aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

فنی تخلیق اور درد

محمد حسن عسکری

فنی تخلیق اور درد

محمد حسن عسکری

MORE BYمحمد حسن عسکری

    ایزرا پاؤنڈ نے کہا ہے کہ نقاد کو کچھ سوال ایسے بھی اٹھانے چاہئیں جن کا کوئی جواب نہ دیا جا سکے۔ ان میں سے بعض سوال ایسے بھی ہونے چاہئیں جن میں نہ تو ادیبوں کو کسی قسم کا کوئی فائدہ پہنچ سکے نہ ادب کو۔ اسی قسم کا ایک سوال میں نے پچھلی دفعہ اٹھایا تھا، یعنی تخلیقی کام کے ذریعے لکھنے والے کو ذاتی طور سے کتنی تسکین مل سکتی ہے؟ اصل بات تو یہ ہے کہ اس معاملے میں صرف اسی کو بولنے کا حق حاصل ہے جس نے کوئی بڑی چیز تخلیق کی ہو اور آج اردو ادب کی دنیا میں ایسے آدمی صرف ایک فراق صاحب ہیں۔ لیکن چونکہ بڑے ادیب کے ذہنی عوامل عام آدمیوں سے اتنے مختلف نہیں ہوتے کہ ہم جیسے لوگ ان کے بارے میں کچھ سوچ ہی نہ سکیں۔ اس لئے نفسیات کی مدد سے اس مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔

    مجھے نفسیات کے متعلق جو تھوڑی بہت معلومات حاصل ہے اس کے بل پر شاید میں کچھ کہنے کی جرأت نہ کرتا لیکن اتفاق سے مجھے اس موضوع پر ڈاکٹر محمد اجمل سے گفتگو کرنے کا موقع مل گیا۔ جن لوگوں سے سقراط نے عقلمندی سیکھی تھی ان کی تو خیر کہیں بھی کمی نہیں ہوتی۔ لیکن ہمارے یہاں مشکل یہ ہے کہ اگر کوئی ایسی بات آ پڑے جس میں فلسفہ نفسیات یا عمرانیات کے کسی ماہر سے مشورہ لئے بغیر گزارہ نہ ہو سکے، تو ایک آدمی ایسا نہیں ملتا جس کی رائے پر بھروسہ کیا جا سکے۔ لے دے اجمل صاحب ہیں جن سے مجھے مدد ملتی ہے اورجن کے علم پر مجھے اعتبار بھی ہے۔ شاید ان کی علمیت بھی میرے کا م نہ آتی، اگران کا ادبی شعور پختہ نہ ہوتا اور انہوں نے بھی اسی قسم کا ادب نہ پڑھا ہوتا جو میں نے پڑھا ہے۔ اسی لئے میں نے انہیں اپنا استاد بنا رکھا ہے۔

    غرض ادب کی تخلیق اور فنکار کی ذاتی تسکین کے مسئلے پر تین چار دن تک گفتگو کرنے کے بعد ہم دونوں اسی نتیجے پر پہنچے کہ نفسیاتی نقطہ نظر سے بھی اس معاملے میں کوئی قطعی فیصلہ ناممکن ہے، کیونکہ ادیبوں میں ہر قسم کے نمونے اور ہر قسم کی شہادتیں ملتی ہیں۔ اگر ہم چاہیں تو نفسیات کی رو سے یہ بات بڑی آسانی سے ثابت کر سکتے ہیں کہ ادب کی تخلیق لکھنے والے کے درد کا مداوا ہے۔ بلکہ تخلیق کے ذریعہ ادیب کی شخصیت نشو و نما پاتی ہے۔ ایک زمانے میں کئی انگریزی نقادوں کو ان دونوں چیزوں کا تعلق دکھانے کا خبط ہوگیا تھا، گو ان کا نقطہ نظر نفسیاتی نہیں تھا بلکہ متصوفانہ۔ مثلاً ہڈلٹن مری اور ہیوآئنس فوسٹ، پھر جب سے یونگ کی نفسیات کو ادیبوں میں مقبولیت حاصل ہوئی ہے، یہ رجحان تنقید میں اور بھی نمایاں ہو گیا ہے۔ مثلاً ایلزبتھ ڈور نے ایلیٹ کے شخصی نشوونما کا پورا خاکہ بنا کے رکھ دیا ہے۔

    ایسے نقادوں کا خیال ہے کہ تخلیقی کام فنکار کی شخصیت کو مربوط بناتا ہے۔ ویسے بھی آج سے سوا سو سال پہلے شیلی نے کہہ رکھا ہے کہ شاعر سب سے عقلمند، سب سے عمدہ اور سب سے زیادہ خوش آدمی ہوتا ہے اور اگراس کی اندرونی زندگی پرغور کریں تو سب سے خوش قسمت بھی۔ آئی۔ اے رچرڈز نے بھی اس خیال کی تصدیق کی ہے۔ انہوں نے توایک مستقل پیمانہ بنا رکھا ہے۔ ہر چیز کو اسی سے ناپتے ہیں۔ جبلتوں کی ترتیب اور تنظیم ہو گئی یا نہیں۔ اس نظریے کے حق میں بہت سی باتیں میں طوطے کی طرح دہرا سکتا ہوں۔ لیکن جب فنکاروں کی تخلیقات اور ان کی ذاتی زندگی کو ملا کر دیکھا جائے تو اس خیال کی حمایت اتنی آسان نہیں رہتی۔ اس لئے فی الحال میں وہ دلائل پیش کروں گا جو اس نظریے کے خلاف جاتے ہیں۔ یوں تو ارتقا کا نظریہ فرائڈ ہی سے چلا ہے لیکن اس کے آخری دورکے خیالات کا مجموعی تاثر کچھ اسی قسم کا ہوتا ہے،

    غم ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج

    شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

    اس شعر میں خوبی یہ ہے کہ مرگ اور سحر ایک بات بن گئے ہیں اور اس طرح اس میں فرائڈ کا (AMBIVALENCE) والا نظریہ بھی آ گیا ہے۔ آخری زمانہ میں تو فرائڈ یہ کہنے لگا تھا کہ پوری تسکین زندگی میں دستیاب ہی نہیں ہو سکتی۔ ہر چیزمحض ایک بدل ہے، کوئی زیادہ تسلی بخش، کوئی کم تسلی بخش، بلکہ بعض حالات میں تو زندہ رہنے کے لئے اپنے آپ کو فریب دلانا لازمی ہو جاتا ہے۔ اسی لئے بعض بڑی تہذیبوں نے افیم کھانے کو زندگی کی ضروریات میں شمار کیا ہے اور یہ بات ان تہذیبوں کی حقیقت پسندی پر دلالت کرتی ہے۔ اس نظریے کے مطابق تو ہم ادب اور فن کو بھی افیم کے زمرے میں شامل کر سکتے ہیں۔ یعنی ادب کی تخلیق درد کا مداوا نہیں بلکہ درد کو بھلانے کی کوشش کی ہے۔

    خیرفرائڈ کے خیالات کی ترجمانی اس تیقن کے ساتھ نہیں کرنی چاہئے۔ اس کا ذہن اتنا ہمہ گیر تھا کہ اس کے یہاں بعض دفعہ متضاد خیالات بھی مل جاتے ہیں۔ اس خیال کو فرائڈ سے زیادہ فرائڈ کے مقلدین نے رواج دیا ہے کہ فن کے ذریعے جبلتیں ارتفاع پاتی ہیں اور جو تسکین زندگی میں حاصل نہیں ہو سکتی وہ ادب کے ذریعے مل جاتی ہے۔ اس نظریہ پر رائخ نے یہ اعتراض کیا ہے کہ اگر بھوک بھی جبلتوں میں شامل ہے تو اس کا ارتفاع کس طرح ہوتا ہے؟ بھوکا آدمی کھانا نہیں کھائے گا تو مر جائے گا۔ کھانے کا کوئی بدل نہیں ہو سکتا۔ یہ جبلت نہیں بلکہ حیاتیاتی عمل ہے۔ اس کی تسکین بھی برہ راست ہونی چاہئے۔ اس کے بغیر بھی حیاتیاتی نظام کا عمل ٹھیک طرح جاری نہیں رہ سکتا۔ جنس کے ارتفاع کے بھی کوئی معنی نہیں۔ ارتفاع تو صرف وہ جبلتیں پا سکتی ہیں جن کے مظاہر کو فرائڈ نے (SEXUALITY POLYMORPHOUS) کہا ہے۔ اس ارتفاع کی گنجائش بھی اس وقت نکلتی ہے جب حیاتیاتی عمل کی حیثیت سے جنس کی براہ راست تسکین حاصل ہو چکی ہو، اس تسکین کا بدل کوئی نہیں۔ جبلتوں کا ارتفاع اسی تسکین کی بنیاد پر شروع ہوتا ہے۔ اس تسکین کے بغیر آدمی جو کام بھی کرے گا، اس کی حیثیت ارتفاع کی نہیں بلکہ رد عمل (REACTION FORMATION) کی ہوگی۔

    حیاتیاتی عوامل کے رک جانے سے جو اضطراب (STASIS ANXIETY) پیدا ہوتا ہے وہ ان سرگرمیوں سے ختم نہیں ہوتا جن کی حیثیت محض ردعمل کی ہو۔ ارتفاع کی حالت میں آدمی اپنے کام سے لطف لیتا ہے۔ ردعمل کی حالت میں یا تو کام بڑی مشکل سے ہوتا ہے یا آدمی ایک مجبوری کے عالم میں کام کرتا ہی چلا جاتا ہے۔ لیکن کام کرنے میں اسے کوئی مزا نہیں آتا۔

    رائخ کی اس تصریح کی بنیاد پر کہہ سکتے ہیں کہ ادب دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک تو ارتفاع کا، دوسرے ردعمل کا۔ لیکن ہمیں ادیبوں کی ذاتی زندگی کے متعلق ایسی تفاصیل معلوم نہیں جن کی رو سے فیصلہ کر سکیں کہ فلاں شاعر میں ارتفاع ہو رہا ہے اور فلاں شاعر میں رد عمل۔ ارتفاع کی مثال کے طورپر زیادہ سے زیادہ گیٹے کا نام لیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ سکون اور فنی تخلیق کے ذریعے حاصل ہونے والی خوشی کا بہت ذکر کرتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ گیٹے کی شخضیت میں خود فریبی اور روحانی چار سو بیسی کتنی تھی؟ اپنے روحانی سکون کا ڈھنڈورا پیٹنا ارتفاع کی علامت نہیں بلکہ یہ خود ردعمل کی کیفیت ہے۔

    بڑے شاعروں میں سے ایک بودلیر ایسا ہے جس نے خود تفصیل کے ساتھ بتایا ہے کہ وہ نظمیں کس طرح لکھتا تھا۔ اس کے لئے تخلیقی کام ایک عذاب جان تھا۔ وہ نظمیں لکھنے سے پیشتر پبلشر سے معاوضہ لے لیتا اور پیسے خرچ کر ڈالتا۔ دن رات کمرے میں بند پڑا رہتا۔ آخر جب کوئی چارہ نہ رہتا تو نظمیں لکھتا۔ کچھ اسی قسم کا حال ایڈگرایلن پوکا ہے۔ تیسری مثال مارسل پروست کی ہے جو یا تو بے کار لیٹا رہتا یا پھرمستقل اڑتالیس اڑتالیس گھنٹے سوئے بغیر لکھے چلا جاتا۔ ان لوگوں کا تخلیقی کام ردعمل کی قسم کا ہے۔ یہاں ایک ادبی سوال پیدا ہوتا ہے۔ کیا ارتفاع کی شاعری ردعمل کی شاعری سے قدروقیمت میں لازمی طور پر بہتر ہوگی؟ اگر بودیلیر کو پورا ارتفاع حاصل ہو جاتا تو کیا وہ اپنے معاشرے کے بارے میں ایسی گراں قدر باتیں کہہ سکتا جن کی بدولت اس کی شاعری کو پیغمبری کا رتبہ حاصل ہوا؟

    رائخ تو کہتا ہے کہ ایسے بیماروں کی بھی ایک سماجی قدروقیمت ہے، یہ لوگ سماجی حقیقت کا ایسا گہرا شعور رکھتے ہیں جو ظاہری طور پر صحتمند لوگوں کو حاصل نہیں ہوتا۔ بقول اجمل صاحب رائخ کی کتاب پڑھ کے تو یہ جی چاہتا ہے کہ ہم بھی (SCHIZOPHRENIC) ہوتے۔ تو مطلب یہ کہ اگر شاعری ارتفاع کی نہیں بلکہ رد عمل کی ہے تو بھی پڑھنے والوں کے لئے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ساری مصیبت شاعر کو اٹھانی پڑتی ہے۔ لیکن میرا سوال تو ان لوگوں سے ہے جو شاعری کو تسکین کا وسیلہ یا شخصیت کے ارتقا کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ وہ رد عمل والی شاعری کو ادب میں کیا درجہ دیں گے؟

    اچھا، ادب کے بارے میں ایک نظریہ تو یہ ہوا جس میں تخلیق جبلتوں کے ارتفاع کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور ادب زندگی کا قائم مقام رہ جاتا ہے۔ دوسرا نظریہ وہ ہے جس میں ادب کو خواب مترادف سمجھا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ خواب کیا ہوتا ہے؟ خوابوں کے متعلق ایک مقبول نظریہ تو یہ ہے کہ ان کے ذریعے محرومیوں کی تلافی ہوتی ہے۔ یعنی خواب میں بھی ارتفاع کی کوشش ہوتی ہے۔ چاہے یہ کوشش اتنی کامیاب نہ ہو جتنی فنی تخلیق۔ ارتفاع والے نظریہ پر تو میں ابھی بحث کر ہی چکا ہوں۔ خوابوں کے متعلق ایک دوسرا نظریہ ہے کہ وہ اپنے بارے میں علم حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہیں۔ لیکن یہ علم ہمیں براہ راست حاصل نہیں ہوتا بلکہ علامتوں کے ذریعے یعنی خواب لاشعور کے رجحانات کے درمیان سمجھوتے سے پیدا ہوتے ہیں۔ ایک تو اپنے آپ کو جاننے کی خواہش دوسرے نہ جاننے کی خواہش۔ پھر ان دونوں خواہشات کے اندر دو متضاد رجحانات ہوتے ہیں۔ جاننے میں لذت بھی ہے اور تکلیف بھی۔ اسی طرح نہ جاننے میں بھی ان دو باتوں سے سابقہ پڑتا ہے۔ اس لئے خواب ہو یا ادب دونوں لذتوں اور تکلیف کے تصادم اور آویزش سے پیدا ہوتے ہیں۔

    اگر لکھنے والے کے اندر نہ جاننے کی خواہش غالب ہے تو اسے اپنے تخلیقی کام میں یقینا زیادہ تکلیف ہوگی۔ لیکن چونکہ اس کے اندر اعتراف کی خواہش بھی ساتھ ساتھ کام کر رہی ہے اس لئے وہ لکھنے پر بھی مجبور ہوگا، جیسا میں نے پچھلے مضمون میں کہا تھا۔ ورڈز ورتھ نے ٹھیک اندازہ لگایا ہے۔ تخلیق کے دوران میں وہ درد پیدا ہوتا ہے جو پہلے کبھی نہ اٹھا تھا۔ ادب کے ذریعے لکھنے والے کو اپنے بارے میں علم تو حاصل ہوتا ہے لیکن اس کی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔ آرنلڈ نے کہا ہے کہ دیوتا نغمے کی بڑی زبردست قیمت وصول کرتے ہیں۔ وہ قیمت یہی درد ہے۔

    خواب (یا ادب) کے بارے میں ایک اور نظریہ ہے۔ خواب اعتراف کرنے کی خواہش سے پیدا ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آدمی اعتراف کیوں کرنا چاہتا ہے؟ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ اپنے آپ کو ذلیل کرنے یا اپنے آپ کو سزا دینے کے لئے۔ یہ خود اذیتی کا ایک مظہر ہوا۔ یعنی تخلیق میں آدمی کو جو مزہ آتا ہے وہ بڑے خوفناک قسم کی لذت ہے۔ یہاں آکے بات مضحکہ خیز سی ہو جاتی ہے۔ اسے چھوڑیئے۔ اعتراف کی خواہش کو تھیوڈور رائک نے ایک اور طرح سمجھا ہے۔ اعتراف کے ذریعے آدمی کسی تحقیقی یا خیالی واقعے کو تصور میں دہرا کر لطف اندوز ہونا چاہتا ہے۔ اس حد تک تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ ادب کی تخلیق کرنے سے آدمی کو تسکین ملے گی۔ لیکن ایک واقعے یا چند واقعات سے جذباتی طور پر ایسا چپک کے رہ جانا کہ ان کے حقیقی یا خیالی اعادے سے شدید لذت حاصل ہو، بذات خود ایک بیماری ہے۔ شخصیت کے ارتقا کا تو مطلب ہی یہ ہے کہ آدمی حقیقی یا خیالی ماضی پر غالب آئے اور آزادی حاصل کرے۔ اگر ادب اعتراف ہے اور اعتراف کے معنی ہیں ماضی کا اعادہ، تو فنی تخلیق کے ذریعے شخصیت کا ارتقا کس حد تک ممکن ہے؟

    یہاں آپ چھوٹی شاعری اور بڑی شاعری کے فرق کی طرف توجہ دلائیں گے۔ چھوٹا شاعر ایک وقتی تجربے سے مطمئن ہو جاتا ہے۔ اس کے لئے لمحاتی تسکین بہت ہوتی ہے۔ بڑا شاعر اپنے تجربات کی تنظیم کرتا ہے۔ اس لئے بڑی شاعری کے ذریعے شاعر کی شخصیت بھی منظم ہوگی اور نشوونما پائے گی۔ اس بات پر رچرڈز نے بڑا زور دیا ہے۔ ان کے خیال میں شاعری جتنی زیادہ جبلتوں کی تنظیم کرے گی اور یہ تنظیم جتنی اچھی ہوگی، شاعری بھی اتنی ہی بڑی ہوگی۔ رائخ نے بھی کہا ہے کہ وقتی خود آگاہی تو ذہنی بیماروں کو بھی حاصل ہو جاتی ہے۔ لیکن اس چیز کی موجودگی، یا شدت اتنی ضروری نہیں جتنی خود آگاہی کے ان ٹکڑوں کی تنظیم۔ اسی تنظیم کا نام شعور ہے۔ تو اگر کسی شخص کی شاعری میں تجربات کی تنظیم نظر آئے تو اس نقطہ نظر کےمطابق ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ اس کی شخصیت بھی اس حد تک تنظیم اور نشوونما پا چکی ہے۔

    شیلی کی تقلید میں رچرڈز نے بھی تنبیہ کر دی ہے کہ ایسے لوگوں کی ظاہری نہیں بلکہ باطنی زندگی دیکھئے، وہاں آپ کو پوری تنظیم ملے گی۔ یعنی اگر اس تنظیم کا اثر خارجی زندگی پر نہ پڑے تو بھی اس کی خوبی میں کوئی فرق نہیں۔ بلکہ رچرڈز نے دبی زبان سے یہ بھی کہا ہے کہ اچھی تنظیم وہی ہے جو خارجی عمل پر نہ اکسائے۔ پس اندر ہی اندر ساری جبلتیں ایک نقش کی شکل میں مرتب ہو جائیں۔ اس کے برخلاف رائخ نے سارا زور اسی بات پر صرف کیا ہے کہ اندرونی تنظیم اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ خارجی حقیقت سے ہم آہنگی نہ پیدا کر لے۔ اس ہم آہنگی میں مشکل یہ پیش آتی ہے کہ موجودہ معاشرہ استحصال اور احتساب کی بنیادوں پر قائم ہے، اس نے کردار اورعمل کا جو ڈھانچہ بنا رکھا ہے اس کے علاوہ کسی اور قسم کی تنظیم کا وہ روادار نہیں۔ اس لئے اگر آدمی اندرونی طور سے تنظیم پیدا کرے تو بھی یہ تنظیم خارجی دنیا سے متصادم ہوتے ہی ٹوٹنے لگتی ہے۔ اتنی بات تو رچرڈز نے بھی تسلیم کی ہے کہ دنیا ایسے لوگوں کی سخت مخالفت کرتی ہے لیکن ان کا خیال ہے کہ یہ تنظیم مخالفت کے باوجود برقرار رہ سکتی ہے۔

    رائخ نے بتایا ہے کہ اسے برقرار رکھنا بڑا مشکل کام ہے۔ خصوصا بڑے ادیبوں کے لئے، کیونکہ وہ ایسے رجحانات کو بھی قبول کر کے اپنے نظام میں شامل کرنا چاہتے ہیں جن سے معاشرہ خائف ہے۔ چونکہ بڑے ادیبوں کو ان دونوں چیزوں کے تصادم کا احساس شدید ہوتا ہے۔ اس لئے ان کی شخصیت میں انتشار پیدا ہونے کا خطرہ ہر وقت رہتا ہے۔ یہاں رائخ نے ویگز، ابسن، دوستو وسکی، نٹشے وغیرے بڑے فنکاروں کی مثالیں پیش کی ہیں جو اپنی تخلیقات کا شکار ہو گئے۔

    اس بحث کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ فن پارے میں تو ضرور تنظیم ہوگی لیکن یہ ضروری نہیں کہ یہ تنظیم فنکار کی شخصیت کا ایک مستقل حصہ بن جائے بلکہ زیادہ امکان تو اس بات کا ہے کہ تخلیق کے دوران میں اندرونی تنظیم کا اتنا زبردست تجربہ حاصل کر لینے کے بعد اس کی شخصیت اور بکھر جائے۔ جو لوگ فنی تخلیق کو شخصیت کے ارتقا کا ذریعہ سمجھتے ہیں وہ فن اور فنکار کو الگ کر کے نہیں دیکھ سکتے یا پھر جو خوبیاں فن پارے میں ہیں، انہیں فنکار کو بخشنا شروع کر دیتے ہیں۔ دوسری کمزوری ان لوگوں میں یہ ہے کہ وہ فن کی عزت تو کرتے ہیں مگر کسی اور مقصد کے حصول کا ذریعہ سمجھ کر۔ وہ فن کو نہیں دیکھتے بلکہ فن کی افادیت کو۔ وہ رائخ کی طرح یہ کہہ سکتے کہ خود آگاہی کسی اور مقصد کے حصول کا ذریعہ نہیں بلکہ ہمارے جسمانی نظام کا ایک حیاتیاتی عمل ہے۔ یعنی ہم ادب تخلیق کرتے ہیں تو کسی فائدے کے لئے نہیں، بلکہ ادب کی تخلیق ایک حیاتیاتی مجبوری ہے۔

    رچرڈز نے ادب کا ایک فائدہ اور بتایا ہے۔ ایک طرف تو ادب کے ذریعے جبلتیں تنظیم پاتی ہیں، دوسری طرف ادیب کی شخصیت کسی جبلت سے نہیں ڈرتی۔ اسے دبانے کی کوشش نہیں کرتی۔ ہر نئی جبلت کو قبول کرتی ہے اور اس کی خاطر اپنے اندرونی نظام کو بدل دیتی ہے۔ چونکہ ادیب کے اندر اس تنظیم کا سلسلہ برابر چلتا رہتا ہے۔ اس لئے اعصاب کا تناؤ دور ہوتا رہتا ہے اور اس عمل سے ایک آرام کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ ادب کی تخلیق کا یہ حیاتیاتی فائدہ ہے، جو ادیب کی شخضیت ہی کو نہیں بلکہ اس کے جسم کو بھی پہنچتا ہے۔ رائخ نے اپنی نفسیات کی بنیاد اعصاب کے عمل پر نہیں بلکہ ایک طبیعیاتی قوت پر رکھی ہے جس کا نام ہے ’’اورگون۔‘‘ اس کے نزدیک صحت مند آدمی وہ ہے جو اپنے اندر ’’اورگون‘‘ کی لہروں کے بہاؤ کو روکے نہیں، بیمار وہ ہے جس کے اندر ان لہروں کی گردش میں کمی آجائے۔ فنی تخلیق تو اس بات کی علامت ہے کہ آدمی کسی نہ کسی حد تک ان لہروں کو گردش کرنے کی آزادی دے رہا ہے۔ یہاں تک رائخ بھی رچرڈ کے خیال کی تائید کرے گا۔ لیکن اس سے آگے بڑھ کے اس نے یہ بھی بتایا ہے کہ ہر آدمی ’’اورگون‘‘ کی صرف مخصوص مقدار کو سہار سکتا ہے، یہ مقدار زیادہ ہوئی اور اس کے ذہنی اور جسمانی نظام میں خلل آیا۔

    بڑے فنکار چونکہ ’’اورگون‘‘ کو پوری جرأت کے ساتھ قبول کرتے ہیں۔ اس لئے انہیں اپنی اس ہمت سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ یہاں پھر رائخ نے ابسن اور نٹشے وغیرہ کی مثالیں پیش کی ہیں جنہیں ’’اورگون‘‘ کے احساس کی شدت نے پاگل کر دیا۔ غرض خالص حیاتیاتی نقطہ نظر سے بھی فنی تخلیق کو ہمیشہ اور ہر حالت میں سکون آور نہیں کہہ سکتے۔ یہاں بڑے ادیب اور چھوٹے ادیب کا فرق بھی کوئی معنی نہیں رکھتا۔ فنی تخلیق سے جتنا فائدہ یا نقصان چھوٹے ادیب کو پہنچ سکتاہے اتنا ہی بڑے ادیب کو بھی۔

    رچرڈز صاحب کو آج کل کے افادیت پرست زمانے میں ادب کی اہمیت ثابت کرنی تھی۔ اس لئے انہوں نے لکھنے والوں اور پڑھنے والوں دونوں کو یہ لالچ دیا ہے کہ میاں اس میں بڑے نفسیاتی اور حیاتیاتی فائدے ہیں۔ لیکن نقصان اور حیاتیات کی رو سے آپ تخلیق کے عمل میں خوفناک باتیں بھی جتنی چاہیں نکال سکتے ہیں۔ فنی تخلیق کو ماء اللحم سمجھنے والوں پر مجھے اعتراض یہ ہے کہ انہیں یہ عمل اس وقت گراں قدر معلوم ہوتا ہے جب اس میں کسی اور قسم کے فائدے کا پہلو نکلتا ہو۔ اس نقطہ نظر نے آج کل کی بہت سی مغربی تہذیب کو خراب کر رکھا ہے۔ اس لحاظ سے ادبی تنقید پریونگ کے اثرات اچھے نہیں ثابت ہوئے۔ حالانکہ ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ہم انیسویں صدی کی افادیت پرستی سے بہت آگے نکل آئے ہیں۔ لیکن بنیادی اعتبار سے ان کا رویہ بھی یہی ہے کہ ایک چیز کے وجود کا جواز کسی اور چیز کے نقطہ نظر سے ثابت کیا جائے۔ مثلا جنسی جبلت کا جواز یہ ہے کہ بچے پیدا ہوں۔ بچے پیدا ہونے کا جواز یہ ہے کہ نسل انسانی قائم رہے۔ رائخ پوچھتا ہے کہ نسل انسانی کیوں قائم رہے؟ اس کا جواز کیا ہے؟ ہاں یہاں آکے معاملہ ٹھپ ہو جاتا ہے یہی گھپلا ایسے لوگوں نے ادبی تنقید میں کیا ہے۔ ادب کا جواز یہ ہے کہ اس سے ہمیں فلاں فلاں قسم کے فائدے پہنچتے ہیں۔ اس سے اچھا رویہ تو قرون وسطی میں (ST-THOMAS AQUINAS) کا تھا۔ ان کے نزدیک فنی تخلیق کی صلاحیت ایک الوہی صلاحیت ہے۔ فنکار کے اندر خدا کی تخلیقی صفت کام کرتی ہے۔ اس لئے فن اپنا جواز خود ہے۔

    فن سے آدمی کو کیا فائدہ پہنچتا ہے، اس کا قطعی فیصلہ تو اسی وقت ہو سکتا ہے، جب ہم دو باتیں طے کر لیں۔ ایک تو یہ ہے کہ فنی تخلیق اور انسانی شعور کا آپس میں کیا رشتہ ہے۔ دوسرے یہ کہ شعور انسانی ارتقا کے کس درجے میں پیدا ہوا، اور اس کی حیاتیاتی ضرورت کیا ہے۔ میں تو حیاتیات جانتا نہیں لیکن رائخ اور ہربرٹ ریڈ دونوں کے یہاں میں نے یہی پڑھا ہے کہ سائنس داں اس سوال کا ابھی تک کوئی جواب نہیں دے سکے۔ البتہ رائخ نے اتنا ضرور کہا ہے کہ انسانی شعور تو الگ رہا، خود آگاہی اور نامیاتی جسم کا ایک فطری عمل ہے۔ یہاں نقصان اور فائدے کا کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا، یہ چیز تو کھانے پینے کی طرح ایک حیاتیاتی فعل ہے۔ یعنی اگر ہم فنی تخلیق کو عقلی طور سے بالکل نقصان دہ سمجھنے لگیں تو بھی فنی تخلیق کا کام ہم سے حیاتیاتی مجبوری کے ماتحت سرزد ہوتا رہے گا۔ جو آدمی سکون حاصل کرنے کے خیال سے شعر کہتا ہے۔ اس کی ذہنیت بلیک مارکٹ کرنے والوں کی ہے۔ درد اٹھانے کی ذمہ داری سے بھاگ کے سچا ادب تخلیق نہیں ہوتا۔ کیا شیکسپئر نے اپنے ڈرامے اس لالچ میں لکھے تھے کہ اگر میں نے دس بیس سال یہی کام جاری رکھا تو میری شخصیت بڑی منظم اور مربوط بن جائے گی؟ نقاد اور سائنس داں جو چاہے سو کہا کریں، فنکار کو کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ مجھے سکون مل رہا ہے یا تکلیف پہنچ رہی ہے۔ وہ ادب کی تخلیق نہیں کرتا، ادب تو اس کے اندر سے رستا ہے۔ سو باتوں کی ایک بات فراق صاحب نے کہہ دی ہے۔

    میاں رو پیٹ کر بیٹھے ہیں سو بار ان فریبوں کو

    یہ ہم سے پوچھنے آئے ہو غم کیا تھا خوشی کیا تھی

    مأخذ:

    مجموعہ محمد حسن عسکری (Pg. 205)

    • مصنف: محمد حسن عسکری
      • ناشر: سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور
      • سن اشاعت: 2008

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے