Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دو بچیاں جناب

مہر افشاں فاروقی

دو بچیاں جناب

مہر افشاں فاروقی

MORE BYمہر افشاں فاروقی

    اتنی غیرمعولی شخصیت کے بارے میں لکھنا اور وہ بھی باپ رے باپ! خیر یہ جان کر قلم اٹھانے کی جرأت کی کہ آپ سب مجھ سے محض ایک بیٹی کے تاثرات کی امید رکھتے ہوں گے اور اس طرح میرا کام نسبتاً آسان اور ایک حدتک دلچسپ بھی کہا جاسکتا ہے۔ کاش مجھ میں ادبی صلاحیت ہوتی۔ بہرحال اردو میں لکھنے کی بسم اللہ کا اس سے اچھا موقع کیا ہوگا۔

    پانچ۔ چھ سال کی عمر تک میں اپنی ماں کے ساتھ نانا نانی کے ہاں رہی۔ وہاں میں اپنے خالہ اور ماموں وغیرہ کی دیکھا دیکھی (سناسنی) اپنی ماں کو آپا اور والد صاحب کو بھائی بلانے لگی۔ بھائی دراصل بھائی صاحب کا سہل طفلانہ ورژن تھا۔ ان دنوں بھائی الہ آباد میں نہیں بلکہ ناگپور، گوہاٹی اور ہندوستان کے دوردراز علاقوں میں پروبیشنر کی ٹریننگ پر تھے۔ مجھے یاد نہیں کہ میری اس بات پر کسی نے ممانعت کی ہو اور لفظ بھائی زبان پر ایسا چڑھا کہ میری چھوٹی بہن باراں (جو عمر میں مجھ سے کافی چھوٹی ہے اور جس نے آپا کو تو امی میں تبدیل کردیا) نے بھائی کو بھائی ہی کہا۔

    مزے کی بات یہ ہے کہ ہم صرف دو بہنیں ہیں اور اگر کوئی بھائی بھی ہوتا تو وہ بھی غالباً یہی بلاتا۔ اب ہمارے بچے اپنے نانا کو بھائی ہی کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ غرض کہ بھائی کہنے میں جو بے تکلفی کا احساس ہوتا ہے وہ واقعی ہمارے اور بھائی کے درمیان قائم ہونا ممکن قرار پایا۔ اس بے تکلفی میں بے ادبی کا کوئی عنصر کبھی نہ تھا، ان کا رُعب اور دبدبہ گھر میں باقاعدہ تھا اور ہے بس ماحول میں ایک کشادگی ہمیشہ رہی جس پر ہمیں ناز ہے۔

    بھائی کی ایک خصوصیت جو سب سے پہلے ذہن میں آتی ہے وہ ان کی نرم دلی ہے۔ رونا ان کو بالکل برداشت نہیں ہے۔ کوئی بھی ہو، کسی کا بھی دکھ ان سے دیکھا نہیں جاتا۔ دنیا کی سارے مخلوق سے انہیں محبت ہے۔ چڑیا، تتلی، خرگوش، بلی، کتاب، مچھلی شیر، چھوٹے سے چھوٹا بڑے سے بڑا۔ ہمارا گھر چڑیاگھر اور کتب خانے کا ملاجلا نشیمن ہے۔ گلہری، کچھوے، طوطے، مور اور نام بھی ان کے ایسے دلکش: جانِ عالم، نازنین، شیرین، بادل، بجلی اور جانے کیا کیا۔ پھول، پیڑ اور قسم قسم کے پودے جیسے ناگ پھنی سے ان کو بے حد رغبت ہے۔ ناگ پھنی کے نادر اور نادار رنگت والے پھولوں کو سراہنا میں نے بھائی سے سیکھا۔ جب بھی کوئی نیا پھول کھلتا ہے وہ مجھے خاص کر دکھلاتے کچھ ناگ پھنی کے پھول سال میں ایک ہی دفعہ کھلتے ہیں۔ بچپن کے وہ لمحے مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہیں۔ مجھے سخت حیرت ہوتی تھی کہ کیسے اتنی معمولی شکل والے پودے سے اتنا حسین پھول کس طرح جنم لیتا ہے۔ میں اور بھائی اب بھی ان پھولوں کا مل کر لطف اٹھاتے ہیں۔

    ہم بچوں کو بھائی چڑیاگھر کی خوب سیر کرایا کرتے۔ لکھنؤ اور دلّی کے چڑیاگھروں کا ہم نے چپہ چپہ دیکھا ہے بھائی کے ساتھ جانوروں کے حسن کو پہچاننا اور ان سے محبت کرنا ہم نے بھائی سے سمجھا۔

    چڑیوں اور جانوروں سے بڑھ کر کوئی شوق بھائی کو ہے تو وہ کتابیں خریدنے کا ہے۔ کتاب کی دوکان میں بھی بھائی ایک دفعہ گئے تو کئی گھنٹوں کی فرصت ہوئی سمجھیے۔ ظاہر ہے کہ خود تو وہ کتابیں خریدتے ہی ہیں ہمیں بھی نئی نئی کتابیں دلاتے ہیں۔

    بھائی کی علمیت اور علم دوستی سے استفادہ ہم سب کو یونہی نہیں بلکہ خاص کر بھائی کی محبت اور شفقت کی وجہ سے نصیب ہوا۔ گرمی کی چھٹیوں میں میر، غالب، سودا، شیکسپیر، ملٹن، خالق باری اور حروف ابجد، اردو، فارسی، اسکول میں نہیں ہم نے گھر پر بھائی سے پڑھی۔ گھر میں رشتہ کے بھائی، بہن، چھوٹے چچا، پھوپھی بھی اکثر پکڑ کر بیٹھائے جاتے۔ پڑھانے کے معاملات میں میری ماں قدم بہ قدم شامل رہتیں۔ کوئی ہاتھ نہ آتا تو ملازمہ کی بیٹی کو وہ پڑھانے بیٹھ جاتیں۔ ہماری تو گرمی کی چھٹیاں ہوتی تھیں لیکن بھائی کو تو دفتر جانا رہتا تھا۔ اس کے علاوہ بھی ظاہر ہے بہت مصروفیات تھیں اس لیے صبح چائے پینے سے لے کر ڈاڑھی بنانے تک بھائی پڑھایا کرتے تھے۔

    میں پانچویں جماعت میں تھی اور قومی آواز کا اداریہ مجھے روز صبح بہ آواز بلند پڑھنا ہوتا تھا۔ میں اکثر رات کو دعا مانگتی کہ صبح اخبار نہ آئے۔ برصغیر، بین الاقوامی وغیرہ یہ الفاظ مجھ سے بمشکل پڑھے جاتے۔ جب دیوانِ غالب کی باری آتی تو میں اشعار خوب موزوں پڑھتی جس سے بھائی بے حد خوش ہوتے۔ افسوس کہ جب وہ اشعار کی تشریح کرتے اور معنیٰ کی باریکیاں سمجھاتے، میں اکتانے لگتی۔ عمر کے لحاظ سے سبق ذرا مشکل ہوا کرتا تھا۔ بہرحال ڈانٹ اور چپت بھی پڑتی۔

    انہیں دنوں میں ہمارے یہاں خوب ادبی نشستیں ہوا کرتی تھیں۔ طرحی اور غیرطرحی مشاعروں کے دعوت نامے کے کارڈ چھپے رکھے رہتے اور ڈاک سے بھیجے جاتے۔ جدیدیت، ترقی پسند، نئے نام یہ سب کیا ہے میں بھی سوچتی۔ ’’شب خون‘‘ کے ارتقاء کا دور تھا۔ گھر کے باہری کمرے میں کئی لوگ جمع ہوتے۔ سلیم کاتب اور ایک صاحب اور مجھے خوب یاد ہیں۔ ان کا نام حامد بہکاوی ہوا کرتا تھا۔ بھائی کے کہنے پر انہوں نے حامد حسین حامد اختیار کیا۔ ڈاکٹر اعجاز حسین صاحب کے ہاں بھائی کے ساتھ ہم اکثر جاتے تھے۔ احتشام صاحب چوک میں رہتے تھے ان کے یہاں کبھی کبھی جاتے تھے، دوری کی وجہ سے۔ ’’شب خون‘‘ کا نام پہلے ’’تیشہ‘‘ تجویز کیا گیا۔ بعد میں معلوم ہوا ’’تیشہ‘‘ نام کسی اور پرچے کا موجود ہے۔ ان سرگرمیوں سے گھر میں بلکہ شہر بھر میں جو Heightened ادبی ماحول تھا سب بھائی کی ذات سے تھا۔ کس قدر خوش قسمت تھے ہم سب۔ اب بھائی کے الہ آباد واپس آنے سے الہ آباد میں ادبی سرگرمیاں دوبارہ زندہ ہوئی ہیں۔

    بھائی کا چڑیاں پالنے کا شوق لکھنؤ کی پوسٹنگ کے دوران شروع ہوا۔ شروع شروع میں کچھ لال اور ڈاکٹر چڑیاں لائے۔ نیرمسعود صاحب کے ہاں بہت آنا جانا تھا۔ نخاس میں چڑیوں کی مخصوص مارکیٹ تھی، امی کو بھی چڑیاں بھلی لگیں، چنانچہ الہ آباد میں جہاں زیادہ کشادہ صحن تھا لال منیوں کے علاوہ بھی قسم قسم کی چڑیاں پلنے لگیں۔ بھائی چڑیوں کی د یکھ بھال انہماک سے کرتے ہیں۔ اب گھر کے آنگن کی شمالی منڈیر سے لگا تقریباً دس فٹ لمبا دس فٹ چوڑا چمبیلی اور مدھومالتی کی بیلوں سے ادھ ڈھکا ان کا چڑیا خانہ ہے۔ چڑیا خانے کی صفائی اور سجاوٹ میں بھائی کو بڑا مزہ آتا ہے۔ یہاں تک کہ چڑیا خانے میں جھاڑو لگانے سے بھی گریز نہیں ہے انہیں۔ برآمدے میں مچھلیوں کا بسیرا ہے۔ ایک پہاڑی مینا ہے شیریں، اس کی خوب خدمت ہوتی ہے۔ اور وہ خوب چہکتی ہے۔ بوندی اور بادل دو کتے ہیں۔ کھانے کی میز سے بوٹیاں اور ہڈیاں ان کو بھجواتے ہیں۔

    نفیس کھانے جو برتن میں ہوں بھائی کو پسند ہیں۔ برتنوں میں چمچے، خاص کر چائے کے چمچ خاص طرح کے ہونے چاہیے۔ کانٹوں کو وہ ہمیشہ استعمال کرنے سے پہلے خود صاف کرتے ہیں۔ خوبصورت برتنوں کی تعریف کرتے ہیں۔ پھلوں میں انہیں آم، خربوزہ اور لیچی پسند ہیں۔ سیب انہیں اچھا نہیں لگتا۔ مٹھائی میں گلاب جامن، رس ملائی، امرتی پسند ہیں۔ جاڑوں میں دھوپ میں بیٹھنا ان کو اچھا لگتا ہے۔ ہر وقت ان کے ہاتھ میں کتاب ہوتی ہے۔

    حال ہی میں بھائی کے منتخب اشعار اور نظموں کا انگریزی ترجمہ The Color of Black Flowers شائع ہوا ہے۔ کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے میری نگاہ اس شعر پر پڑی اور میں بہت خوش ہوئی،

    پتھر کی بھوری اوٹ میں لالہ کھلا تھا کل

    آج اس کو توڑلے گئیں دو بچیاں جناب

    بھائی کے سب سے پہلے مجموعۂ کلام ’’گنج سوختہ‘‘ کی بیشتر غزلیں مجھے منہ زبانی یاد ہیں۔ ان کی شاعری میں جب کبھی دوبچیوں کا ذکر آتا تو میں اور میری بہن ہمیشہ یہ سوچتے کہ وہ دوبچیاں ہم دو ہیں۔ شعر کے مفہوم کی فکر سے کوئی خاص واسطہ اس زمانے میں نہ تھا۔ بہرحال مندرجہ بالا شعر کو چنیدہ اشعار میں شمار دیکھ کر شعری کیفیت اور معنویت پر پہلی بار غور کیا۔ بھوری اوٹ میں سرخ لالہ، کیا خوب ہے۔ کل اور آج کی صورتِ حال، بچیوں کی خوشی اور بے خیالی، لالۂ صحرا کا تصور وغیرہ وغیرہ۔ خدا ان کی شمع سخن کو ہمیشہ روشن رکھے۔ ان کی نثر کا جادو جاوداں رہے۔ ان کی آواز کی گونج سدا ہمارے کانوں میں رہے۔ ان کی شفقت کے سائے سے ہم کبھی محروم نہ ہوں، آمین۔

    مأخذ:

    کاروان ادب (Pg. 104)

      • ناشر: جاوید یزدانی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے