ڈاکٹر عزیز الحق
1959ء کی ایک سہ پہر کاذکر ہے کہ انار کلی سے واپسی پر جب گاڑی 4مزنگ روڈ کی اندرونی گلی کی جانِب مُڑی تو بیسیوں وکیلوں کے ناموں کے بورڈوں کے ساتھ ایک نیا نکور لِکھا ہُوا بورڈ نظر پڑا تو مِیں نے چونک کر اپنے برابر بیٹھی ہُوئی اپنی بھابی جان سے کہا ”یہ لیجیے ایک مِنٹو اِدھر بھی آ گیا ہے“ میری بھابی جان نے لاتعلُّقی سے لمبی سی ”ہُوں“ کر کے بات ختم کر دی۔۔۔ اور پھِر ڈیڑھ برس بعد کی بات ہے کہ ایک روز مجھ سے میری رضا مانگی گئی تو مَیں ششدر رہ گئی کہ نوبت یہاں تک کیوں کر پہنچی؟۔۔۔ اُدھر ہمہ جہت ہنگامہ آرائی اور شور و غوغا سے بھرپُور زِندگی، یہاں آسُودگی، سکُون اور عافیّت گزاری پر اِصرار۔۔۔ بہرحال شخصیّت میں ایڈونچر پن نظر آیا اور اپنی وُہ عُمر کہ جب ایسی گُوناگُوں خصُوصیات کی حامل شخصیتیں بَہُت مُتاثّر کرتی ہیں۔
بات مختصراً یُوں کہ 1961ء کے اوائلِ بہار میں سامنے والے فلیٹ سے نیچے اُتر کر بائیں ہاتھ والے دو کمروں کے فلیٹ کی سیڑھیاں چڑھ گئی تو چاروں طرف نظر دوڑا کر پریشان ہو گئی۔ کیوں کہ ہر کونا کُھدرا، الماری، پلنگ، میز، کُرسی سب کتابوں سے اَٹے پڑے تھے۔ یہ کتابیں پُرانی بھی تھیں، گرد پڑی موٹی موٹی تہوں والی بھی تھیں، ورق، ورق ہوتی ہُوئی بھی تھیں اور نئے چمچماتے ٹائٹلوں والی کتابیں بھی تھیں۔ اِن کے علاوہ لکڑی کی ایک خُوب صُورت سی بیضوی میز اور اُس سے مِلتی جُلتی کُرسیاں۔ چار پانچ چاے کی خُوب صُورت پیالیاں، دو ایک پلیٹیں، جن کے مُتعلّق آفتاب گل کی روایت تھی کہ مِنٹو صاحب اِن پلیٹوں کا ایک کونا ایک دِن اِستعمال کرتے ہیں، دوسرا دُوسرے دن اور اِس طرح ساری پلیٹ استعمال کر لینے کے بعد دھوئی جاتی ہے۔ ہارمونیم تھا، سِتار تھا،جسے ہم یعنی آفتاب گل1، امتیاز شاہین2 اور شہباز3 نے سرُودِ ہمسایہ کا نام دے رکھا تھا، اور باقی کی سب چیزوں کے ساتھ لینن کاپیتل کا مجسمہ بھی تھا۔
اِس نئی زِندگی میں جِن چہروں سے میری شناسائی کرائی گئی، اُن میں بَہُت نُمایاں چہروں میں میجر اسحاق تھے، مرزا ابراہیم تھے اور مرنجاں مرنج سی شخصیّت والے سی آر اسلم صاحب تھے۔ یہ سب میرے بزُرگ تھے، میرے محترم تھے، مجھے اُن کی باتیں اَچھّی لگتی تھیں اور مجھے اُن پر پیار آتا تھا کہ یہ سب کس کِھلونے پر مچلے ہُوئے ہیں، اور وُہ کِھلونا کس جن کے قابُو میں ہے، اور یہ سب اُس کے حُصُول کی خاطر اپنی صلیب آپ کیوں بنا رہے ہیں۔
اِسی ہنستی، مُسکراتی، گاتی زِندگی کی ایک دوپہر کو عابد نے ہائی کورٹ سے آکر بتایا کہ آج ایک دوست کے گھر چاے ہے۔ پانچ بجے کے قریب چلیں گے۔ ریلوے کوارٹرز کی طرف جانا ہے۔
ہم ریلوے کوارٹرز پہنچ گئے ہیں اور ایک قطار میں ایک ہی صُورت والے لکڑی کی سیڑھیوں والے گھروں میں ہم گردن اُٹھا اُٹھا کر اپنے میزبان کا گھر تلاش کرتے ہیں کہ ایک لمبی اُونچی سیڑھی کے تھڑے پر کھڑا کوئی ہاتھ ہِلا ہِلا کر ہمیں پُکار رہا ہے۔ ہم اُوپر چڑھ جاتے ہیں اور عابد بتاتے ہیں کہ یہ عزیز الحق ہے۔میرے سامنے ایک پستہ قامت، مُنحنی جسامت اور معمولی شکل و صُورت لیکن ہشاش بشاش چہرہ، چہرے پہ موٹے موٹے شیشوں کی عینک اور عینک کے پیچھے قدرے چھوٹی لیکن ذہانت اور زِندگی سے بھر پُور باتیں کرتی آنکھیں ہیں۔ وُہ مجھے بھابھی جان کہ، کر سلام کرتا ہے، اور اُس کے اِس طرح بھابھی جان کہنے سے مجھے اپنا آپ بَہُت مُعتبر لگتا ہے۔ کہ اب تک مجھے کِسی نے اِس رِشتے سے نہِیں پُکارا تھا اور مَیں نے بھی یہ سوچ کر دِل کوسمجھا لیا تھاکہ شاید پُختہ اور پکّے سوشلسٹ نظریات کی رُو سے رشتوں کا تعیُّن غیر ضرُوری ہے، اور وقت محض ”جی“، ”آپ“ کہ، کر گُزارا جاتا ہے۔
عزیز الحق ہمیں سیڑھی کے تھڑے سے اندر کمرے میں لے جاتا ہے۔ وہاں بَہُت سے مہربان قسم کے سیدھے سادے چہرے ہیں۔ اُن میں عزیز کے اَبّاجی ہیں، چہرے پر برسوں کی مُشقّت کی چھاپ لیکن اِس مُشقّت سے سمجھوتے نے چہرے پر اعتماد بحال کر رکھا ہے۔ مامی ہیں، شوہر سے محبت میں اِس عمر میں بھی بے ساختہ پن ہے، لیکن اُس میں اِس قدر سادگی ہے کہ دیکھنے والوں کو بُرا نہِیں محسُوس ہوتا۔ رانی ہے، کم فہم اور بے باک۔ الماس ہے جو بھاگ بھاگ کر سب کے کام کرتی ہے۔ دس بارہ سال کی عُمر کا بادشاہ ہے، جو دادی سے اِس بات پر اُلجھتا ہے کہ وُہ فلمی گانوں کو سُننا گناہ کیوں سمجھتی ہیں۔ بھری دوپہروں کو شِیشے کی گولیاں کھیلنے والا پارو ہے۔ اور پھِر ہر فن مولا اکرام ہے، جو بی ایس سی انجینئرنگ کا طالبِ علم ہے، جو بُدھ کے مجسمے بھی بناتا، پینٹنگ بھی کرتا ہے، جو ترکھان بھی ہے، لوہار بھی ہے اور بوقت ِضرُورت درزی بھی۔
مجھے اُن سب سے مِلنا بَہُت اچھّا لگتا ہے۔ چند لمحوں بعد ہی یہ احساس ہوتا ہے کہ میری اُن سے مُدّتوں سے جان پہچان ہے۔ باتیں ہو رہی ہیں۔ دُنیا جہان کی باتیں اور بات بے بات قہقہے لگ رہے ہیں۔ جُگت چل رہی ہے۔ پھِر تصویر یں اُترنے کی باری آتی ہے۔ کھڑے ہو کر، ایک دُوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر، کھری چارپائیوں پر بیٹھ کر عزیز بَہُت اکسائیٹڈ ہے۔ وُہ میری مدارات میں کوئی کسر نہِیں اٹھا رکھنا چاہتا،اور یہ مدارات وُہ ہر زاویے سے میری تصویریں اُتار کر کرنا چاہتا ہے۔ تصویروں سے فارغ ہو کر اُوپر جاتے ہیں تو الماس سب کو چاے کے لیے کہتی ہے۔ چاے آتی ہے ساتھ ایک پلیٹ میں آلُوچے ہیں۔ دعوت کا یہ انداز مجھے چونکا جاتا ہے، لیکن مَیں اِتنی مگن اور مسرُور ہُوں کہ دوسرے لمحے ہی یہ احساس مِٹ جاتا ہے، لیکن واپسی پرمحض اپنے عِلم میں اِضافے کی خاطر مَیں عابد سے پُوچھتی ہُوں کہ بب لالے عزیز نے ہماری دعوت کی تھی نا؟“ عابد تِیکھے ہو کر جواب دیتے ہیں۔ ”کیوں چاے مِلی نہِیں آپ کو؟“ ”مِلی تو ہے، لیکن وُہ دعوت؟“ مجھے اپنے سوال کی وضاحت پر اِصرار ہے ”آپ بَہُت meanہیں“ عابد جھٹ سے جواب دے کر خاموش ہو جاتے ہیں۔
لیکن مَیں ہرگِز mean نہِیں تھی۔ دعوتوں کا میرا برسوں کا تجربہ دعوت کے اِس انداز سے قطعی مختلف تھا، اور مجھے میرے میزبانوں کا اپنی ذات اور اپنے حالات پر یہ اعتماد اُن کے اور بھی قریب لے گیا۔
اِس تعارُف کے بعد تو یہ معمول بن گیا کہ ہفتہ اور اِتوار یاہم عزیز کے گھر جاتے یا وُہ لوگ ہمارے ہاں ہوتے، اور پھِر شام کو ہم سب اپنی کھٹارا سی فیروزی رنگ کی ’ہِل مین‘ میں لد لدا کر اِدھر اُدھر گُھومتے۔ چیئرنگ کراس سے گول گپّے کھاتے اور باغِ جناح سے چاٹ۔ اِس کے علاوہ اتوار کی سہ پہر کو حلقہء اربابِ ذوق کی مجلسوں میں شِرکت لازمی ہوتی۔ وُہ زمانہ عزیز کی ذِہنی تربیّت کا زمانہ تھا اور ابھی حلقے میں بحث کرتے ہُوئے نہ وُہ لمبی سی میز کو اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے بجاتا اور نہ جوشِ خطابت میں اُس کے مُنہ، سے جھاگ نِکلتی تھی، بل کہ وُہ بڑے سکُون، تحمل سے ایک نارمل انسان کی طرح اپنے سے پختہ ذہن و شُعُور کی سُنتا اور کبھی کبھار اپنی بھی کہ، دیتا۔
پھِر وُہ وقت بھی آیا کہ میرا کہِیں آنے جانے کو جی نہ چاہتا۔ عزیز آتا، ڈاکٹر زاہدہ آتیں اور یہ سب مِل کے اِصرار کرتے کہ کہِیں نہ کہِیں جایا جائے۔ مَیں بہانہ بناتی کہ میرے تو کپڑے اِستری کرنے والے ہیں۔ عزیز فوراً کپڑے اِستری کر کے دینے پر آمادہ ہو جاتا۔ اِس طرح آدھی ساری عزیز استری کرتا اور آدھی مُروّت میں عابد کو کرنی پڑتی، نہ صِرف یہ بل کہ ہنستے ہنستے اپنے جُوتوں کو برش کرتے ہُوئے وُہ میرے جوتے بھی صاف کردیتا۔
عابد نے اِن بارہ سالوں میں حلقے کے لیے گِنتی کے مضامین ہی لکھے ہیں، اور جو لکھے ہیں، وُہ بھی اِن بارہ برس کی مُدّت کی ابتدا میں۔ عابد میں ایک خصُوصیّت یہ ہے کہ وقت برباد کرنے میں اِنھیں ایک خاص مہارت حاصِل ہے۔ اِن کے ساتھ گُزاری گئی آج تک کی زِندگی میں مَیں نے کبھی اِنھیں کوئی کام پُر سکُون طریقے سے کرتے ہُوئے نہِیں دیکھا۔ کہِیں جانا ہو، کسی جگہ، خاص وقت پر پہنچناہو، ہمیشہ ایک بے اطمینانی اور افراتفری سی رہتی ہے اور مَیں جو کبھی کبھار ذرا شوق سے تیّار ہوتی ہُوں،میری ساری تیّاری ملیا میٹ ہو جاتی ہے۔ یُوں کہ گاڑی اپنی ممکن رفتار سے بھی تیز، بل کھاتی، لہراتی دائیں بائیں کی آتی جاتی گاڑیوں کے بیچوں بیچ اپنا راستہ بناتی اور قدم قدم پر بریکوں پر بھروسا کرتی چلی جاتی ہے۔ قُل شریف پڑھ پڑھ کر میرا دم ہَوَا ہو جاتا ہے، چُناں چہ اِس حشر میں طبیعت کی شگفتگی اور تازگی فنا ہو کر رہ جاتی ہے۔ یہ ساری تمہید مجھے اِس لیے باندھنی پڑی کہ کُچھ ایسا ہی عالم اُن دنوں بھی ہُوا کرتا تھا جب حلقے کے لیے عابد کو مضمُون لِکھنا ہوتا۔
پندرہ دِن یا ایک ہفتے کی مُہلت ہے، لیکن ابھی تو بَہُت وقت ہے۔ مَیں یاد دِلاتی ہُوں کہ پرسوں آپ کومضمُون پڑھنا ہے۔ ”ہاں ضرُور ابھی وقت ہے۔“ مَیں پھِر جھنجھوڑتی ”آج آپ کو حلقے میں مضمُون پڑھنا ہے“ ہاں ابھی ذرا شیو کرلُوں، نہا لُوں، غسل خانے سے ہو آؤں وغیرہ وغیرہ۔ حتیٰ کہ وقت بِالکُل ہی سر پرآ جاتا اور ایسے میں عزیز کھٹ سے مضمُون کے بارے میں سُن گُن لینے پہنچ جاتا تو عابد کو بھی وقت کی تنگی کا احساس ہوتا۔ جلدی جلدی سگریٹ سُلگائے جاتے، ڈھیروں پُھونکے جاتے، حوالوں کے لیے کتابیں اکٹھی کی جاتیں۔ ورق گردانی ہوتی، عزیز قلم کاغذ سنبھالتا، عابد بولتے جاتے اور وُہ بائیں ہاتھ سے لِکھتا جاتا اور ہُنکارا بھرتا جاتا، اور مَیں خواہ مخواہ گھڑی دیکھ دیکھ کر بوکھلائی جاتی۔ بہرحال مضمُون مُکمّل ہوتا، اور بھاگم بھاگ حلقے میں پہنچا جاتا۔
جس عزیز کومَیں جانتی تھی، وُہ دوست دار اور بوقتِ ضرُورت دُوسروں کے کام آنے والا انسان تھا۔ ایک سہ پہر ہم دونوں کہِیں جانے کے لیے سیڑھیاں اُتر رہے تھے کہ عزیز بھی جھپا جھپ سیڑھیاں اُلانگتا ا ٓ پہنچا۔ مَیں نے کہا، ”خیر باشد؟“ جواب دیا، ”کمال باشد، بل کہ کمال ہی باشد“ اور پھِر اپنے تقریباً ہم نام دوست کا نام لیا کہ وُہ سخت حالت ِغیرمیں ہیں۔ تانگے میں بٹھا کر آیا ہُوں کہِیں اور جاے پناہ نظر نہِیں آتی، آپ اجازت دیں تو تھوڑی دیر کے لیے وُہ یہاں آرام کر لیں۔ عابد نے میری جانِب اِشارہ کِیا کہ اِن سے پُوچھ لو۔ مگر عزیز وُہ جو قے وغیرہ تم کہ، رہے ہو۔ وُہ میرا مطلب سمجھ گیا اور کہا، آپ بالکل بے فکر رہیں، مَیں سب سنبھال لُوں گا۔ آپ واپس آئیں گی تو گھر آپ کو صاف مِلے گا۔ اُس نے پُورے خُلُوص سے ہامی بھری۔ عابد بھی رُک گئے اور واقعی جب مَیں ڈیڑھ دو گھنٹے بعد گھر واپس آئی تو اُس نے ہنس ہنس کر سب دکھایا کہ تسلّی کر لیں، مَیں نے کُچھ گندہ نہِیں ہونے دیا۔“
یہ غالباً شُرُوع برسات کی ایک سہ پہر کاذکر ہے۔ چاے پیتے میں مجھے گلی میں کُچھ مِلی جُلی آوازیں سُنائی دیں۔ مَیں نے جھانکا تو عزیز بیڈ مِنٹن کھیلنے کے کپڑوں میں تھا۔ ساتھ میں اُس کے دو لڑکیاں تھیں۔ دونوں لڑکیوں نے کینوس شوز پہن رکھے تھے، اور ہاتھوں میں ریکٹ تھے۔ مَیں نے عابد سے کہا، عزیز ہے اور ساتھ میں دو لڑکیاں۔ عابد نے کہا، اُوپر تو آنے دیں۔ یہ اُس کے ساتھ لڑکیاں دیکھ کر آپ خالص عورتوں کی طرح جذبے میں کیوں آ رہی ہیں۔ اِتنے میں وُہ اپنی عادت کے مُطابِق مجھے آوازیں دیتا اُوپر آیا۔ مَیں بڑے تپاک سے اُن لڑکیوں سے مِلی۔ اُن میں سے ایک لڑکی ہماری terms میں خاصی ہکی بکی تھی، بے حد کمزور۔ دوسری لڑکی کِھلی ہُوئی گندمی رنگت اور بڑی بڑی آنکھیں، بالوں میں ہلکے ہلکے گھنگھرو اور آواز میں نرماہٹ۔ مجھے یہ لڑکی فوراً ہی اچھّی لگی اور جب وُہ ڈیوڑھی سے گُزر کر اندر کمرے تک چل کر آئی تو بچپن میں شادی بیاہ پر گاتے ہُوئے گانوں میں سے ایک ٹپّا فوراً میرے ذہن میں جاگ گیا۔
گل گانی سوتر دِی
ماہی میرا اینج تُر دا
جیویں چال کبُوتر دی
اور واقعی اُس کی صُورت کے ساتھ اُس کی چھوٹے چھوٹے قدموں والی چال بھی مجھے بھا گئی۔ اُن میں سے ایک فریدہ تھی اور ایک جمیلہ۔ دونوں سگی بہنیں تھیں۔
عزیز نے بتایا کہ وائے۔ ڈبلیو۔ سی۔ اے میں کُچھ دوستوں نے مِل کر ایک کلب بنائی ہے۔ ”ہم سب آج وہیں مِلے ہیں۔“ اُس نے لڑکیوں کی جانب اِشارہ کرتے ہُوئے بتایا۔ کل اُس کلب کی رسمِ اِفتتاح ہے، اور اِفتتاح اِس صُورت میں ہو گا کہ ممبر لوگ اور اُن کے دوست وغیرہ اپنے اپنے گھر سے ایک ڈِش پکا کر لے جائیں،اور وہاں سب اکٹھے مِل بیٹھیں، یُوں سب ایک دُوسرے سے متعارف بھی ہو جائیں گے۔“ ہم نے ہامی بھر لی۔ وُہ لوگ کافی دیر بیٹھے۔ عابد اِس اثنا میں اُن لڑکیوں کا حُدُود اربعہ پُوچھتے رہے، اور جب وُہ چاے کے لیے اُٹھے تو مَیں نے خالص بھابھیوں کے انداز میں اشارۃً عزیز کو چھیڑا۔ اُس نے کوئی تردید نہِیں کی، اور کِھلکھلاتا ہُوا سیڑھیاں اُتر گیا۔
کلب کی زِندگی حسب ِمعمول بڑی ہنگامہ پرور تھی۔ ہر روز کوئی نہ کوئی فنکشن کِیا جاتا۔ یہاں جو نئے چہرے نظر آتے اُن میں فریدہ، جمیلہ کے علاوہ مسز خان تھیں، جن کی درس و تدریس اور وائے۔ ڈبلیو۔ سی۔ اے کے ہوسٹل کی انتظامیہ سے وابستگی تھی۔ نمکین سے چہرے والی مس شادی خان تھیں۔ فربہ اندام مس روز تھیں۔ موٹا حفیظ تھا، ظفر تھا، آفتاب تابش تھا، اور لتا اور نُور جہاں کی آوازوں کی نقل اُتارنے والا نوید انجم تھا۔
وقت بَہُت ہنگامہ پروری میں گُزر رہا تھا اور کلب کی شامیں جو ان زِندگیوں کی ترو تازگی سے بھر پُور تھیں،ہر روز بیڈ منٹن کے میچ ہوتے۔ پھِر ہار جِیت ہوتی اور کسی نہ کسی بہانے کوئی نہ کوئی محفل برپا ہی رہتی۔
ایک روز کلب سے واپسی پر ڈاکٹر زاہدہ کو اُن کے گھر اُتارناتھا کہ راستے میں ہی عابد اچانک بولے ”کچھ ہونے والا ہے۔“ ”ہاں کُچھ تو ہو ہی جائے گا۔“ ڈاکٹر زاہدہ نے فوراً تائید کی۔ ”کیا؟“ مَیں نے بے دھیانی میں پوچھا؟ ایک فیصلہ، بَہُت بڑا فیصلہ کلب کے کُچھ لوگوں میں سے دو زِندگیوں کا فیصلہ۔ میرے ذِہن سے ایک دم پرچھائیاں مِٹ گئیں، اور وُہ جو کلب کے ماحول میں جوان دِلوں کے درمیان لاشُعُوری طور پر ایک مُقابلے کی دوڑ سی لگی ہُوئی تھی،جس کو وہاں پر موجُود سب لوگ محسُوس کرتے تھے، لیکن کوئی اِس کو لفظوں کا جامہ پہنانے میں پہل نہِیں کرنا چاہتا تھا۔ وقت گُزرنے کے ساتھ ساتھ یہ صُورتِ حالات سب پر واضح ہوتی جا رہی تھی، ہمارا قرعہء فال بنام عزیز تھا۔ گو عزیز اپنی ظاہری شخصیّت یعنی جسمانی لحاظ سے مُتاثر کُن نہِیں تھا۔ البتہ گُفتُگو سے وُہ دِلوں کو ضرُور مسخر کر سکتا تھا، اور جب باتیں من موہ لیں تو چہرے ثانوی حیثیت اِختیار کر جاتے ہیں۔ میرا مُشاہدہ اور تجربہ یہی ہے کہ 80فی صد لڑکیاں چہروں سے زیادہ خُوب صُورت ذِہنوں کی پرستار ہوتی ہیں، اور ایک حسّاس اور باشُعُور لڑکی کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ اُس کا ساتھی ذِہنی طور پر اُس سے پانچ دس قدم آگے ہی ہو۔ اِس چیز کا عملی زِندگی میں کُچھ خاص فائدہ ہو نہ ہو، لیکن ذِہنی تسکین کا سامان ضرُور ہو جاتا ہے۔
یہ ایک حبس گزیدہ سہ پہر کا ذِکر ہے کہ سخت گرمی سے گھبرا کر مَیں اور عابد باہر نِکل گئے، کہ کُچھ تو ہَوَا لگے۔ تھوڑی دُور ہی گئے ہوں گے کہ سُرخ آندھی اُٹھی اور پھِر مُوسلا دھار بارِش شُرُوع ہو گئی، اور موسم ایک دم اِنتہائی خُوشگوار ہو گیا۔ ہم نے گاڑی کلب کی جانب موڑی کہ کُچھ ہنگامہ آرائی کا بندوبست ہو پائے۔ گاڑی ابھی پُوری طرح گیٹ میں داخل بھی نہ ہو پائی تھی کہ بنچ پر عزیز اور جمیلہ بیٹھے نظر آئے۔ وُہ ہماری آمد سے قطعی بے خبر تھے۔ عزیز بول رہا تھا اور جمیلہ پُرسکُون تھی۔ مجھے Intuition سی ہُوئی کہ کُچھ نتیجہ خیز سی گُفتگُو ہو رہی ہے۔عابد مُسکرائے۔ مَیں نے کہا، واپس چلیے اِنھیں پریشان مت کیجیے۔ آج اِنھیں کسی اہم فیصلے پر پہنچ جانے دیجیے، عابد نے چُپ چاپ گاڑی واپس موڑ لی۔
اگلے دو تین دن بَہُت خاموشی میں گُزرے، نہ کوئی آیا نہ گیا۔ لیکن ایک شام ڈاکٹر زاہدہ تیز تیز قدموں سے سیڑھیاں چڑھتی آئیں اور بغیر دُعا و سلام کے بولیں۔ تسنیم! عزیز اور جمیلہ کی شادی ہو گئی، او رپتا نہِیں عزیز کو کیا ہُوا ہے۔ ابھی ابھی دونوں شیزان میں بیٹھے تھے۔ مَیں بھی وہیں تھی۔ میری نظر پڑی تو بڑے چاو سے اُن کی میز پر گئی، لیکن اُن دونوں نے مجھے لِفٹ ہی نہِیں کرائی۔ ڈاکٹر زاہدہ سخت بے عِزّتی محسُوس کر رہی تھیں۔ عابد یہ سب سُن کر چُپ ہو گئے؟ اور شادی پر کوئی تبصرہ نہِیں کِیا۔ میرا بھی دِل جیسے مسلا سا گیا محض یہ سوچ کر، ہم تو اُس کے دوست تھے، بہی خواہ تھے۔ اُس سے محبت کرتے تھے، دُشمن تو نہ تھے۔ ہم سے بھی اِس قدر رازداری اور اِس پر مُستزاد یہ نہ سمجھ میں آنے والا رویّہ۔ بہرحال مَیں نے ڈاکٹر زاہدہ سے کہا کہ آپ اب اِتنی بھی تو اہمیّت نہ دیں۔ ہم سب کو معلُوم ہے کہ وُہ جذباتی اورجوشیلا ہے۔ ویسے بھی یہ دِن رات اُس کے ہَوَاؤں میں اُڑنے کے ہیں۔ چند دِن بعد خُود ہی مُتاسِّف ہو گا، وغیرہ وغیرہ۔
لیکن یہ سب میری خام خیالی تھی۔ عزیز سے محبت کی توقُّع اور پہلے سے دوستانہ مراسِم کی خواہش عبث تھی کہ وُہ انتہائی بے مُروّتیوں پر اُتر آیا تھا۔ پھِر خبر مِلی کہ اُس کے گھر میں بھی فضا کُچھ خُوشگوار نہِیں۔
نہ معلُوم وائے۔ ڈبلیو۔ سی۔ اے کا گروپ عزیز کے دم سے قائم تھا یا جمیلہ کی موجُودگی اُسے زِندگی عطا کیے ہُوئے تھی۔ بہرحال اُن دونوں کے نکل جانے سے باقی سب بھی ایک دُوسرے سے کٹتے چلے گئے، اور یہ کلب مختصر سی زِندگی کے بعد اپنی موت آپ مر گیا۔
عزیز کی شادی کے بعد مُدّتِ دراز تک میرا اُس کا سامنا نہِیں ہُوا۔ ایک روز بڑی لیے دیے کی سی کیفیت میں آیا۔ مَیں اپنی عادت سے مجبور بے مُروّتی نہ کر پائی، اور کُچھ نہِیں تو بات کرنے کے بہانے اپنی ڈیڑھ سالہ بیٹی کو سِکھایا کہ پُوچھو ”چاچا! چاچی کیوں نہِیں آئیں؟“ بولا کہ چاچی نہِیں آئیں۔ وُہ آپ لوگوں سے بد ظن ہے کہ آپ سب نے اُس کے خلاف باتیں کی ہیں۔ مجھے دُکھ سا ہُوا کہ کیسا کانوں کا کچّا نِکلا، ہم سے آ کے کُچھ پُوچھا تو ہوتا۔ بد گُمانیاں بھی کیسے شیشے جیسے دِلوں کو خاک ِسیاہ کردیتی ہیں۔بہرحال اب کسی قسم کی وضاحت لا حاصل تھی کہ اُس کا دِل دوستوں سے بھر چُکا تھا۔
اُس مُلاقات کے بعد مُدّتِ مدید تک ہمیں اُس کی کُچھ خبر نہِیں مِلی۔ ایک آدھ بار حلقے میں نظر مِلی، اُس نے سنجیدگی سے سلام کیا۔ مَیں نے متانت سے جواب دِیا۔
پھِر سُنا کہ عزیز کینیڈا جا رہا ہے یا شاید چلا گیا ہے۔ ہاں اِس اثنا میں ایک روز بانو بازار میں ایک مخصُوص چال نے مجھے مُتوجّہ، کِیا تو شُعُور میں بَہُت کُچھ جاگ گیا۔ وُہ جمیلہ تھی۔ ساتھ میں اُنگلی پکڑے ایک چھوٹا سا بچّہ چل رہا تھا۔ بچّے نے کھدّر کا کُرتہ شلوار پہن رکھا تھا، اورمُنّے مُنّے پیروں میں پشاوری چپل تھے۔ مجھے وُہ بے طرح پیارا لگا، اور پاس سے گزرتے ہُوئے مَیں نے جُھک کے اُسے پیار کِیا اور پُوچھا کہ تم عزیز کے بیٹے ہو نا۔ اُسے میرے سوال کی کُچھ سمجھ نہِیں آئی اور مَیں اُسے پیار کر کے آگے نکل گئی۔ جمیلہ نے مجھے پہچاننے سے گُریز کِیا۔
اِس واقعے کے غالباً دو یا چار برس بعد عزیز اپنے دوست ناز کے کِسی کام کی غرض سے ماڈل ٹاؤن میں ہمارے گھر آیا۔ وُہ بَہُت موٹا ہوچُکاتھا، اور اُس کا آدھا سر سفید ہو چکا تھا۔ وُہ کینیڈا سے سفید آسٹن لایا تھا۔ بہرحال رسمی حال احوال پُوچھا گیا، اور وُہ تھوڑی دیر بیٹھ کر چلا گیا۔
اب وُہ لاہور میں تھا۔ ہم سے اُس کی اجنبیت اور دُوری کی اوّلیں وجہ، اُس کی شادی بنی، اور ثانوی اُس کے اورعابد کے نظریات کااِختلاف تھا۔ اور مَیں اِن دو باتوں کے بیچ پِستی ہُوئی سوچتی کہ سب کُچھ نظریات ہی ہو گئے، محبت، دوستی، شفقت، ذِہنی رفاقتیں، صُلح و آشتی یہ سب کومل کومل جذبے کُچھ بھی اہمیّت نہِیں رکھتے کہ جِن سے انسان اور اُس کی دُنیا کی بقا ہے۔ اِن لوگوں نے اوّلیت نظریات کو دے دی، اور خُود پتھّروں میں ڈھل گئے۔ بہرحال میرا یہ سوچنا لا حاصل تھا کہ یہ اپنے نظریات میں راسخ بھی تھے اور انتہا پسند بھی۔
گئے برس شُرُوع مئی کی ایک رات عابد کوئی دس بجے کے قریب دفتر سے لوٹے۔ کھانا وانا کھایا تو کہنے لگے، چلیے ذرا چکّر لگا کر آئیں۔ لبرٹی سینما کے دائیں ہاتھ پٹرول پمپ پر کوک کی دُکّان کے آگے گاڑی میں بیٹھے تھے کہ ہمارے پیچھے ایک تیز رفتار گاڑی رُکی۔ تیز تیز قدموں سے ایک موٹا، بھدّا، چھوٹے قد کا اور بگلا سا سفید سر والا شخص اُترا۔ دُکّان سے سگریٹ لیے اور جِس طرح فراٹے بھرتے آیا تھا، اُسی رفتار سے واپس چلا گیا۔ ”ہائے یہ تو عزیز تھا۔ مَیں نے عابد کو جیسے خبر سُنائی۔ مَیں اُس کی پہچان سے ابھی تک دست بردار نہ ہو پائی تھی۔ ہاں مجھے معلُوم ہے، وُہ عزیزتھا۔ عابد نے اِنتہائی نارمل آواز میں جواب دیا۔ تو کیا اُس نے ہمیں پہچانا نہِیں ہو گا۔ مَیں اُس کو خواہ مخواہ رعایت دینے پر تُلی ہُوئی تھی۔ اُس نے پہچانا ہے اور خُوب پہچانا ہے۔ آپ نامعلُوم کِن خُوش فہمیوں میں زِندگی گزار رہی ہیں۔ عابد نے گاڑی سٹارٹ کر دی۔ ”توبہ کس قدر بدتمیز ہے۔“ مَیں نے جل کر کہا۔ ”وُہ بد تمیز ہو نہ ہو، آپ بے وُقُوف ضرُور ہیں۔“ عابدنے بے زاری سے کہا، اور گاڑی گھر کی جانب موڑ لی۔
جب 1970ء میں مولانا بھاشانی نے مغربی پاکستان کو سلام بھیجا، اور آزاد بنگال کا نعرہ لگایا اور مغربی پاکستان بھاشانی نیپ کا سُقُوط ہو گیا تو اُس پارٹی سے وابستہ کُچھ لوگوں نے پاکستان سوشلسٹ پارٹی کی بُنیاد ڈالی۔ اپریل 1971ء میں اُن لوگوں نے وائی۔ ایم۔ سی۔اے میں دو روزہ کانفرنس بُلائی۔ ہر ضلع سے لوگ آئے تھے، اور اپنے اپنے خیالات کا اِظہار کررہے تھے۔ پہلے روز مَیں بھی گئی۔ میری اگلی والی قطار میں ایک دُبلی پتلی خاتُون تھیں، جو اپنے ساتھ بیٹھی خواتین سے اِستفسار کر رہی تھیں کہ اِن چلتے پھِرتے لوگوں میں عابد مِنٹو کون ہے؟ معلُوم ہُوا کہ وُہ عزیز کی فرستادہ ہیں، اورسوشلسٹ پارٹی کے جلسے کی کارروائی سُننے اور لِکھنے آئی ہیں، وُہ دھان پان خاتون رابعہ سُنبل تھیں۔
اور اب28مئی 1972ء کوایک گرم صبح میرے ذہن میں اُبھر رہی ہے کہ عابد نے اخبار پڑھتے ہُوئے بتایا کہ آج حلقے میں عزیز الحق کا مضمُون ہے۔ مَیں مچل گئی کہ آج چلیں گے، مُدّت سے ہم گئے بھی نہِیں۔
پانچ بجے کے لگ بھگ ہم وائی۔ ایم۔ سی۔ اے کی سڑک والی دو سیڑھیاں چڑھ کر اندر داخل ہوتے ہیں۔ سامنے ہی ایک کالے لکڑی کے بورڈ پر چاک سے کُچھ لِکھاہُوا ہے۔میری نگاہ صرف لفظ موت پر جمتی ہے، لیکن ہم کُچھ دھیان نہِیں دیتے اور جلدی سے دائیں ہاتھ کمرے کی جانب مُڑ جاتے ہیں۔ ہال میں بڑا ہُجُوم ہے اور لوگ بڑی بد نظمی سے کھڑے ہیں۔ شہزاد صاحب کُچھ کہ، رہے ہیں۔ہم دونوں پیچھے چلے جاتے ہیں۔ سب لوگ مدّھم آوازوں میں کُچھ نہ کُچھ بول رہے ہیں۔ماحول کے اَسرار کو مَیں سمجھ نہِیں پائی کہ عابد زرد ہُوئی رنگت سے سپاٹ آواز میں بتاتے ہیں۔ ”عزیز الحق مر گیا۔“ دُوسرے ہی لمحے اضافہ کرتے ہیں ”اُسے قتل کردِیا گیا“ مَیں دونوں جُملے کمال تحمل سے سُنتی ہُوں اور گُم صُم کُرسی پرٹِک جاتی ہُوں۔ میرا ذِہن بِالکُل خالی ہے، میرے سارے ردِّعمل میں لاتعلُّقی کی گہری چھاپ ہے۔ میری گویائی سلب ہے۔ مَیں اپنی بے بسی پر پریشان ہو رہی ہُوں کہ وُہ شخص جس کی زِندگی میں مَیں اُس کی پہچان سے دستبردار نہ ہو پائی، اُس کی موت کی خبر کو مَیں اِس قدر سکُون سے سُنُوں گی۔
ہم اُس کے گھر جاتے ہیں۔ سجاد باقر رضوی بھی ہمارے ساتھ ہو جاتے ہیں، راستے میں عابد اور باقر صاحب کُچھ قیاس کرنے کی، سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن مُعاملہ اِتناسنگین ہے کہ کُچھ کہ، نہِیں پاتے، اور خاموش ہوجاتے ہیں۔ مَیں عزیز کے گھر کے اندر داخل ہوتی ہُوں۔ صحن میں عورتوں کا ہُجُوم ہے۔ برآمدے میں برف کی سِلوں کے درمیان عزیز کا مختصر سا وُجُود کفن میں لپٹا رکھاہے۔ مَیں میّت کے قریب جاتی ہُوں۔ ایک خاتُون یہ سمجھ کر کہ مَیں صُورت دیکھنا چاہتی ہُوں، چہرے سے کفن سرکاتی ہے۔ مَیں اپنا مُنہ، دوسری طرف موڑ لیتی ہُوں کہ اُسے اِس حالت میں نظر بھر کے دیکھنا میرے بس کی بات نہِیں ہے۔ عزیز کی چارپائی کے ساتھ ہی مامی بیٹھی ہیں۔ اِتنے بڑے اور اِس قدر اچانک زیاں پر اُن کاردِّعمل بَہُت مُبہم ہے۔ اُن کی سوچ مُعطل ہے، اور رانی ہے، وُہ ہمیشہ کی طرح آج بھی اپنے جذبات کے اِظہار پرمُصر ہے۔ وُہ مجھے بتاتی ہے کہ کُچھ روز پہلے عزیز میرے پاس آیا۔ مَیں دوڑ کر اُس کے سینے سے لگ گئی۔ پھِر فوراً ہی ہٹ گئی توہنس کر پُوچھا۔ کیوں مجھ سے پسینے کی بدبُو آتی ہے؟“ ”نہِیں مجھے تُم سے اَبّا جی کی خُوشبُوآ گئی تھی۔“ ہنس دیا اورمجھے دوبارہ سینے سے لگا لیا۔ عزیز کی بڑی بہن راج ہے۔ جسے حالات نے بَہُت حسّاس بنادِیا ہے۔ وُہ آنسُو پونچھتی جاتی ہے اور کہتی جاتی ہے۔ پتا نہِیں کیا ہُوا۔ سعید صاحب بڑے اچھے تھے، وُہ تو ہمارے بڑے مہربان تھے۔ وُہ تو عزیز کے دوست تھے۔ پتا نہِیں کیا ہُوا، پتا نہِیں کیاہُوا؟ ساتھ والے کمرے میں عزیز کی میّت پر اُس کی جذباتی زِندگی کا حاصل اور اُس کے بچّوں کی ماں اور اُس کی جواں سال بیوی جمیلہ ہے، جسے خواتین اِصرار کرتی ہیں کہ ا ٓؤ آخری بار صُورت تو دیکھو۔ وُہ صُورت دیکھنے سے مُنکر ہے۔ وُہ بین کرتی ہے کہ مَیں کیسے دیکھوں۔ مجھ سے نہِیں دیکھا جاتا۔ مَیں نے نہِیں دیکھنا۔ ہائے عزیز ہمارے بچّے۔ ہائے عزیز ہمارے بچّے۔
365دِنوں کے چکّر سے نِکل کر آج پھِرکیلنڈر پر 28مئی ہے۔ مئی جو میرے لیے سوگ کا مہینا ہے۔ کل 27مئی تھی۔ کل بھی مَیں نے سوگ منایا تھا کہ 27کو میراا َمّاں جایا 24برس کی عُمر میں اللہ کو پیارا ہُوا تھا۔ آج 28مئی ہے، مَیں آج بھی ماتم کُناں ہُوں۔ پرسوں 30مئی ہے، میرا یہ دِن بھی افسرُدہ و ملُول گُزرے گا، کہ اِس تاریخ کو میری ماں رُخصت ہُوئی تھیں۔ مَیں کہ جِس کی یادداشت بَہُت کمزور ہے، جسے تاریخ، سنہ، ٹیلی فون نمبر، موٹروں کے نمبر، لوگوں کی تاریخ پیدایش، کُچھ یاد نہِیں رہتا۔ مئی کے اِس آخری ہفتہ کی تینوں تاریخیں دل میں کندہ ہیں، اور عزیز کی سیاست اور چالاکی پر تو مَیں انگُشت بدنداں ہُوں کہ کمال عیاری سے 28مئی کواپنی موت کے لیے چُنا کہ اِس طور وُہ خُود کو میرے پیاروں میں، میرے اپنوں میں شُمار کروا سکے۔
گئے دنوں کاسُراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وُہ
عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وُہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.