Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایک نغز گو شاعر

تابش مہدی

ایک نغز گو شاعر

تابش مہدی

MORE BYتابش مہدی

    استاد الشعراء حضرت رحمت الھی برق اعظمی (1911۔ 1983) اپنے عہد کے ایک بزرگ اور با کمال شاعر تھے۔ انھوں نے اردو شاعری کے دھلوی دبستان سے بھی کسب فیض کیا تھا اور لکھنوی دبستان سے بھی۔ منشی سالگ رام کے توسل سے ایک طرف انکا سلسلہ تلمذ دبستان لکھنؤ کے سرخیل ناسخ تک پہنچتا ہے تو دوسری طرف ناخدائے سخن نوح ناروی کی وساطت سے فصیح الملک داغ دہلوی اور خاقانی ہند شیخ محمد ابراہیم ذوق دہلوی سے بھی نسبت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں دونوں دبستانوں کا خوبصورت اور دلکش امتزاج نظر آتا ہے۔ وہ دیار شبلی کے ان خوش نصیب شعراء میں ہیں جن کے فیض تربیت سے ایک دو نہیں درجنوں سخنور تیار ہو گئے۔ انھوں نے خود کہا ہے کہ،

    مثال شمس تھے ہم بھی کہ جب غروب ہوئے

    تو بیشمار ستاروں کو جگمگا کے چلے

    حضرت برق اعظمی نے شاعری کی جملہ اصناف پر طبع آزمائی کی ہے۔ اور جس صنف میں بھی طبع آزمائی کی دیکھنے یا سننے والوں پر یھی تاثر قائم ہوا کہ وہ اسی میدان کے شہسوار ہیں۔ انھوں نے نظمیں بھی کھی ہیں اور مثنویاں بھی۔ نعت و مناقب میں بھی طبع آزمائی کی ہے اور سلا م و مراثی اور قصائد میں بھی۔ قطعات و رباعیات بھی ان کے ان کے شعری ذخیرے میں بڑی تعداد میں موجود ھیں۔۔۔ اور تضمینیں اور قطعات تاریخ بھی۔ لیکن ان کے مزاج و طبیعت کو غزل سے خصوصی مناسبت تھی۔۔۔ ان کی قدرت کلام، فنی چابکدستی اور استادانہ مھارت کے جوھر ہمیں کامل طور پر غزل ہی میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ شا ید اس لئے بھی کی بادہ و ساغر کے پردے میں مشاہدہ حق کی گفتگو کے زیادہ مواقع غزل ہی میں رہتے ہیں۔ چنانچہ خود فرماتے ہیں،

    پردے پردے میں کیا ذکر محبت میں نے

    شمع کی بات نکالی کبھی پروانے کی

    غزل جتنی محبوب و ہردلعزیز صنف سخن ہے اتنی ہی طویل و قدیم اس کی تاریخ بھی ہے۔ غزل میں نئے اور نادر مضامین کی دریافت ایک دشوار کام ھے۔۔۔ غزل کے فارم میں دو چار شعر موزوں کر لینا تو بہت آسان ہے لیکن کوئی نادر یا اچھوتا مضمون پیش کرکے قاری کو اپنی طرف متوجہ کرنا ہر کسی کے بس کی بات نھیں ہے۔ اس کے لئے غیر معمولی مشق و مزاولت کے ساتھ ساتھ وسیع مطالعے اور گھرے مشاھدے کی ضرورت ہے۔ حضرت برق اعظمی اس سلسلے میں بڑے خوش نصیب واقع ہوئے ہیں۔ ان کی غزل میں قاری کو پہلی نظر میں اپنی طرف متوجہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ ان کے ہاں ہمیں تغزل کے بھی معیاری نمونے ملتے ہیں اور تعمیری و اخلاقی قدروں کے بھی۔ اور وہ ہر چیز بھی بدرجہ اتم ملتی ہے جسے ہم شعریت کہتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے ہاں ساقی و شراب ، زلف، رخسار اور گل و بلبل کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ لیکن اس کا حوالہ کچھ اور ہوتا ہے۔

    حضرت برق اعظمی کی شاعری کا اہم وصف ان کے بیان کی سادگی ہے۔ وہ شعر کچھ اس طرح کہتے ہیں کہ مضمون بالکل عام اور سامنے کی چیز معلوم ہوتا ھے۔ لیکن جب شعر اپنی مکمل شکل میں سامنے آتا ہے تو اپنی ندرت سے قاری ک چونکا دیتا ہے۔ اور پوری طرح اسے اپنی گرفت میں لے لیتا ھے۔۔۔ کہتے ہیں۔

    تجھ کو سینے میں جگہ دی پھر بھی انکا ہو گیا

    اے مرے دل تجہ سے بڑہ کر بیوفا کوئی نہیں

    نکلا حضور ہی کا مکاں یہ تو کیا کروں

    بیٹھا تھا میں تو سایہ دیوار دیکھ کر

    اے غم تجھے عزیز نہ رکھوں میں کس طرح

    تجہ سا کوئی شریک نھیں زندگی کے ساتھ

    آلام روزگار سے گھبرا رہا ہے کیا

    دل میں خیال یار کو مہماں بنا کے دیکھ

    خودسر ہے عقل اس کو بنا تابع جنوں

    کافر ہے نفس اس کو مسلماں بنا کے دیکھ

    محبت میں کہاں فرق من و تو یہ وہ منزل ہے

    جہاں دل ہے وہیں تم ہو جھاں تم ہو وہیں دل ہے

    آپ ان اشعار کو پڑھئے دیکھیں گے کی بات با لکل سامنے کی کھی گئی ھے۔۔۔ الفاظ بھی بالکل صاف و سادہ اور سامنے کے ہیں، لیکن جس ندرت اور نئے پن کے ساتھ مضمون کو نظم کیا گیا ھے وہ بھر حال قابل توجہ ہے۔ اپنے دل کو رقیب یا بیوفا کے طور پر دیکھنا، غم کو شریک زندگی کی حیثیت دینا، خیال محبوب کو آلام زمانہ کا علاج تصور کرنا۔ عقل کو تابع جنوں اور نفس کو مسلمان بنانے کی بات کرنا اور محبوب اور دل کو لازم و ملزوم قرار دینا، یہ وہ باتیں ہیں جو بظاہر آسان اور سامنے کی معلوم ہوتی ہیں لیکن شاعر کو بیان کی اس منزل تک پہونچنے کے لئے جس مشق اور ریاض سے گذرنا پڑا ہوگا اس کا ادراک اسی کو ہو سکتا ہے جو خود بھی انہیں مراحل سے گزرا ہو۔ بیان کی یہی وہ کیفیت ہے جسے شاعرانہ اصطلاح میں سہل ممتنع کہا جاتا ہے۔۔۔ حضرت برق اعظمی جانشین داغ دہلوی حضرت نوح ناروی کے شاگرد تھے جو سہل ممتنع اور زبان کی شاعری کے لئے خصوصی شہرت رکھتے تھے۔ انہیں زبان و بیان کا یہ منفرد و نادر انداز یقیناً اپنے استاد سے ملا ہوگا۔ ان کے درج یل اشعار سے بھی داغ اسکول کی نمایندگی ہوتی ہے۔

    کتنے میں کس حسیں نے خریدا پتہ نہیں

    بس بک گیا میں گرمئی بازار دیکھ کر

    سکتے کا سا عالم دم گفتار ہوا ہے

    ایسا بھی محبت میں کئی بار ہوا ہے

    آتش سیال کی صورت ہے رگ رگ میں لہو

    جل رہا ہوں سر سے پا تک اور دھواں ہوتا نہیں

    آج آئے ہو تم اے جان تسلی دینے

    مر گئے ہوتے جو کل ہجر میں ہم کیا ہوتا

    جاں نکلتے ہی سب کلفتیں مٹ گئیں

    درد حد سے بڑھا تو دوا ہو گیا

    جاتا تو ہےاس جلوہ گہ ناز میں اے دل

    کیا ہوگا اگر ضبط کا یارا نہ رہے گا

    یاد رکھ اے مجھے دیوانہ بنانے والے

    میری رسوائی ہے موجب تری رسوائی کا

    حضرت برق اعظمی ایک پختہ کار و صاحب طرز غزل گو شاعرکی حیثیت سے سامنے آتے ہیں ان کی غزل کا یہ امتیاز ہے کہ وہ غزلوں کی بھیڑ میں گم نھیں ہوتی۔۔۔ انکی غزل اپنی ایک پہچان رکھتی ہے۔ ان کے اشعار اپنے مخصوص زاوئے، منفرد انداز فکر اور نادر طرز گفتار کے سبب لاکھوں کی بھیڑ میں پہچان لئے جاتے ھیں۔ زبان کی صفائی، بندش کی چستی، محاوروں کی صحت، جذبے کا خلوص، موضوع کی سنجیدگی اور فنی رکھ رکھاؤ ان کی شاعری کے اھم اوصاف ہیں۔ یہ اوصاف ان کی غزل میں قدم قدم پر دامن دل کھینچتے ہوئے ملتے ہیں۔ ایک شاعر کی حیثیت سے انھیں خود بھی اس کا ادراک ہے۔ ایک جگہ انہوں نے کہا ہے،

    کہ دیا برق کو جو کھنا تھا سن کے اب سر دھنا کرے کوئی حضرت برق اعظمی کی غزل میں ہمیں اسلوبیاتی سطح پر قدم قدم پر جدید لہریں بھی ملتی ہیں، لیکن روایت کا ایک زندہ و متحرک تصور ان کے شعری رویۓ کی اساس ہے۔ شعری روایت سے ان کا رشتہ نہایت پختہ اور مستحکم ہے۔ ان کے شعری شعور نے مشق و ممارست کی ایک لازمی حد کو عبور کر کے اجتھاد و فکر کو اپنے فن پارے کا جوھر بنایا ھے۔۔۔ اسلئے کہ وہ اس بات سے پوری طرح باخبر ہیں کہ اچھا شعر، شعر گوئی کی منفرد صلاحیت اور روایت کے مناسب امتزاج سے وجود میں آتا ہے۔ فنی سلیقہ بندی، فطری توانائی اور زبان پر کامل گرفت ان کی شاعری کے اہم عناصر ہیں۔۔۔ ان کا شعری رویہ ان کی گھری فنی آگھی یا فکر و اظھار پر بھرپور گرفت، پختہ جمالیاتی شعور اور ترسیل کی کامل استعداد کے آمیزے سے وجود میں آتا ہے۔

    میں شعرو ادب کو سماج یا تھذیب کا معلم و مصلح سمجھتا ھوں۔ میرا نقطہ نظر ھے کہ ھر فن پارہ اپنے تخلیق کار کی زندگی اور فکر و خیال کا نمائند ہ ہوتا ھے۔ کوئی بھی ادیب یا شاعر اپنے عھد ، سماج یا قوم کے خارجی و داخلی ماحول اور تہذیب سے بے نیاز نہیں ہو سکتا اور کسی بھی تخلیق کار کو اس کے عہد یا سماج سے الگ کر کے اس کے فن پارے کی تعیین قدر نھیں کی جا سکتی۔ حضرت برق اعظمی کے کلام کا مطالعہ کرنے سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے ہاں تغزل کی پاکیزہ قدروں کے ساتھ ساتھ ماضی کی صالح روایتوں سے مستحکم و پایہ دار وابستگی بھی ملتی ہے، حال سے کامل با خبری بھی اور مستقبل پر گھری نظر بھی۔ انھوں نے اشاروں، کنایوں اور علامتوں کے پردے میں اپنے عھد کے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات پر دردمندانہ تنقید بھی کی ہے اور ایک ہمدرد، دوربیں اور عاقبت اندیش مصلح کی حیثیت سے سیاد ت و رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دیا ہے۔ ان کے ہاں اس قسم کے اشعار بھی ملتے ہیں،

    بھڑکتا ہے چراغ صبح جب بحھنے کو ہوتا ھے

    قضا آتی ہے جب چیونٹی کے ہو جاتے ہیں پر پیدا

    شہنشاہی کی مانگے بھیک کوئی ہم فقیروں سے

    کیے اک کملی والے نے ہزاروں تاجور پیدا

    چل دیئے اعزہ سب دفن کر کے مٹی میں

    عمر بھر کی الفت کا ہم نے یہ صلا پایا

    دیا اتار عزیزوں نے دس قدم چل کرج

    مرا جنازہ تھا کاندھوں پہ جیسے بار کوئی

    حضرت برق اعظمی ایک خوش فکر و نغز گو شاعر کے ساتھ ایک سچے اور صاحب بصیرت مسلمان بھی تھے اس لئے انھوں نے قلم کی پاکیزگی اور زبان و بیان کی طھارت کا ہمیشہ لحاظ رکھا ہے۔ انہیں یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ زبان و قلم کی دولت اللہ تعالی کی ایک امانت ہے اور اس کے بجا و بیجا استعمال کے لئے ہمیں اللہ کے حضور جواب دہ ہونا پڑے گا۔ یہ احساس انکی شاعری میں متعدد مقامات پر ملتا ہے۔ نمونے کے طور پر دو شعر پیش کرتا ہوں۔

    اوروں کی طرح فحش مضامیں نہ کر رقم

    اے برق اپنے پاک قلم کا ہی کر لحاظ

    فحش غزل اور فکر لطیف

    کیا میں ہرن پر لاد دوں گھاس

    میں نے حضرت برق اعظمی کی شاعری خصوصا غزل کا بغائر مطالعہ کیا ہے۔ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ان کے ہاں لفظ کی بڑی اہمیت ہے۔۔۔ وہ لفظ کی پاکیزگی و طھارت کا پورا لحاظ رکھتے ہیں۔۔۔ انھیں لفظوں کے برتنے اور انہیں ان کے شایان شان استعمال کرنے کا ہنر آتا ہے۔ وہ لفظ کو مردہ اور بے جان نہیں تصور کرتے، اسے ایک زندہ و متحرک حیثیت سے دیکھتے اور اس کے معانی و مفاہیم کی تلاش و جستجو کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں ان کی شاعری اپنا منفرد اور معنیاتی افق خود بناتی ہے۔ ان کے اس روئے نے انہیں ایک منفرد اور نغزگو شاعر بنا دیا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے