس میں اس اصل محبوبہ کی محض ایک جھلک ہے۔ محض ایک کیفیت۔ کچھ رنگ، کچھ روپ مگر یہ تو کوئی اور ہے، کوئی ناقص اجنبی۔‘‘

    ظاہر ہے حسن کامل کاتعلق حقیقت سے اتنا نہیں جتنا کہ تخیل سے ہے۔ شاعری اس کی جستجو کرسکتی ہے۔ افسانہ میں تو جو بھلی بری عورتیں دنیا میں ہیں ان سے کام چلانا پڑتا ہے۔ حسن کامل کی جستجو عزیز احمد کے افسانوں میں شوقِ دید اور نظر بازی کے روپ میں ملتی ہے اور شوق دید کے آداب انہوں نے جگر کے اس شعر سے سیکھے تھے جو ان کے افسانہ ’’اور بستی نہیں‘‘ میں نقل ہوا ہے۔

    کوئی گناہ نہیں شوقِ دید و ذوقِ نظر

    جز اس کے فرصتِ نظارگی کو طول نہ ہو

    عزیز احمد کے یہاں حسنِ کامل کی رومانی بلکہ روحانی تلاش کاجذبہ فطری کم اور ثقافتی زیادہ ہے۔ عزیز احمد نے دنیا جہاں کا ادب پڑھا تھا اور دل و نظر اور حسن و عشق کی مشرقی اور مغربی تمثیلات، نیز اردو فارسی وار انگریزی شاعری کی عشقیہ اور متصوفانہ روایات ان کے ادبی حافظہ میں ایسی نقش ہوگئی تھیں کہ افسانہ لکھتے وقت وہ اپنے تخلیقی اور تخیلی ذہن کو ثقافتی اور ادبی ذہن سے الگ نہیں کرسکتے تھے۔ اکثر اوقات تو مستعار جذبات ان کے یہاں حقیقی جذبہ کی شدت اور صداقت پیدا کرلیتے ہیں۔ ان کا بے مثال افسانہ ’’زرین تاج‘‘ اس کی نمائندہ مثال ہے۔

    ’’زرین تاج‘‘ میں تین عورتوں کا ذکر ہے جنہیں افسانہ نگار کے تخیل نے حسن کامل کے روپ میں دیکھا ہے۔ یہ تین عورتیں ہیں شیرین، نورجہاں اور قرۃ العین طاہرہ جو ایران کی مشہور شاعرہ اور بابی مبلغ تھی۔ اسطوری اور تاریخی شخصیتوں سے محبت روحانی محبت ہی کا ایک روپ ہے کیو ں کہ آدمی کا جسم نہیں بلکہ اس کا خیال ماضی کی فضاؤں میں سفر کرتا ہے اور خیال کی سطح پر وقت کی دھند میں لپیٹی ہوئی شکلیں زیادہ خوبصورت اور پراسرار نظر آتی ہیں۔ ’’زرین تاج‘‘ میں ماضی اور حال، اسطور اور تاریخ، خواب اور حقیقت کا سحر انگیز امتزاج افسانہ نگار نے حاصل کیا ہے ایک خوبصورت غنائیہ اسلوب کے ذریعہ جو جنگ کی ٹھوس حقیقت سے لے کر تخیل اور فنٹاسی کے موہوم سایوں پر اپنی کمند پھینکتا ہے۔

    اس افسانے میں عزیز احمد کی تین آرزوئیں برآئی ہیں۔ ایک تو حسن کامل کے تجربہ کی آرزو۔ دوسری عورت میں محبت کے جبر کو قلم بند کرنے کی آرزو او رتیسری ایک ایسے شاطرانہ اظہار کے حصول کی آرزو جس میں ان کے وسیع مطالعہ کا عرق رچا بسا ہو۔

    عزیز احمد نے افسانہ میں محبت کے مختلف روپ پیش کیے ہیں۔ ایک تو وہ نیم رومانی اور جنسی محبت ہے جو مزاحمتوں پر ملتی ہے۔ افسانہ کاہیر و اور عزیز احمد کا ہم راز اسی محبت سے اکتایا ہوا ہے۔ یہ اقتباس دیکھیے،

    ’’اس نے بیسیوں زندہ عورتوں سے عشق کیا تھا۔ ہوس آرائی کی تھی، تفریح کی تھی، کشش محسوس کی تھی، کبھی ہوس کا خاتمہ عشق پر ہوتا ہے کبھی عشق کاہوس پر۔ اور المیہ اس کا باعث ہوتا کہ دونوں لاکھ کوشش کرتے ’’دوئی‘‘ فنا نہ ہوتی۔ دونوں ایک معاشی عمرانی نظام کی پیداوار ہوتے، اور یہ نظام ان کے راستے میں سنگلاخ مزاحمتیں، کانٹوں کی جھاڑیاں، دیوہیکل چٹانیں حائل کرتا جاتا، جن سے ہوش عشق بن جاتی اور کبھی یہ مزاحمتیں غائب ہوجاتیں تو عشق غائب ہوجاتا، اور پھر ہوس کے بعد تھکن اور عذرِواماندگی اے حسرتِ دل۔ اور پھر یہی سلسلہ‘‘

    (زرین تاج)

    ایسے ہی معاشقوں سے تنگ آکر اس نے کہا تھا۔ ’’اب میں ایسی صورت سے محبت کروں گا جسے مرے صدیاں ہوچکی ہوں گی۔ ایک دن انسان ماضی میں سفر کرسکے گا‘‘ اور راشد کو یہ دن اس رات ہی میں میسر آجاتا ہے جب وہ کار میں ایک دعوت میں جارہا ہوتا ہے۔ ہوائی جہاز بم برساتے ہیں اور کار خراب ہوجاتی ہے اور اژسد پیدل روانہ ہوتا ہے تو اسے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے، زرین تاج اس کے ہم قدم ہے۔ یہ رات دنیا کی تین حسین ترین عورتوں سے ملاقات کی رات ہے۔

    محبت کا ایک اور روپ ہے جسے نورجہاں بیان کرتی ہے۔ مہرالنساء کو شیرافگن کے ساتھ گہری محبت تھی۔ شیرافگن کے قتل کے بعد وہ جہاں گیر کے ساتھ کیسے رہی؟ نورجہاں کی وضاحت ایک گہرا نفسیاتی رمز لیے ہوئے ہے۔ نورجہاں کہتی ہے،

    ’’عورت کے خون میں قدرت نے کچھ عجیب کمزوری رکھ دی ہے۔ جو جتنا زیادہ تعاقب کرتا ہے، اپنے صیاد سے دور بھاگنے میں اس کی قوتِ ارادی اتنی ہی کمزور ہوجاتی ہے جتنے عرصے تک یہ تعاقب جاری رہتا ہے اسی کی مناسبت سے اس کی مزاحمت گھٹتی جاتی ہے اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے مقتول محبوب کے قاتل کو پہلے برداشت اور پھر پیار کرنے لگتی ہے۔ اس وجہ سے بھی بہت سی عورتیں جو تمہارے اس براعظم میں آج کل اغوا کی جاتی ہیں، اپنے ظالم عاشقوں کے چنگل سے چھوٹ کر آنا نہیں چاہتیں۔ محبت لینی اس قسم کی محبت جومجھے شیرافگن سے تھی، اب میرے دل میں مرچکی تھی۔ بالکل مٹ چکی تھی۔ اس کی جگہ ایک عجیب طنزیہ محبت تھی۔ مقید طائر کی محبت صیاد کے ساتھ، گھوڑے کی محبت اپنے آقا کے ساتھ۔‘‘

    (زرین تاج)

    شیریں، خسرو، فرہاد محبت کی تثلیث ہیں۔ شیریں غزل کی معشوقہ کی آرکی ٹائپ ہے۔ وہ اپنے عشوہ و ادا سے غزل کی معشوقانہ روایات کی تشکیل کرتی ہے۔ شیریں خسرو کی ملکہ لیکن فرہاد کی معشوقہ تھی، وہ کہتی ہے۔ خسرو پرویز نے مجھے خرید لیا لیکن میں نے چالیس دروازوں والے قصر کی طرح ان میں انتالیس دروازوں کی کنجیاں خسرو کے حوالے کردیں اور چالیسویں دروازہ کی کنجی اس کے حوالے کرنا میرے بس کی بات نہ تھی۔ یہ چالیسویں کنجی فرہاد کے لیے تھی۔

    قرۃ العین طاہرہ کی طرف عزیز احمد، ہمیشہ ایک بے پناہ کشش محسوس کرتے رہے ہیں، قرۃ العین طاہرہ میں ا نہیں وہ عورت نظرآتی جس میں اس کا بدن، اس کی روح اور اس کا ذہن تینوں بیدار تھے۔ وہ فارسی کی شاعرہ تھی۔ ’’ایران کی خاک سے ایک ہزار شاعر اٹھے تھے۔ میں پہلی شاعرہ تھی جو ان ایک ہزار شاعروں سے الگ کھڑی تھی۔‘‘ اور قرۃ العین میں محمد علی باب نے ایک نئی روح پھونک دی تھی۔ شاعری کی شبنم کو قدسی آفتاب کی کرن چمکا رہی تھی۔ ذہن اور روح کی بیداری کے بعد بدن کے تقاضوں کا بیان بھی قرۃالعین طاہرہ ایک ایسی جرأت مندی سے کرتی ہے جو آزادیٔ نسواں سے بھی آگے چیز ہے، میں نے باب کی روحانیت کے ساتھ مزوک کی تعلیم کو حل کردیا۔ میں اپنے ہی محاذ پر لڑتی رہی۔ باغی عورت کے محاذ پر میں مزوک کی ہم خیال تھی کہ کیوں عورت ایک ہی مرد کی پابند رہے۔‘‘

    قرۃ العین کے تعلقات اپنے شوہر اور خسر سے خراب تھے شخصی ناپسندیدگی کے علاوہ مذہبی اور سیاسی اختلافات بھی اس میں کارفرما تھے۔ قرۃ العین نے بابیوں کو فتویٰ دیا کہ وہ اس کے شوہر اور خسر کو قتل کردیں۔ انہیں نہ صرف قتل کیا گیا بلکہ ناک کان کاٹ کر ان کی شکل بھی مسخ کی گئی۔ پھر قرۃ العین محمد علی بارفروشی کے ساتھ ناجائز جنسی تعلقات قائم کرتی ہے۔ وہ کہتی ہے،

    ’’محمد علی (باب) میرے لیے محض روح تھا، ملامحمد (شوہر) محض جسم۔ محمد علی بار فروشی ان دونوں کے درمیان تھا، ذی روح جسم، جسم کے اندر جان۔ میں اس سے بے حجاب ملتی رہی۔ اگر کوئی ان ملاقاتوں کو ناجائز کہتا ہے، فاسقانہ قرار دیتا ہے، قرار دے لے۔‘‘

    قرۃ العین طاہرہ میں عزیز احمد حُسن، نسونیت، عجمیت، شاعری، علم، ذہانت، جنسیت اور روحانیت کا امتزاج دیکھتے ہیں۔ حسن کامل کی پرستش میں عزیز احمد کا ذہن تمام تضادات سے بلند ہوجاتا ہے اور خواہشات سے ماورا بھی۔

    ان تمام عورتوں میں جو مرچکی ہیں مجھے تم سے سب سے زیادہ محبت ہے، اگر کبھی حالِ ماضی کی طرف جاسکا یا میری روح تمہاری روح کے جمال کا دیدار کرسکی۔ اگر یہ بھی نہ ہو تب بھی، دوران محض ہیں، مرورِ خالص میں تم سے مخاطب ہوں گا اور تم سے اپنی اس محبت کا اظہار کروں گا جو عشق سے، ہوس سے، خواہش سے، ادراک سے، جواب سے ماورا ہے۔‘‘

    ’’زرین تاج‘‘ میں عزیزاحمد کی نثر شاعری کے پر لگاکر اڑتی ہے افسانے میں محبت کی شیرینی، لسانی حسن کی سحرانگیزی، شاعری کی نغمگی، عقائد کاجلال، روحانیت کا جمال اور ہند عجمی ثقافت کی برنائی ہے۔ پوری فضا چھٹکی ہوئی چاندی میں نہائی ہوئی ہے۔ یہ چاروں کھونٹ جگمگاتا افسانہ ہے۔ افسانہ کا لطف فکر و فلسفہ و تاریخ و جمالیات کا رہین منت ہے۔ یہ پڑھے لکھے اور باخبر قارئین کا افسانہ ہے۔ اس میں شبہہ ہے کہ آیا وہ تاریخ کو افسانہ پر مکمل طور پر مسلط کرسکے ہیں۔ دراصل زرین تاج یا قرۃ العین طاہرہ نہایت ہی پیچیدہ اور پر اسرار عورت ہے۔ افسانہ میں وہ تین عورتوں میں سے ایک ہے حالانکہ وہ ایک ایسا کردار ہے جس کے ساتھ انصاف ایک پوری ناول لکھ کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ یہ ناول لکھنے کے لیے بھی جارج ایلیٹ کی جینس چاہیے جو تاریخ فلسفہ اور مذہب تینوں پر حاوی ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کی بڑی حقیقت نگار ناولسٹ تھی۔ اس کا مقابلہ تو ٹالسٹائی کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ زرین تاج نہایت خوبصورت افسانہ ہے لیکن اس کا مجموعی تاثر شاعرانہ ہے۔ افسانہ ایسا فسوں جگاتا ہے جو شاعری کی ساحری سے قریب تر ہے۔ یہ بھی ایک بڑا کارنامہ ہے لیکن اتنا بڑا نہیں جتنا کہ ’’تصور شیخ‘‘ جس میں تخلیقی تخیل حقیقت نگاری کے طریقۂ کار کے ذریعہ افسانوی آرٹ کو اکملیت کے درجہ پر پہنچاتا ہے۔

    یوپی کے مسلم مڈل کلاس پر یہ عزیز احمد کا پہلا اور آخری افسانہ ہے۔ حیدرآباد کے مڈل کلاس پر جو زوال پذیر جاگیرداری کا پروردہ ہے، انہوں نے ’’پاپوش‘‘ لکھا جو کافی دلچسپ ہے اور حیدرآباد کی مخصوص زبان کے استعمال سے افسانہ کے چٹخارے میں اضافہ ہوا ہے، لیکن افسانہ کا دائرہ گھر کی نوکرانیوں کے ساتھ جو پاپوش میں برابر ہیں عشق بازی اور اس سے پیداشدہ گھریلو جھگڑوں تک محدود رہتا ہے۔

    زرین تاج کے مقابلہ میں ’’تصور شیخ‘‘ کی فضا بے رونق ہے۔ ’’زرین تاج‘‘ کی چاندی رات کے مقابلہ میں ’’تصورشیخ‘‘ کے دن مٹیالے ہیں دروازوں پر ٹاٹ کے پردے اور آنگن کے بیچ بہتی ہوئی گندی موری ہے۔ ایک گاؤں ہے اجاڑ، اور گاؤں کے گنوار اور مفلوک الحال لوگ ہیں جو شاہ صاحب کی خانقاہ سے ملحق مسجد میں نماز کے لیے آتے ہیں۔ مسجد، گھر، گھر کی عورتیں اور مرد سب کے سب بے رونق بلکہ بدصورت، بیمار، سال خوردہ، کاہل اور افلاس کے مارے ہوئے۔

    تصور شیخ میں مذہبی راسخ العقیدگی ہے لیکن عقیدے کا کوئی حسن نہیں۔ اس کے برعکس زرین تاج میں اسلام کی رو سے گمراہ ایک فرقے کے عقائد کا ذکر ہے لیکن قرۃ العین طاہرہ کے مذہبی جوش و خروش، اس کے علم و فضل اس کے ولولۂ تبلیغ، محمد علی باب سے اس کی بے پناہ عقیدت کا ایسا اثر انگیز بیان ہے جو پورے افسانے کو ایک قدسی احساس کی تابناکی سے منور کرتا ہے۔ تصور شیخ میں ایسی کوئی تابناکی نہیں۔ کوئی ولولہ نہیں۔ ایک اجاڑبستی میں ایک خانوادے کی زندگی کا بے کیف تواتر اور ارکان کی میکانکی پابندی، بے حضوری کی نمازیں اور جی حضوری والی پیری مریدی ہے۔

    تصور شیخ میں مذہب ہے لیکن مذہب کا کوئی حسن نہیں مذہب سے وابستہ تہذیب حوض کے ٹھرے ہوئے پانی کی طرح کائی سے بھر گئی ہے۔ تصوف ہے لیکن تصوف کا جمال نہیں، سرشاری اور کیف نہیں۔ پرہیزگاری، زھد، ترک اور نفس کشی ہے جو ماحول کی بے رنگی اور خشکی میں اضافہ کرتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ تزکیہ نفس کے شعلہ سے ہوس کی چنگاریاں پیدا ہوتی ہیں اور تاریک فضا کو تاریک تر کرتی ہیں۔ ’’زرین تاج‘‘ کے برعکس اس افسانہ میں حسن، جنس، روحانیت، عقائد، انسان اور زندگی کی نکہت اور زبوں حالی ہے۔

    ان تضادات کے باوجود ’’تصورشیخ‘‘، ’’زرین تاج‘‘ سے بہتر بلکہ اس سے بہت بڑا اور صحیح معنی میں افسانوی آرٹ کا بے مثال نمونہ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ’’زرین تاج‘‘ میں کہانی نہیں واقعات ہیں، کردار نہیں تاریخی شخصیات ہیں، نفسیاتی تجربات کم اور فلسفیانہ تجریدات زیادہ ہیں۔ ’’زرین تاج‘‘ میں تخیل شاعری کے پر لگاکر اڑتا ہے اور افسانوی آرٹ اس کی اجازت دیتا ہے لیکن زمین افسانہ کی کشش ثقل ایسی اڑانوں کو آسمان شاعری کی طرح لا محدود بننے نہیں دیتی۔ افسانہ میں حقیقت تخیل کو پابہ زنجیر کرتی ہے اور اسے غیرحقیقی فضاؤں میں اونچی اڑانیں بھرنے سے روکتی ہے۔ ’’تصور شیخ‘‘ میں فنکارانہ تخیل اپنی طاقت منواتا ہے کیونکہ وہ زندگی کے حقائق کی سنگلاخ چٹانوں کو جذب کرتا ہے، نفسیاتی گہرائیوں میں اترتا ہے، کہانی ایجاد کرتا ہے۔ کرداروں کی تخلیق کرتا ہے، تصورات کو تجربات میں بدلتا ہے، جزئیات کی عکس گیری کے لیے مشاہدہ کرنے والی نظر کو محدب شیشہ کی طرح شفاف بناتا ہے۔

    تصور شیخ کی کامیابی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ فنکار یہاں طنز نگار کو قابو میں رکھتا ہے۔ یہ ممکن نہیں تھا کہ بھوتوں، چڑیلوں، تعویذگنڈوں کے توہمات سے بھرے اس مذہبی ماحول کی عکاسی میں طنز سے پہلو بچایا جاتا۔ لیکن افسانہ مذہبی کھوکھلے پن اور عیاری پر محض طنز ہوتا تو اس کی قدر کم ہوجاتی۔ ویسے دیکھیں تو پورا افسانہ ایک مذبی گھرانہ کی پیروی ہے، لیکن عزیزاحمد اس افسانہ میں ایک طنزنگارکی طرح نہ آستین میں منہ چھپاکر ہنستے ہیں، نہ ہر خند اور زیر لب مسکراہٹ کو اپنے مشاہدے اور اسلوب کا جزو بناتے ہیں۔ وہ ایک حقیقت نگار فنکار کی طرح کھلی آنکھ سے حقائق کا مشاہدہ کرتے ہیں اور اسی لیے اس افسانہ میں سکینہ اور واجد میاں کے لیے اگر ہمدردی ہے تو سید بسم اللہ شاہ المعروف کی گراوٹ میں ایک مقدس ستون کی شکست کا احساس بھی ہے۔ عزیز احمد طنز سے چوکتے تو نہیں لیکن ان کی نظر فنکارانہ عرفان کے اس مقام سے بھٹکتی بھی نہیں جہاں کردار کے باطن کا مشاہدہ دردمندی سے کیا جاتا ہے۔

    افسانے کا آغاز صبح صبح واجد میاں کے بیان سے ہوتا ہے،

    ’’جاڑوں کے دن تھے۔ میاں واجد نے کرتے کے دامن سے اپنی سڑسڑبہتی ہوئی ناک پونچھی، صدری کا بیچ کا بٹن ٹوٹ گیا تھا۔ ایک ہاتھ اپنی صدری کے اندر ڈال کے جسم کھجانے لگے۔ دوسرے ہاتھ سے خشخشی بالوں سے بھرا ہوا کالا کیسر سر کھجایا۔ میاں واجد کی عمر اب کوئی چودہ سال کی ہوگی۔ مگر ان کے کالے چیچک زدہ چہرے پر جوانی کی بہار صرف کالے بدنما رنگوں کی شکل میں نمودار ہوسکی تھی۔‘‘

    واجد میاں کی شکل و شبہات کے بیان میں حقارت یا ناپسندیدگی کا کوئی عنصر نہیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ کڈھب او رمضحکہ خیز نظر آتے ہیں۔ بدصورت تو ہیں ہی۔ لیکن شادی کے بعد واجد میاں سکینہ کے لیے بدصورت نہیں رہتے۔ وہ پہلے مرد ہیں جس نے سکینہ پر بدن کے بھید کھولے ہیں اور سکینہ کی نظر میں وہ شہزادہ گلفام سے کم نہیں۔ عزیز احمد نے دونوں کی ازدواجی مسرت کانقشہ بہت خوبصورتی سے کھینچا ہے۔ حسن و نشاط کا تجربہ آدمی کی مخفی تخلیق صلاحیتوں کو کیسے بیدار کرتا ہے اس کا بیان عزیز احمد کے یہاں بڑی فنکارانہ سوجھ بوجھ سے ہوا ہے۔

    ’’جب شادی ہوئی تو سکینہ کے سلمی ستارے بھاری کام کے پائنچے دار غرارے، اور کچلے سے لدی ہوئی ریشمی اوڑھنیاں میاں واجد کے لیے علم جمالیات کے دفتر کھولنے لگیں۔ اب تمام تر حسن ایک ریشمی غبار تھا، جس میں ریشم تھا، ملبوس کا، جلد کا ریشم، آواز کا، تنفس کا ریشم، پسینہ کی ٹھنڈک کا دل کی دھڑکن کا ریشم۔ اب میاں واجد کا شعور بیدار ہوا ہے۔‘‘

    دیکھیے یہاں بھی حواس کی بیداری کا وہی عالم ہے جو بیدی کے افسانے ’’جوگیا‘’میں نظرآتا ہے۔ جوگیا نے اپنی رنگ برنگی ساڑیوں کے ذریعہ نوجوان مصور میں رنگوں کا احساس پیدا کیا۔ وہ نوجوان کی ہو نہ سکی لیکن اسے مصور بناگئی۔ رنگوں کا شعور دے گئی۔ سکینہ بھی واجد میاں پر بقول عزیز احمد خطوط اور رنگ کے آہنگ کا راز منکشف کرنے لگی۔ انہیں محسوس ہونے لگا کہ جسم سے وابستہ اور جسم سے ماورا ایک کشش ہوتی ہے جو آگ ہی آگ ہوتی ہے۔ اس آگ کا مطلب سمجھنے کے لیے انہوں نے دیوانہ وار اردو و فارسی اساتذہ کے دیوان پڑھنا شروع کردیے۔ ان کے گلے میں بلا کا جادو تھا۔ اور پھر گلے کا یہی جادو خود ان کی شاعری کے سرچڑھ کر بولنے لگا۔ سکینہ نے ا نہیں شاعر بنادیا۔

    حضرت بسم اللہ شاہ المعروف۔ حنائی ریش، دو پلی ٹوپی، انگرکھا، چست پاجامہ، ہاتھوں میں ارضِ مقدس کی تسبیح۔ انہیں درگاہ کی سجادہ نشینی بیوی کی طرف سے ملی تھی جو سکینہ کی بہن اور واجد میاں کی پھوپھی تھیں۔ سکینہ بسم اللہ شاہ المعروف کے سامنے دوبرس کی لڑکی تھی۔ عزیز احمد کے قلم سے بسم اللہ شاہ کی جو تصویر ابھری ہے وہ نہ مضحک ہے نہ پروقار بن سکتی تھی اگر وہ ایک اجاڑ گاؤں کے بے کیف تواتر، توہمات اور میکانکی اور اردوظائف کے شکار نہ ہوتے۔ عزیز احمد لکھتے ہیں۔ ’’اس گھر میں یا خدا پر عقیدہ تھا یا پریوں، بھوتوں، جناتوں پر۔ ابھی تک کوئی انسان سے واقف نہ ہونے پایا تھا۔‘‘ گویا گھر میں اور گاؤں میں وہ رونق نہیں تھی جو انسانی مشاغل، انسانی سرگرمیوں اور دلچسپیوں سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ بے کیفی ان گھرانوں کی لعنت ہے جہاں پیری مریدی ذریعہ معاش ہونے کے سبب مذہب گھر پر اسی طرح قبضہ جماتا ہے جس طرح گھریلو صنعت کے اوزار، کرگھے اور مشین۔ شاہ صاحب کے اوقات بندھے ہوئے ہیں۔ مسجد میں نماز پرھنا، گاؤں والوں کو تعویذ گنڈے دینا، داراشکوہ کے الحاد و زندقہ سے بھرے ہوئے رسائل کا رد لکھنا اور مشق سخن کرنا۔ ایسی بے کیف بے رونق زندگی سے گھبراکر ہی آدمی گناہ تک کر بیٹھتا ہے۔

    حضرت بسم اللہ شاہ کو سجادہ نشین کی حیثیت سے تو چار پانچ گاؤں کے لوگ ہی جانتے تھے لیکن یہ حیثیت شاعر جہاں کہیں اردو بولی اور غزل گائی جاتی تھی ان کا نام سب کی زبان پر تھا۔ ان کی شاعری کا رنگ نشاطیہ تھا۔ ہر طرف انبساط ہی انبساط تھا۔ روح کا رقص اور وجدان، نشاط ہی نشاط۔ عزیز احمد کمال چابکدستی سے مذہبی تعلیمات کے اس عنصر کو کہ آدمی کو ہر حال میں خوش رہنا چاہیے کیوں کہ جو کچھ ہوتا ہے خدا ہی کی طرف سے ہوتا ہے، حضرت بسم اللہ شاہ کے توکل کو تغافل اور نشاط کو غیرذمہ داری میں بدل دیتے ہیں۔ جب حضرت بسم اللہ شاہ اپنی بیوی کا علاج کرتے بھی ہیں اورنہیں بھی کرتے، اس کے مرنے کا غم کرتے بھی ہیں اور نہیں بھی کرتے۔ ایک خالص مذہبی ماحول میں بیوی کی موت کے بیان میں IRONY کا اتنا فنکارانہ استعمال کہیں اور دیکھنے نہیں ملتا۔

    عزیز احمد پھر ان کی شاعری کے حوالے سے ان کی شحصیت کا ذکر کرتے ہیں۔ بسم اللہ شاہ معروف صبر شکر کے آدمی تھے۔ اپنے تقوی ٰپرانہیں بڑا اعتماد تھا۔ چھوٹے موٹے غموں کے باوجود ان کی شاعری میں یا سیت و قنوطیت کا فقدان تھا۔ تمام ترتوجہ نشاط، کیف اور انبساط پر تھی۔ انبساط کی بنیاد حیرت و بے خبری پر تھی۔ شبنم کانزول، پھولوں کی نمود، طیور کے نغمے، یہ سب حیرت ہی کے سامان تھے۔ کسے فرصت تھی کہ وہ غم دنیا، اپنے اپنے متعلقین یا اپنے گرد کے انسانوں کی مصیبتوں کی طرف توجہ کرے۔

    مذہبی شعور اور فنکارانہ شعور میں یہی فرق ہے کہ فنکار اپنے، دوسروں کے اور گردوپیش کے انسانوں کو کبھی نہیں بھولتا۔ وہ دل کی بے قراری اور شعور کے کرب کو آتما کی شانتی پر ترجیح دیتا ہے۔ جب سے انسان نے اپنی فکر کا دھارا انسان اور زندگی کی طرف موڑا ہے اور مذہبی تصورات سے الگ ہوکر براہ راست زندگی کے کرب کا مشاہدہ کیا ہے۔ تب سے وہ زندگی کے بارے میں کسی بھی نوع کا فریب کھانے کو تیار نہیں۔ حضرت بسم اللہ شاہ کی شاعری فریب کھاتی ہے عزیز احمد کا افسانہ فریب توڑتا ہے۔

    افسانہ اب بحرانی منزل میں داخل ہوتا ہے۔ شاعری سے ہٹ کر اب وہ تصوف کے دائرے میں داخل ہوتا ہے۔ عزیز احمد لکھتے ہیں۔

    ’’اب واجد میاں کی روحانی تربیت شروع ہوچکی تھی۔ سلسلۂ نقش بندیہ میں پیر طریقت اپنے مرید کو ایک عا رضی بت پرستی کے دور سے لے کر گزرتا ہے۔ آہستہ آہستہ انسان کا دل پرانے پیاروں عقیدوں، مرکزوں سے ٹوٹتا ہے۔ سلسلۂ نقش بندیہ میں پیر اپنے مرید کے دل سے ماسوا کے خطرات نکالنے کے لیے اپنا تصور بندھواتا ہے۔ یہ تصورِ شیخ ہے۔‘‘

    افسانے میں راہِ سلوک کی منزلوں کا ذکر بہت ہی خوبی سے ہوا ہے اور اس کے متوازی چلتا ہے واجد میاں اور المعروف دونوں کی شاعری کا تذکرہ۔ ایک پرعشق مجازی اور دوسرے پرعشق حقیقی کی کیفیات کا نزول۔ اور اس کے ساتھ ساتھ چلتا ہے واجد میاں کا سکینہ سے عشق اور بسم اللہ شاہ العمروف کی سکینہ کی طرف کشش۔ جب تصورِ شیخ کمال پر تھا اور شیخ کا۔ رہبر کامل کا چہرہ بیثہ طریقت کے شیر کاچہرہ تھا، اس وقت بسم اللہ شاہ کا فرض تھا کہ واجد کے قلب میں اپنے تصور کو پاش پاش کردیں اور اسے اعلیٰ مقامات کی سیر کرائیں۔ لیکن ان کے سر پر تیل کی مالش کرنے والی سکینہ کی نرم نازک انگلیوں نے ان کی روح کو مفلوج کردیا تھا۔ وہ واجد سے کہتے ہیں کہ تیرا دل ابھی تک تیری دلہن میں اٹکا ہوا ہے۔ تو راہِ طریقت پر نہیں چل سکتا۔ واجد میاں زاروقطار روتے ہیں اور گڑگڑاکر پوچھتے ہیں۔ میں کیا کروں۔ اور شاہ صاحب کہتے ہیں سکینہ کو طلاق دیدے۔ واجد میاں طلاق دیتے ہیں۔ بسم اللہ شاہ سکینہ سے نکاح کرلیتے ہیں۔ عزیز احمد لکھتے ہیں ’’اس روحانی لین دین میں کسی نے بیچاری سکینہ سے کچھ نہیں پوچھا کہ اس کی مرضی کیا ہے۔ سب بھول گئے کہ وہ بھی جاندار ہے۔ سکینہ کے لیے واجد بدشکل اور چیچک رو نہیں بلکہ دنیا کا سب سے حسین آدمی تھا۔ کیوں کہ وہ جوان تھا اور اس کے جسم کو اس نے قبضے میں لیا تھا۔ حضرت بسم اللہ شاہ معروف بوڑھے تھے، سکینہ نے کبھی انہیں مرد سمجھ کے دیکھا نہیں تھا۔ جب سے اس نے ہوش سنبھالا تھا وہ انہیں دلھا بھائی کہتی آئی تھی۔‘‘

    واجد میاں گاؤں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ شہر شہر مشاعرے پڑھتے ہیں اور شراب میں دھت رہتے ہیں۔ برس بیت جاتے ہیں۔ سید بسم اللہ شاہ کا انتقال ہوجاتا ہے۔ واجد میاں گاؤں لوٹتے ہیں۔ ان کی تربت پر فاتحہ پڑھتے ہیں۔ اندر سے سکینہ بلاتی ہے۔ اس کے بال سفید ہوچکے ہیں۔ لیکن عدت پوری ہونے کے بعد پھر وہ اس سے عقد کرتے ہیں اور باقی زندگی اس کے ساتھ گزارتے ہیں۔

    مذہب تصوف، خانقاہ اور شاعری کے تانے بانے سے پھر ایک عجیب و غریب محبت بھری داستان جنم لیتی ہے۔ عزیز احمد نے غیرمعمولی فنکارانہ احتیاط اور نظم و ضبط کے ذریعہ بسم اللہ شاہ میں جنسی ترغیب کی لرزشیں دکھائی ہیں۔ یہاں وہ ٹالئسائی اور ان کا کیتھولک ناول نگاروں کے قریب ہوجاتے ہیں جو تقویٰ کے حصاروں میں ترغیب کے سانپ کی سرسراہٹ محسوس کرتے ہیں۔ انہوں نے کمالِ ہوش مندی سے بسم اللہ شاہ کو تحقیر اور نفرت سے محفوظ رکھا اور افسانہ کو عیاری پر طنز کی سطح سے اٹھاکر اس المیہ سطح پر پہنچادیا جہاں روحانی گراوٹ اور دوپیار کرنے والوں کی زندگی کی تباہی کا نظارہ روح فرسا بن گیا ہے۔ اس افسانہ میں حاضراتی زبان، شائستہ عالمانہ اسلوب اور جمال کا حسن ہے۔ فکر و فلسفہ کا وزن ہے۔ نفسیاتی گہرائی ہے، ایسی جزئیات نگاری ہے جو ایک ایک تفصیل کو تصویر کی طرح ذہن پر نقش کرتی ہے۔ ’’تصورِ شیخ‘‘ میں حقیقت نگاری آرٹ کی تکمیل کو چھولیتی ہے۔ اس کا مقام اردو کے شاہ کار افسانوں میں ہے۔

    اس جائزے سے اندازہ ہوگا کہ عزیز احمد کے یہاں عورت محض جنسی معروض نہیں۔ نظر بازی عورت بازی اورا بوالہوسی کی فضاؤں میں اس محبت کا نقش اجاگر ہوتا ہے جو عورت کے لیے ضروری ہی نہیں بلکہ بقول عزیز احمد جبر بھی ہے۔ بائرن نے کہا تھا ’’مرد کی محبت مرد کی زندگی کا صرف ایک حصہ ہے۔ عورت کی محبت اس کی کل حیات ہے۔‘‘ نطشے اسی خیال کو اس طرح پیش کرتا ہے کہ ’’محبت کا لفظ عورت اور مرد کے لیے دو الگ الگ معنی رکھتا ہے۔ عورت کے لیے محبت محض سپردگی نہیں ہے۔ عورت کے لیے محبت تو جسم اور روح کا وہ مکمل تحفہ ہے جو وہ غیرمشروط طور پر مرد کے سامنے پیش کرتی ہے، عورت کی محبت کی یہ بے لوثی اس کی محبت کو مذہب اور شردھا کا درجہ دیتی ہے مرد عورت سے محبت کرتا ہے تو وہ ایسی ہی محبت کا اس سے طالب ہوتا ہے۔ لیکن وہ عورت کا یہ جذبۂ محبت خود میں دیکھنا نہیں چاہتا۔ اگر دنیا میں ایسے افراد ہیں جو عورتوں جیسی ہی سپردگی اور بے لوثی کا جذبہ خود میں دیکھنا چاہتے ہیں تو وہ مرد نہیں ہیں۔‘‘

    سیمون دی بووار کا کہنا ہے کہ بچپن ہی سے لڑکی مرد کو ایک برتر وجود کے طور پر دیکھتی آئی ہے اور چونکہ وہ خود اپنی انسانیت اور نسائیت کا اثبات نہیں کرسکتی، تو وہ برتر انسانوں میں خود کو فناکردینا ضروری سمجھتی ہے اس کے لیے کوئی راستہ نہیں، سوائے اس کے کہ وہ اپنی روح اور اپنے جسم کے لیے ایک ایسے آدمی کا انتخاب کرے جو اس کے لیے مطلق اور مکمل اور ناگزیر ہو۔ چونکہ اس کا مقصد ہی دوسروں کے انحصار پر زندگی کرنا ہے تو پھر ظالموں کی۔ ماں باپ، شوہر، اور جس کی تحویل میں اس کی نگہداشت ہوتی ہے، ان کی بجائے اس کی تابعداری کیوں نہ کرے جو اس سے محبت کرتا ہے۔ ایسا مرد عورت کے لیے اس کا سب کچھ ہے، اس کا خدا ہے اور اسی لیے محبت عورت کے لیے ایک مذہبی احساس میں بدل جاتی ہے۔‘‘

    عورت کی محبت کے ان گنت روپ ہیں بے شمار کہانیوں اور ناولوں میں ان کی ماہیت کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ عزیزاحمد کے یہاں ’’زرین تاج‘‘ خطرناک پگ ڈنڈی، مموشکا۔ سستا پیسہ اور تصورِ شیخ میں کچھ روپ دیکھنے ملتے ہیں۔ ان افسانوں میں عورت اپنا چالیسواں دروازہ صرف ایک فرہاد، ایک شیرافگن، ایک محمد علی بارفروشی، ایک ہندوستانی طالب علم (مموشکا) اور ایک اسکاٹ لینڈ کے شرابی (سستا پیسہ) اور ایک کالے کلوٹے واجد میاں کے لیے کھلا رکھتی ہے، باقی انچالیس دروازوں کی کنجیاں ان شوہروں کے پاس ہوتی ہیں جو عورت کو تاج و تخت، تلوار اور دولت کے زور پر حاصل کرتے ہیں۔

    مأخذ:

    سوغات،بنگلور (Pg. 16)

      • ناشر: محمود ایاز
      • سن اشاعت: 1993

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے