Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چلتے پھرتے چہرے

راجندر سنگھ بیدی

چلتے پھرتے چہرے

راجندر سنگھ بیدی

MORE BYراجندر سنگھ بیدی

    اس وقت میں صرف ایک ہی چہرے کی بات کر رہا ہوں جو بہت ’’چلتا پھرتا ہے۔۔۔‘‘ اور وہ چہرہ آج کل کے عام نوجوانوں کا ہے۔۔۔ چنانچہ میرے بیٹے کا بھی۔

    اپنے بیٹے کا چہرہ دکھانے کی کوشش میں، اگر کہیں بیچ میں آپ کو میرا چہرہ بھی دکھائی دینے لگے تو برا مت مانیےگا۔ کیوں کہ میں آخر اسی کا باپ ہوں، اپنے بیٹے پر ہی گیا ہوں۔ چنانچہ جو کچھ بھی آپ کو میرے بیٹے کے خلاف لکھا ہوا معلوم ہوگا، وہ دراصل میرے اپنے ہی خلاف ہوگا۔ کیونکہ اسے اس دنیا میں لانے کے علاوہ اس کی جسمانی اور ذہنی تربیت کا ذمہ دار میں ہوں۔ البتہ جو اس کے حق میں کہوں گا، وہ میرے بیٹے کی اپنی لیاقت ہوگی، جس میں میرا رتی بھر بھی قصور نہیں۔

    میرے بیٹے کا قد لمبا ہے اور رنگ کسی قدر کھلتا ہوا، حالانکہ میرا قد چھوٹا ہے، اور رنگ بھی پکا۔ اس کی وجہ غالباً میری بیوی ہے جس کے میکے میں سب لوگ لمبے قد کے ہیں اور رنگ کے گورے۔ میاں بیوی کے ملاپ سے جو نتیجہ نکلتا ہے اس سے کھٹکا ہی لگا رہتا ہے۔ نہ معلوم کیا چیز نکل آئے؟ مثلاً ایکٹرس ہیلن ٹیری نے جارج برنارڈشا کو لکھا تھا، ’’ہم دونوں کا ملاپ ہو جائے تو اولاد کتنی اچھی ہو؟‘‘ جس پر برنارڈ شا نے جواب دیا تھا، ’’مادام بدقسمتی سے اگر بچہ کو شکل میری مل گئی اور عقل آپ کی تو۔۔۔؟‘‘ شاکو تو آپ جانتے ہی ہیں۔ اس لیے اگر آپ کو ان کا یہ لطیفہ پٹا ہوا معلوم ہو تو اندازہ کیجیے۔ اگر بچے کو شکل ہیلن کی اور عقل شاکی مل جاتی تو؟

    میرا بیٹا بہت دبلا ہے۔ مجھے یہی کھٹکا لگا رہتا ہے کہ وہ کسی جیٹ ہوائی جہاز کے بہت ہی قریب نہ چلا جائے یا کوئی میرے بیٹے کے بہت ہی قریب منہ کرکے پھونک نہ ماردے۔ اس کے مہین سے چہرے پر موٹی سی ناک رکھی ہے جو اس بات کے انتظار میں رہتی ہے کہ چہرے کے باقی خدوخال بھی بھر جائیں تاکہ وہ خود معقول معلوم ہو اور بات بات پر اسے لال نہ ہونا پڑے۔ اس وقت میرے بیٹے کے ناک کے نتھنے یونان سے ہندوستان تک بھاگ کر آئے ہوئے سکندر کے گھوڑے بوس قیلس کے نتھنوں کی طرح کھلتے بند ہوتے ہیں۔ یا اس وقت کام میں آتے ہیں جب انہیں اپنے مالک کی انا یا وہم کو جتانا ہو، ورنہ وہ تو مہینے میں تین چار بار صرف زکام کی وجہ سے بند رہتے ہیں۔

    اس کے زکام کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جوانی میں مجھے بھی اکثر زکام ہوا کرتا تھا۔ لیکن میں نے ورزش کرکے، وقت پر سوکر اور وقت پر جاگ کر اسے ٹھیک کر لیا تھا۔ لیکن میرا بیٹا اس زکام کو بالکل انقلابی طریقے سے ٹھیک کرتا ہے۔ وہ رات ایک ڈیڑھ بجے تک میکس یا نیویارک کا ہفتہ وار انگریزی رسالہ ’’ٹائم‘‘ پڑھتا رہتا ہے، جس پر اس کا دنیا بھر کے علم کا مدار ہے اور پھر صبح سب سے آخر میں اٹھتا ہے، جب کہ اس کے بہن بھائی اسکول وغیرہ جا چکے ہوتے ہیں۔ ماں گھر کا سب کام کر چکی ہوتی ہے اور میرا ایک پیر گھر کے اندر ہوتا ہے اور ایک باہر۔ تب وہ نیند کا ماتا میرے پاس آتا ہے اور مجھے یوں دیکھتا ہے جیسے میں کوئی اجنبی ہوں۔ اسے دیکھتے ہی پہلے میں سلام کرتا ہوں۔ میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ اگر ایک بار میں نے اس کو سلام کے سلسلے میں آنا کانی کر دی تو وہ مجھے کبھی سلام نہیں کرےگا۔ اس کا کچھ نہیں جائےگا۔ میرا سارا دن کڑھتے رہنے کی وجہ سے برباد ہو جائےگا اور آپ جانتے ہیں کہ دنوں کے تسلسل ہی کو زندگی کہتے ہیں۔

    میرے بیٹے کے ہونٹ پتلے ہیں اور ٹھوڑی مضبوط جو ایک پکے ارادے کا ثبوت ہے اور جسے وہ اکثر اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں پر استعمال کرتا ہے۔ آنکھیں چھوٹی ہیں جن سے پاس کا تو سب کچھ دکھائی دیتا ہے اور دور کا اتنا بھی نہیں جتنا کوئی صحت مند آدمی، مٹی کا ڈھیلا پھینک سکے۔ اس لیے میرا بیٹا آج کل کے نئے علم کا چشمہ پہنتا ہے۔ اس کی آنکھوں پر کی بھویں گھنی ہیں جو خلوص کی نشانی ہوتی ہیں۔ یہ بات نہیں کہ میرے بیٹے میں خلوص نہیں۔ اس میں خلوص ہے، بہت ہے لیکن اس کے باوجود وہ کسی آدمی سے دھوکا نہیں کھاتا اور یہ آج تک میری سمجھ میں نہیں آیا کہ آدمی کا دل صاف ہو اور اس میں خلوص ہو، پھر بھی وہ دھوکا نہ کھائے؟

    میرے بیٹے کا ماتھا چھوٹا ہے، کہتے ہیں ایسی تنگ پیشانی کے لوگ زیادہ بھاگیہ وان نہیں ہوتے۔ جس کا ایک ثبوت تو یہ ہے کہ وہ راک فیلر کے گھر میں پیدا ہونے کی بجائے ہمارے گھر میں پیدا ہو گیا۔ لیکن جب میں دیکھتا ہوں کہ اس کی ماں کام کر کرکے مری جا رہی ہے، میں مر مر کے کام کرتا جا رہا ہوں اور وہ مزے سے لیٹا ہوا ہے تو مجھے بزرگوں کی کسی بات پر یقین نہیں رہتا۔ وہ فطرتاً بے صبر واقع ہوا ہے۔ اگر وہ کسی کی بات بیچ میں نہ کاٹے تو اپنے چہرے پر کے رگ وریشوں کی خفیف سی جنبش سے دوسرے کو اس بات کا یقین دلا دیتا ہے کہ آپ کی بات تو میں آپ کے کہنے سے پہلے ہی سمجھ گیا تھا۔ اس پر بھی آپ کہتے رہنا چاہتے ہیں تو بڑی خوشی سے۔ اور یہ اس کی اسی ناطق خاموشی کی وجہ ہے کہ اسے اپنے باپ کو کبھی بیوقوف کہنے کی ضرورت نہیں پڑی۔

    غالباً یہ اس کی بے صبری نہیں، آج کل کی دنیا تیز رفتار ہے جس سے میرا بیٹا مطابقت رکھتا ہے اور میں نہیں رکھتا۔ وہ کار بھی چلائےگا تو چالیس پچاس میل کی اسپیڈ پر اور میں بیس پچیس پر ٹٹرک ٹوں رہوں گا۔ اس نے کئی ایک ایکسیڈنٹ بھی کیے، جن میں سے دو تو بہت قیمتی تھے۔ ایک کوئی اٹھارہ سو روپے کا تھا اور دوسرا کوئی بارہ ساڑھے بارہ سو کا۔ اور اس پر بھی مجھے ڈر تھا کہ وہ مجھے اس بات پر شرمندہ نہ کرے کہ میں اسے شرمندہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔

    ایک دن میں اور میرا بیٹا کار میں بیٹھے ہوئے جارہے تھے۔ میں حسب معمول سلواسپیڈ میں تھا۔ اچانک پیچھے سے کوئی بچہ بھاگ کر آیا۔ اسے کار کا دھکا لگا تو فٹ پاتھ پر جاگرا۔ خیر یہ ہوئی کہ اس کی جان بچ گئی اور ساتھ ہی ہماری بھی۔ ہسپتال سے اسے مرہم پٹی کروانے کے بعد ہم گھر کے لیے روانہ ہوئے تو میں نے اپنے بیٹے سے کہا، ’’دیکھا۔۔۔ میں تمہاری اسپیڈ پر ہوتا تو بچہ مر گیا ہوتا۔‘‘

    ’’آپ میری اسپیڈ پر ہوتے۔۔۔‘‘ میرے بیٹے نے کہا، ’’تو بچے کے آنے سے بہت پہلے نکل گئے ہوتے۔‘‘

    یہ شاید خلیل جبران نے کہا ہے کہ آپ اپنے بچے کو اپنا جسم اور ذہن دے سکتے ہیں، اپنے خیالات نہیں دے سکتے۔ ایک تو یہ کہ لکھنے والوں نے بڑی گڑبڑ کی ہے۔ وہ الفاظ میں حقیقت کا ایک ایک لمحہ جکڑ لیتے ہیں۔ اس وقت آدمی یہ نہیں سوچتا کہ دنیا کی ہر چیز ایک اضافی حیثیت رکھتی ہے اور کوئی حقیقت مطلق نہیں۔ حقیقت ایک مقامی حیثیت رکھتی ہے اور کاہلی پسند، کند ذہن اس وقت پڑھنا اور سوچنا بند کر دیتا ہے اور اس محدود حقیقت کو دنیا بھر پر پھیلاتا رہتا ہے۔ کوئی خلیل جبران سے پوچھے، ’’کیوں بھئی۔۔۔ ہم انہیں اپنے خیالات کیوں نہیں دے سکتے؟‘‘

    پھر کیوں ہمیں کہا جاتا ہے کہ میاں بیوی کو بچوں کے سامنے لڑنا جھگڑنا نہیں چاہیے۔ حالانکہ یہی فطری جھگڑا ہے جسے دیکھ کر بچے کو سمجھنا چاہیے کہ زندگی صرف قلاقند ہی نہیں کونین کی گولی بھی ہے۔ اور اس آدمی کا آپ کیا کریں گے، جس نے کبھی کبھی بچے کو ماں باپ کا ننگا بدن دکھانے کی سفارش کی ہے۔ یہ خارجی زندگی ہے جو بچے کے خیالات کی رہنمائی کرتی ہے اور آخر اس کی ’’پریرنا‘‘ کا حصہ ہو جاتی ہے۔ آج کل کے بچے کانوں اور آنکھوں کے ذریعے سے ہزاروں آوازوں اور تصورات کو اپنے دل میں اتار لیتے ہیں اور کچھ اس انداز سے کہ نہ آپ جان سکتے ہیں اور نہ میں جان سکتا ہوں۔

    آج کا بچہ اس بات کو قبول نہیں کرتا کہ اسے کوئی جنم دے گیا تھا یا وہ برسات کے پہلے قطرے کے ساتھ اس دھرتی پہ ٹپکا تھا۔ وہ اپنے بڑوں سے اپنی اور ان کی پیدایش کے بارے میں سوال پوچھتا ہے اور رسمی جواب حاصل کرکے چپکے سے قلم اٹھاتا ہے اور اپنے جوابی مضمون میں لکھتا ہے۔۔۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے پورے خاندان میں چار پشت سے کوئی بھی قدرتی طریقے سے پیدا نہیں ہوا۔

    دراصل کرشی وِیاس سے لے کر وشنو پربھاکر تک سب لکھنے والوں نے گڑبڑ کی ہے۔ وہ اس زمانے سے اتنا ہی پیچھے ہیں، جتنا زمانہ ان سے آگے ہے۔ چلیے وقت کے اعتبار سے ہی سہی، مانیے ہم نے سب کچھ پایا ہی نہیں، کھویا بھی بہت کچھ ہے۔ لیکن اس کھونے میں جو کچھ ہم نے پایا ہے، اسے کالی داس، بھوبھوتی اور شیکسپیئر آج نہ پا سکیں گے۔ میں آپ سے درخواست کروں گا کہ مجھے اتنا تاؤ نہ دیجیے کہ میں اِن بڑے لوگوں کو آج کے نقطۂ نظر سے دیکھوں، میں کس قدر بے بضاعت ہوں، ان مہان ہستیوں کے مقابلے میں۔ لیکن آج کے نوجوان کو میرا یہی مشورہ ہے کہ مجھے پڑھیں اور پھینک دیں اور واقعی کسی نامحسوس دلیل کی بنا پر مکمل طور پر رد کر دیں اور میں یہ محسوس کروں۔ میرا بیٹا بھی ٹھیک ہے اور میں بھی غلط ہوں!

    میرا بیٹا میری اتھارٹی کو نہیں مانتا، کسی کی اتھارٹی کو بھی نہیں مانتا۔ میں روتا ہوں۔ میرے بڑوں اور پیش روؤں کی روحیں کسی آسمان میں کلبلاتی ہیں اور وہ میرے ساتھ مل کر اس بات کو بھی بھول جاتے ہیں کہ وہ بھی اپنے زمانے میں انقلابی تھے اور انہوں نے اتھارٹی کے خلاف جہاد کیا تھا اور اس کی وجہ سے کڑی مصیبتیں اٹھائی تھیں۔ کیونکہ ان کے زمانے میں بھی ہماری ہی طرح کے ماں باپ تھے۔ حاکم تھے۔ مذہبی پیشوا تھے۔ انہوں نے بھی وقت کو تھامنے کی کوشش کی تھی اور نئے اخلاق کو دیکھ کر سرپیٹ لیا تھا!

    آپ اندازہ تو کیجیے کہ میرے بیٹے کو کن چیزوں سے نبٹنا پڑتا ہے، زندگی کی رفتار سے، قدم قدم پر ایک کڑے مقابلے سے، مادی اور روحانی قدروں کی کشاکش سے، پرانے اور نئے کے جھگڑوں سے۔۔۔ میں نے اگر بہت پڑھا بھی ہے تو میرا ذہن جاگیردارانہ ہے لیکن میرے بیٹے کا نہیں۔ میں ایک خاص قسم کا ادب اور متابعت اس سے مانگتا ہوں جو وہ مجھے نہیں دے سکتا اور دینا بھی نہیں چاہتا۔ میں جب اس کی طرف دیکھتے ہوئے جھلاکر کہتا ہوں۔۔۔ تم آج کل کے نوجوانوں کو کیا ہو گیا ہے، تو میں یہ بھول جاتا ہوں کہ یہی فقرہ مجھے بھی میرے ماں باپ نے کہا تھا۔ ہمارے بڑوں کے زمانے میں سرطان (کینسر) صرف ایک پھوڑا تھا جس پر کوئی مرہم لگایا جاتا تھا اور مصفیٰ خون کی بوتل پینی پڑتی تھی۔ ان کے زمانے میں دباؤ اتنے نہ تھے کہ انسانی شخصیت ایک ٹوٹے ہوئے آئینے کی طرح نظر آئے۔۔۔

    جب ’’سکز و فیرنا‘‘ کا لفظ ایجاد نہ ہوا تھا۔ خواب آور گولیاں استعمال نہ ہوتی تھیں اور نہ لوگوں کو ایل۔ ایس۔ ڈی چوبیس یا اس کھمب کا پتا تھا جس کا رس پی کر۔۔۔ انسان کو اپنا ہی لطیف جسم گہرائیوں میں اترتا اور بلندیوں پر پرواز کرتا دکھائی دیتا ہے اور جن بےحد حسین سبزہ زاروں میں وہ جاتا ہے، وہ انسان کے اپنے دماغ اور اس کے شعور کی تہیں ہیں جن میں سیلاکانٹ مچھلی سے لے کر آئنسٹائن تک کے سب مجربات چھپے پڑے ہیں اور جہاں تک پہنچنے کے لیے ہمارے رشی منیوں نے ہزاروں سال تپسیا کی۔

    یہ کہ میں اپنے بیٹے کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا، ایک حقیقت ہے۔ اگر آپ سمجھیں کہ یونہی میں نے اپنے آپ کو صفر کرنے کی کوشش کی ہے تو مجھ پر بڑا ظلم ہوگا۔ اگر میں جانتا بھی ہوں کہ سوئز کی نہر فرانسیسی انجینئر ڈی لیلپس نے بنائی تھی تو بھی میں اپنے بیٹے کے سوالوں کا جواب کچھ اس انداز سے دوں گا جس سے اس کی تسلی نہ ہوگی اور میں اس بات کو چھپانے کی کوشش کروں گا۔ میں بھی سب باپوں کی طرح جاہل ہوں اور میرا زمانہ لد گیا ہے۔ میری حیثیت اس وقت اس ’’ڈیڈی‘‘ کی طرح ہوگی جس کے بیٹے نے پوچھا، ’’ڈیڈی! یہ مصر کے مینار کیوں بنائے گئے ہیں؟‘‘

    ’’خدا معلوم۔ بس بنا دیے، اگلے وقتوں میں بہت زیادہ وقت تھا لوگوں کے پاس!‘‘

    ’’زراف کی گردن اتنی لمبی کیوں ہے ڈیڈی؟‘‘

    ’’بھائی کسی جانور کی لمبی ہوتی ہے اور کسی کی چھوٹی۔‘‘

    ’’ڈیڈی! بچہ صرف عورت ہی کو کیوں پیدا ہوتا ہے؟‘‘

    ’’کیسی باتیں کرتے ہو۔ اگر مرد کا بچہ پیدا ہونے لگے تو پھر وہ عورت نہ ہو جائے!‘‘

    ’’ڈیڈی! اگر آپ میرے سوالوں سے خفا ہوتے ہیں تو میں نہ پوچھوں۔‘‘

    ’’نہیں نہیں پوچھو بیٹا، سوال نہیں پوچھوگے تو علم کیسے ہوگا؟‘‘

    میرا بیٹا رات کو کیا سوچتا رہتا ہے؟ کیوں رات دیر تک اسے نیند نہیں آتی؟ کیا صرف روغن بادام یا خواب آور گولیا ں ہی اس کا علاج ہیں؟ کیا اسے سیکس ستاتا ہے؟ کیونکہ اس کی عمر ستائیس سال کی ہو چکی ہے اور اس کے چند مطالبے جائز ہیں۔ پھر اس نے شادی سے کیوں انکار کر دیا۔ کیا صرف اس لیے کہ جب تک وہ اس دنیا کی تگ و دو میں اپنا مقام نہ بنائےگا، کسی لڑکی کی زندگی تباہ نہ کرےگا؟ کیوں ہمارے زمانے میں لوگ اس عقیدے پر شادی کر لیا کرتے تھے کہ عورت لکشمی ہوتی ہے؟ اس کے آنے سے قسمت کے دروازے اپنے آپ کھل جاتے ہیں۔ اکثر وہ نہیں کھلتے تھے، صرف چند تاریک مستقبل والے بچے اس دنیا میں چلے آتے۔

    میرے بیٹے کے خیالات کیا ہیں؟ میں ان تک پہنچنے کی کوشش تو کروں۔ اس کی روح میں اتر کر دیکھوں کہ وہ کیوں اتنا خود غرض ہو گیا ہے؟ کیوں وہ دوسرے کسی کے باپ کے پیر بھی چھوتا ہے لیکن صبح اٹھ کر اپنے باپ کی طرف دیکھتا بھی نہیں۔ کیا صرف اس لیے کہ دوسرے کا باپ امیر کبیر ہے اور اس نے اپنے بیٹوں کو دولت اور شہرت کے ساتویں آسمان تک پہنچا دیا ہے۔ حالانکہ میرے بیٹے کے باپ نے چند کالے صفحوں کے علاوہ اسے کچھ نہیں دیا۔ کیا یہ کہہ دینا کافی ہے کہ آج کل کے دوسرے نوجوانوں کی طرح میرا بیٹا بھی راتوں رات لکھ پتی ہو جانا چاہتا ہے اور نہیں جانتا کہ پیسا کمانے کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے۔ ایک ردّے پر دوسرا ردّا رکھنا پڑتا ہے؟ جیسے وہ مذہب اور دوسری رسوم و روایات کا قائل نہیں، وہ گردوپیش کی دنیا کو دیکھ کر اس قسم کی محنت کا بھی قائل نہیں، ایسے نظام کا بھی قائل نہیں جس میں کچھ لوگ مرتے رہتے ہیں اور کچھ عیش کرتے ہیں اور کھلے بندوں کہتے ہیں۔۔۔ بزنس میں تو سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔

    میں سمجھتا ہوں، میرا بیٹا میرا نام استعمال کرتا ہے اور اس میں کوئی شرم نہیں سمجھتا۔ ایک دن مجھے پتا چلا کہ وہ میرا بیٹا ہونے کی وجہ سے مجبور اور شرم سار ہے۔ میری وجہ سے وہ کسی سے دس روپے بھی نہیں مانگ سکتا۔ میں نے ہنسی کی آڑ میں اپنے آپ کو بچانے کے لیے کہا، ’’بیٹا تو پھر تم سو مانگا کرو۔‘‘ اور مجھے پتا چلا کہ وہ میری زندگی میں سے جذباتیت اور مثالیت کو یکسر نکال دینا چاہتا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ اس کے باپ کی اتنی حیثیت تو ہو جائے کہ وہ کسی سے لاکھ دو لاکھ مانگ سکے جس سے وہ ایک فلم بنائے اور اس سے کئی لاکھ کمائے۔

    اس قسم کی مادّہ پرستی، خودغرضی، سگریٹ، شراب، عورت کی وجہ سے باپ اپنے بیٹوں کو اپنی زمین جایداد سے برطرف کر دیا کرتے تھے۔ لیکن مادی معنوں میں میرے پاس ہے ہی کیا، جس سے بیٹے کو برطرف کر دوں؟ اگر وہ کسی بات سے ناراض ہوکر چلا جائے تو پھر میں ہی اسے ڈھونڈتا پھروں گا اور اگر میں کہیں چلا جاؤں تو وہ مجھے نہیں ڈھونڈےگا۔ اس لیے میں سخت وحشت کے لمحوں میں بھی چپکے سے گھر چلا آتا ہوں کیونکہ میں چاہتا ہوں میرا بیٹا کہیں چلا نہ جائے۔ میں اسے برطرف کرنے کی نہیں سوچتا۔ اس بات سے ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے انسانی اصول کے کلبلاتے ہوئے درخشاں مستقبل سے برطرف نہ کر دے۔

    مأخذ:

    مکتی بودھ (Pg. 152)

    • مصنف: راجندر سنگھ بیدی
      • ناشر: ڈائرکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2011

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے