Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دیوان غالب اور اردو غزل

مجنوں گورکھپوری

دیوان غالب اور اردو غزل

مجنوں گورکھپوری

MORE BYمجنوں گورکھپوری

     

    (اس مضمون کے کچھ ابتدائی پیرے آل انڈیا ریڈیو دہلی سے نیشنل پروگرام کے تحت ۴ فروری ۶۰ء کو نشر کئے جا چکے ہیں)

    میر کے بعد اور اقبال سے پہلے غالب ہی ایک ایسی شخصیت ہے جس کو عہد آفریں کہا جا سکتا ہے۔ وہ میر اور اقبال دونوں سے زیادہ قوی اور مؤثر شخصیت رکھتا تھا۔ اردو شاعری کی آنے والی نسلوں پر جیسا شعوری اور دیرپا اثرغالب کا رہا، میر کا نہیں رہا۔ اقبال کے شعری کردار کی تشکیل و تربیت میں موثرات کے ساتھ ساتھ غالب کا اثرایک نمایاں اور اہم حیثیت رکھتا ہے۔ غالب جس قدر اپنے زمانے کی مخلوق تھا اس سے بہت زیادہ نئے زمانے کا آفریدگار تھا۔ وہ ایک ایسی ہستی ہے جس کے ذہن کی تعمیر میں خارجی حالات واسباب کی غیر شعوری کارفرمائی جس قدر بھی رہی ہو، لیکن وہ کسی خاص تحریک کا نتیجہ نہیں تھا۔ وہ تاریخ کی فطری اور بیساختہ پیداوار تھا۔

    اردو غزل کی رفتار میں غالب ایک نیا رہنما ہے اور ’’دیوان غالب‘‘ ایک نیا موڑ۔ ڈاکٹر بجنوری نے ’’دیوان غالب‘‘ کو ہندوستان کی دوسری الہامی کتاب بتایا ہے۔ ہم بھی غالب کے کلام کو کچھ الہام ہی کی قسم کی تخلیق پاتے ہیں جیسا کہ دنیا کی تواریخ میں ہراس بڑے شاعر کا کلام ہوتا آیا ہے جس نے آئندہ نسلوں کو نئی آگاہیاں دی ہوں۔ لیکن اس کے لئے ضروری نہیں کہ وید مقدس یا کسی دوسرے مذہبی صحیفے کو دیوان غالب کے مقابلے میں لایا جائے اور نہ یہ دعوی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہ دوسری یا آخری الہامی کتاب ہے۔ اتنا کہنا کافی ہے کہ اردو شاعری میں غالب پیغمبر یا اوتار کے قسم کی ہستی ہے اور اس کا دیوان الہام کا حکم رکھتا ہے۔ خود غالب کو بھی یہ پندار تھا کہ اگر’’فن سخن‘‘ کوئی ’’دین‘‘ ہوتا تو یہ یعنی دیوان غالب اس ’’دین‘‘کے لئے ’’ایزدی کتاب‘‘ ہوتا۔

    غالب سے پہلے اردو غزل یاتو خالص جذبات اور اندرونی واردات کی شاعری تھی، یعنی اس میں داخلیت کا زور تھا اور اس داخلیت میں بھی انفعالیت اور سپردگی کی فضا چھائی ہوئی تھی، یا پھرجرأت اور مصحفی کی رائج کی ہوئی سطحی خارجی واقعیت اپنا رنگ جما رہی تھی لیکن سب سے زیادہ دبستان ناسخ کی دور ازکار مضمون آفرینی اور خواہ مخواہ کی لفظی زور آزمائی کو شاعری کے میدان میں قبول عام حاصل ہو رہا تھا۔ غالب نے اردو غزل کو ایک طرف تو مجہول داخلیت اور سطحی خارجیت دونوں کے تنگ دائرے سے نکال کر فطرت انسانی سے قریب کیا، دوسری طرف خود اپنی مشکل زبان اور پیچیدہ طرز بیان کے باوجود اس کو بڑھتی ہوئی لفظی جسامت کا شکار ہونے سے بچاکر اس کے اندر معنوی حجم پیدا کیا۔

    غالب سے اردو غزل میں فکروتامل کی ابتدا ہوتی ہے۔ وہ اردو کا پہلا شاعر ہے جس نے دلی واردات اور ذہنی کیفیات کو محض بیان کر دینے پر قناعت نہیں کی، بلکہ ہم کو ان پر مستفسرانہ انداز میں نظر ڈالنا اور غور کرنا سکھایا اور ان کے متعلق ہم کو نیا شعور دیا۔ دیوان غالب کے مطالعے سے ہم کو محسوس ہوتا ہے کہ شاعر کو آفرینش اور حیات انسانی کے تمام رموزو اسرار کا پورا ادراک حاصل ہے اور وہ ان کو بیک وقت بڑے حکیمانہ انداز و فنکارانہ سلیقہ کے ساتھ بیان کرنے کی قابلیت رکھتا ہے۔ اردو شاعری میں ’’دیوان غالب‘‘ کی سب سے بڑی دین یہی ہے۔

    اردو میں غالب کی آواز پہلی آواز ہے جو دل و دماغ کو مخاطب کرکے چونکاتی ہے۔ غالب کے اشعار احساس اور فکر دونوں کو چھیڑتے ہیں اور دونوں کو آسودہ کرتے ہیں۔ غالب کو اردو کا پہلا مفکر شاعر کہنا غلط نہ ہوگا۔ اس کے کلام کے مطالعے سے ہم کو یہ سبق ملتا ہے کہ انسان کی زندگی میں جذبات یا جذباتی سپردگی ہی سب کچھ نہیں، بلکہ ہم کو ہمت کے ساتھ اپنے تمام خارجی حادثات و حالات اور ذہنی کوائف و واردات کا جائزہ لینا چاہئے اور ان کی اصلیت پرعارفانہ عبور حاصل کرنا چاہئے۔

    یوں توغالب بھی غزل کا شاعر ہے اور غزل میں کوئی خاص فکری نصاب نباہنا مشکل ہے۔ لیکن ’’دیوان غالب‘‘ کو غور کے ساتھ پڑھا جائے تو یہ اثر ہوتا ہے کہ زندگی اور زندگی کے حقائق اور مسائل کے متعلق شاعرکا ایک واضح اور مستقل فکری میلان ہے جو استفسار وتفحص اور تفتیش و تامل کا نتیجہ ہے۔ غزل کے مزاج کا خمیر عشق سے ہوا۔ حسن اور عشق اور دونوں کے باہمی رابطے اور معاملے غزل کے اساسی اور مستقبل ترکیبی عناصر ہیں۔ غالب کے کلام میں بھی یہ عناصر حاوی اور نمایاں ملیں گے۔ مگر یہ اس لئے کہ یہ غزل کا اصلی مزاج اور اس کا ناموس ہے، اور’’بادہ و ساغر‘‘ کہے بغیر یہاں بات بن نہیں پاتی ورنہ غالب درحقیقت زندگی کا شاعر ہے۔

    وہ محبت کا راگ اس لئے گاتا ہے کہ محبت بھی زندگی کا ایک فطری اور لازمی میلان ہے۔ مگر حسن اور عشق کے میدان میں بھی غالب کا انداز مجتہدانہ ہے۔ وہ حسن کی برتری کو تسلیم کرتے ہوئے عشق کے وقار اور اس کی عظمت کا قائل ہے۔ دیوان غالب میں اس عنوان سے متعلق جتنے اشعار ہیں، ان کے تیور سے ظاہر ہوتا ہے کہ عاشق و معشوق شریک ازلی ہیں اور دونوں اپنا اپنا منصب اور اپنا اپنا مقدر رکھتے ہیں۔ غالب نے کبھی کھلے الفاظ میں تو یہ نہیں کہا ہے لیکن معشوق سے وہ اکثر جس معنی خیز طنز اور بلیغ شوخی کے ساتھ خطاب کرتا ہے اس کا پیغام یہ ہے کہ معشوق کا مقام اپنی جگہ مسلم، لیکن عاشق بھی اپنی ایک حیثیت اور ایک حرمت رکھتا ہے اور اس کی انسانی فطرت کے بھی کچھ مطالبے ہیں۔ غالب کے اشعار کا موضوع چاہے عشق ہو چاہے زندگی کا کوئی اور نکتہ، ان سے بہرصورت اردو شاعری کو جرأت فکر اور جرأت اظہار کا سبق ملا ہے۔

    ’’دیوان غالب‘‘ نے ہم کو صرف نئے زاویوں اور نئے انداز سے محسوس کرنا اور سوچنا نہیں سکھایا بلکہ اظہار کا نیا سلیقہ بھی بتایا۔ اسلوب بیان میں بھی غالب اپنا انفرادی مقام رکھتا ہے۔ وہ محض فکر ونظر کا مجتہد نہیں ہے۔ اس کا ’’انداز بیان‘‘ بھی ’’اور‘‘ ہے۔ وہ افکار اور الفاظ کے درمیان مکمل آہنگ کا قائل ہے۔ اس کے اسلوب میں بیک وقت منطقی ترتیب اور جمالیاتی تہذیب کا احساس ہوتا ہے۔ الفاظ ہوں یا تشبیہات واستعارات، وہ ان کو بڑی حکیمانہ فرزانگی اور بڑے حسن کارانہ قرینے کے ساتھ استعمال کرتا ہے۔ دیوان غالب میں مشکل سے دوچار اشعار ایسے نکلیں گے جو اپنی تمام تہ درتہ بلاغتوں کے ساتھ حسن صوتی سے خالی ہوں۔

    غالب جس وقت نامانوس سے نامانوس الفاظ یا لفظی تراکیب یا اجنبی سے اجنبی تشبیہات واستعارات سے کام لیتا ہے اس وقت بھی وہ حسن آہنگ کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ اس کے اشعار آسان ہوں یا مشکل یا ہمارے خیال میں بالکل مہمل، لیکن وہ کم سے کم ایسے تو ہوتے ہی ہیں کہ نازک سے نازک سا زپر گائے جا سکیں۔ ’’دیوان غالب‘‘ کا ہر مصرع بقول ڈاکٹر بجنوری ’’تاررباب‘‘ ہوتا ہے۔ پھر یہ موسیقیت محض لفظی اور سطحی نہیں ہوتی بلکہ اس کے اندر معنوی گہرائی کا احساس ہوتا ہے۔ ایسی بلیغ اور بے خلل موسیقیت غالب کے بعد صرف اقبال کو نصیب ہو سکی۔

    یہ ہے وہ ترکہ جو ’دیوان غالب‘ سے بعد کی نسلوں کو ملا۔ آج غالب نہ ہوتا تو ابھی حالی اور اقبال کی متوازن، سنجیدہ اور زندگی سے آنکھیں ملا سکنے والی شاعری کے وجود میں آنے میں نہ جانے کتنی دیر لگتی اور ہماری اردو شاعری موجودہ منزل تک نہ جانے کب پہنچتی۔ سینٹسبری نے ایک موقع پر کہا ہے کہ’’ کیٹس نے ٹینی سن کو پیدا کیا اور ٹینی سن نے باقی تمام شعرا کو۔‘‘ ہم بھی کہہ سکتے ہیں کہ غالب نے اقبال کو پیدا کیا اور اقبال نے بعد کے تمام اردو شعراء کو۔

    مأخذ:

    ادب اور زندگی (Pg. 312)

    • مصنف: مجنوں گورکھپوری
      • ناشر: اردو گھر، علی گڑھ
      • سن اشاعت: 1984

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے