Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دعوت میں بات کرنے کا سلیقہ

کنہیا لال کپور

دعوت میں بات کرنے کا سلیقہ

کنہیا لال کپور

MORE BYکنہیا لال کپور

    ہر دعوت میں عموماً دوطرح کے لوگ شرکت کرتے ہیں۔ وہ جو کھاتے کم ہیں اور باتیں بہت کرتے ہیں۔ اور وہ جو کھاتے بہت ہیں او رباتیں کم کرتے ہیں، یا بالکل نہیں کرتے۔ اول الذکر جماعت میں وہ لوگ شامل ہیں جن کے بغیر شہر کی کوئی دعوت، دعوت کہی ہی نہیں جاسکتی۔ مثلاً رؤسا، وکلا اور تجار۔ اور موخرالذکر جماعت ان لوگوں پر مشتمل ہے جو مدعو کرنے والے کے دوست یا رشتے دار ہوتے ہیں۔ یا جنہیں زندگی میں ایک آدھ بار کسی دعوت میں شرکت کا موقع ملتا ہے۔ ان دونوں جماعتوں میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ پہلی جماعت تقریباً ہر دعوت میں موجود ہوتی ہے۔ کیونکہ دعوتوں میں شامل ہونا اس جماعت کا مستقل شغل ہے۔ اس جماعت کے افراد ایک خاص انداز سے بات کرتے ہیں۔ مثلاً دعوت کے شروع ہونے سے پہلے اس اخباری نمائندے کی ضرور مزاج پرسی کرتے ہیں جسے ان برگزیدہ ہستیوں کی فہرست تیار کرنی ہوتی ہے جو دعوت میں شریک ہوئیں۔ چہل قدمی کرتے ہوئے یہ اس نمائندے کے پاس چپکے سے جاکھڑے ہوتے ہیں۔ اور صاحب سلامت کے بعد یوں گویا ہوتے ہیں،

    ’’کہیے صاحب! کیا حال ہے، کبھی نظر ہی نہیں آتے۔ کبھی کوٹھی پر آئیے نا، بہت مصروف ہیں کیا؟ اچھا سنو، چیف ایڈیٹر کب بن رہے ہو۔ بھئی کل کی اشاعت میں تمہارا مضمون پڑھا بخدا لطف آگیا۔ ایسی پختگی ہم نے کسی جرنلسٹ کی تحریر میں نہیں دیکھی۔ ظالم تم تو بات بات میں نکتے پیدا کرتے ہو۔ اچھا بھئی یہ بتاؤ دیوان ہربھجن داس کچھ تمہاری مدد کرسکتے ہیں۔ میرے نہایت عزیز دوستوں میں سے ہیں۔ کہو تو ان سے تمہاری سفارش کروں۔ اچھا بھئی کبھی کبھی ملا کرو۔ آخر اتنی مصروفیت بھی کیا؟‘‘

    جب انہیں یقین ہوجاتا ہے کہ اس نے ان کا نام اپنی ڈائری میں محفوظ کرلیا ہے تو نہایت گرم جوشی سے مصافحہ کرتے ہیں۔ اور اگر موقع محل مناسب ہو تو بغلگیر ہونے میں بھی عار نہیں سمجھتے۔

    سر سے یہ بوجھ اتارنے کے بعد ادھرادھر گھومنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ لوگ صرف اپنی جماعت کے افراد سے بات چیت کرتے ہیں۔ اور دوسری جماعت کے لوگوں کی طرف یوں گھور گھور کر دیکھتے ہیں جیسے کہہ رہے ہوں۔ ’’تم جیسے رینگنے والے کیڑوں کو اس دعوت میں آنے کا کیا حق ہے۔‘‘

    عموماً دعوت کے شروع ہونے سے پہلے ان لوگوں کا دل پسند موضوع سیاست یا تجارت ہوتا ہے۔ ایک دوست سے کہیں گے میرے خیال میں تو نئے آئین کی بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی۔ کانگریس اور مسلم لیگ میں سمجھوتہ ہونا مشکل ہے۔ کم از کم مجھے جو اطلاعیں ملی ہیں ان سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے۔‘‘ دوسرے سے پوچھیں گے۔ ’’سنائیے رائے بہادر صاحب، نئی کمپنی کی رسم افتتاح کب کر رہے ہیں۔ بھئی آج کل تو کمال کر رہے ہو۔ ہر ہفتے ایک نئی کمپنی قائم کردیتے ہو۔ اچھا تو کہیے کیا امکانات ہیں اس نئی انڈسٹری کے۔ اگر آپ ڈائرکٹر ہیں تو ضرور حصے خریدوں گا۔‘‘ تیسرے سے یوں ہم کلام ہوں گے۔ ’’بڑا چار سو بیس ہے۔ لوگوں کو سبز باغ دکھاکر روپیہ لوٹنا اس کے بائیں ہاتھ کا کرتب ہے۔ دیکھیے کہیں اس کی باتوں میں نہ آجائیے گا۔‘‘

    کھانے کی میز کے سامنے بیٹھ کر ان کی گفتگو کا موضوع اکثر اپنی ذات یا ’’وہ بیماری‘‘ ہوتی ہے جس میں یہ مبتلا ہیں۔

    ’’چائے پیجیے۔‘‘

    ’’نہیں صاحب شکریہ۔ ڈاکٹر ایکس (X) نے چائے بند کر رکھی ہے۔‘‘

    ’’تکلیف کیا ہے؟‘‘

    ’’کچھ نہیں، ذیابطیس نے پھر آن دبایا ہے۔ آج کل انجکشن لے رہا ہوں۔‘‘

    ’’یہ تو آپ کی پرانی شکایت ہے۔‘‘

    ’’جی ہاں۔ پچھلے دنوں ڈاکٹر زیڈ کے علاج سے کچھ افاقہ ہوا تھا۔ پھر تھوڑی سی بدپرہیزی کرلی۔ اور پرسوں سے تکلیف بڑھ گئی۔‘‘

    ’’آپ ہومیو پیتھک علاج کیجیے۔ دس برس ہوئے مجھے بھی یہی شکایت تھی۔ میں نے ڈاکٹر ایم (M) سے مشورہ کیا۔ انہوں نے ایک ہومیو پیتھک دوا تجویز کی۔ یقین مانیے ایک ہفتے میں بالکل تندرست ہوگیا۔‘‘

    ’’سچ۔‘‘

    ’’جی ہاں۔‘‘

    ’’آپ چاہیں، تو ابھی ان سے آپ کا تعارف کرادوں۔ وہ بیٹھے ہیں اس کونے میں۔ وہ جو کنکھیوں سے میری طرف دیکھ رہے ہیں۔‘‘

    ’’رس گلا کھائیے۔‘‘

    ’’نہیں صاحب، شکریہ! حکیم کل بھوشن نے ہر قسم کی مٹھائی سے پرہیز کرنے کو کہا ہے۔ آج کل ذرا ہاضمہ خراب ہے۔‘‘

    ’’سیر کو نہیں جاتے آپ؟‘‘

    ’’جی جاتا ہوں لیکن فٹن میں۔‘‘

    ’’تکلیف زیادہ ہے کیا؟‘‘

    ’’اجی کیا کہوں، کھانا کھانے کے بعد اس شدت سے درد کا دورہ پڑتا ہے، کہ چیختے چیختے بے حال ہوجاتا ہوں۔‘‘

    ’’حکیم وارث شاہ سے مشورہ کیجیے۔ پیٹ کی بیماریوں کے توماہر ہیں۔‘‘

    جب یہ لوگ بیماریوں کے متعلق باتیں کرتے کرتے تنگ آجاتے ہیں تو منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے ذاتی امارت یا شان و شوکت کے ذکر میں دلچسپی لینے لگتے ہیں۔

    ’’میرا خیال ہے، مسوری میں جو کوٹھی ہے وہ بیچ دوں۔ اور شملے میں دوکوٹھیاں بنالوں۔ کیا خیال ہے آپ کا؟‘‘

    ’’نہیں آپ نے غلط سنا۔ میں انگلینڈ نہیں امریکہ جارہا ہوں۔ امریکہ میں چائے کی تجارت کے کافی امکانات ہیں۔ چائے کے ساتھ ساتھ ایک تمباکو کی کمپنی قائم کرنے کی بھی کوشش کر رہا ہوں۔ امریکہ میں ان دنوں صرف دو چیزوں کی کھپت ہے۔ چائے اور تمباکو۔‘‘

    ’’اب تو کہیں ہوائی جہاز سستے ہوں تو دو ایک خریدلوں۔ موٹروں سے تنگ آگیا ہوں۔ یہ وارکوالٹی موٹریں بھی کوئی موٹریں ہیں۔ بیل گاڑیاں ہیں۔ ایک گیلن میں صرف دس میل، اف! اور دوسرے ہفتے انجر پنجر ڈھیلے ہوجاتے ہیں۔‘‘

    ’’جی ہاں، آج کل ایک منٹ کی فرصت نہیں۔ اگلے مہینے لڑکی کی شادی ہے۔ بڑا خرچ اٹھ رہا ہے۔ دس ہزار کی تو صرف ساڑھیاں آئیں۔ پندرہ بیس ہزار موٹر کار کے لیے چاہئیں۔ اور زیورات، اُف! دیوالہ پٹ جائے گا۔ لیکن بھئی کیا کریں، اکلوتی لڑکی ہے۔ اور سمدھی ہیں دیوان کروڑی مل کے ہاں جہیز میں پچاس ہزار نہ دوں گا، تو ساری شیخی کرکری ہوجائے گی۔‘‘

    اب ذرا دوسری جماعت کی طرف آئیے۔ اس میں طرح طرح کے لوگ شامل ہیں۔ کچھ ایسے ہیں جنہیں کسی دوست نے ازراہِ خیرات دعوت نامہ بھجوایا ہے۔ اور جو بھیگی بلی بنے ہوئے اس طرح بیٹھے ہیں جیسے ابھی کوئی کان سے پکڑ کر انہیں دعوت سے نکال دے گا۔ کچھ وہ ہیں جو ہر بڑے آدمی کی طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے ہیں۔ اور سرگوشی کے انداز میں اپنے ساتھیوں سے بار بار پوچھ رہے ہیں۔ ’’کیوں صاحب، یہی ہیں نا۔ خاں بہادر آصف علی۔‘‘ ’’کیوں صاحب۔ وہ لمبی ڈاڑھی اور گھٹے گھٹے سر والے کون ہیں۔ کہیں یہی تو نہیں مولوی ابراہیم۔‘‘ ’’اچھا تو یہ پنڈت جمناداس ہیں۔ میں سمجھا پنڈت گنگادھر ہیں۔‘‘

    اس جماعت میں بیشتر لوگ گفتار کے نہیں کردار کے غازی ہوتے ہیں۔ ان کی تمام تر توجہ کھانے پینے کی چیزوں پر مرکوز ہوتی ہیں۔ آپ نے ان سے گفتگو کرنے کی کوشش کی، انہوں نے آپ کی بات سنی ان سنی کرکے آہستہ سے فرمایا۔ ’’سموسوں کی پلیٹ ذرا ادھر سرکا دیجیے۔‘‘ آپ نے پوچھا۔ ’’مزاج تو اچھے ہیں۔‘‘ انہوں نے جواب دیا۔ ’’تکلیف معاف، اگر آپ رس گلے نہیں کھا رہے، تو ادھر دے دیجیے۔‘‘

    عموماً یہ لوگ آپس میں باتیں کرنے کی بجائے کھانا کھلانے والے نوکروں سے کرتے ہیں۔

    ’’چائے اور لانا۔‘‘ بھئی۔ دیکھو دودھ پھر ختم ہوگیا۔ ’’بھئی ہم نے پکوڑے نہیں گلاب جامن منگائے تھے۔‘‘ کیوں بھئی اس میز پر سروس اتنی نکمی کیوں ہے۔ تین گھنٹے سے کیک کیک چلا رہے ہیں۔ کوئی سنتا ہی نہیں۔‘‘

    ان دو جماعتوں کے علاوہ ایک چھوٹی سی جماعت صنفِ نازک کی ہوتی ہے۔ اس جماعت کی گفتگو کے موضوعات نہایت محدود ہوتے ہیں۔ مثلاً لباس، زیورات، سگائی، شادی۔

    ’’بہت خوبصورت بارڈر ہے بہن۔ کہاں سے خریدا؟‘‘

    ’’یہ وہ بمبئی سے لائے تھے۔ ادھر پنجاب میں نہیں ہوتا۔ بالکل نیا سٹائل ہے۔‘‘

    ’’کیوں بہن آشا کی سگائی کردی؟‘‘

    ’’ابھی کہاں! کوئی اچھا سا گھر ملے، تو کروں۔ تم ہی بتاؤ نا۔ برادری میں کوئی لڑکا۔‘‘

    ’’بہن آشا کی عمر بیس سال تو ہوگی۔‘‘

    ’’بیس کہاں۔ تمہاری لیلا سے چھ مہینے ہی تو بڑی ہے۔‘‘

    ’’بہن! ذرا سنبھل کر بیٹھ۔ تم نے تو میری ساڑھی کا ستیاناس کردیا۔‘‘

    ’’اری، یہ آویزے تمہیں ذرا اچھے نہیں لگتے۔ لمبوترے چہرے کے لیے تو لمبے آویزے چاہئیں۔‘‘

    غرض یہ کہ دعوت میں بات کرنے کے یہ مختلف طریقے ہیں۔ لیکن ان میں سے سلیقہ کسی کو بھی نہیں کہا جاسکتا۔ دعوت میں اگر آپ سلیقے سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ تو اس بات کا خیال رکھیے کہ آپ دعوت میں آئے ہیں، ہسپتال میں تشریف نہیں لائے۔ اس لیے اپنی بیماریوں کا ذکر مت کیجیے۔ نیز یہ مت بھولیے کہ دعوت میں اگر سامعین کسی شخص سے گھبراتے ہیں تو وہ باتونی آدمی ہے۔ اکثر دعوت میں دیکھا گیا ہے کہ ایک آدھ آدمی یہ تصور کرلیتا ہے کہ باتیں بنانا صرف وہی جانتا ہے۔ اور اگر وہ خاموش رہے گا تو ساری محفل پر مردنی چھا جائے گی۔ اس وہم میں مبتلا ہوکر وہی باتوں کا لامتناہی سلسلہ شروع کردیتا ہے۔ ابھی مغل آرٹ پر بحث کر رہا ہے۔ تو دوسرے لمحے میں پیاز اور لہسن کے فوائد گنوارہا ہے۔ گفتگو کا آغاز ہٹلر کے انجام سے کرتا ہے اور تان شباب کے آغاز پر توڑتا ہے۔ حتی کہ سامعین ایک ایک کرکے اٹھنے لگتے ہیں۔ اور وہ خالی کرسیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے۔ ’’حضرات کہنے کا مطلب یہ ہے کہ زندگی میں عجیب لوگوں سے پالا پڑتا ہے۔‘‘

    باتونی آدمی میں یہ نقص ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو کھانے کی میز کا ڈکٹیٹر Dictator سمجھتا ہے۔ کسی نے اسے ٹوکنے کی کوشش کی، اور اس نے منہ بناکر کہا۔ ’’نہیں صاحب، یہ بات نہیں، دیکھیے میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔‘‘ اور پھر جو واقعہ سنایا، تو یہ بالکل فراموش کرگئے کہ جو بات وہ ثابت کرنا چاہتے تھے۔ وہ ثابت بھی ہوئی یا نہیں۔ کسی نے ان پر فقرہ کسا تو ڈھٹائی سے کہنے لگے۔ ’’صاحب! دراصل آپ میرا مطلب نہیں سمجھے۔ ممکن ہے میں ہی مطلب واضح نہیں کرسکا۔ دیکھیے میرا مطلب یہ تھا، کہ ’’اب جو آپ نے مطلب کی وضاحت کرنی شروع کی تو سارے معاملے کو یوں الجھا کر رکھ دیا کہ سننے والے سر پیٹ کر رہ گئے۔

    باتونی شخص کی ضدوہ سنجیدہ آدمی ہے جسے دعوت میں اس طرح چپ لگی رہتی ہے جیسے وہ دعوت میں شریک ہونے کے لیے نہیں آیا بلکہ خاموش رہنے کی مشق کرنے آیا ہے۔ آپ اس شخص کو ہنسانے یا بات کرنے پر آمادہ کرنے کی لاکھ کوشش کریں وہ گم سم مبہوت بنا بیٹھا رہے گا۔ کبھی کبھار غلطی سے مسکرادے گا۔ اور مسکرانے کے بعد فوراً پھر سنجیدگی اختیار کرلے گا۔ جیسے اس نے مسکراکر گناہ عظیم کیا ہے۔ اگر آپ اس سے سوال کریں تو نہایت مختصر الفاظ میں جواب دے گا۔ جیسے بات نہیں کر رہا۔ تار کا فارم پر کر رہا ہے۔

    دعوت میں بات کرنے کا سلیقہ اردو زبان کی طرح ’’آتے آتے ہی آتا ہے۔‘‘ تاہم جہاں تک تھیوری کا تعلق ہے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مندرجہ ذیل ہدایات کو مدنظر رکھیں،

    (۱) لوگ دعوت میں تفریح طبع کے لیے آتے ہیں۔ سردرد مول لینے کے لیے نہیں آتے ہیں۔ اس لیے اگر آپ شامتِ اعمال سے باتونی واقع ہوئے ہیں، تو لوگوں کے حال پر رحم کیجیے۔ نیز اپنے علاوہ کسی اور شخص کو بھی اس قابل سمجھیے کہ وہ آپ جیسی یا آپ سے بہتر بات کرسکتا ہے۔

    (۲) اگر کوئی شخص ڈینگ مار رہا ہے تو اس سے آپ پر یہ لازم نہیں آتا کہ آپ اس سے بڑھ کر ڈینگ ماریں۔ آپ کا فرض تو صرف اتنا ہے کہ اس کی باتیں سنیں اور دل ہی دل میں مسکرادیں۔

    (۳) جب آپ کے منہ میں رس گلا یا گلاب جامن ہو تو بات کرنے کی کوشش مت کریں۔ کیونکہ بعض اوقات یہ فعل نہایت مضحکہ خیز صورت اختیار کرلیتا ہے۔

    (۴) دعوت میں سمجھدار لوگ آتے ہیں۔ اس لیے حتی الوسع بے تکی باتیں کرنے سے احتراز کیجیے۔ مثلاً ایک ہی سانس میں مت کہیے۔ ’’سنا ہے بمبئی میں ایک فیکٹری کو آگ لگ گئی، تو آپ کی پیچش کا کیا حال ہے۔ میرے خیال میں آج ضرور بارش ہوگی۔ لیکن آپ تو بالکل گنجے ہوگئے۔

    (۵) ان تمام ہدایات کے باوجود اگر آپ دعوت میں سلیقے سے بات نہ کرسکیں۔ تو بہتر ہے کہ آپ خاموش رہیں۔ کیونکہ ’’خاموشی مغنے دارو کہ در گفتن نمے آید۔‘‘ نیز ایک یونانی حکیم نے کہا ہے ’’مجھے صرف ان باتوں کے لیے ندامت اٹھانی پڑی جنہیں میں زبان پر لایا۔ کاش کہ میں بولتا کم اور خاموش زیادہ رہتا۔‘‘

    (بہ اجازت آل انڈیا ریڈیو، لاہور)

    مأخذ:

    ادب لطیف،لاہور (Pg. 11)

      • ناشر: چودھری برکت علی
      • سن اشاعت: 1946

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے