Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

فیض اور حافظ

MORE BYابو الاعجاز حفیظ صدیقی

    ڈاکٹر وزیر آغا نے فیضؔ پر اپنے قابل قدر مضمون ’’اردو نظم میں انجماد کی ایک مثال‘‘ میں فیضؔ کے ذہنی ارتقاء کے متعلق جن خیالات کااظہار کیا ہے وہ بڑی حدتک درست ہیں۔ واقعی فیضؔ کے ہاں موضوعات کا تنوع نہیں۔ لیکن اس سے فیض کے انجماد پر استدلال کرناایک ناقدانہ زیادتی ہے۔ شاعرانہ ارتقاء دو قسم کا ہوسکتا ہے۔ (۱) موضوعات کا ارتقاء (۲) فن کا ارتقاء۔ قسم اول کی مثال اقبالؔ کے کلام سے دی جاسکتی ہے۔ وہ وطنیت، قومیت اور قاشیت سے ہوکر ملتِ بیضا تک پہنچے ہیں۔ لیکن اس ارتقائے ذہنی کو اقبال کا تضاد بھی کہا جاسکتا ہے بلکہ کہا جاتا ہے۔ اور فن کے ارتقاء سے مراد ہے، جذبے کی گہرائی و گہرائی میں تدریجی ترقی۔ فکری تعقید اور الجھاؤ کا فکری تنویر اور صفائی میں درجہ بدرجہ تبدیل ہونا۔ فکر اور جذبے کی ہم آہنگی اور امتزاج میں ترکیب و ترتیب اور اعتدال و توازن کی بتدریج ترقی۔ یہ امر تسلیم کرلینے میں کوئی حرج نہیں کہ فیضؔ کے ہاں موضوعات کا ارتقا ءنہیں۔ کیونکہ بہتر نظامِ حیات اور مثالی انسانیت کا خواب بذاتِ خود ایک ایسا موضوع ہے جس کا ذیلی تنوع ہی کافی ہے۔ اگر وزیر آغا صاحب کا خیال یہ ہے کہ جمود اسی کا نام ہے تو ٹھیک ہے۔ واقعی فیضؔ نے ’’نقشِ فریادی‘‘ میں سرمایہ داری سے نفرت کرکے ’’دستِ صبا‘‘ میں اس کے گن نہیں گائے۔ اور ’’دستِ صبا‘‘ میں ظلم کی مذمت کرکے ’’زنداں نامہ‘‘ میں ظلم کا جواز نہیں ڈھونڈا۔ یعنی اس کے ہاں موضوعات کا ارتقا ءنہیں ہوا۔ البتہ فیضؔ کے فنی ارتقا ءمیں شبہ کرنا اپنے مذاقِ سلیم کا مضحکہ اڑانا ہے۔ کیا ’’دستِ صبا‘‘ نقشِ فریادی‘‘ پر اپنی فنی پختگی کے اعتبار سے ایک نئے قدم کا پتہ نہیں دیتی۔ کیا دستِ صبا کی پختہ غنائیت اور ’’نقشِ فریادی‘‘ کی گونجیلی غنائیت سفر ارتقاء کی دومنزلیں نہیں ہیں۔ باقی رہا موضوع کا ذیلی تنوع جوہر تحریک پر فلسفے اور ہر فنکار کے فن کے لیے ضروری ہے۔ تو اس کی فیضؔ کے ہاں بھی کمی نہیں۔ انصاف اور ظلم، آزادی اور غلامی، خیر اور شر، وطن سے لگاؤ اور محبوب کی محبت، جاں نثارانِ وطن کے قصے۔ مصائب و مشکلات کا بیان، اپنی دھیرج بندھانے اور جہد و کوشش کی مشعلیں روشن رکھنے کے لیے امید آفریں گیت اور امید پر چھاپہ مارکر نازک شیشوں کو چکناچور کردینے والی نومیدی اور اس کا مقابلہ۔

    فیضؔ کے ایک ہی موضوع کی مختلف شاخیں ہیں۔ میرؔ کی عظمت موضوعات کے تنوع میں نہیں۔ موضوع تو بے چارے کا تھا ہی ایک ’’غمِ ناکامی‘‘ اور باقی سب کچھ تو اس ایک شجر کے برگ و بار کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر یہی جمود ہے تو یہ شاعرانہ عظمت کے منافی نہیں۔ بیشتر غزل گو شعرا ءکا ایک ہی موضوع ہوتا ہے۔ یعنی عشق اور وہ بھی رسمی۔ کیا جگرؔ اور حسرتؔ کے ہاں یہ جمود نہیں ہے؟ خیامؔ کا موضوع بھی تو ایک ہی تھا۔ ’’عشرتِ امروز‘‘ جس سے وہ عمر بھر چمٹا رہا۔ اس ثبات و استقامت سے تو شاعرانہ عظمت میں جان پڑتی ہے۔ اور کسی محبوب موضوع سے یہ شیفتگی و دل بستگی ہی تو اس موضوع کے امکانات کو شاعر کے لیے نمایاں کرتی ہے۔ اور شاعر اسے طرح طرح سے باندھتا ہے۔ رنگارنگ گلدستوں میں سجاکر رکھتا ہے۔ میرؔ کی کل کائنات ایک حنائی آنسو تھا۔ جسے میرؔ نے ہزاروں روپ دیے۔ کیا یہ فن کا نقص ہے؟

    ذہنی ارتقاء کی تقسیم ایک دوسرے طریق پر بھی ہوسکتی ہے یعنی عمودی ارتقا ءاور افقی ارتقاء۔ فن کے لیے مسلسل عمودی ارتقا ءکوئی خاص ضرورت نہیں۔ اگر فنکار کی روح اپنی تخلیقی زندگی سے قبل ہی تجربات، مشاہدات اور مطالعے کے ذریعے عمودی ارتقاء کی مناسب بلندیاں طے کرچکی ہے تو اسے بھٹکنے کی ضرورت ہی نہیں۔ وہ اسی بلندی پر منزل کی طرف پرواز کرنا شروع کردیتا ہے۔ اور یہ پرواز افقی ہوتی ہے۔ افقی پرداز میں رفتار اور توازن، نفاست اور ہمواری کا فرق مشق سے پیدا ہوتا ہے۔ اور اگر پرواز کے دوران کچھ مزید تجربات حاصل ہوجائیں جنہیں ساتھ لے کر وہ کچھ مزید بلندی پر اڑسکے تو اس کی عظمت میں یقیناً اس سے اضافہ ہوگا۔ یہ امر واقعی قابلِ ذکر ہے کہ فیضؔ کے ہاں ارتقاء بیشتر افقی ہوا ہے۔ کیونکہ عمودی اڑان کی اسے ضرورت ہی پیش نہیں آئی (یاشاید اس کے لیے مناسب ماحول میسر نہیں آیا) وہ سطح زمین سے ایک جیسی بلندی پر اڑا جاتا ہے۔ ۱۹۴۷ء میں جب اس نے ’’صبح آزادی‘‘ لکھی اور ۱۹۵۲ء میں جب اس نے ’’روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں‘‘ کہی اور ۱۹۵۵ء میں جب اس نے ’’بنیاد کچھ تو ہو‘‘ لکھی تو وہ ذہنی اعتبار سے ایک ہی سطح پر تھا۔ اور یہی چیز ہے جس کو وزیر آغا نے پایہ ثبوت تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ اثرؔ لکھنوی کے خط سے کچھ مزید الجھنیں پیدا ہوگئی ہیں۔ نظریہ اور نصب العین یا کلچر اور تہذیب کے مسائل تو ’’فیض شناسی‘‘ کی فروعات بھی نہیں۔ اس لیے اثرؔ صاحب کے مضمون سے فیضؔ کے ہاں انجماد کا ردتو خیر کیا ہوتا، بات اور الجھ گئی۔ بقول مجتبی حسین کے شعر میں نظریے نہیں کہے جاتے نظریے کے ذریعے شعر کہے جاتے ہیں۔

    چنانچہ فیضؔ نے (اور شاید فقط فیضؔ نے) واقعی نظریے کے ذریعے شعر کہے ہیں۔ نظریے کو لباسِ شعر نہیں پہنایا۔ (حالیؔ اور اقبالؔ دونوں کے ہاں یہ بات ہے کہ وہ نظریے کو شعر بناکر ہمارے ہاتھ میں پکڑا دیتے ہیں) نظریہ فیضؔ کے ہاں بھی ہے۔ مگر اسے جذبے کے بعد ثانوی حیثیت دی گئی ہے۔ اگرچہ وہ جذبہ بھی کسی حدتک نظریے کا محتاج ہوتا ہے۔ پھر فیض کے ہاں نظریے میں بھی حالیؔ اور اقبالؔ دونوں سے زیادہ وسعت ہے اور عمومیت بھی۔ کیونکہ فیضؔ ہمیں مشرف بہ اسلام کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ صرف ہماری انسانیت کو ابھارتا ہے۔ فیضؔ کے کلام سے ہم بلاتفریق مذہب و ملت (بلکہ خود اس کے اپنے اساسی نظریے کے بعض اجزاء سے انحراف کرکے بھی) لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔

    یہ بات فیضؔ کی غزل پر بھی اسی طرح صادق آتی ہے جس طرح نظم پر۔ کیا فیضؔ کی غزلیں اور نظمیں دو مختلف نظریات کے تحت کہی گئی ہیں۔ یا نظم اور غزل لکھتے وقت فیضؔ دو مختلف ذہنی سطحوں کو ملحوظ رکھتا ہے۔ اگر فیضؔ کے ہاں انجماد راہ پاگیا ہے تو وہ اس کی غزل میں بھی موجود ہوگا۔ ورنہ نظم میں بھی اس کا وجود فرضی ہے۔ کیونکہ فیضؔ کی نظم غزل سے بہت قریب ہے۔ اور اس کی غزل بھی اسی موضوع پر ہے جو اس کی نظم کا موضوع ہے۔ اور فیضؔ نے کوئی غزل موضوع کے بغیر آج تک کہی ہی نہیں۔ غزل اور نظم کی روایت یا ہیئت فیضؔ جیسے کم گو اور پختہ کار فنکار کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتی۔ اس لیے اس امتیاز کا جواب ادھر تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔

    جب پہلی دفعہ ’دستِ صبا‘ کو کھولا تھا تو حافظؔ کے اس شعر پر نظر پڑی تھی،

    نفسِ بادِ صبا مشک فشاں خراہدشد

    عالمِ پیر دگر بارہ جواں خواہدشد

    ’’تو فیضؔ کو حافظؔ کی عظمت کااعتراف ہے‘‘ میں نے سوچا اور ساتھ ہی مجھے فیضؔ کی ’’نظم حسینہ خیال سے‘‘ یاد آئی جو ’’براؤننگ‘‘ سے ماخوذ ہے۔

    مجھے دیدے

    رسیلے ہونٹ معصومانہ پیشانی، حسیں آنکھیں

    پھر ایک دن فیض کی نظم ’’جیب عنبردست‘‘ نظر سے گزری جس میں حافظ کا ایک شعر تضمین کیا گیا ہے۔ ’’تو کیا فیضؔ، حافظؔ اور براؤننگ دونوں سے متاثر ہے لیکن حافظؔ اور براؤننگ میں تو مشرق و مغرب کا فرق ہے۔ آخری گہری نظر سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ براؤننگؔ اور حافظؔ میں لاکھ تضاد سہی لیکن ان کے بعض پہلو مشترک بھی ہیں۔ اور یہی مشترک خصوصیات ہیں جن سے فیضؔ کو خصوصی دلچسپی ہے۔ حافظؔ کا امتیاز فارسی شاعری میں یہ ہے کہ اس کا لہجہ عام فارسی لہجے اور کلاسیکل فارسی کی عام اداس شعری فصا سے قدرے مختلف ہے۔ یہی چیز اسے عظمت عطا کرتی ہے۔ حافظؔ کا کیف و سرور اس کی سرشاری ومستی، اس کا جھومنے کا سا انداز اور مستقبل پر اس کی امیدیں، اور امروز کی تاریکی میں فردا کی امید افزاء کرن جسے رجائیت کہا جاتا ہے، حافظؔ کو دوسرے فارسی شعرا ءسے ممیز کردیتی ہے اور براؤننگ کا بھی انگریزی ادب میں یہی امتیاز ہے کہ وہ ہم عصر فلسفے کی پیدا کردہ قنوطیت کے خلاف احتجاج کرتا ہے۔

    اس دنیا کی ناکام ارضی محبت اس کے نزدیک دوسری دنیا میں (حیات بعد الموت میں) کامیابی سے ہمکنار ہوگی۔ اسے زندگی کے تسلسل پر بھی ایمان ہے۔ اور تسلسل حیات کا یہ عقیدہ اس کی بڑھی ہوئی رجائیت ہی کی ایک شکل ہے۔ براؤننگ محبِ انسان ہے اور حافظ بھی۔ براؤننگ کا عقیدہ ہے کہ بدترین حالات بھی بہادر شخص کے لیے بہترین اور سودمند حالات ثابت ہوسکتے ہیں۔ اسے فاتحانہ شکست کا شاعر بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس کے نزدیک شکست فتح کے راستے میں محض ایک معمولی سا اٹکاؤ ہے جس کے بعد آدمی زیادہ تیزی سے آگے بڑھنے لگتا ہے۔ یہ تو قوت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ آئندہ فتوحات ہماری موجودہ شکست کے بطن سے جنم لیں گی۔ حافظؔ کے ہاں بھی رجائیت ہے مستقبل سے حافظؔ کو بھی توقع ہے۔ اگرچہ حافظؔ کے ہاں سعی و کوشش اور جہدِمسلسل کی بجائے عشرتِ امروز اور گریز و فرار کے عناصر کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ ابقیوریت کا حامی ہے۔ لیکن حافظؔ کو قدرت کے قانونِ تغیر پر اس درجہ بھروسہ ہے کہ وہ تاریک ترین فضاؤں میں بھی مستقبل کے آفتاب کا نظارہ کرسکتا ہے۔ حافظؔ کی رجائیت وہ رجائیت نہیں جو براؤننگ یا اقبال کے ہاں ہے۔ کیونکہ اس رجائیت میں اپنی کوشش و کاوش کے نتائج کاانتظار ہوتا ہے۔ اور حافظؔ کے ہاں سعی و عمل کے نتائج قطعی کا امید افزا انتظار نہیں۔ بلکہ قدرت کے قانونِ تغیر یا بالفاظِ دیگر حالات کی کسی مساعد کروٹ کاانتظار ہے۔

    چُناں نہ ماند چُنیں نیز ہم نخواہد ماند،

    ہاں مشو نو مید چوں واقف نہ زاسرارِ غیب

    باشد اندر پردہ بازی ہائے پنہاں غم مخور

    چنانچہ حافظؔ براؤننگ سے بہت دور ہوتے ہوئے بھی قریب ہے۔ اور یہ وجہ قربت یا وجہ اشتراک وہی رجائیت ہے جو دونوں کے ہاں دو مختلف صورتوں میں پائی جاتی ہے۔ لیکن بظاہر ایک ہی چیز معلوم ہوتی ہے۔ فیضؔ کو یہی چیز بھائی ہے۔ کیونکہ یہ اس کے شعری مزاج اور شعوری نظریات سے قریب تھی۔ چنانچہ فیضؔ کے ہاں وہ کیف و مستی بھی موجود ہے جو حافظؔ کے ہاں خمریاتی مضامین کی مرہونِ منت ہے۔ اور وہ رجائیت بھی ہے جس سے حافظؔ اور براؤننگ پہچانے جاتے ہیں۔ بلکہ فیضؔ کے بعض اشعار پر توشبہ گزرنے لگتا ہے کہ یہ حافظؔ کے ا شعار کا شعوری ترجمہ ہے۔

    من ارچہ در نظرِ یار خاکسار شُدم

    رقیب نیز چناں محترم نہ خواہد ماند

    (حافظؔ)

    گر آج اَوج پہ ہے طالع رقیب تو کیا

    یہ چاردن کی خدائی تو کوئی بات نہیں

    گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے

    یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں

    (فیضؔ)

    سلامتِ ہمہ آفاق در سلامتِ تسبت

    بہ ہیچ عارضہ شخص تو درد مند مباد

    دریں چمن چر درآید خزاں بہ یغمائی

    رہش بہ سرد سہی قامتِ بلند مباد

    (حافظؔ)

    خداوہ وقت نہ لائے کہ سوگوار ہو تو

    سکوں کی نیند تجھے بھی حرام ہوجائے

    تری مسرتِ پیہم تمام ہو جائے

    تری حیات تجھے تلخ جام ہوجائے

    (فیضؔ)

    غموں سے آئینہ دل گداز ہو تیرا

    تو عمر خواہ و صبوری کہ چرخِ شعبدہ باز

    ہزار بازی ازیں طرفہ تر بر انگیزد

    (حافظؔ)

    ہاں تلخی ایام ابھی اور بڑھے گی

    ہاں اہلِ ستم مشقِ ستم کرتے رہیں گے

    منظور یہ تلخی، یہ ستم ہم کو گوارا

    دم ہے تو مداوائے الم کرتے رہیں گے

    (فیضؔ)

    روزِ ہجران و شبِ فرقتِ یار آخرشد

    زوم ایں نال و گزشت اختر و کارآخرشد

    آں پریشانی شب ہائے دراز و غم دل

    ہمہ در سایۂ گیسوئے نگار آخرشد

    (حافظؔ)

    امید کہ لو جاگا غمِ دل کا نصیبہ

    لو شوق کی ترسی ہوئی شب ہوگئی آخر

    لو ڈوب گئے درد کے بے خواب ستارے

    اب چمکے گا بے صبر نگاہوں کا مقدر

    (فیضؔ)

    فیضؔ کو پہچاننے کے لیے انگریزی ادب سے شیلی کا مطالعہ کرنا بھی خاصا دلچسپ ہے۔ شیلی محبِ فطرت ہے۔ وہ فطرت کو ایک زندہ حقیقت سمجھتا ہے۔ اس کے ہاں فطرت احساس، سوچ اور ادراک کی اہل ہے۔ چنانچہ فیضؔ بھی فطرت کو الم و مسرت، یاس و امید اور رنج و راحت میں اپنا رفیق بناتا ہے۔

    تری کج ادائی سے ہار کے شبِ انتظار چلی گئی

    تلاش میں ہے سحر بار بار گزری ہے

    لیکن شیلی زمین سے بہت اونچا اڑتا ہے۔ اس کا اصل وطن کرۂ ہوا سے اوپر ہے۔ اس کے قدم زمین پر بہت کم دیکھے گئے ہیں۔ وہ فضاؤں کا شاعر ہے اور فضا میں سے بھی صرف تغیر پذیر اور متحرک اشیاء وموضوعات اسے بھاتے ہیں۔ اس کے نغمات بادلوں، ہواؤں، طوفانوں اور جھکڑوں میں زمین سے کافی بلندی پر جنم لیتے ہیں۔ جب کہ فیضؔ زمین کا باسی، زمین کی محبت میں گرفتار اور بہتر انسانی ارضی مستقبل کا ترجمان ہے۔ اس موخرالذکر خصوصیت کی شیلیؔ کے ہاں بھی کمی نہیں۔ وہ خواہش انقلاب اور بنی نوعِ انسان کی تعمیر نو کا مغنی ہے۔ وہ اپنی مثالی جنت او راپنے خوابوں کے جزیرے کی تلاش میں گاتا ہے۔ بادِ مغرب سے خطاب ODE TO THE WEST WIND شیلی کی ایک معرکہ آرا نظم ہے۔ جو اس جملے پر ختم ہوتی ہے۔ ’’اگر موسم سرما آگیا ہے (تو کیا غم) بہار بھی زیادہ دور نہیں ہوگی۔‘‘

    فیضؔ نے اسے زیادہ یقینی لہجہ دیا ہے،

    آتے آتے یونہی دم بھر کر رکی ہوگی بہار

    جاتے جاتے یونہی دم بھر کر خزاں ٹھہری ہے

    شیلیؔ کو جامد و ساکت اشیاء و مناظر سے کوئی دلچسپی نہیں۔ کیٹس ساکن تصاویر پیش کرتا ہے تو شیلی متحرک تصاویر کا دلدادہ ہے۔ ’’بادل‘‘ اور ’’بادِ مغرب سے خطاب‘‘ اس کی اچھی مثالیں ہیں۔ حرکت فیضؔ کے ہاں بھی ہے مگر یہ حرکت معتدل اور متوازن ہے۔ یہ جھکڑوں کی حرکت نہیں جس سے درخت اکھڑ جاتے ہیں۔ اور خزاں زدہ پتے اپنی جگہیں چھوڑ کر نشیبی جگہ میں جمع ہونے لگتے ہیں۔ بلکہ یہ باد صبا یا شب سست موج کی حرکت ہے۔ جو نغماتی فضا کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ ذرا حرکت دیکھیے،

    جس طرح تنکا سمندر سے ہوکر سرگرم ستیز

    جس طرح تیری کہسار پہ یلغار کرے

    اس حرکت میں پھر کچھ تیزی ہے۔ جو انقلابی جوش کاخاصہ ہے۔ لیکن فیضؔ کا اصل رنگ اس سے ذرا مدھم اور ہلکا ہے۔

    صبا کی مست خرامی تہ کمند نہیں

    نسیم تیرے شبستاں سے ہوکے آئی ہے

    اس درسے بہے گا تری رفتار کا سیماب

    تم آرہے ہو کہ بجتی ہیں میری زنجیریں

    فیضؔ کی حرکت میں بھی مستی اور کیف و سرور ہے۔ یہ صبا خرامی ہے۔ سبک، عنبر آمیز اور معطر۔ اس میں انقلابی جوش کی الجھی ہوئی کیفیت نہیں، نعرے نہیں، ڈھول ڈھمکا نہیں، کان پھاڑ دینے والا شور نہیں۔ ٹینکوں کی گڑگڑاہٹ نہیں (حالانکہ یہ چیزیں ترقی پسند شعرا ءکے ہاں عام ہیں) یہ جھرنوں کی حرکت ہے۔ شفاف جھیل پر کشتی کی ہموار حرکت۔ یہ شعر شاید کلام فیضؔ میں حرکت کی بہترین مثال ہے۔ پریوں کی سی حرکت۔

    ایک اک کرکے ہوئے جاتے ہیں تارے روشن

    میری منزل کی طرف تیرے قدم آتے ہیں

    شیلیؔ کو یقین ہے کہ ارتقائی تبدیلی ہوکر رہے گی۔ ایک تکمیل یافتہ نظام اپنا راستہ بنارہا ہے۔ تاریکیاں مسلط ہیں مگر روزِ نو کی سحر دور نہیں۔ حافظؔ کہتا ہے،

    اے دل صبور باش و مخمور غم کہ عاقبت

    ایں شام صبح گردودایں شب سحر شود

    فیض بھی ان کا ہمنوا ہے،

    ٹھہری ہوئی ہے شب کی سیاہی وہیں مگر

    کچھ کچھ سحر کے رنگ پر افشاں ہوئے تو ہیں

    لیکن اس کے بعد ہم اسے کبھی کبھی ان دونوں سے آگے بھی پاتے ہیں،

    رات کا گرم لہو اور بھی بہہ جانے دو + یہی تاریکی تو ہے غازہ رخسارِ سحر + صبح ہونے ہی کو ہے اے دل بے تاب ٹھہر

    فیض کا لہجہ ابتدا ہی سے مائل بہ امید اور رجائی رہا ہے۔ وہ رجائی ہے اس لیے حافظؔ، شیلیؔ اور براؤننگ کے دوش بدوش چل سکتا ہے۔ اگر براؤننگ ہر مکروہ شکست کے پیچھے متبسم فتح کا جلوہ دیکھ سکتا ہے تو فیضؔ کو بھی اپنے تاریک حال کے پیچھے چھپے ہوئے روشن مستقبل پر پورا یقین ہے۔ اور وہ محبوبہ سے پورے وثوق کے ساتھ مخاطب ہوتا ہے۔

    چند روز اور مری جان! فقط چند ہی روز

    لیکن اب ظلم کی میعاد کے دن تھوڑے ہیں

    اِک ذرا صبر کہ فریاد کے دِن تھوڑے ہیں

    اجنبی ہاتھوں کا بے نام گر انبار ستم

    آج سہنا ہے ہمیشہ تو نہیں سہنا ہے

    اگر شیلیؔ خزاں میں یقین بہار کے ہتھیار سے مسلح رہتا ہے۔ اور خزاں کی چیرہ دستیوں کوآمدِ بہار کے تصور سے قابل برداشت بناتا ہے تو فیضؔ بھی شامِ غم کو سپیدۂ سحر کی توقع پر جھیل لیتا ہے۔ وہ کولمبس کی طرح نامساعد حالات اور ناساز فضاؤں میں اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔ کہیں تو خشکی نظر آئے گی۔ کہیں تو سفینہ منزل سے ہمکنار ہوگا۔ شبِ غم افق کی طرح پھنکار رہی ہے تو کیا۔ کبھی تو سورج طلوع ہوگا۔ کشتی حیات کو کہیں تو ساحل ملے گا۔

    کہیں تو ہوگا شبِ سست موج کا ساحل

    کہیں تو جاکے رکے گا سفینہ غم دل

    دل نا امید تونہیں ناکام ہی تو ہے

    لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

    اور اگر حافظ کو امید ہے کہ ’’یوسف گم گشتہ‘‘ پھر سوئے کنعان لوٹ آئے گا تو فیضؔ کو بھی توقع ہے کہ

    اس بام سے نکلے گا ترے حسن کا خورشید

    اس کنج سے پھوٹے گی کرن رنگِ حنا کی

    اس درسے بہے گا تری رفتار کا سیماب

    اس راہ پہ پھولے گی شفق تیری قبا کی

    براؤننگ کی ناکام محبت حیات بعد الموت میں کامیابی سے ہمکنار ہوگی۔ تو فیضؔ کا چمن زارِ انسانیت اگر اس کی زندگی میں نہیں تو اس کے بعد ضرور پھل لائے گا۔

    بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے

    فروغِ گلشن و صوتِ ہزار کا موسم

    یہی کنارِ فلک کا سیہ تریں گوشہ

    یہی ہے مطلع ماہِ تمام کہتے ہیں

    جہاں پہ ہم تم کھڑے ہیں دونوں

    سحر کا روشن افق یہیں ہے

    شیلیؔ، براؤننگؔ اور حافظؔ میں موخرالذکر اردو سے قریب ترہے۔ اور اردو کے مزاجِ شعری سے مناسب بھی رکھتا ہے۔ اس لیے فیضؔ کے ہاں زیادہ اثر حافظؔ ہی کا ملتا ہے اور تراکیب تراشی میں غالبؔ کا۔ نسیم صبح کا سا دھیما لہجہ جو فیضؔ کے ہاں بھی اپنی پوری ملائمت، کیف و سرور اور وجدانی اہتزاز کے ساتھ موجود ہے اپنی ابتدائی حالت کے اعتبار سے حافظ کی تخلیق ہے۔

    ہمہ شب دریں امیدم کہ نسیم صبحگاہی

    بہ پیام آشنائے بنواز و آشنارا

    صبا بہ لطف بگوآں غزالِ رعنارا

    کہ سربہ کوہ و بیاباں تو دادۂ مارا

    غرورِ حسن اجازت مگر نداوائے گل

    کہ پرسشے نہ کنی عندلیب شیدارا

    (حافظؔ)

    ترا جمال نگاہوں میں لے کے اٹھا ہوں

    نکھر گئی ہے فضا تیرے پیرہن کی سی

    نسیم تیرے شبستاں سے ہوکے آئی ہے

    مری سحر میں مہک ہے ترے بدن کی سی

    (فیضؔ)

    حافظؔ غنابار اور معطر فضاؤں کا دلدادہ ہے۔ خوشبو اس کے لیے شراب کی سی سرمستی کا پیغام لاتی ہے۔ بہار کاتصور اس کے ہاں پھولوں اور نگہت بدوش ہواؤں کا تصور ہے۔

    ارغواں جام حقیقی بہ سمن خواہد داد

    چشم نرگس بہ شقائق نگراں خواید بود

    صبا گر گزرے افتدت بہ کشورِ دوست

    بیار نفحۂ از گیسوئے مضبر دوست

    حافظؔ کا کلام فردوسِ گوش اور جنتِ مشام ہے

    در مجلس ماعطر میامیز کہ جاں را

    ہر لحظہ زگیسوئے تو خوشبوئے مشام است

    گوشم ہمہ برقول نے و نغمہ و چنگ است

    چشم ہمہ برلعل لب و گردشِ جام است

    فیضؔ بھی شامہ کی لذت سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اور ان کی سامعہ کی حس بھی بہت تیز ہے۔ انہیں سقراطؔ کی طرح غیبی اشارے نہیں سنائی دیتے بلکہ وہ ارضی آوازوں کے لیے گوش برآواز سا ہے۔ ’’حبیبِ عنبر دوست‘‘ کے عنوان سے جو نظم فیضؔ نے کسی اجنبی خاتون کے تحفۂ عطر پر لکھی ہے۔ ایک لاجواب چیز ہے۔ ’’حبیبِ عنبر دوست‘‘ کی ترکیب بھی وہی شخص وضع کرسکتا ہے جو اپنی قوتِ شامہ کو تربیت دے کر اس نقطے پر لے آئے جہاں خوشبو یادوں کی مہمیز کا کام دینے لگے۔ اور عنبر کو قوتِ گویائی حاصل ہوجائے۔ سابق میجر محمد اسحٰق نے زنداں نامہ کے شروع میں ’’رودادِ قفس‘‘ کے عنوان سے مقدمہ لکھا ہے۔ اس میں فیضؔ صاحب سے شکایت کی ہے کہ وہ سخن و گلاب کی نزاکتوں اور عطر بیزیوں کو تو بڑی چاہت سے یاد کرتے ہیں مگر مزدور کے پسینے کا ذکر ان کے ہاں نہیں ہے۔ اس اعتراض میں سجاد ظہیر بھی اسحاق صاحب کے ہمنوا ہیں،

    رنگ پیراہن کا خوشبو زلف لہرانے کا نام

    موسم گل ہے تمہارے بام پہ آنے کا نام

    پھر نظر میں پھول مہکے، دل میں پھر شمعیں جلیں

    پھر تصور نے لیا اس بزم میں جانے کا نام

    فیضؔ کی انتہائی حدتک تربیت یافتہ قوتِ شامہ کا ثبوت، دستِ صبا کی آخری نظم ہے۔ ’’زنداں کی ایک صبح‘‘ جس میں پابندِ قفس بلبل گوش برآواز ہے اور نغمہ ریز بھی،

    دور محوبت ہوئی، پھرنے لگے بیزار قدم

    دور دروازہ کھلا کوئی، کوئی بند ہوا

    دور مچلی کوئی زنجیر، مچل کر روئی

    دور اترا کسی نالے کے جگر میں خنجر

    سرپٹکنے لگا رہ رہ کے دریچہ کوئی

    حافظؔ کا گریز و فرار، حافظؔ کی عزلت نشینی، حافظ کا تصوف، حافظ کا گراں مایہ عجز، حافظؔ کا عشق حقیقی، حافظؔ کی سی مستی اور ذکر شراب، حافظؔ کی رعایت لفظی، حافظؔ کا ہیچ مقدارئی سلطنت اور بے بضاعتی زیست کا احساس واقعی فیضؔ کے ہاں نایاب ہے، لیکن حافظؔ کا معطر لہجہ، حافظؔ کی غنائیت، حافظؔ کی آزادہ روی، حافظؔ کی مترنم فضا، حافظؔ کے بولتے ہوئے مصرعے اور گنگناتی ہوئی تراکیب اور ان سب سے بڑھ کر حافظ کی رجائیت فیضؔ کے ہاں بھی ہے۔ لیکن فیض کو حافظ کی صدائے بازگشت بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ فیضؔ حافظؔ نہیں۔ حافظؔ کی وہ شکل ہے جو بیسویں صدی میں جنم لے سکتی تھی۔ آج حافظؔ زندہ ہوتے تو فیضؔ ہوتے اور فیضؔ عہد تیموری کا شاعر ہوتا تو حافظؔ ہوتا۔

    حافظؔ گریز و فرار کا مرتکب ہوا کیونکہ وہ زمانہ جمہوری اقدارِ حیات سے آشنانہ تھا۔ اس نے عزلت گزینی کو ترجیح دی جو اس کی آزادہ روی اور استغناء کا ثبوت ہے۔ اس نے تصوف کا راستہ اختیار کیا کیونکہ وہ زمانہ ’’خسرواں‘‘ کا تھا۔ جو اپنی مملکت کے رموز حافظؔ جیسے گدائے گوشہ نشین سے آزاد رہ کر سمجھ لیتے تھے۔ اس نے عشقِ حقیقی اختیار کیا کیونکہ عشقِ لیلائے وطن ان دنوں شیراز سے باہر قدم نہ نکالنے اور خاکِ مصلی میں مدفون ہونے کا نام تھا۔ باقی رہی حافظؔ کی رندی، اس کا احتسابی رجحان اور حسن کی یادوں سے تنہائی کو معطر رکھنے کا عمل۔ تو یہ چیزیں فیضؔ کے ہاں بہتر اور نکھری ہوئی صورت میں موجود ہیں۔ حافظؔ کی یاد محض، فیضؔ کے ہاں ’’یادِ غزالِ چشماں اور ذکرِ سمن عذاراں‘‘ میں بدل گئی ہے۔ حافظؔ کی رندی فیضؔ کے ہاں آکر استعارہ کی وسعت اور مجاز و ایمائیت کی بہت سی منزلیں طے کرچکی ہے۔ فیضؔ کے ہاں شیخ، محتسب، رقیب، قاتل گلِ بہار، مے ساغر، ہجر و وصل اور شام و سحر کا مفہوم، حافظؔ کے مفہوم سے زیادہ وسیع اور گرانقدر ہے۔ فیضؔ نے رندی کے پیمانوں میں وسعت پیدا کی اگرچہ مقدار کے اعتبار سے حافظؔ کا امتیاز اب بھی قائم ہے۔

    ہے خبر گرم کہ پھرتا ہے گریزاں ناصح

    گفتگو آج سرِ کوئے بتاں ٹھہری ہے

    یوں بہار آئی ہے اس بار کہ جیسے قاصد

    کوچہ یار سے بے نیل و مرام آتا ہے

    ستم کی رسمیں بہت تھیں لیکن نہ تھی تری انجمن سے پہلے

    سزا خطائے نظر سے پہلے، عتاب جرم سخن سے پہلے

    جب تجھے یاد کرلیا صبح مہک مہک اٹھی

    جب ترا غم جگالیا رات مچل مچل گئی

    گر فکرِ زخم کی تو خطاوار ہیں کہ ہم

    کیوں محو مدحِ خوبی تیغِ ادا نہ تھے

    فیضؔ کا کلام اس ذہنی پس منظر سے جنم لیتا ہے۔ جس میں حقائق زیست کے علاوہ انگریزی، فارسی (اور شاید عربی) شاعری کے اثرات بڑے توازن و اعتدال سے ترکیب پاچکے ہیں۔ اور فیض اس ذخیرے کو اس طرح استعمال کرتا ہے کہ جدت ادا، حسنِ ترکیب، روایت سے لگاؤ اور روایت سے بغاوت مل کر ایک سماں باندھ دیتے ہیں۔ لیکن فیضؔ کہیں ہو کسی حال میں ہو کسی کے قسم سے بحث کر رہا ہو اپنے پیشرو حافظؔ کو نہیں بھولتا۔

    گدائے کوئے تو از ہشت خلد مستغنی است

    اسیر بند تو از ہر دو علم آزاد است

    (حافظؔ)

    جو ترے حسن کے فقیر ہوئے ان کو تشویشِ روز گار کہاں

    درد بیچیں گے، گیت گائیں گے ایسا خوش وقت کاروبار کہاں

    (فیض)

    جاں داد مش بشردۂ خجلت ہمی برم

    زیں نقدِ کم حیار کہ کردم نثارِ دوست

    (حافظؔ)

    ترے غم کو جاں کی تلاش تھی ترے جاں نثار چلے گئے

    تری رہ میں کرتے تھے سر طلب سر رہگزار چلے گئے

    (فیضؔ)

    سوادِ زلفِ تر کفریست دِل را

    کہ روشن ترا زاں ایماں نہ باشد

    (حافظؔ)

    صبح گل ہو کہ شامِ مے خانہ

    مدح اس روئے نازنین کی ہے

    (فیضؔ)

    بامحتسبم عیب نہ گوئید کہ اونیز

    پیوستہ چوں اور طلبِ شرب مدام است

    (حافظؔ)

    تمہیں کہو رند و محتسب میں ہے آج شب کون فرق ایسا

    یہ آکے بیٹھے ہیں میکدے میں، وہ اٹھ کے آئے ہیں میکدے سے

    (فیضؔ)

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets