Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

باقر مہدی: رگوں میں اچھلتا لہو کالی مٹی سے ملنے کو بے تاب ہے

شمیم حنفی

باقر مہدی: رگوں میں اچھلتا لہو کالی مٹی سے ملنے کو بے تاب ہے

شمیم حنفی

MORE BYشمیم حنفی

    بہت دن ہوئے اپنی ایک نظم ’کاش ایسا ہو!‘ (۱۹۸۱ء) میں باقر مہدی نے کہا تھا،

    بورژوازی۔۔۔ کتنے خوش ہیں

    دورتک انقلابی کرن کا۔۔۔ پتہ تک نہیں

    بوڑھے ترقی پسند شاعر۔۔۔ ادھیڑ عمر جدید یے۔۔۔ دونوں

    بڑے مطمئن ہیں۔

    جمہوری دربار میں سر جھکائے کھڑے ہیں

    حضور! اب کوئی سرکش نہیں۔۔۔!

    جب افق تا افق ایک سرکش بھی زنداں سے باہر نہ ہو

    تو سمجھ لو۔۔۔ قیامت کے آثار ہیں

    زمین شق۔۔۔ آسماں چاک ہونے کو ہے!

    اور یہ جمہوری کاغذی گلستاں خاک ہونے کو ہے!

    ایک بے تہہ اور بدحواس معاشرے میں سب سے زیادہ آزمائش اس کے سر آتی ہے جو اپنے معاشرے کے لئے بیگانہ یا باہر کا آدمی ہو۔ اس لحاظ سے باقر مہدی ہماری زبان بریدہ اور نارسیدہ اردو دنیا کے سب سے بڑے آؤٹ سائڈر ہیں۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے عہد کے لکھنے والوں میں ایسی کوئی مثال مشکل سے ملے گی جس نے باقر مہدی کی طرح زندگی اور شاعری کی حدیں ملانے کی ایسی کوشش کی ہو۔ زندگی بھی گردوپیش کے لئے بے گانہ سی، کچھ افسانہ سی ا ور شاعری سی۔ نثر و نظم اور خیال و اظہار کے جتنے اسالیب کو ہمارے زمانے میں قبولیت ملی، کم سے کم اردو کلچر کے سیاق میں، باقر مہدی کی زندگی، شاعری، تنقید سب کے سب اس سے مختلف ہے۔ گویا کہ نہ تو یہ زندگی قبولیت کے لئے سرگرداں ہوئی، نہ یہ شاعری۔ ایسی صورت میں نتیجہ وہی جو ہونا تھا۔

    باقر مہدی کی تحریروں میں معنویت کے جو منطقے رونما ہوئے ہیں، ہمارا مقبول عام اردو کلچر ان کی طرف سے عموماً بےنیاز رہا۔ یہ کیسی عدم مناسبت ہے اور کیا اس آبرو باختہ زمانے میں اپنی معنویت کی نشان دہی کے لئے، کسی لکھنے و الے کا اپنے وقت سے مطابقت اور مناسبت اختیار کرنا ناگزیر ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر آؤٹ سائڈرز کہاں جائیں گے اور کس دنیا میں ٹھہرنے کی جگہ پائیں گے؟ ادب کی روایت میں روشنی اور آگہی کے دروازے اسی مطعون ومقہور اور محدود جرگے کی جستجو کے باعث کھلتے ہیں۔ بہ قول غالب،

    رشک ہے آسائش ارباب غفلت پر اسد

    پیچ وتابِ دل نصیب ِخاطرِ آگاہ ہے

    ان دنوں اردو معاشرہ ایک عجب اور مبتذل کشمکش سے دوچار ہے۔ یہ کشمکش دو سوالوں کی پیدا کردہ ہے۔ ایک تو یہ اردو تنقید میں حالی کی جانشینی کامسئلہ کس طرح حل کیا جائے ؟ دوسرے یہ کہ جدیدیت کے تنازعے کا حل کیسے نکالا جائے کہ ان میں سے ایک کی برتری اور حکمرانی کا نقش ہمیشہ کے لئے قائم ہو جائے۔ باقرمہدی نے زندگی اور شاعری دونوں کی سطح پر اجتماعی سروکاروں کو ہمیشہ اہمیت دی ہے لیکن اس بحث سے وہ یکسر لاتعلق دکھائی دیتے ہیں۔ جہاں زاغ و زغن نے کہرام مچا رکھا ہو، بھلے مانسوں کی عافیت اسی میں ہے کہ چپی سادھ لیں۔ لیکن خاموشی اور لاتعلق کا مفہوم یکساں نہیں ہوتا۔ میں چاہتا ہوں کہ آگے بڑھنے سے پہلے، باقر مہدی کی دوسری تنقیدی کتاب تنقیدی کشمکش (اشاعت ۱۹۷۹ء) کے چند اقتباسات دیکھ لئے جائیں۔ پہلا اقتباس،

    ’’ادب میں نئے رجحانات یا تحریکوں کی ابتدا سرکشی سے ہوتی ہے جیسے فیوچرازم اور سرریلزم۔ اس سرکشی کے ابتدائی نقوش دیکھے جائیں تو معلوم ہوگاکہ اگر سرکش ادب ’’صالح‘‘ رول اختیار کرنے کی کوشش کرتے، تو جدیدیت کی تحریکیں اور رجحانات کلاسیکی ادبی اقتدار سے نہ ٹکراتے۔ بلکہ کسی نہ کسی قسم کی مفاہمت کو ’’نئی ادبی صورت گری‘‘ دے دی جاتی اور اس طرح ایک اسٹیٹس کو (Status quo) معمولی سی تبدیلی کے ساتھ قائم رہتا مگر جدیدیت کا حرف اول ’نفی‘ رہا ہے۔ یہ سفرکی بجائے ایک ایسی جدوجہد ہے، جو Self confilct سے شروع ہوتی ہے اور مسائل سے confrontation برابر کرتی رہتی ہے۔ اس لئے جدیدیت کی کوئی ایسی تعریف (Definition) ممکن نہیں جس کو عصا بناکر ’’ادب کادریائے نیل‘‘ پار کیا جا سکے۔‘‘ (مضمون، جدیدیت اور توازن، مشمولہ، تنقیدی کشمکش، ص۴۲)

    دوسرا اقتباس جارج اسٹانیر کے حوالے سے ہے۔ باقر مہدی لکھتے ہیں، ’’جدید شاعری صنعتی شہر کی پیداوار ہے، جب جارج اسٹانیر نے کہا تھا Nothing is more academic than modernism made frigid’ جدیدیت کو سرد بنانے سے زیادہ مدرسانہ عمل اور کوئی نہیں ہے۔‘ تو اس کا مطلب یہی تھا کہ جدیدیت کو اکیڈمک ماحول میں رکھ دیا جائے تو وہ اپنی گرمی کھو دیتی ہے۔‘‘ (حوالہ ایضاً ص ۵۴)

    اسی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے باقر مہدی لکھتے ہیں، بہر حال، جدید یت کے مفہوم کو توازن کے پیمانوں سے واضح کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک ذ ہنی رویہ نہیں ہے۔۔۔ بلکہ Radicalism کی اپک اہم شاخ ہے۔ کیا توازن کی تلاش میں سرریلزم کی جنم لے سکتی تھی جس نے اظہار کے معنی و مفہوم کو بدل دیا تھا؟

    اسی کتاب کے اگلے مضمون ’’کمٹ منٹ کی نئی بحث‘‘ کا آغاز باقرمہدی اس سوال کے ساتھ کرتے ہیں کہ، ’’آج کی صورت حال کا ایک جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ باغی آرٹسٹ کا ڈائیلما ابھی تک جاری ہے۔ یہ ڈائیلما ہے کس کس سے بغاوت کرے اور ترسیل کے کیا ذرائع استعمال کرے؟ یعنی سماج کے کس استحصالی طبقے سے برسر پیکار ہو اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو alienation علاحدگی کے کربناک عذاب کو کب تک برداشت کرتا رہے۔‘‘ (تنقیدی کشمکش، ص ۶۱)

    جس طرح خاموشی اور لاتعلقی کا مفہوم برابر نہیں ہوتا اسی طرح alienation اور تنہائی بھی ہم معنی نہیں ہیں۔ ہیگل نے alienation کی اصطلاح ایک نفسیاتی اور عمرانی تناظر کے ساتھ استعمال کی تھی۔ مارکس نے اس کا استعمال سیاسی اور تہذیبی سیاق میں کیا۔ تخلیقی سطح پر alienation یا تنہائی کا احساس میر، غالب سب کے یہاں ملتا ہے۔ لیکن سیاسی، معاشرتی، اقتصادی پس منظر میں اس اصطلاح کے معنی ہمارے اپنے عہد کے حوالے سے کھلتے ہیں اور ایک نئی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ انسان تاریخ کا خام موادنہیں ہے یا اجتماعی تعمیر اور ترقی کے عمل میں اس کی حیثیت کچے مال کی تو نہیں ہے۔ وھائٹ ہیڈ نے قطعیت کو مذاق کہا تھا۔ چنانچہ اس اصطلاح یعنی alienation کا بھی کوئی معین مفہوم نہیں قرار دیا جا سکتا۔

    باقر مہدی نے نہ صرف ان اقتباسات میں، جن کے حوالے اوپر دیے گئے بلکہ اپنی تقریباً تمام نثر و نظم میں اس عہد کی انسانی صورت حال کو تاریخ کے دائرے میں رکھ کر دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ وہ اُس ’’نئے پاگل پن‘‘ کے تجربے کا احاطہ بھی کرتے ہیں جسے مشینوں کی برتری اور ٹکنالوجی کی ترقی کے احساس نے جنم دیا ہے۔ ان کی تحریروں کا ایک اور امتیاز جس کی طرف دھیان دیا جانا چاہئے، یہ ہے کہ باقر مہدی حقیقت کی تلاش تو کرتے ہیں لیکن انہیں جس حقیقت تک رسائی کی طلب ہے وہ نقاب پوش نہیں ہے۔ ہر طرح کے تو ہم اور جذباتی غبار اور مذہبی بخار سے آزاد حقیقت کی جستجو دراصل ہمارے عہد کی ایک بن لکھی رزمیہ، ایک خاص دستورالعمل بن سکتی تھی، لیکن ترقی پسندی کے آسیب سے نجات اور ادب میں مقصدیت کے تصور کی نفی کے خبط نے ایسا بے ہنگم شور برپا کیا کہ نئی حسیت کے ظہور کے ساتھ جوبھی معقول دلیلیں ابھری تھیں، ان پر توجہ دی ہی نہیں جا سکی۔

    میرا خیال ہے کہ تنقید ی کشمکش کے ابتدائی مضامین،

    (۱) ترقی پسندی اور جدیدیت کی کشمکش

    (۲) جدیدیت اور توازن

    (۳) کمٹ منٹ کی نئی بحث

    (۴) کیا جدیدیت کی اصطلاح اب بھی بامعنی ہے؟

    ایک نیا ادبی منشور مرتب کرنے کی گنجائش رکھتے تھے۔ ایسا منشور جو جدیدیت اور مابعد جدیدیت ) دونوں کو ایک ساتھ سمیٹنے کا اہل ہو۔ باقر مہدی کے یہاں ایک خواہش جسے ان کی تحریروں کے محرک کی حیثیت دی جا سکتی ہے، وہ تخلیقی واردات اور تجربے کی ثقافتی تفہیم کی خواہش ہے۔ اس تفہیم کے لئے وہ ادب کو صرف ادب کے طور پر نہ تو پڑھنا چاہتے ہیں، نہ ہی ادب کی تخلیق میں صرف اس سطح کے پابند رہنا چاہتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہمارے عہد کی اردو تنقید اور ادبی منظرنامے پر ایک وسیع تر معاشرتی سیاق میں نظر دوڑائی جائے تو باقر مہدی بعض اعتبارات سے بہت مختلف اور منفرد دکھائی دیتے ہیں۔ فلسفہ، نفسیات، سماجیات، تاریخ، سیاسیات اور ادب کے رابطوں کا جتنا گہرا اور زندہ شعور ہمیں باقر مہدی کی تحریروں میں ملتاہے، کہیں اور نظر نہیں آتا۔

    جن لوگوں نے شیام لال کی کتاب Hundred Encounters کامطالعہ کیا ہے یا ان کے مضامین Life and Letters کے سلسلے پر نظر ڈالی ہے، اس خیال سے اتفاق کریں گے کہ شیام لال نے ادب کی تنقید سے بہ ظاہر الگ رہتے ہوئے بھی جس طرح ہمارے عہد کے تنقیدی شعور کی ترجمانی کی ہے، وہ ادب کے باضابطہ نقادوں کی بساط اور استعداد سے آگے اور شاید بہت دور کی چیز ہے۔ شیام لال کے مضامین میں ادب اور غیر ادب یا افسانہ، شاعر ی اور علوم یا تاریخ، سیاست اور سماج۔۔۔ سب مل کر ایک وحدت بناتے ہیں اور مجموعی انسانی واردات کی خانہ بندی نہیں کرتے۔ شیام لال کو باقر مہدی کے ذہنی سوانح اور ادبی کیریئر میں ایک مستقل حوالے کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ان کی پہلی تنقیدی کتاب ’’آگہی و بیباکی‘‘ (اشاعت ۱۹۶۵ء) اس وقت میرے سامنے نہیں ہے۔ مگر بقیہ دو کتابوں تنقیدی کشمکش اور شعری آگہی میں اوکتاویوپاز کا ایک اقتباس (پہلی کتاب میں حرف آغاز کے طور پر، دوسری میں حرف آخر کے طور پر) انہوں نے خاصے اہتمام سے نقل کیا ہے۔ اقتباس حسب ذیل ہے،

    ’’ادب بغیر تنقیدی افکار کے جدید نہیں کہلایا جا سکتا اور اگر وہ جدید کہلاتاہے تو بڑے مخصوص اور تضادی انداز کا ہوگا۔ تنقیدی فکر کی زبان استدلالی ہوتی ہے، ایک نارمل دوہری زبان یعنی یہ سامع کے وجود کو تسلیم کرتی ہے جو خود بھی گفتگو کرنا جانتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ صرف تنقیدی افکار ادب کی تخلیق نہیں کرتے ہیں۔ یہی نہیں، کسی فنی روایت یا سیاسی رجحان کی تخلیق بھی ممکن نہیں ہے۔ یہ اس کا مقصد بھی نہیں ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ صرف تنقیدی افکار وہ فضا پیدا کرتے ہیں جس میں آرٹ، ادب اور سیاست نشوونما پا سکتے ہیں۔‘‘

    اوکتاویوپاز (Octavio Paz) کے حوالے اور تذکرے شیام لال کی تحریروں میں بھی عام ہیں۔ ان کی تحریروں میں تو خیر بیسویں صدی کی سماجی فکر، سائنسی فکر، تخلیقی فکر، ادب، سیاست اور سماج پر اثر انداز ہونے والے ایسے ان گنت حوالے ملتے ہیں جنہیں عام شاعر یا ادیب چھوئے بغیر گزر جاتا ہے۔ باقرمہدی کی ذہنی کائنات اتنی بھری پری نہ سہی، پھر بھی ان کے مضامین میں اور ان کی شاعری کو پس منظر مہیا کرنے والی زمین میں سناٹے اور سادہ نگاہی کی وہ کیفیت دکھائی نہیں دیتی، جس نے ہمارے یہاں نئی حسیت کو ادھورا اور یک رخا بنا کر رکھ دیا۔ اس لئے باقر مہدی کی تنقید اور شاعری کسی چھوٹے سے چھوٹے گروہ سے بھی منسلک یا Identify نہیں کئے جا سکتے۔

    باقر مہدی ادب اور سیاست کی جدلیات کا، تاریخ اور تخلیق کی کشمکش اور تضادات کا بہت رچا ہوا شعور رکھتے ہیں۔ ان کے شعور کی تربیت میں ایسے کچھ اساتذہ کا ہاتھ رہا ہے جو سماجی علوم کے میدان میں ایک خاص اہمیت اور امتیاز رکھتے تھے۔ اودھ کے ایک روایتی اور رسم گزیدہ معاشرے، ایک دیندار اور پرانی وضع کے پابند گھرانے، ایک زمیندارانہ اور انحطاط پذیر ماحول میں آنکھیں کھولنے کے باوجود اور ایک متوازن، ٹھہری ہوئی زندگی کے منظریے سے قدیمی ربط کے باوجود، باقرمہدی کے ذہنی ہیجانات نے انہیں چین سے نہیں بیٹھنے دیا۔ باقر مہدی کی فطرت میں سرکشی اور بغاوت کے عناصر کا اظہار ان کی نثر و نظم کے اسلوب کو بھی ایک واضح پہچان دیتاہے۔ سکون، سکوت، ٹھہراؤ، توازن، رہ و رسم عام سے مناسبت باقر مہدی کی شاعری اور تنقید دونوں کا شناس نامہ نہیں بن سکتے۔ ایک مستقل اضطراب، اعصاب اور حواس پر پیہم دستکیں دیتی ہوئی، دل ودماغ کو پریشان کرتی ہوئی اور اپنے اندرونی پیچ و تاب سے نمودار ہوتی ہوئی آ گہی باقر مہدی کی نثر اور نظم دونوں کا امتیازی وصف کہی جا سکتی ہے۔

    پابلو نرودا کے ایک نقاد نے کہا تھا کہ اس نے ایک مرتے ہوئے سماج میں زندہ فن کی تخلیق کی۔ باقر مہدی کے بارے میں کم سے کم اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اخلاقی طور پر اپاہج، ایک مصلحت کوش دنیا میں ایک زندہ شعور، ایک بے چین اور برہم شخصیت کو بہرحال بچائے رکھا۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہئے کہ اپنی شخصیت سے باقر مہدی کی نثر و نظم کاکمٹ منٹ مکمل ہے۔ اپنے معاصرین کی شاعری اور تنقید سے باقر مہدی کی شاعری اور تنقید جو یکسر الگ نظر آتی ہے تواسی لئے کہ باقر مہدی کے شعور کی سیمابیت نے ان کی نثر و نظم کے داخلی آہنگ اور ترکیب پر بھی گہرا اثر ڈالا ہے۔ باقر مہدی تنقید میں کبھی بھی روایتی باتیں نہیں کرتے۔ وہ ایک بات جو محمد حسن عسکری نے اپنی تنقیدی تحریروں کے بارے میں کہی تھی کہ میں اپنے اعصاب سے پوچھ کر لکھتا ہوں، ہمارے زمانے کے لکھنے والوں میں سب سے زیادہ باقر مہدی پر صادق آتی ہے۔

    اسی لئے باقر مہدی کے ہر مضمون میں، حتی کہ روایتی موضوعات کی پابند تحریروں میں بھی، تنقید کو ایک انفرادی مشغلے اور شخصی سطح پر قبول کی جانے والی سرگرمی کے طور پر اختیار کرنے کا انداز نمایاں ہے۔ ہر مضمون سے کوئی نہ کوئی ایسا نکتہ ضرور ابھرتا ہے جو اجتماعی تجربوں کے تجزیے میں بھی ایک نجی واردات کا پتہ دیتا ہے۔ یہ ایک آواں گارد رویہ ہے جس کی تشکیل ایک طرح کی ریڈیکلزم سے مشروط ہے۔ اسی لئے باقر مہدی کے تصورات خالص ادب یا آرٹ اورادب کی جمالیاتی اقدار کے تابع نہیں ہیں۔ باقر مہدی تاریخ کی عاید کردہ شرطوں سے تخلیق اور تخلیقی تجربے کو آزاد کرنے کے پھیر میں کبھی نہیں پڑتے۔ تخلیقی تجربے کی ماہیت اور ترکیب کے تجزیے اور تفہیم میں وہ ان تمام سماجی عوامل اور عناصر کو کبھی نظرانداز نہیں کرتے جن کا راستہ تاریخ، سیاسیات، سماجیات اور اقتصادیات سے ہوکر رہ جاتاہے۔ ان کی مختلف تنقیدی تحریروں سے نمونتاً یہ چند بیانات دیکھئے،

    ’’جس لمحے میں (یہ) مضمون لکھ رہا ہوں تواسی لمحہ فدائین زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار ہیں۔ ویت نام کی جنگ جاری ہے۔ سوویت روس کا باغی ادبی الیکزنڈر گنز برگ نہایت خطرناک قید خانے میں پڑا ہوا ہے۔ کاسترو اپنی تقریر میں ٹراٹسکی، ماؤزے تنگ، سارتر اور مارکوزے کی شدیدمذمت کر چکا ہے، یعنی دور دور تک بظاہر کوئی ایسی امید نظر نہیں آتی کہ ڈائیلما کم ہو، لیکن یہی قومی اور بین الاقوامی کشمکش کے ڈرامائی مناظر، آرٹسٹ کے لئے تخلیقی سامان کرتے ہیں اور وہ اپنے علم اور تجربے کو بار بار پرکھتا ہے اور اس طرح ایک اندھی تقلید سے بچ جاتاہے۔‘‘ (کمٹ منٹ کی نئی بحث، تنقیدی کشمکش، ص ۳۶، ۶۴)

    اپنے نقطہ نظر کی تائید کے لئے اس مضمون میں باقر مہدی ایم۔ ایڈرتھ (M-Aderth) کی کتاب Commitment in Modern French Literature سے رجوع کرتے ہیں جس نے لوئی آراگوں اور سارتر کے خیالات سے اپنی کتاب میں تفصیلی بحث کی ہے۔ باقر مہدی مندرجہ ذیل نکات کی طرف خصوصی توجہ دینے پر زور دیتے ہیں،

    (تنقیدی کشمکش، ص ۶۶، ۶۵)

    (۱) کمٹ منٹ اور ادب ایک دوسرے سے ناقابل تقسیم حد تک ملے ہوئے ہیں۔ اس لئے کہ کمیٹڈ ادیب فرد اور سماج کی کشمکش، الجھے ہوئے مسائل اور جذبات کا جارحانہ اظہار کرتا ہے۔ اس کی عظمت اسی میں ہے کہ وہ اس خلفشار کا خاموش تماشائی نہیں ہے بلکہ اس ڈرامے کا ایک باشعور کردار بھی ہے۔

    (۲) کمیٹڈ ادیب و شاعر صرف سیاسی یا سماجی موضوعات ہی کو نہیں اپناتا بلکہ ان افراد کی جدوجہد، بے کسی اور چھوٹی چھوٹی بے نام خوشیوں کو پیش کرتا ہے جن کا بہ ظاہر موجود ہ سیاست یا سماجی الجھنوں سے سروکار نہیں۔

    (۳) ادبی مسائل کا صرف لسانی حل نہیں پیش کیا جاسکتا بلکہ اس کو بدلتے ہوئے حالات، شعور اور ادیب کی ذات کے ’’ٹوٹے آئینے‘‘ میں رکھ کر ہی دیکھنا ہوگا۔

    (۴) ادیب کے لئے کمٹ منٹ یہ ہے کہ وہ اپنی زبان کے مسائل سے پوری طرح آگاہ ہو اور اس کا ایمان (conviction) ہو کہ یہ بہت اہم ہیں۔

    جدیدیت کے فیشن ایبل اور یک رخے تصور سے، جسے بیسویں صدی کی ساتویں دہائی میں قبولیت ملی، باقر مہدی کو شکایت یہ ہوئی کہ اس تصور کے ترجمان ’’یہ جان گئے ہیں کہ جدیدیت کی سرکشی کو ’خالص ادبی‘ کے وار سے ختم کیا جا سکتا ہے یا کوشش کی جا سکتی ہے، اور انہیں یہ بھی علم ہے کہ جدیدیت کسی ’خلیفہ‘، کسی ’مقد س کتاب‘ اور کسی ’مذہب‘ کو نہیں مانتی تو اس کو ایک ’حلقے‘ میں رکھنے کا ایک ہی کارگر حربہ ہے۔ وہ ہے ’خالص ادب‘ کا نعرہ جو اس بار جدیدیت کی نقاب پہنے ہے۔‘‘ اس جذباتی انتہا پسندی نے جو شکل اختیار کی اور جدیدیت کے پورے میلان کو جو نقصان پہنچایا، سب کے سامنے ہے۔

    اردو میں جدیدیت اور ترقی پسندی کے تنازعے نے جو سطحیت زدہ اور مناظرانہ شکل اختیار کی، اس کی مثال دنیا کی کسی ترقی یافتہ زبان، یہاں تک کہ خود ہندوستان کی مختلف علاقائی زبانوں میں بھی نہیں ملتی۔ ہمارے زمانے کے نمائندہ لکھنے والوں کے سروکار (concerns) اردو میں جدیدیت کا علم بلندکرنے والوں سے بالعموم مختلف رہے ہیں۔ اس کے باوجود باقر مہدی کا خیال تھا کہ ’’ترقی پسندی سے منحرف’ اپنی ذات میں الجھے نئے ادیب اس ’فردوس‘ میں ضرور چلے جائیں گے۔ مگرآج کے نئے ادیب ترقی پسندی سے منکر ہونے کے باوجود زندگی کے خلفشار میں ہر قدم پر ہر لمحہ مبتلا ہیں اور یہ کشاکش ہی انہیں کمٹ منٹ سے وابستہ کرتی ہے۔

    (تنقیدی کشمکش، ص ۷۷)

    مضمون کا اختتامیہ یہ ہے کہ، ’’کمٹ منٹ کا تصور ایک انقلابی تصور ہے، اور یہ ایک مرکز، ایک راہ، ایک منزل پر رک کر نہیں رہ جاتا ہے بلکہ ادب، انقلاب اور سماج کے بنتے، ٹوٹتے اور بنتے رشتوں کو فروغ دیتا ہے۔‘‘

    گویا کہ سچی اور کھری جدید یت جو اپنے عہد کے تقاضوں سے انصاف کر سکے اور تاریخ کے حقوق کی ادائیگی سے منحرف نہ ہو، ایک انقلابی رویے کی پابند تھی۔ جذباتی عدم توازن اور ترقی پسند ی کی ضدنے ہمارے یہاں اس کا راستہ بند کر دیا، لیکن اردو کے بیشتر جدید شاعروں اور ادیبوں نے اگر جدیدیت کی تہہ میں کار فرما، آواں گارد کی بنیادوں سے غفلت نہ برتی ہوتی تو جدیدیت ایک وسیع تر اور ہمہ گیر تخلیقی اور تہذیبی مظہر کے طور پر اپنے آپ کو محفوظ رکھنے اور اپنا حقیقی رول ادا کرنے کی طاقت سے یوں محروم نہ ہو جاتی۔ مغرب میں جدیدیت کے جس تصور نے اس میلان کے تحت نموپذیر ہونے والی ادبی روایت کو مسترد ہونے سے بچائے رکھا، اس کے اثر سے شروع ہونے والی تحریکوں میں سرریلزم اور فیوچرازم کی معنویت جوں کی توں قائم ہے۔ اس تصور کے بعض بنیادی اوصاف مثلا ایکٹی وزم (activism)، جارحیت (antagonism)) اور درد پسندی (agonism) کے عناصر روایتی جدیدیت کے زوال کے بعد بھی ’’پوسٹ موڈرن‘‘ ادبی روایت کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ گویا کہ جدیدیت کے سوال کو تاریخ کے دائرے سے نکلنے اور تاریخ کو مسخ کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہونا ہی چاہئے تھا، بشرطیکہ اس نے اپنے تاریخی رول سے اس طرح روگردانی نہ کی ہوتی!

    آواں گارد کے ایک مفسر رینیٹو پاگیولی (Renato Poggioli) نے اسے ایک ذہنی رویہ کہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی اسی حیثیت نے اردو معاشرے میں اس کے فروغ کو نقصان پہنچایا ہو۔ کسی ذہنی رویے کی بنیادیں چاہے جتنی استوار ہوں، اسے قبول کرنے کے لئے اس پر غور و فکر کی شرط لازمی ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں گروہی وابستگی کے میلان اور بے سوچے سمجھے، محض دیکھا دیکھی کسی میلان کو قبول یارد کرنے کی روش بہت عام رہی ہے۔ آواں گارد رویوں کے پس پشت ایک خاص سطح پر اپنے عہد کے ادراک اور ایک سنجیدہ فکری سرگرمی کا سلسلہ بھی پھیلا ہوا تھا۔ اس کی طرف توجہ دلانے کی کوششیں ہمارے یہاں نہ ہونے کے برابر تھیں اور خود سے ان پر سوچ بچار کی عادت کے ہمارے لکھنے والے متحمل نہیں ہوئے۔ ایسی صورت میں باقر مہدی کے فکری تجسس کا بھی رسمی جدیدیت اور ترقی پسندی کے شور شرابے میں غائب ہوکر رہ جانا حیرانی کی بات نہیں ہے۔

    جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں، باقرمہدی کی نثر و نظم دونوں زندگی اور فکر کے ایک غیر رسمی، غیر روایتی، قدرے مشکل اور نامقبول اسلوب سے بندھے ہوئے ہیں۔ اپنے منتخب مضامین کے مجموعے (شعری آگہی) کا اختتام باقرمہدی نے اس جائزے کے ساتھ کیا ہے کہ، ’’اردو تنقید کا زوال شروع ہو چکا ہے۔ ایک عرصے سے اس کی ابتری جاری ہے۔ ہمارے ناقد commitment کے بہت مخالف رہے ہیں۔ ان میں حضرت وارث علوی بھی شامل ہیں اور آج تو اردو رسائل کی ابتری کی یہ حالت ہے کہ کارگل اور اڑیسہ میں تباہ کاری کا ذکربھی نہیں کرتے۔۔۔‘‘

    کیا واقعی ادبی تنقید کا مقصد اور منصب محض ایک محدود فنی وابستگی کے ساتھ ایک ادبی ذمے داری سے سبک دوش ہونا ہے؟ باقرمہدی کی تنقید پر اس سوال کا سایہ بہت گہرا ہے۔ چنانچہ اس سے رونما ہونے والی بصیرتیں، اس کے مصدرو ماخذ کی دنیا اور اس کے نظری اور فکری حوالے باقر مہدی کے معاصرین کی تنقید سے عموماً مختلف ہیں۔ ان کی تنقید سے ہمارا مکالمہ ایک نئی سطح پر قائم ہوتا ہے۔ باقر مہدی کی نثر و نظم کے بارے میں پہلا تاثر یہی مرتب ہوتا ہے کہ ان کی تعمیر اپنے آپ سے اور دنیا سے الجھتے ہوئے شدید احساسات کی زمین پر ہوئی ہے۔ اسرار، ابہام، نقاب پوش، سری اور مابعدالطبعیاتی تجربوں سے ان کا کچھ بھی تعلق نہیں ہے۔

    یہ تاثر باقرمہدی کی نظموں میں ان کی نثری تحریروں سے زیادہ نمایاں ہے۔ ان کا سب سے قابل ذکر اور لائق توجہ پہلو تزئین اور آرائش کے آزمودہ وسیلوں سے ان کا تمام وکمال عاری ہونا ہے۔ اس نکتے کی وضاحت سے پہلے باقر مہدی کی چند نظموں سے یہ اقتباسات دیکھتے چلیں،

    اک مدت کے بعد۔۔۔ میں

    اپنی نظموں کے صحرا میں

    واپس آیا ہوں۔۔۔!

    تنہامصرعے، بکھرے نغمے

    نیلے دھبے، سرخ لکیریں، الجھی فکر کی روشن گوشے،

    سستی مے کی نیند اڑانے والی بو،

    سگریٹ کا تلخ دھواں

    چندسوال۔۔۔ کیوں ہے یہ۔۔۔؟

    کیا ہے وہ۔۔۔؟

    مجھ سے مل کر۔۔۔ مجھ کو گھیرے میں لے کر

    حسرت سے تکتے رہتے ہیں۔

    اب میں اپنی نظموں کے صحرا میں

    ٹھوکر کھاتا پھرتا ہوں

    ایک اک مصرعے سے یوں ہی الجھتا رہتا ہوں

    ایسا کیوں ہے۔۔۔ ایسا کیوں ہے؟

    میں نے خود سے پوچھا ہے

    کیوں لکھتا ہوں کیوں۔۔۔؟

    یہ اظہار کی پیہم خواہش

    جینے کی بے معنی ہوس

    ک تک میرے ساتھ رہے گی؟

    (دیباچہ، ۲جون ۱۹۶۷ء)

    امریکی جٹ۔۔۔!

    ہرے بھرے جنگل پر ننھی ننھی کلیوں جیسے گاؤں

    کھلتے ہنستے شہروں پر

    آتش بازی کرتے ہیں

    یو۔ این۔ اواک بیوہ ہے۔ سارا تماشا خاموشی سے دیکھ رہی ہے

    دنیا بھر کے سارے مدبر، نیلے کاغذ لئے ہوئے سرگوشی کرتے پھرتے ہیں

    امن کی مریم جھاڑی جھاڑی چھپتی پھرتی ہے

    اس کے شیدا، زیتون کی ہر ایک شاخ، جلا جلا کر

    صلیب بنانے کا فن

    سیکھ رہے ہیں۔

    (ویت نام، ۱۹۶۵ء)

    اپنا چہرہ

    اپنی داڑھی

    نیم گنجا سر

    موٹے چشمے میں چھپی

    انسو منیا کی آنچ میں جلتی ہوئی

    آنکھیں

    کیسے رنگوں، دائروں، ٹیڑھی لکیروں

    اور لفظوں سے ابھاروں ؟

    راکھ کل کی

    آج کے ہنگامے

    آنے والی بھوری شامیں

    کیسے ان سب کو ملاؤں۔۔۔؟

    کس طرح اپنی بغاوت، قہقہے

    جینے کی لگن، ۔ قید،

    درد۔۔۔ غصے کو

    لفظوں، رنگوں اور لکیروں میں بدل دوں؟

    (سیلف پورٹریٹ، ۱۹۶۹ء)

    یہاں ٹوٹے شیشے کی آخری نظمیں (اشاعت ۱۹۷۲ء) کی ایک نظم ’’میری شاعری‘‘ پر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ باقر مہدی نے پولش شاعر Tadeusz Rozewicz کی اس نظم کو شاید ایک معروضی تلازمے یا اپنی حسیت کے آئینے کے طور پر دیکھا ہے۔ باقر مہدی نے یہاں متذکرہ نظم کے ترجمے میں گویا کہ خود اپنے ادراک اور طرز اظہار کی وضاحت کی ہے۔ اپنے شعری تجربے کی بابت ایک بیان دیا ہے۔ یہ چند مصرعے ملاحظہ ہوں،

    میری شاعری

    کوئی تفسیر عالم نہیں

    کسی شے کی کوئی وضاحت نہیں

    کوئی۔۔۔ قربانی تک پیش نہیں کرتی

    ہر اک چیز کو اپنے حلقے میں لیتی نہیں

    کسی کی امیدوں کی تکمیل کرتی نہیں

    کسی کھیل کے۔۔۔ نئے قاعدے وضع کرتی نہیں

    کسی کھیل میں کوئی حصہ بھی لیتی نہیں

    مگر اپنا رول

    شعوری طرح سے ادا کرنے کی ایک کوشش سی ہے

    مری شاعری کی زباں۔۔۔ پر تکلف نہیں

    اگر اس میں کوئی اپج بھی نہیں

    حیرتیں تک نہیں

    تو بظاہر۔۔۔ اشیایوں ہی ہونی چاہئیں!

    یہ نئے شعرا کے Anti-Poetic group کے ایک بانی شاعر کی نظم ہے اور باقرمہدی کی اپنی (طبع زاد) شاعری کے حساب سے دیکھا جائے تو یہ ان کی اپنی نظم بھی ہے۔ ایک کلاسکیت مخالف، غیر روایتی اور اینٹی پوئٹک (Anti-poetic) رو، باقر مہدی کی نظموں میں کالے کاغذ کی نظمیں (۱۹۶۷ء) سے تاحال مسلسل سرگرم دکھائی دیتی ہے۔ وہ نظم اس طرح کہتے ہیں گویا سانس لے رہے ہیں یا باتیں کر رہے ہیں اور زندگی کے ایسے تمام واقعات اور تجربوں کی بابت اپنا بیان رجسٹر کروانا چاہتے ہیں جن سے ان کی حسیت میں ارتعاش پیدا ہوا ہے۔ باقر مہدی کی شاعری کا افق رسمی، تقلیدی اور محدود نہیں ہے۔ شہر آرزو (۱۹۵۸ء) کی غزلوں میں بھی اپنی روایت سے وہ استفادہ کرتے ہیں تو یگانہ کے واسطے سے، جن کا مزاج اپنے ماضی اور حال دونوں کے معاملے میں حریفانہ رہا۔ یگانہ کے رویے میں اپنے ادبی اور فکری ماضی یا اپنے گردوپیش کی طرف ایک عام تاثر کے برعکس، صرف اکڑیا شخصی اختلافات کا عمل دخل نہیں تھا۔ وہ ایک ناآسودہ، برہم، بیزار، ناقدانہ نظر بھی رکھتے تھے۔ ان کے شعری احساسات کی سرشت بنیادی طور پر وجود تھی۔

    باقر مہدی کے عمومی رویے کے بارے میں بھی کم سے کم یہ بات صاف ہے کہ اس میں تیکھے پن، تیز ی اور برہمی کا سبب اس میں وجودی عناصر کی شمولیت ہے۔ باقر مہدی اپنے آپ کو justify کرنے یا اپنے ایقانات کی وکالت کرنے کے بجائے شاعری کے توسط سے صرف اپنا اثبات کرتے ہیں۔ اپنے ہونے کا پتہ دیتے ہیں، جو بات جس طرح بھی ان کے شعور میں داخل ہوتی ہے، ان کی آگہی کومنور اور احساسات کو مرتعش کرتی ہے، بے کم و کاست وہ اسے ویساہی پیش کر دیتے ہیں۔ ادعائیت، خوش گمانی، شاعرانہ تعلی، سجاوٹ، تصنع کے نشانات اس شاعری میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ محض گونگے احساس کی شاعری نہیں ہے اور ان تمام طوفانوں کی خبر دیتی ہے جن سے باقر مہدی کی بصیرت کا سامنا ہوا ہے۔ سامنتی عہد کے ادب کی بابت کسی نے کہا تھا کہ اس سے کرب اور پسینے کی بو آتی ہے۔ ہمارے عہد کا ادب یہ بتاتا ہے کہ آج انسان خود اپنے لئے متنازع بن گیا ہے۔

    باقر مہدی اپنی نثر و نظم کے ذریعے اپنے اخلاقی موقف، اپنے احساس ذمہ داری، زندگی اور تاریخ کے عمل میں اپنی شمولیت کی نشان دہی کرتے ہیں۔ لکھنا ان کے لئے ایک وجودی تجربہ، ایک مجبوری ہے اور یہ وجودی تجربہ وجودیت ناشناسوں میں عام محدود مریضانہ داخلیت پسندی کے تصور کی بجائے دراصل حقیقت کے اس ادراک سے مشروط ہے جو کائنات اور ذات کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتا اور انہیں ان کی اندرونی پیکار کے باوجود ایک دوسرے کی تکمیل کا وسیلہ بناتا ہے۔ اس شاعری کا جمالیاتی ذائقہ، اس کا آہنگ، اس کا ذخیرہ الفاظ، اس کی لسانی ساخت اور مجموعی مزاج، ساتویں دہائی کے ساتھ مروج اور مقبول ہونے والی رسمی جدیدیت کے سائے میں رونما ہونے والی شاعری سے مختلف ہے۔ یہ ہر طرح کے مزعومات سے، خود فریبیوں سے، فنکارانہ چونچلوں سے خالی ہے۔ یہ بیان کی شاعری ہے لیکن اس نے شعری بیان کا ایک نیا محاورہ وضع کیا ہے۔

    زندگی سے اپنے دوٹوک اوربراہ راست رابطوں کے باوجود یہ شاعری اظہار کا ایک بالواسطہ انداز بھی اختیار کرتی ہے۔ چنانچہ حقیقت اور ماورائے حقیقت کے منطقوں میں اس کی آمدورفت کاسلسلہ ساتھ ساتھ جاری رہتا ہے۔ تلخی کو گوارہ بنانے اور زندگی کو شاعری کی سطح تک لے جانے کے لئے شایدیہ ناگزیر بھی تھا۔ لیکن زندگی اور شاعری کی حدیں جب آپس میں ملتی ہیں تو دونوں کے لئے آزمائش بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کے لئے دونوں کوقیمت چکانی پڑتی ہے۔ چنانچہ باقر مہدی کی شخصیت اور ان کی شاعری، دونوں اپنے آپ میں ایک سوالیہ نشان بھی ہے۔ اردو کی نئی شعری روایت اور نئی تنقید کی روایت دونوں ہی اس سوال کا جواب فراہم کرنے سے قاصر رہے ہیں۔

    مأخذ:

    ہم سفروں کے درمیاں (Pg. 129)

    • مصنف: شمیم حنفی
      • ناشر: انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی
      • سن اشاعت: 2005

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے