Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایک سوال کے کئی جواب

فراق گورکھپوری

ایک سوال کے کئی جواب

فراق گورکھپوری

MORE BYفراق گورکھپوری

    اردو، ہندو مسلمانوں کی مشترکہ زبان ہے۔ ہندوستان کے جس حصہ کی بولی اردو ہے، اس حصہ کی اردوآبادی مسلمان آبادی سے بہت زیادہ ہے۔ لیکن اس کا کیا کارن ہے کہ اب تک نثر و نظم میں جتنے مسلمان اردو ادیب گذرے ان کے مقابلے میں نام کرنے والے اردو کے ہندو ادیب بہت کم گذرے۔ کم بھی گذرے اور اردو شاعری میں تونسبتا ًکم مرتبہ کے بھی گذرے۔ میر، سودا، درد، مصحفی، انشا، نظیر اکبرآبادی، ناسخ وآتش، غالب، ذوق، مومن، میر حسن، انیس و دبیر، امیر و داغ، حالی، اکبر، اقبال اتنے بڑے اوراتنی تعداد میں ہندو سماج نے اردو شاعرنہیں پیدا کیے۔ صف دوم کے اردو شعراء میں بھی مسلمانوں کی تعداد بہت بڑی ہے۔ ایسا کیوں ہوا؟

    گھبراہٹ میں یا آسان فکری سے اس سوال کا جواب اکثر لوگ یہ دے بیٹھتے ہیں کہ چونکہ اردو میں فارسی، عربی کی کافی آمیزش ہے اور چونکہ عرب و ایران کے کلچر اور روایتوں کو اردو شاعری میں کافی دخل ہے، اردو کی فضا مسلمان ممالک کی زندگی و ادب کی فضا ہے اور ان تمام چیزوں سے یہاں کے مسلمانوں کو فطری مناسبت ہے اس لیے اردوکی فضا میں ہندو کم پنپے۔ یہ جواب بظاہر بالکل درست معلوم ہوتا ہے لیکن در حقیقت یہ جواب ہے بالکل غلط اور اس غلطی کے شکار قریب قریب وہ تمام ہندو اور مسلمان رہے ہیں جنہوں نے اس سوال کا جواب سوچنا چاہا۔

    دوسرا جواب کچھ حلقوں سے یہ دیا جاتا ہے کہ اردو ادب میں ہندوؤں کے نہ ابھر سکنے کی یہ وجہ نہ تھی کہ ہندو شعرا مسلمان شاعروں سے کم قابل تھے بلکہ مسلمانوں کی تنگ نظری یا تعصب انہیں ابھرنے نہیں دیتی تھیں۔ لیکن اقلیت اکثریت کو دبا کیسے سکتی تھی اور اتنا کیسے دبا سکتی کہ میر وغالب اور دیگر تمام اساتذہ اردو کے برابر یا ان کے ان سے بڑے ہندو شاعروں کو (اگر ان کے برابر یا ان سے بڑے ہندو شاعر گذرے) اس طرح دبا دے کہ میر وغالب کے ہم پلہ ہندو شاعروں کا نام آج نہ کسی مسلمان کومعلوم ہے نہ کسی ہندو کو۔ اگر اس پایہ کے ہندو شاعر ہوئے ہوتے تو ان کے نام کا چراغ تعصب کی پھونک یا تعصب کا جھونکا بجھا سکتا تھا؟

    بہت سے لوگ اس سوال کا جواب دینے ہی سے کتراتے ہیں۔ یہ لوگ ہندو مسلم اتحاد کے نام پر سلام و درود بھیج کر کہہ بیٹھتے ہیں کہ اردو کی ترقی و تعمیر میں ہندو مسلمانوں نے برابر برابر حصہ لیاہے۔ اس کے بعدپنڈت دیاشنکر نسیم، پنڈت رتن ناتھ سرشار، پنڈت برج نرائن چکبست، منشی درگاسہائے سرورجہان آبادی اور دوچاراورہندو ادیبوں کا نام سرپرستانہ مداحی کے ساتھ لے کر خوش ہو لیتے ہیں اور لوگوں کو خوش کر دیتے ہیں۔ لیکن جو سوال اس مضمون کے شروع میں اٹھایا گیا ہے، اس پر بے لاگ طریقہ پرزور دینے اور اس کے جواب کے لیے اصرار کرنے کو بدتمیزی سمجھتے ہیں یا غیرمہذب نامصلحت اندیش سخت گیری بتاتے ہیں۔ لیکن سوال جہاں کا تہاں رہ جاتا ہے۔

    لطف یہ ہے کہ شروع میں اٹھائے ہوئے سوال کا صحیح جواب آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیا جا سکتا ہے۔ یہ جواب ہندو کو، مسلمان کو اوران دونوں کے ہاتھوں اردو کی ترقی چاہنے والوں کو ذرا بھی ناگوار نہ ہوگا۔ اب کان دھرکے سنیے یہ جواب۔ ہندی زبان کی کئی بولیاں تھیں مثلا ًبرج بھاشا، اودھی، بیسواری، بھوج پری اور کھڑی بولی۔ اردو کھڑی بولی کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ کھڑی بولی اردو ادب کے جنم سے پہلے بلکہ مسلمانوں کی آمد سے پہلے دلی اور اطراف دلی کے ہندوؤں کی بولی تھی۔ جب دلی اور اطراف دلی میں مسلمان آکر بس گئے تو جو کھڑی بولی اب تک صرف وہاں کے ہندوؤں کی بولی تھی، وہ اب وہاں کے ہندومسلمان دونوں کی بولی بن گئی۔ مسلمانوں نے یہ بولی ہندوؤں سے پائی اور اس بولی نے مسلمانوں سے بہت سے ایسے عربی۔ فارسی لفظ پائے جنہیں اس بولی نے گویا گود لے لیے۔ بالکل بے تکلف اور بالکل فطری طور پر یہ عربی، فارسی الفاظ اور ٹکڑے کھڑی بولی کے آنچل میں جگہ پا گئے۔

    اگر کہیں مسلمانوں کے دلی اور اطراف دلی میں آنے کے پہلے کھڑی بولی میں قابل قدر شاعری ہو چکی ہوتی اور ادبی نثر پیدا ہو چکی ہوتی تو عربی، فارسی الفاظ اور ٹکڑے کھڑی بولی میں ہرگز جگہ نہ پا سکتے کیونکہ ادبی سطح پر منظم ہو چکنے کے بعد کسی زبان میں دوسری زبان یا زبانوں کے الفاظ کھپائے اور پچائے نہیں جا سکتے۔ برج بھاشا اوراودھی کی شاعری میں دو ہی چارعربی و فارسی لفظ جگہ پا سکے کیونکہ ان بولیوں میں مسلمانوں کی شرکت کے پہلے اعلیٰ درجہ کی شاعری ہو چکی تھی۔

    کسی بولی میں جب ادبیت آچکتی ہے تواس میں ایک گٹھیلاپن پیدا ہو جاتا ہے، اس میں نوک پلک پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کے خدوخال، اس کا نک سک، اس کی روپ ریکھا سب مخصوص اور واضح ہو جاتے ہیں۔ اس کی ایک شخصیت و انفرادیت بن جاتی ہے۔ مسلمانوں کے دلی میں اور دلی کے چاروں طرف بس جانے کے بہت دنوں بعد تک کھڑی بولی محض ایک بولی رہی، ایک ایسی بولی جس میں چالیس ہزار سو فیصدی دیسی لفظ تھے اور ڈیڑھ دو ہزارعربی، فارسی لفظ آملے تھے۔ ادب تو کھڑی بولی کا ادب بنتا تھا۔ یہ ادب دلی میں بنا۔

    اس دوران میں دلی کی تمدنی زندگی کی پیشوائی اور رہنمائی مسلمان سماج کے ہاتھ میں آچکی تھی۔ دلی دربار اس تمدنی زندگی کا مرکز تھا۔ اس متمدن ذہنیت کے زیر اثر رچی ہوئی کھڑی بولی کی روایتیں پیدا ہونا شروع ہوئیں۔ کھڑی بولی کے لب ولہجہ میں اس کے طرز اور طرز زبان میں شوخیاں اور نکھار پیدا ہونا شروع ہوگیا۔ اس میں نئی نئی روک تھام اورنئی نئی لہک پیدا ہونے لگی۔ اس کی سادگی میں ایک ٹیڑھ اوراس کے بانکپن میں ایک سیدھ پیدا ہونے لگی۔ مسلمانوں کی گھریلو زندگی اور ان کی مجلسی زندگی کی سنوار کھڑی بولی کو حاصل ہونے لگی۔ دلی اور اطراف کے ہندو اس تمدن کی پیشوائی نہیں کر سکتے تھے جس کے زیر اثر کھڑی بولی کے غنچے چٹک رہے تھے۔

    ہندوؤں کے لیے یہی بہت تھا کہ ان کے کچھ افراد اب اپنی ہی گھریلو کھڑی بولی کی تہذیب یافتہ شکل کو سبق کی طرح سیکھنا شروع کریں، کچھ رک رک کرکچھ اٹک اٹک کر۔ اپنی مادری زبان کا وراٹ روپ (شکل اعظم) یا مہاروپ دیکھنا اور جاننا اور اپنانا کارے دارد۔ برنرڈشا نوے برس کی عمر میں کہہ اٹھا کہ زندگی بھر وہ ایک ہی زبان سیکھنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ یعنی اپنی مادری زبان انگریزی۔

    نہیں سہل اے داغ یاروں سے کہہ دو

    کہ آتی ہے اپنی زباں آتے آتے

    اس بات کو کھلے دل سے مان لینے سے ہندو مسلمانوں کے باہمی تعلقات بگڑ نہیں جائیں گے کہ شروع میں کھڑی بولی کوسان اور کھراد پر چڑھانے کی صلاحیت صرف دلی میں بسے ہوئے مسلمانوں کو تھی۔ اکثریت اور اقلیت کے الفاظ بھی یہاں دھوکہ دے دیں گے اگر ہم یہ نہ جان لیں کہ کھڑی بولی کا جس طرح اب اٹھان ہو رہا تھا، اس کا سویا ہوا جادو جس طرح اب جاگ چلا تھا، اس کے بچپن اور اس کی جوانی کی حدیں جس طرح اب مل رہی تھیں، جب اس کے نکلتے بیٹھتے دن تھے۔ اسے دیکھ کر جتنے مسلمان اس کی طرف کھنچے اس سے بہت کم ہندو اس کی طر ف کھنچے اور وہ بھی مسلمانوں کی دیکھا دیکھی۔ کیا مطلب اکثریت اور اقلیت سے؟ ڈیڑھ سو برس کے اندرجتنے مشاعرے ہندوستان بھرمیں ہوئے ہیں، ان میں پڑھنے والوں اور سننے والوں کی تعداد کو دیکھ لیجیے۔ دس فیصدی ہندو اور نوے فیصد مسلمان نظر آئیں گے۔ البتہ میں جیسا آگے چل کر بتاؤں گا، اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مستقبل کے اردو شاعروں میں ہندو اسی فیصدی اور مسلمان بیس فیصدی نظرنہ آئیں گے۔

    لیکن یہ سمجھنا حماقت ہے کہ مسلمان اردو شاعری اور اردو مشاعروں میں اس لیے کثرت سے شرکت کرتے تھے کہ وہاں عرب اور ایران کا حال سنیں یا عربی فارسی کی گونج سے اپنے کان سینکیں۔ یا وہاں جاکر اپنے مذہب، اپنے خدا، اپنے رسول پر سلام و درود بھیجیں۔ مشاعروں میں دیوبند اور ندوہ کے علمائے کرام جمع نہیں ہوتے تھے۔ مشاعرے صحن مسجد میں نہیں ہوتے تھے۔ مشاعرے کسی بھی لحاظ سے اسلامی انجمنیں نہیں تھے۔ جو مسلمان مشاعروں میں آتے تھے ان سے کم عربی، فارسی الفاظ ہندو نہیں جانتے تھے۔ چودہ پندرہ برس کا ہندو لڑکا وہ تمام عربی، فارسی الفاظ جان لیتا تھا اور اچھی طرح انہیں اشعارمیں کھپا سکتا تھا جو اردو شاعری اور مشاعروں کی کائنا ت تھے۔

    مٹھی بھرعربی فارسی الفاظ کے بل بوتے پرمسلمان ہندوؤں کو اردو شاعری کے میدان میں دبا نہیں سکتے تھے۔ اردوشاعری میں جوعلائم یا اشارے یا تمثیلیں موجود ہیں، ان پر بھی ہندو اسی آسانی سے قدرت حاصل کر لیتا جس آسانی سے مسلمان۔ لیکن کھڑی بولی جب نکھرنے لگی تو اس کی جو جھلک دیکھ کر ہندوؤں ہی کی نہیں بلکہ ناسخ اورآتش جیسے استادوں کی آنکھیں جھپک جاتی تھیں۔ اس کی کچھ مثالیں یہ ہیں،

    ایک آئینہ ہے اس رشک قمر کا پہلو

    صاف ادھر سے نظر آتا ہے ادھر کا پہلو

    دوسرا مصرعہ اتنا بے لاگ ہے کہ جب ایک لڑکے نے یہ مطلع سنایا تو ناسخ و آتش نے اپنی اپنی غزلیں پھاڑ ڈالیں۔ یا،

    د ل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے

    اس گھرکو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

    استاد وزیر کے اس مصرع

    ’’اسی باعث تو قتل عاشقاں سے منع کرتے تھے‘‘

    اس کی اصلاح بالکل غیر ارادی طور پر ایک پتنگ اڑانے والے لڑکے نے یوں کر دی تھی، ’’اسی دن کوتوقتل عاشقاں سے منع کرتے تھے۔ ‘‘

    کھڑی بولی میں جو قیامت کا اثر اور جو صبح ازل کی بہاروتازگی آئی، وہ عربی فارسی ترکیبوں یا اضافتوں کی مرہون نہیں تھی۔ مثلا ًیہ مصرعہ اور اشعار،

    کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے

    بوجھ وہ سر سے گرا ہے جو اٹھائے نہ اٹھے

    کام وہ آن پڑا ہے جو بنائے نہ بنے

    زمانہ کے ہاتھوں سے چارا نہیں ہے

    ز مانہ ہمارا تمہارا نہیں ہے

    ساقیایاں لگ رہا ہے چل چلاؤ

    جب تلک بس چل سکے ساغر چلے

    سودا جو تیرا حال ہے ایسا تونہیں وہ

    کیا جانیے تونے اسے کس آن میں دیکھا

    یاد اتنی اس کی خوب نہیں میر بازآ

    نادان پھر وہ دل سے بھلایا نہ جائے گا

    بھرآئے پھول کے آنسو پیام شبنم سے

    کلی کا ننھا سا دل خون ہوگا غم سے

    اکبر کو نیند آگئی صحرا کو دیکھ کر

    عباسؓ جھومنے لگے دریا کو دیکھ کر

    ’’دنیا یہی دنیا ہے توکیا یاد رہے گی‘‘

    ’’تیری دنیا میں اب دھرا کیا ہے‘‘

    ’’اس عمر میں انساں کو سجھائی نہیں دیتا‘‘

    ’’کیا دِوانے نے موت پائی ہے‘‘

    تارا ٹوٹتے سب نے دیکھا یہ نہیں دیکھا ایک نے بھی

    کس کی آنکھ سے آنسو ٹپکا کس کا سہارا ٹوٹ گیا

    ’’جینا اسے ہو گیا اجیرن‘‘

    ’’بیٹھ جاتے ہیں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے‘‘

    ’’یہ پچھلی رات یہ رگ رگ میں نرم نرم کسک‘‘

    ’’گاڑی نکل گئی تھی پٹری چمک رہی تھی‘‘

    ’’جب تک امام آئیں انہیں دیکھ بھال لو‘‘

    کیا سے کیا کر دیا محبت نے

    اب جو دیکھا تو وہ اثر ہی نہیں

    ’’زندگی کیسی مصیبت ہے اثر سے مت پوچھ‘‘

    آج تو داغ کو ہم لوگ ترے کوچہ سے

    اس طرح کھینچ کے لائے ہیں کہ جی جانتا ہے

    ’’کچھ اڑھا دیجئے مولا مجھے نیند آتی ہے‘‘

    ’’بھرے ہیں آنکھوں میں آنسو اداس بیٹھے ہو‘‘

    ’’کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں‘‘

    ’’دیکھئے آپ کو اور آپ کے گھر کی صورت‘‘

    ’’عجب بہار ہے ان زرد زرد پھولوں کی‘‘

    ’’نکل چلی ہے بہت پیراہن سے بو تیری‘‘

    ’’جس کو غصہ میں لگاوٹ کی ادا یاد رہے‘‘

    ترے کوچے اس بہانے مجھے دن سے رات کرنا

    کبھی اس سے بات کرنا کبھی اس سے بات کرنا

    نہ چھیڑ اے نکہت باد بہاری راہ لگ اپنی

    تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں

    زلف میں پھنس کے فرن اب ہے یہ وحشت کیسی

    سانپ جب کاٹ لیا سیکھنے منتر بیٹھے

    ’’جو ماننے کی بات نہ تھی مان گئے ہم‘‘

    ’’کبھی کچھ رات گئے اورکبھی کچھ رات رہے‘‘

    ’’تم نہیں اور سہی اور نہیں اورسہی‘‘

    ’’ہمیں سوگئے داستاں کہتے کہتے‘‘

    ’’تڑپنے والے تڑپ کرفلک کو چھو آئے‘‘

    ’’اے باد صبا میری کروٹ تو بدل جانا‘‘

    جھکتی ہے نگاہ تیری مجھ سے مل کر

    دیوار سے دھوپ اتر رہی ہے گویا

    ’’مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے‘‘

    ’’میں اسے دیکھوں بھلا کب مجھ سے دیکھا جائے ہے‘‘

    ’’یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں‘‘

    ’’یہ جانتا اگرتو لٹاتا نہ گھر کو میں‘‘

    ’’تری آواز مکے اور مدینے‘‘

    ’’وہ عقل کو سرد کر دیا روح کو جگمگا دیا‘‘

    یہ ہے کھڑی بولی کا سجل اورسگھڑ روپ۔ یہ ہے کھڑی بولی کی سجاوٹ اور اس کا رچاؤ۔ ان اشعار اورمصرعوں میں جیسی اور جتنی فارسی، عربی ہے وہ جیسے مسلمان کو لکھنے آتی ہے ویسی ہی ہندو کو بھی لکھنے آتی تھی۔ لیکن بظاہر سب سے زیادہ اچنبھے کی بات جو ہے وہ یہ ہے کہ ہندی کے وہ الفاظ اورفقرے جو ان اشعار اورمصرعوں کوسولہوں سنگار سے سجاکرانہیں سداسہاگ دے رہے ہیں، وہی ہندی الفاظ اور فقرے اس لوچ اور سگھڑپنے کے ساتھ مسلمان استعمال کر سکتے تھے اور ہندو اس انداز سے استعمال نہیں کر سکتے تھے بلکہ خشک اور ٹھوس طور پر استعمال کرتے تھے۔

    بات یہ ہے کہ کھڑی بولی، اس کی ہندی لغت، محاوروں اور جملوں کو سنوار کر پیش کرنے کی فطری ذہنیت اس شہریت سے پیدا ہوئی جس کی داغ بیل بھی مسلمان نے ڈالی تھی اور جسے مسلمان ہی پروان چڑھا رہے تھے۔ میں نے مثالاً جو اشعار اور مصرعے پیش کیے ہیں ان کے ٹھیٹھ یا ہندی حصے، ان میں ہندی کے لفظوں کا انتخاب ونشست یا درو بست، ان کی فن کارانہ سادگی آسانی سے ہاتھ نہیں لگتی۔ مشکل سے یا کوشش سے بھی یہ ہندی ہاتھ نہیں آتی اگر گھریلو زندگی، قومی اور اجتماعی زندگی میں تزئین زبان کا جذبہ آبادی کی آبادی کو متاثر و متحرک نہ کرے۔ جب کسی بولی کی ادبی تہذیب و تالیف شروع ہوتی ہے تو قومی زندگی کے نازک ترین لطفی احساسات اور حساس ترین سلیقہ مندی اس عمل میں کارفرما ہوتے ہیں۔ بی بی، بچوں، گھر والوں، نوکر چاکر، عزیزوں، رشتہ داروں، برابر کے لوگوں بلکہ اپنے سے چھوٹوں اور اپنے سے بڑوں، سب سے مہذب گفتگو کے جو سانچے تیار ہو چکے ہیں، زبان کی جو روایتیں تیار ہو چکتی ہیں ان سب کو لے کر زبان آگے بڑھتی ہے۔

    ہندوؤں نے مسلمانوں سے اتنی عربی فارسی ضرور سیکھ لی جتنی اردو شاعری کے لیے ضروری تھی بلکہ اس سے بہت زیادہ عربی فارسی سیکھ لی۔ لیکن جو چیزیں مسلمانوں سے وہ نہیں سیکھ سکے یا جس کا جلدی سیکھ لینا مشکل تھا، وہ سنواری ہوئی ہندی تھی یا وہ ہندی کی ادبی شان تھی۔ مرزا تفتہ غالب سے زیادہ فارسی عربی اپنے اردو کلام میں بھی بھرتے ہوں گے لیکن جہاں جہاں غالب نے نرم اردو یا ہندی نما اردو لکھی ہے، جہاں جہاں غالب نے کھڑی بولی کے معجزے دکھائے ہیں، اس کی تقلید مرزا تفتہ سے نہ ہو سکی۔ بڑا مشکل کام ہے سہل اردو، ادبی شان کی ہندی لکھنا اور اردو والے جس بات پر جان دیتے آئے ہیں وہ بھی ہندی نما اردو ہے۔ یہی سہل اور ادبی شان والی ہندی ہے۔ ایں سعادت بزور بازو نیست۔

    اگر اردو کے معنی اردو لغت یا اردو ادب کا وہ حصہ ہے جوعربی فارسی سے بنا ہے یا جو فارسی عربی عروض کے مطابق موزوں ہوا ہے تویہ اردو ہندوؤں کو آتی تھی لیکن اگر اردو کا اصلی جوہر اردو کی روح رواں کھڑی بولی کے ہندی الفاظ کی سجاوٹ ہے تو یہ اردو صرف مسلمانوں کو آتی تھی اگر چہ کہ کھڑی اور کھردری شکل میں یہ اردو مسلمانوں نے ہندوؤں ہی سے پائی تھی۔ کھیت ہندوؤں کا تھا۔ اسے شاداب کر کے لہلہاتا ہوا باغ بنانا ان مسلمانوں کا کام تھا جن کی سماجی زندگی اور اس کی روایتیں اور فطری رجحانات، سب مل کر ان سے صرف کھڑی بولی نہیں بلکہ رچائی اور سنواری ہوئی کھڑی بولی بلواتی تھی۔ اکھڑ اکھڑ بولی اور نرم و رواں دواں کھڑی بولی میں بڑا فرق ہے۔ اس سماجی عمل میں برابر کی حیثیت سے ہندو مسلمانوں کے شریک کار نہیں ہو سکتے تھے، البتہ بہت تھوڑے سے ہندو اس کام میں مسلمانوں کے پر خلوص مداح اور مقلد ضرور ہوئے۔

    چکبست اور نسیم اور درگاسہائے سرور اور سرشار، بنواری لال شعلہ یا نظرتک کی اردو میں ہندی الفاظ اس لوچ اورمعصومی و مانوسیت کے ساتھ نہیں آئے جس کی مثالیں غالب تک کے یہاں مل جاتی ہیں۔ غالب تک کے یہاں اس لیے میں نے کہا کہ غالب کی اردو عموماً بہت مفرس کہی جاتی ہے۔ ان ہندو ادیبوں کی اردو استادانہ سہی لیکن ان کی اردو میں ایک پرتکلف خارجیت ہے۔ یہ اردو اپنی تمام شان و شوکت کے باوجود کتابی معلوم ہوتی ہے۔ سیکھی ہوئی اردو معلوم ہوتی ہے۔ اسی سے چوٹی کے ادیب ہوتے ہوئے بھی اردو غزل میں یہ لوگ نام نہ کر سکے۔ عربی دانی اور فارسی دانی کے باوجود غزل کی روح بڑی ٹھیٹھ چیز ہے۔ یہ ہندو ادبا اتنے مہذب تھے کہ عاشق بھی نہ ہوسکے تھے پھر وہ ہندی نما عشقیہ اردو کہاں سے لکھتے۔ جس کا جادو میر و مومن نے جگایا ہے۔

    اردو کے ہندو ادیبوں کا مذہب مسلمانوں سے مختلف تھا لیکن اختلاف مذہب ان کے اردو میں نہ چمک سکنے یا مسلمانوں کی طرح نہ چمک سکنے کا سبب نہیں تھا۔ اردو کے ہندو ادیبوں کی سماجی زندگی، گھریلو زندگی، ان کی، ان کے بی بی بچوں کی، ان کے متعلقین کی بول چال مختلف تھی، لب و لہجہ مختلف تھا، ان کی کھڑی بولی اتنی رچی ہوئی نہیں تھی، اتنی رواں دواں نہیں تھی، اتنی سنوری نہیں تھی جتنی ہزارہا مسلمان گھرانوں کی کھڑی بولی تھی۔ اس سے ان کی اردو بولی میں ایک بھاری پن کا احساس ہوتا ہے، جس طرح ہندوستان کے فارسی شعرا کی فارسی میں عموما ًایک بھاری پن کا احساس ہوتا ہے۔ ایک آدھ کو چھوڑ کر۔

    اردو خارجی و داخلی طریقے سے حاصل کی جاتی ہے۔ اردو کے ہندو ادیب اسے صرف خارجی طریقے سے حاصل کر سکتے تھے۔ اردو کے مسلمان ادیب اسے داخلی انداز سے حاصل کر سکتے تھے یعنی اردو کے اس اہم ترین حصہ کو جسے دلی و اطراف دلی کے اسلامی تہذیب نے (مذہب نے نہیں) اجتماعی عمل سے بنایا اور سنوارا تھا اور جو تمام ترکھڑی بولی کے ہندی الفاظ یا ان تھوڑے سے عربی فارسی الفاظ سے بنا تھا، جو ان میں ہندی الفاظ گھل مل گئے تھے اور جنہیں ہندو اسی آسانی سے بولتے تھے جس طرح مسلمان۔

    یہ بات بھی اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ اگرچہ کہ کھڑی بولی کی ترقی یافتہ شکل مسلمانوں کے ہاتھوں سانچے میں ڈھلی لیکن اس ترقی یافتہ شکل میں اسلامی عناصر کو کوئی دخل ہرگز نہیں ہے جیسے سائنس کی کوئی دریافت یا ایجاد یا اصول کسی قوم یا ملک میں جنم لے کر اس قوم یا ملک کی چھاپ سے آزاد رہتی ہے۔ بلکہ اردو کی وہ شکل جسے مسلمانوں نے رچایا اس کی زیادہ ہم آہنگی ہندو مزاج اور ہندو تہذیب سے ہے کیونکہ اردو کی اس شکل میں ہندی الفاظ کا لوچ ہے، اس کھڑی بولی کا لوچ ہے جو ہندوستان اور ہندوؤں کی چیز تھی۔ بات صرف اتنی تھی کہ شروع میں اسے ہندو سنوار نہیں سکتے تھے۔ لیکن اب زمانہ بدل چکا ہے۔ مسلمانوں کو جو کچھ اردو کو بنانا تھا وہ بنا چکے۔ اب اس کی بالکل ضرورت نہیں کہ دلی یا لکھنؤ میں جاکر ہندو بسیں اور دن رات مسلمان ادیبوں کا منہ تاکتے رہیں۔

    اردو کتابوں اور رسالوں سے گھر بیٹھے اب استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ اب اردو پر ہندو فاتحانہ قبضہ کر سکتے ہیں۔ فصیح ترین اور بلغ ترین اردو میں ہندو تہذیب، ویدوں اور اپنشدوں کی تہذیب، کالی داس اور سنسکرت کے دوسرے شعراء کا کلچر ہندو بھر سکتے ہیں۔ نئی تہذیب، ہندوستان کی ’نشاۃ ثانیہ‘ کی روح سب کچھ اردو میں بھرا جا سکتا ہے۔ اردو میں سو فیصدی بھارتیتا (ہندوستانیت) بھری جا سکتی ہے۔ اردو ادب کو اسی طرح ہندوستان کا ادب بنایا جا سکتا ہے جیسے جرمن ادب جرمنی کا ادب ہے یا کسی ملک کا ادب اس ملک کا ادب ہے یا جیسے کالی داس اور ٹیگور کا ادب ہندوستان کا ادب ہے۔

    کھڑی بولی کے تمام ہتھکنڈے اب بہ آسانی سیکھے جا سکتے ہیں۔ ہندو تہذیب اگر اردو میں اپنی عکاسی کرنا چاہے تو اس تہذیب کی تابندگی اور اردو کی موہنی میں کمی پیدا نہیں ہوگی۔ ضرورت کے مطابق اردو لغت سے تال میل کھانے والے ساز اردو میں نئے پردے نکالنے والے سنسکرت الفاظ میں داخل کیے جا سکتے ہیں۔ اردو کے ہندو ادیب اب اردو کو خلاقانہ طور پر برت سکتے ہیں۔ اب وہ وقت آگیا ہے اور اب ہندو اس قابل ہو گئے ہیں کہ مسلمان اردو میں ہندوؤں کو بڑے حصہ دار (Senior Partner) کی حیثیت سے شریک کر لیں۔ نہ شریک کریں تو ہندو زبردستی اپنا حصہ لے لیں۔ ہندو سماج اب تک تو میر، سودا اورغالب، انیس، اقبال کے ہم پلہ ادیب پیدا نہ کر سکا تھا۔ لیکن نئے اردو ادب کی تخلیق و تعمیر میں ہندو سماج بڑے سے بڑے مسلمان ادیب کا حریف پیدا کر دے گا۔ نثر و نظم دونوں میں۔ یہ تو ایک دن ہونا ہی تھا۔

    اردو ادب کی شوخیاں اب سادگی اور معصومی میں بدل چکی ہیں۔ اردو میں وہ مانوسیت، وہ سیدھا سبھاؤ، وہ بھاؤ اور رس اب آچلا ہے۔ اب ہندوستان کی اصلی روح اس طرح دبے پاؤں اردو میں سما رہی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ہندو سماج میں وہ ذہنی ’نشاۃ ثانیہ‘ پیدا ہوگئی ہے، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ مقدار اور صفت، تعداد اور مرتبہ ہرلحاظ سے ہندو آبادی اردو ادب کی خدمت کرنے میں اپنی اکثریت کی داد دے سکے اور اردو ادب کی ترقی میں پیشوائی اورہنمائی کے فرائض ادا کرے۔

    یہ ضرور ہے کہ اردو کے مقابلے میں ہندی تحریک نے عام طورسے ہندوؤں کی توجہ دوسری طر ف کھینچ لی ہے لیکن اگر ناگری حروف میں اب تک کے اردو ادب کا ایسا حصہ منتقل کردیا جائے جس کی مثالیں میرے منتخب کردہ ایسے اشعار اور مصرعوں میں ملتی ہیں جنہیں میں نے اس مضمون میں نقل کیا ہے تو اردو ہندوؤں کی گھٹی میں پڑ جائے گی۔ ہندی بحروں، سنسکرت بحروں، اردو شاعری میں جو نیے نیے قسم کے نظم پارے یا نئی نئی شکلوں کے منظوم بند (Stangas) وضع کیے جارہے ہیں، جدید ہندی شاعری میں جو بحریں یا جن جن شکلوں کے نظم پارے یا منظوم بند ڈھالے جا رہے ہیں یا ایسے الفاظ لائے جا رہے ہیں جو اردو میں کھپائے جا سکتے ہیں۔

    سنسکرت ادب کی تشبیہوں یا استعاروں یا بنگلہ ادب کی تعبیرات و طرز ادا اور ہندوستان کی دوسری زبانوں کی خوبیاں، ان سب سے اگر استفادہ کیا جائے تو اردو میں بڑی وسعتیں پیدا ہو جائیں گی اوراس کی اردوئیت میں کوئی کمی یا خرابی پیدا نہیں ہوگی۔ پھرہندی تحریک کا سنگم پیدا ہو جائے گا اور ایک بہت بڑے ادب کی تعمیرشروع ہو جائے گی۔ اب تک کا اردو ادب اور قدما کے شاہکار اس تعمیر میں بڑی مدد کریں گے۔ اردو ادب کی بیکراں وسعتوں کے امکان پر اردو ہی والے ذرا کم دھیان دیتے ہیں۔ یہ بھی کیا ڈرپوک خیال ہے کہ دو ہزارکے قریب سنسکرت الفاظ اور کچھ نئی بحروں اور وزنوں اور نئے نئے انداز بیان کو اردو میں شامل کرلینے سے اردو کو نقصان پہنچے گا۔ شروع میں اس کی ضرورت رہی ہو تو رہی ہو کہ ذرا سکڑ اور سمٹ کر کھڑی بولی اپنی جھلک دکھائے۔ اب اسے بے دھڑک اپنا گھونگھٹ کھول دینا چاہیے۔

    مأخذ:

    حاشئے (Pg. 35)

    • مصنف: فراق گورکھپوری
      • ناشر: سنگم پبلشنگ ہاؤس، الہ آباد

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے