Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

داستان امیر حمزہ کا مطالعہ

محمد منصور عالم

داستان امیر حمزہ کا مطالعہ

محمد منصور عالم

MORE BYمحمد منصور عالم

     

    ’’داستان کی شعریات جن چیزوں کا تقاضا کرتی ہے، اور وہ شعریات ادب اور کائنات کے بارے میں جن تصورات و مفروضات پر مبنی ہے اور داستان کے اصل سننے/پڑھنے والے اس سے جن باتوں کی توقع رکھتے تھے، وہ کچھ تھیں اور داستان کے جدید نقاد اس پر نکتہ چینی کسی اور شعریات اور ادب و کائنات کے بارے میں کسی اور طرح کے مفروضات کی روشنی میں کرتے ہیں۔ نتیجہ ظاہر ہے۔‘‘ 


    (۱)
    فاروقی کی مشہور اور بے نظیر کتاب ’’ساحری، شاہی، صاحب قرانی‘‘ کا دوسرانام ’’داستان امیر حمزہ کا مطالعہ‘‘ ہے۔ میں نے اسی کو اپنی کتاب کے اس باب کا عنوان بنایا ہے۔ ’’ساحری، شاہی، صاحب قرانی‘‘ تین جلدوں میں منظر عام پر آئی ہے۔ آگے ہر جگہ اس کو ’’س، ش، ص‘‘ کہا جائے گا۔ اردو داستانوں پر اور لوگوں نے بھی لکھا ہے۔ س ش ص کی جلد اول میں ایک باب ہے۔ ’’داستان کے نقاد‘‘ اس میں کلیم الدین احمد اور گیان چند جین کی تنقیدوں پر تفصیلی اور راز یزدانی، سہیل بخاری، وقار عظیم، راہی معصوم رضا، سہیل احمد، شمیم احمد اور محمد سلیم الرحمٰن کی تنقیدوں پر اجمالی نظرڈالی گئی ہے۔ 

    س ش ص کی تیسری جلد میں ایم حبیب خاں کی تنقید داستان کا بھی ذکر آیا ہے۔ لیکن پیش نظر کتاب کا انداز مذکورہ بالا تمام ناقدوں اور محققوں کی کتابوں سے الگ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اردو داستانوں کا اتنا مفصل مطالعہ پہلی بار پیش کیا گیا ہے اور فن داستان کے متعلقات کے بارے میں جو معلومات فراہم کی گئی ہیں وہ کہیں اور نہیں ملتیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ کتاب اردو داستان کا انسائیکلوپیڈیا ہے۔ یہ جاننے کے لیے کہ داستان کے تعلق سے فاروقی کے مطالعے کی نہج کیا ہے۔ اس کتاب کا تعارف ملاحظہ کیجیے، 

    س ش ص، جلد اول، نظری مباحث۔ پہلا ایڈیشن: اکتوبر/دسمبر ۱۹۹۹۔ سائز ڈیمائی۔ صفحات، ۵۵۹، قیمت ۱۸۰روپے، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، دہلی، پیش لفظ: ڈاکٹر حمیداللہ بھٹ، ڈائرکٹر قومی کونسل، انتساب: شہریار کے نام آئینہ ماروے ترا عکس پذیر است۔ اس کے بعد مرزا عبدالقادر بیدل کا نیک نکتہ، 

    صحرا گر ہیست در دل تنگ
    دریا عرقے ست چکیدہ ازسنگ

    لختے بدر آز عالمے ننگ
    یعنی کہ زکارگاہ نیرنگ

    ہر نقش کہ دیدی آں قدر نیست

    فہرست مطالب:
    عرض مصنف
    تمہید
    باب اول: داستان کی شعریات (۱) 
    باب دوم: داستان کی شعریات (۲) 
    باب سوم: زبانی بیانیہ (۱) اس کا میداں ہے جدا
    باب چہارم: زبانی بیانیہ (۲) موت و حیات، توفیق
    باب پنجم: زبانی بیانیہ (۳) حرکیات
    باب ششم: داستان اور علم انسانی کی حدیں 
    باب ہفتم: بیان کنندہ
    باب ہشتم: سامعین
    باب نہم: داستان کی تشکیل
    باب دہم: حافظہ، بازیافت، تشکیل نو
    باب یازدہم: داستان کے نقاد
    اظہار تشکر
    اشاریہ

    جلد دوم: عملی مباحث۔ پہلا ایڈیشن ۲۰۰۶ء سائز ڈیمائی، صفحات ۲۲۴، قیمت:۲۰۲ روپے، ناشر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، دہلی، پیش لفظ رشمی چودھری، ڈائرکٹر انچارج قومی کونسل۔ 

    انتساب: ’’آل احمد سرور (۱۹۱۱تا ۲۰۰۲) 

    کی یاد کو خراج عقیدت کے طور پر

    جن کے اس ایک جملے کو داستان کی تمام تنقید کی بنیاد قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا، 

    ’’ہمارے یہاں ناول سے پہلے داستانوں کا ایک شاندار سرمایہ ہے جس کی عظمت کا اعتراف ضروری ہے مگر جو ناول سے بالکل مختلف فن سے تعلق رکھتا ہے‘‘ 

    آل احمد سرور، ’’فکشن کیا، کیوں اور کیسے؟‘‘ 

    مطبوعہ ’’شب خون‘‘ شمارہ ۷۲، مئی ۱۹۷۲ء

    فہرست مطالب:
    دیباچۂ جلد دوم: اس کے بعد ایک صفحے پر صرف یہ شعر

    چہ گوید کس از خوبی قصہ خواں 
    کہ درملک خوبی است صاحب قراں 

    (حکیم افضل الدین خاقانی شروانی) 

    باب اول: کتنے دفتر، کتنی جلدیں؟
    باب دوم: ترتیب داستان
    باب سوم: داستان امیر حمزہ: کتنے صفحے؟
    باب چہارم: تاریخ اشاعت، ترتیب و تصنیف داستان
    باب پنجم: ذکر داستان گویاں 
    باب ششم: داستان کا افسانہ
    اشاریہ

    اس کے بعد ’’نکات بیدل‘‘ سے وہی نکتہ جو جلد اول میں ہے۔ یہاں قوسین میں نکتہ ۱۰ لکھا ہے۔ 

    جلد سوم: جہانِ حمزہ۔ پہلا ایڈیشن ۲۰۰۶، سائز: ڈیمائی صفحات: ۴۳۶، قیمت ۲۸۰ روپے ناشر قومی کونسل براے فروغ اردو زبان، دہلی پیش لفظ: رشمی چودھری، ڈائرکٹر انچارج قومی کونسل

    انتساب: ’’نوجوان داستان گو، اداکار، انگریزی کے صحافی

    محمود فاروقی کے نام۔ 

    داستانے نیست دردست جہاں بہ زیں سخن
    راستاں جاں برسرایں داستاں افشاندہ اند

    (حکیم افضل الدین خاقانی شروانی) 

    اس کے بعد مرزا بیدل کا وہی نکتہ جو جلد اول و دوم میں پیش کیا گیا ہے۔ پھر ایک صفحے پر فردوسی کے دو اشعار ہیں، 

    ہمی خواہم از داور کردگار
    کہ چنداں اماں یا بم ازروزگار

    کزیں نامورنامۂ باستاں
    بمانم بہ گیتی یکے داستاں 

    فہرست
    دیباچۂ جلد سوم
    تمہید
    جہان حمزہ
    اشاریہ

    جلد اول اور جلد دوم کی فہرستوں سے مشمولات کا کچھ اندازہ ہو جاتا ہے۔ لیکن تیسری جلد کے ’’جہانِ حمزہ‘‘ سے کچھ پتا نہیں چلتا۔ پہلی جلد کی ’’عرض مصنف‘‘ میں فاروقی نے چار جلدوں کا خاکہ پیش کیا ہے۔ پہلی جلد تو نظری مباحث کی ہے۔ اور دوسری جلد عملی مباحث کی۔ اس کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ، 

    ’’اگر یہ جلد بہت طویل نہ کھنچ گئی تو داستان کے اہم عامل یعنی Actant اشخاص، مثلاً عیار، ساحر، صاحب قران، دیوانہ، دیو، پریزاد، قزاق، دست چپی، دست راستی، آئین طلسم، فتوت، امیرحمزہ اور دوسرے جنگجویوں کے نعروں کا تنقیدی جائزہ، داستان میں مزاح کا عنصر وغیرہ پر بھی بحث اسی جلد میں شامل کی جائےگی۔ 

    اگر موخرالذکر معاملات کا بیان الگ جلد کا متقاضی ہوا تو اسے تیسری جلد قرار دے کر اس کا عنوان فی الحال ’’اشخاص و مقامات‘‘ تجویز کیا ہے۔ آخری جلد کا عنوان میں نے فی الوقت ’’داستان دنیا‘‘ رکھا ہے۔ اس میں تمام چھیالیس جلدوں کا فرداً فرداً محاکمہ ہوگا اور حسن و خوبی کے لحاظ سے ہر جلد کی درجہ بندی بھی ہوگی۔‘‘ (س ش ص، جلد اول ص، ۱۶) 

    لیکن تیسری جلد ’’اشخاص و مقامات‘‘ کے نام سے نہیں ہے بلکہ ’’جہان حمزہ‘‘ کے نام سے ہے۔ اور ’’داستان دنیا‘‘ والی آخری جلد جو چوتھی جلد ہوتی، ابھی منصۂ شہود پر نہیں آئی ہے۔ دوسری جلد کے دیباچے اور تیسری جلد کے د یباچہ اور تمہید میں فاروقی لکھتے ہیں کہ، 

    دیباچہ جلد دوم: ’’اشخاص و مقامات‘‘ پر مبنی جلد کو ’’جہان حمزہ‘‘ کہہ کر تیسری جلد بنا دیا گیا ہے۔ چوتھی جلد انشاء اللہ حسب ارادہ داستان (طویل) کی ا نفرادی جلدوں کے مطالعے پر مشتمل ہوگی اور اس کا عنوان فی الحال وہی ہے، یعنی ’’داستان دنیا‘‘ جو پہلے تجویز کیا گیا تھا۔‘‘ 

    دیباچہ جلد سوم: ’’میرا خیال تھا کہ تیسری جلد کا عنوان ’’اشخاص و مقامات‘‘ رکھوں گا۔ لیکن دوران کار یہ محسوس ہوا کہ اس جلد میں صرف اشخاص و مقامات نہیں مذکور ہیں۔۔۔ لہٰذا اب اس جلد کو ’’جہانِ حمزہ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ چوتھی جلد کانام انشاء اللہ وہی رہےگا (’’داستان دنیا‘‘) جو پہلے سے مجوزہ تھا۔ 

    تمہید (جلد سوم) ’’اس جلد میں ہم داستان امیر حمزہ (طویل) کے بعض اہم واقعات، کردار اور خصوصیات ادبیہ و بیانیہ کی مختصر تفصیل فرہنگ کی شکل میں پیش کریں گے۔۔۔ اب فرہنگ موسوم بہ ’’جہان حمزہ‘‘ ملاحظہ ہو۔‘‘ 

    ظاہر ہے کہ ’’جہانِ حمزہ‘‘ بھی بہت وقیع جلد ہے۔ اسے ڈکشنری مضامین داستان امیرحمزہ کہنا چاہیے۔ اس میں داستان کے تمام آثار و احوال اور متعلقات کی مفصل فرہنگ دی گئی ہے۔ دوسری جلد کی طرح یہ بھی بڑا تحقیقی کارنامہ ہے۔ فن داستان گوئی کی شعریات کی تفہیم کے لیے پہلی جلد اہمیت رکھتی ہے اور اگر چوتھی جلد آ گئی تو یقین ہے کہ وہ تنقیدی قدروقیمت کے تعین کے لحاظ سے سب سے زیادہ وقیع ہوگی۔ 

    ہم یہاں اردو داستانوں کے تعارف میں فاروقی سے استفادہ کرکے کچھ ضروری باتیں درج کرنا بہتر سمجھتے ہیں۔ 

    (۱) اردو داستانیں آٹھ دفتر، چھیالیس جلدیں اور کوئی چوالیس ہزار صفحات رکھتی ہیں۔ 

    (۲) ’’دفتر‘‘ سے کیا مراد ہے؟ ’’دفتر سے مراد ’’مجلدات‘‘ نہیں ہے بلکہ ’’دفتران داستانوں کا مجموعہ ہے جو آپس میں معمولی سے کچھ زیادہ ربط رکھتی ہیں‘‘ (جلد دوم ص:۳۱) اس بات کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ مختلف حالات میں شان نزول کے مطابق جس طرح حکم دیا گیا کہ فلاں آیت کو فلاں سورہ میں رکھو یعنی مضمون کے ربط کی وجہ سے آیتوں کو سوروں میں جمع کیا گیا۔ غالباً اسی طرح داستانوں کے باہمی ربط کی بناپر ان کے دفتر بنائے گئے جو تعداد میں سات ہوئے۔ اور ایک ’’دفتر‘‘ وہ بنایا گ یا جس میں ’’پتوں‘‘ یا بیانیہ کے مختلف ٹکڑوں یا چھوٹے چھوٹے غیرمتعلق وقوعوں کو رکھا گیا اس لیے ’’دفتر ہشتم کو ایک طرح کا سفینہ یا کشکول کہہ سکتے ہیں۔‘‘ 

    (۳) ’’پتہ‘‘ کیا چیز ہے؟ ’’پتہ‘‘ کو داستان بڑھانے کا اشارہ کہہ سکتے ہیں۔ آج کی زبان میں نوٹس یا خاکہ کہیے۔ 

    (۴) داستان کی ترتیب۔۔۔ 

    ’’یہ بات بہرحال ثابت ہے کہ داستانیں فارسی سے ترجمہ نہیں ہیں۔ لیکن ہمارے داستان گویوں کو ان کا مصنف بھی نہیں کہا جا سکتا۔ یہ بات بھی بالکل صاف ہے کہ داستان میں ترجمہ/تصنیف یا تالیف/ترجمہ یا تصحیح/ترتیب یا استعانت/اعانت کا تصور بہت ڈھیلا ڈھالا ہے۔ لہٰذا یہ بھی ظاہر ہے کہ جب داستان کی تشکیل کا نظام بھی خاصا ڈھیلا ڈھالا ہے تو اس کے مختلف وقوعوں اور داستانوں میں ربط اور ترتیب بس اتنی ہی ہوگی کہ بات بالکل الجھ نہ جائے۔‘‘ (س ش ص۔ ۲، ص، ۶۱) 

    فاروقی نے یہ بھی لکھا ہے کہ، 

    ’’داستان کے وسیع زبانی روپ کا پہلے سے نہ صرف وجود تھا بلکہ یہ بھی کہ شاید مختلف داستان گویوں نے مختلف داستانوں میں اپنا اپنا اختصاص پیدا کیا تھا۔ اور وہی ان داستانوں کو بیان کرتے تھے۔‘‘ (س ش ص۔ ۳، ص، ۱۸۵) 

    جب داستانوں کو ترتیب دینے کی بات سوچی گئی تو مختلف داستانیں ان ہی لوگوں سے لکھوائی گئیں جو اپنی اپنی داستانوں کے بیانوں میں اختصاص حاصل کرچکے تھے یا ان سے کہا گیا کہ آپ اپنی داستان املا کرائیے۔ 

    (۵) داستان کو لکھ کر چھپوانے کی ابتدا۔۔۔ داستان کو لکھ کر چھوانے کی ابتدا فورٹ ولیم کالج کلکتہ سے ہوئی جہاں خلیل علی اشک نے ایک مختصر داستان امیرحمزہ بقول خود فارسی سے ترجمہ کی۔ (س ش ص۔ ۱۔ ص، ۷۲) اس مختصر داستان کا ایک روپ غالب لکھنوی نے شائع کیا (کلکتہ ۱۸۵۵) اور اس کو ذرا سا پھیر بدل کر عبداللہ بلگرامی نے نول کشور پریس لکھنؤ سے اپنے نام سے شائع کیا (۱۸۷۱) ‘‘ میرے خیال میں یہ بات بھی ممکن ہے کہ داستان کے نام پر جو کچھ داستان گویوں کو یاد تھا، اس کو انہوں نے خود لکھا یا کسی سے املا کرایا اور بوقت تحریر خاصی رنگ آمیزی کی۔ 

    (۶) داستانوں کی باضابطہ اشاعت۔۔۔ ۱۸۸۳ سے ۱۹۱۷ تک مختلف داستانوں اور ان کی متعدد جلدوں کی اشاعت ہوئی۔ بعض داستانوں کی اشاعت میں تکرار تو ۱۹۴۰ تک ہوتی رہی لیکن داستان کی اشاعت کا مصروف ترین سال ۱۸۹۷ تھا جیسا کہ فاروقی کی پیش کردہ فہرست داستان سے معلوم ہوتا ہے اور انہوں نے ۱۸۹۷ کے مصروف ترین سال ہونے کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس ایک سال میں فاروقی کی تحقیق کے مطابق دس جلدیں شائع ہوئیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ انیسویں صدی کی آخری دہائی نے ہندوستان میں اردو داستانوں کی اشاعت کی بڑی خدمت انجام دی۔ 

    (۷) داستانوں کا ناشر/طابع۔۔۔ اس خدمت کو منشی نول کشور نے انجام دیا۔ نول کشور پریس لکھنؤ و کانپور کے مالک منشی نول کشور نے داستان گویوں سے لکھوا لکھوا کے تابڑتوڑ یہ داستانیں شائع کیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اردو ادب کا اتنا بڑا ضخیم اور وقیع سرمایہ اردو زبان و ادب کے ایک غیرمسلم شیدائی کی توجہ سے سامنے آیا ورنہ قصہ خوانی کی محفلوں کے برہم ہونے سے آج ہمیں اس کے وجود کا بھی علم نہ ہوتا۔ ہمیں منشی نول کشور کی اردو خدمات پر فخر ہے۔ 

    (۸) اردو داستان گو اور داستانیں: 

    (i) محمد حسین جاہ (فاروقی کی تحقیق کے مطابق وفات ۱۸۹۱ اور ۱۸۹۳ کے بیچ) سید غلام حسین رمال کے بیٹے۔ احمد حسین قمر کے چھوٹے بھائی ساکن لکھنو۔ ’’طلسم ہوش ربا‘‘ چار جلدیں۔ 

    (ii) احمد حسین قمر (وفات: فروری/مارچ۱۹۰۱) جاہ کے بڑے بھائی۔ ’’طلسم ہوش ربا‘‘ چھ جلدیں۔ ’’ہومان نامہ‘‘ ایک جلد۔ ’’طلسم فتنۂ نورافشاں‘‘ تین جلدیں۔ ’’طلسم ہفت پیکر‘‘ تین جلدیں۔ ’’طلسم خیال سکندری‘‘ تین جلدیں ’’طلسم نوخیز جمشیدی‘‘ تین جلدیں۔ 

    (iii) شیخ تصدیق حسین (وفات ۱۹۱۱ اور ۱۹۱۷ کے درمیان) ’’نوشیرواں نامہ‘‘ دوجلدیں۔ ’’ہرمزنامہ‘‘ ۔ ایک جلد۔ ’’کوچک باختر‘‘ ایک جلد۔ ’’بالا باختر‘‘ ۔ ایک جلد۔ ’’ایرج نامہ‘‘ دوجلدیں۔ ’’لعل نامہ‘‘ دوجلدیں۔ ’’آفتاب شجاعت‘‘ چھ جلدیں۔ 

    (iv) سید اسمٰعیل اثر (وفات قبل ۱۹۲۷) ’’صندلی نامہ‘‘ ۔ ایک جلد۔ 

    (v) پیارے مرزا (وفات نامعلوم) اور شیخ تصدق حسین مل کر ’’تورج نامہ‘‘ جلد اول۔ ایک جلد

    (vi) احمد حسین قمر، شیخ تصدق حسین اور سید اسمٰعیل اثر مل کر۔۔۔ ’’طلسم زعفران زار سلیمانی‘‘ دو جلدیں۔ قمر نے ’’زعفران زار‘‘ لکھنا شروع کیا تھا مگر ان کا انتقال ہو گیا۔ (س ش ص۔ ۱۔ ص، ۱۲۲) 

    (vii) شیخ تصدق حسین (سید اسمٰعیل اثر کی تصحیح کے ساتھ) ’’تورج نامہ‘‘ جلد دوم۔ ایک جلد۔ ’’گلستان باختر‘‘ تین جلدیں۔ 

    کل میزان چھیالیس جلدیں اور داستان گو پانچ۔ مختصر داستانوں کے لکھنے والے خلیل علی اشک، میر احمد علی، غالب لکھنوی اور عبداللہ بلگرامی کو چھوڑکر۔ 

    (۹) امیر حمزہ کون صاحب ہیں؟۔۔۔ ’’سہیل بخاری مرحوم کی تحقیق ہے کہ داستان امیر حمزہ کی بنیاد ’’مغاری حمزہ‘‘ نامی ایک کتاب ہے جو حمزہ بن عبداللہ الشاری نامی ایک خارجی کی سوانح پر مبنی ہے لیکن یہ محض قیاس ہے۔‘‘ (س ش ص۔ ۱۔ ص، ۱۵۴) محض قیاس نہیں۔ اس کو بےتکا قیاس کہنا چاہیے۔ ہندوستان کے داستان گو کسی خارجی کو ہیرو نہیں بنا سکتے۔ ایک تو لکھنؤ شیعوں کا گڑھ۔ دوسرے داستان گو خود بھی شیعے، تیسرے، حکومت وقت بھی شیعی۔ ان سب کے نزدیک کسی خارجی کی اہمیت نہیں ہو سکتی۔ اس لیے یہ قیاس ہی خلاف قیاس ہے۔ شیعوں کے نزدیک حضرت امیرحمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی بےشک اہمیت ہے۔ لیکن فاروقی کا بھی یہ کہنا کہ داستان میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور عم رسول اللہ کا تاریخی وجود نہیں ہے بلکہ یہ بالکل فرضی ہیں۔ 

    میرے نزدیک قابل قبول بات نہیں ہے کیونکہ مسلمانوں نے حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم گرامی کا استعمال تخئیلی بیانیہ میں کرنے کی جرأت نہیں کی ہے۔ چونکہ کوئی فرشتہ یا شیطان حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا روپ دھارنا تو دور کی بات ہے آپ کا نام نامی نہیں بیچ سکتا۔ اس لیے مسلمان داستان گو ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔ پھر یہ بھی کسی ذی ہوش شخص کے لیے ممکن نہیں ہے کہ کسی فرضی کردار کو یا فرضی نہ سہی، کسی حقیقی مگر غیرسید شخص کو خاندان رسالت کا شخص بالخصوص حضوراقدس ﷺ کا چہیتا چچا بنادے۔ 

    داستان گوئی کی ابتدا کے بارے میں جو قدیم روایتیں ہیں ان سے ظاہر ہے کہ حضرت امیر حمزہ بحکم رسول اللہ ہی سے متعلق بلاد اسلام میں قصے مشہور تھے۔ اور یہ بھی کہ ان قصوں کو خود حضورﷺ بھی وقتاً فوقتاً حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے سنتے تھے۔ اگر یہ بالکل فرضی باتیں ہیں تو کیا ان کو موضوع احادیث کے خانے میں نہ رکھنا چاہیے؟ اور اس کی ذمہ داری کن لوگوں پر جاتی ہے؟ بنوامیہ پر تو ہرگز نہیں جا سکتی۔ بنوعباس ہی پر جا سکتی ہے۔ انہوں نے اتنا بڑا فسانہ گڑھا تو گڑھا مگر جھوٹی نسبت کیوں پیدا کی؟ میرا خیال ہے کہ داستان کے بہت سے بیانیے جھوٹے ہو سکتے ہیں مگر نسبت جھوٹی نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا میں داستان امیرحمزہ کو حضور ﷺ کی نسبت آ جانے سے حضرت امیرحمزہ ہی سمجھتا ہوں۔ البتہ حمزۂ ثانی، ثالث، رابع، خامس وغیرہ کو داستانوں کے فرضی اور تخئیلی کردار مان سکتا ہوں۔ خود داستان گویوں نے داستان گوئی کی ابتدا پر جو روشنی ڈالی ہے، اس کو فرضی اور تخئیلی سمجھنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ فاروقی نے سہیل بخاری کے حوالے سے کچھ پہلے اپنا خیال یہ ظاہر کیا ہے، 

    ’’داستان امیرحمزہ کی اصل غالباً ایرانی ہے۔‘‘ (ایضاً ص، ۱۵۳) 

    لیکن ایرانی الاصل ہونے کے ثبوت پیش نہیں کیے۔ اگر نوشیرواں، ہرمز، ایرج، تورج، ہومان وغیرہ کے شاہانہ کمالات کو امیر حمزہ کی شخصیت کے پردے میں بیان کرنے سے ان داستانوں کے ایرانی الاصل ہونے کے ثبوت مل جاتے ہیں تو ان کی بات صحیح ہو سکتی ہے۔ کیونکہ داستانیں تمثیلی حیثیت تو ضرور رکھتی ہیں۔ لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ کئی ملکوں میں رائج رہی ہے اور ہر ملک نے اپنے جغرافیائی اثرات ڈالے ہیں۔ اس لیے، 

    ’’کسی داستان کو کسی خاص ملک یا وقت سے منسوب کرنا درست نہیں جو چیز دست بدست اور سینہ بہ سینہ آئی ہو اسے ہر اس زبان اور ملک کی میراث سمجھنا چاہیے، جہاں وہ مروج ہو۔‘‘ (ایضاً، ص، ۱۵۰) 

    اس فیاضی کا گلہ کیا ہو سکتا ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک اہمیت اس بات کی ے کہ جب وہ سینہ بہ سینہ آئی ہوئی چیز فارسی زبان میں بیان کی گئی یا لکھی گئی تو ایران اور فارسی کی ہوئی اور جب وہی چیز اردو زبان میں بیان کی گئی یالکھی گئی تو ہندوستان اور اردو کی ہوئی۔ اردو داستانوں کی یہی خصوصی اہمیت ہے کیونکہ ان کا اپنا تخلیقی بیانیہ ہے۔ ان میں اپنا تخئیل ہے، اپنی زبان ہے۔ اپنی زندگی ہے، اپنا تجربہ ہے اور اپنا موقف ہے۔ 

    (۱۰) امیر حمزہ کے القاب۔۔۔ خلیل علی اشک نے امیرحمزہ کو عم رسول آخرالزماں بتایا ہے۔ اس لیے ان کے القاب یہ ہیں، 

    ’’شاہ مرداں و مرد میداں، تاج بخش جہاں و حلقہ بگوش گردن کشاں، عم رسول آخرالزماں یعنی امیر کشور گیر جہاں۔‘‘ 

    اگر ہم امیرحمزہ سے مراد عم رسول نہیں بلکہ کوئی دوسرا امیر لیں، تو بھی یہ القاب ’’عم رسول آخرالزماں‘‘ کو ہٹاکر اس کے شایان شان ہی ہیں۔ مثلاً ’’بالاباختر‘‘ میں یہ القاب ہیں، 

    ’’گوہر دریائے شجاعت و لعل بے بہاے معدن ہمت و جرأت، ماہ آسان دلاوری، خورشید فلک صفدری، امیر باتوقیر، صاحب عقل و تدبیر، ملک گیر و کشورستاں، فخرسلاطین جہاں، شاہان شاہان و سلطان سلطان، زلزلۂ قاف، ثانی سلیمان، حمزہ صاحب قراں زماں۔‘‘ 

    ’’کوچک باختر‘‘ میں یہ القاب ہیں، 

    ’’سلطان سلطاناں، شاہ شاہاں، حلقہ فگن گوش گرہ کشاں، مردم رباے زین جنگ، شیربیشہ جنگ، شکنندۂ کماں رستم دستاں، صاحب گرزسام بن نریمان، زلزلۂ قاف، ثانی سلیمان، امیرحمزۂ عالی شان، صاحب قران دوراں۔‘‘ 

    فاروقی نے دیگر داستانوں میں مذکورہ القاب بھی پیش کیے ہیں، ایسے القابوں سے ظاہر ہے کہ داستان گویوں نے پرانے القاب بھی لیے ہیں اور نئے القاب بھی بنائے ہیں۔ ان القابوں کی ضرورت پر غور کیجیے تو صاف پتہ چلے گا کہ داستان گویوں نے اپنے عہد کے سربراہ مملکت کی تعریف امیر حمزہ کے پردے میں کی ہے۔ یعنی امیرحمزہ صاحب قران، داستان گویوں کے عہد کے سیاسی سربراہوں کے نمائندہ بناکر پیش کیے گئے ہیں۔ 

    اگر یہ غور کیجیے کہ امیرحمزہ ہی کو نمائندہ کیوں بنایا تو یہ بھی صاف پتہ چلتا ہے کہ اپنے ملک کے سلطان یا نواب کا استعارہ امیر حمزہ کو بنانے میں ان کی شہادت اور کوفت بعد ازقتل میں عوام کی ہمدردیوں کے جو پہلو ہیں وہ اپنے نوابوں اور شاہوں کے لیے حاصل ہو سکیں۔ نیز اسی شخصیت میں موجود بادشاہ و نواب کے اوصاف و کمالات کو بلیغ و مؤثر طور پر پیش کیا جاسکتا تھا اور سربراہ کی بعض غیراخلاقی باتوں کو بھی اس کی امتیازی شان کا جواز بنایا جاسکتا تھا اور امیرحمزہ کے استعارے ہی کی وجہ سے کسی بات کے لیے سربراہ کے براماننے کا امکان نہ تھا۔ اب اگر غور کیجیے کہ حضرت امیرحمزہ رضی اللہ عنہ واقعتاً نہ تو شاہ دین تھے اور نہ شاہ دنیا تھے پھر ان کو ’’شاہ‘‘ بلکہ ’’شاہ شاہاں‘‘ کیوں کہا گیا تو اس کی وجہ بھی ظاہر ہے۔ کیونکہ حضرت امیرحمزہؓ شاہِ دین و دنیا، سردار دوجہاں حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے پیارے چچا تھے اور غزوۂ احد میں ان کی شہادت ہوگئی اور ہندہ نے ان کا کلیجہ نکال کر چبالیا یہ ایسا دل دوز واقعہ ہے جس پر خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں خون روئیں۔ 

    ظاہر ہے کہ حضور ﷺ کی کیفیت سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کیفیت بھی بدلی، لہٰذا پوری امت کی طرف سے ہمت و مردانگی کا طمغہ حضرت امیر حمزہ کو ملا اور ان کی دلاوری پر سب کو نازرہا۔ ایک دلاور بادشاہ میداں کارزار میں جو کارنامے انجام دے سکتا ہے، اس کی انتہا میدان جنگ میں شہادت ہے اور حضرت امیر حمزہ کی شہادت خاندان رسالت میں سے کسی معزز فرد کی پہلی شہادت ہے۔ اس لیے اس فرد کو ’’شاہِ شاہاں‘‘ کہنے میں کوئی قباحت نہیں۔ 

    اسی طرح امیر حمزہ کو ’’صاحب قراں‘‘ کہنے کا بھی جواز موجود ہے۔ ’’صاحب قراں‘‘ اصلاً اس شخص کو کہتے ہیں جو ایسے وقت میں پیدا ہوا ہو جب مشتری اور زحل یا زہرہ یعنی دوسیارے ایک برج میں جمع ہو جائیں۔ ایسا شخص اپنی زندگی میں بڑا نام کرتا ہے۔ ’’صاحب قراں‘‘ امیر تیمور کا لقب ہے۔ داستان گویوں کے مطابق جیسا کہ فاروقی نے بتایا ہے، ’’صاحب قران اسے کہتے ہیں جو قاف میں بھی جاکر لڑا ہو، ہر جگہ فتحیاب ہو اور اس کا بیٹا بھی ایسا ہی ہو۔‘‘ (س ش ص، جلد۳، ص، ۱۸۹) اور ’’صاحب قراں وہ ہے جو حسب نسب، فہم و فراست، زور و جرأت سب میں تمام مردانِ عالم پر فوقیت رکھتا ہو۔‘‘ (س ش ص۔ ۳، ص، ۱۹۱) 

    اس لحاظ سے بھی دیکھیے تو امیرحمزہ ہاشمی بہترین حسب نسب والے ہیں اور فہم و فراست ہی کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اتنا عزیز رکھتے تھے اور ان کی جرأت و جنگ جوئی اور شہادت میں تو کوئی کلام ہی نہیں ہو سکتا۔ وہ کسی بادشاہ سے کم نام آور نہ ہوئے۔ لہٰذا وہ صاحب قراں ضرور ہیں امیر حمزہ کو داستان گویوں نے یہ لقب عطا کرکے امیر تیمور کی یاد تازہ کی ہے اور اس توسط سے اپنے ممدوح شیعہ آقاؤں کو خوش کیا ہے۔ 

    (۱۱) ھٰذا من فضل ربی۔۔۔ داستان گویوں نے امیر حمزہ کی اولاد و اخلاف کے آپسی تعلقات، معاملات اور اخلاقیات وغیرہ اچھے برے خوب پیش کیے ہیں۔ یہ بھی دراصل اپنے عہد کے سلطان یا نواب کی خیرخواہی جتانے کے لیے ہے کہ ہم نمک خوار ہیں تو ہر خوب و زشت سے اپنے آقا کو باخبر رکھنا ہمارا فرض ہے۔ پھر، یہ بات بھی ہے کہ ’’عمر و عیار‘‘ اور ’’لندھور‘‘ جیسے معاونوں سے ’’امیرحمزہ‘‘ کی ناچاقی ہوتی ہے تو ’’امیرحمزہ‘‘ کا کوئی کام رکتا نہیں۔ ان پر اللہ کا خاص فضل ہے۔ ان کو جبریل کی استادی نصیب ہے۔ ان کو اپنے بھتیجے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور قدر و منزلت حاصل ہے۔ تو اب سوائے فضل رب اور توفیقِ الٰہی کے وہ کس چیز یا کس شخص کے محتاج ہیں۔ 

    (۱۲) عمر و عیار کا تعارف۔۔۔ فاروقی لکھتے ہیں، 

    ’’امیر حمزہ کی طرح عمر وعیار کے بھی مفصل القاب سب سے پہلے خلیل علی اشک نے اپنی جلد چہارم صفحہ ۲ پر حسب ذیل بیان کیے ہیں، 

    سرخیل پاپوش بوساں (؟) بساط بنی آدم، مولانا معظم، جامع الفضل و الکرم، دوندۂ بے درنگ، قلعہ گیر بے جنگ، صاحب قنطورۂ و زنگ، مرداں را سرہنگ، نامراد راپالہنگ، یعنی جنت مآب، شیخ الاصحاب خواجہ عمر بن ضمری نامدار، چراغ لشکر اسلام۔ 

    عمرو نے ایک جگہ خود اپنا نام مع القاب یوں بیان کیا ہے، 

    ہزبردشت طراری و نہنگ بحرذخارعیاری، سرہنگ سرہنگاں بساط بلاد بنی آدم، مولائے معظم و مکرم، جامع الفضل و الکرم دوندۂ بے درنگ، قلعہ گیر بے جنگ، مرداں سرہنگ و نامرداں راپالہنگ، صاحب قنطورہ ورنگ، عیار جہانگیر عالم محترم و محتشم، زلزلۂ قاف سلیمانی، حمزۃ صاحب قران، امیر عالی شان، عیار طرار مکار غدار و خنجر گزار خواجہ عمرو بن امیہ ضمری نامدار۔‘‘ (طلسم ہوش ربا، جلد ششم ص، ۹۰۸) بحوالہ: س ش ص جلد۳، ص۳۲۰) 

    دو ایک باتیں توجہ کے لائق ہیں۔ ایک تو یہ کہ خلیل علی اشک نے ’’خواجہ عمر‘‘ (بدون واؤ) لکھا ہے۔ جب کہ عمرو نے خود اپنا تعارف ’’خواجہ عمرو‘‘ (واؤ کے ساتھ کرایا ہے) اشک نے صرف ’’بن ضمری‘‘ لکھا ہے۔ مگر عمرو نے اپنا نام ولدیت کے ساتھ ’’بن امیہ ضمری‘‘ بتایا ہے۔ دوسرے یہ کہ اشک نے عمرو کی سیرت کے معائب نہیں لکھے ہیں۔ مگر خود عمرو نے اپنے القاب میں ’’عیار طرار مکار غدار‘‘ بھی کہا ہے۔ یعنی وہ اپنا تعارف بالکل صاف گوئی اور کسی قسم کے احساس کمتری و برتری سے بے نیاز ہوکر کراتا ہے کہ اس میں محاسن ہیں تو معائب بھی ہیں اور وہ بنوہاشم کی طرح حسب و نسب کی فضیلت نہیں رکھتا۔ وہ سیدالاصحاب نہیں۔ ’’شیخ الاصحاب‘‘ ہے۔ اب آگے چلیے۔ فاروقی لکھتے ہیں کہ، 

    ’’عمرو کے نام کا معاملہ تھوڑا پیچیدہ ہے۔ زیادہ تر داستانوں میں ہے کہ امیرحمزہ اور عمرو کے نام بزر چمہر نے رکھے۔۔۔ لیکن ایسا بھی ہے کہ خواجہ عبدالمطلب نے امیرحمزہ کا نام ابوالعلا اور عمر وعیار کا نام عمرو (مع واؤ) رکھا۔ (س ش ص۔ ۳، ص، ۳۲۰) 

    ’’بزر چمہر کہتا ہے کہ ہم نے اس کا نام ’’عمروبالفتح‘‘ رکھا (بلگرامی: ۵۰) اس کا مطلب یہ ہے کہ نام کا تلفظ بفتحین بروزن ’’خبر‘‘ ہوگا نہ کہ بسکون دوم بروزن ’’شہر‘‘ (ایضاً ص۔ ۳۲۱) 

    یہ بات دھیان میں رہے کہ ربی میں ’’عمر‘‘ (اول مضموم، دوم مفتوح) کی ایک تصغیر ’’عمرو‘‘ بھی ہے اور اس کا تلفظ اول مفتوح اور دوم ساکن کے ساتھ بروزن ’’دہر‘‘ یا بروزن ’’شہر‘‘ کیا جاتا ہے۔ بزر چمہر نے جو صراحت کی ہے کہ بچے کا نام ’’عمروبالفتح‘‘ ہے (بلگرامی، ۵۰) تو اس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ نام کا تلفظ اول دوم مفتوح کے ساتھ بروزن ’’خبر‘‘ ہوگا۔۔۔ یہاں (یعنی ہندوستانی داستان میں) ہم دیکھتے ہیں کہ عمرو کے منظوم نعروں میں (ایک نعرے کے سوا) ہر جگہ اس کا نام بروزن ’’خبر‘‘ لکھا گیا ہے اور نام کا املا ’’عمرو‘‘ درج کیا گیا ہے۔ لہٰذا، یہ بات طے ہوجاتی کہ ایرانی داستان میں جو بھی تلفظ رہا ہو لیکن اس کے ہندوتانی روپ میں تلفظ بروزن ’’خبر‘‘ اور املا ’’عمرو‘‘ ہی درست ہے۔ ’’دہر/شہر‘‘ تلفظ جس نعرے میں نظم ہوا ہے وہ حسب ذیل ہے۔ 

    (نوشیرواں، اول۳۵۹) 

    عمرم کہ کلہ از سر قیصر ببرم
    رنگ از رخ بحثک بداخترم ببرم

    درمجلس خسرواں چوگردم ساقی
    تیغ و سپرو سبو و ساغر ببرم

    (س ش ص۔ ۳، ص، ۲۲۔ ۳۲۱) 

    یہ دھیان رہے کہ غالب نے بھی عمرو کا نام بروزن ’’خبر‘‘ باندھا ہے 

    درمعنی سے مراصفحہ لقا کی ڈاڑھی
    غم گیتی سے مراسینہ عمرو کی زنبیل

    بعض نسخوں میں ’’امر‘‘ بفتحین لکھا ملتا ہے۔ اس سے یہ بات مصدق ہوجاتی ہے کہ غالب کے زمانے میں عمر و عیار کے نام کا تلفظ بروزن ’’خبر‘‘ تھا۔ غالب نے اس تلفظ کا التزام ایک فارسی قصیدے میں بھی کیا ہے۔ (درمدح نواب کلب علی خاں) 

    زغمزۂ توچہ گویم کہ آں بودزعمرو
    دلیر و چست و ہنرمند تربہ عیاری

    یہی تلفظ اس قصیدے میں بار بار آیا ہے۔ فارسی قصیدے میں بھی غالب کے اس تلفظ سے یہ نتیجہ نکل سکتا ہے کہ فارسی میں بھی رائج تلفظ بروزن ’’خبر‘‘ ہوگا۔ (ایضاً۔ ۳، ص، ۳۲۲) 

    اردو کی حدتک تو یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ صحیح تلفظ بروزن ’’خبر‘‘ ہی ہے۔ طوطا رام شایان نے اپنی نظم کردہ داستان امیرحمزہ موسوم بہ ’’طلسم شایاں‘‘ میں بھی ہرجگہ بروزن ’’خبر‘‘ لکھا ہے۔ (کہیں واؤ کے ساتھ کہیں واؤ کے بغیر) لہٰذا ہم صرف اندازہ کر سکتے ہیں کہ ’’عمرو‘‘ بفتحین ہے۔ بضم اول و فتح دوم نہیں ہے۔‘‘ (س ش ص۔ ۳، ص، ۳۲۲) 

    اور اپنی بات کے ثبوت میں فاروقی ’’طلسم شایاں‘‘ سے درج ذیل اشعار نقل کرتے ہیں، 

    بڑا ہی شوخ ہوگا اور چالاک
    نہایت مفتری عیار بے باک

    عمر القصہ اس نے نام پایا
    قلم اب دوسرے مطلب پر آیا

    سنے جس وقت مضموں زہر آمیز
    عمر کی آتش غصہ ہوئی تیز

    فرد حمزہ نے کی آتش عمر کی
    نہیں انساں کو لازم ہے گرمی

    اٹھایا الغرض ان کو بہ توقیر
    عمر دل میں مگر تھا سخت دلگیر

    سنو اب دوسرے دن کی کہانی
    عمر نے بھی بہ رسم مہمانی

    جہاں بیٹھے ہوئے تھے دونوں مہماں
    کیے حاضر عمر نے لاکے دوخواں 

    خجالت سے نہایت طیش کھایا
    عمر کے قتل پر خنجر اٹھایا

    (س ش ص۔ ۳، ص، ۳۲۳) 

    اور اپنا محاکمہ پیش کرتے ہیں، 

    ’’مندرجہ بالا اشعار سے یہ بات تو صاف ہوجاتی ہے کہ عمر و عیار کا نام بروزن ’’خبر‘‘ ہی درست ہے اور جہاں محض ’’عمر‘‘ لکھا ہے اسے کتابت کی غلطی قرار دینا چاہیے اور بروزن ’’ہنر‘‘ نہ پڑھنا چاہیے۔ کیونکہ یہ نام بہرحال بروزن ’’ہنر‘‘ نہیں ہے۔ ’’طلسم ہوش ربا‘‘ چہارم کے اول ایڈیشن (۱۸۹۰) میں ہر جگہ ’’عمر‘‘ ملتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی کتابت کی غلطی ہے۔ ’’طلسم ہوش ربا‘‘ اول، صفحہ ۸۱۸ پر ایک مثال ایسی ہے جہاں عمرو کا نام منظوم نعرے میں نہیں بلکہ منظوم بیانیہ میں آیا ہے۔ اور وہاں بھی اس کا تلفظ بروزن ’’خبر‘‘ ہی ہے کیونکہ املا ’’عمرو‘‘ لکھا ہوا ہے لیکن ’’عمرو‘‘ بروزن ’’ہنر‘‘ ہونے کا سوال ہی نہیں 

    عمرو کو جو کرتے تھے ساحر بلاک
    گریباں سحر کا ہوا غم سے چاک

    رہا اس کے املے کا معاملہ تو جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں، داستان میں بار بار اسے عمرو مع واؤ لکھا گیا ہے۔ لیکن کہیں کہیں اس سے انحراف بھی ہے۔ انحراف کو ہم کاتب/داستان گو کی لاپروائی پر محمول کر سکتے ہیں۔‘‘ 

    (س ش ص۔ ۳، ص، ۳۲۴) 

    فاروقی کی یہ تحقیق بہت باوزن ہے۔ میں نے اپنے طور پر مزید تشفی کے لیے چند لغات دیکھے جو میری دسترس میں ہیں، 

    فرہنگ آصفیہ: عمرو (اسم مذکر۔ ایک فرضی نام) چونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نام اور اس نام میں بحالت تحریر فرق و امتیاز نہیں رہتا تھا۔ عمر بضم کو عمر بالفتح پڑھ دینا سوئے ادبی میں داخل تھا۔ لہٰذا ایک زائد واؤ کے ساتھ اس نام کے لکھنے کی رسم ڈالی گئی۔ 

    مہذب اللغات: عمرو (بفتح اول و سکون دوم وبضم سوم) طلسم ہوش ربا کے ہیرو کا نام جو مسلمانوں کے گروہ کا نمبر۱ عیار تھا۔ اردو عوام کی زبان۔ 

    قول فیصل: واؤ کا اضافہ کتابت میں صرف اس لیے کیا گیا کہ عمر بمعنی زندگی بسکون میم اور عمر بمعنی نام بضم اول و سکون دوم میں فرق ہو جائے۔ واؤ صرف مکتوبی تھا، ملفوظی نہ تھا۔ عوام اور جہلا نے ملفوظی کر لیا۔ فصحائے لکھنؤ بفتح اول و سکون دوم بولتے ہیں۔ عوام اور جہلا بفتحین بولتے ہیں۔ ان کے نام کے جزو خواجہ اور عیار ہیں۔ 

    نوراللغات: عمرو، عربی، مذکر، عمر، ایک شخص کا نام تھا۔ اس کے بعد واؤ غیرملفوظ اس غرض سے اضافہ کیا گیا ہے کہ عُمَر اور عَمْر میں متیاز ہوجائے۔ اور میں بیشتر عَمَر بفتح اول و دوم زبانوں پر ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ ان لغتوں میں تحقیقی بات نہیں ہے۔ یہ بات کہ ’’عمرو‘‘ ایک فرضی نام ہے، بالکل غلط ہے۔ اور عمر بضم کو عمر بفتح پڑھ دینے میں سوائے ادبی کے احتمال کی وجہ سے واؤ زائد کے ساتھ اس نام کے لکھنے کی رسم ڈالی گئی تو اور بھی مغالطہ آمیز ہے، گویا عمر سے پہلے عمرو کسی کا نام نہیں تھا۔ مہذب لالغات اور نوراللغات کی یہ بات تو صحیح ہے کہ واؤ مکتوبی تھا۔ ملفوظی نہ تھا۔ لیکن اگر فصحائے لکھنؤ ’’عمرو‘‘ بفتح اول و سکون دوم بولتے تھے اور صحیح بولتے تھے تو بضم سوم کیا چیز ہے۔ کیا اسی وجہ سے اردو میں واؤ کا اضافہ ہو گیا کیونکہ اردو میں کوئی لفظ متحرک الآخر نہیں ہوتا۔ پھر اگر فصحائے لکھنؤ فتح اول و بسکون دوم، بولتے تھے اور عوام اور جہلا بفتحین بولتے تھے تو شاعروں اور داستان گویوں نے فصحائے لکھنؤ کی پیروی نہ کرکے عوام اور جہلا کی پیروی کیوں کی؟ تو پھر واؤ مکتوبی کی بھی ضرورت کیا تھی؟ کہتے ہیں کہ ’’ایک شخص کا نام تھا‘‘ کون تھا وہ شخص، کیا یہ بتانا ضروری نہ تھا؟

    تحقیقی بات یہ ہے کہ ’’عمرو‘‘ اور ’’عمر‘‘ دو نام ہیں اور دونوں کا تلفظ الگ الگ ہے۔ واؤ کے ساتھ عمرو کا تلفظ بروزن ’’بدر‘‘ یا ’’شہر‘‘ ہی ہے، لیکن اردو والے ساکن کو متحرک اور متحرک کو ساکن کرتے رہتے ہیں۔ تو جب ’’عمرو‘‘ میں م ساکن کو م مفتوح کریں گے تو ’’عمرو‘‘ بروزن ’’خبر‘‘ ہو ہی جائےگا، بروزن ’’ہنر‘‘ ہرگز نہ ہوگا کیونکہ عین مفتوح اپنی جگہ پر برقرار رہےگا، وہ تو نہ بدلےگا۔ فاروقی نے بات صحیح کہی ہے لیکن ’’بروزن ’ہنر‘ ہونے کا سوال ہی نہیں۔‘‘ کو واضح کر دینا تھا تاکہ تھوڑی دیر کے لیے بھی کسی کو سمجھنے میں دقت نہ ہوتی۔ فاروقی کی یہ بات بھی اسی وجہ سے صحیح ہے کہ ’’عمر‘‘ بغیر واؤ ’’عمروعیار‘‘ کے لیے لکھنا املا کی غلطی ہے کیونکہ یہاں ’’عمر‘‘ اصلاً ’’عمرو‘‘ م ساکن پر حرکت دینے کی وجہ سے ’’عمر‘‘ بروزن ’’خبر‘‘ ہوا ہے۔ جن لوگوں نے ’’عمر‘‘ بغیر واؤ لکھا ہے۔ انہوں نے یہ نہ سوچا کہ اس کو ’’عمر‘‘ بضم عین پڑھا جا سکتا ہے۔ 

    اس صورت میں پڑھنے والے کا ذہن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف جائےگا اور اس نام کی بےحرمتی ہوگی۔ اس لیے جب اصل نام عمرو بن امیہ ضمری ہے تو ہمیشہ عمرو (واؤ کے ساتھ) لکھا جائے اور شاعری میں بھی اس کا صحیح تلفظ ادا ہو۔ م متحرک نہ بندھے۔ لیکن اگر جانتے بوجھتے ایسا کیا گیا ہے کہ عمرو میں م کو متحرک کردیا اور واؤ کو ہٹا دیا گیا تو ظاہر ہے کہ اس لفظ کو اب عمر بضم عین پڑھنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ یہ استعمال کرنے والوں کی دیدہ و دانستہ شرارت ہو سکتی ہے۔ اس کو ہم ’’لاپرواہی‘‘ کہہ کر ٹال نہیں سکتے۔ یہ ANTISUNNI حرکت معلوم ہوتی ہے۔ داستان گویوں اور شاعروں نے اپنے ممدوحوں کے ساتھ ایسا کیوں نہیں کیا۔ 

    اب رہی بات ’’عمرو عیار‘‘ کے فرضی ہونے کی، تو یہ شخص فرضی نہیں ہے۔ عرب میں ’’عمرو‘‘ نام کے کئی لوگ گزرے ہیں۔ جیسے عمرو بن عاص، عمرو بن سعد، اسی طرح عمرو بن امیہ ضمری۔ میں نے سیرت کی ایک قدیم کتاب جو علامہ علی ابن برہان الدین حلبیؒ متوفی ۱۰۴۴ھ کی لکھی ہوئی ہے اور جس کا اردو ترجمہ ادارۂ قاسمیہ، کتب خانہ قاسمی، دیوبند نے ’’سیرت حلبیہ‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے کئی برس پہلے پڑھی تھی۔ اس کو پھر دیکھا۔ اس کی جلد اول قسط آٹھ ص، ۷۲ پر فاضل مصنف نے لکھا ہے کہ، 

    ’’عمرو بن امیہ۔۔۔ عرب میں انتہائی عقلمند اور سمجھدار آدمی سمجھا جاتا تھا۔ یہ اندھا تھا اور لوگوں کو ہونے والے واقعات سے متعلق خبریں دیا کرتا تھا۔‘‘ 

    اس کتاب کی جلد دوم قسط آٹھ ص، ۱۳ پر ہے کہ

    ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مختلف اہم معاملات میں حضرت عمرو بن امیہ ضمری کو اپنا قاصد اور نمائندہ بناکر بھیجا کرتے تھے کیونکہ وہ بےحد ذی رائے اور سمجھ دار لوگوں میں سے تھے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ آنحضرت انہیں ان کے مسلمان ہونے کے بعد ہی بھیجتے رہے ہوں گے اور ان کے اسلام کے بارے میں یہ بات معلوم ہے کہ وہ ۴ھ میں مسلمان ہوئے ہیں۔‘‘ 

    لیکن کتاب ’’اصل‘‘ یعنی ’’عیون الاثر‘‘ کے حوالے سے علامہ حلبیؒ نے یہ لکھا ہے کہ ایک صحابی کے ساتھ حضرت عمروبن امیہ ضمری کے مکہ جانے کی تجویز پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ، 

    ’’جب عمرو بن امیہ ضمری اپنی قوم کے درمیان یعنی اپنے علاقے میں پہنچ جائے تو اس سے بچتے رہنا۔۔۔ اس سے تم اپنے کو محفوظ مت سمجھنا۔‘‘ (ص، ۱۳) 

    اسی کتاب کی جلد سوم قسط نو ص۵۲ پر ہے کہ، 

    ’’یہ عمرو بن امیہ ضمری جاہلیت کے زمانہ میں نہایت عیار اور چالاک آدمی تھے (یہاں تک کہ ان کی چالاکیوں اور بہادری کی وجہ سے لوگ ان کو شیطان کہا کرتے تھے اور سب ان سے ڈرتے تھے۔۔۔) ‘‘ 

    غرض یہ کہ عمرو بن امیہ ضمری ایک شخص اور عیار و چالاک ان کی شخصیت کے بارے میں تاریخی شہادت سیرت کی کتاب سے مل جاتی ہے۔ البتہ اس بات سے انکار نہیں کہ داستان گویوں نے جس طرح امیر حمزہ کی شخصیت میں اپنے تخیل سے رنگ بھرا، اسی طرح عمرو بن امیہ ضمری کی شخصیت کو بھی اپنی قوت متخیلہ سے بےنظیر کردار بنا دیا ہے۔ اس لیے اس بات کو ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ اردو داستان تاریخی بنیاد پر تخیلی واقعات کا عظیم بیانیہ ہے۔ لیکن سرے سے اس کی تاریخی بنیاد ہی کو رد نہیں کر سکتے۔ اس طرح کے ادب کی مثال میں ہم مثنوی ’’یوسف زلیخا‘‘ کو پیش کر سکتے ہیں۔ 

    اب اگر یہ غور کیجیے کہ داستان امیر حمزہ میں عمرو بن امیہ ضمری ہی کو ایک معاون اسلام کی حیثیت سے کیوں لایا گیا ہے؟ تو اس کا جواب بھی سیرت سے مل سکتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ے بنی ضمرہ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا۔ علامہ حلبیؒ نے ’’سیرت حلبیہ‘‘ جلد دوم، قسط پنجم ص، ۳۶ پر لکھا ہے کہ، 

    ’’بنی ضمرہ سے جن شرطوں پر صلح ہوئی وہ یہ تھیں کہ دونوں فریق ایک دوسرے سے جنگ نہیں کریں گے۔ نہ ہی آنحضرت کے مقابلے میں حملہ کریں گے اور نہ مسلمانوں کے کسی دشمن کی مدد کریں گے۔‘‘ 

    علامہ حلبیؒ نے اس معاہدے کی نقل بھی پیش کی ہے۔ اسی میں یہ بھی ہے کہ، 

    ’’جب تک دریائے صوفہ میں تری باقی ہے، اس عہد نامہ پر عمل کیا جائےگا۔۔۔ اور یہ کہ جب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو مدد کے لیے بلائیں، ان کو مدد کے لیے آنا ضروری ہوگا۔۔۔‘‘ 

    ظاہر ہے کہ جب قبیلہ بنی ضمرہ سے حضورﷺ کا ایسا معاہدہ ہو چکا ہے تو داستان گویوں نے اس کے ایک فرد سے فائدہ اٹھایا۔ ان کی تاریخی معلومات نے ان کے تخئیل کو صحیح راہ دکھائی۔ 

    (۱۳) داستان گوئی کی ابتدا: اس سلسلے میں کئی روایتیں ہیں۔ فاروقی نے س ش ص۲ میں ’’داستان کا افسانہ‘‘ کے عنوان کے تحت کئی حوالوں سے ان سب کا ذکر کیا ہے۔ ان ہی کے لفظوں میں، 

    ہم یہاں داستان کی ابتدا کے بارے میں چند روایتوں سے بحث کریں گے۔ (الف) قصۂ حمزہ۔ مخطوطہ مرتب جعفر شعار (۱۹۶۹) صفحہ ۳ تا ۴) 

    ترجمہ (فارسی سے۔۔۔) ’’یہ قصہ عرب اور عجم اور کل بلاد اسلام میں بروایات مختلف مشہور و معروف ہے۔ لیکن صحیح روایت ابوطالب و عباس جو حضرت رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے، ان سے ہم تک پہنچی ہے۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قصے کو ابن عباس سے سنتے تھے۔ جیسا کہ شاعر کہتا ہے نظم، 

    محمدؐ جو کہ حرف کن کے ظاہر ہونے کا باعث تھے۔ جب کاموں سے دل تنگ ہو جاتے تو عباس سے کہتے کہ اے نیک خو میرے چچا کے حالات میں سے کوئی حصہ بیان کرو، عباس اس سرگزشت کو بیان کرتے کہ حمزہ پر دور فلک کیوں کر گزرا۔۔۔‘‘ 

    (ب) رموز حمزہ (ممبئی۱۹۰۹) صفحہ ۲ تا ۳

    (ترجمہ فارسی سے۔۔۔) داستان امیر حمزہ صاحب قراں، عرب و عجم میں مشہور قصہ ہے اور اس قصے کی بہت سی روایتیں ہیں۔ لیکن صحیح ترین وہ ہے جو حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے ہم تک پہنچی ہے۔ آپ بڑے بھائی تھے جناب حمزہ کے اور ہمیشہ ہر جگہ ان کے ساتھ رہتے تھے اور حمزہ صاحب قراں اور عباس رضی اللہ عنہما اور ابوطالب حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد بزرگوار کے بھائی تھے اور حضرت رسالت جب کبھی دل تنگ ہوتے تو اس قصے کو حضرت عباس سے سنتے تھے۔ نظم، 

    محمد جو کہ حرف کن کا باعث تھے جب دنیائے دوں سے دل تنگ ہو جاتے تو عباس سے کہتے کہ اے نیک خو میرے چچا کے حالات میں سے کوئی حصہ بیان کرو، عباس اس سرگزشت کو بیان کرتے کہ حمزہ پر دور فلک کیوں کر گزرا۔ اس لیے اے مومن پاک دیں، اب تم بھی حمزہ کے بارے میں کہ ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ کچھ حکایات سنو۔۔۔‘‘ 

    (ج) زبدۃ الرموز (۱۶۹۳) ورق۱، صفحہ۲

    (i) ترجمہ (فارسی سے۔۔۔) ’’شیر بیشۂ جنگ (امیرحمزہ) کی شہادت کے بعد جب سرورکائنات (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے چچا کے گھر سے کبھی کبھی گزرتے تو عرب کی خواتین عظمیٰ جو وہاں مقیم تھیں ہمیشہ زبان حال سے ان سرور جدال (امیرحمزہ) کے غزوات اور ان کی مردانگیوں کو یاد کرکے نوحہ کرتی تھیں اور ان کلمات کو سن کر سید ابرار کبھی کبھی وہاں ٹھہرنا مناسب گردانتے تھے۔ اور اس انوکھی بات کے راوی عمر (کذا) بن امیہ زمری (کذا) ہیں جو ارباب ندما و اصحاب ظرفامیں شمار ہوتے ہیں۔ ایک مدت تک یہ قیمتی موتی ملک عرب میں مخفی و مستور تھا۔ جب مولانا مسعود مکی کہ یکے از فصحائے عرب تھے، کے ہاتھ سر رشتہ ان کلمات متین کا آیا، مشارالیہ نے اس میں کچھ اضافہ کیا اور اس زمانے میں لوگ، حضرات (صحابہ؟ اہل بیت؟) کے خلاف نامناسبات پر قائم تھے جب آنجناب نے اس حال کا مشاہدہ کیا تو ان کی رائے پسندیدہ میں یہ ٹھہری کہ ہر روز لوگوں کے سامنے اس قصے میں سے مجملاً کچھ پیش کریں کہ شاید اس طرح عوام اس امر شنیع سے باز آ جائیں۔۔۔‘‘ 

    (ii) اور بعض کاخیال ہے کہ خلفائے بنی عباس میں سے ایک کو مرض سرسام لاحق ہوا۔ کسی بھی ترکیب سے اس کا دفعیہ نہ ہوتا تھا۔ تب لوگوں کا ایک گروہ اس کتاب کی تصنیف میں مشغول ہوا اور ان لوگوں نے جو کہ۔۔۔ عظمائے حکمائے خلفائے بنی عباس تھے یہ حکایت وضع کی اور ان میں سے کچھ لوگ اس شہر یارذی اقتدار کی خدمت میں شب و روز اس کو پڑھتے اور اس جدو جہد کا بیان کرتے۔ حتیٰ کہ اس صاحب سعادت کو اس مرض سے شفا ہوئی۔۔۔ 

    (iii) اور اکثر اہل فن کا کہنا ہے کہ اس افسانۂ غریب کو زبان فرس میں مولانا ابوالمعالی نیشاپوری و ملاجلال بلخی نے جو کہ سرآمد استادان روزگار ہیں اور اس علم میں مہارت تمام رکھتے ہیں۔ انہوں نے اس افسانے کو بہ لباس ہستی مزین کیا اور مولانا سلطان حسین مشتاقی جو کہ اکابر قصہ خواں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے اول قصہ سے لے کر ایرج کی گرفتاری تک اس قصے کی تصحیح کی۔۔۔‘‘ 

    ان روایتوں میں بہت آسانی سے تطابق ہو سکتا ہے لیکن اس کی یہاں ضرورت نہیں۔ اصل مسئلہ وہ ہے جو فاروقی کی بات سے پیدا ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ، 

    ’’یہ بات دھیان میں ہمیشہ رکھنی چاہیے کہ جس طرح امیر حمزہ اور عمروعیار بن امیہ ضمری کے کردار (چند معمولی جزئیات کے سوا) بالکل فرضی اور غیرتاریخی ہیں۔ اسی طرح پیغمبر آخرالزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بھی ذکر جہاں جہاں داستان میں آیا ہے، وہ غیرتاریخی ہے اور مذہب اسلام یا سیرت رسول سے اس کا کچھ تعلق نہیں۔‘‘ (س ش ص۔ ۳، ص، ۲۳۴) 

    اس کا مطلب یہ ہے کہ حضورﷺ کے حالاتِ حمزہ سننے کی روایت بالکل موضوع ہے۔ حالانکہ یہ بات بعیدازقیاس نہیں ہے کہ حضورﷺ اپنے مرحوم و شہید چچا کے حالات سننا پسند فرماتے ہوں اور آپ نے کبھی ایک آدھ بار ہی سہی، سنے ہوں۔ کیونکہ آپﷺ سفر و جنگ کے واقعات دلچسپی سے سنتے تھے۔ اور وہی احوال سننا بعد میں طویل داستان سرائی کی بنیاد بن گیا ہو۔ واللہ اعلم۔ ’’سیرت حلبیہ‘‘ (اردو) جلد دوم قسط نہم میں صفحہ۶۹ پر ہے کہ، 

    ’’حضرت حمزہ کے قاتل وحشی بعد میں مسلمان ہو گئے تھے۔ فتح مکہ کے وقت جب مکے پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا تو یہ وحشی مکے سے فرار ہوکر طائف چلے گئے تھے۔ پھر جب طائف کے لوگ مسلمان ہونے کے لیے آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو وحشی بھی ان کے ساتھ مسلمان ہونے کے لیے آئے۔۔۔ وحشی کہتے ہیں کہ پھر آنحضرت سے میرا سامنا صرف ایک ہی دفعہ ہوا تھا جب کہ میں نے آپﷺ کے پاس کھڑے ہوکر حق وصداقت کی شہادت دی تھی۔ آپ نے پوچھا، تم ہی وحشی ہو؟ پھر دریافت کیا کہ تم نے حمزہ کو کیسے قتل کیا تھا؟ میں نے آپ کو وہ واقعہ بتلایا۔۔۔‘‘ 

    سیرت کی اس قدیم کتاب کے ان جملوں سے تو صاف ظاہر ہے کہ آپﷺ نے امیرحمزہ کی شہادت کا واقعہ خود قاتل ہی سے پوچھا۔ اس نے بتایا کہ اس نے کس طرح وار کیا تھا اور حضرت کی جان لی تھی۔ اور حضورﷺ نے اس واقعے کو سنا۔ سیرت کا اتنا تعلق کافی ہے۔ داستان گویوں نے محض بے پر کی نہیں اڑائی ہے۔ کچھ لاگ رہنے ہی پر لگاؤ کا چرچا ہوتا ہے۔ یہ بات ادب کے ہر طالب علم کو معلوم ہے کہ عرب میں بھی چوپالیں تھیں اور قصہ گوئی ہوئی تھی۔ حضورﷺ ان چوپالوں میں تو نہ جاتے تھے۔ لیکن حالات و حادثات کی اطلاع رکھتے تھے۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی شعرگوئی کی پسندیدگی سے تویہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپ ﷺ بیانیہ کی پراثر رنگ آمیزی کو بھی مطبوع رکھتے تھے۔ واقعہ میں تخیل کی آمیزش صرف ادب کا خاصہ نہیں ہے بلکہ بشری مزاج کا بھی خاصہ ہے کہ وہ اس کو قبول کر لیتا ہے اور غالباً اسی وجہ سے ادبی شاہکاروں کا فروغ بھی ہوتا ہے۔ اس میں تو شک نہیں کہ اردو داستان شیعہ لٹریچر ہے اور شعبوں کی پرواز تخیل کی شاہکار ہے لیکن یہ تاریخی بنیاد بھی رکھتی ہے اور اسی وجہ سے بعض کرداروں کے نام ’’فاروق‘‘ اور ’’نعمان‘‘ رکھنے پر مجھے یہ احساس ہوا کہ ان میں سنیوں کی تحقیر کا پہلو ہو سکتا ہے۔ فاروقی نے اطلاع دی ہے کہ، 

    ’’اہل شر سے تعلق رکھنے والے دو کردار، ان کا نام ’’فاروق‘‘ ہے۔ (ہومان نامہ) ۔۔۔ ایک غیراسلامی سردار کانام ’’فاروق‘‘ اور اس کے عیار کا نام ’’نعمان‘‘ ہے۔‘‘ (طلسم نورافشاں) (س ش ص۔ ع۔ ص۲۷۵) 

    داستان گو تو طرح طرح کے نام رکھنے میں بڑے ماہر تھے۔ کاش، شری اور غیراسلامی کرداروں کے نام ’’فاروق‘‘ اور عیار کا نام ’’نعمان‘‘ نہ ہوتے۔ 

    (۲)
    کہانی سننا اور سنانا تو انسانی فطرت ہے۔ حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت دلخراش واقعات کی کچھ ایسی نوعیت ضرور رکھتی ہے جس کو لوگ ایک عرصے تک بھولے نہ ہوں گے اور اس شہادت کے تعلق سے حضرت حمزہ کی زندگی کے دیگر واقعات بھی اسلامی مردوں اور عورتوں میں بیان ہوتے رہے ہوں گے۔ لیکن اس کا باضابطہ آغاز عہد بنوعباس کی ابتدا سے شروع ہو گیا تھا جیسا کہ داستان گویوں نے اشارے کیے ہیں۔ انہوں نے جو وجہیں بتائی ہیں وہ بھی بعید ازقیاس نہیں ہیں۔ (ملاحظہ ہو نمبر۱۳، داستان گوئی کی ابتدا۔‘‘) روایتوں کے اختلاف و تعدد میں بڑی آسانی سے مطابقت پیدا کی جا سکتی ہے۔ مثلاً اہل بیت پر بنوامیہ کے طعن و تشنیع کو ختم کرنے کے لیے بنو عباس کے صاحب زبانوں نے حضرت امیرحمزہ کو ہیرو کی حیثیت سے پیش کیا اور عوام میں ان کے مناقب بیان کیے۔ 

    بعض بزرگان دین اور حکماء نے اس واقعے کو اصلاح قلب اور صحت قوی کے لیے بھی استعمال کیا کیا کیونکہ بعض مخصوص اذکار کا ذہن و جسم پر ضرور اثر ہوتا ہے۔ پھر جیسے جیسے زمانہ آگے بڑھا۔ ادبی طور پر بھی واقعہ گوئی کی اہمیت روشن ہوئی اور ان تمام علاقوں میں جہاں بنوعباس غالب آئے اور / یا علویوں اور فاطمیوں کی حکومت قائم ہوئی، واقعات امیر حمزہ کے ذریعے اسلامیوں میں نیا جوش و ولولہ اور نیا شعور سیاست و معاشرت پیدا کیا گیا اور اس میں تخلیقی بیانیے کے تحت تخئیلی واقعات و حادثات بھی پیش ہونے لگے اور اپنی اپنی دنیا کے بڑے بڑے لوگوں کا بیان ’’داستان‘‘ کہا جانے لگا۔ 

    کہا جاتا ہے کہ ’’داستان‘‘ یا ’’دستان‘‘ رستم کے باپ زال کا لقب تھا۔ زال کے بال پیدائشی سفید تھے۔ اس لیے اس کا نام زال یعنی پیر رکھا گیا۔ مگر داستان/دستاں اس کا لقب اس لیے مشہور ہوا کہ ان لفظوں میں شہرت، بزرگی اور حشمت کے بھی معنی تھے۔ چونکہ زال میں بھی بزرگی کے معنی موجود ہیں۔ اس لیے اس نسبت سے داستان/ دستاں اس کا لقب بھی موزوں تھا۔ غالباً داستان کے بنیادی معنی شہرت، دبدبہ، حشمت، بزرگی ہی کے ہیں جیسا کہ فردوسی کے اس شعر سے ظاہر ہے۔ 

    منم کردہ ام رستم داستاں وگر نہ یلے بوددرسیستاں 

    اور یہ بالکل واضح ہے کہ ’’دستاں‘‘ میں بھی زوربازو، زبردست کے معنی موجود ہیں۔ لیکن لمبے چوڑے، طولانی پیچیدہ قصوں کے لیے جو واقعات و کردار ہر لحاظ سے بزرگی، حشمت اورشہرت کے معنی رکھتے ہیں، داستان کا لفظ چل نکلا۔ پھر بڑے بڑے واقعوں اور بڑے بڑے کرداروں پر مبنی شاہناموں کو بھی داستان کہا جانے لگا۔ یعنی ان بنیادی معنی میں یہ معنی بعد میں کنایتہً شامل ہو گئے۔ چونکہ بادشاہوں کو ظل الٰہی سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے عجیب و غریب، غیرفطری واقعات و حادثات بھی ان سے یا ان کی فوج سے سرزد ہو سکتے تھے۔ لہٰذا فوق الفطری عناصر داستان کا خاص وصف ٹھہرے۔ اب اگر غیرفطری عناصر کو کسی بیان میں آنے دیا گیا تو ان کو روکانہیں جا سکتا۔ یعنی ان کی کوئی حدنہیں ہے۔ وہ کہیں بھی، کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن بیان بنانے والے کی تو حدیں ہیں۔ اگر اس کو کہا جائے کہ ان عناصر کو اسٹیج پر دکھاؤ تو اس کے لیے مشکل ہوگی۔ اس لیے داستان کا بیانیہ قولی ہوتا ہے۔ عملی نہیں ہوتا۔ اور عمل نہ ہونے، صرف قولی ہونے کی وجہ سے وہ حقیقی زندگی کا پابند نہیں ہوتا بلکہ آزاد و خودمختار تخئیل کا بے لگام بیان ہوتا ہے۔ لہٰذا داستان میں بیان یا بیانیہ کی سب سے زیادہ اہمیت ہے۔ 

    جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں صاحب نے فلاں بیان دیا ہے تو اس کا کیا مطلب ہوا؟ ہم لوگ عام طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ کسی صورت حال یا خیال یا رائے کو ظاہر کرنے کے لیے اپنائے گئے پیرایے سے جو مضمون بنتا ہے وہ بیان ہے۔ قطع نظر اس سے کہ اس میں مافی الضمیر پوری طرح واضح ہو رہا ہے یا نہیں۔ اس طرح کے کئی بیانوں کی اکائیوں میں معمولی یا گہرا ربط پیدا کرکے سلسلۂ بیان قائم کیا جائے تو اسے بیانیہ کہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں اس بیانیہ میں آغاز و انجام کی بھی توقع ہوگی۔ یعنی بیانیہ شروع ہوا، جاری رہا اور اختتام کو پہنچا۔ بات پوری ہو چکی۔ لیکن فاروقی نے بیانیہ کو بہت وسیع معنی میں استعمال کیا ہے، 

    ’’بیانیہ تو اس عظیم اور تقریباً بے پایاں طرز اظہار کا پھل ہے۔ جسے ہم کسی وقوعے، کسی حالت، کسی کیفیت حتی کہ کبھی کبھی کسی خیال کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ آج کی اصطلاح میں کسی بھی چیز کے بارے میں مربوط اظہار خیال یا تجزیہ بھی ’’بیانیہ‘‘ یعنی Narrative کہا ج اسکتا ہے۔ اس مفہوم کی رو سے تمام تصورات جن پر ہم کسی نظام فکر یا نظام عمل کو قائم کرتے ہیں، بیانیہ کہے جانے کے مستحق ہیں۔‘‘ (س ش ص، ۳، ص، ۱۳) 

    اس وضاحت میں اس بات کا پورا امکان ہے کہ نامکمل بیانات کے سلسلے کو بھی بیانیہ کہہ سکتے ہیں اور یہ انشا کی خوبی ہے۔ اس لیے اس وضاحت میں اس کا بھی پورا امکان ہے کہ آج کے ’’بیانیہ‘‘ کو کل کی ’’انشا‘‘ سمجھا جائے۔ ’’انشا‘‘ ہماری قدیم اصطلاح ہے۔ بیانیہ قائم کرنے والے ہی کو منشی کہا جاتا تھا۔ انشا کا مادہ ہے نشاء۔ اس کے معنی ہوتے ہیں پیدا کرنا۔ ظاہر ہے کہ بات پیدا کرنا، باتوں میں ربط پیدا کرنا، باتوں میں زور استدلال پیدا کرنا، باتوں میں حسن و تاثیر پیدا کرنا، باتوں میں معنی اور کیفیت پیدا کرنا اور پھر کچھ خلا بھی رکھنا یعنی کچھ مبہم فضا پیدا کرنا۔ یہ سب انشا کی صفات و ضروریات تھیں اور بیانیہ بھی جو جدید اصطلاح ہے ان ہی سے قائم ہوتا ہے۔ Narration اور Description میں جو فرق ہے، وہی بیان اور وضاحت میں فرق ہے۔ بیان یا Narration کی خاصیت یہ ہے کہ وہ کسی بھی بات/خیال کو واقعے یا وقوعے میں ڈھال دیتا ہے۔ وضاحت یا Description اس کے بعد کی منزل ہے۔ بیان کی وضاحت ہو سکتی ہے مگر وضاحت کا بیان نہیں ہوتا۔ مافی الضمیر کے تخئیلی اظہار بیان کی اہمیت ہے بالخصوص اس صنف ادب میں جو پڑھنے کے لیے اور دیکھنے کے لیے نہیں بلکہ سننے کے لیے بنایا گیا ہو۔ 

    فاروقی نے اسی وجہ سے داستان کے مطالعے میں سب سے زیادہ اہمیت داستان کے بیانیہ کو دی ہے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ داستان زبانی بیانیہ کی شعریات رکھتی ہے اور وہ تحریری بیانیہ سے یکسر مختلف ہے، اگرچہ اس کو بعد میں لکھا ہی کیوں نہ گیا ہو، لیکن لکھنا اس کی ناگزیریت نہیں ہے۔ اس کو تعلق سننے سے ہے۔ اگر سننے والے ہیں تو لکھنا قطعی ضروری نہیں۔ البتہ اگر لوگ لکھی ہوئی حالت میں بھی سننے پر آماہ ہوں یا ذرا اطمینان سے تنہائی میں بیٹھ کر پڑھنا ہی چاہتے ہوں تو اسے لکھنے میں قباحت یا صنفی ہتک نہیں ہے۔ لیکن وہ اسی طرح لکھی جائے جس طرح کوئی چیز سنائی جاتی ہے یعنی اس پر تکلم کا ضابطہ لاگو ہوگا اور پڑھنے والے اسی کو مدنظر رکھیں گے خواہ جب بھی پڑھیں۔ 

    داستان کی شعریات بالخصوص زبانی بیانیہ پر فاروقی نے بہت عمدہ گفتگو کی ہے۔ داستان پر نظری مباحث کے لیے س ش ص کی پہلی جلد جس کا تعارف گزر چکا ہے بہت مفید ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ، 

    ’’بیانیہ دو چیزوں کا نام ہے۔ ایک تو وہ حالات و واقعات جن سے ہم بیانیہ کے ذریعہ دوچار ہوتے ہیں اور دوسری شئے وہ بیانیہ متن یا کلام جس کے ذریعہ ہمیں ان واقعات اور حالات سے آگاہی ہوتی ہے۔‘‘ 

    (س ش ص۔ ۱۔ ص، ۵۲) 

    یعنی کسی بیان سے جو حالات معلوم ہوئے وہ بیانیہ ہیں اور کسی حالت پر مبنی جو بیان بنایا گیا وہ بھی بیانیہ ہے۔ بظاہر یہ ایک ہی بات کے دو رخ ہیں۔ لیکن ان میں زبانی بیانیہ اور تحریری بیانیہ کا لطیف فرق موجود ہے۔ فاروقی نے یہ بات بورس توماشیوسکی Boris Tomashevsky کے نظریۂ نفس مطلب (Sujet) اور نظریۂ قصہ کافہ (Fabula) کی روشنی میں کہی ہے۔ لیکن ہمارے مطلب کی بات یہاں یہ نظر آتی ہے کہ ہم اس میں زبانی بیانیہ اور تحریری بیانیہ کو الگ الگ پہچان سکتے ہیں وہ اس طرح کہ کسی نے کوئی واقعہ سنایا تو وہ واقعہ خود ہمارے تخیل میں ایک بیانیہ بن رہا ہے۔ یہ زبانی بیانیہ کی وجہ سے ہوا اور اگر کسی نے کوئی تحریر تھما دی جس میں کوئی واقعہ لکھا ہوا ہے تو اب وہ تحریر خود ہمارے تخئیل میں بیانیہ بن رہی ہے۔ اور یہ تحریری بیانیہ کی وجہ سے ہوا یعنی لکھے ہوئے واقعے میں ہمارا تخئیل تحریر کے پیچھے پیچھے چلتا ہے اور سنے ہوئے واقعے میں ہمارا تخئیل خود واقعے کا پیچھا کرتا ہے۔ گویا وہ نقل کی نقل نہیں کرتا۔ بلکہ اصل کی نقل کرتا ہے۔ یعنی واقعہ اصل ہے اور اس کا بیان نقل ہے اس کو ہم فروغ بھی کہہ سکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دونوں، واقعہ اور بیان یا اصل اور فرع کے ملنے سے ہی بیانیہ بنتا ہے۔ 

    اگریہ پوچھئے کہ بیان کو نقل یا فرع کیوں کہا تو اس کا جواب یہ ہے کہ بیان میں جہاں الفاظ استعمال ہوتے ہیں وہاں خموشی بھی کام آ سکتی ہے۔ اس لیے الفاظ اضافی ہوجاتے ہیں۔ اگر کوئی آدمی سامنے آکرکھڑا ہو جائے اور کچھ نہ بولے، تو بھی اس کی خاموشی بہت کچھ کہہ د یتی ہے۔ غالب کہتے ہیں، 

    نشوونما ہے اصل سے غالب فروع کو
    خاموشی ہی سے نکلے ہے جو بات چاہئے 

    تو صورت یہ ہے کہ تحریری بیانیہ میں ایک تو الفاظ کی پابندی ہے اور دوسرے الفاظ جو خود قید تحریر میں آکر پابہ زنجیر ہو جاتے ہیں جب کہ زبانی بیانیہ میں ایسی کوئی سختی اور شرط ہے ہی نہیں۔ اس لیے یہاں بڑی آزادی اور امکان ہے۔ 

    مغربی ادب میں یہ گفتگو ہو چکی ہے کہ ناول نگار کو اپنے قاری کا پتہ نہیں ہوتا۔ جبکہ داستان گو اپنے سننے والوں کے روبرو ہوتا ہے۔ وہ ان کے مزاج اور شعور و دانش کو داستان سنانے کے دوران میں بھی سمجھتا رہتا ہے اور قصے کی تقدیم و تاخیر، تاکید و تکرار، واقعات کی نوعیت و نشیب و فراز، نعرہ بازی، مکالمت، مبہم جوئی، فوق الفطری عناصر، لہجہ، حرکات وغیرہ سے سامعین پر مختلف قسم کے تاثرات قائم کرتا رہتا ہے۔ ناول میں یہ بات نہیں ہوسکتی کیونکہ اس کا قاری ناول نگار کے سامنے حاضر نہیں ہوتا۔ پھر لکھنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ تحریر کو ان پڑھ نہیں پڑھےگا، وہ خواندہ طبقہ کے لیے ہے۔ داستان میں سامعین کی خواندگی کی کوئی شرط نہیں ہے۔ داستان گو کے حاضر باش مخاطب خواندہ ناخواندہ سب ہو سکتے ہیں۔ 

    اس لیے داستان گو کی تکلمی ادبیت کے مدارج بدلتے رہتے ہیں اور ان مدارج کی موافقت سامعین سے ہوتی رہتی ہے۔ ناول افسانے کا فن اس خصوصیت سے محروم ہوتا ہے، یہ بات تو بالکل بدیہی ہے کہ کل کی داستان اور آج کا ناول قصہ کہانی کی چیزیں ہیں۔ اس لیے دونوں کا شمار کہانوی ادب میں ہوتا ہے۔ لیکن دونوں کی نوعیت میں فرق بہت واضح ہے۔ اس فرق کی بنا پر ناول کو داستان کی روایت سے جوڑنا، فاروقی کہتے ہیں کہ صحیح نہیں۔ وہ لکھتے ہیں، 

    ’’یہ بات بالکل غلط ہے کہ داستان کو ناول کی ابتدائی شکل کہہ سکتے ہیں۔ اور یہ کہ ناول کے ارتقا میں داستان کا بھی کوئی حصہ ہے۔‘‘ 

    (س ش ص۔ ۱، ص، ۶۴) 

    فاروقی کا کہنا دراصل یہ ہے کہ، 

    ’’دو اصناف میں کون برتر ہے، اس کا فیصلہ کرنے کے لیے کسی ایک صنف کو معیار اور قاعدہ ساز Normative نہیں قرار دے سکتے۔‘‘ (ایضاً ص، ۵۴) 

    داستان پر تنقیدی نظر ڈالتے وقت عموماً ہمارے نقاد اس صنف کو ناول کی صنف کی روشنی میں پرکھتے ہیں اور ناول چونکہ جدید دور کی پیداوار ہے۔ اس لیے داستان کو ناول کی ابتدائی شکل کہہ دیتے ہیں۔ اور ایسا کہتے وقت ان کے ذہن میں ناول کی برتری کی بات ہوتی ہے فاروقی نے اپنے مطالعے سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ دونوں صنفوں کے الگ الگ فنی تقاضے ہیں۔ اس لیے نہ تو داستان ناول سے کمتر اور نہ ناول داستان سے بہتر کہا جا سکتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ کئی معاملات میں ناول ہمیں زندگی سے قریب اور اچھا لگے لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ اور معاملات میں داستان ہمیں زندگی سے زیارہ قریب اور اچھی لگے۔ 

    اپنے مضمون ’’داستان کی شعریات‘‘ کے پہلے حصے میں فاروقی نے سولہ نکات بتائے ہیں۔ میں صرف دوایک کا ذکر کروں گا۔ جس بات پر فاروقی نے سب سے زیادہ زور دیا ہے، وہ ہے داستان کا زبانی بیانیہ۔ ان کا کہنا ہے کہ، 

    ’’داستان زبانی سنانے کی چیز ہے۔ داستان اگر لکھی جائے اور چھاپ بھی دی جائے تو بھی اس کا اصل مصرف یہی ہوتا ہے کہ وہ زبانی سنائی جاتی ہے۔ وہ لکھی بھی اس طرح جاتی ہے گویا زبانی سنائی جا رہی ہو، وہ فن پارہ جو زبانی سنائے جانے کی غرض سے تصنیف کیا جائے۔ اس کی حرکیات Dynamics اس فن پارے سے بالکل مختلف ہوتی ہیں جو خاموش یا بہ آواز بلند لیکن انفرادی طور پر پڑھنے کے لیے تصنیف کیا جائے۔‘‘ 

    (س ش ص۔ ۱، ص، ۷۲) 

    دوسری بات داستان کی شعریات کے بارے میں انہوں نے یہ بتائی ہے کہ کلاسیکی اردو نثر کی رسومیات میں اوقاف کا استعمال نہ ہوتا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ، 

    ’’وہ عبارت جو اوقاف کے تصور کے بغیر لکھی جائے اس کی حرکیات Dynamics اس عبارت سے بالکل مختلف ہوتی ہے، جسے لکھتے وقت اوقاف کا لحاظ رکھا جائے۔‘‘ (ایضاً ص، ۸۲) 

    تیسری بات انہوں نے یہ بتائی ہے کہ داستانوں میں کردار نگاری کا یک زمانی Synchronic طریقہ رہا ہے۔ وہاں دوزمانی Diachronic طریقہ نہیں رہا ہے۔ مگر ’’اصولاً ایک طرز کو دوسری پر فوقیت نہیں۔‘‘ (ص، ۸۲) اور اس میں کوئی طریقہ ’’نہ افضل ہے نہ مفضول‘‘ (ص، ۸۳) داستانوں کی کردار نگاری داستان گویوں کے تصورات کائنات کے مطابق ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ، 

    ’’داستان کا تصور کائنات یہ ہے کہ کائنات غیرحرکت پذیر یعنی Static ہے۔ اس کائنات میں خدا حسب مرضی مداخل ہوتا اور اثر انداز ہوتا ہے یہ خدائی مداخلت براہ راست بھی ہوسکتی ہے اور انسان کے ذریعہ بھی لیکن جو تغیرات پیدا ہوتے ہیں وہ عارضی اور غیرحقیقی ہیں۔ کائنات کا عام توازن ہمیشہ برقرار رہتا ہے۔ اس میں ہر چیز اپنی جگہ پر رہتی ہے جو اس کے لیے ازل سے مقرر ہے۔ اس لیے کردار کا یک زمانی ہونا لازمی ہے اور کردار کا حالات پر یا حالت کا کردار پر اثرانداز ہونا لازمی نہیں ہے۔‘‘ (ص۸۳) 

    لیکن اس تاویل کے قبول کرنے میں تامل ہو سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ داستان گویوں نے کرداروں کو یک رنگ یا یک زمانی اس لیے رکھا کہ ان کو ہر رنگ کے انسان مل رہے تھے۔ ہر رنگ کی نمائندگی کے لیے انسانی معاشرے کے استعمال میں ان کو کوئی قباحت اور رکاوٹ نہ تھی۔ ورنہ وہ ایک انسان مثلاً امیر حمزہ ہی میں مختلف جہات دکھا سکتے تھے تو دیگر کرداروں میں کیوں نہ دکھاتے۔ ناول کا زمانہ آتے آتے ہم کہہ سکتے ہیں کہ قحط الرجال ہو گیا۔ یعنی قصہ بیان کرنے والوں یا قصہ لکھنے والوں کو ایسے کردار میسر نہ آئے، جن کو یک رنگ ہونے پر کوئی اعتراض نہ ہوتا ہو۔ داستان نوع بہ نوع انسان اور مخلوقات کی دنیا پیش کرتی ہے۔ وہاں الگ الگ خواص کے مثالی کردار مل جاتے ہیں۔ 

    یہ ایک سوچا سمجھا تکنیکی معاملہ ہو سکتا ہے کہ ایسا کرنے پر سامعین الگ الگ خاصیتوں میں اچھائی کو اپنے اوپر اور برائی کو دوسروں پر قیاس کریں گے اور پھر کبھی اچھائی کو دوسروں پر اور برائی کو اپنے اوپر محمول کرنے کا وسوسہ بھی ان میں پیدا ہوگا۔ اس سے فن داستان گوئی میں تخلیقی تناؤ کے امکانات بڑھیں گے کیونکہ بالواسطہ سامعین بھی دستان کا حصہ بنتے رہے ہیں۔ اس صورت میں وہ اپنی شخصیت کو ایک دوسرے کے مقابل میں رکھ کر Establishment کے اجزا کے طور پر دیکھیں گے کہ حکمراں طبقے کی طرف ان کا رویہ کیا ہے؟ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ داستان گویوں کا مقصد عوام کو انتظامیہ کا خیرخواہ بنائے رکھنا ہوتا تھا۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ جب احسن الخالقین نے صرف خیر اور صرف شر کی نمائندہ مخلوقات بنائی ہیں تو انسان کے فن میں بھی ایسے کردار کیوں نہیں ہو سکتے جو اپنی اپنی صفتوں میں یک رنگ ہوں۔ اس وقت کے حاوی مسلم معاشرے میں کفر کو سراسر شر اور اسلام کو خیر کا نمائندہ بناکر پیش کرنے کے اور بھی مضمرات ہیں، جیسی ابولہب ہے تو ہے! مگر ابوسفیان ہیں تو نہیں ہیں! یہ خیر ہو گئے وہ شر رہ گیا۔ یہ نام داستانوں میں نہیں ہیں۔ 

    میں نے صرف اپنی بات کی وضاحت میں مثلاً پیش کیے، ہم سمجھتے ہیں کہ ہر انسان میں خیر ہے لیکن اس کا اعتبار ایمان بالرسالت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو کافروں کا خیر اکارت نہ جاتا۔ اس تصور کے تحت داستان گویوں کو خیر و شر کے الگ الگ کردار دکھانے ہی تھے۔ اس لیے اس وقت اور اس نظریے کی روشنی میں کردار نگاری کا وہی طریقہ انسب تھا۔ نیز یہ بات بھی ہے کہ داستان میں کردار واقعات کے مظہر ہوتے تھے۔ وہ کوئی اپنا نقطۂ نظر اور ذہنی احوال پیش نہ کرتے تھے۔ کیونکہ سامعین کو کرداروں کی کشمکشوں اور کیفیتوں میں نہیں، وقوعوں میں دلچسپی ہوتی تھی، آج اگر کوئی ادیب داستان لکھنے بیٹھے اور کردار نگاری کے اس طریقے سے بے نیاز رہے تو فن داستان گوئی کی معنویت کو مجروح کردےگا۔ کرداروں کی کشمکشوں اور کیفیتوں کو اہمیت دے کر ہم نے فکشن کو انسان کا نمائندہ بنا دیا ہے۔ داستان گو حضرات واقعات کو اہمیت دے کر داستان کو زندگی کا نمائندہ بنائے ہوئے تھے۔ جس کی کوئی حد و انتہا نہیں۔ فاروقی نے لکھا ہے کہ، 

    ’’داستان اپنے بنیادی تصور کے اعتبار سے نمائندگی ناپذیر Anti Mimetic  ہے (یعنی یہ زندگی کی نقل/ترجمانی نہیں کرتی) جزئیات کے اعتبار سے داستان البتہ نمائندگی پذیر Mimetic ہے۔‘‘ 

    یہ ’’جزئیات‘‘ زندگی کی ہیں جن میں کرداروں کے تفاعل بھی موجود ہیں۔ زندگی کی نقل نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ اس کی ہرلحظہ نئی شان ہے۔ داستان گویوں کے بیانیے اتنے بدلتے رہے ہیں کہ کسی واقعے کو ہم زندگی کی نقل نہیں سمجھ سکتے۔ ہاں اس واقعے کی جزئیات زندگی ہی سے لی گئی ہیں، اس لیے وہ نقل معلوم ہوتی ہیں اور وہ بھی اس وجہ سے کہ ان میں کسی کردار کا عمل روبہ کار ہے۔ اس لحاظ سے دیکھیے تو یک رنگ کردار بھی جیسا وقت آیا ا ور جو اس کا تقاضا ہوا اس کے مطابق عمل کر گزرتے ہیں یعنی اپنے تصور کائنات کے باوجود ان میں بڑی جرأت ہوتی ہے اور وہ خاصے ہم زمان Synchronic نظر آتے ہیں۔ اس معنی میں وہ آج کے کسی پیچیدہ کردار Round Character سے کم اور پیچھے نہیں ہوتے۔ 

    ’’داستان کی شعریات‘‘ کے دوسرے حصے میں فاروقی نے ایک بات یہ بتائی ہے کہ، 

    ’’زبانی بیانیہ اگر لکھ بھی لیا جائے تو اس کے متن میں کوئی قطعیت نہیں ہوتی اور نہ ہی اصولاً اس کے کسی ایک متن کو کسی اور پر فوقیت دی جا سکتی ہے۔‘‘ (س ش ص۔ ۱، ص، ۱۲۱) 

    اس کی وجہ یہ ہے کہ داستان کی الگ الگ روایتیں رہی ہیں اور ان کے کئی بیان کنندہ رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے اپنے طور پر ان روایتوں کی روشنی میں مختلف الجہت واقعات بیان کیے ہیں۔ یعنی انہوں نے صرف نقل نہیں کی بلکہ تخلیق کی۔ اس کو ہم آج کے ادب سے یوں سمجھ سکتے ہیں کہ جیسے فسادات کے افسانے ہیں۔ ان افسانوں کے پلاٹ الگ الگ ہیں۔ کردار الگ الگ ہیں۔ افسانہ نگار الگ الگ ہیں، ان کا نفس مطلب (Sujet) الگ الگ ہے، ان کا قصۂ کافہ (Fabula) الگ الگ ہے۔ تو پھر کس کو قطعیت اور فوقیت ہوگی۔ سب اپنی اپنی جگہ پر قطعی اور فوق ہیں۔ 

    یہ ہمارے عہد کی مجبوری ہے کہ زبانی بیانیہ کو تحریری بیانیہ کی مثال سے سمجھنا پڑ رہا ہے۔ بورس توماشیوکی کے حوالے سے فاروقی نے سوجے اور فیبولا کی جو بات کہی ہے، وہ تحریری بیانیہ پر بھی صادق آسکتی ہے جیسا کہ ہم نے فسادات کے موضوع پر لکھے گئے افسانوں میں دیکھا ہے۔ فاروقی نے لکھا ہے کہ جو واقعات اور کوائف بیان میں آ جائیں وہ Sujet یا نفس مطلب ہیں اور وہ تمام حالات و واقعات جن کی بناپر نفس مطلب تیار ہوکر بیان ہوا ہے وہ Fabula یعنی پوری کہانی ہیں جو ابھی پردۂ خفا میں ہیں اس بات کی بنیاد پر فاروقی نے متعدد مثالوں کو پیش کرکے کہا ہے کہ، 

    ’’اگر Sujet ختم بھی ہوجائے تو Fabula ختم نہیں ہوتا۔ یعنی داستان کے جاری رہنے کا امکان برابر بنا رہتا ہے۔‘‘ 

    بس یہی وہ مقام ہے جہاں زبانی بیانیہ تحریری بیانیہ سے ممتاز ہوجاتا ہے۔ کیونکہ فسادات پر مبنی کوئی ایک افسانہ بھی پڑھ لینے کے بعد Fabula کے جاری رہنے کا امکان اور تقاضا نہیں رہتا۔ س ش ص کی تیسری جلد میں ’’داستان کبھی خ تم نہیں ہوتی‘‘ کی وضاحت فاروقی نے اس طرح کی ہے، 

    ’’داستان کبھی ختم نہیں ہوتی۔۔۔ اس بیان کے دو معنی ہیں۔ ایک تو یہ کہ بیان کنندہ (یا راوی) کے نقطۂ نظر سے داستان کبھی ختم نہیں ہوتی یعنی بیان کنندہ یا راوی داستان کو جتنا چاہے طول دے سکتا ہے۔ اس میں نئے نئے واقعات جوڑ سکتا ہے اور یہ بھی ہے (کہ) ہر داستان کے نئے نئے بیان کنندہ پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ اور ہر بیان کنندہ دراصل اپنی داستان کا خالق ہوتا ہے۔ یہی معنی ہیں جن میں داستان غیرمختتم ہے۔۔۔ داستان کبھی ختم نہیں ہوتی۔ اس بیان کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ داستان کے کرداروں کی عمریں بہت لمبی ہوتی ہیں۔ وہ اکثر بچپن ہی میں بالغ ہوجاتے ہیں اور دیرتک گرم عمل رہتے ہیں۔ بڑھاپا آتا ہے۔ لیکن ان پر حاوی نہیں ہوتا۔ داستان کی دنیا میں وقت کا گزر ان اس معنی میں عام دنیا سے مختلف ہوتا ہے کہ وقت اس پر وہ اثر نہیں مرتب کرتا جو ہماری دنیا میں مرتب کرتا ہے۔‘‘ 

    (س ش ص۔ ۳، ص، ۷۸۔ ۷۷) 

    اس وضاحت کو پڑھنے کے بعد یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ داستان کے نہ ختم ہونے کی وجہ کیا ہے اور وہ کیسے جاری رکھی جاتی ہے۔ اس کا جواب میں نے ڈھونڈا تو فاروقی کے یہاں ٹاڈاراف کے حوالے سے مجھے یہ ملا کہ Story Equals Life یعنی قصہ برابر ہے زندگی کے۔ ٹاڈاراف نے یہ جواب الف لیلہ کے حوالے سے قائم کیا تھا جیسا کہ فاروقی نے بتایا ہے اور اس کے خیال کو اردو داستانوں پر منطبق کیا ہے۔ 

    یہ صحیح ہے کہ قصہ تمام کا مطلب ہے واقعہ تمام اور واقعہ تمام کا مطلب ہے قصہ تمام۔ اور قصہ تمام تو زندگی تمام۔ لہٰذا جب تک یہ زندگی ہے، واقعات جاری رہیں گے، لیکن ان کو بیانیہ میں کس طرح جاری رکھا جا سکتا ہے اور رکھا جاتا ہے۔ وہ اس طرح کہ جب مان لیا کہ قصہ ہی زندگی ہے، تو قصے کہنا اور قصے سننا انسانی فطرت سے کبھی ختم نہ ہوگا۔ انسان کی قوت بیانیہ اپنا جوہر دکھاتی رہے گی۔ اس کے بغیر آدمی جی نہیں سکتا اور اگر جی بھی لے گا تو تہذیبی ترقی نہیں کر سکتا۔ کہا جاتا ہے کہ انسان کے پیٹ میں کوئی بات پچتی نہیں اور اس کو دوسروں سے کہے بغیر اس کا کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ یہ تو منفی بات ہوئی۔ مثبت بات یہ ہے کہ انسان ایک دوسرے کے بارے میں اسی طرح سے جانتا ہے اور اس کی ثقافت بنتی ہے تو ثابت ہوا کہ ’’بیان کرنا مساوی ہے جینے کے۔‘‘ (س ش ص۔ ۱، ص، ۱۲۴) 

    اوپر کے اقتباس میں داستان کی دنیا میں وقت کے گزران کا ذکر آیا ہے۔ فاروقی نے یہ بھی لکھا ہے کہ، 

    ’’داستان میں مرور وقت کا تعین اس بات سے ہوتا ہے کہ کون سا کردار کس داستان میں سب سے پہلے ظہور کرتا ہے۔۔۔ لہٰذا داستان میں مرور وقت کے ناپنے کا سب سے معتبر ذریعہ یہ ہے کہ ہم اس کے مستقل کرداروں کو دیکھیں کہ وہ پہلی بار کب رونما ہوئے اور کب تک موجود رہے۔‘‘ (س ش ص۔ ۳، ص، ۷۸) 

    مگر اس بات سے داستان میں موجود نظر آنے والے نظریۂ وقت پر کوئی روشنی نہیں پڑتی۔ میرا خیال ہے کہ داستان گویوں نے جس طرح زمین و آسماں کے قلابے ملاکر یک کائناتی ریاست یعنی وحدت مکان کا تصور قائم کیا ہے، اسی طرح انہوں نے وقت کے ایسے دورانیہ کا سراغ لگایا ہے جسے ہم وحدت زماں کا تصور کہہ سکتے ہیں۔ اگرچہ فاروقی کا یہ خیال ہے کہ

    ’’داستان ہماری دنیا کے باہر کی چیز نہیں ہے۔ عام حالات میں اس پر ہمارے ہی وقت کا اطلاق ہوتا ہے۔‘‘ (ایضاً ص، ۷۸) 

    مگر میری گزارش یہ ہے کہ جس طرح داستانوں کی تشکیل ہوئی ہے اور واقعات کو مقدم وموخر کرکے ان کے زمانی تسلسل کو توڑا گیا ہے، اس کے پیچھے تصور یہی معلوم ہوتا ہے کہ صاحب قراں کے لیے وقت بھی محکوم ہے۔ وہ ایسی گردش کرتا ہے کہ صاحب قراں کے حسب دلخواہ نتائج مرتب ہوں۔ خواہ وہ پہلے رونما ہو جائیں اور واقعات بعد میں ہوں یا واقعات پہلے ہوجائیں اور نتائج بعد میں سامنے آئیں، داستان گو حضرات وقت عصر کے ختم کے بعد رجعت شمس کی روایت سے واقف تھے۔ غالباً اس مثال کو ذہن میں رکھتے ہوئے انہوں نے یہ تصور قائم کیا کہ صاحب قراں کی مرضی سے وقت آگے پیچھے ہوکر واقعات و نتائج کو آگے پیچھے کر سکتا ہے۔ اسی لیے داستان گو بعد میں بھی پہلے کے واقعات کو بیان کرنے کا جواز رکھتے ہیں اور یہ اشارہ ہے کہ قصے کا قصہ ختم نہیں ہوا ہے۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ داستان میں واقعات ماضی کے ہیں تو سب چیزیں ماضی ہی کی ہونی چاہئیں مگر یہاں معاصر زندگی بھی ہے۔ 

    فاروقی نے ’’داستان کی شعریات‘‘ کے دوسرے حصے میں دوسری بات یہ بتائی ہے کہ ایسی باتیں جن کا ذکر داستان میں ضروری نہیں مثلاً اپنے عہد کے کسی شاعر کانام لے کر اس کی غزل پیش کرنا۔ اپنی صدی (تیرہویں صدی ہجری) کے حوالے دینا، بینک گھروں کا ذکر کرنا وغیرہ بھی داستان میں ہیں۔ فاروقی نے سوال اٹھایا ہے کہ، 

    ’’داستان گو اس قدر دیدہ دلیری سے اپنی داستان میں معاصر زندگی اور معاصر دنیا کے حوالے کیوں لاتا ہے۔‘‘ (س ش ص۔ ۱، ص، ۱۳۱) 

    فاروقی نے اس کے کئی جواب دیے ہیں۔ مثلاً یہ کہ دا ستانوں کی اس ’’شترگربگی‘‘ پر سامعین کو کوئی اعتراض نہ تھا۔ اور یہ کہ داستان کی دنیا ہماری دنیا میں ضم ہو سکتی ہے۔ وغیرہ۔ لیکن ’’شترگربگی‘‘ کا لفظ استعمال کرنے سے یہ بھی ظاہر ہے کہ فاروقی نے داستان گویوں کے نظریۂ وقت پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی۔ میرے نزدیک، داستانوں کی یہ صورت داستان گویوں کے نظریۂ دوران خالص کی وجہ سے ہے اور اسے ’’شترگربگی‘‘ کہنا موزوں نہیں۔ کیونکہ اگر اس کو ہم ’’شترگربگی‘‘ کہیں گے تو ہماری دنیا میں جن دیوپری وغیرہ کی مداخلت بھی شترگربگی ہی کے زمرے میں رکھی جائےگی۔ 

    لگے ہاتھوں یہیں پر یہ بھی دیکھ لینا چاہیے کہ داستان کی اس وسیع دنیا کا حقیقی جواز کیا ہو سکتا ہے اور کیوں ہو سکتا ہے؟ ہم جانتے ہیں کہ اس دنیا، جس میں ہم جی رہے ہیں، کے علاوہ اور بہت سی دنیائیں ہیں۔ انسان کے علاوہ بہت سی مخلوقات ہیں۔ ہمارے ساتھ بہت سے دوسرے سماجی جاندار ہیں۔ حیوان ہونے سے کیا ہوگا، وہ بحیثیت Social Animal انسانوں کے ساتھ اور انسان بحیثیت Social Animal حیوانوں کے ساتھ جی رہے ہیں۔ گویا مرغیوں سے لے کر ہاتھیوں تک انسان کا ایک کنبہ ہے اور وہ اس کنبے کا مالک ہے، مکھیا ہے۔ اسی طرح جنوں اور پریوں کی دنیا ہے۔ انسان اس دنیا سے بھی معاملہ کر سکتا ہے۔ وہ اپنی معلومات اور حکمت سے سانپوں اور شیروں کو بھی زیر کر لیتا ہے۔ ان کو سدھا کر اپنی زندگی کا حصہ بنا لیتا ہے۔ گھر میں چیونٹیاں ہیں، چوہے ہیں، بلیاں ہیں، یہ نقصان بھی پہنچاتی ہیں۔ پھر بھی انسان ان سے خائف نہیں ہے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کے بھیس میں جن ہو سکتے ہیں وہ خائف نہیں ہے بلکہ اگر وہ شیطانی حرکت پر اترآتے ہیں تو انسان اپنی تدبیر سے ان پر قابو پا لیتا ہے۔ وہ گھنے جنگلوں میں خونخوار ڈاکوؤں کی پناہ گاہیں تلاش کرکے کارروائی کر سکتا ہے۔ وہ کوہ قاف میں پہنچ سکتا ہے۔ غرض انسانی تسخیر کے عجیب و غریب نمونے انسان کے قبضۂ قدرت میں ہیں۔ 

    ہماری حقیقی دنیا کی یہی وسعت داستانی دنیا کی وسعت کا سچا جواز ہے۔ اگر داستان کی یہ دنیا نہ ہوتی تو ہمیں زندگی بھر اپنی دنیا کی وسعتوں کا صحیح اندازہ نہ ہوتا۔ لیکن بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ داستان گویوں نے وسیع اور نیرنگ زندگی پیش کر دی ہے اور بس۔ نہیں، اس کے پیچھے ان کا نظریۂ مکان کام کر رہا ہے۔ یہ کائنات ایک ہے۔ الگ الگ ملکوں، الگ الگ خطوں خاصیتوں اور مکانی بندشوں میں ہم نے اس کو بانٹ دیا ہے۔ ورنہ ’’منشائے ایجاد ہر عالم یکی ست‘‘ اسی بنیاد پر غالب نے مصرع ثانی کہا تھا کہ،

    ’’گردوصد عالم بود خاتم یکی ست‘‘ یہی تصور وحدت مکان ہے۔ اقبال نے کہا کہ، 

    زمانہ ایک حیات ایک کائنات بھی ایک

    تو انہوں نے زمان و مکان و حیات تینوں کی وحدت کا تصور دیا اور یہ تصور ہے اسلام کا۔ داستان گویوں نے ’’دین حق‘‘ یعنی اسلام کی ’’شوکت‘‘ بیان کی ہے۔ وہ اس تصور کی عملی پیشکش کے بغیر ادھوری رہتی۔ انسان اپنا قدم کہیں بھی رکھ سکتا ہے۔ کہیں کی بھی خبر لا سکتا ہے۔ پوری کائنات اس کے زیرنگیں ہے۔۔۔ ’’ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا۔‘‘ اور ’’عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں‘‘ یہ سب محض شاعری نہیں ہیں بلکہ ایک خاص تصور کے تحت تجربات و مشاہدات ہیں۔ اسی طرح داستان گو، اپنے بیانیہ سے یک کائناتی ریاست کا تصور قائم کرتے ہیں۔ جو قرآن کے خلیفۃ الارض والے نظریے کے مطابق ہے۔ 

    یہ داستان گویوں کے بیانیہ کی ایسی جرأت ہے جو اس فن کو نایاب ادبی رسائی کی ضمانت دیتی ہے۔ میں اس بات کو انسان کی دماغی کاوش کے لحاظ سے فن داستان کی سب سے بڑی مضبوطی سمجھتا ہوں۔ داستان ہمیں انسان کی اس قدرت کا کہ وہ وقت اور مقام کی قید سے آزاد ہے، عینی مشاہدہ کرا دیتی ہے۔ اگر داستان گویوں کا زمان و مکان کی وحدت کے نظریے میں یقین نہ ہوتا تو ہماری داستانیں انسانی قدرت کے امکانات کی ویسی مثالیں پیش نہ کرتیں۔ 

    تیسری بات فاروقی نے یہ بتائی ہے کہ داستان کی شعریات میں ’’نعرہ بازی‘‘ کا اہم رول رہا ہے۔ بلکہ کہنا چاہیے کہ داستان گویوں نے نعرہ بازی کو فن درجہ دے دیا ہے۔ فاروقی کہتے ہیں کہ، 

    ’’نعرہ ایک صنف سخن اور داستان گویوں کو اس صنف کا موجد قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔‘‘ (س ش ص۔ ۱، ص، ۱۳۹) 

    یہاں میری گزارش یہ ہے کہ داستان گویوں کو نعرہ کو موجد نہیں کہا جا سکتا کیونکہ فردوسی کے شاہنامہ میں اس طرح کے نعرے ملتے ہیں۔ مثلاً، 

    منیزہ منم وخت افراسیاب برہنہ نہ دیدہ تنم آفتاب

    امیر حمزہ نے اس طرح کے نعرے بلند کیے ہیں جن سے صاف ظاہر ہے کہ ان کے نقاش لوگ شاہنامہ فردوسی سے نعرہ بازی سیکھ چکے تھے اور یہیں پر ہم یہ بات بھی کہہ سکتے ہیں کہ داستان گوئی زبانی بیانیہ کا فن ہونے کے باوجود تحریری بیانیہ سے بھی کچھ طرزیں حاصل کر سکتی ہے۔ تحریری بیانیہ سے مراد مکتوبی ادب ہے۔ اگر ملفوظی ادب کو بھی لکھ لیا گیا تو اب وہ مکتوبی ادب میں شامل کرلیا گیا۔ اس لحاظ سے ادب داستان بھی ہمارے لیے مکتوبی ادب ہے۔ 

    ’’داستان کی شعریات‘‘ کے بعد فاروقی نے ’’زبانی بیانیہ‘‘ ، ’’بیان کنندہ‘‘ اور ’’سامعین‘‘ جیسے موضوعات پر اظہار خیال کیا ہے۔ ’’داستان کی شعریات‘‘ میں انہوں نے ’’زبانی بیانیہ‘‘ پر مختصراً گفتگو کی تھی۔ ’’زبانی بیانیہ‘‘ پر الگ سے کافی تفصیل سے تین حصوں میں گفتگو کی ہے اور قابل رشک تفحص سے کام لیا ہے۔ اس طرح ’’بیان کنندہ‘‘ اور ’’سامعین‘‘ کے متعلق بھی پہلی بار ایسی مفصل گفتگو کی گئی ہے۔ ان سب کا حاصل یہ ہے کہ ہم اپنے زمانے میں ناول کی شعریات سے داستان کی پرکھ نہیں کر سکتے اور داستان کی شعریات سے ناواقفیت کی بناپر فن نقد کے کئی اصولوں سے محروم رہ جا سکتے ہیں۔ 

    قصہ گوئی کے فن میں سننے والے کا سامنے ہونا کئی اعتبار سے تشکیل فن میں اہمیت رکھتا ہے۔ ایک سامنے کی معمولی سی بات ہے کہ قصہ سناتے وقت فصاحت، بلاغت، صفائی، روانی، وقفہ، جھٹکا، تاکید، زور بیان، نعرہ وغیرہ کا ردعمل ظاہر ہوتا رہتا ہے۔ اور اس کے مطابق داستان گو اپنے بیان اور لہجے، اتار چڑھاؤ شدت، ہلکاپن، عمومیت، تخصیص، طوالت، پیچیدگی، سخن سازی، صحت لغات، روزمرہ، منظرکشی، تاثر اندازی وغیرہ سے کام لیتا ہے۔ اتنا ہی نہیں داستان گو اپنی زبان دانی، ادبی ذوق، تخلیقی اپج، واقعہ سازی، منظر کشی وغیرہ کو اپنے حافظہ اور اپنی قوت بازیافت سے نئی شکلیں دیتا ہے۔ پھر اپنے لہجہ اور حرکات سے ایسی فضا بناتا ہے جس میں بیان کنندہ اور سامعین دونوں باہمی جسمانی زبان کو سمجھ کر اثراندازی اور اثرپذیری کا معاملہ کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے غور کیجیے تو داستان بہترین بیانیہ ہے، کیونکہ ناول پڑھنے کا فن ہے۔ ڈراما دیکھنے کا فن ہے اور داستان سننے کا فن ہے۔ 

    پڑھنے میں مصنف اور قاری کا آمنا سامنا ضروری نہیں۔ دیکھنے میں ڈراما کار اور ناظر آمنے سامنے ضرور ہوتے ہیں لیکن ڈراما کرنے والے کسی اور کی ہدایت کے مطابق کسی اور کی نقل کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ ناظرین کے سامنے اپنا کوئی ردعمل ظاہر نہیں کر سکتے اور ناظرین ظاہر کریں تو وہ سب ان سنی ہوجاتا ہے۔ لیکن داستان کا بیان کنندہ سامعین کے سامنے ہوتا ہے۔ اس لیے اس کا بیانیہ دوطرفہ اثرات کے تحت کام کرتا ہے اور اس کی تہذیب و تذہیب دونوں طرف سے ہوتی رہتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس عمل میں بیان کنندہ اور سامعین دونوں کو کچھ اندازہ ضرور ہو جاتا ہے کہ وہ اثر اندازی اور اثرپذیری کی کس منزل میں ہیں۔ ادب، وہ شعری ہو یا نثری اور زبانی ہو یا تحریری، زبان و بیان اور لفظ و معنی کا فن ہے۔ اس کے لیے مافی الضمیر کا ابلاغ اور حسن تاثیر نہایت ضروری امور ہیں۔ ان کا سامعین کے سامنے کامیابی سے فوری عملی مظاہرہ ہونا کوئی آسان مرحلہ نہیں ہے۔ 

    اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ’’داستان گوئی جہلا کا فن نہیں ہے۔ اس کے لیے ’’لیاقت علمی‘‘ ضروری ہے۔‘‘ (س ش ص۔ ۲، ص، ۱۷۰) ہمارے داستان گو اپنی ساری لیاقتوں کے باوجود سامعین سے عموماً خائف رہتے تھے۔ ان کا اعتذار محض بربنائے خاکساری نہیں ہے بلکہ سامعین کی لیاقتوں کے امکانات کے پیش نظر کچھ نہفتہ معنی بھی رکھتا ہے۔ جیسا کہ شیخ تصدق حسین نے ’’بالاباختر‘‘ میں لکھا ہے، 

    ’’شیخ تصدق حسین داستان گو خدمت ناظرین باتمکین میں بصدادب ملتمس ہے کہ۔۔۔ اگرچہ کم مائیگی اور عدم لیاقت علمی سدراہ تھی تاہم امرا و رؤسا و دیگر صنادید شہر نے اپنی عالمی ہمتی سے اس کج زبان کے بیان کو پسند فرمایا۔۔۔ کمترین کو مثل بعض حضرات ستودہ صفات کے اپنی رطب اللسانی اور خوش بیانی کا دعوی نہیں ہے۔‘‘ 

    (بحوالہ۔ س ش ص۔ ۲، ص، ۱۷۰) 

    اب میں اس حصے میں فاروقی کے صرف ایک مضمون کا ذکر کروں گا۔ س ش ص۔ جلد دوم کے آخر میں فاروقی نے ’’داستان کا افسانہ‘‘ لکھا ہے۔ اس میں انہوں نے دوتین باتیں ایسی بتائی ہیں جن کی خاص اہمیت ہے۔ پہلی تو یہ کہ داستان گو کی نظر میں حقیقت یا سچائی وہی ہے جو اس نے بیان کر دی ہے۔ اگر کسی وقوعے کے بارے میں کئی بیانات ہیں تو وہ داستان گویوں کی ان کے اپنے تخئیل کے زور پر بنائی ہوئی اپنی سچائیاں ہیں اور ان کو داستان کے فن کی رو سے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ اس کے پیچھے منطق یہ ہے کہ قصہ بڑھتے ہی رہنے کے لیے اور نئے نئے بیانیہ بنانے کے لیے ہوتا ہے کیونکہ اس کا تعلق واقعات سے ہے جو زندگی میں رونما ہوتے ہیں۔ جب زندگی رواں دواں ہے تو قصہ بھی رواں دواں ہوگا۔ ہم لوگوں نے ناول اور جدید معنی میں افسانے کو جہاں تہاں ٹھہرا دیا ہے۔ اس کا آغاز اور انجام مقرر کر دیا ہے۔ اگر ایسا ہوا ہے تو ایسا کرنے پر ہمیں تحریر کے ضابطوں نے مجبور کیا۔ ورنہ ہمارا فکشن (حقیقی زندگی کے واقعات پر مبنی) بھی بغایت درجہ تخئیلی اور رواں ہوتا۔ زبانی بیانیہ پر مبنی فن کو ہم نئے زمانے میں ادب نہیں سمجھتے۔ اس لیے ہم نے تحریر کی قید لگائی ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ بات بڑھانا قصہ کی سرشت میں ہے۔ ہم لکھیں تو بھی اور نہ لکھیں تو بھی، قصہ ختم نہیں ہوتا، گزشتہ سطور میں فسادات کے افسانوں کی مثال آئی ہے۔ 

    اتنے افسانے لکھے جانے کے باوجود، محسوس یہی ہوتا ہے کہ اس واقعے کو لکھنا ابھی بہت باقی ہے۔ تو یہ معاملہ صرف داستان کے ساتھ نہیں ہے کہ وہ صرف بڑھتے رہنے کے لیے ہے۔ بلکہ یہ لچھن تمام کہانوی ادب کا ہے اور اس کا اثر اس کے نظریۂ حقیقت پر پڑتا ہے۔ ہر کہانی کار، وہ پرانا قصہ گو ہو یا نیا افسانہ نگار، اسی بات کو سچائی اور حقیقت سمجھواتا ہے جو اس نے بیان کر دی ہے۔ اس کو ہم صرف داستان کے فن کی رو سے نہیں بلکہ فی نفسہ فکشن ہی کی رو سے جھٹلا نہیں سکتے۔ فاروقی نے ان باتوں کی طرف مطلق توجہ نہ دی۔ 

    فاروقی کی دوسری بات یہ ہے کہ ابتدا میں داستانیں مختصر ہوتی تھیں جیسا کہ اردو داستان گوئی کے قرن اول کے داستان گویوں کی کارگزاریوں سے ظاہر ہوتا ہے مگر ان ہی میں تطویل کلام کے جراثیم موجود ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ مختصر داستانوں میں کسی واقعے کو جو بیان کیا گیا ہے تو اس کا نفس مضمون مقدار کے لحاظ سے تقریباً برابر ہے۔ لیکن اس کے الفاظ مقدار کے لحاظ سے برابر نہیں ہیں۔ فاروقی نے ایک واقعے کے دوبیانات نقل کرکے لکھا ہے کہ، 

    ’’ہم دیکھتے ہیں کہ اس چھوٹی سی عبارت میں بلگرامی نے اشک کے مقابلے میں تقریباً ستائیس فی صدی الفاظ زیادہ استعمال کیے ہیں اور نفس مضمون میں کوئی اضافہ نہیں کیا ہے۔ دراصل یہ وہی مضمون ہے کہ ’’کہنے سے کہانی بڑھتی ہے۔‘‘ 

    اس سے فاروقی نے نتیجہ نکالا ہے کہ

    ’’زبانی بیانیہ اگر لکھا بھی جائے تو بھی اس کا رجحان افزایش ہی کی طرف ہوتا ہے، تخفیف کی طرف نہیں۔‘‘ 

    اور اس نتیجے سے انہوں نے طویل داستانوں کا جواز فراہم کیا ہے۔ اس نتیجے اور جواز کو قبول کرنے میں قباحت نہیں۔ لیکن انہوں نے یہ نہ بتایا کہ زبانی بیانیہ میں ’’افزایش‘‘ بذات خود کیا قدر رکھتی ہے۔ اور اس ’’افزایش‘‘ سے بیانیہ میں جو تغیر و تبدیلی واقع ہوتی ہے، اس کا کیا اثر ادبی سچائی پر پڑتا ہے۔ بظاہر تو مشاہدہ یہی کہتا ہے کہ باتیں بنانا اور باتوں میں باتیں گڑھنا زبانی بیانیہ کی خوبی ہے لیکن غور کیجیے تو تجربہ یہ کہتا ہے کہ افزایش ہمیشہ خوبی نہیں ہوتی بلکہ کبھی خرابی کا باعث بھی بنتی ہے اور اگر زبانی بیانیہ کو لکھنے کا رواج ہوجائے تو زیادہ امکان ہے کہ اس افزایش بیان کے خراب نتائج مرتب ہوں گے اور ہوئے۔ داستان کے خلاف جو فضا بنی اس کو اس افزایش نے افزودہ کیا۔ تو، افزایش بذات خود نہیں بلکہ تقاضے کے تحت ہی مفید فن ہو سکتی ہے۔ اسی نسبت سے بیانیہ میں جو تغیر واقع ہوتا ہے وہ ادبی سچائی کو متاثر کرتا ہے۔ بلکہ کہنا چاہیے کہ اس تبدیلی کی بھی اپنی ادبی سچائی ہے۔ 

    اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ہم سنی ہوئی یا پڑھی ہوئی چیز کو بھی لکھنے بیٹھتے ہیں تو اس کو اپنے لفظوں میں اور اپنی منطق سے لکھتے ہیں۔ اس کا تجربہ ہم لوگوں کو امتحان کے پرچے لکھنے میں بخوبی ہوا ہے کہ ہم جس نوٹ کو پڑھ کر گئے، اس کو تحریف و تبدل سے لکھا اور ہم سب نے ایک ہی لکھایا ہوا نوٹ پڑھا تھا اور اسی نوٹ کی روشنی میں پرچہ لکھا تھا لیکن ہمیں الگ الگ نمبر ملے۔ تویقین ہے کہ ہم نے اپنے لسانی سروکار اور ابلاغ کے برتاؤ سے سوال مخصوص میں نفس مطلب کی بداعت پیدا کر دی ہوگی۔ طالب علموں سے سوال پوچھنے میں یہ ضرور درج رہتا ہے کہ Candidates are required to give their answers in their own words تو یہ صرف امتحان کا معاملہ نہیں ہے کہ بیانیہ بنانے کی مشق کے تحت ایسا حکم دیا جائے۔ نہیں یہ تو ہر اس شخص کی زندگی کے ساتھ لگا ہوا روگ ہے جو مافی الضمیر کے ابلاغ میں دوسرے ذرائع سے کم، لفظوں سے زیادہ کام لیتا ہے۔ 

    آپ مصرع طرح دیجیے۔ قوافی بتا دیجیے۔ کچھ اور الفاظ کی بھی نشاندہی کر دیجیے لیکن پھر بھی دیکھیے گا کہ مشاعرے میں ہر شاعر نے اپنے اپنے طور پر مضامین پیش کیے ہیں۔ یعنی آپ کے بتائے ہوئے الفاظ کے استعمال کے باوجود مضامین آپ کے نہیں ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ وجہ وہی ہے کہ ادبی بیانیہ میں انگلی رکھ کے نہیں کہا جاسکتا کہ سچائی یہیں پر ہے۔ ایک موضوع کا بیانیہ بڑھتا ہے، متنوع ہوتا ہے۔ اور اس سے جو نقوش بنتے ہیں وہ ادبی سچائی ہی کے نمائندہ ہوتے ہیں۔ فاروقی نے اس بات کو صرف فن داستان سے مخصوص کرکے اور تحریری بیانیہ کو خارج کرکے اس کو محدود کر دیا ہے۔ 

    فاروقی کی تیسری بات یہ ہے کہ اردو داستان مذہبی پس منظر میں شروع ہوئی تھی لیکن بعد میں اس نے مذہبی حوالے کو تج دیا اور صرف تاریخی حوالے سے کام رکھا اور اس طرح صحیح معنی میں ’’اب جاکر داستان پوری طرح افسانہ بن گئی ہے۔‘‘ (س ش ص۔ ۲، ص، ۲۱۵) مضمون کے آخر میں انہوں نے لکھا ہے کہ، 

    ’’میرا خیال ہے کہ اب یہ بات پوری طرح واضح ہو گئی ہوگی کہ داستان کس طرح ’’تواریخ‘‘ کا روپ دھار کر پوری طرح ’’افسانہ‘‘ بنتی ہے۔‘‘ (ایضاً ص، ۲۱۶) 

    فاروقی کی یہ یافت (Finding) صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ جب طویل داستانوں نے انتہائی مختصر داستانوں کا مذہبی حصار توڑنا شروع کیا تو ان میں تخئیلات کی دنیا بھی وسیع تر ہوتی گئی اور ان کا سیکولر کردار بھی نمایاں ہوتا گیا۔ فاروقی نے اس نکتے پر خاصی توجہ دی ہے کہ ہندوستانی داستانیں سیکولر ہیں۔ اگرچہ انہوں نے یہ اعتراف کیا ہے کہ ’’داستان کا بنیادی موضوع‘‘ شوکت دین حق بیان کرنا ہے۔ (س ش ص۔ ۳، ص، ۱۸۶) اور ’’دین حق‘‘ سے مراد ’’اسلام‘‘ ہے اور ’’اسلام‘‘ سے مراد ’’شیعی اسلام‘‘ ہے۔ (ایضاً ص، ۲۷۴) انہوں نے لکھا ہے کہ

    ’’مجموعی حیثیت سے اسلام کو برحق اور باقی ہرمذہب کو باطل ضرور قرار دیا گیا ہے لیکن گیان چند کا یہ خیال غلط ہے کہ داستان میں اسلام اور ہندو مذہب کو ایک دوسرے کے مقابل جنگ آزما دکھایا گیا ہے۔ داستان میں ہندومذہب اور اسلام کی جنگ نہیں۔۔۔ (ایضاً۱۸۶) 

    البتہ یہ ضرور ہے کہ مخلوقات کی آپسی کشمکش میں کامیابی اسی کو ملتی ہے جس کو توفیق الٰہی حاصل ہے اور توفیق الٰہی کی مستحق وہی مخلوق ہے جو وحدت خداوندی و رسالت محمدی کو ماننے والی ہے۔ کیونکہ آخرت یا بگڑی ہوئی شکل میں پیغمبری کو ماننے والی تو کئی قومیں ہیں بلکہ بگڑا ہوا تصور الہٰ بھی رکھتی ہیں۔ لیکن ان میں سے کسی کو اللہ کی مدد شامل حال نہیں ہوتی لیکن جب وہ موحدوں اور حق پرستوں اور رسول آخرالزماں کے نام لیواؤں سے اپنے مقاصد کے لیے ٹکراتی ہیں اور ان کو شکست فاش نصیب ہوتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ داستان گویوں نے یک طرفہ نتائج دکھائے ہیں۔ دراصل اس میں ان کا کوئی منشا اور قصور نہیں۔ 

    داستان میں حق و باطل کی جنگ تو ہے ہی مگر آخری نتیجہ فطری طور پر حق ہی کے حق میں سامنے آتا ہے۔ داستان گویوں نے تو اپے طور پر باطل کو بھی بہت مضبوط فریق مخالف، خوب ٹکر دینے والا دکھایا ہے۔ انہوں نے اپنے بلند تخیل کو ان کے لیے بھی خوب زور دار طریقے سے استعمال کیا ہے۔ اس لیے ہم ان پر جانبداری کا الزام نہیں دھر سکتے۔ انہوں نے مسلمانوں پر ہندو رسم و رواج کے جو اثرات دکھائے ہیں وہ بھی ان کو غیرجانبدار ثابت کرتے ہیں۔ بلکہ سچائی تو یہ ہے کہ انہوں نے ہندوستان کے سیاسی استقلال اور معاشرتی اتحاد کی خاطر اپنی مذہبی وابستگی کو قربان کیا ہے۔ لیکن داستان کی واقعاتی خوبی یہ ہے کہ توفیق الٰہی پر ایمان و یقین کے باوجود اسلامیوں کا عمل کہیں کمزور نہیں پڑتا۔ یعنی وہ یہ نہیں سوچتے کہ ہم تو اللہ و رسول کے نام لیوا ہیں، ہمیں توفیق الٰہی اور تائید غیبی حاصل ہے۔ اس لیے ہمیں زیادہ مشقت کی ضرورت نہیں۔ ہمارا منشا کرامتی طور پر پورا ہوتا چلا جائےگا۔ نہیں، وہ مقاصد کے حصول کے لیے زیادہ سے زیادہ سعی کرتے ہیں زیادہ سے زیادہ جوکھم اٹھاتے اور خطروں میں پڑتے ہیں۔ 

    توفیق و عمل کا ایسا امتزاج اور ان کی ایسی کارگزاری ہمیں عہد جدید کے کہانوی ادب میں کہیں نہیں ملتی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ داستان گویوں کو سعی کے مطابق ثمرے کے اسلامی نظریے کو معاشرے کے سامنے رکھنا تھا اور ساتھ ساتھ یہ بھی جتادینا تھا کہ ثمرات جتنے سعی پر منحصر ہیں اتنے ہی توفیق و تائید پر بھی منحصر ہیں۔ اس لیے کوئی انسان غیبی قوت سے بے نیاز نہیں ہوسکتا؟ یا بہت سی غیبی قوتوں کے تصور سے بھی کام یاب نہیں ہو سکتا۔ یا محض توفیق کے بھروسے یا صرف عمل کے ذریعے بھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ یہ سمجھنا کہ ’’داستان میں اسلام اور ہندو مذہب کو ایک دوسرے کے مقابل جنگ آزما دکھایا گیا ہے‘‘ بالکل غلط ہے۔ جیسا کہ پروفیسر گیان چند جین کا خیال تھا۔ 

    یہیں پر یہ بات بھی کہنے کی ہے کہ داستان میں طلسم و سحر کے ساتھ جھوٹے خدا بھی خوب پیش کیے گئے ہیں اور وہ بھی قوت و قدرت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ لیکن انجام کار وہ شکست کھاتے ہیں ممکن ہے داستان گویوں نے اس سلسلے میں خدائی کا جھوٹا دعویٰ کرنے والوں اور خدا کو جھٹلانے والوں سے متعلق مضامین قرآن کو پیش نظر رکھا ہو۔ ان مضامین سے کفر و اسلام کی جنگ ضرور ظاہر ہوتی ہے لیکن اس جنگ کو خاص ہندو مذہب اور اسلام کی جنگ کا رنگ نہیں دیا جاسکتا، انہوں نے تو یہ دکھایا ہے کہ اللہ Almighty God ایشور، جس نام سے پکاریے، اس کا مقابل ہوکر کوئی طاقت پار نہیں کھاسکتی لیکن اس کی مدد حاصل کرنے کی کچھ شرائط ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ کوئی مسلمان ہو یا ہندو یا کوئی اور قوم، اسے کامیابی چاہیے۔ تو اس کے لیے داستان گویوں کو ان کی اپنی فکر میں، جو مناسب و موزوں راہ نظر آئی اس کو انہوں نے پیش کیا اور کہیں تبلیغ نہیں کی۔ واقعات، چھوٹے بڑے ممکن و بعید از قیاس واقعات کے ایسے جال بنے، ایسی رنگ آمیزی کی، ایسے تخئیلات سے کام لیے کہ ان کا تصور بھی آگیا اور فنکاری بھی ہو گئی۔ 

    (۳)
    داستان کی پرکھ اور تنقید میں اردو نقادوں نے کئی زاویوں سے اظہار خیال کیے ہیں۔ ان میں کچھ تو ’’تعریفی باتیں‘‘ ہیں اور کچھ ’’فرد جرم‘‘ ہے۔ ’’تعریفی‘‘ باتوں کا خلاصہ فاروقی نے س ش ص کی پہلی جلد کے ص، ۶۲ تا ص، ۶۴ گیارہ نکات میں دیا ہے اور ’’فردجرم‘‘ کو بارہ نکات میں پیش کیا ہے۔ ان دونوں کے درمیان وہ ’’افسوس اور شرمندگی‘‘ سے اپنی باتیں بھی رکھتے ہیں، 

    ’’مجھے افسوس اور شرمندگی سے کہنا پڑتا ہے کہ داستان پر جو تنقید اب تک میری نظر سے گزری ہے، وہ زیادہ تر بچکانا، سطحی اور اصل معاملے سے دور ہے۔‘‘ (ص، ۶۴) 

    ’’افسوس اور شرمندگی‘‘ غالباً اس لیے ہے کہ داستان کی تنقید میں ’’اصل بنیادی باتیں‘‘ جو ہونی چاہئیں ان کی بقول فاروقی ’’ہمیں عام طور پر کوئی خبر نہیں۔‘‘ (ص، ۶۴) وہ کیا ہیں؟ فاروقی ہی کی زبانی سنیے، 

    (۱) ’’داستان ایک نئی طرح کی دنیا خلق کرتی ہے۔ یہ دنیا اپنی جزئیات کے اعتبار سے نمائندگی پذیر Mimetic اور اصل کے اعتبار سے غیرنمائندگی پذیر Anti Mimetic ہے۔ ادب کی کوئی صنف اس خوبی میں اس کے برابر نہیں ٹھہرتی بلکہ اس کے قریب بھی نہیں آتی۔‘‘ 

    (۲) ’’داستان غیرمعمولی تخیلاتی کارگزاری ہے۔ یہ ہمیں زبان اور بیانیہ دونوں کی انتہاؤں تک لے جانے کی کوشش کرتی ہے اور اکثر کامیاب بھی ہوتی ہے۔‘‘ 

    (۳) داستان امیرحمزہ نول کشوری کی چھیالیس جلدیں زبانی بیانیہ کے فن کا آخری (اور اردو کی حد تک پہلا بھی) عظیم نمونہ ہیں۔ زبانی بیانیہ کے فن کا غالباً کوئی طرز ایسا نہیں ہے جو یہاں نہ مل جاتا ہو۔ یہ صحیح معنی میں زبانی بیانیہ کا خزانۂ عامرہ ہے۔‘‘ 

    (۴) ’’داستان امیرحمزہ نول کشوری کی چھیالیس جلدوں میں ہندی+اسلامی تصور کائنات World View پوری قوت اور بسط سے بیان ہوا ہے۔ یہ داستان ہند+اسلامی تصور کائنات کا بھی خزانۂ عامرہ ہے۔‘‘ 

    اس کے بعد لکھتے ہیں، 

    ’’میرا خیال ہے کہ مندرجہ بالا چار نکات ہمارے یہاں داستان کی تنقید میں زیربحث نہیں آئے۔‘‘ (س ش ص۔ ۱، ص، ۶۵) 

    یہ باتیں تو س ش ص پہلی جلد کے باب اول ’’داستان کی شعریات۔۔۔ ۱‘‘ میں آئی ہیں۔ اسی جلد میں آخری باب (یازدہم) ’’داستان کے نقاد‘‘ کے عنوان سے لکھا گیا ہے۔ اس کا پہلا جملہ ہے، 

    ’’گیان چند کو داستان کا سب سے زیادہ کارآمد نقاد کہا جا سکتا ہے۔‘‘ 

    اور پہلا ہی جملہ الجھن میں ڈالتا ہے۔ اگر وہ ’’چار نکات‘‘ جو اوپر نقل کیے گئے، گیان چند کی تنقید میں بھی ’’زیربحث نہیں آئے‘‘ تو پھر وہ ’’کارآمد نقاد‘‘ کیسے کہے جا سکتے ہیں؟

    فاروقی نے راز یزدانی کو بھی بیکار ہی کھینچا ہے۔ وہ بی چارے اس آندھی طوفان میں کہاں ٹھہرنے والے ہیں۔ انہوں نے داستان پر کچھ کام ضرور کیا ہے۔ لیکن سہیل بخاری، وقار عظیم وغیرہ کی طرح ان کا ذکر کبھی نہ ہوا۔ سہیل بخاری، وقار عظیم اور راہی معصوم رضا کے بارے میں فاروقی کہتے ہیں کہ ’’ان لوگوں کی کاوشوں کو تنقید کا درجہ مشکل ہی سے دیا جا سکتا ہے۔‘‘ (ص، ۵۲۴) 

    اسی طرح سہیل احمد، شمیم احمد، محمد سلیم الرحمن وغیرہ بھی چھوڑ ہی دینے کے لائق ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ان ہی لوگوں کی تنقیدوں کے پیش نظر فاروقی نے داستان کی تنقید کے لیے ’’بچکانا‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہو، کیونکہ ان لوگوں نے داستان میں علامتی پہلو دکھاکر شاید کوئی تنقیدی کام نہیں کیا۔ مگر یہ بات میں بھی مانتا ہوں کہ داستان علامتی پہلو بھی رکھتی ہے۔ خیر، محمد حسن عسکری اور جمیل جالبی بھی داستان کی تنقید میں بس برائے نام ہی برادرانِ بزرگ ہیں اور ہوسکتا ہے کہ داستان کی تنقید میں ’’سطحی‘‘ کا لفظ ان ہی کے لیے ہو۔ اس لیے ان سب کا بس واجبی سا ذکر کر دیا گیا ہے۔ 

    اصل معاملہ یہ ہے کہ فاروقی کو کلیم الدین احمد کی تنقید داستان کا جائزہ لینا تھا اور ’’بچکانا سطحی اور اصل معاملے سے دور‘‘ یا اور بھی جو کچھ کہیے وہ کلیم الدین احمد ہی کے بارے میں کہنا تھا۔ اس لیے انہوں نے کئی صفحات میں کلیم الدین احمد کی کتاب ’’اردو زبان اور فن داستان گوئی‘‘ پر تنقیدی نظر ڈالی ہے اور مفصل تجزیے کے بعد آخری محاکمہ یہ کیا ہے، 

    ’’داستان پر کلیم الدین احمد کی تنقید کا اتنا بسیط ذکر میں نے اس لیے کیا کہ کلیم الدین احمد کے علاوہ کسی نے داستان پر اتنی مفصل نظریاتی تنقید نہیں لکھی ہے اور کلیم الدین احمد ہی کے خیالات کی بناء پر آج تک کے تقریباً تمام نقادوں نے داستان پر اپنی تنقید کی عمارت قائم کی ہے۔ کلیم الدین احمد نے داستان کو سنجیدہ مطالعے کے لائق سمجھا، اس کے معائب اور محاسن پر ادبی نقطہ نگاہ سے بحث کی۔ بہ الفاظ دیگر انہوں نے ہماری داستانوں کو ’’باعزت‘‘ بنایا۔ اس لیے ان کی جتنی ثنا ہو کم ہے۔ اگر وہ داستان کی صنف کے ساتھ معاملہ اس کی اپنی شعریات اور اس کی اپنی روایت کی روشنی میں کرتے تو ان کے نتائج اور بھی بہتر ہوتے۔‘‘ (س ش ص۔ ۱، ص، ۵۲۴) 

    یعنی داستان کی شعریات اور روایت کو مد نظر نہ رکھنے کی وجہ سے ان کے نتائج تنقید بہتر نہ ہو سکے۔ تو پھر ان کی ’’ثنا‘‘ کیوں؟ کہتے ہیں کہ ’’کلیم الدین احمد نے داستان۔۔۔ کے معائب اور محاسن پر ادبی نقطۂ نگاہ سے بحث کی۔‘‘ ’’معائب‘‘ کا لفظ پہلے لانے میں یہ اشارہ ہو سکتا ہے کلیم الدین احمد نے ’’معائب‘‘ پہلے دیکھے ہیں اور وہ ’’معائب‘‘ پہلے دیکھتے ہی ہیں۔ اگر وہ ’’محاسن‘‘ پہلے دیکھتے تو معائب نظر ہی نہ آتے۔ بہرحال، انہوں نے ’’ادبی نقطۂ نگاہ سے بحث کی‘‘ یہی بہت ہے۔ کیوں کہ، 

    ’’اصل بات یہ دیکھنے کی ہے کہ کن نقادوں نے داستان کو ادبی متن قرار دے کر اس کی اہمیت اور وقعت کے حسب حال اس کا مطالعہ کیا ہے، مربیانہ اور ترحمانہ لہجے کی جگہ علمی اور ذمہ دارانہ لہجہ اختیار کیا ہے اور داستان کی بنیادی صفات و خصوصیات کو خود داستان کی شعریات کے حوالے سے بیان کیا ہے۔‘‘ (ایضاً ص، ۵۳۵) 

    فاروقی کو اس بات میں تو شک نہیں ہے کہ کلیم الدین احمد داستان کو ادبی متن قرار دیتے ہیں یا نہیں۔ لیکن اس بات میں شک ضرور ہے کہ کلیم الدین احمد ’’مربیانہ اور ترحمانہ لہجے کی جگہ علمی اور ذمہ دارانہ لہجہ اختیار‘‘ کرتے ہیں یا نہیں۔ اور اس بات کا تو ان کو یقین ہی نہیں ہے کہ کلیم الدین احمد نے ’’داستان کی بنیادی صفات و خصوصیات کو خود داستان کی شعریات کے حوالے سے بیان کیا ہے۔‘‘ اس شک اور بے یقینی کی نوعیت و کیفیت کو سمجھنے کے لیے اور صحیح صورت حال سے واقفیت کے لیے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ فاروقی نے داستان کے تعلق سے کلیم الدین احمد کے بارے میں کیا کہا اور خود کلیم الدین احمد نے فن داستان کے تعلق سے داستان کے بارے میں کیا کہا تھا۔ یہ دیکھنے کے لیے دونوں نقادوں کے خیالات متوازی پیش کیے جاتے ہیں۔ 

    شمس الرحمن فاروقی
    (۱) ’’کلیم الدین احمد صاحب زبانی سنائے جانے والے متن یازبانی سنائے جانے کے لیے لکھے جانے والے متن اور خاموش پڑھنے کی خاطر لکھے ہوئے متن میں کوئی فرق نہیں کرتے۔ لہٰذا اگر وہ داستان گوئی کی اصطلاح استعمال بھی کرتے ہیں تو اس کے مضمرات سے کوئی واسطہ نہیں رکھتے۔‘‘ (س ش ص۔ ۱، ص، ۵۰۳) 

    کلیم الدین احمد
    (۱) الف۔ ’’’’بیس پچیس یا ران صادق اور داستان موافق‘‘ کا جمع ہوکر داستان سننا اور بات ہے اور ان کا بغور فرصت کے وقت مطالعہ کرنا اور بات ہے۔ جب ہم غور و فکر کے ساتھ پڑھتے ہیں، جب ہم کسی چیز کی جانب اپنی پوری توجہ مبذول کرتے ہیں تو ہمیں جزئی اور پیش نظر چیزوں سے تشفی نہیں ہوتی اور ہم کچھ اور چاہتے ہیں اور فنی اور جمالیاتی معیار کو بروئے کار لاتے ہیں۔ داستان گو اس حقیقت سے واقف تھے اور وہ داستان گوئی کو اپنے حدود میں فنی طور پر برتتے تھے۔ یعنی وہ چند اصول پیش نظر رکھتے تھے۔‘‘ 

    (اردو زبان اور فن داستان گوئی۔ ص۲۸) 

    ب۔ ’’وہ کہانی ہو یا داستان‘‘ یہ فن ’’کہنے کا‘‘ فن ہے۔ داستان گو باتیں کرتا ہے اور اپنی دلچسپ باتوں میں وہ سننے والوں کو محو کرلیتا ہے۔ اس کی باتوں میں روانی، سلاست، سادگی ہوتی ہے۔ اس کی زبان فطری ہوتی ہے۔ لب و لہجہ میں بول چال کا لطف ملتا ہے۔ جہاں اس کی باتوں میں تصنع کی رنگ آمیزی ہوئی تو پھر ان کا اثر جاتا رہتا ہے۔‘‘ 

    (اردو زبان اور فن داستان گوئی۔ ص۱۴۶) 

    ج۔ ’’کہنے والے نے اس طرح کہا ہے۔‘‘ (باغ و بہار) ’’لکھنے والے نے یوں لکھا ہے۔‘‘ (آرایش محفل) کہہ سکتے ہیں کہ ان دونوں داستانوں میں کہنے اور لکھنے کا فرق ہے۔ ’’آرایش محفل‘‘ لکھی گئی ہے، اس لیے اس میں منجملہ اور نقائص وحدود کے نسبتاً ثقالت زیادہ ہے۔‘‘ (ایضاً ص، ۱۵۰) 

    (۲) ’’کلیم الدین احمد صاحب کو ناول کی موجودگی میں داستان کی کوئی زندہ ضرورت نہ دکھائی دی اور مجموعی حیثیت سے انہیں داستان اور ناول کے لیے آب آمد تیمم برخاست کا حکم لگانا پڑا۔۔۔ کلیم الدین احمد کو داستانیں پسند ہوں گی لیکن وہ انہیں تحریری ادب مثلاً ناول کے مقابلے میں کوئی درجہ دینے کو تیار نہیں۔ خود متن کتاب میں وہ جگہ جگہ داستان، کہانی اور قصہ طرازی کو ’’وحشی‘‘ انسان یا ’’کم عمر بچوں‘‘ کے تخیلی عالم کی اشیاء قرار دیتے ہیں۔‘‘ 

    (س ش ص۔ ۱، ص، ۴۔ ۵۰۳) 

    (۲) الف ’’مہذب انسان بھی بچوں اور وحشیوں کی طرح قصہ کہانی کا شائق ہوتا ہے۔ یعنی انسان تہذیب کے زینوں پر پہنچ کر بھی کہانیوں کو لغو و لاطائل نہیں خیال کرتا بلکہ ان کی نوعیت بدل کر اپنی مہذب زندگی کی ضرورت کو پورا کرتا ہے۔۔۔ قصے کہانیاں اپنے فنی اور ادبی نقائص کے باوجود بھی ایسی چیزیں نہیں کہ انہیں یک قلم ناقابل اعتبار سمجھا جائے۔۔۔‘‘ (ایضاً ص۹تا۱۲) 

    ب ’’داستان گوئی ایک فن ہے اور اپنے حدود و نقائص کے باوجود ایک دلچسپ فن ہے اور اس قدر کم قیمت نہیں کہ ہم اسے یک قلم نظر انداز کرسکیں۔ افسوس ہے کہ موجودہ زمانہ میں اس فن کے جاننے اور برتنے والے نہیں ملتے اور اب یہ فن دنیائے ادب میں زندہ فن کی حیثیت نہیں رکھتا اور کوئی دوسری صنف سخن اس کا بدل نہیں ہو سکتی۔‘‘ (ایضاً ص، ۳۱۔ ۳۲) 

    ج ’’ہماری زندگی کی بےرنگی اور ہماری بے اطمینانی مسلم ہے۔ بوقلمونی تجربات پر ہمیں دسترس نہیں، جو تمنائیں دل میں ابھرتی ہیں۔ جو اولوالعزمی دماغ محسوس کرتا ہے جو اطمینان روح ڈھونڈتی ہے، وہ اس دنیا میں میسر نہیں۔۔۔ اس لیے کسی راہ نجات کی تلاش ہوتی ہے اور یہ راہ نجات ہمیں وہ دوسری زندگی دکھاتی ہے جو ہم اپنی چوبیس گھنٹوں والی زندگی کے ساتھ ہی ساتھ بسر کرتے ہیں۔ یہ دوسری زندگی زیادہ رنگین اور متنوع اور دلچسپ ہوتی ہے۔۔۔ طلسم ہوش ربا میں یہ دوسری زندگی اپنی جملہ نیرنگیوں، لطافتوں، رعنائیوں کے ساتھ مسکراتی ہے اور ہمیں دعوت نظارہ دیتی ہے۔ اس دوسری دنیا میں اپنی معمولی دنیا کی جانی ہوئی چیزوں کی تلاش دانش مندی سے بعید ہے۔‘‘ (ایضاً ص، ۳۸تا۳۹) 

    آگے بڑھنے سے پہلے فاروقی کے ان دونکتوں کو کلیم الدین ا حمد کے اقتباسوں میں دیکھیے کہ وہ ہیں یا نہیں۔ اگر کلیم الدین احمد زبانی سننے کے لیے زبانی متن یا تحریری متن اور بغور پڑھنے کے لیے زبانی یا تحریری بیانیہ کے تحریری متن میں فرق نہیں کرتے تو وہ یہ کیوں کہتے ہیں کہ داستان گو چند اصول پیش نظر رکھتے تھے اور داستان گوئی ایک فن ہے ’’کہنے کا‘‘ نہ کہ ’’لکھنے کا‘‘ اور ’’باغ و بہار‘‘ کہی گئی ہے جب کہ ’’آرائش محفل‘‘ لکھی گئی ہے۔ اور یہ تو کلیم الدین احمد پر تہمت ہے کہ وہ ناول کے مقابلے میں داستان کو کوئی درجہ دینے کو تیار نہیں۔ انہوں نے داستان کو ’’تیمم‘‘ اور ناول کو ’’آب‘‘ کہیں نہیں اور کبھی نہیں سمجھا۔ بلکہ انہوں نے تو صاف صاف کہا ہے کہ کوئی دوسری صنف داستان کا بدل نہیں ہو سکتی۔ اور یہ بھی تہمت ہی ہے کہ کلیم الدین احمد نے داستان، کہانی اور قصہ طرازی کو ’’وحشی‘‘ انسان یا ’’کم عمر بچوں‘‘ کے تخیلی عالم کی اشیاء قرار دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے کہانی اور داستان کو الگ الگ معنی میں استعمال کیا ہے۔ قصہ کہانی کو انہوں نے ضرور وحشیوں اور بچوں سے منسوب کیا ہے۔ لیکن داستان کے بارے میں کہا ہے کہ قصہ کہانی کی نوعیت بدل کر مہذب انسان داستان بناتا ہے اور اپنی زندگی کی ضرورتو ں کو پورا کرتا ہے۔ یعنی عام قصے کہانیوں سے داستان کی نوعیت بدلی ہوئی ہوتی ہے۔ 

    اب رہی یہ بات کہ کلیم الدین احمد نے ’’کہنے کا فن‘‘ اور فاروقی نے ’’زبانی بیانیہ‘‘ پر جو اتنا زور دیا ہے، اس کی ماہیت ہمارے نزدیک، جن کا حصہ دور کا جلوہ ہے اور جو تحریری بیانیہ کے سحر میں آچکے ہیں، کیا ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ داستان کہنے کا فن ہونے کے باوجود ہم تک جو پہنچی ہے تو لکھی ہوئی حالت میں پہنچی ہے، ہم اس کو صرف پڑھتے ہیں۔ جو لوگ بگوش خود داستان کو سنا کرتے تھے۔ ہم ان کی طرح کیسے ہو سکتے ہیں۔ مثلاً ایک مثال لیجیے۔ داستان میں لمبی لمبی غزلیں ہیں۔ فاروقی نے لکھا ہے کہ، 

    ’’ممکن ہے (غالباً ترنم سے سنائی جانے کی وجہ سے سامعین کو ان سے اکتاہٹ نہ ہوتی ہو بلکہ ایک طرح کی راحت (Relief) محسوس ہوتی ہو۔‘‘ (س ش ص۔ ۳، ص، ۳۳۹) 

    اس میں تو خیر شک نہیں کہ شاعری ترنم سے سنائی جائے یا تحت لفظ میں، سننے والوں پر اس کا خاص اثر ہوتا ہے۔ جیسا کہ مرثیہ خوانی میں آج بھی نظر آتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ سامعین نہ اکتاتے ہوں بلکہ راحت محسوس کرتے ہوں۔ لیکن آج کا قاری داستان میں لمبی لمبی غزلوں کو کباب میں ہڈی ہی سمجھتا ہے۔ زبانی بیانیہ کا فن زبانی بیان ہی میں کھلتا ہے۔ قرأت میں نہیں کھلتا تحریری بیانیہ کا فن بذات خود بھی قائم رہتا ہے اور نئی قرأتوں سے نہفتہ فنکاری کے امکان کو بھی روشن کرتا ہے۔ داستان گویوں نے جیوں ہی داستانیں لکھیں اور شائع کیں تو بس اسی لمحہ ان کو تحریری بیانیہ کے زمرے میں خود ہی ڈال دیا۔ داستانوں کو ’’بطرزبایستہ و عبارت شایستہ‘‘ ترتیب دیا گیا۔ اب یہ اور بات ہے کہ لکھنے میں بھی یہ اصول پیش نظر رہا کہ داستان یوں لکھنی چاہیے کہ ’’تحریر میں لطف تقریر ہو۔‘‘ اس لیے اب تحریری بیانیہ کے اصول سے داستان کو جانچنا سراسر غلط بھی نہیں کہا جا سکتا ہے، خود فاروقی نے بھی کہا ہے کہ، 

    ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ زبانیت Orality کو ہم تہذیبوں کا مقصود نہیں کہہ سکتے۔ اور ہر معاشرہ جلد یا بدیر زبانی پن سے خواندگی کی طرف سفر کرتا ہے۔‘‘ (س ش ص۔ ۱، ص، ۲۷۰) 

    ہم ’’زبانی پن‘‘ کو کوئی ’’منفی شئے‘‘ نہیں سمجھتے اور کیسے سمجھ سکتے ہیں جب کہ اس زبانی پن نے ہمیں داستان کا اتنا بڑا ضخیم سرمایہ عطا کیا ہے۔ لیکن اس کو نوشتگی سے بڑی چیز بھی نہیں کہہ سکتے۔ بلکہ یہی زبانی پن سے بڑی چیز ہے کیونکہ زبانی پن کو بھی بہرحال اور بالآخر تحریر کا ہی سہارا لینا پڑا۔ پھریہ بات بھی ہے کہ فن کس طرح عالم وجود میں آیا ہے، یہ دیکھنے میں نقاد کو زیادہ وقت برباد نہ کرنا چاہیے۔ نقاد کو تو یہ د یکھنا ہے کہ جو نمونہ فن اس کے سامنے ہے، وہ بحیثیت فن کیا قدر رکھتا ہے۔ مثلاً ہمارے شاعروں نے کئی غزلیں اور غزلوں کے اشعار بیت الخلا میں کہے ہوں گے، کئی خلوت خانے میں اور کئی برجستہ طور پر محفل میں۔ کرید کرنے پر ہم کو پتہ بھی مل سکتا ہے کہ کون سی غزل کہاں کہی گئی ہے تو کیا ہم تجزیے میں ان مقامات کو بھی لازمی طور پر پیش نظر رکھیں گے؟ بنیادی بات یہ ہے کہ بیانیہ جس نوع کا بھی ہو اور جس صورت حال میں بھی بنایا گیا ہو اور جس مقصد کے لیے اور جس ذریعے سے بھی بنا ہو، اب جب کہ وہ ہمارے سامنے تحریری شکل میں ہے تو ہم اس کو تحریری بیانیہ کی شعریات سے الگ نہیں رکھ سکتے۔ 

    اگر ’’آرایش محفل‘‘ لکھی گئی ہے تو ٹھیک ہے، لکھی گئی ہے۔ لیکن ایسی بات نہیں کہ اس میں ’’ثقالت‘‘ لکھنے ہی کی وجہ سے آئی اور ’’باغ و بہار‘‘ کہی گئی، تو ٹھیک ہے کہی گئی ہے۔ لیکن ایسا تو نہیں ہے کہ کہنے ہی کی وجہ سے اس میں سلاست، روانی آئی، لکھنے کی وجہ سے نہ آئی۔ ثقالت و سلاست کچھ نوشت اور زبانی پن پر منحصر نہیں ہے۔ یہ کہیں بھی آ سکتی ہے۔ اصل یہ ہے کہ کہنے والا اور لکھنے والا کس زبان دانی اور سخن سازی کا اہل ہے اور کون ساطرز خود اس کو مطبوع ہے۔ سامعین اور قارئین تو ثانوی ہو جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھیے تو فاروقی کے ’’زبانی بیانیہ‘‘ پر طویل بحث کے مقابلے میں کلیم الدین احمد کی ’’کہنے کا فن‘‘ پر مختصر گفتگو دوہاتھ آگے ہی رہتی ہے۔ 

    فاروقی کہتے ہیں کہ، 

    ’’(کلیم الدین احمد صاحب نے) یہ کہیں نہیں بتایا کہ ادب پاروں کی حیثیت سے ہماری داستانوں کی وقعت کیا ہے؟ یہ ادب ہیں کہ نہیں؟ اور اگر ادب ہیں تو دنیائے ادب میں ان کی جگہ کہاں ہے۔‘‘ (س ش ص۔ ۱، ص، ۵۰۴) 

    یا اللہ! اگر کلیم الدین احمد نے یہی باتیں نہیں بتائیں تو داستان پر تنقید کیا کی؟ لیکن ٹھہریے، ان کی کتاب اٹھائیے، کھولیے اور پڑھیے، 

    الف: ’’جس داستان کی ابتدا ایسی ہو اس کی مجموعی حیثیت کا اندازہ آپ آسانی سے کر سکتے ہیں۔ اس داستان (طلسم ہوش ربا) میں کم سے کم حقیقت طرازی کا گزر ممکن نہیں۔ یہاں تو تخیل کی آزاد جولانی ہی بھلی معلوم ہو سکتی ہے اور حقیقت طرازی کے فقدان کے باوجود بھی اس میں دلچسپی ممکن ہے۔۔۔ اس کا اثر دوسرے انشاپردازوں اور شعرا پر بہت گہرا پڑا۔ یہی حقیقت اس کی اہمیت اور اس کے مفید ہونے کی کافی دلیل ہے۔‘‘ 

    (اردو زبان اور فن داستان گوئی۔ ص، ۵۰) 

    ب ’’طلسم ہوش ربا‘‘ محض ایک دلچسپ داستان نہیں، اس کی قدروقیمت اور ان کہانیوں کی قدروقیمت میں جن سے بچپن میں ہم اپنا دل بہلاتے ہیں، کوئی مماثلت نہیں۔ ’’طلسم ہوش ربا‘‘ میں جو معنی خیزی ہے، وہ اردو ناولوں یا افسانوں میں کہیں نہیں ملتی،‘‘ (ایضاً ص، ۵۵) 

    ج ’’طلسم ہوش ربا‘‘ کی دنیا شکسپئر کے ڈراموں کی دنیا سے قدروقیمت میں بہت کم ہے۔ دونوں میں کوئی مناسبت نہیں۔ لیکن جہاں تک اس نکتے (کہ نیکی کے پتلے اور بدی کے مجسمے اردو داستانوں اور اردو مرثیوں میں الگ الگ ہیں۔۔۔ منصور) کا تعلق ہے۔ ’’طلسم ہوش ربا‘‘ کا مرتبہ مرثیوں سے بلند ہے۔ مرثیہ گو کی حیثیت جانبدار کی ہے۔ وہ ایک جماعت کے محاسن کو چمکاتا ہے۔ اس جماعت میں کسی نقص کا گزر ممکن نہیں۔ ’’طلسم ہوش ربا‘‘ میں بھی جانبداری ہے لیکن یہ سیاہی اس قدر گہری نہیں اور یہاں دوسرے رنگوں کی بھی جھلک نظر آتی ہے۔‘‘ (ایضاً ص، ۵۶ تا ۵۷) 

    دوسرے رنگ کیا ہیں اور کیسے ہیں۔ ان کو دیکھنے کے لیے کتاب کا ص، ۴۲ تا ۴۷ ملاحظہ کیجیے۔ یہاں وہی جملے پیش کیے گئے جن کا فاروقی کے اعتراض سے تعلق ہے اور حق تو یہ ہے کہ کلیم الدین احمد نے ادب پاروں میں داستان کی وقعت کو دوسرے سبھی ناقدوں سے زیادہ سمجھا ہے۔ اسے ادب ہی نہیں بڑا ادب مانا ہے۔ ہم ان کے تقابل کو قبول کریں یا نہ کریں، لیکن انہوں نے اپنے طور پر یہ بتایا ہے کہ دنیائے ادب میں ان داستانوں کی جگہ کہاں ہے۔ انہوں نے دنیائے ادب میں اردو داستانوں کو شکسپئر کے ڈراموں سے کمتر اور اردو ناولوں اور اردو مرثیوں اور اردو مثنویوں سے بلند و بہتر مقام پر دکھایا ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب کا باب ۱۳ اردو داستان اور مثنوی ’’سحر البیان‘‘ و ’’گلزارِ نسیم‘‘ کے تقابلی مطالعے پر مبنی لکھا ہے۔ اس میں انہوں نے بتایا ہے کہ کہنے کو تو ’’سحر البیان‘‘ بھی داستان ہے لیکن داستانیت کے لحاظ سے ’’بہت پتلی ہے‘‘ 

    اس صورت میں گلزارِ نسیم‘‘ تو واقعتاً قابل ذکر ہی نہیں ٹھہرتی۔ لیکن تنقیدی خدمت کی مجبوری کے تحت ہی غالباً کلیم الدین احمد نے اس کے سب سے بڑے مانے جانے والے وصف یعنی اختصار و جامعیت کو زیربحث لایا ہے۔ اور اس کے اشعار پیش کرکے انہوں نے کہا ہے کہ ’’ذرا سی بات‘‘ کو نسیم نے ’’افسانہ کر دیا‘‘ ہے۔ اور ’’لطف یہ ہے کہ اثر کچھ بھی نہیں۔ یعنی اردو داستانوں کے مقابلے میں ناولوں اور افسانوں کے بارے میں وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ داستانوں کا ’’بدل‘‘ نہیں ہیں اور یہاں نام آور مثنوی ’’سحرالبیان‘‘ کے بارے میں کہا کہ اس کی داستانیت ’’بہت پتلی ہے‘‘ تو اب اردو کی کون سی صنف ایسا دم خم رکھتی ہے کہ اس کے بل بوتے پر وہ داستان کے مقابلے میں آ سکےگی۔ کلیم الدین احمد کی تحریروں سے میری یافت تو یہ ہے کہ انہوں نے اردو غزل، نظم، مرثیہ، مثنوی، قصیدہ، قطعہ، رباعی، ناول، افسانہ ڈراما وغیرہ سب کو اردو داستانوں سے فروتر سمجھا ہے۔ وہ شعر و ادب میں جس ربط اتفاق، ارتقا، تکمیل، موزونیت، ہم آہنگی، تخیل کی جولانی، مشاہدات کی کثرت، تجربات کی وسعت اور بیان کی فنکارانہ قدرت کو ڈھونڈتے ہیں، وہ سب ان کو صرف اردو داستانوں ہی میں اور وافر مقدار میں ملتے ہیں اور یہ کہہ کر کہ، 

    ’’داستانوں کا جو سرمایہ اردو میں موجود ہے، یہ سرمایہ کسی دوسری زبان کی داستانوں کے مقابلہ میں بلاتامل پیش کیا جا سکتا ہے اور یہ بھی بلا تامل کہا جا سکتا ہے کہ کسی دوسری زبان کے سرمایہ (داستان) کے مقابلہ میں ہیچ نہیں۔‘‘ (اردو زبان اور فن داستان گوئی‘‘ ص، ۴۔ ۲۰۳) 

    وہ اردو داستانوں کا باضابطہ تعین مقام بھی کر دیتے ہیں۔ اب اور کیا چاہیے؟

    ناول اور داستان کے فرق کے سلسلے میں فاروقی کہتے ہیں کہ، 

    ’’اول تو یہ کہ ناول تحریری بیانیہ ہے اور داستان زبانی بیانیہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ داستان اپنے مزاج کے اعتبار سے قبل از جدید (Pre Modern) صنف سخن ہے۔ اس کے پس پشت جو تصور کائنات کارفرما ہے، وہ ناول کے پس پشت کام کرنے والے تصور کائنات سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ زبانی پن کی وجہ سے داستان کے ضوابط بیان یعنی Narrative Principles ناول سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔ چونکہ ناول اور داستان دونوں ہی بیانیہ ہیں۔ اس لیے ان کی شعریات میں بعض باتیں مشترک ضرور ہیں لیکن اس اشتراک کی نوعیت ایسی ہرگز نہیں کہ اس کی بناپر داستان اور ناول میں کوئی نامیاتی تعلق مانا جائے۔‘‘ 

    کلیم الدین احمد صاحب ان بنیادی باتوں کو نظرانداز کرتے ہیں۔ ان کی کتاب ’’اردو زبان اور فن داستان گوئی‘‘ کے اولین دو ابواب کے عنوان ہیں۔ ’’داستان کیا ہے‘‘ اور ’’داستان کی تکنیک‘‘ اس پورے مبحث کو بیس اکیس صفحوں میں نمٹا دیا گیا ہے۔ اور پوری گفتگو میں اس بات کا کہیں ذکر نہیں کہ داستان زبانی بیانیہ ہوتی ہے اور نہ اس بات کا ذکر ہے کہ داستان کا اصول حقیقت، واقعیت (یا ناول نگاری) کے اصول حقیقت سے بالکل جداگانہ ہوتا ہے۔ کلیم الدین احمد صاحب کا ذہن اس بات کو تسلیم کرنے (تسلیم کرنا کیا، اس کا سامنا بھی کرنے) پر تیار نہیں کہ وہ متن جس میں ہینری جیمس کے ناول جیسی نام نہاد واقعیت نہ ہو اور جس میں محیرالعقول باتیں مذکور ہوں ’’سنجیدہ‘‘ اور ’’متین‘‘ اور ’’وقیع‘‘ بھی ہو سکتا ہے۔ (س ش ص۔ ۱، ص، ۵۱۲) 

    فاروقی تشریحی انداز میں اپنی باتیں رکھتے ہیں۔ کلیم الدین احمد بات کو پھیلاکر بیان نہیں کرتے۔ اجمالی یا تفصیلی گفتگو کرنا بذات خود عیب و ہنر کی بات نہیں ہے۔ یہ تو طرز بیان ہے۔ کچھ لوگ وضاحتی انداز اختیار کرتے ہیں اور کچھ لوگ اختصار میں کام کی ضروری باتیں بیان کر دیتے ہیں۔ اس لیے دیکھنا یہ چاہیے کہ موضوع سے متعلق باتیں بیان میں آئیں یا نہیں۔ ’’داستان کیا ہے؟‘‘ اور ’’داستان کی تکنیک‘‘ کو کلیم الدین احمد نے بیس اکیس صفحوں میں جو ’’نمٹادیا‘‘ ہے تو کیا ضروری باتیں نہیں آئیں؟ اقتباسات دینا اب ضروری نہیں، لیکن انہوں نے بھی کہا ہے کہ ’’داستان کہنے کا فن ہے‘‘ اور ’’داستان کی صنف اب زندہ نہیں۔‘‘ فاروقی ’’زبانی بیانیہ‘‘ اور ’’قبل از جدید صنف‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ یہ باتیں ’’کہنے کا فن‘‘ اور ’’داستان کی صنف اب زندہ نہیں‘‘ سے الگ نہیں ہیں۔ فاروقی ’’داستان کے ’’ضوابط بیان‘‘ کا ذکر کرتے ہیں۔ کلیم الدین احمد نے بھی ایک ادیب کے حوالے سے داستان کے ضوابط بیان نقل کیے ہیں۔ مثلاً ’’اول مطلب مطول و خوشنما‘‘ ۔ ’’دوم بجز مدعائے خوش ترکیب ومطلب دلچسپ کوئی مضمون سامعہ خراش و ہزل درج نہ کیا جائے۔‘‘ ’’سیوم لطافت زبان و فصاحت بیان‘‘ ’’چہارم عبارت سریع الفہم‘‘ ۔ ’’پنجم تمہید قصہ میں بجنسبہ تواریخ گزشتہ کا لطف‘‘ (ص، ۲۸ تا ۲۹) اور اپنا تبصرہ یہ پیش کیا ہے کہ، 

    ’’ان جملوں سے ظاہر ہے کہ داستان گوئی ایک دلچسپ مشغلہ ہونے کے ساتھ فنی حیثیت بھی رکھتی تھی اور ہرکس و ناکس داستان گو نہیں ہو سکتا تھا۔‘‘ (ص، ۲۹) 

    تو فاروقی کون سی نئی بات کہہ رہے ہیں؟

    میرے نزدیک فاروقی کی نئی بات یہ ہے کہ انہوں نے کلیم الدین احمد پر یہ تہمت رکھی ہے کہ کلیم الدین صاحب محیرالعقول باتوں کو ’’سنجیدہ‘‘ ’’متین‘‘ اور ’’وقیع‘‘ نہیں سمجھتے۔ واقعہ یہ ہے کہ کلیم الدین احمد نے داستانوں کی محیرالعقول باتوں کی جیسی منطقی تاویل کی ہے۔ وہ داستان کی سنجیدگی، متانت اور وقعت کو خاصی بڑھانے والی ہے۔ چند جملے ملاحظہ کیجیے، 

    ’’یہ رکاوٹیں اکثر کسی فوق فطرت ہستی کی مداخلت سے پیدا ہوتی ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ داستان میں اس قسم کے عنصر کا غلبہ نظر آتا ہے۔۔۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان چیزوں میں پہلے لوگوں کو یقین تھا۔ لوگ سمجھتے تھے کہ خدا نے اس دنیا اور اس دنیا کے باشندوں کے علاوہ کوئی دوسری دنیا بھی پیدا کی ہے اور اس دوسری دنیا میں ایسی ہستیاں بستی ہیں جو ہمیں نظر نہیں آتیں لیکن جو اپنی مرضی کے مطابق ہمارے سامنے ظاہر بھی ہو سکتی ہیں۔ اور ہمارے معاملات میں دراندازی بھی کر سکتی ہیں۔۔۔ اس کے علاوہ یہ دوسری دنیا اور اس کے باشندے سامعین یا قارئین کے مادہ تجسس کو بھڑکاتے اور ان کے تخیل پر تازیانہ کا کام کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ داستان میں رنگینی، پیچیدگی، بوقلمونی دلچسپی کا بھی اضافہ ہوتا ہے۔ 

    پھر جب ہم ان جنوں، دیووں، پریوں کو انسان کی طرح بولتے چالتے، ہنستے روتے، محبت و نفرت کرتے، ہمدردی و ترحم یا غیظ و غضب کے جذبات سے متاثر دیکھتے ہیں تو ہمیں ایک طرح کا اطمینان ہوتا ہے اور ہم اپنے جذبات و خیالات پر زیادہ اعتماد محسوس کرنے لگتے ہیں۔۔۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس مخصوص عنصر کی وجہ سے داستانوں کو یک قلم نظر انداز کر دینا دانش مندی سے بعید ہے۔۔۔ جن، دیو، پری سامنے آئیں تو آنے دیجیے اور دیکھیے کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ وہ انسان سے مشابہ ہیں۔ کبھی داستان میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں تو کبھی مشکلوں کو آسان کر دیتے ہیں۔۔۔ غرض یہ سب چیزیں مستعمل ہیں اور ان سے طرح طرح کا مصرف لیا جاتا ہے۔ کبھی ان کی وجہ سے داستان میں گھتیاں پڑ جاتی ہیں تو پھر ان ہی کی مدد سے کھل بھی جاتی ہیں۔ جب داستان گو کو مشکل پیش آتی ہے تو وہ فطری ذرائع کے بدلے ان غیرفطری یا غیرمتوقع خلاف قیاس ذریعوں سے مصرف لیتا ہے اور اسے ان سے مصرف لینے حق حاصل ہے۔‘‘ (ص، ۲۶تا ۲۸) 

    فاروقی کہتے ہیں کہ، 

    ’’کلیم الدین احمد صاحب اس بات کو بھی بھول جاتے ہیں کہ ’’حقیقت نگاری‘‘ ہو یا ’’سماجی حقیقت نگاری‘‘ یہ بیانیہ کے طرز ہیں۔ سارے کا سارا بیانیہ نہیں ہیں۔ اور جس طرح ’’حقیقت نگاری‘‘ ایک طرز ہے، اسی طرح مافوق العادت اور مافوق الفطرت کو بنیاد بنانا بھی بیانیہ کا ایک طرز ہے۔ وہ داستان کے وجود میں آنے کی نفسیاتی توجیہہ کرتے ہیں۔ ان کا ارشاد ہے، 

    مہذب انسان بھی بچوں اور وحشیوں کی طرح قصہ کہانی کا شائق ہے۔ یعنی انسان تہذیب کے زینوں پر پہنچ کر بھی کہانیوں کو لغو و لاطائل نہیں خیال کرتا بلکہ ان کی نوعیت بدل کر اپنی مہذب زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔ بہرکیف، کسی بچے اور وحشی میں یہ مشابہت ہے کہ دونوں کہانیوں کو پسند کرتے ہیں اور انہیں تعقل اور تنقید کی میزان پر نہیں تولتے۔۔۔ جب بچے کا دماغ ترقی کے مدارج طے کرتا ہے، جب وحشی تہذیب کی منزلوں سے گزرتا ہے تو وہ ان کہانیوں میں ایک کمی محسوس کرتا ہے۔۔۔ اور وہ دوسری صنفیں اختراع اور اخذ کرتا ہے۔ جن سے اس کی نئی پیاس کی تشفی ہوتی ہے۔ 

    کلیم الدین احمد کے مندرجہ بالا اقتباس کے بارے میں کہنا پڑتا ہے کہ مربیانہ غیرمنطقی اور سہل پسند فکر کی اس سے بہتر مثال ملنا مشکل ہے۔ اس پورے اقتباس کا تجزیہ طول کلامی کا موجب ہوگا۔ صرف چند بنیادی اور سامنے کی باتوں پر غور کریں۔‘‘ (س ش ص۔ ۱، ص، ۵۱۳) 

    اگر فاروقی ’’پورے اقتباس کا تجزیہ‘‘ کرتے تو پتا نہیں کیا کرتے۔ صرف ’’سامنے کی باتوں پر غور‘‘ کرنے میں وہ پانچ صفحوں میں سات نکات بیان کرتے ہیں اور بال کی کھال کھینچتے ہیں۔ مگر سنجیدہ تنقیدی گفتگو کے لیے تشویش ناک بات یہ ہے کہ وہ کلیم الدین احمد کے مافی الضمیر پر افترا باندھتے ہیں۔ اگر میں بھی ان سب باتوں کو مثالوں سے پیش کرنے لگوں تو واقعی ’’طول کلامی‘‘ ہوگی۔ اس لیے صرف ایک بات کی مثال دوں گا جو کلیم الدین احمد کے عندیہ سے مغائرت کی ہے۔ 

    کلیم الدین احمد نے بخدا یہ بات اس اقتباس میں یا کہیں بھی، ہرگز نہیں کہی ہے کہ ’’بچہ/وحشی‘‘ جب کہانیوں سے عدم اطمینان محسوس کرتا ہے تو ’’نئی ادبی صنفیں اختراع اور اخذ کرتا ہے۔‘‘ (فاروقی کا چوتھا نکتہ۔ س ش ص۔ ۱، ص، ۵۱۶) انہوں نے تو یہ کہا ہے کہ ’’جب وحشی تہذیب کی منزلوں سے گزرتا ہے تو وہ ان کہانیوں میں ایک کمی محسوس کرتا ہے۔۔۔ اور وہ دوسری صنفیں اختراع اور اخذ کرتا ہے۔۔۔‘‘ وحشی کے تہذیب کی منزلوں سے گزرنے کا مطلب یہ ہوا کہ وہ وحشی نہ رہا۔ مہذب ہوگیا۔ یعنی مہذب انسان نئی ادبی صنفیں اخراع اور اخذ کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ کلیم الدین احمد کے جملے کا فاعل ’’بچہ/وحشی‘‘ نہیں ہے بلکہ ’’مہذب انسان‘‘ ہے۔ لیکن فاروقی نے چابکدستی سے فاعل بدل کر اس کو کلیم الدین احمد سے منسوب کر دیا۔ کیا برا کیا۔ 

    فاروقی جب دوسروں پر تنقید کرتے ہیں تو ’’مربیانہ‘‘ کا لفظ بھی عموماً استعمال کر ہی دیتے ہیں۔ پتہ نہیں، اس لفظ سے ان کی کیا مراد ہوتی ہے۔ میں نے نئے سرے سے لغات دیکھے لیکن مجھے یہاں ’’مربیانہ‘‘ کے استعمال کا جواز نظر نہ آیا اور نہ یہ بات سمجھ میں آئی کہ تنقیدی لحاظ سے اس لفظ کے منفی معنی کیا ہیں۔ اب رہی بات کلیم الدین احمد کے ’’غیرمنطقی اور سہل پسند فکر‘‘ کی، تو مجھے کلیم الدین احمد کے مذکورہ بالا اقتباس میں غیرمنطقیت اور سہل پسندی نہ ملی۔ کلیم الدین احمد نے بچے کے متعلق لکھا ہے کہ، 

    ’’جیسے وہ کہانیوں کو واقعیت اور حقیقت کی روشنی میں نہیں دیکھتا، اسی طرح وہ انہیں جمالیات اور فن کی کسوٹی پر نہیں جانچتا، ۔۔۔ وہ ان کی صورت میں حسن، تناسب، ترتیب و ارتقا کی منطقی صحت سے سروکار نہیں رکھتا۔ اس لیے ان کہانیوں میں حقیقت اور فنی حسن کا وجود عام طور پر نہیں ہوتا۔‘‘ 

    اس اقتباس کو نقل کرکے فاروقی بالکل غیرمتعلق باتیں کرتے ہیں اور کلیم الدین احمد کے واضح مدعا کو چھوڑ دیتے ہیں۔ کلیم الدین احمد نے بچوں کے لیے کہانی میں ’’دلچسپی کے عنصر‘‘ پر جو زور دیا ہے کہ بچہ صرف دلچسپی سے واسطہ رکھتا ہے، فن کے معیار نقد سے نہیں۔ اس بات کو فاروقی پتہ نہیں کیوں پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔ اور خواہ مخواہ ’’فنی حسن اور واقعیت‘‘ کے بارے میں کلیم الدین احمد کو ’’سہل پسند‘‘ کہتے ہیں۔ بچوں کی کہانیوں سے قطع نظر، اور ’’داستان امیر حمزہ‘’ کوئی بچوں کی کہانی نہیں ہے، فن داستان گوئی کے بارے میں کلیم الدین احمد نے اپنی کتاب میں جو کچھ اظہار خیال کیا ہے، اس میں سے کسی حصے کو غیرمنطقی اور سہل پسند فکر کی مثال نہیں سمجھا جا سکتا۔ فارقی مزید ستم یہ ڈھاتے ہیں کہ ’’حقیقت نگاری‘‘ اور ’’سماجی حقیقت نگاری‘‘ کے بالمقابل ’’مافوق العادت‘’ اور مافوق الفطرت‘‘ کو کھڑا کرکے گفتگو اس طرح کرتے ہیں جیسے کلیم الدین نے موخرالذکر کو بیانیہ کا طرز ماننے سے انکار کر دیا ہے یا اگر اس کو تسلیم کیا ہے تو صرف بچوں اور وحشیوں کے لیے کیا ہے۔ مہذب انسانوں کے لیے نہیں کیا ہے اور ان کے لیے ناول کے تحریری بیانیہ کو مخصوص کیا ہے جو ان کی نظر میں فوق الفطرت بیانیہ کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ یہ ساری باتیں فاروقی کی زائیدہ فکر ہیں۔ ان کا کلیم الدین احمد سے کوئی تعلق نہیں۔ 

    فاروقی نے کلیم الدین احمد کی کتاب کے صفحہ ۷۵ سے یہ جملے نقل کیے ہیں، 

    (یہ پیش پا افتادہ بات ہے کہ) ’’ادب میں واقعات اور حقیقی افراد کا بیان نہیں ہوتا۔۔۔ وہ ڈراما ہو یا ناول یا افسانہ، اس میں تخیلی واقعات تخیلی کیرکٹر کی نمائش ہوتی ہے۔‘‘ 

    اور یہ تبصرہ کیا ہے، 

    ’’معلوم نہیں کیوں وہ یہاں داستان کا ذکر کرنا بھول گئے (بلکہ کہنا چاہیے کہ وجہ ظاہر ہے۔ اگر وہ یہ حکم داستان کے بارے میں لگاتے تو پھر داستان کو ’’بچوں /وحشیوں‘‘ کی چیز بتانے کے بجائے ناول کے برابر کہیں جگہ دینی پڑتی) ‘‘ (س ش ص۔ ۱، ص، ۵۲۳) 

    یہ سراسر بہتان ہے کہ کلیم الدین نے داستان کو ’’بچوں /وحشیوں کی چیز‘‘ بتایا ہے۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے ’’بچوں /وحشیوں‘‘ کے قصے کہانیوں سے داستان کو ممیز و ممتاز رکھا ہے اور داستان کو ناول کے برابر نہیں بلکہ اس کے اوپر جگہ دی ہے۔ وہ بات جو فاروقی نے تبصرے کے قوسین میں لکھی ہے، بہت زیادہ گمراہ کن ہے۔ اور جو پہلا جملہ ہے وہ بھی نیک نیتی سے نہیں ہے۔ کیونکہ کلیم الدین احمد کے جملے میں ’’داستان‘‘ کے ذکر کا محل ہی نہ تھا۔ 

    مجھے سخت حیرت ہے کہ بڑے نقادوں کو بعض اوقات کیا ہو جاتا ہے۔ وہ کیوں اتنی الٹی سیدھی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ کیا یہ شیوہ بھی ان کے بڑے نقاد ہونے کا کوئی غیر شعوری مظہر ہے؟ کلیم الدین احمد نے لکھا تھا کہ، 

    ’’داستان گوئی ایک فن ہے اور اپنے۔۔۔ حدود و نقائص کے باوجود ایک دلچسپ فن ہے۔‘‘ 

    اس خیال کو نقل کرکے فاروقی تبصرہ کرتے ہیں۔ 

    ’’یعنی وہ (کلیم الدین احمد) داستان بطور ادبی متن سے کوئی سروکار نہیں رکھتے اور ان کے خیال میں داستان گوئی اگرچہ ایک دلچسپ فن ہے لیکن اس میں حدود و نقائص بھی ہیں۔‘‘ (س ش ص۔ ۱، ص، ۵۲۰) 

    اس تبصرے کے کوئی معنی نہیں نکلتے۔ کیونکہ کلیم الدین احمد نے داستان کی پرکھ ادبی متن ہی کی حیثیت سے تو کی ہے اور اس میں ان کو بعض ’’حدود و نقائص‘‘ نظر آئے ہیں۔ 

    کلیم الدین احمد نے یہ وضاحت کر دی ہے کہ وہ ’’حدود و نقائص‘‘ کس نوعیت کے ہیں۔ اگر اختلاف تھا تو یہ بتانا تھا کہ وہ ’’حدود و نقائص‘‘ نہیں ہیں۔ حالانکہ فاروقی نے خود بھی داستان میں عیب جوئی کی ہے۔ وہ کہتے ہیں، 

    ’’داستان میں شاعری بہت ہے اور طرح طرح کی ہے۔ بعض داستانوں میں غیرضروری اور طول طویل غزلوں کی بھرمار ہے۔ احمد حسین قمر کی بیان کردہ داستانوں میں یہ بات عیب کی حد تک پہنچ گئی ہے۔ 

    (س ش ص۔ ۳، ص، ۳۳۹) 

    اسی طرح فحاشی آمیز ظرافت کے بارے میں فاروقی نے خود اس طرح کے خیالات ظاہر کیے ہیں۔ ’’ناگوار جنسی انداز‘‘ ’’ناگوار جنسی بیان‘‘ ’’ظرافت کے بجائے گھناؤناپن‘‘ ’’بے حد ناگوار تحریر‘‘ ۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی ادبی تحریر کا نقص ہی ہے۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ کسی نقاد کو کسی نمونہ فن میں کچھ نقص نظر آئے۔ کسی کو کچھ اور نقص نظر آئے۔ کسی کو ان ہی میں حسن دکھائی دے۔ یہ اصول نقد اور طرز دید دونوں پر منحصر ہے۔ داستان بھی ساختۂ انسان ہے اور تمام انسانی بیانیوں اور صناعیوں کی طرح اس میں بھی نقائص ہو سکتے ہیں۔ اس لیے اس بات کو ہوا دینے کی ضرورت کیا ہے؟

    فاروقی نے کلیم الدین احمد کا قول نقل کیا ہے، 

    ’’داستان کو حقیقت کے معیار سے جانچنا غلط ہے۔‘‘ 

    اور اس پر یہ تبصرہ کیا ہے، 

    ’’سچ تو یہ ہے کہ یہ کوئی کہنے کی بات نہ تھی۔‘‘ (س ش ص۔ ۱، ص، ۵۲۱) 

    پہلی بات تو یہ کہ کلیم الدین احمد کا اصل جملہ یہ ہے، 

    ’’اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے اور اس سے انکار ممکن نہیں کہ ’’طلسم ہوش ربا‘‘ خواب کی دنیا ہے۔ اس میں خیالی زندگی، خواب کی زندگی کی تصویر کشی ہے تو پھر اسے واقعیت اور حقیقت کے معیار سے جانچنا غلط ہے۔‘‘ (۔۔۔ فن داستان گوئی۔ ص۳۹) 

    دوسری بات یہ کہ اگر یہی بات کہنے کی نہیں تو پھر حقیقت کے معیار سے داستان پر جتنے اعتراض کیے گئے ہیں، ان کا جواب کس طرح سامنے آئے گا۔ اور کیا خموشی ان کو قبول کرنے کے مترادف نہ ہوگی؟ حقیقت یہ ہے کہ کلیم الدین احمد نے داستان کی حمایت میں ایک ایسی بات کہہ دی ہے کہ جو ان کے اصول نقد سے الگ ہے۔ وہ تنقید اپنے زمانے کے نئے معیار سے کرتے ہیں۔ لیکن داستان کو وہ حقیقت نگاری کے نئے اصول و معیار سے نہیں بلکہ اس کے اپنے عناصر ترکیبی کے معیار سے جانچتے ہیں۔ خود اپنے اصول سے ہٹ کر ایک بات کہنی تھی تو ظاہر ہے کہ وہ بطور خاص کہنے کی تھی۔ ایسا کہہ کر انہوں نے اپنے لیے خطرہ مول لیا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ تذکروں کی تنقید کو بھی پرانے ہی اصول نقد سے سراہنا چاہیے تھا۔ داستان کے سلسلے میں ایسی بات کہہ کر انہوں نے یہ عندیہ تو ضرور دیا ہے کہ قدیم اصناف کی جانچ پرکھ قدیم ادبی نظریات کی روشنی میں کی جا سکتی ہے۔ 

    آپ نے کلیم الدین احمد کے مذکورہ بالا جملے میں دیکھا کہ وہ ’’طلسم ہوش ربا‘‘ کو ’’خواب کی دنیا‘‘ کہتے ہیں لیکن فاروقی نے تحریف کرکے یہ جملہ نقل کیا ہے۔ ’’داستان کی دنیا خواب کی دنیا ہے۔‘‘ اور اس کا تعاقب یوں کیا ہے، 

    ’’یہ بات قطعی صاف ہے کہ داستان کی دنیا خواب کی طرح مبہم، نامکمل، علامتی اور دھندلی نہیں ہوتی۔ یہاں ہر چیز شفاف ہے۔‘‘ 

    (س ش ص۔ ۱، ص، ۵۲۱) 

    پہلے تو کلیم الدین احمد کے خیال کا محل ملاحظہ کیجیے۔ انہوں نے اپنے پہلے مضمون ’’داستان کیا ہے‘‘ میں کتاب کے صفحہ ۱۶ پر ایک جملہ لکھا ہے، 

    ’’داستان گویا ایک قسم کی خواب آور دوا تھی۔‘‘ 

    اور ص۱۷پر لکھا ہے کہ، 

    ’’آج کل ’’سنیمابازی‘‘ کا شوق ’’بٹیر بازی‘‘ کا دوسرا روپ ہے۔ جب ہم روزانہ کے کام سے تھک جاتے ہیں تو سنیما چلے جاتے ہیں اور وہاں کی دلچسپیوں میں اپنی جسمانی تھکن، پریشانیوں، الجھنوں، مشکلوں کو وقتی طور پر بھول جاتے ہیں اور گویا کسی دوسری خواب آور دنیا میں پہنچ جاتے ہیں۔‘‘ 

    ص۱۶ اور ۱۷ کے ان جملوں کا پس منظر یہ ہے کہ بادشاہوں اور امیروں کی کاہلی اور عیش کوشی کا یہ عالم تھا کہ وہ سونے سے پہلے کوئی دلچسپ داستان سنتے تھے اور سنتے سنتے سوجاتے تھے۔ ’’یعنی داستان گویا ایک قسم کی خواب آور دوا تھی جو انہیں آسانی سے نیند کی دنیامیں پہنچا دیتی تھی۔‘‘ (۱۶) پھر یہ بات بھی ہے کہ داستان سننا ایک دلچسپ مشغلہ بھی تھا، ہر آدمی کو تفریح طبع چاہیے۔ اپنی جسمانی تھکن اور ذہنی الجھن کو تفریحات سے دور کرنے کا وتیرہ پرانا ہے۔ اس طرح ہم تلخ حقائق سے بھری ہوئی اپنی دنیا سے نکل کر کسی دوسری ’’خواب آور دنیا‘‘ میں پہنچ جاتے ہیں۔ ان معنی میں داستان ایک ’’خواب آور دوا‘‘ اور ’’خواب آور دنیا‘‘ رہی ہے۔ ’’مبہم‘‘ ’’نامکمل‘‘ ’’علامتی‘‘ اور ’’دھندلی‘‘ کے معنی میں داستان کو ’’خواب آور‘‘ دوا یا دنیا نہیں کہا گیا ہے۔ اب رہی بات ’’طلسم ہوش ربا‘‘ کی دنیائے خواب کی، تو کلیم الدین احمد نے واضح کیا ہے کہ، 

    ’’جب ہم اس داستان کو پڑھتے ہیں تو اپنے کو کسی دوسری دنیا میں پاتے ہیں (ص۳۳) ۔۔۔ شروع میں اچنبھا تو ضرور ہوتا ہے لیکن آہستہ آہستہ ہماری حیرت مٹنے لگتی ہے اور ہم مختلف چیزوں کو پہچاننے لگتے ہیں، گویا کبھی پہلے، سینکڑوں برس پہلے روح اس دنیا میں بستی تھی یا کبھی اس نے اس ملک کی سیر کی تھی لیکن اسے مدت ہوئی اور زمانہ کی رفتار اور وقت کی پرواز نے جانے ہوئے نقوش کو دل سے بھلادیا تھا۔ مگر یہ نقوش یک قلم مٹنے نہ پائے تھے حافظہ میں محفوظ تھے اور پھر ابھر آئے۔ یا ایسی کیفیت ہوتی ہے جیسے کسی نے کوئی دلچسپ خواب دیکھا ہو اور یکایک وہ خواب حقیقت سے بدل گیا ہو اور اس کی جاگی ہوئی آنکھوں کے سامنے کھڑا مسکرا رہاہو۔ 

    عموماً اسے داستان کا اہم ترین عیب خیال کہا جاتا ہے کہ اس میں ایک خیالی دنیا کی تخلیق ہوتی ہے، ایسی دنیا جو انسانی دنیا سے بالکل مختلف ہے، جس میں بظاہر واقعیت کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔‘‘ (ص۳۴) 

    اگر میں ان تمام جملوں کو نقل کروں جن میں ’’خواب کی دنیا‘‘ یا ’’خواب کی زندگی‘‘ یا ’’خیالی زندگی‘‘ کی ترکیبیں استعمال ہوئی ہیں تو اقتباس بہت طویل ہو جائےگا۔ اس کی ضرورت نہیں۔ مذکورہ بالا جملوں ہی سے صاف ظاہر ہے کہ کلیم الدین احمد نے ’’خواب کی دنیا‘‘ سے ’’مبہم‘‘ ’’نامکمل‘‘ ’’علامتی‘‘ اور ’’دھندلی‘‘ (دنیا) مراد ہی نہیں لی ہے۔ اللہ تعالیٰ فاروقی پر رحم کرے! کیا سوچ کر انہوں نے یہ بات لکھ دی؟

    کلیم الدین احمد نے اپنی کتاب کے چوتھے مضمون میں جو امیر حمزہ اور کنگ آرتھر کے موازنے پر مشتمل ہے، خواب کی بات پھر کی ہے۔ انہوں نے آرتھر کے ایک عجیب و غریب خواب کا مفصل ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ، 

    ’’داستان کنگ آرتھر اسی خواب کی تعبیر و تشریح ہے۔ یہ خواب حیرت انگیز و ناقابل یقین ہے۔ اس خواب میں چمکیلے رنگ ہیں اور رنگین چمک ہے۔ ایسی چمک، ایسے رنگ جو اس دنیا میں میسر نہیں۔۔۔ اگر کوئی شخص ہم سے کہے کہ اس نے اپنی جاگتی آنکھوں سے یہ خوفناک شکلیں دیکھیں ہیں تو ہم کبھی تسلیم نہیں کر سکتے۔ لیکن خواب میں سبھی کچھ ممکن ہے۔ خواب کی دنیا میں کوئی چیز ناممکن نہیں اور جب خواب دیکھتے ہیں تو ہمیں ہر شئے سچی، معمولی بدیہی معلوم ہوتی ہے۔ ممکنات و نا ممکنات میں یہاں تفرقہ ممکن نہیں۔ ان کے درمیان کوئی خلیج حائل نہیں۔ ’’طلسم ہوش ربا‘‘ کا بھی یہی حال ہے۔ اس میں بھی یہی رنگ یہی چمک یہی سچائی ہے۔‘‘ (ص۵۴) 

    ان جملوں سے تو یہ بات ظاہر ہے کہ ’’طلسم ہوش ربا‘‘ کی دنیا زیادہ سے زیادہ ممکنات کی دنیا ہے بالخصوص حوصلہ مند و دلیر و ذہین و فتین انسان کے لیے تو جہاں چاہ وہیں راہ ہے۔ کہیں کوئی مانع نہیں۔ کچھ بھی ناممکن نہیں۔ کلیم الدین احمد نے ’’طلسم ہوش ربا‘‘ کو ’’مبہم، نامکمل وغیرہ خواب کے معنی میں ’’خواب کی دنیا‘‘ نہیں کہا ہے بلکہ تخیل اور آسودگی کی سطح پر گزرنے والی نیرنگ، وسیع، پایاب اور حسین و پرکیف زندگی کے معنی میں کہا ہے۔ 

    تنقیدی ذمےداری کے تحت یہ کہنا پڑتا ہے کہ داستان کے سلسلے میں کلیم الدین احمد کی پرکھ پر فاروقی کی تنقید پیچ و خم اور مغالطوں سے بھری ہوئی ہے۔ تنقیدی اختلاف رائے ایک الگ بات ہے لیکن کسی کے خیال کو Twist کرکے پیش کرنا اور جوبات اس نے نہیں کہی ہے وہ اس سے منسوب کر دینا اور پھر ان سب کا تعاقب کرنا کسی طرح بھی فن نقد کے شایان شان نہیں ہے، فاروقی کی اس کتاب کو قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، وزارت انسانی وسائل، حکومت ہند، نئی دہلی نے شائع کیا ہے۔ اسے چاہیے کہ جب اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن شائع کرے تو فاروقی سے سخت نظرثانی کروائے اور ان نکتوں کی نشاندہی کردے جن کی نظرثانی ضروری ہے۔ یا پھر پہلی جلد کے باب یازدہم بعنوان ’’داستان کے نقاد‘‘ سے وہ پورا حصہ جو کلیم الدین احمد سے متعلق ہے، نکال دے۔ ورنہ قاریوں کو حقیقی صورت حال کا بھی علم نہ ہوگا اور وہ گمراہی کے شکار بنے رہیں گے۔ ان باتوں کے ساتھ میری گزارش یہ ہے کہ قومی اردو کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی پروفیسر کلیم الدین احمد کی اس چھوٹی سی کتاب کو جس کا نام ’’اردو زبان اور فن داستان گوئی‘‘ ہے، اپنے خرچ سے جلد شائع کرے تبھی کچھ تلافی ہو سکتی ہے۔ 

    اس میں شک نہیں کہ اردو داستان پر فاروقی نے ان تین جلدوں میں بہت مفصل لکھا ہے۔ اور میں ان کاتعارف کراچکا ہوں اور یہ بھی کہہ چکا ہوں کہ اگر چوتھی جلد آگئی تو یقین ہے کہ وہ تنقیدی قدروقیمت کے تعین کے لحاظ سے سب سے زیادہ وقیع ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان جلدوں کے زیادہ تر مباحث معلومات کی فراہمی یعنی تحقیقی لحاظ سے قدروقیمت رکھتے ہیں، تنقیدی لحاظ سے نہیں۔ جلد اول جس میں نظری مباحث ہیں، بظاہر تنقید کے ذیل کی چیزیں پیش کرتی ہے۔ لیکن اصلاً وہ داستان کی تنقید نہیں، داستان کی تفہیم ہیں تاکہ داستان کا نیا قاری داستان کی تشکیل اور تصنیف میں کام آنے والے طریقہ ہائے کار اور اصول و ضوابط کو ٹھیک سے سمجھ سکے۔ موجودہ نسل کے لیے داستان ایک راز سربستہ ہے۔ فاروقی نے تین جلدوں میں اس کو اس طرح کھول دیا ہے کہ اب ہم اس کے تقریباً تمام کنہیات سے واقف ہوگئے ہیں۔ داستان پر جدید گفتگو میں فاروقی کا یہی کارنامہ ہے اور یہ کچھ کم اہم نہیں ہے۔ ورنہ خالص ادبی تنقید کے لحاظ سے فاروقی کلیم الدین احمد کے مقام کو نہیں پہنچتے۔ 

    انہوں نے تین جلدوں میں کم و بیش بارہ سو صفحات صرف کیے ہیں جب کہ کلیم الدین احمد نے چھوٹی تقطیع کی ایک کتاب صرف ۲۰۸ صفحے کی لکھی ہے اور وہ بھی جلی حروف کی کتابت میں ہیں اگر اس کو کمپیوٹر پر خط خفیف میں چھاپا جائے تو شاید ڈیڑھ سو صفحات میں پوری کتاب آ جائےگی۔ لیکن کلیم الدین احمد نے اس چھوٹی سی کتاب میں ’’داستان کیا ہے‘‘ ، ’’داستان کی تکنیک‘‘ ، ’’طلسم ہوش ربا کی اجنبی دنیا‘‘ ، ’’امیرحمزہ اور کنگ آرتھر کا موازنہ‘‘ ، ’’طلسم ہوش ربا اور حکومت کا خفیہ محکمہ‘‘ ، طلسم ہوش ربا اور جادوگری ’’طلسم ہوش ربا اور لکھنؤ کا مقامی رنگ‘‘ ، ’’طلسم ہوش ربا کے نقائص‘‘ ، بوستاں خیال کی خصوصیت‘‘ ، داستان اور ظرافت‘‘ ، ’’داستان اور جنس‘‘ ’’داستان اور تخیل‘‘ ، ’’داستان اور ادبی ذوق‘‘ ، ’’داستان اور عربی فارسی الفاظ‘‘ ، ’’داستان اور اردو نثر‘‘ ، ’’باغ و بہار، آرایش محفل اور فسانۂ عجائب‘‘ ، ’’داستان اور زمان و مکاں کی دوری‘‘ ، ’’داستان اور مثنوی (سحر البیان اور گلزار نسیم) ، اور ’’داستان کا مستقبل‘‘ جیسے موضوعات پر اختصار میں تمام ضروری مباحث پیش کر دیے ہیں۔ 

    مضمون کے اس حصہ سوم کی ابتدا میں آپ نے ملاحظہ کیا تھا کہ فاروقی نے داستان کی تنقید کے سلسلے میں چار نکات پیش کرکے لکھا تھا کہ وہ چار نکات داستان کی تنقید میں زیربحث نہیں آئے ہیں۔ ان کے وہ نکات یہ ہیں، 

    (۱) داستان ایک نئی طرح کی دنیا خلق کرتی ہے۔ (۲) داستان ایک غیرمعمولی تخیلاتی کارگزاری ہے۔ (۳) داستان امیرحمزہ زبانی بیانیہ کا خزانہ عامرہ ہے۔ (۴) داستان امیرحمزہ ہند اسلامی تصور کائنات کا بھی خزانۂ عامرہ ہے۔ حقیقی صورت حال یہ ہے کہ پہلے اور دوسرے نکتے کو داستان کے تقریباً تمام نقاد نشان زد کرتے رہے ہیں۔ اور کلیم الدین احمد نے تو ان کو خاص وضاحت سے پیش کیا ہے۔ ’’طلسم ہوش ربا‘‘ پر انہوں نے چھ حصوں میں لکھا ہے۔ ان کو آپ پڑھ جائیے۔ چونکہ انہوں نے عنوان نہیں دیے ہیں۔ اس لیے میں ان حصوں کو پڑھنے کو کہہ رہا ہوں۔ سب مختصر مختصر ابواب ہیں اور آپ کا زیادہ وقت نہ لگے گا۔ ان کو پڑھ جائیے اور دیکھیے کہ ان میں داستان کی نئی دنیا اور داستان کے تخیل پر کیا کچھ نہ کہا گیا ہے۔ 

    میں نے اس مضمون میں جو اقتباسات نقل کیے ہیں وہی اس امر کی شہادتیں ہیں۔ البتہ زبانی بیانیہ والا تیسرا نکتہ کلیم الدین احمد نے اس تفصیل سے پیش نہیں کیا ہے جس تفصیل سے فاروقی نے پیش کیا ہے۔ لیکن ایسی بات نہیں ہے کہ وہ کلیم الدین احمد کی تنقید میں زیربحث نہیں آیا۔ انہوں نے داستان کا تعارف اور اس کی تکنیک پر گفتگو اس کے کہنے کے فن ہی کی حیثیت سے کی ہے۔ انہوں نے ’’باغ و بہار‘‘ کے بارے میں صاف لکھا ہے کہ ’’باغ و بہار‘‘ کہی گئی ہے۔ اور ’’آرایش محفل‘‘ کے بارے میں صاف کہا ہے کہ ’’کم آرایش محفل‘‘ لکھی گئی ہے۔ کیا یہ باتیں زبانی بیانیہ اور تحریری بیانیہ کے فرق کو ذہن میں رکھے بغیر کہی جا سکتی ہیں؟ پھر ’’فن داستان گوئی‘‘ کے وہ ابواب پڑھیے جن میں ’’داستان اور ادبی ذوق‘‘ اور ’’داستان اور اردو نثر‘‘ کے موضوع پر مباحث پیش ہوئے ہیں، ان سے داستانوں کا تخلیقی بیانیہ بخوبی ظاہر ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ انہوں نے ’’زبانی بیانیہ‘‘ کی اتنی تشہیر نہیں کی ہے اور جس کی وہ مستحق بھی نہیں۔ زبانی بیانیہ کی ناگزیریت کو خود داستان گویوں نے ختم کیا ہے۔ 

    کوئی بھی زبانی بیانیہ جب ضبط تحریر میں آتا ہے تو اپنے تمام اوریجنل صفات کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔ وہ تحریری بیانیہ سے مفاہمت کر لیتا ہے۔ کیونکہ اپنے تشخص و تحفظ کے لیے حیطۂ تحریر میں آنے کی اس کی مجبوری ہوتی ہے اس لیے وہ اپنی مرضی کو صد فی صد تحریر پر تھوپ نہیں سکتا۔ بلکہ تحریر کے آداب اور تحریر کے مزاج کو قبول کرکے ہی زندہ رہ سکتا ہے۔ اب رہی بات چوتھے نکتے کی جو نظریات و تصورات کے ذیل کی چیز ہے۔ تو یہ بے شک کلیم الدین احمد کی تنقید میں موضوع نہیں بنا ہے اور کلیم الدین احمد ادب کو نظریاتی اور تصوراتی معیار سے کبھی نہیں جانچتے۔ وہ ادب کو ادبی معیار سے جانچتے ہیں۔ 

    فاروقی نے بھی نظریات و تصورات کو ادب کے غیر ادبی معیار ہی سمجھا ہے۔ لیکن یہاں وہ داستان میں پیش کردہ ہند+اسلامی تصور کائنات پر بہت خوش ہیں اور داستان کی ادبی قدر کی پیمائش میں اس کو ’’خزانہ عامرہ‘‘ کہتے ہیں۔ اگر انہوں نے اپنا خیال بدل لیا ہے تو مجھے صرف یہ کہنا ہے کہ جو لوگ تنقید میں اپنے خیالات بدلتے رہتے ہیں وہ بڑے نقاد نہیں ہو سکتے۔ خواہ محمد حسن عسکری ہی کیوں نہ ہوں، کسی نظریہ و تصور کی ادبی متن میں تفہیم و تشریح ہو سکتی ہے، اس کی تنقید نہیں ہو سکتی یعنی ناقدانہ ذمہ داری سے اس کو اچھا برا نہیں کہا جا سکتا اور نہ اس کو ادبی تنقید کا معیار بنایا جا سکتا ہے۔ یعنی اس نظریہ و تصور کی وجہ سے متن کی ادبیت ثابت نہیں کی جا سکتی۔ اور اگر یہ بھی کوئی معیار ہے تو انسان کا تصور کائنات جس تیزی سے بدل رہا ہے اور پرانا تصور بے معنی ہو رہا ہے۔ اس کی روشنی میں تو داستان بالکل بے وقعت ہو جائے گی۔ اس لیے داستان کو اس سے مت جوڑیے۔ اور کلیم الدین احمد نے اچھا کیا کہ اس پہلو سے گفتگو نہ کی۔ 

    داستان کی ادبی تنقید کے نقطۂ نظر سے کلیم الدین احمد اردو کے تمام نقادوں پر فضیلت رکھتے ہیں۔

     

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے