دیسی زبان کی ترقی: کیوں اور کس طرح؟
زبان اور سمجھ
ہر شخص کو اپنی مادری زبان پیاری ہوتی ہے۔ اور کیوں نہ ہو؟ وہ اسے صرف مدرسے میں ہی کتاب اور قلم سے نہیں سیکھتا، بلکہ پیدا ہوتے ہی ماں کے دودھ سے چوس چوس کر اور کانوں سے پی پی کر پروان چڑھتا ہے۔ چیزوں کے سمجھنے سے پہلے ان کے نام اپنی توتلی زبان سے رٹتا، بے سمجھے لوریوں کی کڑیاں دہراتا اور گیت گاتا ہے۔ پھر ہوش پاتے پاتے ان بولوں کے معنی مطلب جاننے لگتا ہے۔ اللہ میاں نے آدم کو برے بھلے کی تمیز اور روحانی و مادی علوم کی تعلیم سے پہلے جس چیز کی تعلیم دی وہ، اسماء تھے۔ دوسرے لفظوں میں بولی یا زبان، جس سے فرشتے بے نصیب تھے، آدم کے آگے فرشتوں کا سجدہ شاید زبان ہی کا احترام تھا۔
علمائے نفسیات میں اختلاف ہے آیا بچہ زبان پہلے سیکھتا ہے اور عقل و شعور بعد میں نشوونما پاتے ہیں، یا عقل و شعور پہلے شروع ہوجاتے ہیں اور ان کے اظہار کی کوشش کے ساتھ زبان بعد میں آتی ہے۔ یہ گویا وہی سوال ہے کہ ’’مرغی پہلے یا انڈا پہلے؟‘‘
زبان اور تہذیب و تمدن
ان علما کی نفسیاتی موشگافیوں اور پیچیدہ اسباب و علل سے قطع نظر کرکے تواریخ اور واقعات کا مشاہدہ ہمیں صاف بتاتا ہے کہ قوموں کے عروج و زوال میں اور اسباب و محرکات کے ساتھ زبان کا دخل بھی بہت نمایاں ہے۔ کسی قوم کی زبان کا جیسے جیسے انحطاط ہوا ہے اسی نسبت سے اس کی تہذیب اور سیاسی اقتدار پر زوال آیا ہے۔
ایران میں سکندر اعظم کے حملے تک نہ ایک زبان باقی رہی تھی نہ ایک رسم خط۔ بقول نومسلم ایرانی عالم عبداللہ ابن المقفیع ایران میں پانچ جدا جدا زبانیں اور سات مختلف رسم خط ملے جلے جاری تھے۔ ہر طبقہ کی زبان علیحدہ علیحدہ تھی۔ جس پہلوی میں ژند لکھی گئی تھی اس میں کم سے کم ایک ہزار الفاظ ایسے تھے کہ لکھے تو جاتے ارامی زبان میں اور پڑھے جاتے پہلوی میں، جیسے ہم لیرا کے (L) کو پونڈ اور ڈینارس کے (d) کو پینس پڑھتے ہیں۔ نظام الملک طوسی چھٹی صدی عیسوی کے آغاز میں ایران ایک مشہور مدعی نبوت مزوکؔ کا قول نقل کرتا ہے کہ ’’قوم ژنداوستا کے معنی بھول گئی ہے میں اسے دوبارہ بتانے اور واضح کرنے کو بھیجا گیا ہوں۔‘‘ موبد، زرتشی پیشوا، کہا کرتے تھے کہ ژندادستا میں ایسی عبارتیں ہیں جن کے ایک ایک کے دس دس معنی ہیں اور ہر موبد ایک ایک معنی کی بیس بیس شرحیں اور تاویلیں کرتا ہے۔ 1 (۱)
اس نکتہ کو پروفیسر براونؔ نے عہد اسکندری میں ایران کے زوال کے تذکرہ میں ایک مثال سے واضح کیا ہے، جو نہایت بصیرت افروز ہے۔ فرماتے ہیں،
’’یہاں ایک سوال پیداہوتا ہے، آیا کسی قوم کی زبان اور اس کے سیاسی اقتدار کے زوال میں کوئی باریک علاقہ ہے؟ میں نے انگریزی زبان کے ماہر ادیبوں کو اکثر یہ کہتے سنا ہے کہ جنگ ہیسنگز (۱۰۶۶ء) میں انگریزوں کی نارمن حملہ آوروں کے مقابلے میں کامل شکست اور مغلوبیت سے پہلے ہی قدیم انگریزی زبان اینگلو سیکسن صرفی و نحوی قواعد سے صحیح و سلامت باقی نہ رہی تھی اور زوال پذیر ہوچکی تھی۔ قدیم انگریزی زبان کے متعلق صورت واقعہ جو کچھ بھی ہو، قدیم ایرانی زبان کے متعلق اس حقیقت میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ اس کے کتبات اور نقوش میں صیغوں تک کی غلطیاں موجود ہیں۔ زبان کے ساتھ ساتھ دین و مذہب کے زوال کی علامات بھی نمایاں نظر آتی ہیں۔ اہوراؔ مزدا (یزدان) جو پہلے خدائے واحد تھا، اسی کے ساتھ اور معبود خورشید و زہرہ شریک ہوجاتے ہیں۔‘‘ 2 (۲)
اسلام کے ظہور کے وقت عرب کے اخلاق بیشک گرچکے تھے، مگر اس کی فصیح زبان کے ساتھ آزادی کی غیرت و حمیت اورشجاعت باقی تھی۔ قرآن مجید اور پیغمبر اسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام کے معجزے اپنی جگہ پر برحق ہیں، مگر اس تاریخی حقیقت سے بھی انکارنہیں کیا جاسکتا کہ جب تک عربوں کی زبان خالص رہی ان کے فتوحات بڑھتے رہے۔ ان کی زبان اور سیاسی اقتدار کا زوال ساتھ ساتھ رونماہوا۔ عہدِ عباسیہ کے تکلفات، عیش و جشن او رعلوم و فنون لطیفہ کی چمک دمک پر نہ جاؤ۔ عربوں کی حربی طاقت، دینی استحکام اور سیاسی اقتدار اصمعیؔ اور ابونواسؔ تک نویں صدی عیسوی تک بہت کچھ برقرار رہا، دسویں صدی عیسویں کے وسط تک المتبنی پر زوال پذیر، اور بارہویں صدی عیسوی کے آغاز میں الحریری کی وفات پر ہلاکو خاںؔ کی تاخت سے ایک صدی پیشتر ہی ختم ہوچکا تھا۔ پھر مشرق میں جو صبح طلوع ہوئی وہ عجمی زبان اور تہذیب کے سورج کی کرنیں تھیں۔
ہندوستان پر محمد غوریؔ کے حملے سے بہت پہلے ہی ملک میں بول چال کی زبان نہ سنسکرت ہی باقی رہی تھی نہ کوئی ایک بھاکا۔ اکبرؔ کے وقت تک زبان کا یہ نقص قائم رہا، اور ساتھ ہی ہندو تہذیب کا انحطاط۔ اس کے بعد ہی برج بھاشا یا اردو کی پیدائش سے ہندوؤں کی تہذیب و تمدن نے نیا جنم لیا اور ان میں نئی جان ڈال دی۔
ان مشاہدات تاریخی سے ایسے اصحاب کو آنکھیں کھول لینا چاہیے جو اب تک مادری زبان کی اہمیت اور قدر و قیمت سے بے خبر ہیں۔ اور مغربی تہذیب و تمدن اور بدیسی حکومت میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینے یا دنیاوی ثروت حاصل کرنے کے ہوکے میں صرف سرکاری زبان کی مہارت ضروری سمجھتے اور اعلیٰ ڈگریوں پر مادری زبان کو بھینٹ چڑھاکر بچوں کے منہ میں ان کے گہواروں ہی سے انگریزی زبان ٹھونسنے اور ماؤں کے دودھ کے ساتھ حلق سے اتاردینے کی دھن میں لگے رہتے ہیں۔
جاپان نصف صدی کی قلیل مدت میں وحشت و جاہلیت کی گھٹاٹوپ اندھیریوں سے نکل کر اعلیٰ ترین تہذیب و تمدن کی اس روشن وادی میں جانکلا جہاں تک ہندوستان کو دوصدی کی مغربی تعلیم کے بعد رسائی میسر نہ آئی۔ اور یہ مغربی علوم و فنون کے تراجم سے مادری زبان کے صدقے میں ممکن ہوا، نہ کہ مغربی زبانوں سے۔
ہندوستان اور زبان
تعلیمی ترقی کا یہ مسئلہ بدنصیب ہندوستان کے لیے زیادہ پیچیدہ بن گیا ہے۔ یہ غدار خطہ دنیا مختلف الالسنہ، مختلف المذاہب، مختلف النسل ملکوں کا مجموعہ، ایک بدیسی نظام حکومت کی بندھنوں میں جکڑاہوا، ایک واحد ملک بن گیا ہے۔ ان اختلافات سے حکمرانوں کا تو کچھ نہیں بگڑتا بلکہ بنتا ہے، کہ انہیں کے سہارے حاکمانہ بندھنیں آج تین صدیوں سے مضبوط ہیں۔ جو کچھ بگڑتا ہے وہ خود ہمارا۔ جو ملک زبان، مذہب، نسل، کسی ایک نقطہ پر متحد نہ ہو اس کی بندھنیں تین صدی کیا تین ہزار برس بھی نہ ٹوٹیں تو تعجب نہیں۔ ہندوستان کو تہذیب و تمدن کی ترقی اور سیاسی آزادی کی خاطر کسی ایک نقطہ پر متحد ہونا ہے اور وہ موجودہ حالات میں زبان کے سوا کوئی اور نہیں ہوسکتا۔
اردو
سوال یہ ہے کہ وہ زبان کون سی ہو؟ شکر ہے کہ ہمارے مدبرین بالا جماع اس نتیجے پر تو پہنچ گئے کہ ہندوستان کے طول و عرض کے لیے ایک واحد زبان صرف ہندوستانی یا ہندوستانی اتھوا ہندی یا اردو ہی ہوسکتی ہے۔ جھگڑے صرف دو رہ جاتے ہیں۔ اس زبان میں عربی، فارسی، سنسکرت الفاظ کا تناسب کیا ہو اور رسم خط کیا؟ یہ عارضی اور ضمنی جھگڑے ہیں، جن کا فیصلہ الفاظ اور رسم خط کی طاقت، سہولت اورضرورت بقائے اقوا کے ماتحت اپنے وقت پر آپ کرلے گی۔ اس انقلابی دور میں سنسکرت الفاظ اور رسم خط کے علم بردار اپنے جھنڈے اڑایا کریں اور فارسی، عربی الفاظ کے شیدائی اپنی آن پر اَڑے رہیں۔ جب انقلابی گرد و غبار چھٹے گا، مفاہمت و اعتدال رونما ہوگا تو فتح حق ہی کی ہوگی۔ ہندوستان بھر میں تھیٹروں اور آوازی سینماؤں کی زبان اس حقیقت کی آپ شاہد ہے۔
اردو اور تہذیب
اردو کی ہمہ گیری اور طاقت کے متعلق مجھے مسلمان بھائیوں کے سامنے ایک جغرافی حقیقت پیش کرنے کی جراَت ہوتی ہے، جو زبان کی طاقت کے متعلق معروضہ بالا تاریخی نکتہ سے کم عجیب و بصیرت افروزنہیں۔ وہ یہ ہے کہ ہندوستان بھر میں مسلمانوں کی قومی تہذیب و تمدن کے ناچنے کا کوئی آلہ ہوسکتا ہے تو وہ اردو ہے۔ صوبہ سرحد و کشمیر سے راس کماری تک اور کراچی اور بمبئی سے آسام تک ہندوستان کے طول وعرض کا جائزہ لیجیے۔ آپ ہر جگہ کم سے کم تاریخی شہروں میں مسلمانوں کی ثانوی زبان اور بہتیری جگہوں میں مادری زبان اردو پائیں گے۔ پنجاب نے تو اردو کو مادری زبان کی حدتک اپنا لیا ہے۔ دکن، مدراس اور بنگال کے تمام پرانے یا تاریخی شہروں میں مسلمانوں کی مادری زبان بیشتر اردو ہی ہے۔ صرف یہی نہیں جو مسلمان جس تناسب سے بہتر اورصحیح اردو بولتے ہیں، اسی تناسب سے ان کی تہذیب بلند ترہے۔ مرکز اردو سے نیچے اترچلیں، صوبہ متحدہ کے مشرقی اضلاع بنارس اعظم گڑھ، گورکھپور، بلیا، مرزا پور، پھر بہار میں درجہ بدرجہ پٹنہ، گیا، مظفرپور، بھاگلپور، پورنیہ، پرولیہ، پھر بنگال میں کلکتہ، مدناپور، مرشدآباد، ڈھاکہ، چاٹگام، اور مغربی و مشرقی بنگال کے ان مسلمانوں کی جو اردو سے کم آشنا ہیں۔ تہذیب و تمدن کے فرق پر غور کریں، جو اردو مرکز سے جس قدر دور ہے، کم سے کم روایات ملی اور تہذیب روحانی و اخلاقی میں اسی قدر پیچھے ہے۔ ان خطوں سے سرکاری ملازموں کے سوا نہ کوئی سیاسی لیڈر پیدا ہوتا ہے نہ واعظ نہ مصلح نہ مصنف۔ آئے دن شمالی ہند سے ایک چالاک گنوار اٹھتا ہے اور بنگال، مدراس، بمبئی، ملابار، آسام میں اپنی روحانی پیشوائی کے جھنڈے گاڑتا، جیبوں پر چھاپے مارتا، پاؤں پجواتا اور چین سے ڈنڑ پیلتا ہے۔
عام تہذیب و شایستگی کے لحاظ سے ہندوستان بھر کے ہندو بھائیوں پر بھی کم و بیش یہی قانون اثرانداز ہے۔ ہندو تہذیب کا مدار اگر سنسکرت پر ہے تو اس مرحومہ کی بڑی بیٹی ہندی ہی اب گھرانے کی سردار ہے جس سے کوئی ہندو فرزند بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ اور ہندی اردو سے جدا کوئی زبان نہیں۔ الغرض اردو یا ہندی کی خدمت ہر مسلمان اور ہندو کے فرائض میں سے ہے۔ اور اس سے جی چرانا اپنی ملی، تہذیبی اور سیاسی موت کو قریب تر کرنا۔
صوبہ جاتی اردو
یہا ں ایک اور خطرناک غار سے متنبہ کردینا فرض سمجھتا ہوں۔ اردو کی محبت کے زعم میں یا فصحائے زبان کی گرفت سے گھبراکر بعض غیرمرکزی صوبے مثلاً پنجاب اور بہار کے منچلے نوجوان بگڑ کھڑے ہوتے ہیں۔ ’’ہم لکھنؤاور دہلی کی غلامانہ تقلید کیوں کریں؟ اردو ہماری بھی مادری زبان ہے اور ہم نے اس کی بڑی خدمت کی ہے۔ ہمارے محاورات اور ترکیبیں غلط کیوں قرار دی جائیں؟ ہمارا حق پہنچتا ہے کہ اردو کچھ ہمارے تحفے بھی قبول کرے۔‘‘
یہ بالکل سچ ہے۔ اردو نہ دہلی لکھنؤ اور نہ کسی صوبے کا مال ہے، نہ ہندو مسلمان یا کسی فرقے کی مِلک۔ یہ ہندوستان کی اجمالی ملکیت ہے اور سب کاحق برابر۔ مگر اس حقیقت کو بھی بھولنا نہ چاہیے کہ ہر ملک میں ایک مقامی بولی عام بول چال کی ہوتی ہے، اور پراسرار قدرتی طور پر خطہ خطہ میں قدم قدم پر اس کے محاورات، اصطلاحات اور لب و لہجہ میں فرق ہوتا چلا جاتا ہے، ایک کاروباری اور بازاری روزمرہ ہوتاہے، ایک عورتوں اور بچوں کا محاورہ، اور ایک زبان ادبیات کی ہوتی ہے جو ملک بھر میں جہاں کہیں مستعمل ہو ایک ہی ہوتی ہے اور ہونا چاہیے، ورنہ علمی مقصد کے لیے زبان ناقص اور کمزور ہوگی۔ جہاں تک صوبہ جاتی خصوصیات کا تعلق ہے وہ قدرتی طور پر مقامی بول چال میں باقی رہیں گی، گو مکروہ تر یہی ہیں۔ علمی زبان کے لیے ایک واحد معیار اور مرکز ضروری ہے۔ خواہ وہ لکھنؤ دہلی ہو یا لاہور، حیدرآباد، عظیم آباد، جس پر اجماع ہوجائے۔ یہ اجماع مرضی اور ارادے پر موقوف نہیں۔ فیصلہ قدرت کرتی ہے، واقعات اور تاریخ کے ماتحت۔ دہلی اور لکھنؤ والوں نے اردو کے بچے کو دکن سے اجاڑ کر اپنے گھر آپ نہیں بسایا، نہ کوئی ڈھنڈورا پیٹا کہ آج سے ہم کو اردو کا مرکز سمجھو۔ مہاجرت وطن کی طرح انتقال زبان قانون ارتقا کے ماتحت وقوع پذیر ہوتا ہے۔ اشخاص یا اقوام زبان یا اس کا مرکز نہیں بنایا کرتیں، نہ ضرورت ہے۔ پھر صوبہ صوبہ میں ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں بنا بناکر مذاہب کی طرح زبان میں بھی تشتت اور فرقہ بندیاں کسی متحد قوم اور تہذیب کی تعمیر کے لچھن تو نہیں، بلکہ پیش خیمہ ہیں اسی تہذیبی و سیاسی زوال کا جو قدیم ایران کے زبان کے ساتھ وقوع پذیر ہوا۔
ہمارے لیے صرف یہی کافی نہیں کہ کسی نہ کسی ڈھنگ کی لنگڑی ٹولی اردو گھسیٹے چلے جائیں، بلکہ بہتر اور بلندتر تہذیب و شایستگی کی خاطر مشق اور کاوش سے تندرست و توانا، صحیح اور فصیح اردو کو مادری زبان بنائیں اور اسے سجائیں۔ کون کماست سپوت پسند کرتا ہے کہ سماج کی سبھا میں اس کی ماں گنوارنی کی حیثیت سے چیتھڑوں میں دکھائی دے، اور اس پر انگلیاں اٹھیں۔
کوئی کہے، ’’وہ آگئیں پنجابن بوا ہم نے جن کو ملنا تھا۔ انگریزی میں بہت ہوشیار ہیں۔ میں نے سمجھا ہوا تھا وہ ضرور آئیں گی۔ سناؤ جی بوا۔‘‘
کوئی کہے، ’’تجھے دیکھتا نہیں؟ وہ آگئیں پچھاں سے بڑی تائی۔ آپ چائے پیوگی؟ مجھ سے تکلف نہیں آتا اپنا گھر سمجھیے۔‘‘
کوئی کہے، ’’وہ آگئیں احمد کی بہاری ڈیڑھ ساس سموچے بندھنے کے شامل۔ قلی اسباب کدھر رکھسِن؟ ابھی آپ چائے نہیں پیا؟‘‘
کوئی کہے، ’’وہ آگئیں بنگالن بھابی جن کو ہم کبھی نہ دیکھے تھے۔ آپ کا چیز سب ادھر رکھوادیجیے۔‘‘
کوئی کہے، ’’وہ آگئیں دکنی خالہ۔ میں کہتوں چائے ہوناپان ہونا۔ میں بلاتوں تونکو کرکے کاہے کو بولنا؟‘‘
اردو کے فرزند اگر دنیائے ادب میں بھی ان بھانت بھانت کی بھاکھاؤں اور اپنے اپنے مقامی محاوروں اوراصطلاحوں پر اڑبیٹھیں تو یہ علمی زبان بننے سے رہی۔
ترقی کے ذرائع
اردو ذریعہ تعلیم
خیالات فطرتی طور سے مادری زبان میں نشوونما پاتے ہیں، اس لیے تعلیمی نقطۂ نظر سے ذہنی ترقی کا سب سے بڑا ذریعہ ملکی زبان میں تعلیم ہے۔ اس فطری قانون کو توڑ کر بچوں پر آغاز شعور سے غیرزبان میں سوچنے کا بار ڈالنا ذہنی قتل سے کم نہیں۔ صدیوں سے ہمارے فرمانرواؤں نے بدیسی زبان کو ذریعہ تعلیم قرار دے کر ہماری تخئیل و فکر کا میدان تنگ اور قوائے ذہنی کو کند بنارکھا ہے۔ موجودہ صدی کی ابتدا میں لارڈ کرزن نے مڈل تک دیسی زبانوں کو ذریعہ تعلیم قرار دیا۔ مگرنیک نیتی سے کبھی اسے کامیاب بنانے کی کوشش نہ کی گئی۔ چالیس سال کی طویل مدت میں مڈل تک دیسی زبانیں ذریعہ تعلیم رہنے کے باوجود ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے ان کو استعمال کیا گیا نہ تجربہ۔ آج تک یہ بہانہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے دیسی زبانوں میں موزوں کتب نصاب مہیا نہیں۔ یہ مہیا ہوتیں کیونکر؟ حکومت کی سرپرستی یا حوصلہ افزائی ہوتی تو چالیس سال میں کم سے کم چالیس سو کتب نصاب دیسی زبانوں میں تیار ہوجائیں۔ دوسری طرف سرکار نظام حیدرآباد نے دس برس میں سائنس، فلسفہ، ریاضی، معاشیات اور قریب قریب تمام علوم و فنون کی اردو زبان میں اعلی ٰتعلیم کے لیے مکمل نصاب بناکر رکھ دیے اور جاری کردیے۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ جامعہ عثمانیہ گھٹیا قسم کے گریجویٹ پیدا کرتی ہے، جب کہ اس کے فارغ التحصیل طالب علم نے طبیعیات میں دنیا کا سب سے بڑا انعام نوبل پرائز حاصل کیا اور کتنے یورپ سے ڈاکٹریت کی شاندار ڈگریوں سے فائز ہوئے۔
جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے، جاپان اپنی زبان میں تراجم ہی کے ذریعہ سے نصف صدی کی قلیل مدت میں وحشت و جہالت کی تاریکی سے نکل کر ذہنی اور تمدنی ترقی کی اس بلند ترین منزل پر جاپہنچا جہاں وہ مغربی اقوام میں کسی سے پیچھے نہیں۔
تعلیم عوام
تعلیمی پالیسی میں اصلاح کا تعلق تو زیادہ تر حکومت سے ہے، جس پر زور ڈالنا ہمارے سیاسی مدبرین کا فرض ہے جسے وہ ایک حدتک انجام دے رہے ہیں۔ شخصی طور پر ہم اردو کی خدمت اور ترویج یوں انجام دے سکتے ہیں کہ انجمن ترقی اردو کے پروگرام کے مطابق تعلیم عوام کی تحریک میں زیادہ سے زیادہ حصہ لے کر، حتی المقدور زراعت پیشہ، مزدوری پیشہ اور اَن پڑھ مردوں اور لڑکوں کو جو مدرسہ نہیں جاتے نہ جاسکتے ہیں، اردو پڑھائیں۔ ہر شخص سال کا کچھ حصہ، کچھ دن یا رات کے چند گھنٹے اس خدمت کے لیے وقف کردے۔ یہ وہ خدمت ہے جو ہر مباحثہ، اشتہار و نمائش سے بے نیاز ہے، اور اتنا ارزاں کہ محلہ محلہ اور گاؤں گاؤں ایک یا چند اشخاص کی ادنیٰ سی توجہ و ایثار سے انجام پاسکتی ہے۔
نجی دفتر
دوسری خدمت زبان جو ہرشخص کے بس میں ہے، یہ ہے کہ اپنا نجی یا غیر سرکاری دفتر اپنی زبان میں رکھے اور بے ضرورت غیر زبانوں میں مراسلت نہ کرے۔
مشاعرہ
مشاعرہ اگرچہ فی نفسہ کوئی مفید ادارہ نہیں، بلکہ ہماری شاعرانہ ادبیات کو پستی میں ڈھکیلنے کا بہت کچھ ذمہ دار ہے، پھر بھی ان مقامات میں جو اردو میں پیچھے ہیں، ترغیب زبان اور کشش عوام کی خاطر مشاعرے قائم کیے جائیں اور نظم و نثر کے مضامین پڑھے جائیں، یہاں تک کہ مشاعرے توسیع و اصلاح کے بعد بزمِ ادب بن جائیں۔
اردو اکادمی
ملک بھر کے ہوا خواہانِ اردو کے مشترک سرمایہ سے مرکزی انجمن ترقی اردو، دہلی اپنی جدوجہد کے ایک اہم ترین شعبہ اردو اکادمی کا ذمہ لے، جس کی شاخیں ہندوستان کے مختلف حصوں میں انجمنوں کے ساتھ پھیلی ہوں۔ یہ بہترین تصانیف یا مضامین پرانعام تقسیم کریں، اور لائق مگر نادار مصنفوں کی تصانیف کی اشاعت کرکے ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ اردو ادبیات کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑا پتھر جو حائل ہے وہ اردو پریس کا افلاس ہے۔ غریب اردو پریس تجارتی بنیادوں پر چلائے جاتے ہیں اور نہیں چلتے۔ جن ادبیات میں ان کو زیادہ پیسے ملنے کی امید ہوتی ہے ان کی اشاعت کرتے ہیں، اور ٹھو س خشک علمی ادبیات مصنفوں کے بستوں میں پڑے موت کی نیند سوتے یا دیمک یا پنساری کی پڑیوں کی نذر ہوجاتے ہیں۔ اگر اپنی جان جی یا بیوی کے زیور بیچ کر آپ چھپوالے تو بقول غالب، ’’ایں می از قحطِ خریداراں کہن خواہدشدن۔‘‘ اردو دنیا کے مذاقِ علمی کی پستی اور تعلیمی افلاس کایہ عالم ہے کہ آج غزل اور افسانہ کے سواکسی صنف ادب کو قبول عام نصیب نہیں۔
اردو یا ہندوستانی کی ہندوستان گیری اگر ہمارا حوصلہ اور مقصد ہے تو دو اہم پہلو جن کو ہم نے پس پشت ڈال رکھا ہے پیش نظر رکھ لینا چاہئیں۔ ایک تو سادگی و سلاست، دوسرا املا۔
سادگی زبان
ہمیں آئے دن ہندو بھائیوں سے شکایت رہتی ہے کہ وہ ہندوستانی زبان میں سنسکرت عناصر کو زیادہ سے زیادہ داخل کرکے اسے مسلمانوں کے لیے اجنبی سی زبان بنائے دیتے ہیں۔ مگر یاد رکھیے کہ ہندوستانی زبان ابھی معرضِ تعمیر میں ہے۔ کوئی ایسی زبان قیامت تک ہندوستان جیسے مختلف النسل و مختلف المذاہب ملک کی قومی، تہذیبی یا تعلیمی زبان نہیں بن سکتی۔ جو عام فہم نہ ہو۔ اس لیے آپ یقین رکھیے کہ نہ ہندو بھائیوں کی سوامیانہ ہندی اس غرض کے لیے کامیاب ہوسکتی ہے، نہ ہماری مولویانہ اردو۔ وہ یہ غلطی کرتے ہیں تو اسے بھگتگیں گے، ان کے شگون کے لیے ہم اپنی ناک کیوں کٹائیں؟ ہمیں یہ کوشش جاری رکھنا چاہیے کہ ہماری زبان میں سنسکرت، فارسی، عربی، انگریزی کے عناصر اس اعتدال سے داخل ہوں جیسے نباتات میں نائیٹروجن، کاربن، ہائیڈروجن، آکسیجن، کیلشیم، پانی میں آکسیجن ہیڈروجن اور ہوا میں آکسیجن کاربن نائیٹروجن وغیرہ۔ پھر کوئی وجہ نہیں کہ ایسی اردو ملک بھر میں سنسکرتی ہندی کی جگہ نہ لے لے اور سوامی جی دیکھتے کے دیکھتے نہ رہ جائیں۔ ورنہ اگر ان کی ضد پر ہم بھی مولویانہ اردو پر اَڑ جائیں تو وہی ذہنی اور سیاسی غلامی ہمارا حصہ رہے گی جو آج ہمارا طوق گلو ہے۔
املا
اردو تحریر میں املا کی دشواری، الف عین، تے طوئے، زے ذال، ضاو ظوئے، کے باریک اور مشکل امتیازات عربی رسم خط سے ناآشنا مثلاً بنگالی، سندھی، مرہٹی اور تامل قوموں کے لیے ناقابل عبور گھاٹی ہے۔ اگر آپ اردو زبان کے ساتھ اردو رسم خط کو بھی ہندوستان گیر بنانا چاہیں تو اس چٹان کو کاٹ کر راستہ بنانا ہوگا۔ اس کی تدابیر میں سے ایک فوری تدبیر یہ ہے کہ دوطرح کے املے جاری کیے جائیں، ایک موجودہ علمی املا، دوسرا بین الاقوامی کاروباری، جس میں یکساں آواز کے مختلف حرفوں کو کاٹ چھانٹ کر ایک سی آواز کے لیے ایک ایک ہی حرف اختیار کرلیاجائے۔ مثلاً مطابق تے سے لکھا جائے، تقاضا، انتظام اور ذلت زے سے۔ بے شک یہ طرز املا ہمیں ویسا ہی ناآشنا اور ناپسندیدہ معلوم ہوگا جیسے پنڈت موتی لال اورجواہر لال نہرو کو اول اول انگریزی لباس اتارکر کھدر کی دھوتیاں اور کرتے، یا مس سلیڈ کو کھدر کی ساڑھی پہن کر چٹائی پر بیٹھنا۔ انقلابی دور میں ایسے کڑوے گھونٹ حلق سے اتارنا ہی پڑتے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ یہی ناگوار طرز املا اپنی سادگی اور سہولت کے زور پرہمارے عالمی املا کی جگہ لے لے۔ اور ہم اپنے عربی فارسی الفاظ کی مسخ شدہ ہیئت پر چھاتی پیٹتے رہ جائیں۔ گو ان میں میں نہ ہوں گا۔ مجھے اطمینان ہے کہ اس دور کو جسے تصور کی آنکھیں دیکھ رہی ہیں میری جسمانی آنکھیں نہ دیکھیں گی۔ اور جو آنکھیں دیکھیں گی وہ بتدریج انگریزی لباس کی جگہ کھدر کی دھوتیوں یا لنگوٹیوں کی طرح اس منظر سے خوگر ہوچکیں گی۔
طباعت
املا سے متعلق ایک مہتم بالشان پہلو اور بھی ہے۔ وہ دشواری طباعت ہے۔ مروجہ لیتھو گرافی اب اس قدر فرسودہ اور دستوں سے مملو طرز طباعت ہے جس کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ ایک حسین و جمیل اور باریک دست کاری کی حیثیت سے نستعلیق کی خطاطی کو کسی بڑے پیمانے پر پھیلاکر عام کرنا اور تجارتی پیمانے پر وسعت دینا کافی حوصلہ افزائی کے بغیر ناممکن ہے۔ پھر جہاں نئے جگ میں لاکھوں کی مانگ ہوگی مروجہ لیتھو میں بیک وقت دس بیس ہزار کاپیاں نکالنا ناممکن۔ غرض لیتھو کا جنازہ ڈھونا اس بیسویں صدی کے نازک کاندھوں کی قوتِ برداشت سے باہر ہے۔ نستعلیق کے ٹائپ جن کی تعداد اعراب چھوڑ کر دوسو کے قریب اور اعراب ملاکر تقریباً چھ سو، جملہ تعداد آٹھ سو کے لگ بھگ پہنچتی ہے۔ ایجاد کرنے کی کوشش کم سے کم تیس سال سے ناکام ثابت ہوچکی ہے۔
طباعت کے مسئلے صرف تین حل ممکن ہیں،
(۱) اگر خط نستعلیق کو قائم رکھنا ہے تو فرسودہ رسمی طریقوں کی بجائے فوٹو لیتھو گرافی کا جدید طریقہ ارزاں تجارتی پیمانے پر عام ہوسکے تو جاری کیا جائے۔ بعض مطابع میں اس کا آغاز ہوچکا ہے۔ اگر تجربہ کامیاب ہوا تو طباعت کامسئلہ حل ہے۔ رہی کتابت تو دیسی زبان اور علوم کی ترقی اور طباعت کی سہولت کے ساتھ کاتبوں کی مانگ اور قدر و قیمت بہت بڑھ جائے گی۔ اردو کتابت فنِ لطیف کے علاوہ ایک منفعت بخش پیشہ اور روزگار بن جائے گا۔ ہر سرکاری اور غیرسرکاری تعلیم گاہ میں، اور صنعتوں کے ساتھ، اختیاری فن کی حیثیت سے اردو خوش نویسی کی جماعتیں کھلوانا ہوں گی۔ یوں کاتبوں کی پیداوار سے اشاعت اردو کی ایک اقتصادی مشکل بھی بڑی حد تک حل ہوسکے گی۔
(۲) اگر فوٹو لیتھوگرافی کا تجربہ کامیاب نہ ہو تو اس کے سوا چارہ نہیں کہ اردو کے حروف متصل نہ رکھے جائیں اور جدا جدا حرفوں کے ٹائپ ڈھال کر ان کی ترتیب و ترکیب انگریزی کی طرح آسان کرلی جائے۔
(۳) اگر یہ صورت بھی پسند خاطر نہ ہو تو پھر آپ معاف فرمائیں، رومن رسم خط اختیار کرلیا جائے۔ یاں ہمارے ہندو بھائی سوال کریں گے کہ دیوناگری کیوں نہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اولاً اعراب حے خے، عین غین، قاف ذال ضاد طوئے ظوئے کی علامات کے اضافے کی دشواریاں یا باریکیاں دیوناگری میں بھی ہیں۔ دوسرے انگریزوں کی عمل داری تک انگریزی کی حرف شناسی ہر ہندوستانی کے لیے ضروری ہے، اس لیے رومن رسم اختیار کرلیا جائے تو ایک ہی وقت اور محنت میں دو مقصد حاصل ہوجائیں گے اور کسی نئے رسم خط کے سیکھنے سے بچے اور عوام نجات پائیں گے۔ اگرچہ اصولاً میں ہر اردو داں کے لیے دیوناگری کا سیکھنا نہایت فائدہ مند اور ضروری سمجھتا ہوں۔
متعدد زبانوں او ررسوم خط کے سیکھنے سے ہمیں گھبرانا نہ چاہیے۔ یورپ میں درجنوں زبانیں جاننے والے ماہرین السنہ سے قطع نظر کرکے، سدھارن طور پر کوئی تعلیم یافتہ شخص مشکل سے مل سکتا ہے جو کم از کم تین زبانوں سے واقف نہ ہو۔ ایک کلاسیکی یونانی یا لاطینی، ایک بریورپ کی فرانسیسی یاجرمن، ایک انگریزی جنوبی و مشرقی یورپ والوں کو ان سے بھی زیادہ زبانیں سیکھنا پڑتی ہیں۔ مسلمانوں کا تعلیم یافتہ طبقہ بھی عہدِ اقبال میں متعدد زبانوں میں ماہر ہوتا تھا۔ عام تہذیب و ماغی کے علاوہ خود اپنی مادری زبان کی توسیع و ترقی کا یہ بہت بڑا گرُ ہے۔
حاشیے
(۱) مفصل بحث ملاحظہ ہو راقم کے رسالہ ’’پارسی علوم اور اسلام‘‘ میں۔
(۲) تاریخ ادبیات ایران جلد ۱، باب۳، فصل۱۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.