Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

داغ کا شہر ہوس

قاضی جمال حسین

داغ کا شہر ہوس

قاضی جمال حسین

MORE BYقاضی جمال حسین

    داغ نے اپنے اشعار میں جو دنیا خلق کی ہے اور اسے جس کردار سے آباد کیا ہے وہ قاری کے لیے ایک خوشگوار تجربہ ہے۔ معشوق، عاشق، ناصح اور قاصد اگرچہ شاعری کے روایتی کردار تھے اور بزمِ یار و کوچۂ دل دار کی سرگرمیاں بھی، کلاسیکی غزل کی روایت سے آگاہ اردو کے ایک عام قاری کے لیے کچھ نئی نہیں تھیں، لیکن داغ نے جلوت و خلوت میں، محبوب کی شخصیت کے جن پہلوﺅں کو نمایاں کیا ہے اور وصال و ہجر کی کیفیات کو جس زاویے سے دیکھا ہے، وہ داغ کا اختصاص ہے۔ روایتی کرداروں کا غیر روایتی انداز اور جانی پہچانی جگہوں کا سا لطف پیدا کردینا، داغ کی معجز بیانی اور طلسم بندی کا کرشمہ ہے۔

    داغ کی غزلوں کے کردار اپنی پیش قدمی، طرح داری اور جرأتِ اقدام سے حیرت زدہ کردیتے ہیں۔ اس شعری کائنات میں کرداروں کی گفتگو اور ان کے باہمی ربط و تعلق کی نوعیت، زندگی کی حرارتوں سے ایسی معمور ہے کہ قاری دیر تک اس شہر کی دریافت پر سرشار رہتا ہے۔ قاری کی یہ سرشاری دراصل نشاطِ آگہی کی ایک صورت ہے کہ اس ’’شہرِ ہوس‘‘ میں اس کے خوابوں کی تعبیر اور آرزوﺅں کی تسکین کا سامان فراہم ہے۔ داغ کی اس شعری کائنات میں یوں تو کچھ بھی ایسا نہیں جسے انوکھا کہیے۔ وہی افسانۂ الفت ہے جسے ہر شاعر اپنے اپنے انداز سے ہمیشہ کہتا آیا ہے، لیکن داغ نے اپنے محدود سرمایۂ الفاظ کے باوجود جس طرح اس قصّے کی جزئیات بیان کی ہے ں اور جس طرح کرداروں کی شخصیت کو روشن کیا ہے، اس سے اس کہانی کا پورا Patternمتاثر ہوا ہے۔

    وہی جھگڑا ہے فرقت کا وہی قصّہ ہے الفت کا

    تجھے اے داغ کوئی اور بھی افسانہ آتا ہے

    بلاشبہ داغ کے تجربات میں اس اعتبار سے تنوع نہیں کہ ’’حرفِ مدعا‘‘ بس ایک مرکز ثقل کے گرد گھومتا ہوا محسوس ہوتا ہے لیکن حرفِ مدعا کی پیش کش ہر گردش میں ایک نیا Patternبناتی ہے۔ داغ کے سلسلے میں ناصر کاظمی نے نہایت پتے کی بات کہی ہے،

    ’’داغ کی غزل بساطِ شطرنج کی مثال ہے جس میں گنے چنے مہروں کی طرح چند الفاظ ہیں لیکن شطرنج کی چالوں کی طرح ہر مرتبہ ایک نیا لہجہ اور اندازِ بیان دیکھ پڑھنے والے کا دل پھڑک اٹھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ داغ جب کسی دوسرے شاعر کی زمین میں بھی غزل کہتا ہے، اسے اپنی غزل بنالیتا ہے۔‘‘

    (خشک چشمے کے کنارے۔ ص، ۳۴۱)

    داغ کا مخصوص رنگ اور اس کی منفرد طرز اسی حرفِ مدعا کے مخصوص پیرایۂ اظہار سے عبارت ہے۔ یہاں نہ تشبیہات کی کثرت ہے نہ استعاروں کی ندرت اور نہ ہی پیکروں کا ہجوم لیکن بہ ظاہر سادہ سا شعری تجربہ، روزمرے اور لہجے کی مدد سے ایک نئے قالب میں ڈھل جاتا ہے۔ شعری تجربے کی اس سادگی کا احساس جتنا عام ہے، اس کی پیش کش میں پُرکاری کا تجزیہ اتنا ہی دشوار ہے،

    میرا طریقِ عشق جدا ہے جہان سے

    چلتا ہوں چھوڑ چھوڑ کے ہر رہ گزر کو میں

    جہاں سے جدا، داغ کے اس طریقِ عشق میں ہماری توجہ کا مرکز سب سے پہلے ’’محبوب‘‘ بنتا ہے۔ ذہنی اور جسمانی اعتبار سے ایسا نارمل اور روشن خیال محبوب غزل کی پوری روایت میں خال خال ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ محبوب اسی زمین کی مخلوق ہے۔ چنانچہ اس کا پورا رویہ زندگی کے تئیں بھی اور عاشق کے لیے بھی ارضی اور انسانی ہے۔ ذہنی بیماری کی حد تک نہ تو ستم پیشہ و جفاکار ہے نہ ہی کسی نفسیاتی مریض کی طرح خود بین اور خود پسند۔ بلکہ جذبات کے فطری اظہار پر تہذیب اور روایت کی حد سے بڑھی ہوئی پابندیاں بھی اسے گوارا نہیں۔ سہل آمیز ہے، محبت کا جواب محبت سے دینے کا حوصلہ رکھتا ہے، جسمانی مطالبات کا بھی احترام کرتا ہے اور شبِ وصل تمکین و ضبط میں گزار دینے کے بجائے ہنس ہنس کے عاشق سے چھیڑ چھاڑ کا حوصلہ رکھتا ہے۔ اسے عاشق کی دل آزاری بھی منظور نہیں چنانچہ صنفی رسومیات کے تحت لاتعلقی کے اظہار میں بھی ربط و تعلق کا رنگ، اس کی شخصیت کو مزید دل آویز بنادیتا ہے۔ اس کردار کے صحیح خط و خال داغ کی زبانی ملاحظہ ہو،

    ہنس ہنس کے یہ کہتے ہیں شبِ وصل وہ مجھ سے

    چھیڑوگے تو پھر ہم سے ملاقات نہ ہوگی

    گئے وہ اٹھ کے پہلو سے تو یہ کہتے گئے مجھ سے

    ذرا سا صبر کرلو، تم سے اتنا ہو نہیں سکتا

    انکارِ وصل منہ سے نہ نکلا کسی طرح

    اپنے دہن سے تنگ وہ غنچہ دہن ہوا

    وصل کی ان سے ہوگئی امید

    سلسلہ جب کلام کا نکلا

    شریر آنکھ، نگہہ بے قرار، چتون شوخ

    تم اپنی شکل تو پیدا کرو حیا کے لیے

    ارمانِ ہم آغوشی سن سن کے ڈھٹائی سے

    اس کہنے کے صدقے ’’پھر کہیے تو کیا ہوتا‘‘

    کھل کھیلیے کھل جائیے دل کھول کے ملیے

    کب تک گرہِ بندِ قبا کو کوئی دیکھے

    جو دل میں تمہارے ہے وہی ہے میرے دل میں

    میں کہہ دوں اگر تم سے بیاں ہو نہیں سکتا

    شہر ہوس کا یہ کردارکسی بھی عام قاری کے لیے دل چسپی کے ہزار سامان رکھتا ہے۔ اس کی کشادہ دلی، خوش خلقی اور دل آسانی، مفلسی کی فکر ِپریشاں کو ایک مرکز فراہم کرادیتی ہے۔ ا س کردارکی قوت یہ ہے۔ کہ احساس گناہ یا احساس ندامت، معاملہ بندی کی اس فضا کو کہیں بھی آلودہ نہیں کرتا۔ دونوں طرف ربط وتعلق کی حرارت بخوبی محسوس کی جا سکتی ہے۔ جذبے کی طرح داغ کا رویہ PERVERSION یا فحاشی کے بہ جائے فطری اور صحت مند ہے۔ بہ قول حسن عسکری،

    ’’جو شاعری یا جو محبت جسمانی خواہش کی پاکیزگی محسوس نہ کر سکے وہ قوت اور عظمت سے بھی پاک ہوگی۔۔۔ اور یہ کہ جنسی خواہش کے باوجود بلکہ شاید جنسی خواہش کی مدد سے آدمی محبوب کے حسن میں ساری کائنات کا حسن دیکھ سکتا ہے۔‘‘

    (’’ستارہ یا باد بان‘‘ ص، ۹۰۲)

    معاملہ بندی کے اسی قسم کے اشعار کے پیش نظر داغ کے بارے میں عام نور پر یہ بات تسلیم کر لی گئی کہ،

    ’’داغ کی شاعری کے لیے سب سے زیادہ موزو ں لقب ’’عیاشانہ شاعری‘‘ ہے۔ داغ کا کلام انھیں لوگوں میں ضرورت سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے جو اعلی درجے کی شاعری سے زیادہ واقف نہیں ہیں۔ مثلًا ارباب نشاط کا فرقہ داغ کو پیغامبر سمجھتا ہے۔ داغ کی شہرت محض اس لیے ہے کہ ان کا کلام عمومًا ان جذبات اور خواہشات نفسانی کی تصویر ہے جو عوام کے دل میں امنگ پیدا کرنے کے لیے جادو کا اثر رکھتی ہیں۔‘‘

    (مضامین چکبست)

    اس قسم کے خیالات کے سلسلے میں اصولی بات تو یہ ہے کہ شاعری کا مطالعہ اجتماعی زندگی کی مذہبی اور اخلاقی قدروں کی روشنی میں کہاں تک درست ہے؟ یعنی جو باتیں ہماری حقیقی اور خارجی زندگی میں خلاف ِتہذیب ہیں۔ لفظوں سے بنائی گئی طلسمی دنیا میں بھی نا شائستہہی قراردی جائیں گی، پھر تو شاعری کا پورا سرمایہ ہی اس سوال کی زد پر ہے۔ جب ’’بت کافر ادا کی پر ستش‘‘ محبوب کا قاتل ہونا، اس کی نخوت اور خود بینی، یہ تمام کار گزاری غیر اخلاقی ہے۔ جب کہ ظاہر ہے کہ شاعری کی قلم رومیں اس کے اپنے اصول اور خوب وناخوب کے معیار ہیں۔ جس طرح شاعری میں قتل خون ریزی یادشنہ و خنجر کا حقیقی قتل و خون ریزی سے کوئی علاقہ نہیں ہے بلکہ یہ محض ایک پیرایہ ءاظہار ہے اسی طرح معاملہ ہندی کے اشعار میں بھی‘‘ ہے عبارت ہی عبارت مدعا کچھ بھی نہیں۔ ’’یہ شاعرانہ مضامین ہوائے دل کے لیے کھڑکیاں ہیں جہاں قاری اپنے جذبات کی لسانی تجسیم میں ایک نوع کی طمانیت اور آسودگی کا احساس کرتا ہے۔‘‘

    پھر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس نوع کے اشعار کی تعداد کیا ہے؟ وصل کی شوخیوں کے سوا اور کھل کھیلنے کے علاوہ اس کردار کے دیگر مشاغل کیا ہیں؟ اور کیاصفات ہیں جن سے اس کردار کی شناخت قائم ہوتی ہے۔ آدھی ادھوری تصویر پر حکم لگانے سے پہلے اس کردار کے دوسرے اہم پہلو بھی پیش ِ نظر رکھنا چاہئے۔ فقظ چند شعر ملاحظہ ہوں،

    تیرے عالم کو جب سے ہم نے دیکھا

    تماشائی ہے اک عالم ہمارا

    تو قیامت کی چال کرتا ہے

    بے چلے پائمال کرتا ہے

    غنیمت ہے چشمِ تغافل بھی اُن کی

    بہت دیکھتے ہیں جو کم دیکھتے ہیں

    تیری آنکھیں تو بہت اچھی ہیں

    لوگ کہتے ہیں انھیں بیمار یہ کیا

    ہم اب سے لیں گے بوسہءگل تیرے سامنے

    کیا ایسا لعل ہے تیرے لب میں لگا ہوا

    مجنوں کے طرف دار بنے ہیں کئی دن سے

    فرماتے ہیں وہ آپ سے کس بات میں کم تھا

    جب دیکھتے ہیں داغ کو ہوتا ہے یہ ارشاد

    معلوم نہیں زندہ ہے یہ کس کی دعا سے

    کہا ظالم نے میرا حال سن کر

    وہ اس جینے سے مرجائے تو اچھا ہے

    دمِ رخصت یہ چھیڑو تو دیکھو

    مجھ سے کہتے ہیں کب ملیں گے آپ

    حشر کے دن تو ملو گے یہ کیا میں نے سوال

    سوچ کر دیر میں ظالم نے کہا مشکل ہے

    ان اشعار سے محبوب کی جو تصویر ابھرتی ہے اس میں داغ نے اپنی فن کاری اور لہجے پر غیر معمولی قدرت سے روایتی مضامین میں نیا پہلو پیدا کردیاہے۔ داغ کے مضامین تو عموماً سادہ ہوتے ہیں لیکن پیرایہءاظہار میں قدرے پُر کاری سے کا لے کر فصیح الملک کوئی گرہ بھی ڈال دیتے ہیں لیکن اس احتیاط کے ساتھ کہ اس کا کھولنا اور لطف اندوز ہونا عام قاری کی دسترس میں ہو۔ پیرایہءاظہار کی اسی پُرکاری کے سبب مضمون، بیان ِ واقعہ کی سطح سے بلند ہو کر شعری تجربے میں تبدیل ہوجاتا ہے اور عام قاری کی دسترس میں ہونے کے سبب ایک بڑے حلقے کو متاثر کرتا ہے۔ داغ کی غیر معمولی مقبولیت میں سادگی اور پُرکاری کے اس حسنِ تناسب کو غیر معمولی دخل ہے۔

    مثال کے پہلے ہی شعر میں محبوب کی دل کشی کے لیے ’’عالم‘‘ کا لفظ معنی کے جن وسیع امکانات پر مشتمل ہے اس کا احاطہ آسان نہیں اور غالباًکوئی دوسرا لفظ اتنی تہہ داری کا متمحل نہیں ہو سکتا۔ محبوب کی شخصیت کے جملہ ظاہری محاسن اس عالم کے عناصرِ ترکیبی ہیں۔ پھر دوسرے مصرعے میں عالم کا لفظ شعر کی کیفیت میں مزید اضافہ کا سبب ہے۔ داغ فقط محبوب کی دل آویزی اور دل ربائی کا عالم بیان نہیں کرتے بلکہ شعرکے متکلم کی سرشاری محویت اور بے خودی کو بھی پیش منظر میں نمایاں کرتے ہیں۔ حیرانی اور بے خودی کا دراز تر ہونایہ سلسلہ بالآخر ایک خلقت کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے کہ عاشق کا حال اور اس کی کیفیت ایک عالم کے لئے دیدنی منظر یا انوکھا تجربہ ہے جس میں خلقت تماشائی بن گئی ہے۔ گویامعشوق پر عالم ِ حسن و جمال، عاشق پر عالمِ نے خودی و سر شاری اور خلقت پر عالمِ حیرانی۔

    اسی رفتار ِ یار کے پامال مضمون میں داغ نے ایک نیا پہلو پیدا کردیا ہے۔ رفتارِ یا ر کی فتنہ گری اور اس کے سبب لوگوں کا قتل ہونا ایک روایتی مضمون ہے۔ لیکن بے چلے ہی عاشق کو اپنی چال سے پامال کردینا، داغ کے محبوب کا امتیاز ہے۔ رفتارِ یار کے مضمون کا یہ انوکھا پہلو شاید کہیں اور دیکھنے کو نہ مل سکے۔ اس انوکھے پہلو کا تمام تر لطف‘‘ چال کرنا‘‘ اور ’’چال چلنا‘‘ کے محاورے پر قائم ہے۔ طریقۂ کار کی انفرادیت کے سبب داغ نے اپنی اردو پر فخر کرنے کے ساتھ ہی شاعری میں اپنی طرز ِ خاص پر بھی بہ جا طور پر فخر کیا ہے۔

    نہیں ملتا کسی مضموں سے ہمارا مضموں

    طرز اپنی ہے جدا سب سے جدا کہتے ہیں

    یا

    داغ معجز بیاں ہے کیا کہنا

    طرز سب سے جدا نکالی ہے

    اسی طرح چشمِ یار کا مضمون نیا نہیں لیکن داغ نے روز مرے اور مخصوص لہجے میں کی مدد سے اس پامال مضمون میں دل کشی کا پہلو پیدا کردیا ہے۔ شعر کا حسن ظاہری سطح پر تو فقط یہ ہے کہ اچھی اور بیمار کا تقابل شاعرانہ لطف کا سبب ہے کہ محبوب کی آنکھیں نہایت اچھی ہیں پھر اسے بیمار کی صفت کے ساتھ ترکیب کو غلط قرار دینے کے بہ جائے اظہار تعجب کرتا ہے۔ لیکن شعر کی اصل کیفیت شعر کی مخصوص قرات اور لہجے میں پوشیدہ ہے۔ ’’تیری آنکھیں تو بہت اچھی ہیں‘‘ کا پیرایہ ءاظہار محبوب کی آنکھوں کو دیکھ کر متکلم کی محویت اور پھر خود کلامی کا منظر پیش کرتا ہے جو اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ آنکھوں کی جملہ تشبیہات اور تمام استعارے اس کے حسن کا بیان کرنے سے عاجز ہیں۔ بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ ’’تیری آنکھیں بہت اچھی ہیں‘‘

    محبوب کی حاضر جوابی، بے تکلفی اور بذلہ سنجی اس کی آنکھوں میں ذہانت اور شوخی کی چمک پیدا کردیتی ہے۔ چناں چہ مثال کے آخری پانچ اشعار محبوب کے کسی عمل کے بہ جائے اس کے طرزِ کلام کو نمایاں کرتے ہیں، جس میں اس کی شوخی اور طرح داری کے ساتھ ہی شخصیت کے بعض دوسرے پہلوﺅں پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ داغ کے کلام میں جس شوخی کا ذکر تقریباً سبھی نقادوں نے کیا ہے وہ بڑی حد تک محبوب کے طرز کلام یا کرداروں کے باہمی مکالمے کا رہین ِ منت ہے۔ غزل صنفی رسومیات میں محبوب کے رویے اور ایک عاشق کی گفتگو کے جو آداب مقرر ہیں، داغ کا محبوب اور اُن کا عاشق جا بہ جا اسے توڑتے اور ان صنفی رسومیات سے انحراف کرتے ہیں۔ صنفی رسومیات کی خارج سے عائد کردہ پابندیوں کے بہ جائے یہ محبوب انسانی فطرت کی آزاد روی کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ وہ عاشق سے بلا تکلف ملتا اور باتیں کرتا اور مساویانہ سطح پر معاملہ کرتا ہے۔ تمکین و ضبط کا غیر فطری مظاہرہ کر کے وہ وصل کی لذّتوں کو ہجر کی کلفتوں میں تبدیل کردینے کا قائل نہیں۔ آزادی کا یہی رویہ اس کی اداﺅں میں شوخی کی ضمانت ہے۔ وقت رخصت عاشق سے چھڑ چھاڑ کو وہ اپنے منصبی آداب کے منافی نہیں سمجھتا اور کب ملیں گے آپ کہہ کر شوخی اور بے تکلفی کی فضا پیدا کردیتا ہے۔ واقعے اور ظاہری صورت ِ حال میں تضاد کا تناﺅ رخصت کے اس منظر کو شعری تجربے میں تبدیل کردیتا ہے۔ اسی طرح روز ِ حشر جب جملہ خلائق یک جا ہوں گی، ملاقات کے سوال پر محبوب کا تامل اور غور و فکر کے بعد یہ کہنا کہ‘‘ مشکل ہے ’’شعر میں ڈرامے کا لطف پیدا کردیتا ہے‘‘،

    حشر کے دن تو ملو گے یہ کیا میں نے سوال

    سوچ کر دیر میں ظالم نے کہا مشکل

    حشر کے ساتھ جو تصورات وابستہ ہیں ان کے پس منظر میں معشوق کی یہ شوخی اور غور و فکر کے بعد یہ فرمایا کہ ملاقات مشکل ہے، لطف سے خالی نہیں، پھر یہ، مشکل ہے، کا مختصر فقرہ کس بات کا جواب ہے، ملاقات مشکل ہے یا یہ سوال مشکل ہے جس کا جواب محبوب کے پاس نہیں۔ ابہام کا یہ پہلو شعر میں ایسی تہہ داری اور پیچ پیدا کردیتا ہے جس سے لطف اندوز ہونے کے لئے اوسط ذہانت، معمولی علم اور تھوڑا سا مذاق ِ سخن کافی ہے۔ داغ کی انفرادیت اورمخصوص رنگ کو چمکانے میں اس طریقہءکار کو بہت دخل ہے۔

    داغ کے شہرِ ہوس کا دوسرا کردار عاشق ہے جو اس شہر کی گرمی ِ بازار کا سبب ہے۔ یہ ایک مجلسی تجربہ کار اور عشق و محبت کے معاملات میں اقدام کرنے والا جرات مند شخص ہے، آزاد منش ہے، لذّت و نشاط کا جویا، محبوب کی نازبرداری اس کار آزمودہ شخص کے نزدیک وقت کا زیاں ہے۔ خوش باش اور خوش اوقات یہ شخص زندگی بھر محبت کرتا ہے اور کارِ دنیا کو بے فائدہ اور عبث نہیں جانتا۔

    لیکن عاشق کے کردار کا پہلو اپنی بے حجابی اور بے باکی کے سبب تناسب سے زیادہ لوگوں کی توجہ کا مرکز ہو ا، اور بیش تر ناقدین نے انھیں اشعار کے پیشِ نظر داغ کو عیش و نشاط کا امام اور عیاشانہ شاعری کا پیغامبر قرار دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ داغ کی غزلوں میں عاشق کے کردار کے دوسرے پہلو اور اس کردار کی تعمیرمیں داغ کے فنی محاسن نظر انداز ہوگئے۔ اس موقف کو داغ کے سوا نحی کوائف سے بھی تقویت حاصل ہوئی۔ بہ یک وقت مختلف طوائفوں سے ربط وضبط نے داغ کی شاعری سے متعلق رائے عامہ کو بڑی حد تک متاثر کیا ہے۔ بہ ہر حال اس ہوس پرست اور عاشق مزاج کردار کی دلچسپیاں اور مشاغل ملاحظہ ہوں،

    وہ ہرجائی اگر ہے داغ ہو تم بھی تو آوارہ

    تمھیں کب صبر ہے بیٹھے ہوئے تم ایک پر کیا ہو

    کیا ملے گا کوئی حسیں نہ کہیں

    دل بہل جائے گا کہیں نہ کہیں

    ہم لطف کے بندے ہیں خدا کی قسم واعظ

    ہم سے نہ کبھی یار ستم گر کے اٹھیں گے

    لے لیے ہم نے لپٹ کر بوسے

    وہ تو کہتے رہے ہر بار یہ کیا

    محشر میں بعد پُرسشِ اعمال دیکھنا

    ہم دیکھتے پھریں گے تماشہ ادھر اُدھر

    ہمیں توشوق ہے بے پرتم کو دیکھیں گے

    تمھیں ہے شرم تو آنکھوں پہ ہاتھ رکھ لینا

    کچھ تذکرہ ءعشق رہے حضرتِ ناصح

    کانوں کو مزہ دیتی ہے گفتار ِ محبت

    ہزار کام مزے کے ہیں داغ الفت میں

    جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں

    ان اشعار میں بھی روز مرے کی مدد سے کسی حد تک شاعرانہ کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ لیکن جذبے کی عدم تہذیب اور عشق کے آداب کا پاس ولحاظ نہ کرنے کے سبب داغ کی شاعری پر علی الاطلاق عیاشانہ شاعری کا حکم لگادیا۔ ۵۰۹۱ میں چکبست نے داغ کے متعلق جن خیالات کا اظہار کیا تھا اس کی باز گشت آج بھی سنائی دیتی ہے۔ کہتے ہیں،

    ‘‘داغ کا معشوق ہمیشہ بازاری معشوق ہے اور داغ کے نزدیک عشق، نفس پرستی کا دوسرا نام ہے۔ اس صورت میں داغ کی شاعری کو عاشقانہ شاعری کہنا زیبا نہیں۔ کیوں کہ داغ حُسن و عشق کی اعلیٰ مفہوم سے بے خبر تھے۔ داغ کی شاعری عیاشانہ شاعری ہے۔‘‘

    (انتخاب مضامینِ چکبست، ص، ۹۴۱)

    چکبست کے اس بیان پر اظہار ِ خیال یا محاکمے کے بہ جائے داغ کے یہ اشعار سنیے،

    ہم اب سے لیں گے بوسۂ گل تیرے سامنے

    کیا ایسا لعل ہے تیرے لب میں لگا ہوا

    بتائیں لفظ تمنا کے تم کو معنی کیا

    تمھارے کان میں اک حرف ہم نے ڈال دیا

    خاموش سنتی رہتی ہے پہروں شبِ فراق

    تصویر ِ یار کو ہے مری گفتگو پسند

    داغِ وارفتہ کو ہم آج ترے کوچے سے

    اس طرح کھینچ کے لائے ہیں کہ جی جانتا ہے

    دن ڈھلے آنے کا وعدہ ہے کسی سے لیکن

    آج یہ دن وہ قیامت ہے کہ ڈھلتا ہی نہیں

    فلک سے طور قیامت کے بن نہ پڑتے تھے

    اخیر اب تجھے آشوبِ روزگار کیا

    عاشق کا ذرا سا دل تسکین ہی کیا اس کی

    جھوٹا ہو کہ سچا ہو وعدہ تو کیا ہوتا

    فسانہ ءشب ِ غم ان کو اک کہانی تھی

    کچھ اعتبار کیا کچھ نہ اعتبار کیا

    آپ پچھتائے نہیں جور سے توبہ نہ کریں

    آپ گھبرائیں نہیں داغ کا حال اچھا ہے

    وہ عیادت کو مری آتے ہیں لو اور سنو

    آج ہی خوبیءتقدیر سے حال اچھا ہے

    اس قسم کے اشعار کی تعداد داغ کے یہاں کم نہیں جن میں ہوس پرستی اور معاملہ بندی کے بہ جائے عشق ایک روحانی اور باطنی تجربے میں ڈھل گیا ہے۔ وصل کے لمحاتی تجربے کے بہ جائے عاشق کا روحانی اضطراب قاری پر ایک کیفیت طاری کردیتا ہے۔ یہاں عاشق کی تمام سرگرمیاں اور اس کی زندگی کے تمام مشاغل عشق کے مرکزی جذبے سے وابستہ ہوگئے ہیں۔ جذبے کی تہذیب اور اس کی فن کارانہ پیش کش اس کے سوا اور کیا ہے؟ ان اشعار کی موجودگی میں یہ خیال کہ داغ کی شاعری کا حاصل ایک عیاش شخص کی فتوحات کا بیان ہے، محلِ نظر ہے، مذکورہ تمام اشعار اپنی پُر فریب سادگی، روز مرے کی پابندی اور سبک روی کے ساتھ ہی معنی کے وسیع تر امکانات کا احاطہ کرتے ہیں۔

    شعر کا ظاہری مفہوم خود اپنی دلالتوں سے دست و گریباں ہے اور معنی کو کسی سطح پر ٹھرنے نہیں دیتا۔ محبوب کے لبوں کی نزاکت اور خوش رنگی کے بیان کا اس سے بہتر پیرایہءاظہار کیا ہوگا۔ عاشق بوسہءگل محبوب کے سامنے لیا کرے گا۔ محبوب کے لبوں میں ایسی کیا خاص بات ہے جو گل میں نہیں؟ یہاں ’’لعل لگنے‘‘ کا محاورہ فقط برجستہ عام بول چال کا لطف ہی پیدا نہیں کرتا بلکہ معنی کی توسیع کا فریضہ بھی انجام دیتا ہے۔ لعل کی سرخی، رنگِ گل اور لبِ یار کو یک جا کردیتی ہے لیکن محاورے کے حاوی مفہوم کو بے دخل کر کے اگر لغوی سظح پر مصرعے کو پڑھیں تو ’’کیا‘‘حرفِ استفہام، لعل پتھر کی سرخی کو پیش منظر میں نمایاں کردیتا ہے اور یہ ’’استفہام انکاری‘‘ گل کی سرخی کو محبوب کے لب کی سرخی سے زیادہ پر کشش بنا کر پیش کرتا ہے۔ لیکن معنی کی دونوں صورتوں میں عاشق کی نارسائی اور اس کا احساس ِ شکست نمایاں ہے۔ محبوب کے لبوں کی ناکام حسرت، بوسہءگل میں پناہ ڈھونڈتی اور گل کو بھی رسوا کرتی ہے۔

    داغ کے کلام کی ایک اور خوبی جس پر کم توجہ دی گئی محاکات اور ڈرامائی کیفیت ہے۔ تصویریں بنانے اور معجز بیانی سے انھیں زندہ اور متحرک کردینے کا داغ کو خصوصی ملکہ حاصل ہے۔ اس قسم کے اشعار میں کسی صورت ِ حال یا تجربے کو بیان کرنے کے بہ جائے داغ اسے آنکھوں کے سامنے ہوتا ہوا دکھاتے ہیں۔ قاری اس منظر میں ذاتی تجربے کی حثیت سے شریک ہوتا ہے۔ یہ اشعار ملاحظہ ہوں جو سننے سے زیادہ دیکھنے کی کیفیت رکھتے ہیں۔

    آنکھیں ترے تلووں سے ملیں کس نے پئے وصل

    وہ پھول سے نرگس کے بنے ہیں کفِ پا میں

    دیکھنا پیرِ مغاں حضرت ناصح تو نہیں

    کوئی بیٹھا نظر آتا ہے پسِ خم مجھ کو

    نام ناصح کا لیا تھا میں

    اے لو حضرت وہ چلے آتے ہیں

    حضرت ِ داغ یہ ہے کوچہ ءقاتل اٹھیے

    جس جگہ بیٹھتے ہیں آپ تو جم جاتے ہیں

    کم بخت وہی داغ نہ ہو دیکھو تو جا کر

    بے چین کیے دیتی ہے فریاد کسی کی

    مذکورہ اشعار میں اولاً تو لہجے اور عام بول چال کی زبان نے شعر کی فضا کو بڑی حد تک غیر رسمی اور بے تکلف بنادیا ہے۔ بے تکلفی کی اسی فضا کے سبب کرداروں کے باہمی تعلق میں ایک نوع کی یگانگت اور اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔ ان تصویروں میں شعر کا روای کمال ِ خاموشی اور سہولت سے اپنی شخصیت کو منظر سے الگ کرلیتا ہے کہ قاری کو محسوس ہی نہیں ہوتا کہ وہ شعر سننے کے بہ جائے منظر کو دیکھنے کے عمل میں مصروف ہے۔ راوی جب پیرِ مغاں سے کہتا ہے کہ ’’کوئی بیٹھا نظر آنے لگتا ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے قاری یہ بھول جاتا کہ اس واقعے کا کوئی راوی بھی ہے اسی طرح محبوب کے کفِ پا میں نرگس کے پھول صاف دکھنے لگتے ہیں۔‘‘

    علامہ اقبال نے داغ کے مرثیے میں غالباً ان کی اسی خوبی کو نشان زد کیا ہے۔

    لکھی جائیں گی کتابِ دل کی تفسیریں بہت

    ہوں گی اے خواب ِ جوانی تیری تعبیریں بہت

    ہو بہ ہو کھینچے گا لیکن عشق کی تصویریں کون

    اٹھ گیا ناوک فگن مارے گا دل پر تیر کون

    داغ نے اپنی غزلوں میں جو دنیا آباد کی ہے اس میں دل و جان کی تسکین کے ہزاروں سامان ہیں۔ اس شہرِ ہوس کے کردار، ان کی گفتگو میں زندگی کی حرارت اور موانست کی گرمی ِ ہوس سے لے کر صوفیانہ تجربے تک عشق کے صد ہارنگ، قلعہءمعلی کے محاورے، شوخی، حاضر جوابی اور ناصح سے چھیڑ چھاڑ، غرض ایسی رونق اور گرم بازاری ہے کہ بس۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے