Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دلی اور لکھنؤ کی زبان

چراغ حسن حسرت

دلی اور لکھنؤ کی زبان

چراغ حسن حسرت

MORE BYچراغ حسن حسرت

    اگرچہ اردو کی نشوونما میں ہندوستان کے کئی شہروں کا حصہ ہے۔ تاہم اس زبان کے بڑے بڑے مرکزدوہی مانے جاتے ہیں۔ ان میں پہلا دہلی ہے۔ اور دوسرا لکھنؤ۔ چنانچہ اس زمانے میں بھی جب کہ زبان اور محاورے کی پابندیاں آہستہ آہستہ مٹتی جارہی ہیں۔ اورملک کے ہرگوشے سے مستند ہے میرا فرمایاہوا کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ جب کبھی کسی لفظ کی صحت مطلوب ہوتی ہے تو نگاہیں بے اختیار دلی یا لکھنؤ کی طرف اٹھ جاتی ہیں۔

    دلی کو تو خیر مدتوں کی محنت اور جانفشانی کے بعد درجۂ استاد نصیب ہوا۔ ہاں لکھنؤ نے جس قدر جلد اردو پر حقِ شفع حاصل کرلیا وہ حیرت انگیز ہے۔ آصف الدولہ کے عہد سے غازی الدین حیدر کے زمانے تک پچیس تیس سال کی مدت ہے۔ لیکن اس پچیس تیس سال کی مدت میں زمانے نے یہ تماشابھی دیکھا کہ لکھنؤ یا تو شاہ جہان آباد کی شاگردی کا دم بھر رہاتھا۔ یا شاگردی اور استادی کی ساری منزلیں طے کرکے دلی کے حریف اور مدِّمقابل کی حیثیت سے میدان میں کھڑا ہے۔

    اٹھارویں صدی کے اوائل تک اودھ کا صدر مقام اجودھیا کا پرانا شہر تھا۔ اور لکھنؤ کی حیثیت محض ایک چھوٹے سے قصبے کی تھی۔ محمد شاہی عہد میں جب نواب سعادت خاں برہان الملک اودھ کے صوبیدار مقرر ہوئے تو انہوں نے اجودھیا سے ذراہٹ کے دریائے گھاگھراکے کنارے ایک نئی بستی کی بنیادڈالی۔ جو پہلے بنگلہ پھر فیض آباد کے نام سے مشہور ہوئی۔ برہان الملک کے جانشین صفدر جنگ کے زمانے میں بھی یہی شہر اودھ کا صدر مقام رہا۔ البتہ صفدر جنگ کے بیٹے شجاع الدولہ نے چند برس لکھنؤ میں قیام کیا۔ لیکن بکسر کی لڑائی کے بعد وہ بھی فیض آباد اٹھ آئے۔ اور تادمِ آخر وہیں رہے۔ ان کے جانشین آصف الدولہ تھے جنہوں نے مستقل طور پر لکھنو کی سکونت اختیار کی۔ یوں کہنا چاہیے کہ لکھنؤ کاعروج اٹھارویں صدی کے اواخر یعنی آصف الدولہ کے عہدِحکومت سے شروع ہوتا ہے۔

    یہ زمانہ دلی کے لیے بڑاپرآشوب تھا۔ پہلے خانہ جنگیوں کاسلسلہ شروع ہوا۔ پھر بادشاہ گرسیدوں نے فساد مچایا۔ ان کازور ٹوٹا تو نادر کے ہاتھوں دلی پر سخت مصیبت آئی۔ پھر افغانوں، جاٹوں اورمرہٹوں نے سراٹھایا۔ اور سالہا سال تک دلی ان لوگوں کی باہمی زورآزمائیوں کااکھاڑہ بنی رہی۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ اردو کی نشوونما بھی اسی پرحوادث زمانے میں ہوئی۔ ایک طرف لشکر آرائیوں اورمیدان داریوں کے ہنگامے گرم تھے تو دوسری جانب شعر وشاعری کی محفلیں آراستہ تھیں۔ فوجوں کی یلغاروں اور صف آرائیوں میں تھوڑا ساامن کاوقت مل جاتا تھا تو اکھڑی ہوئی صحبتیں پھر جمتیں اور طبیعت کا سوز و گداز غزل کا قالب اختیار کرلیا کرتا۔ لیکن جب شاہ عالم ایسٹ انڈیا کمپنی کاوظیفہ خوار بن کے قلعے میں جابیٹھا۔ تو یہ میلہ ایسابچھڑا کہ پھر نہ جما۔

    دلی کے بعض اہل کمال تو پہلے ہی وطن کو خیرباد کہہ چکے تھے۔ کچھ ابھی تک وضعداری نباہتے چلے جاتے تھے۔ لیکن اخیر اخیر میں تو یہ حال ہوا کہ خواجہ میردرد اورایک دو اور بزرگوں کے سوااور کوئی نامور شاعر دلی میں نہ رہا۔ ان خانماں بربادوں کے لیے دو تین ہی ٹھکانے تھے۔ مرشدآباد۔ حیدرآباد دکن یا فیض آباد اور لکھنؤ۔ اس زمانے میں سفر کی یہ سہولتیں نہیں تھیں۔ اس لیے اکثر لوگ تو اودھ تک پہنچ کے رک گئے۔ چند ہمت والے آگے بڑھے۔ اور بنگال یا دکن جاپہنچے۔ اشرف علی خان فغان پہلے شجاع الدولہ کے دربار میں پہنچے۔ وہاں سے جی اکتایا تو عظیم آباد کا قصد کیا۔ سودا کوشجاع الدولہ نے بلابھیجا۔ لیکن انہوں نے جانے سے انکار کردیا۔ کچھ عرصے کے بعد جب دہلی میں زندگی بسر کرنا مشکل ہوگیا تو فرخ آباد چلے گئے۔ اور وہاں سے لکھنؤ کاقصد کیا۔ میرؔسوز ان سے پہلے لکھنؤ میں موجود تھے۔ میرتقی اگرچہ بڑے قناعت پسند اور توکل پیشہ بزرگ تھے۔ لیکن انہیں بھی مجبوراً بڑھاپے میں دلی چھوڑنی پڑی۔ ان لوگوں کے علاوہ جو شاعر دلی چھوڑ کے لکھنؤ آئے۔ ان میں ہمیں میرحسن۔ سید انشا۔ مصحفی۔ قائم منت۔ ممنون۔ خواجہ حسن مودودی۔ بقا۔ حیران۔ فاخر۔ مکیں۔ قتیل۔ سکندر۔ جرأت۔ رنگین۔ ضیا۔ احسن۔ ہوس وغیرہ کے نام نظر آتے ہیں۔ ان میں کچھ بلانے پر آئے تھے۔ کچھ بن بلائے۔ بعض دلی کے رہنے والے تھے۔ بعض کو شاہ جہان آباد سے صرف اتناتعلق تھا کہ ان کی شاعری کی نشوونما اس شہر میں ہوئی تھی۔ اور یہ صرف شاعروں ہی پر موقوف نہیں۔ نوابانِ اودھ کی قدردانی کی بدولت جن لوگوں نے دلی کو چھوڑ کے لکھنؤ کی سکونت اختیار کی۔ ان میں طبیب۔ خطاط۔ معمار۔ مہندس۔ پہلوان۔ گوئیے۔ پتنگ باز۔ داستان گو۔ رکابدار غرض ہرفن کے استاد موجود تھے۔

    ان دنوں اگرچہ اطراف ملک میں کئی جگہ شاعری کا چرچاتھا۔ لیکن زبان صرف شاہ جہان آباد کی مستند سمجھی جاتی تھی۔ اس لیے جب تک کوئی شاعر دلی میں کچھ عرصہ رہ کے مشقِ سخن نہ کرلیتا تھا۔ اس کی زبان اور شاعری کو چنداں لائق التفات تصور نہیں کیا جاتا تھا۔ فدوی اور سکندر پنجابی تھے لیکن زبان سیکھنے کے شوق میں برسوں شاہ جہان آباد کی خاک چھانتے رہے۔ مصحفیؔ امروہہ کے رہنے والے تھے لیکن گیارہ برس دلی میں رہے۔ اور میرسودا، درد، قائم وغیرہ کے فیضِ صحبت سے استادی کارتبہ حاصل کرلیا۔ قائم چاند پور کے تھے۔ لیکن انہیں بھی زبان کی سند حاصل کرنے کے لیے دلّی آنا پڑا۔ اس زمانے میں اکبر آباد اگرچہ زبان کی شستگی کے لحاظ سے دلی سے دوسرے درجے پر سمجھاجاتا تھا۔ لیکن بزرگانِ دہلی کبھی کبھی اہل اکبرآبادی کی زبان پر بھی ناک بھوں چڑھاتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ایسے لوگ لکھنؤ اور فیض آباد کی اردو آمیز پوربی کو کب خاطر میں لاتے۔ مولانا عبدالحلیم شررؔ نے ایک جگہ لکھنؤ والوں کی قدردانی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے،

    ’’دلّی کا ہر خانماں برباد یہاں آتے ہی پاؤں توڑکے بیٹھ گیا۔ نہ وطن یاد رہا اور نہ کسی اور دربار کے دیکھنے کی ہوس ہی دل میں باقی رہی۔‘‘

    لیکن مولانا کایہ خیال غلط ہے۔ میرتقی لکھنؤ میں بڑی عزت سے بلائے گئے تھے۔ آصف الدولہ ان کا بڑا احترام کرتاتھا۔ لیکن وہ ہمیشہ دلّی کو یاد کرتے رہے۔ میرؔ نے ۳۲شعر کی ایک مسلسل غزل لکھی ہے۔ جس کا مطلع ہے،

    اے صبا گر شہر کے لوگوں میں ہو تیرا گزار

    کہیو ہم صحرا نوردوں کا تمامی حالِ زار

    اس پوری غزل میں میرؔ نے اپنی بے وطنی کارونا رویاہے۔ اور دلّی کی صحبتوں کو بڑی حسرت سے یادکیا ہے۔ مطلع میں شہر سے دلّی مراد ہے۔ گویا میرؔ کے نزدیک لکھنؤ کے کوچہ و بازارصحرا سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ ایک اور جگہ کہتے ہیں،

    خرابہ دہلی کا وہ چند بہتر لکھنؤ سے تھا

    وہیں میں کاش مرجاتا سراسیمہ نہ آتا یاں

    ایک اور موقعہ پر فرماتے ہیں،

    آباد اجڑا لکھنؤ چند دن سے اب ہوا

    مشکل ہے اس خرابے میں آدم کی بود و باش

    میرحسن اگرچہ بڑے متین بزرگوار تھے۔ لیکن انہوں نے فیض آباد کی ہجو کہہ کے جی کی بھڑاس نکالی ہے۔ یہ لوگ تو خیر دلّی والے تھے، مصحفیؔ جیسے لوگ بھی جنہیں دلّی میں دس بارہ برس رہنے کا اتفاق ہوا تھا۔ مرتے دم تک یہاں کی صحبتوں کو نہ بھول سکے۔ مثلاً ایک جگہ وہ کہتے ہیں،

    اے مصحفی مت پوچھ کہ دلّی سے نکل کر

    کیا کہیے کہ ہم کتنے پشیمان ہوئے ہیں

    یہ ذکر چھڑا ہے۔ تو ان کی ایک رباعی بھی سن لیجیے،

    یارب شہر اپنایوں چھڑایا تو نے

    ویرانے میں مجھ کو لابٹھایا تونے

    میں اور کہاں یہ لکھنؤ کی خلقت

    اے وائے یہ کیا کیا خدایا تونے

    مصحفیؔ نے شعرائے اردو کے جو تذکرے لکھے ہیں۔ ان میں بھی جگہ جگہ ایسے اشارے ملتے ہیں جن سے اودھ، اودھ کے لوگوں کے متعلق ان کے خیالات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ مثلاً میرحسن کے تذکرے میں لکھتے ہیں ’’قضا اور ابطرفِ پورب افگندہ‘‘ میر ضیا کے متعلق کہتے ہیں ’’بطرفِ پورب آوارہ شدہ‘‘ غرض دلّی کے ان باکمالوں کو محض معاش کی خاطر لکھنؤ کی سکونت اختیار کرنی پڑی تھی۔ ورنہ ان کے لیے لکھنؤ میں کوئی دلکشی نہیں تھی۔ ان کے نزدیک لکھنؤ والوں کی زبان اردو نہیں پوربی یا یوں کہہ لیجیے کہ اردو آمیز پوربی تھی۔ پھر نہ ان کا لہجہ درست نہ تلفظ صحیح۔ نہ وہ انہیں تہذیب و شائستگی میں اپنا مدمقابل سمجھتے تھے۔

    اس زمانے میں دلّی کے لوگ جہاں جاتے تھے۔ لوگ انہیں ہاتھوں ہاتھ لیتے اور سرآنکھوں پر جگہ دیتے تھے۔ اس لیے لکھنؤ میں بھی ان کی بڑی آؤبھگت ہوئی۔ کچھ لوگ جو زیادہ نام آور تھے۔ نواب کے دربارمیں جاپہنچے جنہیں دربار میں رسائی نہ ہوسکی انہیں بھی سرچھپانے کا کوئی نہ کوئی ٹھکانا مل گیا۔ ان خانماں بربادوں کے لیے ایک بڑا ٹھکاناتو مرزا سلیمان شکوہ کی سرکار تھی۔ جو اگرچہ دلی کے شاہزادے تھے۔ لیکن وطن چھوڑ کے لکھنؤ جابسے تھے۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی چھوٹے موٹے ٹھکانے تھے۔ پھر سب سے بڑی بات تو یہ تھی کہ لکھنؤ کے ادنی و اعلیٰ دلّی والوں کی صحبت میں اٹھنے بیٹھنے کو باعثِ فخر سمجھتے تھے۔ ان کی رفتار و گفتار کی نقل کرنے اور ان کی زبان سے جو کچھ نکل جاتا تھا۔ اسے اپنے لیے سند جانتے تھے۔ سید انشا نے دریائے لطافت میں لکھنؤ والوں کے اس ذوق وشوق کی داد دی ہے۔ اور سعادت علی خاں کی پاسِ خاطر سے دلی اور لکھنؤ کاموازنہ اس طرح کیا ہے کہ لکھنؤ کی بات بھی رہ جائے اور دلّی پر بھی حرف آنے نہ پائے۔ انشا دربار داری کے ڈھنگ خوب جانتے تھے۔ اس لیے انہوں نے لکھنؤ کی زبان کو بہت سراہاہے۔ لیکن لے دے کے ان کے پاس بھی یہی دلیل ہے کہ شاہ جہان آباد کے سارے فصحا ءتو لکھنؤ میں موجود ہیں۔ پھر لکھنؤ زبان کے معاملے میں دلّی کی برابری کیوں نہ کرے۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے اس بات کی صراحت کردی ہے کہ وہ ان لوگوں کی زبان کو فصیح سمجھتے ہیں جو دلی سے آکے لکھنؤ میں بس گئے ہیں۔

    ’’غرض ازباشندگانِ لکھنؤ باشندگانِ شاہ جہان آباد اندکہ بعد از خرابیٔ دارالخلافہ در لکھنؤ مسکن اختیار کردہ اندو ازباشندگانِ دہلی کہ آنہارا کمتر از لکھنؤ می دانیم باشندگان لاہور و کاکوری۔۔۔ و میرٹھ ہستند دریں صورت ترجیح ساکنان لکھنؤ برساکنان دہلی ثابت نہ شد۔ بلکہ ترجیح بمعنے شاہ جہان آباد یاں بربعضے شاہ جہان آباد یاں۔‘‘

    آگے چل کے کہتے ہیں کہ مرزا بدیع الزمان جو دلی سے آکے الہ آباد میں بس گئے ہیں۔ یقیناً جھنڈا سنگھ چوپڑہ سے جو ہیبت پور ہی سے آیا ہے زیادہ اچھی اردو جانتے ہیں۔ لیکن سید انشاپورب کے انہیں باشندوں کو اس لائق سمجھتے ہیں جو دہلی سے آکے پورب میں آباد ہوگئے ہیں۔ ورنہ جو لوگ پشت ہا پشت سے یورپ میں آباد ہیں انہیں سید موصوف زبان کے معاملے میں جھنڈا سنگھ سے بہتر نہیں سمجھتے۔ ان کے نزدیک پنجابی ہوں پوربیے لکھنوی اور الہ آبادی یا لاہوری اور امرتسری اردو کے معاملے میں سب کی حیثیت یکساں ہے۔ اور یہ بات صرف سید انشاء پر موقوف نہیں۔ اس زمانے میں سب دلی والوں کی رائے یہی تھی۔

    معلوم ہوتا ہے کہ سعادت علی خان کے زمانے میں لکھنؤ والوں نے ہاتھ پاؤں نکالنے شروع کردیے تھے۔ اور ان میں یہ خیال پیدا ہوچلاتھا کہ ہم نے دلی والوں سے زبان سیکھی ہے۔ اس لیے ہمیں زبان دانی کا دعویٰ زیب دیتا ہے۔ ورنہ سید انشاء جو زمانے کی نبض خوب پہچانتے تھے، سرے سے یہ بحث ہی نہ چھیڑتے اس خیال کی تائید اور ذریعوں سے بھی ہوتی ہے۔ مثلاً مصحفیؔ کہتے ہیں،

    بھنوں کا گماں یہ ہے کہ ہم اہل زباں ہیں

    دلّی نہیں دیکھی ہے زبان داں یہ کہاں میں

    لیکن اس زمانے تک اودھ کے حکمران نواب وزیر اودھ کہلاتے تھے۔ دولت و ثروت اور قوت و اختیار میں وہ دلی کے مجبور و بے بس بادشاہ سے بڑھ چڑھ کے سہی لیکن ابھی تیموری فرمانرواؤں کی ظاہری آن بان میں فرق نہیں آنے پایا تھا۔ سلطنت کے ادب وآداب قائم تھے۔ اور بڑے بڑے گردن کشوں کے سر شاہ عالم اور اکبر شاہ ثانی کے سامنے جھک جاتے تھے۔ دلّی کابادشاہ ہزار بے اختیار سہی وہ تیمور و بابر کی یادگار تھا۔ اس لیے گردنیں اس کے سا منے نہیں بلکہ تیمور وبابر اوراکبر وعالمگیر کی عظمت کے سامنے خم ہوتی تھیں۔ لیکن سعادت علی خان کے بیٹے غازی الدین حیدر کے عہد میں آلِ تیمور کی یہ برائے نام برتری بھی مٹ گئی۔ یعنی کمپنی بہادر کی سرکار سے نواب وزیر اودھ کو بادشاہ کاخطاب مل گیا اور غازی الدین حیدر نوابی کی مسند سے اٹھ کر بادشاہت کے تخت پر جابیٹھا۔ اب دلّی کے دربارکے مقابلے میں ایک اور شاہی دربار قائم ہوگیا۔ اور لکھنؤ والے ہر بات میں دلّی والوں کی برابری کرنے لگے۔ ابھی تک انہیں یہ کہنے کی جرأت نہیں ہوئی تھی کہ لکھنؤ کی زبان دلّی کی اردو سے بہتر ہے۔ یہ کمی مرزا رجب علی بیگ سرور نے پوری کردی۔ جواصل کے لحاظ سے اکبر آبادی تھے۔ لیکن لکھنؤ میں آباد ہوگئے تھے۔ مرزا رجب علی بیگ سرور کے تذکرے میں ایک دلچسپ واقعہ یادآگیا۔ حکیم نورالدین قادیانی مدت تک تعلیم کے سلسلے میں لکھنؤ اور کان پور رہے تھے۔ اتفاقاً اس زمانے میں مرزارجب علی بیگ سرور سے ان کی ملاقات ہوگئی۔ سرور کے فسانہ عجائب کو ان دنوں بڑی شہرت حاصل تھی۔ حکیم صاحب نے سوچا کہ لاؤ ان سے تبرکاً فسانہ عجائب ہی پڑھ لیں۔ پہلے ہی دن جب پڑھتے پڑھتے اس مقام پر پہنچے،

    مولوی مبین دور ہیں سراج انجمن۔ مولوی ظہور اللہ سبحان اللہ ایسے فقیہ محقق کہاں ہوتے ہیں۔ یہی لوگ نادرِ زماں ہوتے ہیں۔ اُدھر رکن دین بلاکہ سید محمد مجتہد مستند

    تو حکیم صاحب نے پوچھا مرزا صاحب آپ سُنّی کب سے ہیں۔ مرزا پہلے تو کچھ گھبرا سے گئے۔ پھر کہنے لگے۔ آپ کو یہ بات کیونکر معلوم ہوئی۔ حکیم صاحب نے کہا آپ نے شیعی علما کاذکر کرتے ہوئے ’’اُدھر‘‘ کہا ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ آپ کو ان لوگوں سے کوئی تعلق نہیں۔ مرزا کہنے لگے بھائی میں ہوں تو سُنّی لیکن زمانے کا رنگ دیکھ کے مجھے مجبوراً اپنا مذہب چھپانا پڑا۔ یہ ظاہر ہے کہ جب انسان لوگوں کو خوش کرنے کے لیے اپنے مذہبی خیالات چھپا سکتاہے تو ادب اور زبان کے بارے میں بھی وہ یہی انداز اختیار کرسکتاہے۔ اس سے بحث نہیں کہ دلّی اور اکبر آباد کی زبان کے بارے میں مرزا رجب علی بیگ سرور کے خیالات کیا تھے۔ بہرحال وہ لکھنؤ والوں میں پہلے شخص ہیں جنہوں نے اس معاملے میں دلّی پر لکھنؤ کی فضیلت ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔

    سرور نے فسانہ عجائب غازی الدین حیدر کے زمانے میں شروع کیا۔ اور نصیرالدین حیدر کے زمانے میں اس کی تصنیف سے فارغ ہوئے۔ کتاب کے آغاز میں دیباچے کے طور پر انہوں نے لکھنؤ کی تعریف میں طبیعت کازور دکھایا ہے۔ اور اس ضمن میں جگہ جگہ دلّی پر چوٹیں بھی کی ہیں۔ مثلاً ایک جگہ کہتے ہیں ’’جو گفتگو لکھنؤ میں کوبکو ہے، کسی نے سنی ہو سنائے۔ دیکھی ہو دکھائے۔ عہد دولت بابر شاہ سے تاسلطنت اکبر ثانی کہ مثل مشہور ہے۔ نہ چولھے میں آگ نہ گھڑے میں پانی۔ دلّی کی آبادی ویران تھی۔ سب بادشاہوں کے عصر کے روز مرے لہجے اردو معلےٰ کی فصاحت تصنیف شعراء سے معلوم ہوئی یہ لطافت اور فصاحت و بلاغت نہ کبھی وہاں تھی نہ اب تک وہاں ہے۔‘‘

    آگے چل کے میرامنؔ پر برس پڑے ہیں۔

    ’’میرامن صاحب نے چاردرویش کے قصے میں بکھیڑا کیا ہے کہ ہم لوگوں کے ذہن و حصے میں یہ زبان آئی ہے۔ دلّی کے روڑے ہیں محاورے کے ہاتھ منہ توڑے ہیں۔ پتھر پڑیں ایسی سمجھ پر۔ یہی خیال انسان کاخام ہوتاہے۔ مفت میں انسان بدنام ہوتا ہے۔‘‘

    جیسا کہ سرورؔ نے خود کہا ہے۔ فسانہ عجائب چار درویش کے توڑ پر لکھا گیا ہے اگرچہ دونوں کتابوں کی تصنیف میں پچاس ساٹھ برس کا فرق ہے۔ لیکن جس شخص کو یہ معلوم نہ ہو کہ دونوں کتابوں میں پہلے کون سی لکھی گئی ہے۔ اسے شاید سرور کی زبان زیادہ پرانی معلوم ہو۔ کیونکہ میرامن نے سیدھی سادی بے تکلف زبان لکھی ہے۔ اور سرور نے فارسی نثرنگاروں کے انداز میں الفاظ کا طلسم باندھا ہے اور اردو میں نیا بازار۔ شبنم شاداب اور پنج رقعہ وغیرہ کی مسجع اور مقفّٰی زبان کاچربا اتار کے رکھ دیا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس زمانے کا انداز یہی تھا۔ اور چہاردرویش یا عود ہندی اور اردو معلّٰے کے سوا سیدھی سادی نثر کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ لیکن اس کی ایک اوروجہ بھی تھی۔ ان دنوں اگرچہ دلی اور لکھنو دونوں جگہ دفتری زبان فارسی تھی۔ لیکن لکھنؤ پر فارسیت کا غلبہ تھا۔ کیونکہ نوابانِ اودھ اصل کے لحاظ سے ایرانی اور مذہب کے اعتبار سے شیعی تھے۔ صلہ اور انعام کے لالچ میں ایران اور عراق کے سادات علما وقصہ خواں وغیرہ کھچے چلے آتے تھے۔ ان لوگوں کے اثر سے لکھنو کی زبان فارسی ترکیبوں کامجموعہ بن کے رہ گئی۔

    لیکن اس کے علاوہ ایک اور وجہ یہ بھی ہے جو میرے نزدیک ان دونوں وجہوں سے زیادہ قوی ہے۔ لکھنؤ والوں کواس بات کااحساس تھا کہ ٹیٹھ اردو میں وہ دلی والوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ میر و مرزا اور انشاءؔ و مصحفیؔ کی زبان کی پیروی کریں گے تو دلّی والوں سے کور دبتی رہے گی۔ جہاں ذرا محاورے سے اِدھر اُدھر ہوئے انہوں نے فوراً ٹوک دیا کہ دلّی میں یوں نہیں۔ یوں بولتے ہیں۔ اب دلّی کا روزمرہ سیکھنے کے لیے کون شاہ جہان آباد جائے۔ ان لوگوں کے ناز اٹھائے۔ فارسی عربی کے معاملے میں ہم دونوں کی حیثیت یکساں ہے۔ بلکہ شاید ہمارا ہی پلہ بھاری ہو۔ پھر بڑی آسانی یہ ہے۔ کہ فارسی اور عربی لغت کی کتابیں موجود ہیں۔ جہاں شبہ ہوا۔ کتاب اٹھا کے دیکھ لی، نہ اساتذہ کے کلام کی ورق گردانی کرنی پڑتی ہے نہ کسی سے پوچھنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یہ باتیں سوچ کے انہوں نے ایسی زبان اختیار کی کہ دلّی کی پیروی سے بہت حد تک بے نیاز ہوگئے۔

    غرض سچ پوچھیے تو لکھنؤ والوں نے جس چیز کو اپنے فضل و کمال کی دستاویز کی حیثیت سے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ وہ ان کے عجز کلام کی دلیل تھی۔ اس زمانے میں پنجاب اور دکن کے لوگوں کا بھی یہی حال ہے۔ یعنی عربی فارسی کاسہارا لیے بغیر دوقدم نہیں چلتے اور جہاں تک بن پڑتاہے ٹھیٹھ زبان سے دامن بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سچ پوچھیے تو محاورہ بڑے بکھیڑے کی چیز ہے کیونکہ اس میں یہ ناممکن ہے کہ آپ ایک لفظ کو ہٹاکے اس کی جگہ اس کا ہم معنی کوئی دوسرا لفظ رکھ دیں۔

    لکھنؤ کی زبان پر فارسیت کا غلبہ غازی الدین حیدر کے زمانے یا فسانہ عجائب کی تصنیف سے بہت پہلے شروع ہوچکا تھا۔ سید انشا نے دریائے لطافت میں لکھنؤ اور دلّی کی زبان کے جو نمونے پیش کیے ہیں ان میں جابجا یہ بات نمایاں نظر آتی ہے۔ انشاؔ لکھنؤ والوں میں سعادت علی خاں کے بعد نواب عماد الملک کو فصیح ترین شخص سمجھتے ہیں۔ ان نواب صاحب کی زبان کا نمونہ یہ ہے،

    اجی لالہ بھاڑا مل تمہارے احوال پر باللہ کہ ہم سخت متاسف ہوتے ہیں۔ حق تعالیٰ نے اپنی عنایات سے تمہیں حیاتِ اُلوُف کا مالک کیا۔ اور اوقات تمہاری یہ کہ اور من الناس جس مسلمان کو فرض کیجیے۔ اس کے برابر ذائقہ صاحب کا لذت آشنا نہیں۔

    اس کے مقابلے میں میرغفر منشی اور بی نورن کی صاف اور شستہ تقریریں ہیں۔ جنہیں پڑھ کے زبان اور دل دونوں مزے لیتے ہیں۔ انشاء نے اسی کتاب میں ایک اور موقع پر ایک ہی خیال کو ایک پوربی اردو دان اور ایک مثال جہان آبادی کی زبانی ادا کرایا ہے جس میں صرف اتنا فرق ہے کہ دلّی والے نے جہاں اردو کے عام الفاظ استعمال کیے ہیں۔ وہاں پوربی نے فارسی کے لفظ رکھ دیے ہیں۔

    ابتدا ابتدا میں تو دلّی والوں نے لکھنؤ کی زبان کو اپنی زبان سمجھا۔ کیونکہ لکھنؤ میں جتنے نامور شعراء تھے۔ سب دلّی کے تھے۔ دلّی میں جو شاعر رہ گئے تھے۔ ان کی نظریں بھی لکھنؤ کی طرف لگی رہتی تھیں۔

    لکھنؤ سے جرأت۔ انشاؔ۔ مصحفیؔ وغیرہ کی غزلیں آتی تھیں۔ اور دلّی کے شعراء ان پر غزلیں لکھتے تھے۔ لیکن جب یہ دور ختم ہوا۔ اور آتش و ناسخ۔ رند۔ وزیر۔ صبا۔ برق۔ گویا۔ قلق۔ نسیم۔ شوق۔ رشک۔ بحر۔ امانت وغیرہ کا زمانہ آیا۔ تو دلّی اور لکھنؤ میں چشمکیں شروع ہوئیں۔ ان لکھنوی شعراء میں ایک آدھ کے سوا سب ایسے تھے جو لکھنؤ میں پیدا ہوئے تھے۔ اور وہیں ان کی شاعری چمکی تھی۔ ان لوگوں نے دلّی کے خلاف علانیہ علم بغاوت بلندکردیا اور پوربی بھاشاکے بہت سے لفظوں کو جنہیں ابھی تک اردو میں بار نہیں ملا تھا۔ اپنی تحریر وتقریر میں استعمال کرنے لگے۔ اس کے علاوہ انہوں نے لفظوں کی تذکیر و تانیث کے معاملے میں بھی اجتہاد سے کام لیا۔ تذکیر و تانیث کے پرانے قاعدوں میں ترمیمیں کیں۔ متروکات کی ایک فہرست مرتب کی۔ اور جو بعض ایسے لفظوں کو جو دلی اور لکھنؤ دونوں جگہ بولے جاتے تھے۔ ٹکسال باہر قرار دیا۔ بزرگانِ دہلی ان لوگوں کی اس خود سری پر چیں بہ جبیں تو ضرور ہوئے۔ لیکن لکھنؤ کی زبان اور شاعری کادامن شاہانِ اودھ کے دامنِ دولت سے بندھا ہوا تھا۔ اس لیے کھلم کھلا کسی کو کچھ کہنے کی جرأت نہ ہوئی۔ لیکن اس سے یہ نہ سمجھیے کہ دلّی والوں نے اہل لکھنؤ کے تصرفات کو مان لیا۔ اور لکھنؤ کی مرکزی حیثیت تسلیم کرلی۔ وہ ابھی تک دلّی ہی کو زبان کامرکز سمجھتے تھے اور برملاکہتے تھے کہ ’’اس احاطے سے جو باہر ہے وہ بیرونی ہے‘‘ ۔ میرانیس کی عمر اگرچہ لکھنؤ میں گزری۔ لیکن وہ دلّی کی زبان کے پیرو تھے۔ اورمرثیہ پڑھتے جس وقت کوئی دلّی کاخاص محاورہ آجاتا تھاتو کہہ دیتے تھے کہ صاحبان لکھنؤ میں یوں نہیں بولتے یا اہل لکھنؤ کی یہ زبان نہیں۔ دلّی والوں میں سب سے پہلے مرزا اصغرعلی نسیمؔ نے لکھنؤ کے تصرفات کو قبول کیا۔ نسیمؔ مومن خان کے شاگرد تھے۔ واجد علی شاہ کے معزول ہونے سے کچھ عرصہ پہلے لکھنؤ پہنچے۔ چنانچہ واجد علی شاہ کی شان میں کئی قصیدے ان کے دیوان میں موجود ہیں۔ معلوم نہیں انہیں دربار میں رسائی ہوئی یا نہیں۔ لیکن ان کی زبان پر لکھنؤ کا بڑااثر ہے۔ یہی عالم تھا کہ واجد علی شاہ معزول ہوکے کلکتے پہنچے۔ سال بھر کے بعد غدر ہوگیا۔ دلّی اور لکھنؤ کے اہل علم منتشر ہوگئے اور مدت تک کسی کو زبان کے جھگڑوں کی طرف توجہ کرنے کا خیال نہ آیا۔ جب رام پور میں یہ اکھڑی ہوئی محفلیں پھر جمیں تو دلّی اور لکھنؤ کی بحث پھر چھڑی۔ اخباروں اور رسالو ں میں لفظوں کی تذکیر و تانیث اور محاوروں کی اصل پر مضامین لکھے جانے لگے۔ اور اس طرح ملک دو حصوں میں منقسم ہوکے رہ گیا۔ لاہور سے بریلی تک دلی کی زبان مستند سمجھی گئی۔ اور بریلی سے کلکتہ تک سارا علاقہ لکھنؤ کے حصے میں آیا۔

    لکھنؤ اور دلّی کی بحث میں تذکیر و تانیث کا مسئلہ بڑااہم سمجھا جاتا ہے۔ لیکن سچ پوچھیے تو یہ کہہ دینا بڑا مشکل ہے کہ فلاں لفظ لکھنؤ والوں کے نزدیک مذکر ہے اور دلّی والوں کی رائے میں مؤنث۔ اکثر الفاظ ہیں جن میں خود لکھنؤ والوں کے درمیان اختلاف ہے۔ اسی طرح دلّی کے بعض اساتذہ کے ایک لفظ کو بالتذکیر باندھا ہے۔ اور بعض نے بالتانیث۔ مثلاً جان باتفاقِ مونث ہے۔ لیکن میر۔ سودا سوز وغیرہ نے اسے مذکر بھی لکھا ہے۔ سانس کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ لکھنؤ میں مونث اوردلّی میں مذکر ہے۔ لیکن ذوقؔ کہتے ہیں،

    نہ بھرتے دم جو کسی شعلہ رُو کی خواہش کا

    تو ٹھنڈی سانس ہمیشہ بھرا نہ کرتے ہم

    اور ذوقؔ کے شاگردوں داغؔ اور آزادؔ نے اسے مونث لکھا ہے۔ اسی طرح ناسخؔ لفظ کی تذکیر کے قائل ہیں۔ لیکن ان کے شاگرد میر اوسط علی رشک کہتے ہیں کہ،

    وصل کی رات بنا نامۂ شوق گیسو!

    شام لفظیں، میں سپیدی ہے سحر کاغذ کی

    بہرحال اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بعض الفاظ مثلاً قلم۔ التماس۔ نشاط۔ متاع۔ فکر۔ سانس۔ نقاب۔ آغوش۔ جوڑ۔ مالا۔ لفظ وغیرہ کی تذکیر و تانیث لکھنؤ اور دہلی کے درمیان مختلف فیہ ہے۔ لیکن اس موقع پر یہ عرض کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ شاعر کو اکثر اوقات تو ضرورت شعری کسی لفظ کو بالتذکیر یا بالتانیث باندھنے پر مجبور کردیتی ہے۔ اور ایسے موقع پر وہ یہ بھول جاتا ہے کہ وہ دہلی کی زبان کاپیرو ہے۔ یا لکھنؤ کامتبع۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اکثر اوقات گردوپیش کے الفاظ کو کسی لفظ کی تذکیر و تانیث متعین کرنے میں بڑا دخل ہوتاہے۔

    اس معاملے میں جلال لکھنوی کی بھی یہی رائے ہے۔ عرصہ ہوا اودھ اخبار کے ایک مضمون کے متعلق رائے دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ موقع اور محل کی مناسبت سے تذکیر و تانیث کے معاملے میں اجتہاد کیا جاسکتا ہے۔

    متاخرین لکھنؤ کاایک بڑاکارنامہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ انہوں نے عربی فارسی کے اکثر دخیل الفاظ کو ان کی اصلی صورت میں استعمال کرنے پر زور دیا۔ اور بعض لکھنوی شعراء اس معاملے میں بہت غلو کرنے لگے۔ چنانچہ رشک نے ایک موقع پر تمیز کی جگہ تمئیز باندھا ہے،

    خوفِ صیاد اسے کیا نہ ہو تمئیز جسے

    مرغِ تصویر کبھی لائقِ فتراک نہیں

    حرکت اور برکت عربی کے الفاظ ہیں۔ ایرانیوں نے بھی انہیں بہ سکونِ’’را‘‘ حرکت اور برکت باندھا ہے۔ مثلاً قدسیؔ کہتا ہے،

    کہ درخرمنِ عمر برکت نماند۔۔۔

    ملا فوقی لکھتا ہے۔ کہ،

    زبس خوش حرکت و شیریں ادا بود

    لیکن متاخرین لکھنؤ میں سے اکثر نے حرَکت اور برَکت باندھا ہے۔ مثلاً،

    دل ہی دل میں بخدایا دبتاں رہتی ہے

    حرکت سے جو زبان اپنی یہاں رہتی ہے

    اسی طرح عربی فارسی کے جو الفاظ ہمارے ہاں غلط معنوں میں رواج پاگئے ہیں۔ انہیں ان کے اصل معنوں میں استعمال کیا۔ مثلاً اردو میں مشکور کے معنی شکرگزار کے ہیں۔ لیکن لکھنؤ والے ایسے موقع پر ممنون کہیں گے۔ سرسید کی تحریر میں ایک جگہ مشکور بمعنی شکرگزار دیکھ کے مولانا عبدالحلیم شرر نے اعتراض کیا تھا۔ جس کے جواب میں سرسید نے فرمایا کہ مولوی شرر صاحب کو میرے لکھے سے سند پکڑنی چاہیے۔

    لیکن دخیل الفاظ کے بارے میں اس قسم کا غلو صحیح نہیں۔ جب کوئی شخص اپنا وطن چھوڑ کے کسی دوسرے ملک میں آباد ہوتا ہے۔ تو اپنا قانون ساتھ نہیں لاتا۔ بلکہ اس ملک کے قانون کی پیروی کرتا ہے۔ چاہے وہ مشہد مقدس سے آئے یا مدینہ منورہ سے۔ عربی فارسی کے جو لفظ اردو میں آگئے ہیں۔ وہ اردو قواعد کے تابع ہیں۔ ان پر عربی گرامر کے قاعدے جاری کرنا غلط ہے۔

    بعض الفاظ کے تلفظ میں بھی لکھنؤ اور دہلی کے درمیان اختلاف ہے۔ مثلاً دلی میں پینگ (یائے معروف کے ساتھ کہتے ہیں۔ لکھنؤ میں پینگ اور اسے کرتُوت کی طرح حالت جمع میں استعمال کرتے ہیں۔ دلی میں پہنانا اور پنہانا دونوں ہیں۔ لکھنؤ والے پہنانا کہتے ہیں۔ دلی میں تنور بھی ہے۔ اور تندور بھی۔ لیکن لکھنؤ والے صرف تنور کہیں گے۔ دہلی میں دھکیلنا ہے۔ لکھنؤ میں ڈھکیلنا۔ دلّی میں کِشتی ہے۔ لکھنؤ میں کشتی۔ دلی میں سِرفصیح ہے۔ لکھنؤ میں سَرکو زیادہ فصیح سمجھا جاتا ہے۔ دلّی میں مروڑ۔ لکھنؤ میں مڑوڑ۔ دلّی میں ٹھہرنا بھی مستعمل ہے اور ٹھیرنا بھی۔ لیکن لکھنؤ والوں کے نزدیک ٹھہرنا صحیح ہے۔ ان کے علاوہ بعض الفاظ جو پوربی بھاشا سے آئے ہیں۔ لکھنؤ سے مخصوص ہیں۔ مثلاً دلّی میں کنجڑا اورکنجڑن کہتے ہیں۔ لکھنؤ والے اِن معنوں میں کبڑیا اور کبڑن کو روا رکھتے ہیں۔ دلّی میں تھم بمعنی ستون بھی استعمال ہوتا ہے۔ لیکن لکھنؤ والے صرف کھم کہتے ہیں۔ اس موقع پر تھم استعمال نہیں کرتے۔ لکھنؤ میں اندھیارا اور اندھیرا دونوں ہیں۔ دلّی میں صرف اندھیرا کہتے ہیں۔

    دونوں شہروں کے محاوروں میں بھی اختلاف ہے۔ ان میں بعض محاورے تو ایسے ہیں جو دلّی سے لکھنؤ گئے۔ اور زبانوں پہ چڑھ کے کچھ کے کچھ ہوگئے۔ مثلاً دلّی کا محاورہ ہے۔ آلے بالے بتانا۔ لکھنؤ والے اس موقع پر ٹالے بالے بتانا کہتے ہیں۔ لکھنؤ والوں کاذہن غالباً محاورے کے معنی کی طرف منتقل ہوگیا۔ اور انہوں نے آلے کی جگہ ٹالے کہنا شروع کردیا۔ بعض محاورے لکھنؤ سے مخصوص ہیں۔ مثلاً دلّی میں رکھائی برتنا مستعمل ہے۔ لکھنؤ والے رکھائی کی لینا بھی کہتے ہیں۔ اگرچہ ایسے محاورے کثرت سے ہیں جو لکھنؤ میں پیدا ہوئے اور وہیں بولے جاتے ہیں۔ لیکن ان کا تعلق زیادہ تر پتنگ بازوں۔ کبوتر بازوں۔ بٹیربازوں یا ایسے پیشوں سے ہے جنہیں لکھنؤ میں زیادہ فروغ حاصل ہوا۔

    لیکن میرے خیال میں لکھنؤ والوں کے تصرفات میں سب سے زیادہ اہمیت بعض قاعدوں کو حامل ہے جن کی پابندی پر متاخرین لکھنؤ نے بڑا زور دیا ہے۔ مثلاً انہوں نے ایک اصول یہ قرار دیا کہ مصدر کی علامت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ داغؔ کا مشہور شعر ہے،

    بات تک کرنی نہ آتی تھی تمہیں

    یہ ہمارے سامنے کی بات ہے

    لکھنؤ والوں کے نزدیک پہلے مصرع میں کرنی کی جگہ کرنا ہوناچاہیے۔ مثلاً امیر مینائی کہتے ہیں،

    باغباں کلیاں ہوں ہلکے رنگ کی

    بھیجنا ہیں ایک کم سن کے لیے

    یہ صحیح ہے کہ خود لکھنؤ والوں نے بھی اس قاعدے کو توڑا ہے۔ لیکن ایسی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ دیاشنکر نسیم لکھتے ہیں،

    سوچا کہ یہ زلف کف میں لینی

    ہے سانپ کے منہ میں انگلی دینی

    رشکؔ کہتے ہیں،

    لکھنی ہے مجھ کو تہنیت ابتدائے خط

    امیر مینائی نے بھی ایک جگہ اس اصول کے انحراف کیا ہے،

    مشکل پڑی حضور کو گھر رات کاٹنی

    دیکھے ہمارے نالۂ شب گیر کے خواص

    اس کے علاوہ ان لوگوں نے یہ اصول قرار دیا کہ عربی کے جو الفاظ حالتِ وحدت میں مونث ہیں۔ جب عربی قاعدے سے اُن کی جمع بنائی جائے۔ تو انہیں بالتذکیر لکھا جائے۔ چنانچہ کرامات۔ آیات۔ عنایات۔ آفات وغیرہ اہل لکھنؤ کے نزدیک مذکر ہیں۔

    یہاں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ اساتذۂ لکھنؤ نے اپنے زمانے کے مسلمہ اصولوں سے کیوں انحراف کیا؟ اس کی دو وجہیں ہوسکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ بزرگوار اردو زبان کو سارے ملک میں پھیلانا چاہتے تھے۔ اس لیے انہوں نے زبان کو سہل بنانے کے خیال سے یہ قاعدے وضع کرلیے۔ لیکن اس زمانے کے خیالات پر غور کیا جائے۔ تو معلوم ہوتا ہے کہ زبان کی ترویج کاشوق کسی کو نہیں تھا۔ بلکہ یہ بزرگوار تو زبان کو پھیلانے کے بجائے اسے اپنے شہر تک محدود کردینا چاہتے تھے۔ دوسری وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ لکھنؤ والوں نے تذکیر و تانیث کے جھگڑے سے بچنے کے لیے یہ طریقہ اختیارکیا۔ اور میری رائے میں یہ وجہ زیادہ قوی ہے۔ کیونکہ اس زمانے میں لکھنؤ کی شاعری عروج پر تھی۔ اساتذہ لکھنؤ کو زباندانی کے بڑے بڑے دعوے تھے۔ پھر بھی اہل دہلی نے ان کی زبان کو کبھی مستندنہ مانا۔ دیکھیے مرزا غالب نے اگرچہ لکھنؤ کے بعض شاعروں کی تعریف بھی کی ہے۔ لیکن رتھ کی تذکیر و تانیث کے متعلق کسی نے سوال کیا۔ تو ان کے قلم سے یہ چبھتا ہوافقرہ نکل گیا کہ پورب میں تو ہتھنی آیا بھی کہتے ہیں۔ غرض اہل لکھنؤ نے یہ دو اصول قراردے کے ایک حدتک تذکیر وتانیث کے جھنجھٹ سے نجات حاصل کرلی۔

    اساتذۂ لکھنؤ کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے بعض لفظوں کو جو اس وقت عام طور پر استعمال کیے جاتے تھے متروک قرار دیا۔ اول تو کسی شخص کا خواہ وہ کتنا بڑا استاد کیوں نہ ہو۔ بعض خاص لفظوں کو ٹکسال باہر قرار دینا نری دھاندلی ہے۔ کیونکہ جو لفظ کسی زبان میں کھپ نہیں سکتے وہ خود بہ خود مٹ جاتے ہیں۔ دوسرے متروکات کی اس فہرست میں ایسے الفاظ بھی شامل ہیں جن کا مفہوم کسی دوسرے لفظ سے ادانہیں ہوسکتا۔ مثلاً اس فہرست میں ہمیں ’’سو‘‘ بھی نظر أتا ہے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ ’’سو‘‘ کا مفہوم کوئی دوسرا لفظ ادانہیں کرسکتا۔ اس کے علاوہ بیج۔ پہ۔ پہ معنی۔ لیکن۔ تلک۔ یاں۔ واں۔ لیجے۔ مت۔ آئے ہے جائے ہے۔ ہووے۔ لیک۔ بارے وغیرہ الفاظ کا استعمال بھی ترک کردیا گیا۔ لیکن ان میں بہت کم متروکات کو اہل ذوق نے قبول کیا۔ بارے۔ آئے ہے جائے ہے سو اور تلک خود لکھنوی شعرا ءکے ہاں موجود ہیں۔ حسرتؔ موہانی نے نسیم دہلوی کا یہ مصرع ’’رحم آجاتا ہے دشمن کی گرفتاری پر‘‘ نقل کرکے کہا صحیح کیا ہے کہ اگر وہ اس جگہ ’’رحم آ جائے ہے‘‘ لکھتے تو بہتر ہوتا۔

    لکھنؤ والوں کی طرف سے دلی کی زبان پر جو اعتراض ہوئے ہیں۔ ان میں ایک بڑا اعتراض یہ ہے کہ دلّی کی زبان پر پنجاب کابڑا اثر ہے۔ میرے خیال میں یہ کوئی ایسا جرم نہیں کہ بالکل ہی معاف نہ کیا جاسکے۔ میر اور سودا بلکہ ان کے بعد کے شاعروں کے کلام میں پنجابی زبان کے ایسے الفاظ ملتے ہیں جو بعد میں ترک کردیے گئے۔ مثلاً ’’دِسنا دیکھنا کے معنی میں۔ جد۔ تد۔ کہ۔ جب۔ تب۔ کب کی جگہ۔ تیں بجائے تو۔ نیونا، جھکنا کے معنوں میں۔ نونہ، ناخن کی جگہ۔ دھی، بیٹی کی بجائے وغیرہ‘‘ ۔ اور اِن لوگوں پر کیا موقوف ہے۔ خود لکھنؤ کی زبان میں بہ کثرت پنجابی کے الفاظ اور محاورے موجود ہیں۔ مثلاب ادکھیاں سنانا۔ پنجابی کا محاورہ ہے۔ شوقؔ کہتے ہیں، موا ادکھیاں مجھ پہ چھوڑا کیا۔

    کچھ گیہوں گیلے اور کچھ جندرے ڈھیلے بھی پنجابی سے آیا ہے۔ جندر اور جندرے اردو لغت میں کہیں موجود نہیں۔ یہ محاورے تو ایسے ہیں جو دلی اور لکھنؤ دونوں میں مشترک ہیں۔ بعض الفاظ ایسے بھی ہیں جو صرف پنجاب اور لکھنؤ میں بولے جاتے ہیں۔ مثلاً دلّی میں گھٹنا نیکر سے ملتی جلتی ایک پوشش کا نام ہے۔ اور اب تو نیکر کو بھی گھٹنا کہتے ہیں۔ لیکن لکھنؤ اور پنجاب میں تنگ مہری کے پاجامے کو گھٹنا کہتے ہیں۔

    ایک اعتراض یہ ہے کہ دلّی والے پنجاب کے اثرؔ سے نےؔ کے استعمال میں غلطی کرتے ہیں۔ پنجاب میں نےؔ کا استعمال دوموقعوں پر غلط کیا جاتا ہے۔ لیکن وہاں کے شاعروں اور انشاء پردازوں کے ہاں نےؔ غلط استعمال کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ جہاں تک مجھے یاد ہے۔ صرف ایک مشہور شاعر نے اپنے ایک مصرع میں نےؔ کا غلط استعمال کیا ہے اور وہ بھی عمداً۔ مصرع یہ ہے،

    تو نے الفت مجھ سے کرنی ہے تو کر میرے لیے

    گرامر کے لحاظ سے یہ مصرع صحیح ہے۔ کیونکہ نےؔ علامتِ فاعل ہے۔ اور قاعدے کے لحاظ سے یہاں تونے ہی ہونا چاہیے۔ لیکن اسے کیا کیا جائے کہ محاورہ جس کی عدالت گرامر سے بھی اونچی ہے۔ اس مصرع کو صحیح قرار نہیں دیتا۔ اس کے فتوےٰ کے مطابق اسے یوں ہونا چاہیے ’’تجھ کوالفت مجھ سے کرنی ہے تو کر میرے لئے‘‘ یہ غلطی پنجاب سے مخصوص ہے۔ دلّی کے کسی شاعر کے ہاں اس کی مثال نہیں ملتی۔

    ’’نے‘‘ کے استعمال میں پنجاب کے لوگ ایک اورغلطی بھی کرتے ہیں۔ یعنی ’’میں نے دلّی دیکھی ہوئی ہے‘‘ کی قسم کے جملے لکھ جاتے ہیں۔ یہ غلطی زیادہ قبیح ہے۔ کیونکہ گرامر اور محاورہ دونوں کا فیصلہ اس کے خلاف ہے۔ گرامر کے لحاظ یہ جملہ فعلیہ خبریہ نہیں۔ بلکہ اسمیہ ہے کیونکہ اس میں فعل سرے سے نہیں۔ دیکھی ہوئی اسم مفعول ہے۔ اور بےؔ حرفِ ربط۔ اور یہ ظاہر ہے۔ کہ جس جملے میں فعل نہیں اس میں فاعل کہاں سے آگیا۔ اس لیے ’’میں نے دلّی دیکھی ہوئی ہے‘‘ کے بجائے ’’دلّی میری دیکھی ہوئی ہے‘‘ کہنا چاہیے۔ لیکن یہ غلطی شعرائے دہلی کے ہاں بھی موجود ہے۔ اور بہادر شاہ ظفرؔ کے ہاں تو اس کی مثالیں کثرت سے ملتی ہیں۔ مثلاً،

    تم نے گرہوتا اُسے اے مہرباں دیکھا ہوا

    یا پھر،

    ہم نے ہے خوب اس کی طرزِ ناز پہچانی ہوئی

    چال پہچانی ہوئی آواز پہچانی ہوئی

    لیکن اگر لال قلعے میں یوں بولا جاتا تھا تو مجھے گرامر کافتویٰ قبول کرنے میں ہزار بار تامل ہے۔ میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ محاوہ کا پنجاب سے متاثر ہونا کوئی ایسا گناہ نہیں جسے معاف ہی نہ کیا جاسکے۔ دیکھیے آج ’’لگ گئے‘‘ صرف پنجابیوں کی زبان پر ہے اورجب پنجاب کاکوئی شاعر یا انشاپرداز ’’لگ گئے‘‘ لکھ جاتا ہے۔ تو اس پر انگلیاں اٹھنے لگتی ہیں۔ لیکن میرتقی بھی اس جرم میں پنجابیوں کے شریک ہیں۔ چنانچہ وہ ایک جگہ کہتے ہیں،

    بے صرفہ رونے لگ گئے ہم بھی اگر کبھی

    تو دیکھیو یہ باد یہ سارا بہا پھرا

    لکھنؤ نے تیس چالیس سال کے اندر اردو میں سینکڑوں تصرفات کیے۔ زبان کے بہت سے قاعدوں ہی کوبدل ڈالا۔ پنجاب نے دوتین محاوروں میں تصرف کیا۔ تو کیا ہوگیا۔ یہ سمجھ لیجیے کہ، ہم سے بھی ایک لغزش مستانہ ہوگئی۔

    اور اب تو دنیا ہی بدل گئی ہے۔ اردو کو۔ یو۔ پی سے بالکل دیس نکالا مل چکا ہے۔ دلّی کا بھی قریب قریب یہی حال ہے۔ یعنی وہاں بھی کھڑی بولی جو کل تک کسی شمار و قطارمیں نہیں تھی۔ اردو کو ہٹاکے اس کی جگہ لے رہی ہے۔ اور دلّی کے خانماں برباد جنہوں نے ایک زمانے میں فیض آباد اور لکھنؤ کو بسایا تھا۔ لاہور اور مغربی پنجاب کے دوسرے شہروں میں ڈیرے ڈالے پڑے ہیں۔ کوئی عجب نہیں کہ آگے چل کے کسی اور شہر کو وہی حیثیت حاصل ہوجائے جو ایک زمانے تک لکھنؤ کو حاصل رہی ہے،

    مری نگاہ نہیں سوئے بصرہ بغداد

    کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد

    مأخذ:

    ادب لطیف،لاہور (Pg. 17)

      • ناشر: چودھری برکت علی
      • سن اشاعت: 1949

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے