Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ڈرامہ کیا چیز ہے؟

سید عابد حسین

ڈرامہ کیا چیز ہے؟

سید عابد حسین

MORE BYسید عابد حسین

     

    آرٹ کی تعریف
    قبل اس کے کہ ہم ڈرامہ کی ماہیت سے بحث کریں یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ آرٹ کی مختصر سی تعریف کر دی جائے۔ آرٹ کا لفظ اب اردو زبان میں کثرت سے استعمال ہونے لگا ہے لیکن اس کا کوئی واضح مفہوم ہم لوگوں کے ذہن میں نہیں ہے۔ اصل میں یہ مختلف معنی پر حاوی ہے۔

    (۱) وہ تخلیقی قوت جس کے ذریعہ سے انسان مادی اشیا اور ذہنیی تصورات کی تشکیل اس طرح کرتا ہے کہ وہ حسین بن جاتی ہے، یعنی ان میں ایک خاص ترکیب مناسب یا توازں پیدا ہو جاتا ہے اور وہ مشاہدۂ جمال کے ذوق کو جو ہماری طبیعت نافطری خاصہ ہے، تسکین دیتی ہیں۔

    (۲) حسین چیزیں جو اس وقت قوت تخلیق کے محسوس مظاہر ہیں تصویر شعر وغیرہ دوسرے الفاظ میں آرٹ صناع کے کمال کو بھی کہتے ہیں اور ان مصنوعات کو بھی جن میں یہ کمال ظاہر ہوتا ہو۔

    غرض آرٹ ایک طرح کی صنعت ہے، لیکن اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا اصل مقصد افادی یا اقتصادی نہیں ہوتا، بلکہ جمالیاتی ہوتا ہے، یعنی وہی ذوق جمال کو تسکین دینا۔ اس لئے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ موضوع صنعت خود حسین ہو بلکہ حسن طرز ادا کی خوبی اور دل کشی سے پیدا ہوتا ہے، البتہ یہ شرط ہے موضوع میں تناسب اور ہم آہنگی کے ساتھ تشکیل پانے کی صلاحیت موجود ہو۔ اب چاہے صناع اس کی عکسی تصویر پیش کر دے یا اس میں اپنے تخیل سے رنگ آمیزی کرے۔

    آرٹ زندگی کی دوسری قدورں یعنی مذہب اخلاق یا علم وحکمت وغیرہ کے مقابلے میں اپنا ایک مستقل وجود رکھتا ہے۔ لیکن ان سے بے تعلق نہیں ہوتا مثال کے لئے شعر کو لیجئے، اس کے ناقص یا کامل ہونے کا معیار مذہب، اخلاق اور علم سے بالکل الگ ہوتا ہے۔ شعر میں ہم جو چیز ڈھونڈھتے ہیں، اور جسے شاعری کی جان سمجھتے ہیں، وہ روحانی معرفت یا اخلاقی بصیرت یا علمی حقیقت نہیں، بلکہ خیالات اور الفاظ کی خوشنمائی ترتیب، ہم آہنگی، روانی اور دلکشی ہے، جس کے ذریعہ سے شاعر کا تخلیقِ حسن کا شوق اور شعرو فہم کا مشاہدہ جمال کا ذوق پورا ہوتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ شعر کا موضوع انسانی زندگی اور عالم فطرت کا ہر جلوہ ہے، اس لئے اس میں کبھی کبھی مذہبی عقیدت کا اظہار یا نیکی کی تلقین یا علمی حقائق کی تعلیم بھی ہوتی ہے، لیکن مخصوص شاعرانہ رنگ میں جس میں خیالات کا وزن اتنا نہیں ہونے پاتا کہ طرز ادا کی سبک روی میں خلل پڑے۔

    آرٹ سب سے مؤثر اس وقت ہوتا ہے، جب اس کا موضوع انسان کی زندگی، اس کے جذبات، اس کے خیالات، اس کی آرزوئیں اور اس کے کا م ہوتے ہیں۔ بعض فنون لطیفہ مثلاً موسیقی، نقاشی، سنگتراشی وغیرہ میں ہمیں انسانی زندگی کے کسی ایک پہلو کی جھلک دکھائی دیتی ہے، لیکن ادب کے بعض شعبوں مثلاً شعر، ناول، ڈراما وغیرہ میں کبھی کبھی زندگی کا مجموعی مرقع نظر آتا ہے، جو ہمارے لئے نہایت دلچسپ ہے اور جس کا اثر ہمارے دل پر بہت گہرا اور بہت دیرپا ہوتا ہے۔ یہ مرقع بظاہر ایک شخص یا چند اشخاص کی زندگی کا ہوتا ہے۔ لیکن اس میں کچھ ایسی قوت محرکہ پنہاں ہوتی ہے کہ انسان کاتصور ساری نوع انسانی کی زندگی پر پھیل کر اس میں یوں جذب ہو جاتا ہے، جیسے سمندر میں کنکری پھینکنے سے لہروں کا ایک دائرہ بنے اور بڑھتے بڑھتے اس کی بے پایاں وسعت میں محو ہو جائے۔ یہ قطرے میں دریا اور جزو میں کل نظر آنا، آرٹ کے اکثر شعبوں میں پایا جاتا ہے۔ لیکن اس کا اظہار پوری طرح ڈرامہ میں ہوتا ہے۔

    ڈرامہ بحیثیت آرٹ کے ایک شعبے کے
    ڈرامہ یونانی زبان کا لفظ ہے۔ اس کا مصدر (Spaw) ہے، جس کے معنی ہیں کرکے دکھانا، یہ ادب کی اس صنف کا نام ہے جس کے ذریعہ سے انسانی زندگی کے واقعات محض بیان کئے جانے کی بجائے کرکے دکھائے جا سکیں۔ ڈرامہ میں شاعر کو جو قصہ بیان کرنا ہوتا ہے، اسے چند اشخاص کی گفتگو کے پیرائے میں بیان کرتا ہے۔ اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ ان اشخاص کا بھیس بدل کر ان کی گفتگو اور ان کے کاموں کو دہرائیں تاکہ دیکھنے والوں کو سارا ماجرا آنکھوں کے سامنے گذرتا نظر آئے۔ ظاہر ہے کہ یہ طریقہ بہت دل پذیر اور موثر ہے اور ادب کے کسی اور شعبے کو یہ بات نصیب نہیں ہو سکتی۔

    پہلے ڈرامہ شاعری کا ایک جزو سمجھا جاتا تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ اس نے ایک مستقل ادبی صنف کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ اب اس کے لئے نظم کی شرط نہیں رہی بلکہ نظم میں ڈرامہ لکھنے کا رواج بہت کم ہو گیا ہے۔

    ڈرامہ اور ناول میں یہ بات مشترک ہے کہ دونوں انسانی زندگی کے مختلف جلوے دکھاتے ہیں۔ لیکن ناول کا اثر صرف تخیلی مشاہدے پر پڑتا ہے اور ڈرامہ کا حسّی مشاہدے پر بھی۔ ناول میں مصنف دوسروں کی سرگذشت بیان کرتا ہے، مگر ڈرامہ میں وہ خود اشخاص کو گفتگو کرنے دیتا ہے اور اسی گفتگو میں ان کے جذبات، ان کے خیالات، ان کی سیرت، ان کا عمل غرض ان کی ساری زندگی دکھاتا ہے۔ ناول لکھنے والا آزاد ہے کہ اپنی کہانی کو سو صفحے میں لکھے یا ہزار صفحے میں کیونکہ ناول پڑھنے والے کے لیے وقت کی کوئی پابندی نہیں، مگر ڈرامہ لکھنے والے کو یہ اندازہ کرنا پڑتا ہے کہ قصہ ٹھیک اتنا بڑا ہوکہ تین ساڑھے تین گھنٹے میں دکھایا جا سکے۔ اس سے زیادہ یا اس سے کم نہ ہو۔ ناول میں واقعات چاہے جتنے زمانے پر پھیلا دیئے جائیں، اس کے اثر میں کوئی خلل نہیں پڑتا۔ کیونکہ وقت کے طول کو صرف تخیل کے سامنے پیش کرنا ہے۔ مگر ڈرامہ میں قصے کا زمانۂ و قوع کم سے کم رکھنا پڑتا ہے، کیونکہ یہاں وقت کے طول کا مشاہدہ کرنا ہے۔ ناول میں ایک شخص کے پیدا ہونے سے لے کر اس کے مرنے تک کے حالات تفصیل سے بیان کئے جا سکتے ہیں، مگر ڈرامہ میں چند دنوں یا چند ساعتوں کے واقعات میں اس کی زندگی کی مکمل تصویر دکھانا پڑتی ہے۔ غرض مقابلہ ناول کے ڈرامہ میں کہیں زیادہ پابندیاں اوردشواریاں ہیں۔ یہاں بہت محدود ذرائع سے کام لے کر بہت گہرا اثر پیدا کرنا ہے۔ اس لئے نہایت واضح مشاہدے، صحیح قوت انتخاب اور مؤثر طرز ادا کی ضرورت ہوتی ہے۔ فرض کیجئے کہ کوئی شخص اکبر اعظم پر ایک ڈرامہ لکھتا ہے۔ پہلی شرط یہ ہے کہ وہ اکبر کی سوانح حیات پر اتناعبور رکھتا ہو اور اس کا تصور اتنا واضح ہوکہ قصہ لکھتے وقت اس بادشاہ کی ساری زندگی متحرک تصویروں کی طرح اس کی آنکھوں کے سامنے سے گذر جائے۔ اب کی قوت انتخاب کا کام ہے کہ ان میں سے چند تصویریں چھانٹ لے، جو اتنی مؤثر اور اتنی معنی خیز ہوں کہ دیکھنے والا ان کے بیچ کے خلو کو آسانی سے پر کر سکے اور اسے پورا سلسلہ نظر آ جائے، ظاہر ہے کہ ان تصویروں کو دکھانے کے لئے اس کے پاس صرف دو ذریعے ہیں، گفتگو اور عمل، انھیں دونوں چیزوں کے ذریعہ سے اسے اکبر اور اس کے زمانہ کے لوگوں کی سیرت، ان کے جذبات و خیالات ان کے اغراض و مقاصد، ان کے آپس کے تعلقات، انکی باہمی کشمکش، ان کی کامیابی اور ناکامیابی کا نقشہ کھینچنا ہے۔ اس لئے وہ ایسے الفاظ اور ایسے اعمال اختیار کرےگا، جو چشم گوش کو فوراً متوجہ کر لیں، ادراک میں سماجائیں، دل میں بیٹھ جائیں، وہ اس کا بھی خیال رکھےگا کہ گفتگو اور عمل میں صحیح تناسب قائم رہے۔ جہاں تک اسٹیج کے ذرائع اور اثر آفرینی کے اصول اجازت دیتے ہیں۔ وہ واقعات کو عمل کے ذریعہ سے دکھائےگا۔ لیکن جب ان کا دکھانا ممکن اور نامناسب ہو تو ان کا ذکر گفتگو میں لے آنے پر اکتفا کرےگا۔ غرض اس کی کوشش یہ ہوگی کہ اس کے ناٹک کا پڑھنے والا دو گھنٹے کے مطالعے میں اور اس کا تماشا دیکھنے والا تین چار گھنٹے کے مشاہدے میں اکبر اور اس کے عہد کی زندگی کی جیتی جاگتی تصویر دیکھ لے، لیکن یہ واضح رہے کہ ڈرامہ کو آرٹ کے معیار پر پہنچانے کے لئے ابھی ایک شرط باقی ہے۔ جو سب سے زیادہ ضروری ہے، ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ قطرے میں دریا’ جز میں کل دکھانا یعنی انفرادیت میں عمومیت پیدا کرنا ڈرامہ کا اہم ترین مقصد ہے۔ اس لئے جس ناٹک کا ذکر اوپر کی مثال میں ہے، وہ کامیاب اس وقت کہلائےگا جب اس میں اکبر اور اس کے ساتھیوں کے حالات اس طرح دکھائے جائیں کہ دیکھنے والے پر زندگی کے گہرے راز جو اکبر میں اور نوع انسانی کے ہر فرد میں مشترک ہیں کھل جائیں۔

    اب تک ہم نے ڈرامہ بحیثیت آرٹ کے ایک شعبے کے نظر ڈالی ہے اور یہی اس کی اصلیت ہے۔ جیسا ہم پہلے کہہ چکے ہیں، اس کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے ذوق مشاہدہ کو انسانی زندگی کا دلکش جلوہ دکھا کر تسکین دے۔ اس سے فرضی طور پر کسی خاص اخلاقی، سیاسی، معاشی نظریئے کی تبلیغ یا عام اصلاح اور تعلیم کا کا م بھی لیا جا سکتا ہے۔ اور ہمیشہ لیا گیا ہے، لیکن اس کا مناسب طریقہ یہ ہے کہ اس ضمنی مقصد کے لئے کھلی ہوئی کوشش نہ کی جائے، بلکہ وہ تماشے کے لطف کے ساتھ پردے میں حاصل ہو جائے۔ اگر اصلاحی یا تعلیمی رنگ غالب آ گیا تو پھر ڈرامہ، ڈرامہ نہیں رہتا، بلکہ ایک اخلاقی قصہ بن جاتا ہے اور خالص آرٹ کے دائرے سے باہر ہو جاتا ہے۔

    ڈرامہ کے بنیادی عناصر
    ڈرامہ دو بنیادی عناصر سے مرکب ہے۔ جو مساوی اہمیت رکھتے ہیں (۱) قصہ (۲) اشخاص۔

    ڈرامہ کے لیے یہ شرط ہے کہ اس کے واقعات بہت موثّر اور جاذب نظر ہوں، ہر چیز کرکے دکھائی جا سکے۔ کوئی جزو ایسا نہ ہو کہ مصنف کو الفاظ میں سمجھانے یا بیان کرنے کی ضرورت ہو۔ قصے کے کچھ اجزاء خصوصاً ایسے قصے جن کے دیکھنے سے کراہت ہو عمل کے ذریعہ سے نہ دکھائے جائیں بلکہ اشخاص کی گفتگو میں ان کا ذکر آئے تو کوئی حرج نہیں، لیکن ایسے حصے ڈرامے میں جتنے کم ہوں اچھا ہے، کیونکہ جب کوئی ناٹک تھیٹر میں دکھایا جاتا ہے تو دیکھنے والے سارے قصہ کو آنکھ سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کا بیان کانوں سے سن کر انھیں اطمینان نہیں ہوتا۔

    قصے کو زیادہ دلچسپ اور دل نشین بنانے کے لئے ضروری ہے کہ واقعات کا رخ بالکل سیدھا اور یک رنگ نہ ہو بلکہ ان کا رجحان کم سے کم دو مختلف سمتوں میں ہو، تاکہ دیکھنے والے کو آخری سین تک یہ اشتیاق رہے کہ انجام کیا ہوگا۔ اس اثر کو گہرا کرنے کے لئے ڈراما میں دو زیادہ قوتوں کی باہمی نزاع اور کشمکش دکھائی جاتی ہے۔ خواہ یہ مجرد قوتیں مثلاً تقدیر و تدبیر، نیکی اور بدی وغیرہ ہوں یا اشخاص اور جماعتیں ہوں۔

    سب سے اہم بات جو ہم پہلے کہہ چکے ہیں، یہ ہے کہ قصے کے واقعات سے عمومیت ظاہر ہو، یعنی دیکھنے والے پر یہ اثر پڑے کہ زندگی کے جو نشیب وفرار قصے کے اشخاص کو پیش آئے ہیں وہ دنیا میں سب کو پیش آیا کرتے ہیں۔

    اگر یہ بات نہ ہو تو ڈرامہ محض تھوڑی دیر کے لئے ہمیں متوجہ کر سکےگا۔ اور ہمارے دل پر اس کا کوئی گہرا نقش نہ بیٹھنے پائےگا۔

    اشخاص کی اہمیت ڈرامہ میں ناول سے اور افسانہ کی دوسری اصناف سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ یہاں مرقع کی مرکزی تصویر انسان کی ذات ہے اور خارجی دنیا، محض پس منظر کا کام دیتی ہے۔ عالم فطرت کے جلوے دکھائے جاتے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ انسانی زندگی کے آئینے کے رنگا رکا کام دیں اور چونکہ ڈرامہ کو فوری اور قوی اثر پیدا کرنے کے لئے ہر نقش میں گہرا رنگ بھرنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے اشخاص کی سیرت بھی تازگی اور زندگی پیدا کرنے میں خاص اہتمام کرنا پڑتا ہے۔

    ڈرامہ نگار کے لئے اشخاص کی اندرونی زندگی کی واضح اور جاذب نظر تصویر کھینچنا جتنا ضروری ہے اتنا ہی مشکل بھی ہے۔ اسے اس کی اجازت نہیں کہ ناول لکھنے والوں کی طرح کسی شخص کی نفسی کیفیات کی تحلیل اپنی طرف سے کر سکے، اس کے اشخاص خود اپنی گفتگو اور اپنے عمل سے اپنی سیرت کا اظہار کرتے ہیں، اس اظہار کے لئے مناسب موقع پیدا کرنا ایک دوسرے سے مشابہ اور متضاد اشخاص کو اس طرح جمع کرنا کہ ان کی گفتگو سے ہر ایک کے دل کی گہرائی پر روشنی پڑے، ان میں باہمی کشمکش پیدا کرنا تاکہ ان کی خصوصیات اچھی طرح ابھر آئیں۔ یہی ڈرامہ نگاری کا کمال ہے۔

    مگر اس سے بھی زیادہ کمال یہ ہے کہ اشخاص میں انفرادیت کے ساتھ ساتھ جو ان کی ناگزیر صفت ہے، ایک طرح کی عمومیت پیدا کی جائے، شخص یاکریکڑ کی تعریف ہی یہ ہے کہ وہ اپنی سیرت میں جدا گانہ اور مخصوص صفات رکھنا ہو، جو اسے دوسروں سے ممتاز کریں۔ ڈرامہ نویس مجبور ہے کہ اکثر صورتوں میں اس شان کو قائم رکھے۔ لیکن اسی کے ساتھ اس سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے قصے کے اہم اشخاص کو کسی طبقے، کسی جماعت یا پوری نوعِ انسانی کے نمائندوں کی حیثیت سے پیش کرے تاکہ اس کی مثال دوسروں پر بھی صادق آ سکے۔ اس مشکل کو حل کرنے کے لئے مختلف تدابیر اختیار کی جاتی ہیں، جن کا ذکر آگے آئےگا۔

    اوپر کے صفحوں میں ڈرامہ کے بنیادی عناصر کا عام حیثیت سے ذکر کیا گیا ہے، لیکن ڈرامہ کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں اور ہر قسم میں عناصر ایک خاص صورت اختیار کرتے ہیں۔ اس لئے ان پر کسی قدر تفصیلی بحث کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اقسام ڈرامہ کے ذکر کے سلسلہ میں ان پر جدا جدا نظر ڈالی جائے۔

    ڈرامہ کی قسمیں
    ڈرامہ کے قصے کا پڑھنے والوں اور دیکھنے والوں کے احساس و جذبات پر جو عام اثر پڑتا ہے اس کے لحاظ سے اس کی دو قسمیں ہیں۔ (۱) المیہ (۲) فرحیہ۔

    ہم کہہ چکے ہیں کہ ڈرامہ میں جذبات پر بہت گہرا اثر ڈالنا ہوتا ہے تاکہ تھوڑی سی دیر میں دیکھنے والے کا احساس و مشاہدہ کافی لطف اندوز ہو سکے۔ جس طرح انسان کے سارے جذبات میں احساس کی دوبنیادی کیفیتوں، راحت والم میں سے کوئی کیفیت ضرور موجود ہوتی ہے۔ اسی طرح ڈرامہ کے پڑھنے دیکھنے سے جو جذبات پیدا ہوتے ہیں، ان میں بھی راحت یا الم کا رنگ ضرور ہوتا ہے۔ کبھی ڈرامہ زندگی کا المناک پہلو دکھاتا ہے اور دیکھنے والے کے دل پر لطف مشاہدہ کے ساتھ حسرت و الم کی کیفیت طاری کر دیتا ہے۔ کبھی فحرناک پہلو کا منظر دکھاتا ہے اور انسان کو محظوظ ہی نہیں بلکہ مسرور بھی کرتا ہے۔ یوں تو ہر ڈرامہ میں یہ دونوں رنگ موجود ہوتے ہیں، لیکن کسی میں ایک غالب ہوتا ہے اور کسی میں دوسرا، جس ڈرامے میں الم کا رنگ زیادہ گہرا ہو، وہ المیہ کہلاتا ہے۔ جس مین راحت کا ہو اسے فرحیہ کہتے ہیں۔ بعض وقت المناک اور فرحناک عناصر کا پلہ برابر ہوتا ہے، ایسے ڈرامہ کو ہم المفرحیہ کہہ سکتے ہیں اور اسے ایک تیسری قسم قرار دے سکتے ہیں، لیکن زیادہ رواج ڈرامہ کی دو ہی قسموں نے پایا ہے، اس لئے ہم صرف انھیں کا ذکر کریں گے۔

    المیہ
    جو شخص مشاہدۂ نفس سے کام لیتا ہے وہ جانتا ہے کہ الم کا جذبہ راحت سے زیادہ قوی، گہرا اور دیرپا ہوتا ہے۔ راحت و مسرت سے انسان کے جسم و روح پر ایک مستی سی چھا جاتی ہے، ایک نشہ سا مسلط ہو جاتا ہے۔ اس لئے اس کا احساس کسی قدر کند ہو جاتا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انتہائی خوشی کے عالم میں انسان کو اپنی کچھ خبر نہیں رہتی۔ اور جب یہ کیفیت گذر جاتی ہے تو اسے ہوش آتا ہے۔ اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ کتنا خوش تھا۔ بہ خلاف اس کے الم، حس اور ادراک کو اس قدر تیز کر دیتا ہیکہ انسان کی ہر خلش، ہر کسک صاف محسوس ہوتی ہے۔ جب تک ہم کسی جسمانی یا روحانی کرب میں مبتلا رہتے ہیں، اس کا احساس ہمارے دل پر چھایا رہتا ہے، کسی دوسرے احساس کو ابھرنے نہیں دیتا۔ اس لئے ڈرامے کی دو خاص قسموں میں سے المیہ اثر کے لحاظ سے فرحیہ سے بہت بڑھا ہوا ہے۔ چنانچہ پہلے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ ڈرامہ کا اصل آرٹ المیئے میں ظاہر ہوتا ہے، ظاہر ہے کہ یہ خیال مبالغے پر مبنی تھا اور جدید زمانے میں غالباً شکسپیر کے فرحیوں کے دیکھنے کے بعد اہل نظر اسے بدلنے پر مجبور ہوئے، لیکن اس میں اب بھی کسی کو کلام نہیں ہو سکتا کہ دنیا کی ہر زبان میں بہترین ناٹک تقریباً سب کے سب المیئے ہیں۔

    المیئے کے پڑھنے یا دیکھنے سے جو کیفیت لوگوں کے قلب میں پیدا ہوتی ہے، اس میں سب سے نمایاں حسرت و الم کے جذبات ہیں، لیکن ان کے ساتھ خوف و عبرت، ہمدردی اور تعریف بھی ملی جلی ہوتی ہے۔ جو ڈرامہ محض رنج ومصیبت کی تصویر ہے، جس کے دیکھنے سے سوائے غم و اندوہ، افسوس اور رقت کے کوئی اثر دل پر نہ ہو، وہ المیہ نہیں بلکہ میلوڈرامہ (رقت انگیز ڈرامہ) کہلاتا ہے، کسی شرابی کا شراب خوری کی بدولت تباہ ہو جانا، کسی جواری کا قمار بازی کے پیچھے گھر بار لٹا دینا۔ ایسے واقعات ہیں جنھیں دیکھ کر رنج ہوتا ہے، تکلیف پہنچتی ہے لیکن سوائے ان لوگوں کے جن کی طبیعت میں غیرمعمولی درد ہو، کسی کو ان بدنصیبوں سے ہمدردی نہیں ہوتی۔ اس لئے یہ واقعات میلوڈرامہ کے ہو سکتے ہیں، مگر المیئے کے نہیں۔ کسی بیمارکے جسمانی یا دماغی آلام، کسی مفلس کی فاقہ کشی کی مصیبت دیکھنے والوں کے دل میں افسوس کے ساتھ ہمدردی کے جذبات بھی پیدا کرتی ہے، لیکن بجائے خود تعریف کی مستحق نہیں۔ اس لئے جو قصہ محض ان چیزوں کے ذکر پر مبنی ہو اس میں المیئے کا رنگ پیدا نہ ہوگا۔ المیئے کی شان یہ ہے کہ اس کا ہیرو بلند ہمت اور بلند سیرت ہو، اس پر کوئی ایسی مصیبت پڑے جو دل میں رعب اور دہشت پیدا کرتی ہو، جس میں خود کا قصور نہ ہو یا ہو بھی تو نیک نیتی سے۔ وہ ہمت اور شجاعت سے اس مصیبت کا مقابلہ کرے۔ مگر آخر میں مغلوب ہوکر ہلاک یا تباہ ہو جائے۔ مثال کے لئے شیکسپیئر کا المیہ آتھیلولے لیجئے۔ آتھیلو ایک عربی نسل کا سپاہی ہے، جو ومنیس کی جمہوری ریاست میں سپہ سالاری کی خدمت پرمامور ہے۔ ومنیس کے ایک امیر کی لڑکی ڈلیسڈیمونا اس پرعاشق ہو جاتی ہے۔ اور آتھیلو بھی اس کی محبت میں وارفتہ ہو جاتا ہے۔ باوجود ڈلیسڈیمونا کے باپ کی مخالفت کے ومنیس کے فرما نروا ڈیوک کے حکم سے دونوں کی شادی ہو جاتی ہے، آتھیلو کا ایک بدنفس ماتحت اپاگو کچھ کینہ پروری سے اور کچھ مقتضائے طبیعت سے اس کے دل میں یہ شبہ پیدا کر دیتا ہے کہ ڈیسڈیمونا ایک اور فوجی افسر کیسیو سے ناجائز محبت رکھتی ہے۔ اپاگو کی شیطانی چالوں سے آتھیلو کا یہ شبہ یقین کے درجہ تک پہنچ جاتا ہے، وہ ڈیسڈیمونا کو قتل کر دیتا ہے اور اس کے بعد خود بھی جان دے دیتا ہے۔

    اس ڈرامے کو پڑھئے تو آپ دیکھیں گے کہ آتھیلو کی بہادری، بلند حوصلگی، عالی ظرفی، سادگی اور ڈیسڈیمونا کا حسن، اس کا بھولا پن، اس کی محبت، عصمت وعفت، وفاداری، ہمارے دل کو ابتدا سے موہ لیتی ہیں اور ہم ہیرو اور ہیروئن سے سچی محبت اور ان کا سچا احترام کرنے لگتے ہیں۔ پھر رقابت کا جذبہ جو آتھیلو کے سینے میں جہنم کی آگ کی طرح بھڑکتا ہے اور اس کے جسم و روح کو جلائے ڈالتا ہے، ہماری طبیعت میں ایسی گہری دہشت پیدا کرتا ہے جو شاید سخت سے سخت جسمانی اذیت کا منظر دیکھ کر بھی نہ پیدا ہوتی۔ آتھیلو جس جواں مردی اور عالی ظرفی سے اس جذبے کو دبانے کی کوشش کرتا ہے اسے دیکھ کر ہم بے اختیار اس کی تعریف کرتے ہیں۔ مگر آخر میں جب ہم پر یہ درد ناک حقیقت کھلتی ہے کہ اس دنیا میں اتھیلو کا سا ہیرو غصے اور غلط فہمی کا شکار ہوتا ہے، ڈیسڈیمونا کی سی ہیروئن اپنے چہیتے اور چاہنے والے شوہر کے ہاتھوں بے گناہ قتل ہوتی ہے تو ہم رنج والم، افسوس اور ہمدردی کے جوش سے بے تاب ہو جاتے ہیں اور اسی کے ساتھ ساتھ ہم پر ایک پراسرار رعب چھا جاتا ہے۔ ایک گہری عبرت طاری ہو جاتی ہے اور یہی المیئے کی جان ہے۔

    المیہ لکھنے میں یہ اثر مختلف طریقوں سے پیدا کیا جاتا ہے۔ کبھی اس کا ہیرو باوجود اپنی اعلیٰ سیرت کے اپنی خلقی کمزوری یاغلط فہمی کے سبب سے خود اپنی تباہی کا باعث ہوتا ہے، کبھی وہ مافوق الافراد یا مافوق الفطرت قوتوں کے ہاتھ میں کھلونا بن کر ہلاک ہوتا ہے اور کبھی اس کے پیش نظر دو متضاد مقاصد یا نصب العین ہوتے ہیں، جن میں سے وہ ایک کو دوسرے پر ترجیح نہیں دے سکتا اور اسی کشمکش میں مارا جاتا ہے۔

    ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ ڈرامہ کا ایک بڑا اہم عنصر عمومیت ہے، یعنی قصے کو اس طرح بیان کرناکہ ایک خاص شخص کی زندگی پرعام انسانی زندگی کا قیاس کیا جا سکے۔ اس مقصد کے حاصل کرنے کے لئے ڈرامہ لکھنے والے بہت سے ذرائع اختیار کرتے ہیں۔ ایک ذریعہ یہ ہے کہ ہیرو بادشاہ یا کوئی اور بلند مرتبہ شخص بنایا جائے، جس کا انجام ایک پورے ملک یا پوری قوم کی زندگی پر اثر ڈالے اور سارے انسانوں کے لئے سرمایۂ عبرت ہو۔ یا پھر اس کی ذات ایک علامت (Symbol) ہو، جس سے پوری نوعِ انسانی یا ایک پوری قوم مراد لی جا سکے۔ مثلاً ٹیگور کے ڈرامے پوسٹ آفس کا ہیرو امال مشرقی انسان کی روح کی علامت مجسم ہے۔ اور اس کی تمنائے آزادی نوعِ انسان کی اس ابدی آرزو کی علامت ہے کہ وہ عالم مجاز سے نجات پاکر عالم حقیقت پر پہنچے۔

    دوسرا ذریعہ یہ ہے کہ قصے کے ہیرو پر جو مصیبت آئے اس کا ذمہ دار مافوق الفطرت قوتوں مثلاً تقدیر کو یا دیوتاؤں کو یا شیطانی روحوں کو قرار دیا جائے۔ اس سے قصے کے پڑھنے والوں کو یہ احساس ہوتا ہے کہ ان قوتوں نے جن کا اثر سب انسانوں پر عام ہے جو ایک شخص کے ساتھ کیا وہی سب کے ساتھ کر سکتی ہیں، جدید زمانے میں لوگ ان چیزوں کے قائل نہیں، اس لئے ڈرامہ نویس عموماً ان کی جگہ وراثت سے کام لیتے ہیں۔ یعنی کسی شخص کی مصیبتوں کا ذمہ دار اس کے اسلاف کے موروثی اثر کو قرار دیتے ہیں، جیسے ابسن کے ڈرامہ کا ’’جنیث روحیں‘‘ کے ہیرو کا جو افسوسناک انجام ہوا جو اس نے اپنے باپ کے ترکے میں پایا تھا۔

    تیسرا ذریعہ یہ ہے کہ ڈرامے کے اصل قصے میں ڈرامہ نویس ایک ضمنی قصہ بھی داخل کر دیتا ہے۔ اس میں وہی افسوسناک واقعات جو اصل قصے میں پیش آئے تھے، کسی قدر اختلاف کے ساتھ دہرائے جاتے ہیں۔ مثلاً شکسپیر کے کنگ لیر میں جو ناشکرگذاری کا برتاؤ لیر کی بیٹیاں لیر کے ساتھ کرتی ہیں وہی گلوسٹر کے بیٹے گلوسٹر کے ساتھ کرتے ہیں۔ اس تکرار کا اثر دیکھنے والوں پر یہ پڑتا ہے کہ نیکی کا بیج بونا اور بدی کا پھل پانا کچھ لیر ہی کے لئے نہ تھا، بلکہ دنیا میں سبھی کو یہ دن دیکھنا پڑتا ہے۔

    المیئے کے قصے کی یہ عمومیت عبرت کے اثر کو بڑھاتی ہے۔ مگر رنج و الم کے اثر کو گھٹا دیتی ہے۔ مصیبت کا کوئی منظر دیکھتے وقت اگر یہ احساس پیدا ہو جائے کہ یہ حالت زندگی میں ہر شخص پر گذرتی ہے تو نیش الم کی کھٹک بہت کچھ کم ہو جاتی ہے اور آرٹ کے نقطۂ نظر سے المیئے میں اس کی بہت ضرورت ہے، آرٹ جو کیفیت دلوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے اس میں اس کی گنجائش نہیں کہ کوئی جذبہ خواہ وہ رنج و الم ہو یا راحت و مسرت، حد سے بڑھ جائے، کیونکہ پھر احساس میں جمالیاتی رنگ نہیں رہتا، جس کے لئے تناسب اور موزونیت لازمی ہے۔ اگر فریاد کی کوئی لے نہیں ہے، نالہ پابند نہیں ہے تو وہ فریاد اور نالہ چاہے آرٹ سے بڑھ کر ہو مگر آرٹ نہیں کیونکہ وہ سننے والے کے دل کے تاروں کو چھیڑتا تو ہے مگر اس طرح کہ ان سے ہم آہنگ نغموں کی جگہ بے سری صدائیں نکلتی ہیں۔

    اسی وجہ سے باکمال المیہ نویس مصیبت اور تکلیف کے مناظر بہت بڑھا کر یا بہت دیر تک نہیں دکھاتے اور جو کچھ دکھاتے بھی ہیں اس کے المناک اثر کو کم کرنے کے لئے یا تو عمومیت سے کام لیتے ہیں، جس کا ابھی ذکر ہوا یا بیرونی عظمت اور شجاعت پر زور دے کر ایک تسکین کا پہلو نکالتے ہیں یا طرز بیان میں تشبیہہ و استعارے کی لطافت و ندرت اور دوسری شاعرانہ خوبیاں پیدا کرنے میں غیرمعمولی اہتمام کرتے ہیں، تاکہ خیال کسی قدر بٹ جائے۔

    اس سے ایک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ المیہ لکھنے کے لئے بہ مقابلہ نثر کے نظم زیادہ مناسب ہے اور یہ بڑی حدتک صحیح ہے، عہد قدیم میں المیہ ہمیشہ نظم میں لکھا جاتا تھا۔ جب سے نثر میں لکھنے کا رواج شروع ہوا، اسی وقت سے ادب میں المیئے کا معیار بھی کم ہونے لگا۔ چنانچہ نثر میں اعلیٰ درجہ کے فرحیئے بہت کثرت سے ہیں، مگر المیئے معدودے چند ہی ہیں۔ ان میں سے غالباً سب سے بلند درجہ گوئٹے کے فاؤسٹ کا ہے۔ گوئٹے نے اپنے زمانہ کے مذاق سے متاثر ہوکر فاؤسٹ کو نثر میں لکھا، لیکن اس میں گیتوں اور سنگیتوں کے نام سے نظم کا حصہ بہت کافی ہے اور خصوصاً زیادہ المناک ٹکڑے سب کے سب نظم میں ہیں۔ اور جتنے اچھے المیئے نثر میں ہیں ان کا مقصد زیادہ تر اخلاقی اور اصلاحی ہے۔ جمالیاتی عنصر ان مین بہت کم ہے۔

    فرحیہ
    جس ڈرامے میں واقعات کی عام رفتار اور قصہ کا انجام خوشگوار ہو، یعنی جس سے دیکھنے والوں کے دل پر فرحت و مسرت کا اثر ہو، اسے فرحیہ کہتے ہیں، مگر جس طرح وہ کھیل جو محض رنج والم کے جذبات ابھارتا ہے، وہ المیئے کی شان نہیں رکھتا۔ بلکہ ایک کمتر درجہ کی چیز ہے۔ میلو ڈرامہ (رقت آمیزڈرامہ) کہلاتا ہے، اسی طرح وہ کھیل جو محض تفریح اور دل لگی کا باعث ہوتا ہے، فرحیئے کے معیار سے پست ہوتا ہے، اور فارس (نقل) کے نام سے موسوم ہے، فرحیئے سے راحت و مسرت کے علاوہ دیکھنے والوں کی طیبعت کو اطمینان اور آزادی کی ایک مستقل کیفیت محسوس ہوتی ہے اور زندگی کا بوجھ اس کے دل پر سے ہٹ جاتا ہے۔

    عموماً اس کیفیت کا اظہار ہنسی سے ہوتا ہے۔ اس لئے اگر ہم اس پر غور کریں کہ ہنسی عموماً کن چیزوں پرآتی ہے توہم فیصلہ کر سکتے ہیں کہ فرحیئے کے کیا عناصر ہونا چاہئیں۔ نفسیات کے ماہروں کا عام طور پر یہ خیال ہے کہ ہنسی کی محرک تین چیزیں ہوتی ہیں۔ کسی شخص کی خفت یا ذات، اس کا بھونڈا پن یا بے تکاپن، اس کا شخصیت سے محروم اور مشین نما ہونا۔ مثلاً جب کسی کا خصوصاً جب کسی خواہ مخواہ مرد آدمی کا پیر پھسلے اور وہ گرے تو ہمیں ہنسی اس لئے آتی ہے کہ یہ افتاد اس شخص کی خفت کا باعث ہے، دوسرے اس لئے کہ گرتے وقت اور گرنے کے بعد اس کی قطع بے تکی ہو جاتی ہے، چہرے کی عجب برزخ ہو جاتی ہے۔ منہ پھیل کر رہ جاتا ہے، ٹانگیں اوپر اٹھ جاتی ہیں، تیسرے اس لئے کہ اس کی بے بسی دیکھ کر ایک لمحہ کیلئے گویا ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ حضرت اشرف المخلوقات ہیں۔ جن سے ہمیں ہمدردی کرنا چاہئے بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ گوشت اور چربی کا ایک تودہ ہے، جسے تکلیف کا کوئی احساس نہیں۔

    فرانسیسی فلسفی برگسان نے ہنسی کے محرکات کی تحلیل جو کی ہے وہ زیادہ مکمل ہے وہ کہتا ہے، ہنسی کے لئے شرطیں ہیں، (۱) اس کا موضوع شکل صورت، وضع قطع یا طرز معاشرت میں سوسائٹی کے عام رنگ سے مختلف ہو۔ (۲) جس حالت میں وہ پایا جائے اس میں اس کی شخصیت چھپ جائے اور وہ مشین یا کٹھ پتلی کی طرح معلوم ہو۔ (۳) دیکھنے والے کو اس وقت اس کے انسانی جذبات کا احساس نہ ہو۔ مثلاً اوپر کی مثال میں موٹا ہونا سوسائٹی کی عام روشن سے ہٹی ہوئی چیز ہے، پھر پھس کر گرنے میں ہر شخص کٹھ پتلی کی طرح مجبور ہوتا ہے اور پھر موٹے آدمی کی بے بسی کا تو کیا پوچھنا ہے، رہی تیسری شرط تو ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں بیچارے الفربہ کے جذبات کا کسے احساس ہوتا ہے۔

    لیکن بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ایک چیز ہنسی کی محرک ہوتی ہے جس کا برگسان نے ذکر نہیں کیا۔ اور وہ تہذیب اور ثقاہت کے تکلفات سے آزادی کا احساس ہے۔ مثلاً ایک مجمع میں جہاں سب مقطع اور ثقہ لوگ بیٹھے ہیں اور انسان وہاں بات کرنے بلکہ سانس لینے میں تکلیف محسوس کرتا ہے، کوئی شخص کوئی موٹی سی گالی بک دے یا پھکڑ مذاق کر بیٹھے تو حالانکہ خوش مذاق لوگوں کے لئے گالی یا بیہودہ مذاق بجائے خود کوئی ہنسی کی چیز نہیں، مگر ایسے موقع پر انھیں بے اختیار ہنسی آ جائےگی۔

    ہنسی کی اس نفسیاتی تحلیل کو نظر میں رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ فرحیئے میں وہ کیفیت جس پر ہنسی آتی ہے پانچ طرح سے پیدا ہو سکتی ہے۔

    (۱) ایک تو کسی شخص کی بے تکی جسمانی صفات سے مثلاً ناک کا بڑا ہونا۔

    (۲) اس کی انوکھی ذہنی اور روحانی صفات سے، مثلاً سچ مچ کا مراق یا خبط یا کسی معمولی صفت میں اس قدر مبالغہ جو مراق کی حد تک پہنچ جائے۔

    (۳) اس کی نرالی عادتوں اور حرکتوں سے مثلاً کندھے اچکانا، منہ چڑھانا۔

    (۴) کسی مضحک حالت کے دکھانے سے۔

    (۵) مضحک الفاظ اور فقرے استعمال کرنے سے۔

    فرحیہ نگاران سب ترگیبوں سے کام لیتا ہے، لیکن ان کے استعمال میں تناسب کو مدنظر رکھتا ہے۔ جس ناٹک میں محض بے تکی جسمانی صفات یا نرالی عادتیں اور حرکتیں دکھائی جائیں وہ فرحیہ نہیں رہتا بلکہ نقل (فارس) بن جاتا ہے۔ فرحیئے میں یہ چیزیں اس حد تک کھپتی ہیں، جہاں تک یہ ذہنی اور روحانی بے آہنگی کی علامت ہوں۔ البتہ انوکھی ذہنی صفات کو نمایاں کرنا، مضحک حالتوں کا پیدا کرنا، مضحک الفاظ اور فقرے استعمال کرنا فرحیئے کا اصل جوہر ہے۔

    یہاں تک ہم نے فرحیئے کے عناصر مضمون کے لحاظ سے بیان کئے، اب دیکھنا یہ ہے کہ ہنسنے کے لئے طرز ادا کیا اختیار کیا جاتا ہے۔

    انسان اپنی خوش طبعی کا اظہار ان تین طرزوں میں سے کسی طرز سے کرتا ہے، مذاق یادل لگی، ظرافت طنز۔

    مذاق یا دل لگی اسے کہتے ہیں کہ آدمی اپنی فطری شگفتہ طبعی سے ہر بات میں ہنسی کا پہلو ڈھونڈے۔ خود ہنسے اور جس پر ہنسے اسے بھی ہنسائے، اس کی بنیاد ہمدردی، یار باشی، کشادہ دلی پر ہوتی ہے۔ مذاق کرنے والے کا مقصد کسی کو خفیف کرنا نہیں بلکہ سب کو خوش کرنا ہوتا ہے۔ وہ جس طرح دوسروں پر چوٹ کرتا ہے، اسی طرح اپنے آپ پر بھی فقرے کستا ہے، اس کی طبیعت میں یا اس کی باتوں میں کوئی خاص نفاست یا باریکی نہیں ہوتی، لیکن وہ تناسب کا کسی قدر احساس رکھتا ہے، اس کی نظر بے ڈول یا بے تکی چیز پر فوراً پڑتی ہے۔ وہ بے ساختہ ہنس پڑتا ہے اور اس کے ہنسنے پر دوسروں کو ہنسی آجاتی ہے۔ مذاق کرنے والا اگر متانت اور خودداری سے بالکل خالی ہو۔ اس کی باتوں میں بازاری پن کی جھلک اور خوشامد یا مطلب برآری کا پہلو ہو تو وہ مسنحرا اور اس کا مذاق مسنحرا پن کہلاتا ہے۔

    وہ مذاق جو پستی کی طرف جھکنے کی بجائے بلندی کی طرف ابھرتا ہے، جس میں نفاست، ندرت، ستھرا پن پایا ہے، اسے ظرافت کہتے ہیں۔

    ظرافت کی بنیاد شوق طبعی، نکتہ سنجی اور ذہنی رعونت پر ہوتی ہے، ظریف آدمی کا احساسِ تناسب اتنا نازک ہوتا ہے کہ وہ ذرا سابے تکاپن بھی برداشت نہیں کر سکتا، جب وہ بے ڈول چیزوں اور بے تکے لوگوں کو دیکھتا ہے تو اس کے دل میں ہمدردی کی جگہ ایک طرح کی حقارت پیدا ہوتی ہے۔ وہ دل لگی باز کی طرح کھلے دل سے اور کھلے الفاظ میں مذاق نہیں کرتا، بلکہ برتری کے احساس کے ساتھ اپنے آپ کو لئے دیئے ہوئے لطیف اشاروں اور کناؤں میں چوٹیں کرتا ہے۔ اور اسے اس کی پروا نہیں ہوتی کہ اس سے دوسروں کے جذبات کو ٹھیس لگےگی۔ اس کا مقصد کمتر ہنسنا اور زیادہ تر بےوقوفوں اور سادہ لوحوں کو بنانا خفیف کرنا ہوتا ہے۔

    اگر ظرافت حد سے زیادہ تلخ اور ترش ہو جائے تو وہ طنز کے درجے پر پہنچ جاتی ہے۔ طنز کرنے والاعموماً اکل کھرا اور مردم بیزار ہوتا ہے۔ اس کی نظر حماقت اور بے تکے پن کے علاوہ اخلاقی کمزوریوں پر بھی ہوتی ہے۔ ان چیزوں کو دیکھ کر اسے تکلیف ہوتی ہے اور وہ ان کی پروہ وری کرکے دوسروں کو بھی تکلیف پہنچانا چاہتا ہے۔ اس کی ہنسی زہر خند کی رکھتی ہے اور اس کی ہنسی ظراطت اور غصے میں ڈوبی ہوتی ہے۔

    ان میں سے فرحیئے کا مخصوص طرز ادا مذاق اور دل لگی ہے، ظرافت کا استعمال محدود ہے۔ اس کی باریکی اور شوخی سے کام لیا جاتا ہے، لیکن رعونت کا انداز اختیار نہیں کیا جاتا، اکثر اعلیٰ درجہ کے فرحیہ نگار مثلاً شکسپیئر جن لوگوں کا مضحکہ اڑاتے ہیں، ان کی تحقیر نہیں کرتے بلکہ ان سے ایک حدتک محبت رکھتے ہیں، شکسپیر کی ہنسی میں تلخی نہیں ہوتی، اس کی پھبتیوں میں نیش نہیں ہوتا، اس کے سب سے مشہور مضحک کیرکڑ فالستاف کی حماقت، لالچ، شیخی پر ہم جی کھول کر ہنستے ہیں، لیکن جب وہ اپنے کئے کی سزا پاتا ہے توہمیں اس پر رحم آ جاتا ہے، مولیر جو غالباً فرحیہ نگاری کا سب سے بڑا استاد ہے، شکسپیر سے زیادہ سخت گیر ہے لیکن اس کا دل بھی رعونت تحقیر کے جذبات سے خالی ہے، وہ جن لوگوں کا خاکہ اڑاتا ہے، انھیں اپنے سے کم درجہ کا مخلوق نہیں بلکہ اپنی طرح انسان سمجھتا ہے۔

    بقیہ دو طرز یعنی مسنحراپن اور طنز، فرحیئے کے لئے مناسب نہیں، مسنحراپن پر ہنسی ضرور آتی ہے لیکن خوشی کی جو کیفیت اس سے پیدا ہوتی ہے، وہ سطحی اور عارضی ہوتی ہے اس سے تھوڑی دیر دل بہلتا ہے، لیکن زندگی کی دشواریوں میں کوئی مستقل سہولت حاصل نہیں ہوتی۔ اس طرز کا استعمال نقل (فارس) ہے، جوعوام میں بہت مقبول ہے، لیکن خوش مذاق لوگوں کی نظر میں زیادہ وقت نہیں رکھتی۔

    طنز کی گنجائش فرحیئے میں اور کم ہے فرحیئے کی سبک روی اس کی تلخی اور ترشی کا بار نہیں اٹھا سکتی طنز کی جان غم و غصہ اور نفرت کی جذبات ہیں، جو مذاق کے ہلکے سے پردے میں چھپے ہوتے ہیں، تنقید اور تضحیک کے لئے یہ بہت اچھا آلہ ہے، لیکن فرحیئے میں جس کا اصل مقصد تفریح اور خوش وقتی ہے، اس کی آشفتہ نوائی سارے عیش کو تلخ کر دیتی ہے۔

    ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ہنسی زیادہ تران لوگوں پر آتی ہے، جن میں شخصیت نہ ہو بلکہ کٹھ پتلی کی طرح کسی بیرونی قوت کے اشارے پر حرکت کرتے ہوں، اس لئے فرحیئے میں جس کا دار و مدار ہی اس پر ہے کہ ہر شخص کو مضحک حالت میں دکھایا جائے عموماً کوئی نمایاں شخصیت رکھنے والا کیرکڑ یعنی ہیرو نہیں ہوتا، اگر کسی کیرکٹر کو خاص طرح سے محضحک بنایا جائے تو اس کی شخصی حیثیت پر زور نہیں دیا جاتا، بلکہ اس سے کسی جماعت یا طبقے کی مثال (Type) کا کام لیا جاتا ہے، مثلاً مولیر کے ڈراموں میں جہاں کہیں ایک طبیعت یا ایک کنجوس آدمی اکثر فرحیوں میں اصل قصے کے ساتھ ایک یا زیادہ ضمنی قصے بھی ہوتے ہیں، جس کے اشخاص کی اہمیت قریب قریب مساوی ہوتی ہے، اس طرح فرحیئے میں عمومیت کا رنگ جس کے لئے المیئے میں خاص اہتمام کرنا پڑتا ہے خود بخود پیدا ہو جاتا ہے، عمومیت پیدا کرنے کی اور ترکیبیں مثلاً مافوق الطفرت قوموں کا ذکر فرحیئے میں کام نہیں دیتا، کیونکہ ان سے خود اور دہشت کا اثر پڑتا ہے اور فرحیئے کی منشاء کے خلاف ہے۔

    ڈرامے کی نشوونما عہد قدیم سے عہد جدید تک
    انسانی زندگی کی تمثیلیں ناٹک کے ذریعہ دکھانے کی رسم اکثر قوموں میں قدیم زمانہ سے پائی جاتی ہے، لیکن اسے ادبی اور شاعرانہ حیثیت پہلے پہل چینیوں، یونانیوں اور ہندوؤں نے دی ان تینوں قوموں نے ایک دوسرے سے متاثر ہوئے بغیر الگ الگ اس صنعت شاعری کو ایجاد کیا یونانیوں میں اس رسم کی بنیاد اس طرح پڑی کہ ان کے یہاں ابتدا سے ڈایونی سیس دیوتا کے پوجا کے سلسلے میں مذہبی روایات ناٹک کی شکل میں دکھائی جاتی تھیں، جب یونانی تمدن نے ترقی کی تو شعراء میں رسم کے لئے خاص ڈرامے تیار کرنے لگے، عام دستور یہ تھا کہ اس موقع پر ایک فرحیہ او تین المیئے دکھائے جاتے تھے، جوڈرامہ نگار چوٹی کے سمجھے جاتے تھے، ان کے ڈرامے اس کام کے کئے منتخب ہوتے تھے، یونانی زبان کے اکثر بہترین ڈرامے اس تقریب سے لکھے گئے۔ یونانیوں میں ڈرامہ کے اصول و ضوابط سب سے پہلے ارسطو نے اپنی شعریات (Poeties) میں مرتب کئے، ارسطو کی خصوصیت یہ ہے کہ یونانیوں کے ذہن نے اپنی فطری تخلیقی رد میں علم و ادب اور فنون لطیفہ کے جو نمونے پیدا کئے تھے، اس نے ان کا غوروفکر سے مطالعہ کیا اور ان کے اہم عناصر دریافت کرکے علمی قوانیں بنا دیئے تاکہ آئیندہ نسلیں اپنے بزرگوں کے تجربوں سے فائدہ اٹھائیں اور بنے بنائے راستوں پر چل کر کم وقت میں زیادہ ترقی کر سکیں، اس کے عہد میں با کمال شعراء صرف المیئے لکھتے تھے۔ اچھے فرحیئے تو اس سے پہلے لکھے گئے یا اس کے بعد کچھ اس وجہ سے اور کچھ اپنی فطری سنجید گی اور خشک مزاجی کی بدولت اس نے اعلیٰ ڈرامہ صرف المیئے کو قرار دیا اور فرحیہ کو ادنیٰ درجہ کی چیز سمجھ کر اس کی طرف زیادہ توجہ نہیں کی، اس کے عہد میں اسٹیج بالکل ابتدائی حالت میں تھی۔ فنّی (Jachknical) ذرائع بہت محدود تھے، پردوں کے بدلنے میں بڑی دقت ہوتی تھی، اس لئے اس نے یہ اصول قرار دیا کہ ڈرامے میں صرف ایک قصہ ہو، ہر قصے کا محل و قوع ابتدا سے آخر تک ایک ہو اور زمانہ وقوع جہاں تک ممکن ہو مختصر دکھایا جائے یہ سہ گونہ وحدت کا قانون کہلاتا ہے، ان باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ارسطو کا نظریہ یونانی حالات کا پابند تھا اور اس نے جو اصول بنائے تھے وہ ہمیشہ کے لئے نہ تھے۔

    مگر جب یونانیوں کے تمدن کا زوال ہوا اور ان کی وراثت اہل روما کو ملی تو انہوں نے اپنی فطری تقلید پرستی کی بدولت فنون لطیفہ یونانیوں کے بنائے ہوئے اصولوں کو دوامی قانون سمجھا۔ جس کی مخالفت ان کے نزدیک کسی طرح جائز نہ تھی، ہوریس نے ارسطو کے ضوابط کی تشریح کی اور ان کی پابندی کوہر ڈرامہ نگار کے لئے لازمی قرار دے دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رومیوں کے ڈرامے کی آزاد نشوونما رک گئی اور وہ زیادہ ترقی نہ کر سکا قرون وسطیٰ میں کلیسا کی مذہبی سختیوں کے سبب سے ڈرامہ کو اور تنزل ہوا۔ اس زمانہ میں زندگی پر مذہب اور کلیسا کا رنگ چھایا ہوا تھا، اس لئے ڈرامہ بھی اسی رنگ میں رنگ گیا، لوگ اپنے ذوق تمثیل کو مذہبی سوانگ سے پورا کرتے تھے، جس میں مسیح کی ولادت اور شہادت، اولیاء کی زندگی کے سیدھے سادے قصے ہوتے تھے۔ مگر اصول فن میں بدستور یونانیوں کی تقلید ہوتی تھی، عہد جدید میں سب سے پہلے شکسپیئر نے جو قدیم علوم سے بالکل نا آشنا تھا، اپنی فطری تخلیق کی بدولت ڈرامہ کو فرسودہ قوانین کی پابندی سے آزاد کرکے آسمان تک پہنچا دیا، مگر سولھویں صدی کے نقاد اب تک پرانے ضوابط کے قائل تھے، اور شکسپیئر کے ڈراموں کو بے اصول سمجھ کر رد کر دیتے تھے۔ جو لوگ اس بادشاہ سخن کے قائل تھے، انھوں نے بھی اصول فن میں کسی طرح کی تندیلی گوارا نہیں کی، وہاں اتنا کیا کہ شکسپیئر کو مستثنیٰ قرار دے دیا۔ ڈرامے کی تنقید میں یہ قدامت پرستی اٹھارہویں صدی تک جاری رہی۔ البتہ سترہویں صدی میں ڈرائیڈن اور اٹھارہویں صدی میں ڈاکٹر جالن نے لوگوں کو اس طرف توجہ دلائی کہ ارسطو کے اصول بہت سی باتوں میں اس کے عہد کے حالات کے پابند تھے اور جب وہ حالات بدل گئے تو ان اصولوں کی پابندی بھی لازمی نہیں رہی۔ ان نقادوں نے اس پر زور دیا کہ شکسپیئر کی کامیابی کا راز یہی ہے کہ اس کی تحقیق نے فرسودہ ضوابط کی زنجیروں کو توڑ کر اپنے دائرہ عمل کو وسیع کر لیا۔ اٹھارہویں صدی کے آخر میں رومانی تحریک کے بانی ہرڈر نے تو فن تنقید میں کا یا پلٹ ہی کر دی۔ اس کا بنیادی اصول یہ تھا کہ ہر قوم اور ہر دور کی ایک مخصوص شاعرانہ روح ہوتی ہے، جو اپنے اظہار کے لئے خود راہ نکالتی ہے، اس کے خیال میں ادب اور شاعری کی دوامی قواعد وضوابط کا پابند بنانا گیا، یا ان کی روح کو طوق اور سلاسل میں جکڑ رکھنا ہے، رومانی دور کے ڈراموں میں جو جدتیں پیدا کی گئیں، انھیں دیکھ کر سولھویں اور سترہویں صدی کے نقاد آپے سے باہر ہو جاتے ہیں، سہ گونہ وحدت کا قانون بالکل پس پشت ڈال دیا گیا۔ ڈرامہ کے طول میں کسی طرح کی پابندی نہ رہی المیئے کا موضوع بجائے بادشاہوں کی زندگی کے عوام کی زندگی بن گئی۔

    شکسپیئر کے عہد اور رومانی دور کے ڈرامے میں قدیم یونا رومی ڈرامہ یا قرون وسطیٰ کے فن تمثیل کے مقابلے میں جو تبدیلیاں ہوئیں، وہ محض قانون صورت اور اصول فن کے لحاظ نہ تھیں بلکہ عہد جدید میں شاعری کی اور اصناف کی طرح ڈرامے کا مزاج ہی بدل گیا۔ یہ تغیر اصل میں انسانی کے نفسی انقلاب کا نتیجہ تھا، یونان کے سقراطی دور اور روما کے شہنشاہی دور کا انسان ایک ایسے تمدن کا حامل تھا، جو بڑھاپے کی منزل میں پہنچ چکا تھا۔ اس کے خیالات میں پختگی تھی اور سادگی، جو پختگی کا لازمی نتیجہ ہے یہی پختگی اور یہی سادگی اس زمانے کے فلسفے میں آرٹ اور خصوصاً ڈرامہ میں پائی جاتی ہے، قرون وسطیٰ میں مسیحی مذہب نے رومی اور المانی قوموں میں پہنچ کر ایک نئے تمدن کی بنیاد ڈالی، جسے ہم مغربی تمدن کہہ سکتے ہیں، صدیوں تک تمدن بچپن کی حالت میں رہا۔ لوگوں کے دلوں پر بھولے پن، عقیدت اور تقلید کا رنگ غالب تھا، جس کا اثر اس عہد کے طرز تعمیر، شاعری، ڈرامہ سبھی چیزوں پر پڑا، شکسپیئر کے زمانے میں اس تمدن نے جوانی میں قدم رکھا تھا۔ اس کے ہم عصروں کے جذبات میں تلاطم برپا تھا، ان کے تخیل میں ہیجان پیدا ہو گیا تھا کیونکہ اس کے نفس میں نئی قوتیں امنگیں اور آرزوئیں پیدا ہورہی تھیں، یابقول افلاطون کے ان کے مرغ روح پر پروانہ پیدا کر رہا تھا۔ اس سیلاب تخیل، طوفان آرزو، جوش جوانی کو راہ پر لگانے کے اٹھارہویں صدی کی نئی روشنی کی تحریک نے عقلیت کے پشتے تیار کئے، لیکن یہ دریا ان کے روکے نہ رکا۔ اٹھارہویں صدی کی شاعری اور ڈرامہ میں لیسنگ اور اس کے ہمعصروں کی کوششوں سے کچھ دن پختگی، سنجیدگی، ضبط کا چلن رہا، لیکن رومانی تحریک نے وضع احتیاط سے اکتا کر عقل کا گریبان چاک کر دیا اور جذبات پرستی کا دور دورہ ہو گیا۔ قلب انسانی کی گہرائی سے احساس اور تخیل کے چشمے ابل پڑے اور بحرز خار کی طرح پھیل گئے۔ مگر انسانی تمدن اور انسانی روح کو پھیلنے کے بعد اس کی ضرورت ہوتی ہے کہ آپ کو سمیٹے، جوانی کی شوریدہ سری اور مطلق النعانی تھوڑے دن رہتی ہے، پھر خود بخود احساس ہوتا ہے کہ بس اس سنبھلنے کا وقت ہے۔ یہ صورت مغربی تمدن کو انیسویں صدی کے نصف اول میں پیش آئی، رومانی دور کی جذبات پرستی نے تخیل کو بڑی وسعت دی تھی اور احساس کو بہت تیز کر دیا تھا، لیکن بہت جلد یہ معلوم ہو گیا کہ محض تخیل احساس اور جذبات کی نیا پر مکمل تمدنی زندگی کی تعمیر نہیں ہو سکتی، اہل نظر تنقید اور غور سے کا م لینے لگے اور ایک با اصول اور مستحکم عقیدۂ زندگی تلاش کرنے لگے، اس جستجو کا پہلا علمبردار شاعری اور ڈرامہ میں شاعر گوئٹے ہے، گوئٹے ابتدائی عمر میں رومانی شاعر تھا، لیکن مدت تک زمانے کے نشیب و فراز دیکھنے کے بعد اس کے عقائد بہت کچھ تبدیل ہو گئے اور زندگی کا ایک برتر اور بہتر نصب العین تلاش کرنے لگا۔ لیکن گوئٹے انقلاب کا قائل نہیں تھا۔ بلکہ ارتقا کو مانتا تھا وہ تاریخ کے ہر دور کو تمدنی نشونما کے سلسلے کی ایک کڑی سمجھتا تھا اور کسی کڑی کو توڑنا اسے گوارا نہ تھا، رومانی خیالات کا اس پر بڑا گہرا اثر تھا اور ان کی خامیوں سے واقف ہو جانے کے بعد اس نے انھیں بالکل رو نہیں کیا بلکہ ان کے ایک اہم عنصر کو اپنے فلسفۂ زندگی میں جذب کر لیا، اس کے نزدیک رومانیوں کی جذبات پرستی، انفرادیت بے اصولی، بے روہ روی سطحی اورعارضی چیز تھی، لیکن ان کی باطینت بڑی گہری حقیقت پر مبنی تھی، اس باطنیت کو اس نے لے لیا لیکن یوں نہیں کہ حواس ظاہری اور عقل کو معطل کرکے نامعلوم قوتوں کے آگے سر جھکا دیتا بلکہ اس طرح کہ انسانی زندگی کو اس نے ایک مجازی چیز قرار دیا، جو عقل و ادراک کے مرحلوں سے گذرتی ہے اور ایک منزل پر پہنچ کر حقیقت کے آغوش میں چلی جاتی ہے۔ اس کے آگے جو کچھ ہوتا ہے اس کی کسی کو خبر نہیں اور نہ ہو سکتی ہے۔

    مگر گوئٹے کے بعد انیسویں صدی کے نصف میں یورپ کی زندگی اور خیالات میں بڑا انقلاب ہو گیا۔ سائنس کی ترقی اور اس کے استعمال سے صنعف کو بے حد فروغ ہوا، بڑے بڑے کارخانے کھل گئے، دیہات کی آبادی کھچ کر شہروں میں آ گئی، زندگی کی ضروریات بڑھ گئیں اور ان کے پورا ہونے میں دقت ہونے لگی، کارخانے کے مزدور جب دفعتاً ایک نئی فضا میں آئے تو ان کی سماجی زندگی کا شیزاہ بالکل بکھر گیا۔ ان معاشی اور سماجی پیچدگیوں کے سبب سے لوگوں میں ایک عام بے چینی پیدا ہوئی اور یہ محسوس ہونے لگا کہ نئے مادّی حالات سے مطابقت پیدا کرنے کے لئے حکومت و سیاست، مذہب واخلاق ہر چیز میں انقلاب کی ضرورت ہے۔ قدرتی بات تھی کہ اس زمانے میں روز مرہ زندگی کے واقعات نے لوگوں کو اس قدر متوجہ کر لیا کی حقیقت اور اس کے آغازوانجام پر غور کرنے کی فرصت نہیں رہی، ادھر نظری فلسفے پر ثبوتیت کا رنگ چھا گیا، یعنی علم کا تنہا معیار تجربہ اور مشاہد قرار پایا۔ اور تخیل، وجدان اور باطنی احساسات ناقابل اعتبار کر ترک کر دیئے گئے، ادھر علمی فلسفے میں افادیت دخیل ہو گئی، زندگی کا اعلیٰ مقصد حصول راحت ٹھرا اور اس کے حصول کا ذریعہ سائنس۔

    عام خیال یہ تھا کہ زندگی کی تشکیل اور تہذیب کو مذہبی عقائد یا فلسفیانہ تخلیلات پر نہیں چھوڑنا چاہئے۔ بلکہ تجربے اور مشاہدے کے ذریعہ سے اس کا ایک صحیح علم مرتب کرنا چاہیے، اس علم کا نام عمرانیات (Socialagy) رکھا گیا اور یہ سارے علوم کا سرتاج سمجھا جانے لگا۔

    اس انقلاب کا اثر ناول نویسی اور ڈرامہ پر بھی بہت گہرا پڑا۔ ان فنون کا مقصد اب تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ انسان کے ذوق جمال اور ذوق مشاہدہ کو پورا کریں، ان سے زندگی کی تنقید یا اصلاح کا کام اگر لیا جاتا تھا تو محض ضمنی طور پر، اب ان کا سب سے بڑا فرض یہ قرار دیا گیا کہ فرسودہ اصولوں اورعقیدوں کی چتھاڑ کریں اور زندگی کے لئے نصب العین پیش کریں۔ عمرانیات کے جو مسئلے اس زمانہ میں عام طور پر چھڑے ہوئے تھے مثلاً فرد کی جسمانی اور روحانی آزادی عورتوں اور مردوں کے مساوات، مروجہ اخلاق کی تنقید وغیرہ ہی ناولوں اور ڈراموں کے موضوع بن گئے۔

    بے قید تخیل اور بےرعب جذبات پر اب بڑی قدغن ہونے لگی، ایسی باتیں جب میں واقعیت کا رنگ نہ ہو بالکل ترک کر دی گئیں۔ مافوق الفطرت عناصر جیسے دیوتا، تقدیر، جن، پری وغیرہ۔ جن سے پہلے ڈرامہ میں بہت کام لیا جاتا تھا، اب صرف بچوں کی کہانیوں تک محدود رہ گئے۔ ان سے جو تمثیلی اثر پیدا ہوتا تھا وہ اب زندگی کی ظاہری قوتوں مثلاً وراثت، قوت حیات اور نفسیاتی عناصر سے پیدا کیا جانے لگا۔ یوں بھی صنعتی ترقی نے اسٹیج پر ہر طرح کے مناظر دکھانے میں اتنی آسانی پیدا کر دی تھی کہ ڈرامہ کے زور اور اس کی دلچسپی میں کوئی کمی نہیں ہونے پائی۔

    یہ نئی روح ناروے کے ڈرامہ نگار ابسن کی تصانیف میں سب سے زیادہ نمایاں ہے، اس لئے وہی نئے ڈرامے کا بانی سمجھا جاتا ہے، ابسن یہ محسوس کرتا تھا کہ مغربی سماج کے اصول وقواعد اور اخلاق و رسوم فرسودہ ہو چکے ہیں، ان میں اتنی جان نہیں کہ ہرنئے زمانہ کے ساتھ چل سکیں، لوگ محض قدامت پرستی کے سبب سے ان سے اب تک مانوس ہیں اور وہ ان میں اتنی بصیرت پیدا کرنا چاہتا تھا کہ پرانے خیالات اور رسم و رواج کی کمزوریوں کو سمجھ لیں اور اتنی ہمت کہ ان زنجیروں کو توڑ کر پھینک دیں، جب وہ اصلاح کے جوش میں اپنے عہد کے اصول اخلاق پر پے درپے حملہ کرتا ہے تو بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ دوسرے سے اجتماعی اخلاق ہی کا قائل نہیں اور اس کے نزدیک فروانسانی پر باہر سے یعنی مذہب یا تمدن کی طرف سے کسی طرح کی قیودعائد نہیں کرنا چاہیئیں، بلکہ اسے اس کی حالت پر چھوڑ دینا چاہیئے، تاکہ اس کی جبلتیں اور صلاحتیں آزادی سے نشوونما پاسکیں۔ لیکن اس کی تصانیف کو غور سے دیکھئے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس حدتک نراجی نہیں ہے۔ اس کا منشاء اصل میں یہ ہے کہ اخلاقی اصول اور رسوم جو انسان کی مادی اور روحانی ترقی میں مدد دینے کے لئے وضع کئے گئے ہیں، اسی حدتک قابل عمل ہیں، جب تک وہ زمانے کے حالات، فرد کے فطری رجحانات اور اس کی مخصوص ضرورتوں سے نہ ٹکرائیں جہاں یہ تصادم پیدا ہو تو جیتے جاگتے انسان کی راحت وعافیت کو مقدم سمجھنا چا ہیئے اور بے رنگ اور بے جان اصولوں کی پروانہ کرنا چاہیئے، اگر یہ کشمکش اکثر پیدا ہونے لگے تو سمجھنا چاہیئے کہ اب ہمارا مروجہ اخلاق زندگی کا ساتھ نہیں دے سکتا اور نظر ثانی کا محتاج ہے۔

    ابسن کا کمال یہ ہے کہ باوجود تنقیدی اور مصلحانہ طرز اختیار کرنے کے وہ آرٹ کو کبھی ہاتھ سے نہیں دیتا۔ اس کے اصلاحی جوش اور اس کی انقلاب پسندانہ شورش نے اس کی شاعری کو کسی طرح کا نقصان نہیں پہنچایا، بلکہ اس کے کام میں اور زیادہ زور اور اس کے انداز بیان میں اور زیادہ سوزوگداذ پیدا کر دیا۔ وہ اپنے عہد کی معاشرت کا نقاد ہے۔ نئی سماجی تحریک کا علمبردار ہے، مگر اسی کے ساتھ وہ شاعر ہے اور اس کے یہاں رومانی رنگ صاف نظر آتا ہے، آگے چل کر یہ رنگ ہلکا ہو گیا، مگر پھیکا نہیں پڑنے پایا، آغاز صدی کے رومانیوں میں اور البسن میں اتنا فرق ہے کہ ان لوگوں کی نظر کو جذبات پرستی نے دھندلا کردیا تھا اور انھیں انسانی زندگی گویا کہر میں چھپی ہوئی نظر آتی تھی۔ مگر السن کو بس اتنا نشہ تھا کہ اس کا احساس تیز ہو گیا تھا اور ادراک میں کوئی فرق نہیں آیا تھا، اس میں وہی داخلیت تھی اور وہی انفرادیت مگر تنقید اور تحلیل کے ساتھ سموئی ہوئی۔ یہ تحلیل نہ تھی جو زندگی کے پھول کو بےجان سمجھ کر اس کی پتی پتی الگ کرکے دیکھتی ہے، بلکہ نفسیاتی تحلیل جو اس کے اندر سما کر اس کے رنگ وبو، اس کی تازگی اور خوش نمائی کا جائزہ لیئی ہے اور اس کے خون دل اور چاک جگر کا بھید پاتی ہے۔

    ابسن نے ’’دشمنِ مردم‘‘ میں فرد اور جمعیت کے تعلقات سے بحث کی ہے، ’’گڑیا کا گھر اور سمندر کی خاتون‘‘ میں مرد اور عورت کے تعلقات پر تبصرہ کیا ہے، لیکن یہ بحث اور یہ تبصرہ خشک علمی مذاکرے نہیں ہیں۔ بلکہ ان میں آرٹ کی سبکدستی نے دلکشی اور دلربائی پیدا کر دی ہے۔ ’’دشمن مردم‘‘ جماعت کے خلاف فرد کا نعرۂ جنگ، سمندر کی خاتون اور اس سے بھی بڑھ کر ’’گڑیا کا گھر‘‘ مرد کے مقابلے میں عورت کا اعلان آزادی ہے۔ مگر ان میں سے کسی میں مناظرے کی درشتی اور تلخی، شاعری کی نرمی اور حلاوت پر غالب نہیں آئی۔

    آخری عمر میں ابسن کے شاعرانہ تخیل نے واقعیت نگاری میں استعاریت کا رنگ پیدا کر دیا۔ اس کا عمدہ اس کا مشہور ڈرامہ ’’ماہرین فن تعمیر‘‘ ہے۔ قصہ یہ ہے کہ ایک دنی الطبع ماہر فن تعمیر سولنیس کچھ خود غرضی اور کچھ رشک کے سبب سے اپنے نوجوان نائب راگز کی ترقی کو روکنا چاہتا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ اگر راگرز اس کی ملازمت ترک کرکے اپنا کاروبار الگ جاری کر دےگا تو اس کے گاہک ٹوٹ کر راگز کی طرف چلے جائیں گے اور اس میں اس کا بڑا نقصان ہے۔ علاوہ اس کے اسے یہ گوارا نہیں کہ شباب کا بڑھتا ہوا زور بڑھاپے کی گھٹتی ہوئی قوت پر فتح پائے۔ اس لئے ایک طرف تو راگز کے بنائے ہوئے نقشوں میں خواہ مخواہ عیب نکال کراس کی ہمت کو پست کرتا ہے اور دوسری طرف راگز کی منگیتر کے بھولے دل کو اپنے دام الفت میں گرفتتار کر لیتا ہے تاکہ نہ وہ خود اس کی نوکری چھوڑے اور نہ راگز کو چھوڑ نے دے، مگر شباب ایک نوجوان سیلانی لڑکی ہلڈا کی شکل میں آتا ہے اور اس کے دل کو پراسرار طریقے سے تسخیر کر لیتا ہے۔ ہلڈا اسے اس پر آمادہ کرتی ہے کہ اپنی بنائی ہوئی عمارت کے مینار پر جاکر چڑھے۔ سولنیس لکڑی کے ڈھانچے پر جو معماروں نے مینار کے گرد کھڑا کر دیا ہے، چڑھتا ہے۔ مگر آخری زینے پر پہنچ کر اس کا سر چکرا جاتا ہے اور وہ اس بلندی سے زمین پر گر کر مر جاتا ہے۔ اس طرح پیری کی شکست ہوتی ہے، مگر بڑی شاندار شکست ابسن کو اس ڈرامے میں یہ دکھانا مقصود ہے کہ موجودہ نسل کا آئیندہ نسل کی اٹھان کو روکنا گویا قانونِ فطرت کا مقابلہ کرنا ہے، اس کا انجام ناکامیابی ہے۔ مگر یہ ناکامیابی پیری کے لئے باعث ذلت نہیں۔ اس ڈرامے کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ڈرامہ کے جدید دور میں رومانیت روح معدوم نہیں ہوئی، بلکہ نئے روپ میں استعاریت (Symbolesm) کے نام سے تخیل کی آگ کو ہوا دیتی رہی، ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ رومانیت تو عجائب پسندی کی دھن میں واقعیت کے قوانین سے صریحی انحراف کرتی ہے، جذبات پرستی کے جوش میں اعتدال کے اصول کو کھلم کھلا تو ڑتی ہے، مگر استعاریت عقل اور عادت کے پردے کو قائم رکھتی ہے، اور اس کے پیچھے سے رموز و اسرار کی جھلک دکھاتی ہے۔ یہ طرز بیان جو ابسن کے یہاں صرف آخری دور میں نظرآتا ہے۔ اسٹرنڈ برگ، میٹر لنک، روستان کے یہاں عام ہے، آئرلینڈ کے ڈرامہ نگاروں، خصوصاً ٹیسیس کی تمثیلوں میں یہ استعاریت اور گہری ہوکر باطینت بن گئی ہے۔

    روستان، میٹرلنک، اور ہاؤ پٹمان کی بعض تمثیلوں اور خود ابسن کے نوجوانی کے ڈراموں میں رومانیت اپنی اصلی حالت میں بھی نظر آتی ہے، مگر یہ ڈوبتے ہوئے سورج کی آخری کرنیں ہیں، جن سے شام مغرب کی سنجیدگی اور افسردگی کم نہیں ہوئی۔

    زمانے کا عام رجحان، جیسا ہم پہلے کہہ چکے ہیں واقعیت نگاری اور اخلاق و معاشرت کی تنقید کی طرف تھا۔ ڈرامے عموماً اس قسم کے موضوعوں پر لکھے جاتے تھے۔ جیسے شادی اور اس کے بعد زندگی طلاق کا مسئلہ، مرد اور عورت کے جنسی تعلقات، عشق و محبت، عزت و وقار اور غیرت وحمیت کے موجودہ نصب العین کی تنقید سرمایہ داروں اور مزدوروں کی کشمکش وغیرہ وغیرہ۔

    خوف تھا کہ ان خشک اور سنجیدہ مسائل پر تنقیدی بحث کرنے سے ڈرامے میں آرٹ کا عنصر کم ہو جائےگا۔ لیکن اس دور کے تمثیل نگاروں کا کمال تھا کہ انھوں نے ا پنی تصانیف میں فن کی خوبی اور دل کشی کو قائم رکھا، ابسن کے علاوہ اس کے ہمعصر اسٹرنڈ برگ جرمنی کے ہاؤپٹمان اور زورڈرمان، آسٹریا کے اشنتلر، انگلستان کے گالسوردی کے قلم میں یہ جادو تھا کہ انھوں نے زندگی کی عکسی تصویر میں نقاشی کا لطف پیدا کر دیا۔

    لیکن فرانس کے زولا اور بریو کی تصانیف کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ واقعیت نگاری اور سماجی تنقید کو آرٹ بنا دینا ہر ایک کا کام نہیں ہے۔ زولا کی فحش اور بے رنگ اور بریو کی خشک اور پھیلی تمثیلیں نہ صرف آرٹ سے خالی ہیں بلکہ شہوانی جذبات اور خبیث امراض کے بے حجابانہ نمائش سے ذوق سلیم کو اس قدر آزردہ کر دیتی ہیں کہ تنقیدی اور اصلاحی مقاصد میں بھی، ان کی کامیابی بہت محودود ہے، بات یہ ہے کہ سماجی تنقید اور مصلحانہ تبلیغ کو کامیابی کے انتہائی درجہ پر پہنچانے کے لئے جن عناصر کی ضرورت ہے، یعنی اخلاقی خلوص اور جوش، سوزِ درد اور طنزوظرافت، ان کی زولا اور بریو میں بہت کمی تھی۔ دوسرے ڈرامہ نگاروں میں جن کا ہم ذکر کر چکے ہیں، یہ چیزیں موجود تھیں مگر اسی حدتک کہ آرٹ کی سبک روی میں خلل نہ پڑے اخلاقی مقاصد کے آگے آرٹ کی پروا نہ کرنا اور اس کے باوجود لوگوں کے قلوب کو تسخیر کر لینا صرف دو شخصوں کے حصہ میں آیا، جن میں ایک روس کا ناول نویس ٹالسٹائی تھا۔ دوسرا انگلستان کا ڈرامہ نگار برناڈ شا، ٹالسٹائی نے سوز درد سے، برناڈشا نے طنز و ظرافت سے یورپ کی ادبی دنیا میں قیامت برپا کردی، ان دونوں کے فلسفۂ زندگی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ لیکن یہ بات دونوں میں مشترک ہے کہ ان کے اصلاحی جوش اور خلوص نے آرٹ کے قدر دانوں کی نظروں میں چکا چوند ڈال دی۔

     

    مأخذ:

    مضامین عابد (Pg. 183)

    • مصنف: سید عابد حسین
      • ناشر: کتابی دنیا، دہلی
      • سن اشاعت: 1947

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے