Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

فیض کو کیسے نہ پڑھیں: ایک پس ساختیاتی رویہ

گوپی چند نارنگ

فیض کو کیسے نہ پڑھیں: ایک پس ساختیاتی رویہ

گوپی چند نارنگ

MORE BYگوپی چند نارنگ

     

    یعنی فیض کو کیسے نہ پڑھیں۔ اس کے بغیر تو چارہ نہیں، یا فیض کو کیسے نہیں پڑھنا چاہیے، یعنی فیض کی قرأت کیسے نہیں کرنا چاہیے۔ یہاں مقصود موخر الذکر ہے لیکن مضارع کے ساتھ کہ کیسے نہ پڑھیں، آمرانہ ’’چاہیے، کے ساتھ نہیں۔ خاکسار کو منفی زمرہ اختیار کرنے کا شوق نہیں ہے، لیکن اگر کہا جاتا ہے کہ ’’فیض کو کیسے پڑھیں۔۔۔، تو یہ تجویز یہ (Prescriptive) ہوتا اور تجویز یہ تنقید کا مسلک نہیں ہے۔ ویسے ان لوگوں کی کمی نہیں جو مسلسل یہی کام کرتے ہیں، یہ دوسری بات ہے کہ انھیں اس کا احساس نہ ہو کہ اس سے نہ تنقید کا بھلا ہوتا ہے نہ ادب کا۔

    بہرحال سوال یہ ہے کہ فیض کو تو برابر پڑھا جاتا ہے اور ان کی مقبولیت کا گراف بھی ہنوز قائم ہے اور اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کہ ایک تحریک کے نام لیوا اپنی نظریاتی عدم مطابقتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے فیض کی شاعری کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مقبولیت کے اپنے خطرات بھی ہیں، اس لیے کہ مداحوں کی بھیڑ میں اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو نہیں جانتے کہ وہ ممدوح کو کس لیے چاہتے ہیں کیونکہ وہ اس لیے چاہتے ہیں کہ دوسرے چاہتے ہیں۔ فیض کی شہرت پچھلے پچاس برسوں میں قائم ہوئی ہے اور یہ کوئی معمولی مدت نہیں ہے۔ اس دوران فیض پر کچھ نہ کچھ تو لکھا ہی گیا ہے، لیکن ان کے چاہنے والوں میں کم از کم وہ لوگ جو سخن فہمی کا دعوا رکھتے ہیں، انھوں نے فیض کی قدر شناسی اور اصل فیض کی شناخت کے حوالے سے کیا لکھا ہے، اس کو دیکھا جائے تو مایوسی ہوتی ہے۔

    جو لوگ اس علاقے کے مسافر نہیں ہیں، خدا بھلا کرے ہماری تنقیدی فضا کا جو دراصل ہمارے مزاجوں کا عکس ہے کہ ان کی تحریروں کو تو یوں بھی پایۂ اعتبار حاصل نہیں۔ لیکن جو کچھ ’’سرکاری مداحوں، نے لکھا ہے، اس میں کتنا اس پایے کا ہے کہ اس سے فیض کی سچی قدر سنجی کا حق ادا ہو۔ تعریف کرنے میں کوئی حرج نہیں، تعریف فیض کا حق ہے، لیکن فیض کی شاعری کا یہ بھی تو حق ہے کہ وہ اہل نظر سے خراج وصول کرے۔ سوال ’’مدلل مداحی‘‘ کا نہیں مدلل تنقید کا ہے۔ قصیدے میں دلیل نہیں ہوتی، نہ ہی ہجو میں دلیل ہوتی ہے، اس لیے دونوں تنقید سے خارج ہیں۔ یاروں نے قصیدوں کے انبار لگا دیے ہیں، اس لیے کہ قصیدے کے لیے متن کی قرأت (Reading) ضروری نہیں۔ قصیدہ کچھ تو توقعات کی بنا پر کہا جاتا ہے، کچھ مفادات کی رو سے اور کچھ قدرتِ بیان کے اظہار کی وجہ سے۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو فیض ہماری ہمدردی کے خاصے مستحق ہیں۔

    مقبولیت میں متعدد عوامل کا ہاتھ رہتا ہے۔ شخصیت کا طلسم، سوانحی کوائف (بالخصوص اگر اس میں حبس وزنداں یا ایسا کوئی مرحلہ درپیش ہو)، سماجی مرتبہ، کسی لابی یا مسلک سے وابستگی، مغنیوں کی نغمہ سرائی وغیرہ وغیرہ لیکن جب تاریخ کا ظالم ہاتھ فاصلہ پیدا کرتا ہے تو چند برساتوں کے بعد سب داغ دھبے دھل جاتے ہیں، اور باقی رہتی ہے متن کے ’’بے داغ سبزے کی بہار‘‘ اور یہی وہ سرزمین ہے جس کی سیاحت فیض کے سچے چاہنے والوں نے کم کی ہے اور اگر کی ہے تو سرسری کی ہے، کیونکہ سچی شاعری میں تو ہر جا جہانِ دیگر ہوتا ہے، لیکن جب تنقید خود کو ایک جہاں پر بند کرلے تو طسلماتِ شعر کا در کیسے وا ہو سکتا ہے۔

    اس سے پہلے میں فیض کے جمالیاتی احساس اور معنیاتی نظام کی بنیادی ساختوں سے اپنی کم فہم کے مطابق گفتگو کر چکا ہوں، اس کو دہرانے کی ضرورت نہیں۔ زیر نظر تحریر میں البتہ مختصراً یہ اشارہ کرنا مقصود ہے کہ متن کو پڑھتے ہوئے حاضر لفظوں کے ساتھ متن کی خاموشیوں (Silences) اور غیرموجودگیوں (Absences) کو بھی نظر میں رکھنا ضروری ہے، ان معنی میں جن معنی میں انھیں اہم مارکسی نقاد پیئر ماشیرے یا غیرمقلد تنقید کے امام رولاں بارتھ نے استعمال کیا ہے اور ایسا کرنا فیض کے یہاں معنیاتی نظام کی کشمکش یا آئیڈیولوجی کی جدلیاتی آویزش کو سمجھنے کے لیے بھی ضروری ہے۔

    آئیڈیولوجی کے بارے میں واضح رہے کہ یہاں آئیڈیولوجی سے مراد عقاید و خیالات کا مجموعہ (Treatise) یا کوئی ضابطہ بند نظریہ نہیں بلکہ انسانی معمولات اور سرگرمیوں کی وہ سطح جس پر عملاً انسان اپنے سماجی وجود کا اثبات کرتا ہے اور زندگی کرتا ہے، یعنی ان معنی میں جن معنی میں مشہور فرانسیسی مارکسی مفکر لوئی آلتھیو سے نے مارکس کی نئی تعبیر کرتے ہوئے آئیڈیولوجی کا تصور دیا ہے جس کی رو سے آئیڈیولوجی سماجی تشکیل (Social Formation) میں معاشیاتی سطح (Economic Level) اور سیاسی سطح (Political Level) کے ساتھ مل کر عمل آرا ہوتی ہے۔ اگرچہ آخراً قادرانہ حیثیت معاشیاتی سطح کو حاصل ہے، لیکن سماجی تشکیل کی یہ تینوں سطحیں یا معمولات کے زمرے جو باہم دگر مربوط بھی ہیں اور متاثر بھی کرتے ہیں، بالعموم خود مختار (Autonomous) ہیں اور خود مختارانہ طورپر کارگر رہتے ہیں۔

    آئیڈیولوجی کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ سماجی تشکیل میں ایک سرے پر آئیڈیولوجی ہے، دوسرے پر سائنس اور بیچ کے درمیانی فاصلے پر ادب اور آرٹ، یہ اہم ہیں اپنے اثرات (Effects) کی وجہ سے، یعنی سائنس سے Knowledge Effect پیدا ہوتا ہے اور یہ آخری Effect فیض کی شاعری کی کلید ہے۔ یہ تینوں زمرے بالائی ساخت (Super Structure) میں اپنے طور پر خود مختارانہ کردار ادا کرتے ہیں، لیکن ایک دوسرے پر منطبق (Overlap) بھی ہو جاتے ہیں، یعنی تعین کنندہ (Determinant) کا رول بھی ادا کرتے ہیں، اور عدم مطابقتوں اور تضادات (Inconsistencies and Contradictions) کی آویزش اور اس کے حل (Resolve) کی عمل آوری بھی کرتے ہیں۔ 1

    یہاں زیادہ تفصیل میں جانے کا موقع نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ فیض کا متن بالعموم کس طرح پڑھا جاتا ہے اور کیا یہ عام قرأت ادھوری قرأت نہیں۔

    مظہریت کے ایک اہم ترجمان Merleau-Ponty کا، جسے اب جدیدیت کے شیدائیوں نے بھی تقریباً فراموش کر دیا ہے، کہنا ہے، 

    “BUT WHAT IF LANGUAGE SPEAKS AS MUCH BY WHAT IS BETWEEN WORDS AS BY THE WORDS THEMSELVES? AS MUCH WHAT IT DOES NOT، SAY’’ AS BY WHAT IT، SAYS’’! ”

    یعنی اس کا کیا کیا جائے کہ زبان کا خاصہ ہے کہ جتنا یہ لفظوں کے ذریعے کہتی ہے اتنا لفظوں کے بیچ میں جو خلا ہوتا ہے اس کے ذریعے بھی کہتی ہے۔ غالباً معنی کے نقطۂ نظر سے خلا کا یہ پہلا واضح تصور ہے۔ ہماری مشرقی جمالیاتی روایت میں ’’بین السطور‘‘ کا ذکر اس کا کھلا ہوا اقرار ہے، لیکن مشرقی روایت میں کسی نے اس کو ضابطہ بند کیا ہو یا ادبی نظریے کا حصہ بنایا ہو، شاید ایسا نہیں ہے۔ بات صرف لفظوں یا سطروں کے درمیان فاصلوں (خاموشیوں) کی نہیں ہے بلکہ خود لفظوں کی بھی ہے، مرلیوپونٹی کے قول کو دوبارہ پڑھیں تو یہ اشارہ بھی ہے کہ لفظ جو ظاہر کرتے ہیں اس سے بھی کہتے ہیں اور جو کچھ ظاہر نہیں کرتے اس سے بھی کہتے ہیں، گویا زبان کے روشن خطوں کے ساتھ اس کے تاریک خطے بھی معنی خیزی کے عمل میں شریک ہوتے ہیں۔ بات فیض کے متن کی ہو رہی ہے۔ آئیے اس نظم کو دیکھیں، 

    بیزار فضا، در پئے آزار صبا ہے
    یوں ہے کہ ہر اک ہمدمِ دیرینہ خفا ہے

    ہاں بادہ کشو آیا ہے اب رنگ پہ موسم
    اب سیر کے قابل روشِ آب و ہوا ہے

    امڈی ہے ہر اک سمت سے الزام کی برسات
    چھائی ہوئی ہر دانگ ملامت کی گھٹا ہے

    وہ چیز بھری ہے کہ سلگتی ہے صراحی!
    ہر کاسۂ مے زہرِ ہلاہل سے سوا ہے

    ہاں جام اٹھاؤ کہ بیادِ لبِ شیریں
    یہ زہر تو یاروں نے کئی بار پیا ہے

    اس جذبۂ دل کی نہ سزا ہے نہ جزا ہے
    مقصودِ رہِ شوق وفا ہے نہ جفا ہے

    احساسِ غمِ دل جو غمِ دل کا صلا ہے
    اُس حسن کا احساس ہے جو تیری عطا ہے

    ہر صبحِ گلستاں ہے ترا روئے بہاریں
    ہر پھول تری یاد کا نقشِ کفِ پا ہے

    ہر بھیگی ہوئی رات تری زلف کی شبنم
    ڈھلتا ہوا سورج ترے ہونٹوں کی فضا ہے

    ہر راہ پہنچتی ہے تری چاہ کے در تک!
    ہر حرف تمنا ترے قدموں کی صدا ہے

    تعزیر سیاست ہے، نہ غیروں کی خطا ہے
    وہ ظلم جو ہم نے دل وحشی پہ کیا ہے

    زندانِ رہِ یار میں پابند ہوئے ہم
    زنجیر بکف ہے، نہ کوئی بند بپا ہے

    ’’مجبوری و دعویٰ گرفتاریِ الفت
    دستِ تہِ سنگ آمدہ پیمان وفا ہے،، 
    (دستِ تہِ سنگ آمدہ)

    بظاہر نظم میں کوئی پیچ نہیں ہے اور اس کے مقدمے کا اشارہ غالب کے شعر میں ہے جو تضمین ہوا ہے، یعنی ’’دستِ تہِ سنگ آمدہ پیمان وفا ہے، عشق میں مجبور ہیں، دعویٰ گرفتاریِ الفت کیسا۔ دعویٰ تو وہاں ہوتا ہے جہاں اختیار ہو۔ یہاں تو پتھر تلے ہاتھ دبا ہے اور یہی پیمانِ وفا ہے۔ پتھر تلے ہاتھ دبنے میں درد اور تکلیف کا جو تصور ہے، اس نے مجبوری کی کیفیت کو اور بھی شدید کر دیا ہے۔ غرض عشق میں مجبوری سی مجبوری ہے اور دستِ تہِ سنگ آمدہ کی سی کیفیت ہے۔ عشق میں مجبوری و بے بسی کی کئی جہتیں ہیں اور غالب تو اس سطح کے شاعر ہیں جہاں بقولِ میر ہر سخن چار چار طرفیں رکھتا ہے، لیکن یہاں شعر کی شرح مقصود نہیں ہے بلکہ صرف یہ اشارہ کرنا مقصود ہے کہ شعر میں عشق کی مجبوری کا مضمون بیان ہوا ہے، اور شعر ’’غیرسیاسی‘‘ ہے۔ فیض غالب کے شعر پر نظم ختم کرنے سے پہلے یہ معنیاتی فضا تیار کر چکے ہیں، 

    ہر راہ پہنچتی ہے تری چاہ کے در تک
    ہر حرفِ تمنا ترے قدموں کی صدا ہے

    تعزیر سیاست ہے نہ غیروں کی خطا ہے
    وہ ظلم جو ہم نے دلِ وحشی پہ کیا ہے

    زندانِ رہِ یار میں پابند ہوئے ہم
    زنجیر بکف ہے نہ کوئی بند بپا ہے

    ہر راہ کے ’’تیری چاہ کے در تک‘‘ پہنچنے، ، ’’تعزیرِ سیاست‘‘، ’’زندانِ رہِ یار‘‘، ’’زنجیر بکف‘‘ ان حوالوں اور پیکروں سے عشق کا جو تصور ابھرتا ہے، اس کے لیے اس وضاحت کی ضرورت نہیں کہ وطن کے عشق کا ذکر ہے یا انقلاب یا عوام یا حریت یا سماجی انصاف کا یا نوآبادیاتی نظام کے شکنجے سے نکلنے کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے۔ یہ بالکل سامنے کے واضح (Obvious) معنی ہیں جن کے لیے کسی تردد کی ضرورت نہیں۔ اب شروع کے مصرعوں کو دوبارہ دیکھیے۔

    بیزار فضا در پئے آزار صبا ہے
    یوں ہے کہ ہر اک ہمدمِ دیرینہ خفا ہے

    ہاں بادہ کشو آیا ہے اب رنگ پہ موسم
    اب سیر کے قابل روش آب و ہوا ہے

    امڈی ہے ہر اک سمت سے الزام کی برسات
    چھائی ہوئی ہر دانگ ملامت کی گھٹا ہے

    ایک بار جب عشق کا، ’’Parameter‘‘ ذاتی سے وطنی وقومی وعوامی ہو گیا اور فیض کا انقلابی شاعر ہونا ہی جس کی تصور آفرینی کرتا ہے تو اب صریحی معنی کو صریحی معنی سے ضرب دینے کا معاملہ اور بھی آسان ہو گیا، اس کے بعد ہر لفظ اور ترکیب اپنے آپ اسی طے شدہ محور پر گھومنے لگتی ہے، مثلاً ’’بیزار فضا‘‘ وطن کی سیاسی فضا ہے، ’’صبا‘‘ جو ’’درپئے آزار‘‘ ہے، نوآبادیاتی نظام اور اس کا جبر ہے، ’’بادہ کشو‘‘ سے مراد انقلاب کی راہ کے ساتھی یا یارانِ طریقت ہیں، اور جو ’’ہمدم دیرینہ‘‘ خفا ہیں وہ یا تو انقلابی مسلک سے ہم آہنگ نہیں یا نوآبادیاتی نظام یا فیوڈل سسٹم کا حصہ بن چکنے پر قانع ہیں۔ عشق میں دیوانگی اور رسوائی چونکہ وجہِ افتخار ہے، اس لیے ’’ملامت کی گھٹا‘‘ چھائی ہوئی ہے اور ’’الزام کی برسات‘‘ کا ذکر ہے، نیز ’’جام‘‘ و ’’صراحی‘‘ جذبۂ حریت کی داد دے رہے ہیں۔

    قرأت کے عمل میں توقعات یعنی قاری کی Expectations سے بہت بحث کی گئی ہے۔ یہ توقعات شاعر کے نام، مسلک یا محض لیبل سے بھی پیدا ہو سکتی ہیں، یا نظم کے عنوان یا ذیلی عنوان سے بھی۔ اس مختصر مضمون میں قرأت کے عمل کی نفسیات یا شعریات میں توقعات کس طرح کارگر ہوتی ہیں، اس تفصیل میں جانے کا موقع نہیں، لیکن ہم نے دیکھا کہ پہلی قرأت میں ہم غالب کے تضمین شدہ شعر کو انقلابی شعر کے طور پر نہ پڑھ سکتے تھے، لیکن جب فیض کی نظم کو ہم نے انقلابی توقعات کی روشنی میں پڑھنا شروع کیا تو نہ صرف اس معنیاتی تناظر میں غالب کے شعر کی ’’غیر سیاسی‘‘ نوعیت بدل گئی بلکہ تمام کلیدی الفاظ، امیجز اور مصرعے لڑی در لڑی انقلابی معنیت میں ڈھلتے چلے گئے۔

    علی سردار جعفری کسی زمانے میں ’’انقلابی رومانیت‘‘ کا بہت ذکر کرتے تھے، کاش اس منزل پر انھوں نے یا ان کے رفقا میں سے کسی نے انقلابیت یا رومانیت، دونوں میں سے کسی ایک کے ادبی و شعری و جمالیاتی مضمرات پر پوری طرح غور کر لیا ہوتا تو سستے نسخوں پر عمل کرکے یک سطحی شاعری کو اس قدر فروغ نہ ہوا ہوتا۔ خیر جملۂ معترضہ کو جانے دیجیے۔ بات ہورہی تھی سامنے کے واضح اور صریحی (Obvious) معنی کی۔ کیا فیض کی شاعری کی اہمیت اس میں ہے کہ وہ سامنے کے معنی کی شاعری ہے یا صریحی معنی کی شاعری ہے۔ لیکن اگر صرف اتنا ہے تو فیض کو اہم شاعر تسلیم کرانے میں بڑی دقت کا سامنا ہوگا۔

    کیا ہر شخص فیض کو اس لیے پڑھتا یا پسند کرتا ہے کہ وہ قومی یا عوامی معنی کے شاعر ہیں اور سامنے کے روایتی معنی کے شاعر ہیں۔ میری حقیر رائے ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ پسند و ناپسند کے معاملات بھی حسن وعشق کے معاملات کی طرح بہت کچھ پیچ در پیچ ہوتے ہیں۔ ابھی اوپر ذکر آیا تھا کہ شاعری یعنی اعلیٰ شاعری میں لفظ جتنا کہتے ہیں اتنا نہیں بھی کہتے، اور جمالیات میں کہی اور ان کہی دونوں عمل آرا رہتے ہیں تو کیا فیض کے یہاں بھی ایسا ہے، اگر ہے تو جن معنی کا ذکر ہمارے انقلاب پسند حضرات کو مرغوب ہے اور جن کا تعین ہم اوپر کرآئے ہیں، کیا وہ فیض کی نظم کے معنی نہیں ہیں؟

    بےشک سامنے کے Obvious معنی یہی ہیں، لیکن بات صرف اتنی نہیں ہے، اگر بات اتنی ہی ہو تو فیض معمولی شاعر قرار پائیں گے اور ان کی مقبولیت کی جڑیں بھی زیادہ گہری نہیں ہوں گی۔ ظاہر ہے جن معنی کا ہم نے ذکر کیا، ان کا کھلا ہوا تعلق آئیڈیولوجی سے ہے۔ جیسا کہ پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے، آئیڈیولوجی سے یہاں مراد عقائد کا مجموعہ (Treatise of doctrine or abstract theory of beliefs) نہیں ہے، سماجی حقیقت نگاری کا کوئی سرکاری دستاویز یا عہد اسٹالن کے نظریہ ساز آندرے زہڈانوف (Andrey Zhdanov) کا ادیبوں کے لیے تیار کیا گیا منشور یا کوئی پارٹی نوسٹ (Partynost) بھی نہیں، بلکہ مارکسی نظریہ ساز لوئی آلتھیو سے کے وسیع تر معنی میں سماجی عمل کے وہ معمولات ہیں جن کی رو سے ہم زندگی کرتے ہیں۔ آئیڈیولوجی مذہبی بھی ہو سکتی ہے، سیاسی بھی، مارکسی بھی اور بورژوا بھی۔

    اس سے شاید ہی کسی کو انکار ہو کہ فیض کے عہد کی ترقی پسند آئیڈیولوجی تحریک آزادی کی قوم پرور آئیڈیولوجی سے الگ نہ تھی۔ سچی اور کھری غیراستحصالی مذہبیت جو وطن دوستانہ جہات رکھتی تھی، اس سے تضاد کے رشتے میں نہ تھی۔ چنانچہ اس کا دائرہ خاصا وسیع تھا اور اس کا اصل تصادم نو آبادیاتی سامراج کی آمرانہ آئیڈیولوجی سے یعنی استعماریت سے تھا۔ اس تناظر میں ان معنی کا قائم ہو جانا فطری ہے جن کا ذکر اوپر آیا ہے۔ لیکن نہیں بھولنا چاہیے کہ فیض کی جمالیات مشرقی ہے، یعنی نہ صرف عرب ایرانی اثرات کی دین ہے بلکہ کلاسیکی فارسی یا وسیع معنی میں ہند ایرانی ثقافتی اثرات کی دین ہے جس میں ہندوستانی جمالیات کے سر بھی اجتماعی لاشعوری رشتوں سے گھلے ملے ہیں۔ زیادہ تفصیل میں نہ جاتے ہوئے مارکسیت کی رو سے یہ جمالیات ’’بورژوا‘‘ ہے اور اس مارکسی آئیڈیولوجی سے تصادم کا رشتہ رکھتی ہے جس آئیڈیولوجی کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔

    فیض اردو میں شعر کہہ رہے تھے، وہ اس جمالیاتی روایت کے امین تھے جس کا خون ان کی رگوں میں دوڑ رہا تھا۔ یہ ان کے ذہن وشعور کا حصہ تھی اور لاشعور کا بھی، جبکہ آئیڈیولوجی اختیاری تھی، یعنی شعوری جس کا رد وقبول اختیار میں ہوتا ہے۔ آلتھیو سے کے حوالے سے اوپر اشارہ کیا گیا تھا کہ آئیڈیولوجی اور شعر وادب سماجی تشکیل میں خودمختارانہ طور پر کارگر رہتے ہیں اور ایک دوسرے کو Overlap بھی کرتے ہیں اور متعین (Determine) بھی کرتے ہیں۔ آئیڈیولوجی لسانی اظہار میں یوں بھی زبان کو دباتی ہے اور اظہار سے جبر کے رشتے میں ہے۔ متن میں خاموشی (Silence) اور غیرموجودگی (Absence) کا راہ پاجانا اسی حوالے سے ہے۔ اس نظریے سے فیض کی نظم کو دوبارہ دیکھیں تو دوسری معنویت سامنے آئےگی۔

    قطع نظر اس سے کہ شعری اظہار کے تمام پیرایے، ترکیبیں، تشبیہیں، استعارے، کنایے، شعری لطف واثر اور کشش وکیفیت پیدا کرنے کے تمام طور طریقے ’’بورژوا‘‘ شعریات کا حصہ ہیں، لیکن اس وقت بحث شعریات سے نہیں جمالیات سے یعنی شعریات کے جمالیاتی اثر (Aesthetic Effect)، احساسِ جمال، تغزل کی کیفیت اور کلی جمالیاتی حسیت سے ہے۔ اس پرمزید زور دینے کی ضرورت نہیں کہ فیض کی جمالیات سرتا سر مشرقی ہے اور گہرا مشرقی رچاؤ اور بالیدگی رکھتی ہے۔ یہ جمالیات فیض کے لاشعوری وجود کا حصہ ہے اور شاعری میں رہ رہ کر چھاپہ مارتی ہے اور آئیڈیولوجیکل فضا کو اپنے رنگ میں رنگ لیتی ہے، مثلاً پہلے تین اشعار میں جب آئیڈیولوجیکل الزام کی برسات، ملامت کی گھٹا اور آب وہوا کے سیر کے قابل ہونے کی سیاسی فضا بندی ہو چکی تو فیض خالص لاشعوری زمین پر اترآتے ہیں اور جمالیات کی صراحی اپنے آپ چھلک جاتی ہے اور یوں فیض اپنے اس رنگ میں نمایاں ہوتے ہیں جس کو اگر فیض کی شاعری سے منہا کر دیں تو فیض پہچانے نہ جا سکیں گے۔ تیسرے شعرکے بعد یہ کیفیت دیکھیے، 

    ہاں جام اٹھاؤ کہ بیادِ لب شیریں
    یہ زہر تو یاروں نے کئی بار پیا ہے

    اس جذبۂ دل کی نہ سزا ہے نہ جزا ہے
    مقصودِ رہِ شوق وفا ہے نہ جفا ہے

    احساسِ غمِ دلِ جو غمِ دل کا صلا ہے
    اس حسن کا احساس ہے جو تیری عطا ہے

    ہر صبحِ گلستاں ہے ترا روئے بہاریں
    ہر پھول تری یاد کا نقشِ کفِ پا ہے

    ہر بھیگی ہوئی رات تری زلف کی شبنم
    ڈھلتا ہوا سورج ترے ہونٹوں کی فضا ہے

    ہر راہ پہنچتی ہے تری چاہ کے در تک
    ہر حرفِ تمنا ترے قدموں کی صدا ہے

    کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ نظم کا مرکزی حصہ (Core) ہے۔ غرض نظم کا مرکزی حصہ اس جمالیاتی کیفیت میں ڈوبا ہوا ہے جس کے بغیر فیض فیض نہیں رہتے۔ بات صرف آئیڈیولوجی کے جمالیاتی کیفیت میں ڈھل جانے کی نہیں، یہ نکتہ آئندہ غور کے لیے اٹھا رکھتا ہوں کہ ’’بورژوا‘‘ جمالیات آئیڈیولوجی کی کس طرح تحدید (Conditioning) کر دیتی ہے (یہ کانٹا ان حضرات کے ضمیر میں برابر کھٹکتا ہے جو فیض کو قبول کرتے بھی ہیں اور نہیں بھی۔ ) سرِ دست غور طلب یہ ہے کہ آئیڈیولوجی نام نہاد ’’بورژوا‘‘ جمالیات کے تئیں جبر (Repression) کا رویہ روا رکھتی ہے اور اس سے متن میں ’’خاموشی‘‘ پیدا ہوتی ہے۔ فرانس کا مارکسی نقاد پیئر ماشیرے، زول ویرن کے فکشن کی بات کرتے ہوئے کہتا ہے، 

    “IF VERNE’’S 19TH CENTURY READERS DID NOT IDENTIFY THE REPRESSED IN THE TEXT, IF THEY DID NOT RECOGNISE THE SILENCE WITH WHICH THE WORK FINALLY CONFRONTS ITS OWN IDEOLOGICAL PROJECT, IT WAS BECAUSE THEY READ FROM WHITHIN THE SAME IDEOLOGICAL FRAMEWORK, SHARED THE SAME REPRESSIONS AND TOOK FOR GRANTED THE SAME SILENCES.”
     (A THEORY OF LITERARY PRODUCTION, 1996)

    سو اگر ہم فیض کے آئیڈیولوجیکل پروجیکٹ میں دبائے ہوئے (Repressed) حصوں یا خاموشیوں (Silences) کے عادی ہو چکے ہیں اور ان کی پہچان نہیں کر پاتے تو یہ اس لیے ہے کہ اول تو ہماری قرأت کا عمل اسی آئیڈیولوجیکل فریم ورک کے اندر ہوتا ہے، دوسرے یہ کہ یہ اظہاری جبریت ہمارے لیے گوارا ہے، یعنی اس سے ہم جمالیاتی حظ ونشاط اخذ کرتے ہیں۔ مرکزی حصے کے آغاز کا مصرع ہے، ’’ہاں جام اٹھاؤ کہ بیادِ لب شیریں۔، کس چیز کا ’’جام؟، یہاں مراد بادۂ نشاط انگیز سے نہیں ہے۔ گویا یہاں بادۂ نشاط انگیز کے معنی دب گئے یعنی (Repressed) ہو گئے یا ’’بیادِ لب شیریں، لبِ شیریں کا تصور تو محبوب سے وابستہ ہے، لیکن یہاں جسمانی محبوب مراد نہیں، گویا محبوب کے جسم وجمال اور حسن ورعنائی کا تصور جو لاشعور یا جمالیات کی راہ سے داخل ہوا، انقلابی سیاسی تصور پر سبقت لے جانا چاہتا ہے، لیکن آئیڈیولوجیکل پروجیکٹ اسے دباتا ہے۔

    جو معنی دب جاتے ہیں یا ظاہر ہونا چاہتے ہیں اور ظاہر نہیں ہو سکتے تو ان کا قالب بدل جاتا ہے اور آئیڈیولوجی کی زد میں آکر دوسرا پیرایہ اختیار کرتا ہے۔ یہ پیرایے خاموشی یا غیرموجودگی (Absence) پر دلالت کرتے ہیں، مثلاً /اس حسن کا احساس ہے جو تیری عطا ہے / کس حسن کا؟ یا/ہر صبح گلستاں ہے ترا روئے بہاریں، ہر پھول تری یا د کا نقش کف پا ہے /کس کا روئے نگاریں، یا کس کی یاد کے پھول یا کس کا نقشِ کفِ پا؟ مزید دیکھیے / ہر بھیگی ہوئی رات تری زلف کی شبنم، ڈھلتا ہوا سورج ترے ہونٹوں کی فضا ہے /کس کی زلفوں کا شبنمی لمس یا کس کے ہونٹوں کی فضا؟ یہ یا ایسے تمام جمالیاتی سوالوں کا جواب متن کی غیرموجودگیوں اور خاموشی میں مضمر ہے۔ گویا فیض کا شعری عمل کچھ اس نوعیت کا ہے کہ وہ اپنے شعری اظہار میں اس جبریت کو روا رکھتے ہیں، اس معنی میں مشرقی جمالیات (جو ’’بورژوا‘‘ جمالیات ہے) ان کے مزاج میں رچی بسی تھی یعنی ان کے لاشعور کا حصہ بن چکی تھی۔

    یہ معلوم ہے نقشِ فریادی کے پہلے حصے کا فیض اپنی شعری حیثیت قائم کرچکاتھا، البتہ نقشِ فریادی کا دوسرا حصہ، دستِ صبا اور زنداں نامہ فیض کے شعری شناخت نامے کو مکمل کر دیتے ہیں۔ فیض ایک کشمکش کااحساس تو رکھتے تھے لیکن جمالیات کا لاشعوری چور دروازہ بند نہ کر سکنے پر خود کو مجبور بھی پاتے تھے، اس کے ایک نہیں بیسیوں ثبوت دیے جا سکتے ہیں۔ نتیجتاً فیض کی شاعری کے وہ حصے زیادہ کامیاب ہیں جہاں جمالیات کا دباؤ (Repression) زیادہ ہے، کیونکہ کیفیت ابھر کے آئی ہے، دوسرے لفظوں میں جہاں جمالیاتی ’’غیرموجودگی‘‘ یا، ’’حاموشی‘‘ بولتی ہے یا جہاں ’’بین السطور‘‘ روشن ہو گیا ہے۔

    واضح رہے کہ صرف اسی نظم پر موقوف نہیں ہے، فیض کی زیادہ تر شاعری (بشمول نظم وغزل) کی یہی کیفیت ہے، مزید مثالیں یا حوالے اس مقدمے کے اثبات کے لیے غیرضروری ہیں۔

    ایک آخری اشارہ اور: مشرقی جمالیات پردے کی اوٹ سے جھانکنے کی جمالیات ہے۔ فیض کے یہاں /ان کا آنچل ہے کہ رخسار کہ پیراہن ہے /کچھ تو ہے جس سے ہوئی جاتی ہے چلمن رنگیں / یا ’’صندلی ہاتھ پہ دھندلی سی حنا کی تحریر‘‘ یعنی صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں کی کیفیت ہے۔ یہ جمالیاتی تاک جھانک کا عمل ہے جو اظہاری دباؤ کے تحت اور بھی پرکشش اور نشاط انگیز ہو گیا ہے۔ رولاں بارتھ جو Pleasure of Text کا بھی مصنف ہے کہتا ہے، 

    ’’is not the body’’s most erotic zone there where the garment leaves gaps‘‘

    اس کا لفظی ترجمہ مشکل ہے، یعنی کیا بدن کے وہ حصے جہاں ملبوس انھیں ذرا سا چھوڑ دیتا ہے، زیادہ جاذبِ نظر نہیں ہوتے؟ یا نگاہ وہاں سے ہٹتی نہیں، کیوں؟ یعنی جمالیاتی حظ ونشاط کا مقام وہ جگہ ہے جہاں بدن لباس سے جھانکتا ہے یا جیسے بخیہ ادھڑ جائے اور جوشِ نمو سے بدن جھانک اٹھے۔ فیض کے یہاں آئیڈیولوجیکل پروجیکٹ کے تحت یہ بخیہ اکثر و بیشتر ادھڑ جاتا ہے، جمالیاتی بدنیت جھانکنے لگتی ہے، اور خود فیض اس کی نشاط انگیزی سے مسرور و محظوظ ہوتے ہیں۔ یہ ’’موجودگی‘‘ کے نمایاں ہو جانے یا ’’خاموشی‘‘ کے بولنے کا عمل ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو فیض دلِ وحشی کی وحشت سامانیوں کا اس قدر ذکر نہ کرتے، 

    تعزیر سیاست ہے، نہ غیروں کی خطا ہے
    وہ ظلم جو ہم نے دلِ وحشی پہ کیا ہے

    گویا ’’بورژوا‘‘ جمالیاتی پیرایوں اور طریقوں کے دبنے اور دب دب کر ابھرنے کا عمل اپنی ایک کیفیت رکھتا ہے اور اسی سے اس لطف واثر، دلآویزی اور دلآسائی، بالیدگی اور رچاؤ اور ترفع کی شیرازہ بندی ہوتی ہے جس کے لیے فیض مشہور ہیں اور بلاشبہ جو فیض کی مقبولیت کے دائرے کو وسیع کرتا ہے۔ یہ جمالیاتی فشار تغزل کی کیفیتوں سے مل کر جس حسیاتی چمنستان بوقلموں کی آبیاری کرتا ہے اور اس سے معنی درمعنی کی جو کیفیت پیدا ہوتی ہے اور جس سے پس ساختیاتی کثیر المعنیت (Plurality of Meaning) کی رو سے الگ بحث کی جا سکتی ہے، لیکن یہاں وہ مقصود نہیں ہے بلکہ آئیڈیولوجیکل پروجیکٹ اور جمالیات کی عدم مطابقت سے متن کی بدنیت ملفوظی ملبوس کے بخیے سے جھانکنے لگتی ہے اور بھرپور جمالیاتی اظہار میں اپنا حل (Resolve) پانے کے لیے مضطرب نظر آتی ہے۔

    فیض نے جس غزل میں اپنی ’’طرز فغاں، کا اور اس کے ’’گلشن میں طرز بیاں ٹھہرنے، کا ذکر کیا ہے، اسی غزل میں ’’دستِ صیاد‘‘ اور ’’کفِ گلچیں، کے جبر کا اشارہ بھی کیا ہے یعنی جبر کے سلسلوں کے باوجود ’’بوئے گل ٹھہری نہ بلبل کی زباں ٹھہری ہے۔ بات توقعات کو پلٹنے کی ہے، یہی شعر جو سیاسی جبر یا ظلم واستبداد کے خلاف ہے، آئیڈیولوجی کے جبر کی شان میں بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ یعنی آئیڈیولوجی خواہ کتنی طاقتور کیوں نہ ہو اور جمالیات بھلے ہی ’’بورژوا‘‘ قرار دی جائے، جمالیات کا اپنا ایک تفاعل ہے۔ شاعری کرنا ہے تو جمالیات کو تسلیم کرنا ہی ہوگا جو شاعری میں شعریات کے اصولوں کا نتیجہ ہوتی ہے، ورنہ شاعری ہی سے ہاتھ دھونا پڑیں گے کیونکہ دستِ صیاد یا کفِ گلچیں لاکھ چاہے، بوئے گل اور بلبل کی زباں ٹھہرے نہیں ٹھہر سکتیں، یعنی جمالیات پر جبر نہیں کر سکتے اور جبر کیا جائے تو بخیہ ادھڑنے لگتاہے، خاموشی بولنے لگتی ہے اور ’’خاموشی ہی سے نکلے ہے جو بات چاہیے۔ 

     
     

    حاشیہ
    (۱) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، 
    .LOUIS AL THUSSER, FOR MARX. NEW LEFT BOOKS, LONDON, 1977
    .LOUIS AL THUSSER,، IDIOLOGY AND IDEOLOGICAL STATE APPARATUSES’’ IN LENIN AND PHILOSOPHY AND OTHER ESSAYS, NEW LEFT BOOKS, LONDON. 1977

     

    مأخذ:

    جدیدیت کے بعد (Pg. 235)

    • مصنف: گوپی چند نارنگ
      • ناشر: ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2005

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے