Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دارا شکوہ اور اپنشد

تاراچندر ہریت

دارا شکوہ اور اپنشد

تاراچندر ہریت

MORE BYتاراچندر ہریت

    (ہندو فکر کا نچوڑ اپنشدوں میں ملتا ہے۔ ہندو فلسفہ کے جوہر کو سمجھنے کے لیے ان قدیمی تحریروں کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ مسلمانوں کی آمد سے بہت پہلے ہندو علم و فکر کا زوال ہوچکا تھا اور گیتا و اپنشد کا بلند مقام پرانوں کے فرسود ہ اور بے معنی قصوں نے لے لیا تھا۔ جب داراشکوہ کی نگاہ اس انمول خزانہ پر پڑی۔ وہ طاقِ نسیاں کے سپرد تھا۔ ہندو تہذیب کو داراشکوہ کی یہ کتنی بڑی دین تھی کہ اس کے فارسی ترجمہ کے توسط سے صرف یورپ ہی نہیں بلکہ ہندوستان بھی اس گنجینۂ فکر و حکمت سے آشنا ہوا۔ ڈاکٹر تاراچند نے اس موضوع پر ایک مبسوط مقالہ حال ہی میں تحریر کیا ہے۔ اس کے جستہ جستہ حصے ہدیہ ناظرین ہیں۔۔۔ ایڈیٹر)

    اکبر نے ایک دوسرے کو جاننے سمجھنے کی کوشش کا نیا جگ شروع کیا۔ اکبر کے بتلائے ہوئے راستہ کو گوکہ دوسرے حاکموں نے نہیں اپنایا لیکن یہ کوشش کسی نہ کسی صورت میں برابر جاری رہی۔ ہندوستان میں برطانوی حکومت کے قیام کے بعد سے اس قسم کی جدوجہد بہت کم ہوگئی ہے۔ لیکن اس تحریک کی تجدید ہونا چاہیے اور داراشکوہ کی کتابوں کے مطالعہ سے اس کارِ خیر کاآغاز ہوسکتا ہے۔

    دارا کی کتابوں میں سب سے زیادہ اہمیت اس کے اپنشدوں کے ترجمہ کو حاصل ہے۔ دارا نے اپنے ترجمہ کے دیباچے میں بتلایا ہے کہ اس نے اس کام کا بیڑا کیوں اٹھایا۔ اسلام و دیگر مذاہب کی کتابوں کو پڑھنے کے بعد اس نے ہندوستان کی طرف رجوع کیا۔ جب اپنشد کی ورق گردانی کی تو وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ ’’اپنشد کو الہامی صحیفہ سمجھنا چاہیے جو حقیقت و اتحاد کی راہ دکھاتا ہے۔ قرآن کی تعلیم سے اسے کامل اتفاق ہے بلکہ اسے قرآن کی تفسیر کہا جاسکتا ہے۔‘‘ یہی نہیں بلکہ دارا کا خیال تھا کہ قرآن جس ’’کتاب مکنون‘‘ کا ذکر کرتا ہے وہ اپنشد ہی ہے۔

    دارا اس انکشاف سے اس قدر متاثر ہوا کہ بنارس کے پنڈت اور سنیاسی طلب کیے گئے ا ور ان کی مدد سے اس نے اس ادق و ضخیم کتاب کا لغوی ترجمہ سنسکرت سے فارسی میں شروع کیا۔ جب اس امر پر غور کیجیے کہ اپنشد کی پچاس جلدیں ہیں اور ان میں سے کئی کی عبارت نہایت پیچیدہ ہے تو چھ مہینہ کے قلیل عرصہ میں ان کاترجمہ ختم کردینا، دنیائے علم کا ایک عجیب و غریب کارنامہ ہے۔ ترجمہ ۱۶۵۸ء میں ختم ہوا۔ دارا کے آخری الفاظ یہ ہیں، ’’ایں ترجمہ اپنکچھتہائے ہر چہار بید کہ موسم بہ سرا کبراست و تمام معرفت نور الانوار ایں تفیرِ بے اندوہ محمد دارا شکوہ خود بہ عبارت است۔ درمدتِ شش ماہ آخر روز دوشنبہ ۲۶رمضان المبارک ۱۰۶۷ھ درشہر دہلی درمنزل نگم بودھ بتمام رسانید۔‘‘

    اس ترجمہ کو بعدمیں ایسی مقبولیت نصیب ہوئی کہ آج فارسی کی قلمی کتابوں کا ایسا کوئی قابل ذکر کتب خانہ نہیں، جس میں اس کی ایک آدھ نقل موجود نہ ہو۔

    ناگری پرچارنی سبھا کی رپورٹ مظہر ہے کہ دارا کے ترجمہ کو لے کر ۱۷۲۰ء میں اپنشد ہندی میں منتقل ہوا۔ ۱۸۶۰ء میں ’الکھ پرکاش‘ کے نام سے یہ کتاب اردو میں چھپی۔ دیو، پیران نے دارا کے ترجمہ کو فرانسیسی اور لاطینی زبانوں میں منتقل کیا۔ لاطینی مسودہ پیرس سے ۲۔ ۱۸۰۱ء میں شائع ہوا۔ جسے پڑھ کر شوپن ہوراور اسخیلنگ (SCHELING) جیسے مفکر بے حدمتاثر ہوئے۔ اپنشد کی تعلیم ان دونوں کے افکار میں ڈوب کر مغربی خیال میں رس بس گئی۔

    راجہ رام موہن رائے نے ۱۸۱۸ء میں دارا کے ترجمہ کو انگریزی کا لباس پہنایا۔ وسیبر نے جرمن زبان میں اس کا تجزیہ شائع کیا اور ’پول دوسیں‘ نے اصل و فارسی ترجمہ کوملاکر اس کا مکمل ترجمہ کیا۔

    داراشکوہ کے اس عظیم الشان کارنامہ کی ایک خاص خوبی یہ ہے کہ اس سے ہندو اور مسلم تصوف کی ہم آہنگی پر روشنی پڑتی ہے۔ اس نے اپنے دیباچہ میں اور پھر اصلاحی الفاظ کی فہرست میں اس پر توجہ دلائی ہے۔ اپنی دوسری کتابوں میں بھی اس نے اس نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس زمانہ میں دونوں قوموں کی زندگی پر روحانیت کا رنگ چڑھا ہوا تھا۔ مذہبی اور مادی تکرار سے بچ کر روحانی یک جہتی کاجو چشمہ جاری تھا۔ وہ آپس کے عناد کو دھودیتا تھا۔ دراصل وہ اس ’’مشترکہ تہذیب‘‘ کی تدوین میں معین تھا۔ جس کی شاخیں ملک کے گوشہ گوشہ میں پھوٹی ہوئی تھیں۔ اس چشمہ سے شاعر و مغنی، ادیب و عالم ہی نہیں بلکہ عوام بھی سیراب ہوتے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ اٹھارھویں صدی میں جب سے روحانی تصوف کایہ چشمہ خشک ہونا شروع ہوا ہمارے سماج کاشیزارہ منتشر ہونے لگا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے