Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایک دکاندار کا روزنامچہ

مضحک دہلوی

ایک دکاندار کا روزنامچہ

مضحک دہلوی

MORE BYمضحک دہلوی

    ۱۸/مارچ ۴۵ء۔ دکانداری عجیب رحمت بھی ہے اور زحمت بھی۔ رحمت تو صرف اسی قدر ہے کہ صبح اٹھتے ہی دفتروالوں کی طرح یا کسی مزدور کی طرح ’’نوک دُم‘‘ بھاگنے کی بدحواسی یا ہراس زیادہ نہیں ہوتا۔ آسائش اور تن آسانی کے ساتھ ضروریات سے فارغ ہوکر ہی دکان جانا ہوتا ہے اور پابندی وقت کی آسانی ہی آسانی ہے۔ زحمت اس وجہ سے ہے کہ صبح سے شام تک جس طرح ڈاک خانہ کے محکمہ کو ہزارہا قسم کی ٹیڑھی ترچھی، خوبصورت، بدصورت تحریروں کے پڑھنے میں اور ان کو ٹھیک مقام تک پہنچانے میں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بالکل اسی طرح ہم کو دکاندار کی حیثیت سے ہزارہا قسم کے خریدار اور گاہکوں سے سابقہ اور پالا پڑتا ہے۔ اور دکاندار کے بھی یہ مسئلہ پیش نظر ہوتاہے کہ گاہک ہماری دکان سے چھیجنے کے بجائے پٹ جائے۔ چنانچہ آج بوہنی کے وقت ہی ایک ایسے ہی قسم کے گاہک سے واسطہ پڑا۔ یہ حضرت اچھے خاصے خوش اور خوش وضع مگر تھے تین ٹانگ کے یعنی دواُن کی اپنی ٹانگیں تھیں اور ایک بیساکھی بھی لگا رکھی تھی ایک ٹانگ اگرچہ ٹانگ تھی مگر لمبان میں کم۔ آتے ہی انہوں نے پوچھا،

    گاہک، کیوں جناب آپ کی دکان پر کیا کیا ملے گا؟

    میں، حضرت کیا کیا ملے گا یہ تو دکان کی فہرست ہوگی آپ فرمائیے آپ کو کیا چاہیے۔

    گاہک، حضرت بات یہ ہے کہ مجھے چیزیں زیادہ خریدنی ہیں اور میرے پاس جو فہرست ہے وہ ذرا الٹ پلٹ ہے اس لیے آپ کی دکان کا مال کا حال معلوم ہو تو پھر میں بتاسکوں گا کہ مجھے کیا چاہیے۔

    میں، بہت اچھا تو حضرت میری دکان جنرل مرچنٹ کی ہے اور متفرق بساط خانہ وغیرہ کا سامان بیچتا ہوں۔

    گاہک، جنرل مرچنٹ یعنی آپ ’’عام سوداگر‘‘ ہیں۔ تو پھر۔۔۔۔۔ (جیب سے پرچہ نکال کر اور رُک رُک کراس کی پرتال کے بعد) ہاں تو جناب پھر دو چار قسم کی پانچ نمبر کی زنانی چپل دکھادیجیے۔

    میں، چپل، چپل تو میرے ہاں نہیں ہے۔

    گاہک، لاحول ولاقوۃ تو جناب جنرل مرچنٹ کس بات کے ہیں برعکس نام نہند نام رنگی کافور۔ دکان کا نام کچھ کام کچھ۔ اس دھوکے سے کیا فائدہ۔

    کوئی پہلوان دکاندار ہوتا تو ان سے الجھتا۔ ان کی باتوں کو اس طرح پینا پڑا جیسے کوئی شاعر گرم چائے پی لیتا ہے۔ ہم مسکراکر خاموش ہوگئے اور وہ حضرت پھدکتے ہوئے چل دیے۔ باقی دن بشرح صدر بخیر و عافیت گذرگیا۔

    ۱۹/مارچ۔ آدھا دن اچھا گزرا۔ گھر سے ’’روٹی‘‘ آگئی تھی، ارادہ ہی کر رہے تھے کہ جس پیٹ کی خاطر صبح سے شام تک دماغ سوزی ہوتی ہے لاؤا س کو جلدی ہی بھرلو کہ ایک نیم جنٹلمین گاہک آن ہی وارد ہوئے۔

    نیم جنٹلمین اس وجہ سے کہا کہ یہ حضرت سوٹ تو ضرور پہنے ہوئے تھے مگر نامعلوم کیوں قمیض پتلون سے باہر تھی اور پاؤں میں بغیر جراب کے فرنٹیر چپل پہنے تھے۔ یہ حضرت اتفاق وقت جرابوں کے شوکیس کے پاس آکر کھڑے ہوئے اور فرمایا۔

    گاہک، کیوں جناب آپ کے ’’شامل‘‘ موزہ ہے موزہ۔

    ’’شامل‘‘ کے لفظ سے میں چوکنا ہوا مگر موزہ کے لفظ سے قیاس کرلیا کہ موزہ مانگتے ہیں۔

    ’’جی ہاں یہ دیکھیے اس شوکیس میں موزے لگے ہیں جونسی جوڑی پسند ہو نکال دی جائے۔ ‘‘ میں نے کہا۔

    گاہک، (کچھ دیر سب موزوں کو دیکھنے کے بعد) مگر جناب اس میں سے کوئی ’’میچ‘‘ نہیں ہوتا۔ ٹائی کا میچ مانگتے ہیں۔

    میں، مگر جناب میچ میں تو ٹائی نہیں لگائی جاتی۔

    گاہک، میچ سے مطلب کھیل والا نہیں، جو ہماری ٹائی سے ملے وہ مانگتے ہیں۔

    میں، تو ٹائی دکھائیے میں نکلوادوں۔

    گاہک، مشکل تو یہ ہے کہ ٹائی ہمارے شامل نہیں ہے۔ آپ دکھائیں ہم رنگ چن لیں گے۔

    میں، مگر جناب آپ کی دعا سے ڈیڑھ سو دو سو بکس موزہ ہی موزہ ہے کہاں تک دکھاؤں۔

    گاہک، تو آپ کے شامل رنگ کے نمونہ والی کتاب ہوگی۔

    میں، جراب کے رنگ کے نمونہ نہیں ہوتے۔ کپڑے کے ہوتے ہیں۔ میں دوچار رنگوں کے نام بتاؤں آپ پسند کریں۔

    گاہک، یہ گڑبڑ ہے۔ رنگوں کے نام جانتے تو ٹائی کا رنگ پہلے سے بول دیتے۔ آپ لوگوں کو دکانداری کا شوق نہیں ہے نہ اس میں ترقی کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کو چاہیے کہ اگر نمونہ نہیں رکھتے تو کم از کم ایک بورڈ پر جتنے قسم کے رنگ ہیں سب کا نمونہ بناکر شامل کیجیے۔

    مشورہ اچھا تھا آئندہ سے جنرل مرچنٹ کو روغنی رنگ والوں کی طرح ہر رنگ کے نمونے رکھنے چاہئیں۔ ان گاہک صاحب سے آدھ گھنٹے سے زیادہ لگا۔ بہرصورت پٹانے کی کوشش کی مگر جنگلی کبوتر کی طرح چھتری پر بیٹھے اور بھٹک جائے۔ جاڑے کا زمانہ ٹھنڈے پانی کے ساتھ ٹھنڈی روٹی اور ٹھنڈا سالن کھانا پڑا۔

    ۲۰/مارچ۔ صبح سے شام تک کوئی سانحہ نہیں پیش آیا۔ دکان بند کرنے سے ذرا پہلے ایک صاحب تشریف لائے۔ میلی دھوتی، اجلا کرتہ، باریک وائل کا زیب بدن، پچ رنگ صافہ بندھا ہوا تھا، وضع سے مارواڑی مگر گفتگو صافہ کی طرح ’’پنچ میل‘‘ زبان میں کرتے تھے اور ساری بندشیں ایسی بے جوڑ تھیں جیسے ان کی میلی دھوتی اور اجلا کرتہ۔

    فرمانے لگے،

    گاہک، کیوں جی تمرے پاس گنجی ہوت ہے۔

    گنجی سے مطلب سمجھ گیا کہ بنیان مانگتے ہیں۔

    میں، جی ہاں۔ یہ دیکھو لالہ جی یہ ٹنگے ہیں۔

    گاہک، نہ نمونہ نہیں جی۔ اپنے کو چھید والا چاوت ہے۔

    میں، جالی والا مگر لالہ جی اب تو سردیاں ہیں یہ چھید والا تو گرمی کاہوتا ہے۔

    گاہک، پن صاحب اس کرتہ کو دیکھو اس میں چھید والاچلے گا نا۔ گرمی سردی کیا۔ اپنے کو اس کرتہ کو کھپانا ہے۔

    اشارے پر لڑکے نے جالی دار بنیان لاکر دیے، پسند آئے۔

    گاہک، ان کا مول بولوجی۔ ڈبہ کا ڈبہ لینا ہے۔

    میں، لالہ جی کنٹرول کا دام پونے بارہ روپے۔

    گاہک، کنٹرول نہیں لینا ہے، اپنے کو گنجی لینا ہے۔ ڈبہ کا ڈبہ۔

    میں، ہاں لالہ جی دام بتائیے۔ کم بڑھتی نہیں ہے پونے بارہ روپے۔

    گاہک، اچھا جی بڑے دوکاندار ہو آپ کا بھروسہ ہے بھروسہ۔ لوجی (دس روپیہ کا نوٹ دیتے ہوئے) یہ لو باقی دام پھیردو۔

    میں، باقی دام کیسے لالہ جی۔ میں نے پونے بارہ بتائے۔ ایک روپیہ بارہ آنے اور دو۔

    گاہک، واہ جی۔ میاں۔ یہ کیا بولت ہو۔ اور دو تین دکان سے سودا لیا ہے ہر دکان والا دام پھیرت ہے۔ آپ اور الٹا ہم سے مانگت ہو۔ واہ جی، اور سب دکان سے ڈبہ کا ڈبہ لیا ہے رنگ والے کو دس روپے کا لوٹ دیا اس سے دو ڈبہ لیا اس نے دام پھیرا۔ سگرٹ والے کے ہاں سگرٹ لیا، چھ ڈبہ کا ڈبہ، چائے والے کے ہاں چائے لیا دو ڈبہ کا ڈبہ سب لوگ دام پھیرا۔ آپ اور مانگت ہو۔ دیکھو جی آپ سے بھی ڈبہ کا ڈبہ لیا ہے۔ ایک لوٹ لیا۔ لوٹ سرکاری ہے ناپ میں پورا پھر الٹا اور مانگت ہو۔ یہ کیا بات۔

    میں، لالہ جی اس حجت سے کیا مطلب ہے جو دام ہے وہ دے دیجیے میں نے پہلے ہی کہہ دیا کمتی بڑھتی کا ہمارے ہاں کام نہیں ہے۔ ایک دام اورایک بات ہے۔

    گاہک، گو میاں جی ایسا کیوں بولت ہو کچھ تو جرور پھیرنا ہوگا۔ ادِھک نہیں تو دوچار روپے ہی دے دو۔ ہم دام نہیں کم کراوت ہیں۔ لاکھ سمجھایا لالہ جی کی سمجھ میں نہ آیا وہ یہ ہی کہتے رہے کہ کچھ نہ کچھ ’’جرور‘‘ پھیرنا ہوگا۔ ممکن تھا زیادہ حجت بڑھتی۔ میں نے قہر درویش بجاں درویش نوٹ واپس دے دیا۔ دکان بند کرکے واپس گھر آیا۔

    ۲۱/مارچ۔ آج ظہر کی نماز سے فارغ ہوکر بیٹھا ہی تھا۔ سوچ رہا تھا کہ مہاوٹوں کو بھی آج ہی برسناتھا صبح سے اب تک بارش اور دوسری کی وجہ سے مندا ہی رہا یوں ہی مکھیاں مارا کیے کہ ایک دم سے دوگاہک نہایت تیز طرار چاق چوبند دکان پر آن وارد ہوئے۔ میرے لیے تو ان کی صورتیں اجنبی سی تھیں مگر انہوں نے تپاک سے دعا سلام کیا اور ایک صاحب بولے۔

    گاہک، جناب ہم لوگ بیوپاری ہیں۔ علی گڑھ سے آئے ہیں کچھ بساط خانے کا مال چاہیے۔

    دوسرا گاہک، اور ہاں جناب آپ کا نام سنا ہے پہلا سابقہ ہے ہم لوگ بھی پیسہ کمانے کے لیے یہ کام کرتے ہیں۔ جیسی آپ کی دکان کی ساکھ ہے ویسی ہی قیمت اور دام بھی لگائیے گا کہ کچھ سودا لے لیں۔

    میں، آئیے آئیے تشریف لائیے آپ کی دکان ہے۔ لڑکے آپ کے لیے پان سگرٹ لاؤ۔

    بات یہ ہے کہ دکانداری میں پھٹکل گاہکوں سے بیوپاری کے سودے میں آسانی ہوتی ہے۔ ان لوگوں سے جھک جھک زیادہ نہیں ہوتی اور دکانداری اچھی ہوجاتی ہے۔ اور اسی و جہ سے ان لوگوں کی تواضع بھی ہوتی ہے۔ خاطر تواضع میں جو کچھ خرچ ہوتا ہے وہ دکان دیتی بھی ہے اور وصول بھی کرلیتی ہے۔ بقول شخص یہ کہ تیل توتلوں ہی میں سے نکلتا ہے۔

    ان بیوپاری حضرات کی وجہ سے آج کا دن بڑی مصروفیت کاگزرا، تقریباً چار سو ساڑھے چار سو روپیہ کا مال لیا۔ بیجک بنوایا بیجک میں خاص بات یہ تھی کہ دام سوچ سمجھ کر اس حساب سے لگائے گئے کہ اگر یہ لوگ باہر تھوک میں مال بیچیں تو ان کو خرچہ لگاکر منافع ہوجائے، اور بیجک کابھگتان میں نے اپنے منافع سے لگایا۔ یعنی جو چیز میں نے ان کو دس روپے درجن دی وہ بیجک میں ساڑھے دس روپے کی لگائی گئی۔ ان لوگوں نے مال بندھواکر علیحدہ رکھوا دیا اور یہ کہہ کر چلنے لگے۔

    گاہک، ہم لوگ اپنے تیسرے ساتھی کو بھی لے آئیں ان کو بھی کچھ سامان لینا ہے بس بھگتان سب ساتھ ہی ہوگا۔

    میں، بہت اچھا آپ کی دکان ہے۔ لڑکے پان سگرٹ اور پیش کرو۔ رات دس بجے تک انتظار کرتا رہا نہ ان بیوپاریوں کو آنا تھا نہ آئے۔ دن بھر کی دکانداری چوپٹ ہوئی۔ مغز الگ کھپا۔

    ۲۲/مارچ۔ کل والے معاملہ سے طبیعت بہت پریشان تھی۔ اگرچہ گرہ کا کچھ نہیں گیا مگر کبھی خیال آتا تھا کہ بچارے پردیسی بیوپاری تھے کہیں دلی کے کسی اسامی باز کے ہتھے تونہیں چڑھ گئے۔ اتفاق وقت اسی دن ظہر کے وقت مسجد میں بھائی ظہور ایک ہم پیشہ دکاندار سے ملاقات ہوئی، چونکہ یہ معاملہ دل میں کھٹک رہا تھا ان سے بیان کیا انہوں نے کہا۔

    ظہور، ارے میاں تم بھی عجیب گھامڑ ہو، وہ تو خود اسامی باز تھے۔ بات یہ ہے کہ میری دکان پر تو اس قسم کے فرضی بیوپاری کئی دفعہ آچکے ہیں۔

    میں، اچھا۔ پھر خیریت رہی۔

    ظہور، خیریت۔ ارے میاں ہم بھی دکاندار ہیں۔ ہم نے تو دو ایک باتوں میں بھانپ لیا۔ یوں ہی چلتاکیانہ مال دکھایا نہ صحیح دام بتائے۔ یہ لوگ تو لال سوداگر ہیں لال سوداگر۔ یہاں کے دکانداروں کا بھید لینے آتے ہیں۔ مال کا اسٹاک اور دام کو جانچ کر پھر باہر شہروں میں اسامیاں پھانستے ہیں اور یہیں مال لیجا لیجا کر بیچتے اور نفع در نفع کھاتے ہیں۔ ان لوگوں میں سے اکثر دو ایک دوکانوں پر جاتے ہیں اور دو ایک دھرم شالوں میں ٹھیرتے ہیں۔ دکانوں پر پھرنے والے صرف بھید لیتے ہیں اور دھرم شالہ میں ٹھیرنے والے سودا خرید کر لے جاتے ہیں۔

    ۲۳/مارچ۔ آج ایک عجیب وہمی قسم کے گاہک سے سابقہ پڑا۔ ایک جوڑی موزہ گھنٹہ بھر جھک جھک نہ لینا نہ دینا۔ آتے ہی بولے۔

    گاہک، جناب وہ جوشاندے میں جو گول گول چیز پڑتی ہے اس رنگ کاموزہ دکھائیے۔

    اب اگر کبھی جوشاندہ نہ پیا ہوتا یا اس کی دوائیاں یاد نہ ہوتیں تو گاہک ہی ہاتھ سے چلاتھا۔ فوراً اشارہ کرتے ہی لڑکے نے دوچار بکس موزہ کے ڈالے، ہم نے گل بنفشہ اور عنابی رنگ کے موزے ڈال دیے۔ مشکل آسان ہوئی۔ مگر زحمت تو ہوئی ناپ میں،

    میں، کیوں جناب کون سائز درکار ہے۔

    گاہک، سائز سے آپ کا کیا مطلب ہے۔

    میں، یعنی ناپ۔

    گاہک، او۔ مگر مجھے تو اپنا ناپ نہیں معلوم۔ لائیے پہن کر دیکھ لوں۔

    میں، جناب کہاں تک پہنئے گا، جراب سب خراب ہوں گی، لائیے میں ناپ دوں۔ میں نے ان کے سیدھے ہاتھ کی مٹھی بند کراکر حسب قاعدہ ناپ دیا۔ اب ان کو بھی شوق ہوا، انہوں نے جراب مجھ سے لے کر سیدھے ہاتھ سے الٹا ہاتھ ناپا موزہ کچھ بڑھ گیا۔ بولے۔

    گاہک، جناب یہ تو بڑا ہے۔

    میں، لائیے پھر ناپ دوں بالکل صحیح ہے۔

    غرض دو تین دفعہ کی الٹ پھیر میں میں نے معلوم کیا کہ یہ حضرت الٹے ہاتھ پر ناپتے ہیں اور میں سیدھے پر۔ آخر پھر میں نے کہا۔

    میں، جناب سیدھے پر ناپئے سیدھے پر۔

    گاہک، کیوں جناب ہاتھ ہاتھ میں کیا فرق؟ الٹا کیا سیدھا کیا۔ دونوں برابر ہیں۔

    میں، جناب الٹے ہاتھ اور سیدھے ہاتھ میں کچھ تاؤ بھاؤ کا بل ہوجاتا ہے۔ یہ قاعدہ ہی ہے۔

    گاہک، واہ جناب یہ خوب کہی۔ مشین کی بنی ہوئی چیز تو دونوں برابر اور خدا کا بنایا ہوا ہاتھ ایک چھوٹا اور ایک بڑا۔ نعوذ باللہ۔ یہ خدا پر الزام ہے الزام۔ سلام ہے ایسے دکاندار کو۔ ‘‘یہ کہہ کر چلتے بنے۔

    ۲۴/مارچ۔ آج تقدیر کی خوبی ایک ہکلے گاہک تشریف لائے۔ فرمانے لگے،

    گاہک، وہ وہ شے شے۔ دی دی نگ سوا سوا سوا ہے۔

    میں، معاف کیجیے گاسمجھ میں نہیں آیا۔ ایک دفعہ اور فرمادیجیے۔

    گاہک، خو خو خوب۔ یاں باں باں ات ات ات نے مین۔ جا جا جاجان نکل گئی۔ (سانس پھول گیا) بڑی مشکل ہوئی۔ واقعی ان حضرت سے بات چیت کرانا یقیناً ان پر بڑا ظلم ہے۔ سوچتے سوچتے خیال آیا فوراً پوچھا،

    میں، کیوں جناب کچھ لکھ پڑھ سکتے ہیں۔

    گاہک، کیے کیے اور ہاتھ سے اشارہ سے پوچھا کیوں؟

    میں، اگر لکھنا جانتے ہوں تو یہ لیجیے لکھ دیجیے کیا درکار ہے۔ بولنے کی تکلیف گوارا نہ کیجیے۔

    بہت خوش ہوئے۔ فوراً کاغذ پر لکھ دیا شیونگ سوپ کول گیٹ اور پھر لکھا۔ آپ کی تجویز کاشکریہ۔ کاغذ کی قلت کی وجہ سے مجبور ہوں آئندہ سے جب بازار آؤں گا سلیٹ پنسل لاؤں گا۔ تسلیم کرکے۔ صابن لے کر چلے گئے۔

    آج ایک صاحب دکان پر آئے۔ گھبرائے ہوئے سراسیمہ بھوچکا بنے ہوئے، دوکان پر ہر چیز پر نظر ڈالتے ہوئے پوچھا۔

    میں، کیوں جناب کیا درکار ہے؟

    گاہک، آپ کے پاس وہ ہے وہ۔

    میں، جناب کیا؟

    گاہک، ارے صاحب وہ وہی۔

    میں، جی کیا۔

    گاہک، یعنی یہ عجیب طریقہ مذاق کا ہے کہ سودابیچنے کی بجائے گاہکوں سے مذاق ہو رہا ہے مذاق۔

    میں، اجی حضرت اس میں مذاق کاہے کا ہے۔ چیز کانام بتائیے میں پیش کروں۔

    گاہک، فرض کیجیے کہ نام اس وقت ذہن میں نہیں آتا۔

    میں، تو پھر اتنی چیزیں سامنے موجود ملاحظہ کرلیجیے جو درکار ہو۔

    گاہک، مشکل تو یہ ہے کہ سامنے نہیں نظر پڑتی۔

    میں، تو پھر کیا کیا جائے۔

    گاہک، یہ تو آپ ہی کی دکان کی بدانتظامی ہے کہ ضرورت کی چیز سامنے نہیں ہے۔

    میں، جناب دکان میں اللہ کے فضل سے سب چیزیں ہیں کہاں تک سامنے رکھی جائیں۔

    گاہک، آپ لاکھ معذرت کریں۔ ایسے ہی دکانداروں کے لیے بڑے بوڑھوں نے کہا ہے کہ اونچی دکان پھیکا پکوان کہتے ہوئے چلے گئے۔

    کسی نے سچ کہا ہے کہ اللہ میاں کمینہ پیدا کردے مگر کمینی صورت نہ دے۔ آج کے گاہک سے یہ مثل بالکل عملی صورت میں سامنے آگئی۔ دس گیارہ کاعمل ہوگا۔ ایک اچھے خاصے کپڑے پہنے ہوئے ایک صاحب تشریف لائے۔ دکاندار نجومی نہیں ہوتا مگرصبح سے شام تک ہزاروں صورتیں سامنے آتی ہیں تو ان کو جانچنے کا کچھ نہ کچھ ملکہ ہوجاتا ہے۔ یہ صاحب جو تشریف لائے تھے۔ خوش لباس تو تھے مگر چہرہ ان کاخوفناک قسم کاتھا۔ اور یہ نکل پالش قسم کے کپڑے ان کے چہرے کی ہیبت کو چھپا نہیں سکتے تھے۔ معاً دل میں ایک خیال آیا کہ کوئی اٹھائی گیرا ہے مگر جب انہوں نے سلک کا موزہ مانگا تو لاحول پڑھ کر یہ خیال دل سے نکال دیا۔ موزے دکھائے گئے۔ فینسی ڈیزائن کا موزہ پسند کیا گیا۔ انہوں نے دام پوچھے میں نے تین روپے بتادیے۔ پانچ روپے کا نوٹ دیا، میں نے دو روپے واپس کرنے کے لیے بکس کھولا۔ منہ موڑنا تھا کہ دو جوڑی موزہ اٹھاکر جیب میں ڈال لیے گویا تین روپے کے عیوض نو روپے کا مال۔ اتفاق وقت لڑکے نے دیکھ لیا۔ جب یہ صاحب چلنے لگے تو اس نے دکان سے کود ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور جیب سے دو جوڑی موزہ برآمد ہوئے۔ بجائے اس کے کہ پشیمان ہوتے چہرہ اور خشمناک ہوگیا۔ لڑکے سے ہاتھا پائی کرنے لگے، پاس کے دکاندار کیا ہے کیا معاملہ ہے آگئے۔ وہ صاحب فوراً بولے۔

    گاہک، ہوتا کیا۔ یہ دوکاندار بنے بیٹھے ہیں شرم نہیں گاہکوں کو ذلیل کرتے ہیں۔ تین جوڑی موزہ لیا۔ ۱۰ کا نوٹ دیا ایک روپیہ واپس دیا۔

    معاملہ نہ معلوم کہاں تک بڑھتا اتفاق سے اسی مجمع میں میرے ایک دوست پرانے قسم کے تھانیدار موجود تھے۔ انہوں نے مسکراکر کہا واقعی شیخ جی تمہاری غلطی ہے۔ جب تم نے تین جوڑی جراب فروخت کی ہیں تو ایک جوڑی کواحتیاط سے لفافے میں ملفوف کرکے دیا اور دو اور جو اسی قیمت کی ہیں یوں ہی دیدیں۔ بڑے پھوہڑ ہو۔ اور گاہک کی طرف متوجہ ہوکر بولے کہ جناب کچھ غلطی آپ کی ہے کہ آپ نے ایک جراب توبندھوائی اور دو کھلی رکھیں پھر اس پر یہ طرہ کہ ایک سیدھی جیب میں رکھی اور دو الٹی میں۔ بہتر ہے کہ جھگڑا ختم کیجیے۔ شیخ جی جراب واپس لو اور ان کے دام دو۔ اور ان کی ٹھوڑی میں ہاتھ دے کر اور چمکار کر کہا کہ جاؤ میاں دوسرا گھر دیکھو اللہ زیادہ دے۔ ورنہ کہیں سب سے بڑا گھر نہ دیکھو۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے